Monday, January 27, 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے سہ روزہ ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ سے اکابر علماء کے خطابات!

 آئین ہند کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت اور ہر ایک شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے سہ روزہ ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ سے اکابر علماء کے خطابات! 

مفتی افتخار احمد قاسمی، مولانا اشرف عباس قاسمی، مولانا عبد الرحیم رشیدی، مفتی عبد الرازق مظاہری، قاری ارشد احمد کے خصوصی خطابات!

 بنگلور، 27؍ جنوری (پریس ریلیز): یوم جمہوریہ کی مناسبت سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد سہ روزہ عظیم الشان ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ کی پہلی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، بلکہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے ہی شروع کی تھی، آزادی کے بعد بھی یہاں کے سیکولر دستورسازی میں مسلمانوں کی اور ملک کی فعال و متحرک جماعت جمعیۃ علماء ہند نے قائدانہ کردار ادا کیا، اس سیکولر دستور میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دئے گئے اور انہیں اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی۔ لیکن افسوس کے ادھر کچھ عرصہ سے فرقہ پرست طاقتیں ملک کے سیکولر آئین کو بدلنا چاہتی ہیں اور یہاں یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنا چاہتی ہیں، ایسے وقت میں ضرورت ہیکہ ہم سب آئین و جمہوریت کی حفاظت کیلئے کوششیں کریں۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء دہلی کے جنرل سکریٹری حضرت مفتی عبد الرازق مظاہری صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کی آزادی اور یہاں کے سیکولر دستور بنانا میں مسلمانوں کا سب سے اہم رول رہا ہے، آزادی کا نعرہ مسلمانوں نے دیا تھا، ہزاروں لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، اسی آزادی کیلئے ریشمی رول کی تحریک چلائی گئی، دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں لایا گیا، مسلمانوں نے 1803ء سے لے کر 1947ء تک ڈیڑھ سو برس جنگ آزادی کی لڑائی لڑی ہے، اور اس روشن تاریخ کی بدولت جمعیۃ علماء ہند کے بزرگوں نے ملک کی آزادی کے موقع پر آنکھ سے آنکھ ملا کر جمہوری دستور کا مطالبہ کیا جس کو کانگریس کے رہنماؤں نے قبول کیا۔ لیکن افسوس کہ آج فرقہ پرست طاقتیں اس سیکولر آئین کو بدلنے کی کوششیں کررہی ہے، اس کا نقصان صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بھگتنا پڑے گا بلکہ ملک کی تمام اقلیتیں اس کی زد میں آئیں گی۔ لہٰذا یاد رکھیں اگر آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ہم تحریک آزادی کی طرح آئین کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہونگے۔


 تحفظ آئین ہند کی دوسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے نائب صدر حضرت قاری ارشد احمد صاحب نے فرمایا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کی جنگ آزادی میں سماج کے ہر فرد نے حصہ لیا، سب نے اس دیش کو آزاد کرانے میں قربانی دی، مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی کی تحریک چلانے اور انگریز کے خلاف جنگ کرنے میں مسلمانوں نے پہل کی، جنگ آزادی میں مسلمان ہر محاذ پر سینہ سپر رہے۔ اور آزادی کے بعد ہمارے اَکابر کی کوششوں سے ملک کو سیکولر دستور کا تحفہ ملا، جو ابھی تک ملک میں نافذ ہے۔ لیکن افسوس کہ آج موجودہ فرقہ پرست حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈا کو نافذ کرنے کے لیے پابند عہد اور ہندو راشٹر کے قیام کے لیے پر عزم ہے۔ جس سے ملک کا سیکولر آئین اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے، جبکہ یہی سیکولر آئین اس ملک کی بقاء کا ضامن ہے، لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم ہر ممکن طریقے سے اس کا تحفظ یقینی بنائیں، اسکی حفاظت کیلئے تحریک چلائیں اور لوگوں کو بیدار کریں، اس وقت جمعیۃ علماء ہند آئین کی حفاظت کی تحریک چلارہی ہے۔


  تحفظ آئین ہند کانفرنس کی تیسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب، صدر جمعیۃ علماء کرناٹک نے فرمایا کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ قدرتی طور پر بہت ممتاز و نمایاں رہا ہے، انھوں نے جنگ آزادی میں قائد اور رہنما کا پارٹ ادا کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدار مسلم حکمرانوں سے چھینا تھا، اقتدار سے محرومی کا دکھ اور درد مسلمانوں نے جیسا محسوس کیا وہ کوئی اور نہیں کرسکتا- لہٰذا ہمارے اکابر اور جمعیۃ علماء ہند کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ملک آزاد ہوا اور ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کو چلانے کیلئے دستور تیار کیا گیا اور دستور کے تحت ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔ یہ سیکولر دستور عوام کیلئے انصاف، مساوات اور حقوق کو یقینی بناتا ہے اور سب مذہبی برادری کو فروغ دینے پر ابھارتا ہے۔ لیکن افسوس کہ جس دستور نے جمہوریت، سیکولرازم اور وفاقی نظام کو مستحکم کیا، آج وہی غیر محفوظ دکھائی دے رہا ہے۔ جس آئین کی قسم کھا کر لوگ اقتدار پر بیٹھ رہے ہیں آج انہیں سے اس آئین کو خطرہ لاحق ہے اور اسکے بنیادی ڈھانچے اور روح کی حقیقت کو ختم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہیکہ ہم آئین کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔


 اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی صاحب نے فرمایا کہ جس طرح ملک کی آزادی میں مسلمانوں اور جمعیۃ علماء ہند کے اکابر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اسی طرح سے ملک کے سیکولر دستور سازی میں بھی ہمارے اکابر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، یہی وجہ ہیکہ ملک کا آئین ہندوستان کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، جس میں مساوات کا حق، اظہار رائے کی آزادی، مذہب کی آزادی اور زندگی اور آزادی کا حق شامل ہے۔ اس میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصول بھی فراہم کیے گئے ہیں، جو حکومت کے لئے ایک منصفانہ اور منصفانہ معاشرے کی طرف کام کرنے کے لئے رہنما اصول ہیں۔ آئین میں قوانین کی تشریح اور نفاذ کے لئے ایک آزاد عدلیہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین دنیا کا سب سے طویل آئین ہے اور دوسرا سب سے بڑا فعال آئین ہے۔ یہیں وجہ ہیکہ ہندوستان دنیا کا سب بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد ہی یہ ملک جمہوری ملک بنا، یہاں ڈکٹیٹر شپ کی کوئی جگہ نہیں لیکن آج فرقہ پرست طاقتیں جمہوریت کو ختم کرکے ڈکٹیٹر شپ لانے کی کوشش کررہی ہیں، آئین کی پاسداری کی قسم کھا کر عہدے سنبھالنے والے آئین کو پامال کیا، لہٰذا ضرورت اس بات ہیکہ آئین کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی لڑائی لڑی جائے اور اسکے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔


 قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان سہ روزہ آن لائن ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن مولانا اسعد بستوی اور مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت اور مرکز کے رکن قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اس موقع پر تمام اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔


#PressRelease #News #Constitution #RepublicDay #SaveConstitution #MTIH #TIMS 

Thursday, January 23, 2025

یوم جمہوریہ کی مناسبت سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ کا انعقاد، اہل ہند سے شرکت کی اپیل!

 آئین ہند کا تحفظ ملک کے ہر ایک شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے!


یوم جمہوریہ کی مناسبت سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ کا انعقاد، اہل ہند سے شرکت کی اپیل!




بنگلور، 23؍ جنوری (پریس ریلیز): وطن عزیز ہندوستان کو دنیا کے دیگر ممالک پر یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں کے رہنے والے متعدد مذاہب کے پیرو اور مختلف تہذیبوں کے امین ہیں۔ شہری، سیاسی اور انسانی حقوق کے تحفظات کے لیے دستور و آئین کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاس داری کر سکے۔ چونکہ ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا امین اور مختلف نظریات کا گہوارہ ہے اسی وجہ سے یہاں اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ یہاں کا آئین سیکولر ہو، چنانچہ ہمارے آباؤ اجداد بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کے اکابر کی جدوجہد سے ملک کا دستور سیکولر بنا، جس کی وجہ سے ملک میں رہنے والے تمام ہی افراد باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں اور آئینی اعتبار سے ان کے اندر کسی قسم کی اونچ نیچ، ادنیٰ و اعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ حقوق و اختیارات میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ دستور میں کسی مذہب کو خاص اہمیت نہ دے کر سب کو برابر اور یکساں حقوق دیا گیا ہے، حقوق انسانی، آزادء رائے اور آزادیئ مذہب دستور کا اہم حصہ ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے ملک کو آزادی دلانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور آزادی کے بعد ملک کے دستور کو سیکولر بنانے کی ہر ممکن کوششیں کی بلکہ ملک کا سیکولر دستور انہیں کی مرہونِ منت ہے۔ لیکن افسوس کے موجودہ حکومت آئین کو پامال کرتے ہوئے ملک میں آمریت لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہٰذا ایک ایسے وقت میں جب آئین کی روح اور اس کے بنیادی ڈھانچے کے تحفظ پر بحث چھڑی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اس کی بنیادی روح اور اس کے مقصد کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے اور جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے لئے ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا جائے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یوم جمہوریہ کی مناسبت سے مرکز تحفظ اسلام ہند نے اکابر علماء کرام سے مشاورت کے بعد سہ روزہ آن لائن ”تحفظ آئین ہند کانفرنس“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محمد فرقان نے بتایا کہ یہ کانفرنس 24، 25 اور 26 جنوری کی رات ٹھیک 9:30 بجے سے آن لائن منعقد ہوگی، اس کانفرنس میں ملک کے اکابر علماء کرام خطاب فرمائیں گے، جو مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست لائیو نشر کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے ملک کے تمام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوکر اکابر علماء کے خطابات سے استفادہ حاصل کریں اور انکا پیغام دور دور تک پہنچانے کی فکر کریں۔


#PressRelease #News #Constitution #RepublicDay #MTIH #TIMS #SaveConstitution



Tuesday, January 21, 2025

غزہ میں جنگ بندی پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے عالم اسلام کو پیش کی مبارکباد!

 غزہ میں جنگ بندی پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے عالم اسلام کو پیش کی مبارکباد!

غزہ میں جنگ بندی، اسرائیل کی شکست اور فلسطین کی عظیم فتح ہے : مفتی افتخار احمد قاسمی





بنگلور، 21؍ جنوری (پریس ریلیز): غزہ میں گزشتہ پندرہ مہینوں سے جاری ظلم و بربریت اور اسرائیلی جارحیت نے بالآخر اپنی ہار مان لی اور جنگ بندی کے معاہدے کیلئے تیار ہوگئی، اور غزہ جنگ بندی معاہدے کا اعلان اور جنگ بندی کا نفاذ بھی شروع ہو چکا ہے۔ جنگ بندی کی خبر سے پورا عالم اسلام بالخصوص اہل فلسطین میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی ہے، اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے اپنا ایک بیان جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں بسنے والے ہر ایک انصاف پسند انسان کو یہ خبر سن کر بے حد خوشی و مسرت اور راحت ہوئی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل غزہ سخت محاصرے میں محدود وسائل کے ساتھ اسرائیل سے لڑ رہے تھے جبکہ صہیونی حکومت کو امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود فلسطینی مجاہدین کامیاب رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ گزشتہ 15؍ مہینوں کے اس ظلم و بربریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے فلسطین غزہ اور حماس کے لوگوں کی ثابت قدمی اور ان کے اللہ کی قدرت پر یقین نے ظالموں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، اور وہ ظالم جو اپنی طاقت اور اپنے وسائل و اسباب کی وجہ سے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا آج وہ میدان چھوڑ کر شکست کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے۔ مولانا نے فرمایا کہ گزشتہ 15؍ مہینے کی مثالی استقامت نے فلسطین کے دلیر عوام کو کامیابی سے ہمکنار کیا جو کہ لائق تحسین ہے، یہ کامیابی اہل فلسطین کی استقامت، فلسطینی بچوں، مردوں، عورتوں اور بڑے بوڑھوں اور انکے رہنماؤں کی شہادت کا خون رنگ لایا اور دشمنوں کے ناپاک عزائم اور سازشوں کو ناکام بنادیا اور یہی خون قطعی کامیابی اور آزادی کے حصول تک امت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔ مفتی صاحب نے اس کامیابی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ غاصبوں اور ان کی سازشوں کے مقابلے کا واحد راستہ استقامت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فلسطینی عوام اور غزہ کے مجاہدین کو ایک عظیم اور تاریخی فتح عطا فرمائی ہے۔ ہم اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں کہ اس نے مجاہدین کی مدد کی، ان کے قدم مضبوط کیے اور فلسطینی عوام کو استقامت اور صبر عطا کیا۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ فلسطین غزہ جہاں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچا گیا جہاں بم بارش کی طرح برسایا گیا اور اس پورے علاقے کو نیست و نابود کردیا گیا، ہزاروں لوگوں نے جام شہادت نوش فرمالیا، ایسے دردناک حالات کو دیکھ کر بھی اگر کوئی ملک خاموش رہا یا کسی انسان کے آنکھوں میں آنسو نہیں آئے یا دل غم زدہ نہیں ہوا ہو ایسے تمام انسان وہ اس ظالم کا کہیں نہ کہیں تعاون کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ بہت سارے خوش نصیب ممالک، مسلمان اور تنظیموں و اداروں نے ان نازک ترین حالات میں اہل غزہ و فلسطین کا تعاون کیا، انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، ان کے درد و غم میں برابر شریک رہے، انکے لیے دعاؤں کا اہتمام کیا اور اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ کوشش کرتے رہے، انہیں میں سے ایک ادارہ”مرکز تحفظ اسلام ہند“بھی ہے، جس نے دنیا بھر کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے، حکمرانوں کو بیدار کرنے کے لیے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے، فلسطین و غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے، امت مسلمہ کی بقاء القدس اور مسجد اقصٰی کے دفاع کیلئے چالیس روزہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ منعقد کیا، اور ملک کے اکابر علماء کرام کو اس کانفرنس میں مدعو کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطین کی تاریخ اور وہاں بسنے والے مسلمانوں کے فضائل، وہاں موجود قبلہ اول بیت المقدس کی تاریخ، ان تمام تفصیلات کے ذریعے امت مسلمہ کو روشناس کرانے اور روزانہ اجتماعی دعاؤں کا نظام بنایا تھا۔ آج مرکز تحفظ اسلام ہند بھی اپنی اس چالیس روزہ کانفرنس کے ذریعے جو کچھ اس نے انگلی کٹا کے یا کسی بھی طرح شرکت کرنے کی کوشش کی وہ بھی آج اپنی جگہ بہت خوشی محسوس کر رہا ہے اور فلسطین و غزہ اور وہاں کے رہنماؤں کو مبارکبادی کا گلدستہ اور دعاؤں کی سوغات پیش کرنا چاہتا ہے جنکی ثابت قدمی نے آج وقت کے فرعون کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی کے ساتھ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل فلسطین و غزہ کو جو ایمان عطاء کیا ہے، جو یقین ان لوگوں کو خدا پر ہے کہ بموں کی بارش میں بھی نماز قائم کررہے ہیں، بغیر چھت کے سردی والی رات میں بچوں کے جنازوں کے بیچ میں بھی اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں، ایسے ایمان کا کم از کم ایک فیصد حصہ اللہ ہمیں بھی عطاء کردے۔ مولانا نے اس موقع پر فلسطین و غزہ کیلئے خصوصی دعاؤں کے اہتمام کرنے کیلئے بھی اپیل کی اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست بننے کے حالات پیدا فرمانے، اس پورے خطے میں ہمیشہ کے لیے امن بحال فرمانے اور ہمارا قبلہ اول بیت المقدس کی مکمل آزادی اور حفاظت کیلئے خاص دعا کی۔ آخیر میں سرپرست مرکز مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور آئندہ بھی اس قسم کی خدمات انجام دینے کی خواہش رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی خدمات کو بے انتہا قبول فرمائے، آمین۔


#GazaCeasefire #IsraelGazaCeasefire #Gaza #Palestine #IftikharAhmedQasmi #MTIH #TIMS


Thursday, January 2, 2025

کڑپہ کی تاریخ میں تاریخ ساز اجلاس!

کڑپہ کی تاریخ میں تاریخ ساز اجلاس!


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)









ریاست آندھرا پردیش کے رائل سیما علاقے کا ضلع کڑپہ کا نام اس وقت سرخیوں میں آگیا جب ملک کی دارالحکومت دہلی کی سرزمین پر منعقد جمعیۃ علماء ہند کے تاریخی تحفظ آئین ہند کنونشن میں اعلان کرتے ہوئے امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے فرمایا کہ 15؍ دسمبر 2024ء کو کڑپہ میں ہم لوگ ”تحفظ آئین ہند و قومی یکجہتی کانفرنس“ کے عنوان پر پانچ لاکھ مسلمانوں کو جمع کریں گے اور ملکی و ریاستی حکومت کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے۔ ملک کے موجودہ حالات میں عرصے دراز بعد ایک ایسے شہر میں اتنی قلیل مدت میں آئین کے تحفظ کے عنوان پر اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اعلان ملت اسلامیہ ہندیہ کے قائد و رہنما امیر الہند نے کی ہو اور دعوت جمعیۃ علماء ہند دے رہی ہو تو مسلمانوں کا لبیک کہنا تو لازمی تھا، اپنے قائد کی آواز پر اور ملک کی سب سے قدیم تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی دعوت پر صرف پانچ لاکھ ہی نہیں بلکہ سات آٹھ لاکھ سے زائد فرزندان توحید نے لبیک کہتے ہوئے کڑپہ کی تاریخی سرزمین پر منعقد اجلاس میں اپنے ایمانی غیرت و دینی حمیت کا وہ مظاہرہ پیش کیا کہ جس کی گونج نہ صرف ریاست اور ملک بلکہ دنیا بھر میں جا پہنچی۔


اس باوقار اجلاس میں جب جمعیۃ علماء ہند کے صدر عالی قدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب پہنچے تو ہر ایک نے کھڑے ہوکر فلک شگاف نعروں سے اپنے قائد کا استقبال کیا، سامعین کے ہاتھوں میں وہی لہراتا ہوا حزب اللہ کا جھنڈا تھا جس کو لیکر فاتح عالم ﷺ نے مکہ فتح کیا تھا، اپنے قائد کو دیکھنے اور سننے کیلئے مسلمانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بڑی بے صبری سے انتظار کررہا تھا، ملک میں بڑھتی آمریت اور اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے، ملک کو تباہی، بربادی اور لاقانونیت سے بچانے، آئین ہند، جمہوریت اور ملک کی حفاظت کے لیے، غیر آئینی وقف ترمیمی بل کے خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے منعقد جمعیۃ علماء ہند کے اس تاریخی اجلاس کے اسٹیج سے جب صدر محترم مولانا ارشد مدنی نے بولنا شروع کیا تو ہر طرف سناٹا چاہ گیا، مولانا مدنی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ موجود ہیں، عجیب سی کیفیت طاری تھی، اس پیرانہ سالی کے باوجود ملک کے موجودہ حالات میں درپیش ہر ایک مسائل پر اتنی باریک بینی سے روشنی ڈالنا اور اسکا حل بتانا اور حکومت کے غیر آئینی پالیسیوں کی دو ٹوک مخالفت کرتے ہوئے انہیں واضح پیغام دینا یقیناً یہ ایک لائق و فائق قائد کی ہی علامت اور مولانا مدنی کا ہی حق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس تاریخی اجلاس کے ناظم اور اس اجلاس کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مفتی سید معصوم ثاقب صاحب نے صدر محترم کا ان منتخب اشعار سے استقبال کیا جو مولانا مدنی کی شخصیت کی صحیح ترجمانی کررہی تھی، فرمایا کہ:

حسین احمد کے بیٹے پہ ہے ایسا فضل ربانی

اسی پر ناز کرتی ہے فقیری ہو کہ سلطانی

سنو ارشد! اسی شیر خدا کا نام نامی ہے

جس کے خوف سے باطل کا پتا ہوگیا پانی


رات کی تاریکی میں اس تاریخی اجلاس میں جو تاریخی خطاب مولانا ارشد مدنی نے کیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، ان کا صدارتی خطاب ایک روایتی خطاب نہیں تھا بلکہ اس خطاب میں تحفظ آئین، قومی یکجہتی، وقف ترمیمی بل، یکساں سول کوڈ، مدارس اسلامیہ، اسرائیلی جارحیت، بابری مسجد جیسے حساس موضوعات شامل تھے، جس کا مولانا مدنی نے نہ صرف حق ادا کیا بلکہ جس جرأت اور بے باکی کے ساتھ گفتگو فرمائی کہ ایک طرف اقتدار کے ایوانوں میں لرزش محسوس ہورہی ہے تو دوسری طرف ملت اسلامیہ ہندیہ ملک کے ان ناموافق اور صبرآزماں دور میں ایک حوصلہ بخش پیغام پاکر پرعزم ہوچکی ہے۔


مولانا ارشد مدنی نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی آواز پر ضرب لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم اس ملک میں زندہ ہیں، یہیں رہیں گے اور یہیں کی مٹی میں دفن ہوں گے، ہمارا مذہب مٹ جانے والا مذہب نہیں ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کو مٹانے کا اعلان کرنے والے خود مٹ گئے اور اسلام زندہ رہا اور قیامت تک زندہ رہے گا۔اسی کے ساتھ مولانا مدنی نے ملک کے سیکولر آئین کو پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والوں کو بھی واضح پیغام دیا کہ ملک کی سالمیت سیکولر دستور میں ہے اور اس کی حفاظت تمام کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ فلک شگاف نعروں کے درمیان مولانا مدنی نے وقف ترمیمی بل کے خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیز ہماری رکھوالی کوئی اور کرے، آج یہاں سے اٹھنے والی آواز ایوان اقتدار سے ٹکڑائے گی اور کہے گی کہ مسلمان وقف ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہیں۔یہ بل وقف کو ہڑپنے اور مسلمانوں کو ان کے آباء و اجداد کے قیمتی اثاثہ سے محروم کردینے کے لئے لایا جارہا ہے، ہم یہ بات یہاں کی صوبائی حکومت کے کانوں تک پہنچا دینا چاہتے ہیں کہ اگر آئین کو بچانا ہے تو اس بل کو مسترد کرنا ہوگا۔ صدر محترم نے آگے فرمایا کہ ملک کا سیکولر آئین جمعیۃ علماء ہند کے ان اکابرین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے ملک کو غلامی کی لعنت سے آزاد کرانے کے لئے قدم  قدم پر قربانیاں دی تھیں، چنانچہ آج جب آئین کو پامال اور رسوا کیا جارہا ہے تو اس کے تحفظ کے لئے جمعیۃ علماء ہند میدان عمل میں سرگرم ہوگئی۔ مولانا مدنی صرف ہندوستانی مسلمان کے حقوق کی فکر لئے نہیں آئے تھے بلکہ اس اسٹیج سے انہوں نے عالم اسلام بالخصوص فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ ملک و ملت کے مسائل کیلئے مولانا مدنی کی فکر مندی قابل رشک تھی، ان کی مسکراہٹ میں بھی درد جھلک رہا تھا اور انکے آنسوؤں سے امید کی کرن نظر آرہی تھی، ان کاوشوں پر انہیں جتنی بھی خراج تحسین پیش کی جائیں کم ہیں، سلام ہو ابن حسین احمد پر، انکی قیادت میں جمعیۃ علماء ہند کا بلکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کا یہ دور تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔


اس عظیم الشان تحفظ آئین ہند و قومی یکجہتی کانفرنس میں پانچ اہم تجاویز پیش کی گئیں، جن میں سب سے پہلی تجویز حفاظت اوقاف اور وقف ترمیمی بل 2024 سے متعلق تھی، دوسری تجویز تحفظ آئین ہند و جمہوریت، تیسری یکساں سول کوڈ کے خلاف، چوتھی تجویز حفاظت مدارس اسلامیہ اور پانچویں اسرائیلی جارحیت کے خلاف تھیں۔ ان پانچوں تجاویز کو لاکھوں فرزندان توحید نے ہاتھ اٹھاکر تائید کیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء آندھراپردیش کے ذمہ داران کی طرف سے صدر محترم مولانا ارشد مدنی صاحب کی خدمت میں پانچ لاکھ دستخط پر مشتمل ایک مسودہ بھی پیش کیا گیا جسے عنقریب وزیر اعلیٰ چندرابا بونائیڈو کو بھی پیش کیاجائے گا، یہ محض دستخط کا ایک مسودہ نہیں بلکہ آندھراپردیش کے صرف تین ضلعوں کے مسلمانوں کی وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کی آواز ہے۔


اس کانفرنس کی اہم بات یہ بھی رہی کہ سارے مسلمان اپنے اپنے مسالک، فرقے اور پارٹیوں کی سطح سے اپر اٹھ کرکے ملی مسائل میں اتحاد اور یکجہتی کیلئے آئے تھے اور اسی لیے انکو دعوت دی گئی تھی، اور اسکی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے، جلسہ میں ہر طبقہ موجود تھا اور اسٹیج پر بھی تمام سیاسی پارٹیوں کی اہم شخصیات موجود تھیں، یہ اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے کہ مسلمان ملت واحدہ کی طرح سے اکھٹا ہوکر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرے، جمعیۃ علماء ہند اس سلسلے میں مبارکباد کی مستحق ہے کہ جو بات کہی سنی تو جاتی ہے لیکن زمینی سطح پر نہیں عمل درآمد ہوپاتا وہ کڑپہ اور اسکے اطراف و اکناف کے مسلمانوں نے سچ کر دکھایا اور اپنی اپنی سطح سے اپر اٹھ کر لوگوں نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا کہ ایک باشعور ملت ایسی ہی ہوتی ہے کہ وہ باوجود یہ کہ بعض مسائل میں ایک دوسرے کے تحفظات ہوتے ہیں لیکن جو ہمارے ہندوستان کے ملی مسائل ہیں اس میں ہم سب متحد ہیں اور ایک صف میں کھڑے ہیں، اس اتحاد کے مظاہرے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہیکہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت پر سب کو اعتماد ہے۔ پچھلے سالوں میں جمعیۃ علماء ہند نے قومی یکجہتی کے بھی کئی سو اجلاس کئے ہیں، جسکے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔


جمعیۃ علماء ہند کے اس بامقصد اجلاس میں شریک لاکھوں فرزندان توحید نے باوجود اتنی بڑی تعداد ہونے کے اطاعت و اتباع کی وہ مثال پیش کی کہ ناظم اجلاس کی ایک آواز پر اٹھ کھڑے ہوتے تو انکی دوسری آواز پر خاموش بیٹھ جاتے، نہ کوئی افرا تفری، نہ کوئی ہنگامہ، نہ کسی مذہب یا مذہبی پیشوا کے خلاف کوئی نعرے لگے، اور نہ ہی کوئی خلاف قانون قدم اٹھا، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا، ملک کے موجودہ حالات اور نازک ترین مسائل پر گفتگو کو سماعت کرنا، اور اسکے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر سب لوگوں کا خاموشی سے گھر لوٹ جانا یقیناً مسلمانوں کے بلند اخلاق اور امن پسند ہونے کی مثال اور جمعیۃ علماء ہند کے وقار اور حضرت مفتی سید معصوم ثاقب صاحب کی انتظامی امور پر مضبوط پکڑ ہونے کی دلیل ہے۔


جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس اقتدار کے کرسی پر بیٹھے لوگوں تک اپنے جذبات پہنچانے اور ملک و ملت کی رہنمائی کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا، جو توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کے خطاب عالی سے ملت اسلامیہ ایک طویل مدت تک رہنمائی حاصل کرتی رہے گی اور ملک کے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے لوگ اپناہر ایک قدم اٹھانے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہونگے، ان شاء اللہ۔ اسٹیج پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب بھی رونق افروز تھے، دہلی کے بعد کڑپہ کے اس اجلاس میں بورڈ کے صدر شریک رہے اور ملت کو بہترین پیغام دیا، ان دونوں ملکی پیمانے کی تنظیموں کا باہمی اتفاق اور یکجہتی دیکھ کر کہ ملت کے ہر فرد کو بڑی خوشی ہوئی، الحمدللہ بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب بڑی شفقت فرماتے ہیں، جس کو ہم نے بار بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسٹیج سے جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدور اور اس کے معزز اراکین، نیز حضرت مفتی سید معصوم ثاقب صاحب کی ولولہ انگیز نظامت کے ذریعہ جو پیغام دیا گیا، وہ یقیناً لائق تقلید اور قابل تحسین ہے۔ ریاستی حکمران پارٹی کے عہدیداران کا اجلاس میں شریک ہونا، اسٹیج پر خاموشی سے بیٹھنا اور صدر محترم کا استقبال کرنا جمعیۃ علماء ہند کی طاقت اور اثر کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ یہاں سے اٹھنے والی آواز بہت دور تک پہنچی، اسکے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں اور اللہ نے اگر چاہا تو ملک کے حالات عنقریب بہتر ہونگے، ان شاء اللہ۔


اجلاس کی تیاری کے دوران ناظم عمومی حضرت مفتی معصوم ثاقب صاحب نے بار بار چھوٹی بڑی میٹنگوں میں لوگوں کو بتایا کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں حکمت عملی بنانے والے اور کچھ لوگ ہوتے ہیں اسے عمل درآمد کرنے والے، جب سے حالات خراب ہورہے ہیں فرقہ پرستی کا عروج ہورہا ہے ان حالات سے نمٹنے کیلئے جمعیۃ علماء ہند جس حکمت عملی کو لیکر چل رہی ہے وہ عین تقاضے کے مطابق ہے، جس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہورہے رہے ہیں اور روز بہ روز اسکے طریقہ کار کی افادیت کو دیکھ کر لوگ اس کے قائل ہوتے چلے جا رہے ہیں، ایک طرف تو جمعیۃ علماء ہند نے ٹرائل کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک چارہ جوئی کر رکھی ہے، مختلف ملی مقدمات اور جو کیس بے گناہ لوگوں پر شک و شبہ نہیں بلکہ تعصب کی بنیاد پر عائد کرکے انہیں جیلوں میں بھر دیا جارہا ہے، انکی رہائی اور باعزت بری ہونے کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ اور دوسری طرف رائے عامہ کے ہموار کرنے اور انکو ملک کے سیکولر تانے بانے کو مضبوط کرنے کیلئے، انکو ایک باکردار شہری بنانے کیلئے اور انہیں مثبت پیغامات دینے کیلئے تاکہ ہماری ملکی زندگی میں اتحاد و اتفاق ہو، اور جو لوگ اس پیار و محبت کو اور بھائی چارہ کو آگ لگانا چاہتے ہیں وہ اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوں، جمعیۃ علماء اس سلسلے میں مصروف عمل ہے۔ دیکھا جائے تو جمعیۃ علماء ہند ایک آہنی دیوار ہے جو سماج کو سیکولر رنگ میں رنگے ہوئے ہے اور فرقہ پرستوں کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی ہے، اسٹیج پر فرقہ پرستی کی بات کرنا آسان ہے لیکن معاشرے میں اتر کرکے ہر شہری کو اپنا بھائی سمجھنا اور پیار و محبت سے پیش آنا یہ مشکل ہے، اور جمعیۃ علماء ہند یہی پیغام دیتی ہے۔ تیسری طرف تعلیم یافتہ پڑھے لکھے جو ذمہ دار ہیں، جو مختلف پارٹیوں میں قیادت کررہے ہیں یا مختلف فرقوں میں مذہبی پیشوائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، یا سرکاری مختلف مناصب یا عہدوں پر ہیں یا تعلیمی ادارے یا سول سروسز کے اداروں سے جڑے ہوئے ہیں جنکو ہمارے سماج میں دستور اور منصب کے مطابق کوئی عہدہ بھی حاصل ہے، ایسے لوگوں کا ذہن پچھلے دنوں غلط باتوں کو ان تک پہنچا کرکے بہت مضموم کیا گیا ہے، اور یہ بانٹنے والی طاقتوں نے ایسی سیاست کی ہے کہ اچھے اچھے لوگوں کے ذہن زہر آلود ہوچکا ہے، تو جمعیۃ علماء ہند نے ایسے لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور انکے ذہنوں اور دماغ کی صفائی اور انکو اچھے تاثرات ملک و ملت کے تئیں دینے کیلئے مختلف سطح پر انکے بھی چھوٹے چھوٹے پروگرام، میٹنگز اور صدر محترم کی ملاقاتوں کا اور ذمہ داروں کی ملاقاتوں کا سلسلے جاری رکھا ہے، جس کا بہت کچھ حصہ میڈیا اور اخباروں میں آتا ہے لیکن بہت کچھ وہ کام ہے جو میڈیا اور اخباروں میں نہیں آتا لیکن حقیقت میں وہ انجام دیا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی پر جمعیۃ علماء ہند شب و روز جدوجہد کررہی ہے اور اسکے اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ ایسے ملی ادارے اور جو لوگ تنظیمی کام کرتے ہیں انکو جمعیۃ علماء ہند سے یہ چیز سیکھنی چاہیے۔


یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جمعیۃ علماء ہند مسلمانان ہند کی وہ جماعت ہے، جس کے اکابر انگریزوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے اور ان سے لڑتے رہے، اس کے بانیان کا آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و تشکیل میں ناقابل فراموش کردار رہا ہے، آزادی کے بعد ملک و ملت کی تعمیر اور یہاں کے سیکولر دستور کی حفاظت کیلئے جمعیۃ علماء ہند کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تاحال جمعیۃ علماء ہند کی جدوجہد مختلف سطحوں اور متعدد میدانوں میں مسلسل جاری ہے۔ سیاسی، قانونی اور سماجی سطح پر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب فسطائی طاقتیں ملک کے سیکولر دستور کو ختم کرنا چاہتی ہیں، جمعیۃ علماء ہند آئین ہند کی حفاظت کی تحریک چلا رہی ہے۔ دہلی اور پٹنہ کے بعد کڑپہ کا یہ اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، کڑپہ میں جمعیۃ علماء ہند کے اس باوقار اسٹیج سے اکابر کے دئے گئے پیغام کو وہاں پر موجود لاکھوں فرزندان توحید نے سنا اور آن لائن لائیو نشریات کے ذریعے اس پروگرام کو دنیا کے چپے چپے میں سنا اور دیکھا گیا، ہم نے جس طرح کڑپہ میں اپنی ایمانی غیرت اور دینی حمیت کا مظاہر پیش کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں اور اسکے موقف کی تائید اور اسکی آواز پر اسی طرح سے لبیک کہتے رہیں۔ جس جماعت کے سامنے انگریز جیسی سپر پاور طاقت نے اپنے گھٹنے ٹیک دئے ہمیں امید ہیکہ وقت کی فرقہ پرست طاقتیں بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکیں گی، ان شاء اللہ۔


کڑپہ کی یہ تاریخی کانفرنس شاید ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے، اس پروگرام کی تیاریوں کیلئے جب ایک ہفتے قبل کڑپہ حاضری کا موقع ملا تو ہر طرف پروگرام کی تیاریاں زوروں پر تھیں، جمعیۃ کی جھنڈیوں سے شہر کو سجا دیا گیا تھا، ہر طرف جمعیۃ کے نغمے اور صدر محترم کے استقبال اور پروگرام کے چرچے تھے، باہر سے آنے والے مہمانوں کیلئے پورا شہر میزبان بنا ہوا تھا، آنے والے مجمع کو کڑپہ کے چاروں طرف بلکہ جس راستے سے مجمع آرہا تھا ہر جگہ آنے والوں کیلئے ایسی راحت رسانی کا مقام بنایا گیا تھا جہاں وہ وضو اور نماز سے فارغ ہوسکیں، آتے ہوئے بھی اپنی ضروریات سے فارغ ہوجائیں اور جاتے ہوئے بھی کھانے سے بھی فارغ ہوسکیں، اتنی ترتیب سے پروگرام منظم کیا گیا تھا کہ سات آٹھ لاکھ کا مجمع عافیت سے آیا اور چلا گیا اور کئی کلومیٹر دور تک گاڑی کھڑی رہیں۔ ایک ایک کام ضابطے اور قانون کے مطابق وہاں کے ڈسٹرکٹ کلکٹر اور ایس پی کے مشاورت سے انجام دیا گیا تھا کہ کوئی کام قانون توڑ کر نہیں کیا گیا، اور سب ایجنسیوں نے اچھے تاثرات دئے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہیکہ اجلاس کے ایک روز پہلے تک سرکار کی جو خفیہ ایجنسیاں ہیں انکی رپورٹ یہی تھی کہ دو لاکھ تک کا مجمع آسکتا ہے اور وہ اسی کے تحت بار بار ہدایات بھی جاری کررہے تھے، ہم لوگ بھی اسے دیکھ رہے تھے اور مزید بندوبست کررہے تھے، لیکن بعد میں سارے اندازے اور تخمینے غلط ثابت ہوئے اور بڑھ چڑھ کر مسلمان آئے اور اچھا پیغام لیکر گئے۔ وہاں رہتے ہوئے تیاریوں میں حصہ لینا زندگی کے حسین لمحات میں شامل ہوگئے، زمینی سطح پر جو محنتیں جمعیۃ علماء کے کارکنان بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مفتی معصوم ثاقب صاحب اور انکے شاگردوں نے کیا یقیناً پروگرام کی کامیابی انہیں محنتوں کا ثمر ہے۔ پروگرام کی کامیابی کیلئے شب و روز ایک کردینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ مفتی صاحب، انکے شاگردوں اور جمعیۃ علماء کے کارکنوں کو جزائے خیر دے،انہیں جانثار ساتھیوں کی محنتوں، امیر الہند کی دعاؤں اور غیور مسلمانوں کے حوصلوں نے اس پروگرام کو ”کڑپہ کی تاریخ میں تاریخ ساز اجلاس“بنا دیا..!


#JamiatKadapaConference #ArshadMadani #Jamiat #MTIH #TIMS