شعائرِ اسلام اور ویجیٹیرین سیاست: قربانی کے خلاف پراپیگنڈے کی حقیقت!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
عیدالاضحیٰ کا مقدس تہوار مسلمانوں کے عقیدے اور تاریخ کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے، جس کا تعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے ہے، جنہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے جگر گوشے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس اطاعت اور وفا کو رہتی دنیا تک کے لیے مثال بنا دیا۔ اسی سنت کی یاد میں مسلمان ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر اللہ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، جس میں اطاعت، ایثار، تقویٰ، اور سماجی فلاح کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ جس سے لاکھوں لوگوں کو گوشت جیسی نعمت میسر آتی ہے۔
تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر سال جب عیدالاضحیٰ قریب آتی ہے، کچھ مخصوص حلقے اور نام نہاد جانوروں کے حقوق کے علمبردار، سوشل میڈیا سے لے کر میڈیا کے پلیٹ فارم تک مسلمانوں کی قربانی کو نشانے پر رکھتے ہیں اور اس عظیم عبادت کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ان کے نعروں میں انسانی ہمدردی کا لبادہ اوڑھا ہوتا ہے، مگر ان کے تیور میں تعصب، تہذیبی تکبر اور اسلام دشمنی جھلکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہے، قربانی ایک وحشیانہ عمل ہے، اور دنیا کو ویجیٹیرین (Vegetarian) یعنی سبزی خور ہو جانا چاہیے۔ وہ قربانی کے عمل کو ”ظالمانہ“، ”غیر انسانی“ یا ”ماحولیاتی نقصان دہ“ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں، لیکن ان کے اس موقف میں علم، عدل اور اخلاص کی کمی اور تضاد کی بہتات ہوتی ہے۔ سوال ہے کہ ان کے اعتراضات صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ جانوروں سے ہمدردی کا جذبہ واقعی مخلص ہے، یا محض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا ہتھیار ہے؟
اسلام میں قربانی محض گوشت خوری یا جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا عمل ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہم اپنی محبوب ترین چیزیں بھی قربان کر سکتے ہیں۔ قرآن میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ”لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ“ (سورہ الحج: 37) کہ ”اللہ کو نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ یہ قربانی ایک عبادت ہے جو ایک بندے کو اس کے خالق سے جوڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل لاکھوں افراد کو گوشت جیسی قیمتی نعمت مہیا کرتا ہے، جو عام دنوں میں ان کی دسترس میں نہیں ہوتی۔
قربانی پر اعتراض کرنے والے لوگ نہ تو مذہبی شعائر کی روح کو سمجھتے ہیں، اور نہ ہی زمینی حقیقتوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے قربانی صرف جانور کا قتل ہے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ عمل کس قدر منظم، بامقصد، اور انسان دوست ہوتا ہے۔ قربانی کا گوشت خاندان، رشتہ داروں، اور بالخصوص غریبوں میں تقسیم ہوتا ہے، جو سال بھر گوشت کی ایک بوند کو ترستے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں یہ تہوار فلاحی نظام کا حصہ ہے، جو سماجی مساوات اور غریب نوازی کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (Vegetarianism) کے علمبردار سال بھر مارکیٹس میں بکنے والے فاسٹ فوڈ چینز (فاسٹ Food Chains)، فیکٹری فارمنگ (Factory Farming) ، اور قصائی خانوں (Meat Processing Plant) پر کبھی آواز بلند نہیں کرتے، جہاں جانوروں کو مشینوں کے ذریعے غیر انسانی انداز میں مارا جاتا ہے۔ یہ نام نہاد ہمدرد اس پر تو خاموش رہتے ہیں، لیکن جب مسلمان شریعت کے مطابق، شفقت اور نظم کے ساتھ قربانی کرتے ہیں تو ان کے دل میں جانوروں کی ”محبت“ جاگ اٹھتی ہے۔ ان کا اعتراض نہ گوشت سے ہے، نہ جانوروں کے ذبح کرنے سے، بلکہ انہیں اصل مسئلہ مسلمانوں کے مذہبی عمل اور تہذیبی شناخت سے ہے۔
اس سے بڑا تضاد یہ ہے کہ دنیا کے کئی مذاہب میں جانوروں کی قربانی صدیوں سے رائج ہے، لیکن نشانہ صرف مسلمان بنتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی مختلف موقعوں پر جانوروں کی بلی (قربانی) دیتے ہیں۔ نیپال میں ہندو مذہب کے ماننے والے ہر پانچ سال پر گادھی مائی میلہ مناتے ہیں، جہاں ہزاروں جانوروں کی بلی (قربانی) دی جاتی ہے۔ آسام، جھارکھنڈ، اور اڑیسہ میں قبائلی رسموں میں بکروں اور مرغوں کی بلی (قربانی) صدیوں پرانی روایت ہے۔ بہت سے مندروں میں مثلاً تریپورہ سندری، کاماکھیا اور کالی گھاٹ کالی جیسے مندروں میں بھی نذر کے طور پر جانور چڑھائے جاتے ہیں۔ مگر کسی بھی ویجیٹیرین تنظیم یا جانوروں کے حقوق کے گروہ کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کا مسئلہ جانور نہیں، مسلمان ہے۔ اسی طرح جب کرسمس (Christmas) یا تھینکس گیونگ (Thanksgiving) جیسے مغربی تہواروں پر لاکھوں ٹرکی (ٹرکی Turkey؛ مرغبانی کی صنعت میں ایک بڑا پرندہ ہے، جسے ترکی پرندہ بھی کہتے ہیں) اور دیگر جانور ذبح کیے جاتے ہیں تو دنیا خاموش رہتی ہے، لیکن جب ایک مسلمان اپنے دین کے مطابق قربانی کرتا ہے، تو سب کو جانوروں کی ”تکلیف“ یاد آ جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار سراسر تعصب، منافقت، اور تہذیبی نسل پرستی کا مظہر ہے، جو ویجیٹیرین ازم کے نقاب میں مسلمانوں کے شعائر اور مذہبی آزادی پر حملہ آور ہوتا ہے۔
اب آئیے اس تضاد کے ایک اور پہلو پر غور کرتے ہیں۔ بھارت میں مویشی فارمنگ ایک منظم، تجارتی اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والی بڑی صنعت ہے، جس کی بنیاد وسیع پیمانے پر مویشیوں کی آبادی پر ہے، جو کہ تقریباً 515 ملین ہے، اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی فارمنگ صرف دودھ یا کھاد کے لیے نہیں کی جا رہی، بلکہ اس کا ایک بڑا مقصد گوشت کی پیداوار ہے۔ IMARC Group کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت میں گوشت کی مارکیٹ 2024 میں 55.3 ارب امریکی ڈالر کی ہو چکی ہے، اور 2033 تک یہ 114.4 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مزید یہ کہ FAO (Food and Agriculture Organization) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، بھارت دنیا کے سب سے بڑے گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ بھارت میں سالانہ گوشت کی پیداوار تقریباً 6.3 ملین ٹن ہے، جو اسے پیداوار کے حجم کے اعتبار سے دنیا میں پانچویں نمبر پر رکھتا ہے۔
یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ بھارت نہ صرف دنیا میں گوشت پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، بلکہ وہ دنیا کے سب سے بڑے بیف ایکسپورٹ (Beef Exporter) ممالک میں شامل ہے۔ سرکاری APEDA کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت نے 1.5 بلین ڈالر سے زیادہ کا بیف برآمد کیا، جو ملک کی مجموعی برآمدات میں ایک اہم حصہ رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعبے پر غلبہ رکھنے والی بڑی کمپنیاں، جن کے مالکان غیر مسلم ہیں، ہر سال لاکھوں ٹن گائے، بھینس اور بیل کا گوشت بیرونِ ملک بھیج کر اربوں کا منافع کماتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں کئی کارپوریٹ ادارے، صنعت کار، اور بعض حکومتی یا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں اور حکومت ان کو نہ صرف لائسنس فراہم کرتی ہے بلکہ ان کے کاروبار کو بڑھانے میں مدد بھی کرتی ہے۔ لیکن کیا کبھی ان بڑے اداروں کے خلاف ان کمپنیوں کے گوشت پر ”جانوروں کے حقوق“ کی تنظیموں نے مظاہرہ کیا؟ کیا کسی مرکزی میڈیا ہاؤس نے ان کے فیکٹری فارموں کے خلاف کیمرہ گھمایا؟ کیا کبھی ان سے سوالات کیے گئے کہ جانوروں کو کیسے رکھا اور ذبح کیا جا رہا ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ کیونکہ جب معاملہ طاقتور طبقات، سرمائے اور منافع کا ہو، تو ”اخلاقیات“، ”جانوروں کے حقوق“ اور ”ہندو جذبات“ سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہاں اصل تضاد کھل کر سامنے آتا ہے: اگر کوئی غریب یا متوسط طبقے کا مسلمان فرد، مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے ایک یا دو جانور قربان کرتا ہے، تو اسے ظلم، وحشت اور شدت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے سماجی میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے، اور بعض اوقات تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر یہی عمل بڑی کارپوریٹ کمپنیاں لاکھوں گائیں، بیل اور دیگر جانور ذبح کر کے منافع کمائیں تو وہ ایک ”قابلِ ستائش کاروبار“ اور ”برآمداتی کامیابی“ قرار پاتا ہے۔ یہ دہرا معیار صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں، بلکہ جانوروں کے حقوق اور تجارتی اخلاقیات کے اصولوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔
درحقیقت، اسلام مخالف پراپیگنڈہ کی یہ نئی شکل ہے، جو ویجیٹیرین ازم (Vegetarianism) اور ماحولیاتی تبدیلی (Environmental change) جیسے عالمی موضوعات کا سہارا لے کر مسلمانوں کے مذہبی شعائر کو نشانہ بناتی ہے۔ قربانی صرف عبادت نہیں، ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اور جس تہذیب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ دنیا کی واحد تہذیب ہے جو قربانی کے ساتھ صفائی، فلاح، اور عدل کا سبق بھی دیتی ہے۔ اسلام میں قربانی نہ صرف جانور کے جسم کی بلکہ دل کی قربانی ہے، وہ قربانی جو غرور، لالچ، انا اور خود غرضی کو ختم کر کے انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔ یہ قربانی صرف ایک ذاتی عبادت نہیں بلکہ ایک اجتماعی عمل ہے، جس میں ہر فرد کی شرکت سماج کے کمزور طبقے تک نعمتیں پہنچاتی ہے۔
اسلام کسی پر کھانے پینے کے معاملے میں جبر نہیں کرتا، نہ ہی کسی کے ذوق کو برا کہتا ہے۔ لیکن یہ حق ضرور دیتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکے، بشرطیکہ وہ قانون اور شریعت کے دائرے میں ہو۔ ہندوستان جیسے آئینی، سیکولر ملک میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، اور قربانی اس آئینی حق کا حصہ ہے۔ ایسے میں قربانی پر اعتراض صرف مذہبی تعصب اور سماجی پولرائزیشن (Social Polarization) کو ہوا دینے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وہ اس پروپیگنڈہ کے خلاف محض جذباتی نہیں، بلکہ مکمل دلیل کے ساتھ عقلی، سائنسی، آئینی اور اخلاقی جواب دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا کو دکھائیں کہ ہماری قربانی صرف جانور نہیں، بلکہ انسانیت کے ساتھ محبت، سماج کے ساتھ انصاف، اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا پیغام ہے۔ ہمیں اپنی قربانی کو اس طرح انجام دینا چاہیے کہ اس میں صفائی، شفقت، اور معاشرتی فلاح کا پیغام ہو؛ جس کی تعلیم دین اسلام دیتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ قربانی صرف ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ یہ غربت کے خلاف ایک بڑی مہم ہے، ایک فلاحی نظام کا حصہ ہے، اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ ہم صفائی کا خیال رکھیں، ماحول کو آلودہ نہ کریں، اور اس عبادت کو اس کے حقیقی وقار کے ساتھ انجام دیں۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بھارت کا آئین ہمیں مذہبی آزادی، شخصی آزادی اور عبادت کا حق دیتا ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اس آئینی حق کو سوشل میڈیا کے دباؤ یا ٹی وی کی چیخ پکار سے چھین نہیں سکتا۔ مسلمان اپنی عبادات پر شرمندہ نہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں چاہیے کہ علم، اخلاق، اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی شناخت کا دفاع کرتے رہیں۔ دنیا کو ویجیٹیرین (Vegetarian) بننے سے نہیں روکا جا رہا، لیکن یہ بات بھی قبول نہیں کہ کسی کے ”غذائی عقیدے“ کو دوسروں کے ”ایمانی عقیدے“ پر مسلط کیا جائے۔ قربانی نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایک حق ہے، اور اس حق کا دفاع علمی، آئینی، اور پرامن طریقے سے ہر مسلمان کا فرض ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تہذیب، عقیدے اور روایات کے تحفظ کے لیے باوقار انداز میں کھڑے ہوں، اور دنیا کو بتائیں کہ ہمارے شعائر ہماری پہچان ہیں اور ہم اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دین ہمیں قربانی کے ذریعے ایثار، اطاعت، اور فلاحِ انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔
اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
”میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“ (سورۃ الانعام: 162)
No comments:
Post a Comment