وقف ترمیمی بل ناقابل قبول ہے، اوقاف کے تحفظ کیلئے مسلمان بیدار ہوجائیں!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی و مولانا ابو طالب رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!
بنگلور، 04؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی حضرت مولانا محمود احمد خان صاحب دریابادی مدظلہ نے فرمایا کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے خلاف روز بروز نئے قوانین بنا رہی ہے اور طرح طرح سے مسلمانوں کو پریشان کر رہی ہے۔ اب حکومت نے مسلمانوں کی جائیدادوں کو جو ہمارے آباء و اجداد اور بزرگوں نے مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف کیا تھا۔ ان پر قبضہ کرنے کے لیے وقف ترمیمی بل 2024ء لایا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک کو ختم کرنے کا عمل برطانوی راج میں شروع ہوا تھا۔ نہ صرف وقف املاک کو ذاتی اثاثوں کے طور پر فروخت اور منتقل کیا گیا بلکہ انگریزوں نے ایسی پالیسیاں بھی نافذ کیں جن کی وجہ سے ان کی تباہی اور قبضہ ہوا۔ اس کے بعد اس وقت ہمارے بڑوں نے وقف املاک کی حفاظت کیلئے کوششیں کیں - پھر آزادی کے بعد 1995ء میں ایک نیا وقف ایکٹ بنایا گیا اور 2013ء میں اس میں ترمیم کر کے ریاستی وقف بورڈوں کو مزید اختیارات دیے گئے۔ گرچہ اس قانون میں بھی کئی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، لیکن وہ وقف جائدادوں کے تحفظ کیلئے بڑی حد تک کامیاب ہیں۔لیکن موجودہ حکومت نے حالیہ دنوں میں جو وقف ترمیمی بل 2024ء اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، اسکی شقیں نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہیں بلکہ وقف املاک کے لیے خطرناک بھی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف جائیدادوں سے متعلق کسی بھی تنازع میں آخری فیصلہ ’وقف ٹربیونل‘ کا ہوتا ہے۔ لیکن نئی بل کی منظوری سے کلکٹر راج وجود میں آئے گا۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کون سی جائیداد وقف ہے اور کون سی نہیں ہے، ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی طرح حکومت نے سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم ارکان کے تقرر کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائیدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔ یہ براہ راست ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ جو ترامیم کی گئی ہیں ان سے وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت بدل جائے گی اور حکومت کے لیے ان پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا اور وقف املاک مسلمانوں کے ہاتھ سے چھین لئے جائیں گے۔ لہٰذا اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا جائے گا۔ ایسے وقت میں ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقف کی حفاظت کیلئے بیدار ہوجائیں اور اپنے بڑوں کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔
تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کی مستقل مذہبی حیثیت ہے، اس کا مکمل نظام ہے، رسول اللہﷺ کے دور سے لے کر اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے، وقف عام انسانوں کی معاشی، رفاہی اور سماجی ترقی کا ضامن ہے، وقف کا فائدہ تمام انسانوں کو پہونچتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ ہماری بے توجہی اور غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑی تعداد میں وقف جائیدادوں کو اونے پونے داموں میں بیچ دیا گیا۔ خود مسلمان بھی کثرت سے وقف جائیدادوں کے استحصال میں شامل ہیں۔ لگاتار واقف کے منشاء اور وقف کے اغراض و مقاصد کو بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے، بڑے بڑے کاروباریوں، فیکٹریوں کے مالکان اور مفاد پرست لوگوں نے وقف کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ بہت ساری وقف اراضی پر حکومت نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں، کئی ایکڑ زمینوں کی حصار بندی کر دی اور ان پر قبضہ کرلیا۔ لیکن ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت کو تو چاہئے تھا کہ اوقاف کے قوانین کو مضبوطی سے نافذ کریں اور وقف املاک کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرے لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کی شقیں دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہیکہ حکومت کی نیت وقف املاک اور مسلمانوں کے تعلق سے صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف املاک کی حفاظت کے بجائے مجوزہ بل کے ذریعے وقف املاک کو ہڑپنے کی کوشش کررہی ہے۔ اور مسلمانوں کو انہیں کے وقف کردہ املاک سے دستبردار کرنا چاہتی ہے۔ایسے میں ضرورت ہیکہ ہم بحیثیت مسلمان اور ہندوستان کے شہری، ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جد و جہد کریں اور اس غیر آئینی وقف ترمیمی بل 2024ء کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ملت اسلامیہ کو کسی بھی طرح کے تجاوزات، غیر قانونی قبضہ یا وقف املاک کی غیر مجاز منتقلی کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے، وقف املاک کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال اور تحفظ میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے عوامی بیداری مہم چلائیں گے، جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔
قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن مولانا عبد الاحد بستوی کی تلاوت سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے ارکان مولانا سید ایوب قاسمی، قاری یعقوب شمشیر، محمد حارث پٹیل بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔
#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment