Sunday, March 31, 2024

شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اعتکاف کے موقع پر ایسے لوگوں کو مساجد سے دور رکھا جائے!

 شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اعتکاف کے موقع پر ایسے لوگوں کو مساجد سے دور رکھا جائے!


دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی کا ملت اسلامیہ کے نام ایک اہم پیغام!


بنگلور، 31؍ مارچ (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے دفتر سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں شکیل بن حنیف کے بڑھتے ہوئے فتنے کو مد نظر رکھتے ہوئے متولیان مساجد، ائمہ کرام، علماء عظام اور دیگر مسلمانانِ ہند کے نام ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مدظلہ نے ایک بہت ہی اہم پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت وطن عزیز میں شکیل بن حنیف کا فتنہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، جو مہدویت اور مسیحیت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے، اور اسکے پیروکار بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جو دین سے بلکل دور ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ شکیلی اپنی پوری سرگرمی کے ساتھ خفیہ انداز میں تحریک چلاتے ہیں اور مسلمانوں کے علاقہ میں ہی رہ کر نوجوانوں پر محنت کرتے ہیں، بظاہر اپنے کو بڑے ہی دیندار باور کراتے ہوئے اس طرح گمراہی پھیلاتے ہیں کہ ہم کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوپاتی۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ چونکہ اب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے، فتنہئ شکیل بن حنیف کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے بعض معتمد احباب کی رپورٹ کے مطابق شکیلی انجان جگہوں میں اعتکاف کے نام پر مساجد میں مقیم ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی ذہن سازی کرکے اپنی گمراہی پھیلانا شروع کردیتے۔ انہوں نے فرمایا کہ چونکہ رمضان کے آخری عشرے میں مسلمان مساجد میں اعتکاف کرتے ہیں، لہٰذا اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شکیلیوں کی ایک بڑی تعداد مختلف مساجد میں اعتکاف کے نام پر مقیم ہوجاتی ہے، انکی ظاہری دینداری سے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ اپنے فتنے کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں، لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو شکیل بن حنیف کے مہدی و مسیح ہونے پر قائل کرلیتے ہیں۔ انہیں حالات کے پیش نظر متولیان مساجد، ائمہ کرام، علماء عظام اور جماعت کے ذمہ داران سے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم نے اپیل کی کہ وہ کسی بھی انجان آدمی کو اپنی مسجد میں اعتکاف کی اجازت نہ دیں، بلکہ پوری تحقیق اور شناخت نامہ دیکھ کر ہی اجازت دیں۔ مولانا نے فرمایا کہ نبی کریمؐ نے قرب قیامت حضرت عیسٰی کے اور حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد کی بشارت دی ہے۔اور اس سلسلے میں خاص طور پر امام مہدی کا ظہور، حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول اور دجال کے خروج کے متعلق متعدد احادیث میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ جس سے ہمارے لوگ نہ واقف ہیں اور اسی ناواقفیت کی وجہ سے یہ ان جھوٹے مدعیان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ لہٰذا علماء کرام سے گزارش ہیکہ اور یہ انکی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اہم موضوعات پر اپنے بیانات میں روشنی ڈالیں، جمعہ کے خطبات، اپنی مجالس وغیرہ میں اسکو اپنی گفتگو کا حصہ بنائیں اور عوام کو صحیح عقیدہ سمجھائیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس سلسلے میں متعدد رسالے دارالعلوم دیوبند سے شائع ہوئے ہیں، مولانا شاہ عالم صاحب گورکھپوری اور مولانا اسعد قاسم صاحب سنبھلی وغیرہ کے رسالے نیز دارالعلوم دیوبند کا تفصیلی فتویٰ بھی موجود ہے، انہیں حاصل کرکے مطالعہ کریں اور ان موضوعات کو عوام الناس کے سامنے بیان کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ مہدویت و مسیحیت کا جھوٹا دعویدار شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں، لہٰذا امت مسلمہ اس فتنہ سے ہوشیار رہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت ہندوستان میں یہ فتنہ بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے اور بڑی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں، اس لئے بیداری کی سخت ضرورت ہے۔



#Press_Release #News #Ramadan #ShakeelBinHaneef #Itikaaf #MTIH #TIMS



Wednesday, March 27, 2024

جنگ کے سائے تلے رمضان گزار رہے اہل غزہ کا پیغام، درد و الم کی لرزہ خیز داستان!

 جنگ کے سائے تلے رمضان گزار رہے اہل غزہ کا پیغام، درد و الم کی لرزہ خیز داستان! 

(غزہ کے ایک بھائی کا پیغام امت مسلمہ کے نام) 


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


میں دل کو چیر کے رکھ دوں یہ ایک صورت ہے 

بیاں تو ہو نہیں سکتی جو اپنی حالت ہے


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

امید ہیکہ آپ سب بخیر وعافیت سے ہونگے، بندہ بھی خیریت سے ہے..... لمبا عرصہ گزر گیا آپ کی خیریت معلوم کئے ہوئے..... خط لکھنے کیلئے سیاہی میسر نہ تھی تو خون سے ہی خط لکھ رہا ہوں، ویسے بھی آج کل غزہ میں خون پانی کی طرح بہتا ہے..... شاید آپ بھی فلسطین غزہ کی موجودہ صورتحال سے واقف ہونگے، اگر نہیں تو غزہ کے درد و الم کی لرزہ خیز داستان سے ضرور واقفیت حاصل کیجئے اور اپنے کاموں میں مصروف رہئے، جیسے عالم اسلام کے بہادر حکمران ہیں، ویسے بھی بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین مومنوں کا مسئلہ ہے..... خیر..... اللہ کرے کہ آپ اور آپ کے اہل خانہ خیریت سے ہونگے۔


الحمدللہ رمضان المبارک کی آمد ہو چکی ہے اور پہلے عشرہ گزر بھی گیا ہے..... رمضان کا استقبال آپ نے بڑے اچھے طریقے سے کیا ہوگا؟ ہم لوگوں نے بھی اسکا شاندار استقبال کیا..... ویسے بھی پورا غزہ مسلسل اسرائیلی بمباریوں کی وجہ سے ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، ملبوں پر ہم لوگ بسیرا کررہے ہیں، وہ بھی بے چراغ..... ہر طرف تباہی کی خاک، درو بام کی راکھ اور بارودی دھوئیں کا راج ہے..... لہٰذا بے چراغ اس غزہ میں رمضان المبارک کی رحمتوں نے چراغاں کردیا ہے..... پوری ملت اسلامیہ پر رمضان المبارک کی رحمتیں سایہ فگن ہیں...... ہم اہل غزہ بھی جنگ کے سائے تلے، بموں و توپوں کے دہانوں پر اور لاشوں کے درمیان رمضان المبارک کی رحمتیں حاصل کررہے ہیں۔


آپ کے گھر رمضان المبارک میں پڑوسیوں کی طرف سے لذیذ کھانے آتے ہونگے جسے کھا کر آپ کے بچے چین کی نیند سوتے ہونگے..... غزہ کے پڑوسی بھی ہمارے یہاں بڑے بڑے میزائل اور بم گولے بھیجتے ہیں، جسے کھا کر ہمارے بچے موت کی نیند سوجاتے ہیں..... اس بار گرمی کے موسم میں رمضان آیا ہے، آپ گھر والوں کو ٹھنڈا پانی اور افطار میں شربت ضرور پلاتے ہونگے..... ہمارے یہاں گرمی کچھ زیادہ ہی ہے شاید بمباری کی وجہ سے آگ اور اسکے دھوئیں نے موسم کو گرم کر رکھا ہے..... لیکن باوجود اسکے پورے غزہ میں بوڑھے سے لیکر نومولود بچے تک بھی روزہ رکھ رہے ہیں، لیکن صرف سحری اور افطاری کے ثواب سے محروم ہیں..... بڑوں کا تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن بچے ایک قطرہ پانی، دودھ اور ایک ٹکرے روٹی کیلئے شور کرتے ہیں..... لیکن دو تین دن بعد پتہ نہیں وہ خود بہ خود خاموش ہوجاتے ہیں اور دوبارہ شور شرابا تو دور سانس تک نہیں لیتے، لوگ انہیں شہید کہتے ہیں، شاید جام شہادت پی کر انکی بھوک مٹ جاتی ہوگی، گزشتہ چھ مہینوں سے یہی ہوتا آرہا ہے۔


سنا ہیکہ اب رمضان المبارک میں آپ کی مسجدوں میں اے سی اور شاندار لائٹیں وغیرہ بھی لگا دی گئی ہیں تاکہ سکون سے تراویح اور نمازیں ادا کرسکیں..... ہم لوگ بھی الحمد للہ ملبے کے اپر سورج اور چاند کی روشنی میں نماز اور تراویح کا اہتمام کررہے ہیں..... بس کبھی کبھار سحر وافطار اور صلوٰۃ و تراویح کے دوران بمباری ہوجاتی، جس سے روشنائی میں اضافہ ہوجاتا اور کچھ بھوکے جام شہادت پینے لگتے ہیں.....  تہجد کی نماز کا بھی اہتمام ہورہا ہے اور خوشی کی بات ہیکہ رمضان کے اس مبارک مہینے میں نماز تراویح کے اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں تہجد کے بعد بھی ایک جماعت قائم ہوتی ہے..... بس فرق اتنا ہیکہ اس میں رکوع سجدہ نہیں کیا جاتا اور سامنے کچھ لوگ آنکھ بند کئے ہوئے لیٹے رہتے ہیں..... ٹھیک اسی طرح سے جو گزشتہ چھ مہینوں سے پنچ وقتہ ہر نماز کے بعد ایک اور جماعت قائم ہوتی چلی آرہی ہے، اور باقی سب خیریت ہے..... نصف رمضان مکمل ہوتے ہوتے آخری عشرے کے سلسلے میں ایک مسئلہ درپیش ہے کہ اعتکاف کہاں کریں؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا، کیونکہ ساری مسجدیں شہید ہوچکی ہیں..... بمباری کی وجہ سے نمازوں کی جگہ اکثر بدلتی رہتی ہے اور معتکف کو ایک جگہ کیسے اور کہاں بٹھائیں یہ مسئلہ پیش آرہا ہے..... ویسے علاقے کے کچھ لوگ کہ رہے تھے کہ اس بار وہ اپنی اپنی قبروں میں اعتکاف میں بیٹھیں گے، ان میں سے کچھ نے پہلے عشرے اور کچھ نے دوسرے عشرے سے ہی اس پر عمل کرنا شروع کردیا ہے..... پتہ نہیں بابا جان نے کوئی خواب دیکھا ہے کہ اس بار ہمارا پورا گھرانہ بلکہ پورا غزہ آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا..... حالات بھی کچھ ویسے ہی معلوم ہورہے ہیں۔


آپ سے ایک بات یہ معلوم کرنی تھی کہ چونکہ آدھا رمضان گزرنے کے قریب ہے تو کیا اس رمضان میں بھی آپ کی مسجدوں سے نمازیوں کی کمی ہورہی ہے اور کیا بازاریں آباد ہورہی ہیں؟..... ہمارے غزہ میں بھی ایسے ہی ہورہا ہے.....نمازی دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں، لیکن ہمارے یہاں بازار نہیں بلکہ قبرستان نامی کئی علاقے بن گئے ہیں جو مسلسل آباد ہوتے جارہے ہیں..... اللہ کا کرم ہیکہ یہاں موجود تمام قبرستانوں میں ہمارا حصہ موجود ہے اور ہمارے خاندان کے کئی افراد کو چھ چھ فٹ کی جگہ ملی ہے اور وہ وہیں آرام کررہے ہیں..... چھوٹے بھائی اور چھوٹی بہن رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں ایک جگہ کھیل رہے تھے کہ اچانک انکے پڑوس میں ایک میزائل آ گرا، جس کی وجہ سے بھائی اور بہن کو تھوڑی سی چھوٹ آگئی اور ان کے جسم کے ٹکڑے ہوگئے..... ان کو بھی پڑوس کے قبرستان میں جگہ ملی ہے، ویسے بھی غزہ کے ملبے پر اور مسلمانوں کے دلوں میں انکے لئے جگہ کی کمی تھی..... اور عالم اسلام کی بے حسی پر وہ دونوں بار بار سوالات کرتے تھے، اب وہ آرام کی نیند سو رہے ہیں، بس فکر ہیکہ وہ اپنے قبر میں باری تعالیٰ سے عالم اسلام اور مسلمانوں کی شکایت نہ کررہے ہوں!


ایک خوشی کی بات آپ کو بتانی تھی کہ بڑی بہن حمل سے تھیں، اور کل تراویح کے بعد ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی، جسکا نام فاطمہ الزہراء رکھا..... بہن اور نومولود ننھی سی پری دونوں بھی بنا سحری کے آج روزے سے تھیں، ان کے افطار کیلئے دن بھر کھانا اور دودھ تلاش کررہا تھا..... جب مغرب تک کچھ نہیں ملا تو خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا..... جب گھر میں بہن اور بچی فاطمہ کو تلاش کرنے لگا تو امی نے بتایا کہ عصر بعد ایک چھوٹا سا بم تیری بہن کے کمرے میں آ گرا تھا اور بہت زور کی آواز آئی..... اسکے بعد عزرائیل نامی ایک شخص آیا وہ تمہاری بہن اور بھانجی فاطمہ دنوں کو اپنے ساتھ لے گیا، کہ رہا تھا کہ فاطمہ اور اسکی ماں کو رسول اللہﷺ نے دعوت دی ہے، یہ حبیبﷺ کے دسترخوان پر افطار کریں گیں..... ویسے بھی ہمارے پاس روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے..... آپ کے بھائی بہن اور بچے کیسے ہیں ضرور لکھئے گا۔


رمضان المبارک میں نماز تراویح کے بعد آپ کی مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کا اہتمام ہوتا ہوگا، اگر ہوسکے تو اس حدیث کی تشریح تحریر کردینا جس میں کہا گیا ہیکہ ”مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں، کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم اسکا درد محسوس کرتا ہے“۔ کیونکہ اہل غزہ کے ساتھ امت مسلمہ کا سلوک ایک جسم کی طرح تو نہیں لگتا..... اور ویسے بھی سنا ہیکہ رمضان سے پہلے سلامتی کونسل میں اسلامی ممالک کے کچھ لوگوں نے غزہ کی حالات پر اظہار افسوس کیا تھا..... اگر ان تک میری بات پہنچا سکو تو انکا شکریہ ادا کرنا اور کہنا کہ اس طرح کی رسموں میں خواہ مخواہ وقت برباد نہ کریں..... کیونکہ اقدامات کے بجائے ان مذمتی قرارداد کا کیا فائدہ؟..... ویسے بھی گزشتہ چھ مہینے سے تاحال سلامتی کونسل اور اسلامی ممالک کے ضمیر کی نیند پوری طرح سلامت ہے..... دنیا بس تماشا دیکھنا جانتی ہے اور سمجھتی ہیکہ غزہ میں موت و حیات کی کشمکش جاری ہے، مگر ہم لوگ ہر قیمت اور ہر صورت زندہ ہیں، مردہ تو آپ لاچار دنیا والے ہیں..... ہماری مسجد کے اسپیکر سے یہ اعلان ہوچکا ہیکہ اے اللہ! اب صرف تو ہی ہمارا مددگار ہے۔ 


بابا کہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہماری اور ہماری نسلوں کی جانیں قربان ہیں، لیکن میرے ایک سوال کا جواب آج تک نہیں مل سکا..... اگر آپ بتا سکیں تو ضرور لکھ بھیجنا، کہ مسجد اقصیٰ کیا صرف فلسطین اور اہل غزہ کا ہی قبلہ اول اور حرم ہے؟..... نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان جس میں حکم دیا گیا ہے کہ حرم اقصیٰ تک پہنچنے کی کوشش کریں، اگر نہ پہنچ سکیں تو مسجد اقصیٰ کے چراغ جلانے کے لیے تیل بھجوانے کا اہتمام ضرور کریں.....  لیکن حضور اکرمﷺ کے فرمان کے باوجود مسجد اقصیٰ کو روشن اور آباد رکھنے کے لیے تیل بھجوانا تو دور مسلمان اسکا تذکرہ تک کیوں نہیں کررہے اور آج تیل اور تیل کی پیداوار سے چلنے والی اسلامی دنیا کیونکر مسجد اقصیٰ کے چراغ کو بجھانے والوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے؟..... کئی دنوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے خون جگر سے یہ خط لکھ رہا ہوں..... اس دوران بابا اور امی جان بھی میزائل کا شکار ہوگئے، شاید انہیں دوسرے عشرے میں ہی اعتکاف میں بیٹھنا تھا، کل ہی انکی نماز جنازہ کے ذریعے اعزاز کیا گیا ہے..... مجھے بھی کچھ معمولی سی چھوٹ لگی ہے، ایک ہاتھ اور پیر ضائع ہوچکا ہے، سر سے مسلسل خون جاری ہے لیکن سیائی کا کام کررہی ہے..... دوائی یا دواخانہ کچھ موجود نہیں ہے..... ویسے بھی خط طویل ہوتا جارہا ہے اور وقت بھی کافی ہوگیا، سانسیں بھی رکنے کو کہ رہی ہیں..... اپنی خیریت کے ساتھ میرے سوالات کے جوابات ضرور لکھنا، اگر زندہ رہا تو ٹھیک ہے یا اگر اعتکاف کیلئے مجھے بھی قبرستان جانا پڑ گیا تو روز محشر ملاقات ہوگی..... دعاؤں کا اہتمام ضرور کرنا، مسجد اقصیٰ اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنا اور دنیا والوں سے اتنا ضرور کہنا کہ اللہ اور رسول اللہؐ کے حضور مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ انکے اس سلوک کا جواب دینا ہوگا..... روز محشر مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین و غزہ انکا دامن نہیں چھوڑے گی..... سنا تھا کہ ماہ مبارک میں اللہ کے فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، فرشتے نصرت لے لے کر آتے ہیں، شاید فرشتوں کی آمد شروع ہوچکی ہے..... کہیں یہ عزرائیل علیہ السلام تو نہیں؟..... کفر کی رات رخصت ہورہی ہے..... ایمان کا سورج چڑھتا جا رہا ہے..... زخم سے خون کے فوارے نکل رہے ہیں..... سانسیں پھول رہی ہیں..... بس اللہ سے ملاقات کا وقت آچکا ہے..... سلامت ہو آپ سب پر، پر سکون رہنا.....اَشْہَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ!


لاشوں کے شہر غزہ سے آپ کا بھائی


(گرچہ یہ ایک تصوراتی خط ہے لیکن اہل غزہ کے معصوم مظلوموں کی فریاد کی ترجمانی اور عکاسی کرتی ہے، اور اگر کوئی غزہ کا مظلوم اپنا قلم اٹھاتا تو شاید اپنا درد دل انہیں الفاظ میں بیان کرتا!)

__________________________


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٦؍ رمضان المبارک ١٤٤٥ھ

مطابق 27؍ مارچ 2024ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


Monday, March 11, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”جلسۂ استقبال رمضان“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!

 ماہ رمضان المبارک عبادت و ریاضت میں گزاریں اور ماہ مقدس میں اہل فلسطین کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”جلسۂ استقبال رمضان“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!






بنگلور، 11؍ مارچ (پریس ریلیز): ماہ مقدس رمضان المبارک کی آمد کے پیش نظر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مسجد معراج، عمر باغ لے آؤٹ، بنگلور میں منعقد ایک عظیم الشان ”جلسۂ استقبال رمضان“ سے صدارتی و کلیدی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل کیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے۔ مولانا نے فرمایا اس ماہ مبارک میں ایسے انداز میں عبادت کو فرض کے طور پر متعین فرما دیا گیا ہے کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی خاص طریقہ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے، ایسی خاص طریقہ کی عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے، جسے اس ماہ میں فرض فرمادیا گیا ہے، روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے اور ثواب کا حقدار بن سکتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارا رمضان پرسکون ماحول میں آرہا ہے لیکن جنگ کے سائے میں فلسطین و غزہ میں رمضان کے مہینے کا آغاز ہوا ہے، لیکن باوجود اسکے کہ انکے پاس کھانے اور پینے تک کو کچھ نہیں ہے لیکن فلسطین میں خواتین، مردوں اور بچوں نے بابرکت مہینے کا بھرپور انداز میں استقبال کیا ہے، اور وہ اسکا مکمل احترام بھی کریں گے۔ضرورت اس بات کی ہیکہ ہمیں بھی رمضان المبارک کا مکمل احترام کرنا چاہئے اور اپنے اوقات عبادت و ریاضت میں گزارنی چاہیے۔ ساتھ میں رمضان المبارک کی بابرکت ایام میں ہمیں کم از کم اپنے بھائیوں اہل فلسطین و غزہ کیلئے دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ”جلسۂ استقبال رمضان“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے معاون خاص حافظ محمد آصف صاحب کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جس کے بعد مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے مرکز کا مختصر تعارف اور استقبالیہ پیش کیا۔ جبکہ مسجد ہذا کے ذمہ داران بالخصوص صدر مجاہد پاشاہ، متولی مبارک پاشاہ، سکریٹری فیاض اللہ، خازن محمد سمیع اللہ، لیگل ایڈوائزر اشفاق اللہ، مرکز کے ارکان، عمائدین شہر سمیت لوگوں کا جمع غفیر شریک اجلاس تھا۔ اس موقع پر سرپرست مرکز حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اجلاس کے اختتام سے قبل حافظ محمد آصف صاحب نے حضرت والا کا، جملہ ذمہ داران مسجد و حاضرین مجلس کا شکریہ ادا کیا۔ اور حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی دعا سے یہ عظیم الشان ”جلسۂ استقبال رمضان“ اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Ramzan #RamzanSeries #RamzanSpecial #MTIH #TIMS


Tuesday, March 5, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان”تحفظ ایمان و اصلاح معاشرہ کانفرنس“ سے مفتی یوسف تاؤلی کا خطاب!

 ایمان کی حفاظت اور صالح معاشرے کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے! 


مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان”تحفظ ایمان و اصلاح معاشرہ کانفرنس“ سے مفتی یوسف تاؤلی کا خطاب!








بنگلور، 04؍ مارچ (پریس ریلیز): معاشرے میں بڑھتے ارتدادی فتنوں اور برائیوں کی روک تھام کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مسجد رضوان، جے پی نگر، بنگلور میں منعقد ایک عظیم الشان”تحفظ ایمان و اصلاح معاشرہ کانفرنس“ سے صدارتی و کلیدی خطاب کرتے ہوئے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی محمد یوسف تاؤلی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان سب بڑی دولت و نعمت ہے اور ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے، جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے۔ اس لیے ہمیں سب زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین ہیں، مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریات دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اجمالاً ایمان لائے ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ واضح رہے کہ دین و شریعت کے کسی حکم کو ہلکا سمجھنا، اس کا مذاق اڑانا کفر ہے، جانتے بوجھتے ایسا کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اور اس پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح (شادی شدہ ہونے کی صورت میں) لازم ہوجاتی ہے۔مولانا نے تحفظ ایمان پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ایمان مفصل میں اسلام کے ان بنیادی عقائد کا ذکر ہے جن کی صراحت قرآن مجید یا احادیث مبارکہ میں ہے، اور ایمان مجمل میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر ایمان اور اس کے تمام احکام کو بدل و جان تسلیم کرنے کا اقرار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے ہر وقت فکر کرنی چاہئے، نفس و شیطان کے دھوکوں اور وسوسوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرآن و سنت کی رو سے اللہ کے احکام اور شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی اور اس کی نافرمانی گناہ کا سبب، رحمت خداوندی سے دوری اور بلاشبہ پروردگار عالم کی ناراضی کا بنیادی سبب ہے۔ چنانچہ ہر وہ کام جو شریعت کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف ہو، وہ گناہ کہلاتا ہے، اس سے ہمیں بچنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہر مسلمان مرد وعورت کی ذمہ داری ہے کہ ایمان وعقیدہ کی درستگی کے ساتھ ساتھ خود بھی نیک اعمال کا خوگر ہو، برائیوں سے پرہیز کرے اور دوسروں کو بھی صالح بنانے کی کوشش کرے، اچھائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی فکر اور جد و جہد کرتے ہوئے صالح معاشرے کی تشکیل دیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ایمان کی حفاظت اور صالح معاشرے کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اور اسی کی تکمیل سے ہم دونوں جہاں میں کامیاب حاصل کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ”تحفظ ایمان و اصلاح معاشرہ کانفرنس“مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مدرسہ دارالتوحید اعلیٰ ہلی بنگلور کے ناظم مفتی عبد الرحمٰن قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جس کے بعد مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے مرکز کا مختصر تعارف اور استقبالیہ پیش کیا۔ جبکہ مسجد ہذا کے ذمہ داران، مرکز کے ارکان، عمائدین شہر سمیت لوگوں کا جمع غفیر شریک اجلاس تھا۔ اس موقع پر محدث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی محمد یوسف تاؤلی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ کانفرنس کے اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان کے والد گرامی حضرت مولانا محمد ریاض الدین مظاہری نے صدر اجلاس حضرت مفتی یوسف تاؤلی، مہمان خصوصی حافظ محمد فیاض اور صدر مسجد ہذا جناب عبد الرحیم صاحبان کی شال پوشی فرمائی، جس کے بعد مرکز کے ڈائریکٹر نے حضرت والا کا، جملہ ذمہ داران مسجد و حاضرین مجلس کا شکریہ ادا کیا۔ اور حضرت مفتی محمد یوسف تاؤلی صاحب کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ ایمان و اصلاح معاشرہ کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #TahaffuzeImaan #IslaheMuashira #YusuTawoli #MTIH #TIMS


Friday, March 1, 2024

شہر بنگلورو کے اہل مساجد اور سفراء کرام سے حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی چند گزارشات!

 شہر بنگلورو کے اہل مساجد اور سفراء کرام سے حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی چند گزارشات!




رمضان کا مبارک مہینہ عنقریب شروع ہو رہا ہے۔ اس مبارک مہینے میں ملک بھر کے سفراء اپنے اپنے مدارس کا چندہ اکٹھا کرنے بنگلور کا رخ کرتے ہیں۔ سال گزشتہ میں ہوئے چند تلخ تجربات کی بنیاد پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر خادم القرآن حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب دامت برکاتہم نے اہل مساجد اور سفرائے کرام کو چند ضروری ہدایات جاری کی ہیں۔ انہوں نے ملک بھر سے آنے والے سفرائے کرام کا شہریان بنگلور کی طرف سے استقبال کرتے ہوئے کہا کہ آپ ان دینی مدارس کے نمائندے ہیں، جن کو مسلم سماج میں اسلام کے قلعے قرار دیا جاتا ہے۔ ان مدارس کو بڑی عظمت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اہل مدارس کے لئے رمضان المبارک کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مدارس کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ رمضان المبارک کے چندہ سے پورا ہوتا ہے۔ لہٰذا مقامی احباب اور ذمہ دارانِ مساجد اور عمائدین کے لئے یہ ضروری ہے کہ سفرائے کرام کا استقبال کریں اور ان کا ہر ممکن تعاون بھی کریں۔ اس ضمن میں:


(1) ذمہ دارانِ مساجد سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اپنی مسجد میں اعلان دینے کی تاریخ پہلے ہی سے طے کر کے اس کی تشہیر کر دیں۔ آپ کی مسجد میں کتنے اعلانات کی اجازت دی جا سکتی ہے، اس حساب سے آپ مدارس کا معیار طے کریں۔ اس معیار پر اترنے والے مدارس کے دستاویزات کا مطالعہ کر کے اعلان کی اجازت مرحمت فرمادیں۔


(2) سفرائے کرام سے گزارش ہے کہ وہ جہاں بھی جائیں وہاں کے سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ ضرور لیں۔ نیز ان کے ساتھ اپنے اداروں کی نسبت ہے۔ متعلقہ ادارہ کے نمائندہ کی غلط حرکت کا اثر براہ راست ادارہ اور ادارے کے ذمہ داروں پر پڑتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی قسم کی غیر شرعی حرکت سے مکمل پر ہیز کریں اور ادارہ کے وقار کو مجروح ہونے نہ دیں۔


(3) سفرائے کرام کا یہ مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ جب مساجد میں اعلان کی اجازت دینے کیلئے بلائیں تو اس موقع پر زور زبردستی اور طاقت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھیں۔ گروپ بندی کے ذریعہ دوسروں پر حاوی ہونے اور غالب آنے کی کوشش ہر گز نہ کریں۔ اسی طرح کسی مسجد میں اعلان نہ ملنے کی صورت میں ذمہ داروں سے نہ الجھیں اور نہ ہی انہیں برا بھلا کہیں، بلکہ اپنا مقدر سمجھ کر دوسری جگہ کوشش میں لگ جائیں۔


(4) یہ شکایت مستقل سننے میں آرہی ہے کہ چند سفراء، روزہ ترک کر دیتے ہیں، نمازوں اور جماعت کے اہتمام میں غفلت برتتے ہیں، تراویح کا تو اہتمام ہی نہیں کرتے۔ اسی طرح جہاں مجموعی قیام اور طعام کا نظم ہوتا ہے ان منتظمین کے احسان مند اور انکے شکر گزار ہیں۔ وہاں کے اصولوں اور شرائط و ضوابط کی پابندی کریں۔ پاکی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور واپسی کے موقع پر ذمہ داروں کے شکریہ کا اہتمام کریں۔


(5) اس کے علاوہ راتوں میں محلوں، گلیوں میں گھومنے پھرنے سے پر ہیز کریں۔ گزشتہ سالوں میں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ سفرائے کرام کو گھیر کر رسید بکس سمیت ان سے ساری رقم چھین لی گئی ہیں۔ خدانخواستہ اگر پولیس روک کر تحقیق کرے تو اپنی شناخت کے مکمل دستاویزات اپنے پاس ہونا لازمی ہے۔


(6) سفراء کرام اگر شہر میں دو پہیوں والی گاڑی استعمال کر رہے ہیں تو ٹرافک قوانین کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے سواری کا استعمال کریں۔


(7) بعض جگہ سے یہ شکایت بھی ملی ہیکہ رسید لکھنے کے موقع پر نیچے کاربن نہیں ہوتا، لہٰذا رسید لکھنے سے قبل رسید کے نیچے کاربن دیکھ لیا کریں۔خدانخواستہ غلطی یا بھول سے بھی ایسا ہوجائے تو سامنے والے کی غلط فہمی دور کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔


(8) اسی طرح بعض جگہ چادر میں رقم شمار کرنے سے پہلے کچھ رقم اخراجات کے نام پر اٹھا لی جاتی ہے جو بلکل غلط ہے، لہٰذا کل رقم جوڑ کر ہی رسید کاٹی جائے۔


(9) اسی طرح بعض سفراء حضرات دوسروں کے تصدیق ناموں میں کتربیونت کرکے کانٹ چھانٹ کر اسکا غلط استعمال کرتے ہیں اور وہ بھی پکڑے جاتے ہیں، ایسے موقع پر ذمہ داران مساجد کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہوتا ہے- نیز تصدیق ناموں کے غلط استعمال پر قانون چارہ جوئی بھی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا سفراء کرام ان تمام باتوں کا خاص خیال رکھیں۔


(10) آن لائن اسکینر (Scanner) سے رقم دینے والے احباب سب سے پہلے یہ معلوم کرلیں کہ اسکینر ادارے کے نام پر ہے یا کسی شخص کے نام پر ہے۔ نیز رقم ادا کرنے کے بعد اسکرین شاٹ دیکھا کر اسکی رسید ضرور حاصل کریں۔


(11) گزشتہ چند سالوں میں کافی لوگ جعلی چندہ کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے گئے، مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی مسلمانوں جیسا حلیہ بناکر چندہ کرتے ہوئے پکڑے گئے، لہٰذا چندہ دہندگان کی یہ ذمہ داری ہیکہ وہ زکوۃ اور عطیات دینے سے قبل مکمل تحقیق کریں۔ اس کیلئے بہترین ذریعہ امام مسجد اور شہر کے علماء و دینی ادارے اور تنظیمیں ہوسکتے ہیں۔


(12) اہل مساجد کو چاہیے کہ وہ سفراء کرام کا مکمل احترام کریں، مدارس دین اسلام کے قلعے ہیں، اسکی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ کسی فرد کی غلطی سے پوری جماعت کو شک و شبہات کی نگاہ سے دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ مستحق مدراس کا مسلمان بڑھ چڑھ کر تعاون کریں۔


( نوٹ: اہل مساجد سے گزارش ہیکہ اسکا پرنٹ نکال کر مساجد کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کریں۔)

( Note: Ahle Masajid Se Guzarish Hai Ke Iska Printout Nikal Ka Masajid Ke Notice Board Per Lagayain)


المشتھر : مرکز تحفظ اسلام ہند


#Ramzan #Safeer #Madrasa #ArabicCollege #IftikharAhmedQasmi #Masjid #Donation #MTIH #TIMS