Monday, September 30, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی و مفتی عمر عابدین قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!

 وقف ترمیمی بل ناقابل قبول ہے، اوقاف کے تحفظ کیلئے عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی و مفتی عمر عابدین قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 28؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی تیسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف اسلام میں ایک ایسی اہم عبادت اور صدقۂ جاریہ ہے جسے دین میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ شریعت اسلامی میں وقف سے مراد وہ عمل ہے جس میں کوئی شخص اپنی جائیداد یا دولت کو اللہ کے نام پر ہمیشہ کے لیے مختص کر دیتا ہے تاکہ وہ ملی فلاح و بہبود کے کاموں میں آ سکے۔ وقف کی جائیداد نہ تو بیچی جا سکتی نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہندوستان میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد وقف کے انتظام و انصرام کے لیے کئی قوانین اور ایکٹس بنائے گئے اور ان میں کئی اہم ترمیمات بھی کئے گئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وہ ترمیمات چونکہ وقف املاک کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی تھیں تو اسکی مخالفت نہیں ہوئی لیکن  مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس اور ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے، درحقیقت حکومت اس بل کے ذریعے وقف پراپرٹی کو قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ یہ جائدادیں مسلمانوں کے اجداد نے وقف کی ہیں، یہ کوئی حکومت سے ملی ہوئی جائیدادیں نہیں ہیں، لہٰذا ہم ایسے کوئی بھی قانون کو ہرگز نہیں قبول کریں گے جو اس وقف املاک کیلئے خطرناک ہو۔مولانا نے فرمایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ مذہبی امور میں مداخلت ہے جو کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ بل ہماری مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ علمائے کرام و دانشوران سمیت مسلم معاشرے کا ہر بیدار شخص اس بات سے واقف ہے کہ یہ بل مسلم طبقہ کے لیے کس قدر خطرناک ہے، اس لئے ملک بھر میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ البتہ کچھ نام نہاد ضمیر فروش لوگ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اس بل کی حمایت بھی کررہے ہیں، درحقیقت وہ مسلمانوں کے نمائندے نہیں بلکہ حکومت کے نمائندے ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنا ضمیر فروخت کرچکے ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ وقف کا یہ مسئلہ بہت حساس ہے، اس حوالے سے ابھی عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے۔ ملک کے صف اول کے اکابر بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند سمیت ملک کی دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب جب بھی آواز دی جائے گی مسلمانوں کو اس پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک بھر کے این جی اوز، ادارے، و انصاف پسند برادران وطن بھی اس لڑائی میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ مجوزہ وقف ترمیمی بل نہ صرف غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ ہے بلکہ وقف ایکٹ میں کی جانے والی مجوزہ ترمیم آئین ہند سے حاصل مذہبی آزادی کے بھی خلاف اور آئین ہند کے دفعات 15- 14 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد کے نائب ناظم حضرت مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کے سامنے دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی کا نظریہ بھر پور اور جامع طریقہ سے پیش کیا ہے، اسی لئے اسلام میں جہاں عاقبت سنوارنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے سکھائے گئے ہیں وہاں موجودہ زندگی میں بھی کامیابی و ترقی حاصل کرنے کے زریں اُصول بیان کئے گئے ہیں۔ اوقاف کا نظام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعہ معاشرے کی کمزوریوں کی اصلاح کرکے اسے توانائی بھی پہنچائی گئی ہے اور نظام اوقاف سے جس طرح انسانوں کی دینی اور مذہبی ضروریات پوری ہوتی ہیں مثلاً مساجد، مدارس اور خانقاہیں وغیرہ تعمیر ہوتی ہیں، اسی طرح اوقاف سے انسانوں کی طبعی و معاشی ضروریات کی بھی کفالت ہوتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف کی تاریخ بڑی پرانی ہے، عہد رسالت ؐ میں خود آپؐ اور متعدد صحابہ کرام نے اللہ کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کیں۔ صحابہ کے بعد بھی نسلا بعد نسل مسلمانوں نے وقف کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد سے ہی مسلمانوں نے وقف قائم کرنا شروع کردیا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف ایکٹ اور وقف املاک کو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937ء کے توسط سے آئین ہند کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ وقف جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقف قانون بنایا گیا ہے، 1947ء کے بعد 1954ء کا پہلا وقف ایکٹ آیا، جس میں 1995ء میں ترمیم کی گئی، اور بعد میں 2013ء میں دوبارہ ترمیم کی گئی لیکن وہ ترمیمات وقف کی حفاظت اور اسکی آمدنی کو بڑھانے کے لئے کئے گئے تھے، لیکن اب جو مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کو حکومت نے پیش کیا ہے وقف کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اس کی تباہی کے لئے لایا گیا ہے- مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے تحت حکومت ریاستی بورڈوں پر غیر مسلموں کو نامزد کرنا چاہتی ہے، وقف ٹریبونل اتھارٹی کی جگہ ضلع کلکٹر کو ایک ثالث کے طور پرمقرر کرنا چاہتی ہے، ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی نامزدگی آرٹیکل 26؍ کی خلاف ورزی ہے جو مسلمانوں کو مذہبی  امور میں اپنے خود کے معاملوں منظم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ وقف بورڈ کے نظم و نسق میں دو غیر مسلم ارکان کی نامزدگی سے پورا نظام متاثر ہوجائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات واضح ہیکہ مجوزہ وقف بل سے وقف ختم ہوکر رہ جائے گا اور وقف املاک پر حکومت قبضہ کرکے اسے تباہ کرے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت وقف کے تعلق سے عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے، ملک کے چپے چپے میں وقف کے تعلق سے پروگرامات کا انعقاد کیا جائے، ملی تنظیموں کو قانون کے ماہرین کو ساتھ لیکر اپوزیشن اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقاتیں کریں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ہدایت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں، اور وقت ضرورت جب بورڈ سے وقف کی حفاظت کیلئے سڑکوں پر اترنے کی آواز دے تو ہم اپنا جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر بھی اتریں گے اور کسی کے سامنے جھکنا نہیں ہے کیونکہ وقف جائیدادیں ہمیں بھیک میں نہیں ملیں بلکہ یہ ہماری تاریخ اور ہمارے آباؤ اجداد کی نشانی ہے، جس میں کسی کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ یاد رکھئے آزادی اور عزت کاسہئ گدائی میں نہیں دیا جاتا بلکہ قوت بازو سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہی ایک راہ ہے ہمارے لیے، اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور زیر نظامت منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن تاسیسی مولانا محمد نظام الدین مظاہری، ارکان مولانا اسرار احمد قاسمی، شبیر احمد بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS 

No comments:

Post a Comment