تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار
بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور، کرناٹک
تجویز (1) بابت وقف ترمیمی بل:
وقف جائیدادیں ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے رضائے الہی کی خاطر اپنی قیمتی املاک راہِ خدا میں دیں، ملک کے طول وعرض میں یہ وقف جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں، مسجدیں، مدرسے، یتیم خانے، عید گاہیں، قبرستان، درگاہیں، امام بارگاہیں اور مختلف ملی، سماجی اور رفاہی ادارے عام طریقے پر وقف کی گئی جگہ پر قائم ہیں، یہ وقف جائیدادیں کسی گورنمنٹ کی دی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے جذبۂ سخاوت اور جذبۂ انفاق فی سبیل اللہ کی علامتیں ہیں، 1995ء میں بنایا گیا وقف ایکٹ(جس میں 2010ء اور پھر 2013ء میں ترمیم ہوئی) بڑی حد تک وقف جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اب حکومت نے وقف ترمیمی بل لاکر وقف ایکٹ کو کمزور اور بے اثر بنانا چاہا ہے، اور وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کی ہے، جو نہایت غلط اور نامناسب بات ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس اجلاس کا یہ احساس ہے کہ وقف ترمیمی بل کے لاگو ہونے سے پرانی وقف جائیدادوں کی حفاظت مشکل ہوجائے گی اور نیا وقف قائم کرنے میں بھی رکاوٹ کھڑی ہوگی، اس لیے یہ اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وقف ترمیمی بل کو فوراً واپس لیا جائے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
تجویز (2) بابت قضیہ فلسطین:
ٍ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ظالموں، جابروں اور ستمگروں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اور جس طرح غاصب اور ظالم اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے، اور غزہ کو جس طرح نشانہ بنا کر تباہ وبرباد کیا گیا ہے وہ درد وکرب کی نہایت المناک داستا ن ہے، جس سے ہر مسلمان اور انصاف پسندانسان کا دل زخمی ہے، مشرق ومغرب، شمال وجنوب میں بسنے والے مسلمان فلسطین کے حالات کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں، جس طرح امریکہ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ بھی ہمارے دل کا ناسور ہے، ظلم وستم دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، معصوم بچوں بچیوں اور عورتوں تک کو قتل کیا جارہا ہے، عمارتیں گرائی جارہی ہیں، اور جبر وتشدد کا بازار گرم کیا جارہا ہے، آج کا یہ اجلاس مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی، یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، اور ظالم وجابر طاقتوں اور ظلم وجبر پر خاموش تماشائی بننے والوں کی سخت مذمت کرتا ہے، اسی طرح جس جذبۂ ایمانی اور حمیت دینی کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں نے ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کیا اور ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر حق کا اظہار کیا اور قبلہئ اول اورا پنی سر زمین کی حفاظت کے لیے جس طرح جان کی بازی لگائی، آج کا یہ اجلاس ان کے اس جذبہ ایمانی اور جرأت وہمت کی بھرپور تحسین کرتا ہیاور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہم ہر حالت میں اور ہر قیمت پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ہمارا حکومتِ ہند سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ موقف کو اختیار کرے اور ظالموں کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دے اور انسانیت کو بچانے کا فریضہ انجام دے۔
تجویز (3) بابت ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے قانون سازی:
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔
تجویز (4) بابت مساجد پر غاصبانہ قبضے کی ناپاک کوششیں:
مساجد اللہ کے گھر ہیں، انہیں اللہ کی عبادت کے لیے قائم کیا گیا ہے، مسجدوں سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے، اِدھر کئی برسوں سے مختلف مساجد کو لے کر ملک میں تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے، گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ کے بعد اب سنبھل کی جامع مسجد پر بھی مندر ہونے کا دعوی کیا گیا ہے، نہایت افسوس کی بات ہے کہ سیشن کورٹ نے بھی دعوی سنتے ہی سروے کا حکم دے دیا، حالانکہ عبادت گاہوں کی حفاظت پر مشتمل 1991ء کا قانون موجود ہے اور بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے 1991ء کے قانون کو ضروری قرار دیا تھا، اب عدالتیں خود اس قانون کو نظر انداز کررہی ہیں، جس سے ملک میں تنازعہ پیدا ہورہا ہے اور میڈیا کو ملک میں بسنے والے دو گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے اور ان میں منافرت پیدا کرنے کا موقع مل رہا ہے، یہ کیسی افسوس ناک بات ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالتیں ایسا رخ اور رویہ اختیار کررہی ہیں جس سے ملک میں بے چینی اور افراتفری پیدا ہورہی ہے، آج کا یہ اجلاس مساجد پر کی جانے والی یلغار کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور عدالتوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ حق اور انصاف کا ساتھ دیں، اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔مساجد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جو کوششیں کی جاسکتی ہیں بورڈ کی جانب سے ان شاء اللہ ضرور کی جائیں گی۔
تجویز (5) بابت یونیفارم سول کوڈ:
الگ الگ مذہبوں اور تہذیبوں والے اس ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہ قابل قبول ہے اور نہ گوارا، رہ رہ کر یونیفارم سول کوڈ کی بات اٹھائی جاتی ہے اور یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسے ملک کے لیے خوشنما بنا کر پیش کیا جائے، لیکن ہندوستان جیسے ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہایت نامناسب را ہ ہے، یہ ملک کی خوبصورتی کو نقصان پہونچانے والی چیز ہے، افسوس کہ اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا بل لے آیا گیا اور بار بار اس طرح کی بات کی جارہی ہے کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ضروری ہے، آج کا یہ اجلاس یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، ملک میں بسنے والے دیگر طبقات کے لیے بھی ان کی مذہبی آزادی اور ریت رواج کو چھین لینے کا باعث ہے، اس لیے ملک کے الگ الگ طبقات کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے ہاتھ اٹھالینا چاہیے۔
تجویز (6) بابت خواتین کے ساتھ بد سلوکی:
آج کا یہ اجلاس اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ ملک میں عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کی عزت وحرمت کو پامال کیا جارہا ہے، آئے دن عصمت دری کے درد ناک واقعات پیش آرہے ہیں، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، گذرے ہوئے چند مہینوں میں ملک میں کئی ایسی درد ناک وارداتیں پیش آئی ہیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی بدنامی ہوئی ہے، عورتوں کی عزت وحرمت کی حفاظت کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے، ظلم وتشدد کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات پورے ملک کے لیے بد نما داغ ہیں، آج کا یہ اجلاس عورتوں پر ظلم وتشدد کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت اور ان کی عزت وآبروکی صیانت کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرے، اور ظلم وتشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سخت سے سخت قانون بنائے اور ان کو نافذ بھی کرے۔
تجویز (7) بابت مدارسِ اسلامیہ:
مدارس اسلامیہ دین کے مراکز ہیں، یہاں صرف حر ف شناس نہیں بنایا جاتا، انسانیت نواز بھی بنایا جاتا ہے، انسانوں کو انسانیت کا درس ان درسگاہوں سے ملتا ہے، مدارس کا ماضی تابناک اور زرین رہا ہے، ملک کی آزادی میں بھی ان مدارس کا بڑا اہم کردار ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ان تعلیم گاہوں کو تحفظ دیا جاتا، ان کی خدمات کی قدر کی جاتی، ان کے کارنامے کو سراہا جاتا، مگر تعصب اور عناد کی وجہ سے ان با فیض اداروں کو برابر نشانہ بنایا جارہا ہے اور مختلف بہانوں سے انہیں خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش ہورہی ہے، خاص طریقے پر یوپی، ایم پی اور آسام میں مدارس کے ساتھ نہایت نازیبا اور برا سلوک کیا جارہا ہے، سروے کے نام پر مدارس کے ارد گرد شکنجہ کسنے کی کوشش ہورہی ہے، اس سلسلے میں قریبی مدت میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ مدارس کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے اور فرقہ پرست عناصر کے لیے ایک تازیانہ ہے، آج کا یہ اجلاس مدارس کے تئیں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ملک کے اِن با فیض اداروں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
تجویز (8) بابت مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے کی مذمت:
انسانوں کے ساتھ محبت سے پیش آنا، کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا، حق تلفی سے اپنے آپ کو بچانا اور بے حیائی کی باتوں سے دور رہنا ایسی قدریں ہیں جو ہر مذہب میں پائی جاتی ہیں، ان قدروں کی حفاظت ضروری ہے، انسان کے اندر سے اگر انسانیت نکل جائے تو وہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا، ظلم وزیادتی کا مزاج گھروں، خاندانوں اور معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، بے حیائی کا گھن اندر سے سماج کو کھوکھلا کردیتا ہے، نوجوان نسل بری باتوں، بے حیائی کے کاموں، شہوت پرستی اور غلط کاری میں پڑجائے تو پھر اس کا مستقبل دن بہ دن تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جاتا ہے، کسی بھی مہذب سماج میں ایسے لوگ نہایت ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں جو اپنی خواہشات پر قابو نہ رکھ پائیں اور جانوروں کی طرح بے لگام ہوکر زندگی گذاریں، آج کا یہ اجلاس مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کی حفاظت کا پیغام دیتا ہے اور مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مذہبی قدروں سے بیگانہ ہوجانا فرد اور معاشرے دونوں کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔
تجویز(9) بابت بورڈ کی ہدایات کو اپنانے کی ضرورت:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حفاظتِ شریعت کا گراں قدر کارنامہ انجام دے رہا ہے، اسی کے ساتھ وہ وحدت واجتماعیت کا علامتی نشان بن چکا ہے، جہاں وہ حکومتوں کی جانب سے شرعی قانون میں کی جانے والی مداخلت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی بار بار متوجہ کرتا ہے کہ وہ رضا کارانہ طریقے پر احکامِ الہی کو سینے سے لگائیں، شرعی قوانین وہدایات اور نبوی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں، یہ کیسی نا مناسب بات ہے کہ ہم دوسروں سے یہ خواہش کریں کہ وہ ہماری شریعت میں مداخلت نہ کریں اور خود مسلمان دین وشریعت کے باغی بن کر زندگی گذاریں، شریعت کے تمام احکامات عادلانہ اور منصفانہ ہیں اور انہیں اپناکر دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل کی جاسکتی ہے، بورڈ نے اپنے قیام کے روزِ اول سے مسلمانوں کو راہِ عمل دکھائی ہے، یہ اور بات ہے کہ ماحول کے فتنوں میں پڑکر بہت سے مسلمان اپنے آپ کو احکامِ شریعت سے دور کرلیتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں خسارے کا سودا کرتے ہیں، آج کا یہ اجلاس مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کا مزاج بنائیں اور معاشرے کی صلاح وفلاح کے لیے بورڈ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔
تجویز (10) بابت بورڈ کے شعبوں کی کار کردگی:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مختلف شعبے کار گذار اور فعال ہیں، اصلاح معاشرہ کمیٹی، تفہیمِ شریعت کمیٹی، دار القضاء کمیٹی، شعبہ خواتین، لیگل سیل اور سوشل میڈیا ڈیسک کی جانب سے ہر ایک کے دائرہ? کار میں خدمت کا سلسلہ جاری ہے، سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو روکنے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کام کررہی ہے، شریعت کے احکامات کی حکمتیں لوگوں کو سمجھانے کے لیے تفہیم شریعت کمیٹی سعی مسلسل کررہی ہے، دار القضاء کمیٹی کے ذریعے ملک کے طول وعرض میں دار القضاء کا نظام قائم کیا جارہا ہے، خلافِ شریعت فیصلوں کی روک تھام کے لیے لیگل سیل کوشاں ہے، عورتوں میں بیداری پیدا کرنے اور انہیں دین وشریعت پر قائم رکھنے کے لیے شعبہ خواتین کی کار کردگی کا سلسلہ دراز ہے، بورڈ کی سرگرمیوں کو دور تک پہونچانے، پھیلانے اور احکامِ شریعت پر کیے جانے والے اعتراضات کا مثبت طریقے پر جواب دینے کے سلسلے میں سوشل میڈیا ڈیسک کام کررہا ہے، بورڈ کے یہ شعبے اپنے اپنے کنوینر کی نگرانی میں ارکانِ بورڈ کے تعاون سے خدمت انجام دے رہے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ محدود وسائل کے باوجود بہتر خدمت انجام پارہی ہے اور بورڈ کا پیغام دور دور تک پہونچ رہا ہے، آج کا یہ اجلاس بورڈ کے تمام شعبوں کی کار کردگی کی تحسین کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ شعبے پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنے کاموں کو آگے بڑھائیں گے اور ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی سربلندی اور سرخروئی کے لیے کوشاں رہیں گے باذن اللہ۔
تجویز (11) بابت اظہارِ تشکر:
وقف ترمیمی بل کو روکنے کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بساط بھر کوشش کی ہے، جہاں ایک طرف اپوزیشن پارٹیز کے ذمہ داران وسربراہان سے ملاقاتیں کی گئیں، وہیں دوسری طرف الائنس پارٹیز سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہیں وقف ترمیمی بل کی روک تھام کے سلسلے میں متوجہ کیا گیا، بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں تحریری یاد داشت بھی مرتب کی، جو مفصل بھی ہے مدلل بھی، اسی طرح جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کے ذریعے جواب دینے کے سلسلے میں بھی بورڈ نے سعی پیہم کی، اور یہ خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بورڈ کی تحریک پر تین کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ای میل مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے، اسی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں تحفظِ اوقاف پر چھوٹے بڑے بہت سے پروگرام ہوئے، جن کا سلسلہ اب بھی دراز ہے، جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو جواب بھیجنے کے سلسلے میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ کا خصوصی تعاون شامل رہا، اسی طرح اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں تحفظ اوقاف کانفرنس منعقد کرنے میں مختلف دینی، ملی سماجی تنظیموں اور جماعتوں کا اہم رول ہے، مختلف پارٹیز سے ملاقاتوں کے سلسلے میں بھی متعدد احباب نے تعاون کیا، آج کا یہ اجلاس امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ سمیت تمام ملی جماعتوں، تنظیموں اور اس مشن میں ساتھ دینے والے مخلصین اور ارکانِ بورڈ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور ان کی خدمت کی تحسین کرتا ہے، نیز امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی (کنوینر مجلسِ استقبالیہ) اور مجلسِ استقبالیہ کے تمام افراد اور عمائدین شہر بنگلور کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ ان کے حسن تعاون سے یہ اجلاس خیر وخوبی، سلیقہ اور ترتیب کے ساتھ منعقد ہوا اور یہاں سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے رہنما اور حیات بخش پیغام جاری کیا گیا۔
#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS