جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو رائے دینا کیوں ضروری؟
✍️ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ
(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
وقف ترمیمی بل 2024ء اپنے مشمولات کے اعتبار سے خطرناک اور نقصاندہ ہے، 1995ء میں بنائے گئے وقف ایکٹ میں تبدیلی اور ترمیم کے نام پر لائے گئے اس بل میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں ان کے پیش نظر یہ سمجھنا آسان ہے کہ حکومت کی نیت کیا ہے اور آنے والے دنوں میں وہ کیا کرنا چاہتی ہے، ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائیدادیں مسلمانوں کا قیمتی سرمایہ ہیں،حکومت وقف ترمیمی بل کے ذریعے ان پر قبضے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے، اسی لئے اس وقف ترمیمی بل میں’’وقف بائے یوزر‘‘ختم کیاجارہا ہے اور کلکٹر کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی جائیدادوقف کی ہے اور کون سی سرکاری ملکیت کی ، اسی طرح وقف جائیدادکے اندراج کی بات بھی وقف ترمیمی بل میں موجود ہے اور تمام اوقاف جائیدادوں کو چھ مہینے میں اندراج نہ ہونے کی شکل میں ان پر بھی خطرے کی تلوار لٹکادی جائے گی، اسی طرح وقف بورڈمیں مسلمان ممبران کے علاوہ غیر مسلم ممبران کے اضافے کی بات بھی لکھی گئی ہے، ایک نقصاندہ پہلو یہ بھی ہے کہ آئندہ وقف کرنے والے شخص کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے مسلمان ہے، یہ اور اسی طرح کی کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے پیش نظر صاف محسوس ہوتا ہے کہ وقف ترمیمی بل ،پرانی وقف جائیدادوں پر قبضے اور نئے اوقاف قائم کرنے کے سلسلے میں مشکلات کھڑی کرنے کا باعث ہے۔اور مسلمانوں کے فائدے کے نام پر لایاجانے والا یہ وقف ترمیمی بل ہر لحاظ سے ان کے حق میں نقصاندہ ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت تمام دینی، ملی ،سماجی جماعتوں اورتنظیموں نے اس وقف ترمیمی بل کو مسترد کردینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
چونکہ یہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہوسکا اور اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے پروسیجر کے مطابق پبلک ،اسٹیک ہولڈرس ، ماہرین اور مختلف اداروں سے رائے طلب کی ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بڑے پیمانے پر اس بل کے خلاف رائے دینے کی گزارش کی ہے اور اس کے لئے ایک سسٹم بھی جاری کیا ہے، بحمداللہ اب تک دو کڑور سے زیادہ ای میل کئے جاچکے ہیں اور آج 13؍ستمبر بروز جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، بعض لوگ ناواقفیت کی بنیاد پر یہ بھی کہہ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور برادران وطن کی تعداد زیادہ ہے، ایسے میں اگر دونوں طرف سے رائے بھیجی جارہی ہے تو برادران وطن کی رائے بڑھ جائے گی اور مسلمانوں کا نقصان ہوگا، کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان تنظیموں نے رائے دینے کو قبول کرکے بے وقوفی کا ثبوت دیا ہے، انہیں پہلے مرحلے ہی میں اس پر اعتراض جتانا چاہئے تھا کہ وقف چونکہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے اس لئے صرف انہی سے اس سلسلے میں رائے لینی چاہئے،کہنے کو تو یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے جب کوئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی یا سلیکٹ کمیٹی بنتی ہے تو اس کے نظام العمل اور پروسیجر کا یہ حصہ ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پبلک سے رائے مانگتی ہے ، اور اس میں کسی خاص طبقے کی تعیین نہیں کی جاتی ہے ، بلکہ کسی بھی مذہب یا ملک کی کسی بھی ریاست کا شخص ،کوئی سی زبان بولنے والا ہو، یا کسی تہذیب کا اپنانے والا ہو، اپنی رائے دے سکتا ہے ۔ جب رائے مانگنا اور کسی بھی طبقے کو مخصوص کئے بغیر رائے طلب کرنا جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے نظام العمل کا حصہ ہے تو اب یہ کہنا کہ مسلم تنظیموں کو اسے قبول ہی نہیں کرنا چاہئے تھا سرے سے غلط بات ہے ، جواب دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کل کلاں یہ معاملہ اگرکورٹ میں گیا تو کورٹ یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ سے جب رائے مانگی گئی تھی تو آپ نے رائے کیوں نہیں دی؟ اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ مسلمانوں کی رائے کم رہے اور برادران وطن کی رائے بڑھ جائے، اس لئےکہ تعداد اگرچہ برادران وطن کی زیادہ ہے ، لیکن جو مذہبی جذبہ ،اپنے دینی اور مذہبی معاملات سے تعلق اور محبت اسی طرح ملی مسائل سے جو وابستگی مسلمانوں میں ہے وہ دوسرے طبقوں میں نہیں ہے، اس کا تجربہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے چلائی گئی پچھلی مہم کے دوران بھی ہوا،اس وقت یونیفارم سول کوڈ کا سلگتا ہوا مسئلہ سامنے تھا، اور اس پر لاکمیشن آف انڈیا نے پورے ملک کے باشندوں سے رائے طلب کی تھی، شدت پسند غیر مسلم تنظیموں کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت میں رائے بھیجنے کی کوششیں بھی کی گئیں اور اس کے لئے مختلف تدبیریں بھی اختیار کی گئیں اس کے باوجود مسلمانوں کی رائے کا تناسب زیادہ رہا، مسلمانوں کی جو رائے لاکمیشن آف انڈیا کو پہنچی اس کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ کے آس پاس رہی اور دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کی رائے پچیس لاکھ کا عدد بھی پار نہ کرسکی۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ برادران وطن کی رائے زیادہ ہوجائے گی اور ہماری رائے کم پڑجائےگی یہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ اس کے قائم کرنے کا یہ مقصد ہے ،اسے تو صرف اپنی سفارشات اور تجاویز پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنی ہیں، اس لئے یہ سمجھنا کہ اگر برادران وطن کی رائے زیادہ چلی جائے گی تو یہ بل پاس ہوجائے گا یہ بھی غلط بات ہے ،ہاں اگر مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر رائے دی اور اس وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی (جیسا کہ وہ کررہے ہیں) تو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سمیت حکومت اور ملک کے باشندوں پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مسلمان اس سیاہ بل کے خلاف ہیں، اور یہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اس مہم کا بنیادی مقصد ہے ، اپوزیشن پارٹیز اور ارکان پارلیمنٹ کو متوجہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل اور بڑے پیمانے پر رائے بھیجنا ضروری ہے ،جب مسلمان اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے مضبوطی سے اپنی بات رکھیں گے تو اپوزیشن پارٹیز اوربر سر اقتدار پارٹی کا ساتھ دینے والی حلیف پارٹیوں کو بھی (جو الیکشن کے موقع پر مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے کے لئے بڑی ڈھٹائی سے چلی آتی ہیں)یہ محسوس ہوگا کہ مسلمان اس وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں سخت ناراض اور اس سے پوری طرح بیزار ہیں، اوراسی کے پیش نظر انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے ہوگی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ای میل بھیجنے کے سلسلے میں ماہرین قانون، وکلاء اور ملک و ملت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے علماء، قائدین اور دانشوروں سے مشاورت کے بعد یہ مہم شروع کی ہے، یہ کوئی عجلت یا جذباتیت میں لیا گیا فیصلہ نہیں ہے ،اس کے پورے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھ کر پھر فیصلہ کیا گیا ہے اور اللہ کا کرم ہے کہ یہ مہم بڑی حد تک کامیاب اور مؤثر ہے ، یہاں یہ بات بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ بورڈ نے صرف ای میل کے ذریعے رائے بھیجنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی ہے بلکہ اپوزیشن پارٹیز کے سربراہوں اور حکومت کی حلیف پارٹیز کے لیڈران سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا ہے ،اسی طرح ہر علاقے کے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں اور تحریری یادداشتیں بھی پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس متنازعہ اور نقصاندہ بل کے مضر پہلوؤں سے ان کو واقف کرایا جائے اور اگر دوبارہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوتا ہے تو ابھی سے اس کے نا منظور کئے جانے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس لئے مسلمانانِ ہند کسی تذبذب یا تردد میں پڑے بغیربورڈ کی اس مہم کا بھرپور ساتھ دیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں اور اگر اگلے مرحلے میں کسی تحریک کی ضرورت پڑے تو اس تحریک کے لئے بھی تیار رہیں کہ زندہ ملتوں اور قوموں کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور مشکلات اور مصائب سے پنجہ آزمائی کی راہ پر چلنا پڑتا ہے۔ حالات اگرچہ کہ ناموافق اور ناخوشگوار ہیں مگر ہمیں اپنی سی کوشش جاری رکھنی ہوگی اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، دل میں یہ یقین لئے ہوئے کہ یہ حالات زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں ،اور ظلم کی تاریکیوں اور اندھیریوں کے بعد صبح روشن کا طلوع ہونا ایک زندہ حقیقت ہے ؎
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے
٭…٭…٭
No comments:
Post a Comment