عیدِ قرباں پر اہلِ غزہ کی فریادِ لہو...!
✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
آج عید الاضحٰی کا مبارک دن ہے۔ ہر طرف خوشیوں کی رونقیں بکھری ہوئی ہیں، گلیاں چراغاں ہیں، قربانی کے جانوروں کی گونج، بچوں کی قلقاریاں، گوشت کی خوشبو، دعوتوں کی تیاری، نئے کپڑے، عیدی کے مناظر، سب مل کر ایک عید کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ سب کچھ سنتِ ابراہیمی کی یاد کو منانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن... ذرا رک کر سوچئے، کیا واقعی پوری امتِ مسلمہ اس عید پر خوش ہے؟ کیونکہ ان خوشیوں، قہقہوں اور خوشبوؤں کے بیچ ایک اور منظر بھی ہے۔ دنیا کا ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں آج کی صبح بھی عید کی خوشیوں کا نہیں، چیخوں کی ہے۔ جہاں عید کا چاند لاشوں پر طلوع ہوا ہے۔ جہاں بقرعید کے دن بھی قربانی کے جانور نہیں بلکہ انسان ذبح ہورہے ہیں، جہاں خون نالیوں میں نہیں، گلیوں میں بہہ رہا ہے۔ وہ سرزمین غزہ ہے... لاشوں کا شہر، یتیم بچوں کی سرزمین، اور امت کی اجتماعی بے حسی کا نوحہ، ایک ایسا نوحہ جسے دنیا سننا ہی نہیں چاہتی۔ کیا یہ عید بھی وہی عید ہے جسے ”یوم النحر“ کہا گیا؟ یا پھر... یہ وہ دن ہے، جب اہلِ غزہ کے معصوم بچوں کی لاشیں جانوروں کے کھالوں سے لپیٹ کر دفنائی جائیں گی، کہ کفن تو کب کا ختم ہو چکا ہے!
ہم یہاں قربانی کیلئے بکرے اور بیل چن رہے ہیں، لیکن اہل غزہ اپنے پیاروں کے جسم کے پرخچے چن رہے ہیں۔ ہم خوشبو دار پانی سے جانور نہلا رہے ہیں، وہ اپنے بچوں کو مٹی سے صاف کر کے دفنا رہے ہیں۔ ہمارے بچے بکروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، وہاں بچے بارود کے ڈھیر پر اپنی جان سے کھیل رہے ہیں۔ ہم عید کی نمازوں کے بعد مسکراتے ہوئے ”بسم اللہ“ کہہ کر قربانی کررہے ہیں، اور غزہ کے آسمان پر اسرائیلی جنگی جہازوں کی گرج سنائی دے رہی ہے، اور کسی معصوم بچے کا سر اس کی ماں کی گود سے چھین لیا گیا ہے۔ جب ہماری زبانوں سے ”تکبیراتِ تشریق“ بلند ہورہی ہیں، اسی وقت غزہ میں کوئی باپ اپنے بیٹے کی نماز جنازہ کیلئے ”اللہ اکبر“ کہہ رہا ہے۔ ہم قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں بانٹ رہے ہیں، وہ اپنے خوابوں، گھروں اور نسلوں کو تین حصوں میں بٹتا دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گھروں میں بچوں کے قہقہے گونج رہی ہیں، اور وہاں سسکیاں قبرستان کے سناٹے میں دب رہی ہیں۔ ہماری عید خوشیوں کا پیغام لائی ہے، ان کی عید تازہ لاشوں کی فہرست لائی ہے۔ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں کھلونے ہیں، ان کے بچوں کے ہاتھ میں کفن ہے۔
ہم سنت ابراہیمی کی پیروی میں جانور ذبح کررہے ہیں، قربانی کے جذبے سے سرشار ہورہے ہیں۔ لیکن وہ بچے، جو روزانہ اپنی جان قربان کررہے ہیں، اُن کی فریاد پر ہماری زبانیں گنگ ہیں اور عالم اسلام کی آنکھیں اہلِ غزہ کی لاشیں دیکھ کر بھی بند ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اہلِ غزہ اپنی جانیں کس سنت کی ادائیگی میں دے رہے ہیں؟ ان کے کٹے ہوئے جسم، ان کے جلے ہوئے گھر، اور ان کی اجڑی ہوئی گودیں کون سی عبادت کی علامت ہیں؟ کیا ان کا خون ہماری قربانی سے کم قیمتی ہے؟ یا ہم نے سمجھ لیا ہے کہ قربانی صرف بکرے یا بیل کو ذبح کرنے کا نام ہے، انسانیت کے درد کو محسوس کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں؟ کیا قربانی صرف خون بہا دینے کا نام ہے، یا یہ احساس، ایثار، درد، اور امت کا درد بانٹنے کا جذبہ بھی ہے؟ عالم اسلام کی خاموشی، اہل غزہ کے بچوں کی چیخوں کو مزید تیز کرتی جا رہی ہے۔ ہم چپ ہیں، کیونکہ ہمارے آسمان پر جنگی طیارے نہیں اُڑتے، ہمارے محلوں پر بم نہیں گرتے، ہمارے بچوں کی لاشیں ہم نہیں اٹھاتے۔ مگر یاد رکھو، ان کا صبر اور ہماری بے حسی اب ایک مقام پر آکر ٹکرا رہی ہے۔ وہ لاشوں کے درمیان بھی عید منا رہے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کی قربانی عرش کو ہلا دیتی ہے۔ مگر ہم... ہم صرف گوشت کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے عبادت مکمل کر لی۔
یہ کیسی عید ہے جہاں امتِ مسلمہ کا ایک حصہ قہقہوں، گوشت اور خوشیوں میں مصروف ہے، جبکہ دوسرا حصہ آنسو، کفن اور ملبے تلے دبا ہوا ہے؟ کیا یہی وہ امت ہے جس کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم تڑپتا ہے؟“ آج مسجدِ اقصیٰ لہو لہان ہے، غزہ کی گلیوں میں بچوں کا خون بہہ رہا ہے، مائیں اپنے لختِ جگر دفنا رہی ہیں، اور ہم خوشیوں کے شور میں ان کی صدائیں بھلا بیٹھے ہیں۔ قربانی کا جذبہ صرف جانوروں کے خون تک محدود ہو چکا ہے، جبکہ حقیقی قربانی تو یہ تھی کہ ہم امت کے درد کو محسوس کرتے، ان کے لیے آواز اٹھاتے، اور اپنے قبلۂ اول کی حرمت کے لیے تڑپتے۔ کیا بیت المقدس، جو ہمارا دینی اور روحانی ورثہ ہے، ہمیں کچھ بھی نہیں کہتا؟ کیا فلسطین صرف اُن کا مسئلہ ہے جن کے گھر ملبے میں دفن ہو چکے ہیں؟ ستتاون اسلامی ممالک ہونے کے باوجود کب تک ہم مذمتی بیانات اور علامتی دعاؤں سے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے رہیں گے؟ کب ہم اس بات کو سمجھیں گے کہ فلسطین کا مسئلہ ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ان کے بچوں کی مسکراہٹ ہم سے سوال کرتی ہے، کہ ”کیا ہم بھی اس امت کا حصہ ہیں، جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم تڑپتا ہے؟“ اگر آج بھی ہمارے دل نہ جاگے، تو ہم صرف عید نہیں منا رہے، ہم اپنی بے حسی کا جشن منا رہے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی تصور کیا ہے کہ ایک ماں عید کی صبح کیسے گزارتی ہوگی جب اس کے لعل کا چہرہ قبر کی مٹی میں چھپ چکا ہو؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ مائیں اپنے بچوں کو آخری بار کس طرح سینے سے لگاتی ہیں، جب باہر لوگ قربانی کے جانوروں پر پرفیوم چھڑک رہے ہوتے ہیں؟ ان کی عید کا پہلا لمحہ دعاؤں سے نہیں، آہوں سے شروع ہوتا ہے، ان کے گھروں میں سیویاں نہیں بنتیں، صرف کفن کی سلائیاں چلتی ہیں۔ ایک باپ، جس نے کبھی اپنے بیٹے کے لیے عید کے کپڑے خریدے تھے، آج وہی باپ اسپتال کے فرش پر خون میں لت پت اپنے بیٹے کی لاش کو گود میں لیے بیٹھا ہے۔ ایک بچی، جو شاید اس عید پر نئے کپڑے پہننے کے خواب دیکھ رہی تھی، اب وہ خواب اس کی قبر میں دفن ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے عید کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آج بھی بمباری ہوگی یا نہیں، آج بھی ان کا وجود مٹایا جائے گا یا ایک دن اور جی لیا جائے گا۔ ہماری عید کے کپڑوں پر عطر کی خوشبو ہے، ان کے کپڑوں پر خون کے دھبے ہیں۔ ہم بکروں کے لیے ٹینٹ لگارہے ہیں، وہ اپنے گھر کے ملبے میں سایہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم بچوں کو عیدی دے رہے ہیں، وہ بچوں کی لاشوں کو دفنا رہے ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں ”عید مبارک“، وہ کہہ رہے ہیں ”شہادت قبول ہو“۔ کیا ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ایک لاش پر ہمارے دل نہیں لرزتے؟ کیا ہم اس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ ایک ماں کی چیخ ہماری سماعت سے نہیں ٹکراتی؟
آج غزہ کے قبرستان آباد ہیں، اور ہماری عید گاہیں بھیڑ سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے گھروں میں چولہا بجھا ہے، اور ہمارے ہاں گوشت کے ذخیرے ہو چکے ہیں۔ ان کی مائیں اپنے بچوں کے چہرے آخری بار چوم رہی ہیں، اور ہماری مائیں بچوں کو عیدی دے کر خوش ہو رہی ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو قربان گاہ پر لے جائیں، اور اس امت کا وہ حصہ بنیں جو صرف عید پر نہیں، بلکہ ہر لمحے اپنی قوم کے درد سے جڑا ہو۔ اگر ہم نے اس عید پر اہل غزہ کو اپنی دعاؤں میں شامل نہ کیا، ان کی آواز نہ بنے، ان کے درد کو نہ محسوس کیا، تو ہماری عید محض ایک رسم ہے، ایک تہوار ہے جس میں روح نہیں۔ ہم اگر اس عید پر اپنے گوشت کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تقسیم نہیں کرتے، ایک حصہ اہل غزہ کے درد میں شریک نہیں کرتے، تو ہم سنت ابراہیمی کی روح سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی بے حسی، اپنی خودغرضی، اور اپنے ضمیر کی غفلت کو کاٹنے کا نام ہے۔ ہمیں اپنی روحانی مردگی کی قربانی دینا ہوگی، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب مسجد اقصیٰ، شہید بچوں کی روحیں، اور معصوم ماؤں کے آنسو قیامت کے دن ہمارا گریبان پکڑیں گے، اور پوچھیں گے: ”ہم کٹتے رہے، تم کھاتے رہے، ہم روتے رہے، تم ہنستے رہے، ہم نے قربانی دی، اور تم نے قربانی کو صرف گوشت سمجھا؟“
ہمیں آج کی عید کو حقیقی بنانا ہے۔ ہمیں جانوروں کے ساتھ ساتھ اپنی بے ضمیری کو بھی قربان کرنا ہوگا۔ ہمیں اہل غزہ کے لیے ایک جملہ، ایک دعا، ایک آنسو، ایک آواز، اور ایک عملی قدم بڑھانا ہوگا۔ یہ وقت گوشت کے وزن سے خوش ہونے کا نہیں، بلکہ امت کے زخموں کا وزن اٹھانے کا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا، تو ہماری عید، ایک سوگوار چیخوں کے درمیان ہنسی کی بے وقت گونج بن کر رہ جائے گی۔
آئیے، آج کی قربانی کو مکمل کریں، صرف جانور نہیں، اپنی بے حسی بھی قربان کریں۔ اپنے حصے کی آواز بنیں، اپنی دعاؤں میں انہیں شامل کریں، اور اس عید کو حقیقی معنوں میں امت کی عید بنائیں۔ کیونکہ اگر عید کے دن بھی ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے درد کو نہ سمجھ سکیں، تو ہم سے بڑا مردہ کوئی نہیں۔
فقط و السلام
بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
١٠؍ ذی الحجہ ١٤٤٦ھ بروز سنیچر
#PaighameFurqan | #EidulAdha | #EidulAzha | #Qurbani | #Palestine | #Gaza | #Muslim | #Ummah | #MTIH | #TIMS
No comments:
Post a Comment