اوقاف کا تحفظ ہمارے ملی وجود سے وابستہ ہے، اوقاف کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی کا ولولہ انگیز خطاب!
بنگلور، 26؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت ملکی سطح پر ملی اور دینی اعتبار سے ہمیں جن ناگفتہ حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جس طرح کے بنیادی مسائل کا سامنا ہے اسکی مثال ہمارے ملک کی پوری صدیوں کی تاریخ میں نہیں ملتی، ہم لوگ اس وقت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اپنے جسمانی وجود نہیں بلکہ ایمانی وجود کی حفاظت کا مسئلہ آ پہنچا ہے- اور دن بہ دن ہمیں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ مسائل میں الجھا کر ہمیں اپنے دن پر عمل پیرا ہونے سے غافل کرنے اور ہمارے دینی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہیں مسائل میں ایک مسئلہ وقف کا ہے، جو اس وقت کا سلگتا ہوا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا وقف کا مسئلہ خالص دینی و ملی مسئلہ ہے، بظاہر یہ زمینوں اور تعمیرات کا مسئلہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہمارے ملی وجود سے جڑا ہوا مسئلہ ہے، یہی وجہ ہیکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کے تمام ملی و سماجی تنظیمیں اور جماعتیں اوقاف کی حفاظت کیلئے کوشاں ہیں اور اس مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کی مخالفت کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل اگر وہ پاس ہو گیا تو اس سے ہمارے مساجد، مدارس، درگاہ، خانقاہ، امام باڑے اور قبرستان سب خطرے میں آجائیں گے، مسلمانوں کی وقف کی ہوئی زمین مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ یہ بل مسلمانوں کے وقف کی جائیداد کو ہڑپنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے بل کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بل کے ذریعے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا گیا ہے اوروقف جائیدادوں کے تنازع کے معاملات میں اب وقف ٹریبونل کے بجائے پورا کا پورا اختیار کلکٹر کو دینے کی تجویز رکھی گئی ہے، جو بہت تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل کے ذریعے سرکار وقف پراپرٹی کو قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ چونکہ وقف کا معاملہ خالص اسلامی اور مذہبی معاملہ ہے، اور وقف ترمیمی بل نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہے بلکہ آئین مخالف بھی ہے، لہٰذا وقف قانون میں ترمیمات کیلئے بل لانا مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت ہے، جو درست نہیں ہے۔ مولانا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آئے اور بل کو واپس لے اور پوری ملت سے اپیل کی کہ وہ اپنے مذہبی تشخص اور اپنے ملی وجود اوقاف کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ اوقاف کی حفاظت کی جو تحریک ہے درحقیقت ہمارے دین پر قائم رہنے کے جو وسائل ہیں اسکو بچانے کی فکر ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ ان وسائل کے ساتھ ہی اپنے ملی وجود اور دینی تشخص کے ساتھ ہم اس ملک میں رہیں گے۔ مولانا بھٹکلی نے دوٹوک فرمایا کہ اس ملک کی ترقی اسی میں ہے کہ ہر شخص کو اس کی مذہبی آزادی کے ساتھ جینے حق دیا جائے، اور ہمارے آئین کے آرٹیکل ٢٦؍ میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حکومت کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اور چونکہ اوقاف کا معاملہ بھی صد فیصد مذہبی ہے لہٰذا حکومت کو اس میں قطعاً مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی زیر نظامت منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مولانا محمد شاداب قاسمی کی تلاوت سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی پہلی اختتام پذیر ہوئی۔
No comments:
Post a Comment