Saturday, 21 August 2021

ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، نئی نسل کو اپنی تاریخ سے واقف کروانا وقت کی اشد ضرورت ہے!



 ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، نئی نسل کو اپنی تاریخ سے واقف کروانا وقت کی اشد ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے جشن یوم آزادی کانفرنس سے مولانا اشہد رشیدی، مفتی اشرف عباس قاسمی، مفتی سبیل احمد قاسمی اور مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحبان کا خطاب!


 بنگلور، 19؍ اگست (پریس ریلیز): یوم آزادی کے موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان آن لائن ”جشن یوم آزادی کانفرنس“ منعقد ہوا۔ جس کی صدارت جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے مہتمم اور جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر نواسۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اشہد رشیدی صاحب نے فرمائی۔ جبکہ کانفرنس کی نگرانی مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان اور نظامت جمعیۃ علماء رائچور کے صدر مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی نے فرمائی۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا اشہد رشیدی صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو سمجھنے کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہیکہ جو کردار ہمارا ہے وہ کسی کا نہیں ہے، جو کردار ہمارے بزرگوں نے پیش کیا ہے دوسری قومیں اپنے پاس اسکی کوئی مثال نہیں رکھتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہیکہ آج مسلم قوم اور ہمارے نوجوان خود اپنے بزرگوں کی تاریخ، کردار اور وطن عزیز کیلئے ان کی قربانیوں سے ناواقف ہے۔ مولانا نے آزادی وطن میں ہمارے بزرگوں کی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان کے طول و عرض پر مسلمانوں نے حکومت کی اور ملک کو سونے کی چڑیا بنایا۔ لیکن جب شاہی خاندان میں بے راہ روی عام ہوگئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ملک کی سیاست میں دخل دینا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ پورے ملک پر قبضہ جمانا شروع کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے پہلے انگریز کے خلاف بغاوت اور جہاد کرنے والے مسلمان ہی تھے۔ جنوبی ہند میں حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے 1799ء میں جام شہادت نوش فرمالی۔ اور ادھر 1803ء میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒنے انگریز کے خلاف جہاد کرنے کا فتویٰ دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ 1857 میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہید ؒجیسی بزرگ ہستیوں نے انگریز کے خلاف جہاد کیا۔ پھر 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی تاکہ جنگ آزادی کیلئے ہماری نسلوں کو تیار کیا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ 1907ء میں انگریز کے خلاف حضرت شیخ الہندؒ نے ریشمی رول کی تحریک چلائی۔ جس کی وجہ سے انہیں اور انکے شاگرد شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کو مالٹا کی جیل میں قید کردیا گیا۔ پھر 1919ء میں جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی، جس نے برادران وطن کو ساتھ لیکر آزادیٔ وطن کیلئے قربانیاں پیش کیں اور ہزاروں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد بالآخر 1947ء میں ہندوستان آزاد ہوا۔ مولانا نے فرمایا کہ 1803ء سے لیکر 1919ء تک آزادی کے حصول کیلئے صرف مسلمان ہی انگریز سے لڑتے رہے اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے رہے جس کی مثال کسی اور قوم کے پاس نہیں ہے۔ مولانا اشہد رشیدی نے موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں نفرت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے لہٰذا ان حالات میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر قومی اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے اور آپسی ملاپ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہمیں اعمال صالحہ کو انجام دیتے ہوئے زندگی کے ہر قدم پر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ راضی ہوگیا تو ساری دنیا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند استاذ حدیث حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی صاحب نے فرمایا کہ جب ملک کی فرقہ پرست طاقتیں جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناقابل فراموش قربانیوں کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کررہی ہیں، ایسے حالات میں ملک و ملت کو مسلمانوں کی روشن تاریخ سے واقف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا نے آزادی ہند میں مسلمان بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کی تاریخ آزادی کبھی مکمل نہیں ہوسکتی بلکہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ موجودہ حکومت نے 14؍ اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے نام پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کے باشندوں کو آزادیٔ وطن کی اصل تاریخ اور تقسیم کی اصل حقیقت اور ذمہ داران سے واقف کروانا چاہئے۔ غلط تاریخ بتاکر اصل تاریخ کو قطعاً مٹانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر حضرت مولانا مفتی سبیل احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ سے لیکر حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ، حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت شیخ الاسلامؒ تک ہزاروں مسلمان خصوصاً علماء کرام کی قربانیوں سے ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا آج ضرورت ہیکہ ہم نوجوان طبقہ بالخصوص عصری تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف کروائیں، اسکول و کالج اور مدارس اسلامیہ میں تاریخ آزادی کو نصاب میں داخل کیا جائے، تحریک آزادی میں صف اول میں شامل رہنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند سے جڑ کر قومی یکجہتی اور پیام انسانیت کو عام کرنی کی کوشش کریں، مجاہدین آزادی کی تاریخ کو پورا سال بیان کریں۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ آج فرقہ پرست طاقتیں مجاہدین آزادی کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کررہی ہیں بالخصوص حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ پر بے جا تنقید کی جاتی ہیں، جو جنگ آزادی کے اولین مجاہدین میں سے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جس طرح آزادی وطن میں تمام مذاہب والوں نے ایک ہوکر قربانیاں پیش کی تھیں اسی طرح اپنے آباؤ اجداد کی روشن تاریخ کی حفاظت اور اس ملک کی ترقی اور سلامتی کیلئے تمام مذاہب والوں کو متحد ہونا پڑے گا اور ایک ہوکر کام کرنا پڑے گا۔


 قابل ذکر ہیکہ اس عظیم الشان جشن یوم آزادی کانفرنس کا آغاز قاری اسامہ کی تلاوت اور قاری فخر الاسلام کبیر نگری کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے تمام مہمانان کا استقبال کیا۔ اسٹریم میں مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی خاص طور پر شریک تھے۔اپنے خطاب میں تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کے خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Thursday, 19 August 2021

سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ



”سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ“

(10؍ محرم الحرام یوم شہادت)


از قلم: بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادتِ باسعادت 5؍ شعبان المعظم سن 4 ھ مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال قبیلہ بنو ہاشم میں حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر ہوئی۔ آپ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے، شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیؓ و خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ کے چھوٹے بیٹے اور حضرت سیدنا حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ ؓکی ولادت کی خوشخبری سنکر جناب محمد رسول اللہﷺ تشریف لائے، آپ کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنا لعاب مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمایا اور دعائیں دیں اور ”حسین“ نام رکھا۔ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کی گئی۔ آپؓ کی کنیت ”ابو عبداللہ“ہے۔ آپؓ کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کریگا۔ حسین میری اولاد میں بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح ابن حبان)

 

حضرت حسین ؓ نے اپنے نانا حضور اکرمؐ سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضی ؓاور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپؓ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحم دلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے والد ماجد امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسن ؓسینہ سے لے کر سر مبارک تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور سیدنا حضرت حسین ؓ قدموں سے لے کر سینہ تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور آپؐ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے۔ اس مشابہت ِرسول اللہ ؐکااثر فقط جسم کے ظاہری اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ آپ ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ آپؓ کے مقام کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ”حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔“ (ترمذی)


جناب محمد رسول اللہ کو اپنے لاڈلے حسین سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ حضرت حسینؓ کو گود میں اٹھاتے، سینہ مبارک سے لگاتے، کاندھے مبارک پر اٹھاتے، کمر مبارک پر بٹھا کر پھراتے۔ نماز میں سجدے کی حالت میں اگر حضرت حسینؓ آپ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے تو نہ انہیں کبھی ڈانٹتے نہ ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ بلکہ سجدہ کو طول کر دیا کرتے یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علاحدہ ہوجاتا۔ آپؐ کا معمول یہ تھا کہ کبھی حضرت حسین ؓکے ہونٹوں کو بوسہ دیتے تو کبھی رخسار کو چومتے۔ آپؐ کا اپنے نواسوں سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ”جس نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا“ (مسند امام احمد)۔ نیز حضرت حسینؓ کی شان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ حضرت حسینؓ کو اپنے کندھے مبارک پر اٹھائے ہوئے تھے کہ ایک صحابی یہ منظر دیکھ کر بولے ”اے بچے! تم کتنی بہترین سواری پر سوار ہو۔“ رسول اللہ نے جوابا فرمایا”سوار بھی تو کتنا بہترین ہے“ (ترمذی شریف)۔ خلیفۂ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، خلیفۂ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ اورخلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ سمیت تمام صحابہ کرام کو بھی حسنین کریمین اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور الفت تھی۔


نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپؓ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپؓ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ شب زندہ دار اور سوائے ایام ممنوعہ کے ہمیشہ روزہ سے ہوتے۔ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے فرماتے اور حج بھی بکثرت کرتے ایک روایت کے مطابق آپ نے پچیس حج پیدل فرمائے۔ آپ ؓ کی مجالس وقار و متانت کا حسین مرقع اور آپؓ کی گفتگو علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتی۔ لوگ آپؓ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اوران کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپؓ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہؐ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا ”حسین میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے۔“ چنانچہ آپؓ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا۔بعض دفعہ خود ضرورت مندوں کے پاس جاکر انکے مسائل حل کرتے۔ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپؓ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آپؓ انہیں آزاد کر دیتے تھے۔ آپؓ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا۔ مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپؓ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپؓ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ ”صحیفہ حسینیہ“ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے۔آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔


مظلومانہ شہادت:

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفیوں کے بے شمار خطوط موصول ہونے پر سفر پر روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفے کا جائزہ لینے بھیجا تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی۔ نیز کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر آپ نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لائیں۔ لہٰذا حضرت سیدنا حسینؓ سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً کوفہ کے موجودہ حاکم نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ اس نے کوفہ پہنچ کر یہ اعلان کیا کہ جو بھی یزید کی بیعت پر قائم رہے گا اسکی جان بخش دی جائیگی ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ابن زیاد کے اس اعلان کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسینؓ سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ دیا۔دوران سفر حضرت حسینؓ کو یہ بھی اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کردیا ہے۔ جسے سن کر حضرت حسینؓ کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں میں سے کچھ حضرات نے سفر کو ختم کردیا اور واپس ہوگئے لیکن حضرت حسین ؓنے اپنا سفر جاری رکھا۔ چنانچہ قافلہ روانہ ہوا، مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے مسلح سوار لشکر کے ساتھ ملا۔ حضرت حسین ؓنے کوفیوں کے تمام خطوط دکھائے اور کہا کہ تم لوگوں نے خود دعوت دی ہے، اب اگر آپکا ارادہ بدل گیا ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ لیکن آپ ؓکے مطالبے کو قبول نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ مختصر سا قافلہ 2؍ محرم الحرام 61ھ کو آخر کار کربلا پہنچا۔ ابن زیاد نے خط کے ذریعے حضرت حسینؓ کو کہا کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسینؓ نے صاف انکار کردیا۔ لہٰذا چند افراد، یعنی 72؍ افراد کے روبرو ہزاروں کا لشکر کھڑا کیا گیا۔ 10؍ محرم الحرام 61 ھ کو میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا اور حضرت حسینؓ کے خیمہ کو گھیر کر جلا دیا اور نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور انکے خاندان کے کئی افراد اور رفقاء سمیت سب کو شہید کردیا گیا۔ آخر نبی کریمؐ کی پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی۔ اس طرح یزید کے بھیجے ہوئے لشکر نے حضرت حسین کو شہید کردیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نے حضرت حسین ؓکو فقط گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابن زیاد نے انہیں شہید کیا اور بعض نے لکھا ہے کہ چونکہ یزید کی دور حکومت میں حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا اور یزید اگر چاہتا تو اسے روک سکتا تھا لہٰذا حضرت حسین ؓکی شہادت کا ذمہ دار براہ راست یزید ہے۔ لہٰذا ہمارے جمہور علماء اور اکابرین کا مؤقف یہ ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت یزید کے دور حکومت اور اسی کی فوج سے ہوئی اور یزید فاسق و فاجر بھی تھا لیکن یزید کے مسئلہ پر سکوت اختیار کرنا چاہئے یعنی اس پر نہ تو رحمت بھیجی جائے اور نہ ہی لعنت۔ یزید کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ”سکوت اور توقف کرنا چاہئے، نہ اس کو کافر کہا جائے نہ اس پر لعن طعن کیا جائے، بلکہ اس کے امر کو خدا کے حوالے کردینا چاہئے“(فتاوی دارالعلوم)۔ اس کے علاوہ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ یزید کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں کہ ”اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لعن نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب محض مباح ہے۔ اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں“(فتاوی رشیدیہ: 78؍ قدیم)۔ الغرض حضرت سیدنا حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے،جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے ہزاروں صفحات روشن ہیں۔ سانحہ کربلا سے ایک اہم پیغام یہ بھی ملتا ہیکہ ”حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جکھ نہیں سکتا۔“

مولانا محمد علی جوہر ؒنے کیا خوب کہا:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید تھا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٠؍ محرم الحرام ١٤٤٣ھ

19؍ اگست 2021ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


____

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #HazratHusain #Husain #YaumeSahadath #Muharram

Monday, 16 August 2021

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مشاعرۂ جشن آزادی کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!



 مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مشاعرۂ جشن آزادی کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!

تحریک آزادی اردو شعر و ادب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی: مفتی افتخار احمد قاسمی


بنگلور، 16؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یوم آزادی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان آن لائن مشاعرۂ جشن آزادی مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن بنگلور و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) کی صدارت اور مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی میں منعقد ہوا۔ جسکی نظامت کے فرائض مدرسہ تعلیم القرآن شاخ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے صدر المدرسین مولانا غفران احمد ندوی نے انجام دئے۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی اس مشاعرے کے کنوینر رہے اور مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان خاص طور پر شریک تھے۔ مشاعرے کا آغاز قاری محمد ثاقب قاسمی معروفی کی تلاوت اور قاری بدرعالم چمپارنی کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ مشاعرۂ جشن آزادی میں ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام نے شرکت کی۔ خصوصاً مولانا سجاد اعظم قاسمی لکھیم پوری، قاری اشفاق بہرائچی، قاری وجیہ الدین جلال کبیرنگری، مولانا فیصل میرٹھی، قاری فردوس کوثر جھارکھنڈ، قاری بدرعالم چمپارنی، وغیرہ نے اس عظیم الشان آن لائن مشاعرۂ جشن آزادی میں شرکت فرماکر سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ بالخصوص جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار، اپنے بزرگوں کی جد وجہد، دارالعلوم دیوبند اور اسکے اکابرین کی قربانیاں، حب الوطنی اور قومی یکجہتی پر بہترین اشعار پڑھے۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز کے سرپرست مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ شاعری انسانی جزبات کی عکاسی کرنے کا ایک خوبصورت اور نہایت طاقتور ذریعہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کی باتیں چونکہ وحی خداوندی والہامات ربانی پہ مبنی ہوتی ہیں؛ جبکہ شعراء کی باتیں شعور وآگہی، تخیل، پروازیِ فکر اور بسا اوقات حد درجہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں؛ اس لیے شعر وشاعری نبیوں اور رسولوں کے مقام نبوت کی شایان شان قرار تو نہیں دی گئی، لیکن رسولوں سے مطلقاً اس کی نفی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ یہ فن عطاء نہیں ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذبان مبارک سے مختلف مواقع پر بیساختہ اشعار جاری فرمایا۔ اس معلوم ہوا کہ شعر و شاعری کہنا جائز ہے کیونکہ اگر شعر کہنا صحیح نہیں ہوتا تو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے شعر کبھی جاری نہیں ہوتا۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام اشعار پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم داد وتحسین سے نوازتے تھے، گویا کہ یہ مشاعروں کی محفل ہوا کرتی تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ شعر و شاعری بہت اچھا فن ہے اور اس کے ذریعے بڑے بڑے انقلابات روئے زمین پر رونما ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں قدیم زمانے سے شعر و شاعری کا سلسلہ چلا آرہا ہے اور ہندوستان کے مشاعروں نے قومی یکجہتی میں بڑا رول ادا کیا ہے، ملک کی آزادی کی تحریک میں قومی جذبے اور حرارت کو کوٹ کوٹ کر بھردیئے۔ یہی وجہ ہیکہ تحریک آزادی شعر و شاعری اور اردو ادب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں مشاعرے ابتداء خالص اصولی، ادبی اور تہذیبی شان کے حامل وامین  اور تہذیبی اقدار وتقدس کے محافظ رہے۔ ادب وشائستگی، حیاء و وقار ان مشاعروں کا خاص امتیاز رہا ہے۔ لیکن ادھر قریب ایک دہائی سے ہمارے ملک کے اردو مشاعرے ہماری تاریخی ثقافت، ادبی معنویت اور تہذیبی روایات کھو بیٹھے، مشاعرے کی تہذیبی فضاء بری طرح مجروح ہوئی، ادبی معیار گھٹ کر بازاری بن گیا،  اسلام نے جس جاہلی شاعری کی تطہیر کی تھی، فحاشی وعریانیت، شہوت انگیز بد گوئی اور فضولیات پہ مشتمل اشعار کو ناجائز وحرام قرار دیا تھا۔ اعتقادات و اخلاقیات کو خراب وفاسد کردینے والی حیاء باختہ و گمراہ کُن منفی شاعری پہ بندش لگائی تھی، ہمارے مشاعرے پھر اسی جاہلی شاعری کی ڈگر پہ رواں ہوگئے، دبے پاؤں ان میں پھر وہی ساری خرابیاں در آئیں۔ مولانا نے فرمایا آج ضرورت ہیکہ ہم ان مروجہ مشاعروں کو روکنے کی بھر پور کوشش کریں اور انکا بائیکاٹ کریں اور مشاعروں کی محفلیں اس طریقہ پر منعقد کریں جس کی ہمیں شریعت اجازت دیتی ہو اور جس طرح دور نبوی میں قائم ہوتا تھا۔ مولانا افتخار احمد قاسمی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے شرعی حدود میں رہ کر اس مشاعرہ کو منعقد کرکے امت کے سامنے ایک مثال قائم کردی، لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ بھی اسی طریقے پر مشاعرہ منعقد کریں اور مروجہ مشاعرہ سے بلکل احتراز کریں۔ قابل ذکر ہیکہ پروگرام کے اختتام سے قبل مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر مشاعرہ، شعراء کرام، مہمانان خصوصی اور آنے والے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر مشاعرہ مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی دعا سے یہ عظیم الشان مشاعرۂ جشن آزادی اختتام پذیر ہوا۔

Sunday, 15 August 2021

ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں کی سنہری تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی!









 ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں کی سنہری تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یوم آزادی کے موقع پر جشن یوم آزادی کانفرنس!


بنگلور، 14؍ اگست (پریس ریلیز): یوم آزادی 15؍ اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے، اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، اور طوقِ سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا۔ ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، تختہ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرأت و حوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید و بند کی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے، اور تقریباً دو سو سال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا اور انگریز ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے اور ہندوستان آزاد ہوا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ آج ہم جو اطمینان اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں، اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے۔ اگر مسلمان میدان جنگ میں نہ کودتے اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد و آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان غلامی سے نجات نہیں پاسکتا تھا۔ بلکہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔کیونکہ ہم نے اس راہ میں اپنا اتنا خون بہایا ہیکہ دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب لیے جان وتن نچھاور کیا۔ سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک وطن کی محبت میں کمی آنے دی۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ افسوس کی بات ہیکہ جدوجہد آزادی میں جس قوم مسلم نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں آج اسکی تاریخ کو مٹانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے اور مسلمان بھی اس سلسلے میں غفلت کا شکار نظر آرہے ہیں۔ایک سازش کے تحت فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپانے اور عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ ایسے دور میں ضرورت ہیکہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کی روشن تاریخ کو ملک کے چپے چپے تک پہنچائیں بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کو اپنی تاریخ سے واقف کروائیں، کیونکہ جو قوم اپنی تاریخ ماضی فراموش کردے اسکا وجود ختم ہوجاتا ہے۔مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے یوم آزادی کے موقع پر ”عظیم الشان آن لائن جشن یوم آزادی کانفرنس“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی صدارت جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر نواسہئ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اشہد رشیدی صاحب (مہتمم جامعہ قاسمی شاہی مرادآباد) فرمائیں گے، جبکہ بطور مہمانان و مقررین خصوصی کے طور پر دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی اشرف عباس قاسمی صاحب، جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر حضرت مولانامفتی سبیل احمد قاسمی صاحب اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب شرکت فرمائیں گے۔جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی تلاوت اور قاری فخر الاسلام کبیر نگری کے نعتیہ اشعار سے کانفرنس کا آغاز ہوگا اور جمعیۃ علماء رائچور کے صدرمفتی سید ذیشان حسن قادری قاسمی کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دینگے۔ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر 15؍ اگست بروز اتوار کی رات 9:00سے براہ راست لائیو نشر کیا جائے گا۔محمد فرقان نے تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ اس اہم اور عظیم الشان آن لائن جشن یوم آزادی کانفرنس میں شرکت کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں اور جنگ آزادی کی حقیقی تاریخ سے پورے ملک کو واقف کرائیں۔

Saturday, 14 August 2021

تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابل فراموش ہے!

 



تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابل فراموش ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان مشاعرہ جشن آزادی، اہل وطن سے شرکت کی اپیل!


 بنگلور، 13؍ اگست (پریس ریلیز): ہندوستان کی جنگ آزادی کی تحریک ایک ایسی داستان کا درجہ رکھتی ہے، جو شہیدان وفا کے خون سے گوناگوں رنگین نظر آتی ہے۔ جس میں ایک رنگ اردو کا بھی ہے۔ جب بھی تحریک آزادی کی بات چھڑیگی تو”اردو“ کا تذکرہ ضرور ہوگا کیونکہ اس کے تذکرے کے بغیر تحریک آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہماری مادری زبان اردو نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ جب ہمارا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تو اس دوران سرزمین ہند نے اپنی کوکھ سے جہاں بے شمار مجاہدین آزادی کو جنمیں دیا وہیں بے شمار شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو بھی جنم دیا۔اردو شعراء نے وطن کی محبت میں نہ جانے کتنے ترانے گائے۔ انقلاب زندہ باد اور آزادی پائندہ باد جیسے نعرے لگائے۔ انکی شعر و شاعری اور شعلہ بار تقریروں سے تمام ہندوستانیوں بالخصوص مجاہدین آزادی کو عزم و حوصلہ اور طاقت و توانائی عطا کرنے، عوام کو بیدار کرنے، اس کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے، ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے، انگریزوں کے ظلم کی داستان بیان کرنے اور انسانوں کی پیدائش و فطری آزادی کا نعرہ بلند کرنے کا کام نہایت کامیابی سے کیا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ لہٰذا اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے 75ویں یوم آزادی کے جشن کے طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند بتاریخ 14؍ اگست 2021ء بروز سنیچر ٹھیک رات 8:00بجے ایک ”عظیم الشان آن لائن مشاعرہ جشن آزادی“ کے عنوان سے ایک آن لائن مشاعرہ منعقد کرنے جارہی ہے۔ جسکی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک و مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن بنگلور) فرمائیں گے اور نظامت کے فرائض حضرت مولانا غفران ندوی صاحب (صدر المدرسین مدرسہ تعلیم القرآن شاخ ندوۃ العلماء لکھنؤ) انجام دینگے۔ جبکہ ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام مثلاً مولانا سجاد اعظم قاسمی لکھیم پوری، قاری اشفاق بہرائچی، قاری وجیہ الدین جلال کبیرنگری، مولانا فیصل میرٹھی، قاری فردوس کوثر جھارکھنڈ، قاری بدرعالم چمپارنی، وغیرہ اس عظیم الشان آن لائن مشاعرہ جشن آزادی میں شرکت فرمائیں گے اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اس مشاعرے کے کنوینر مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی رہیں گے اور مشاعرہ کا آغاز مولانا قاری محمد ثاقب معروفی صاحب قاسمی (استاد تجوید و قرأت مدرسہ کنز العلوم ٹڈولی سہارنپور) کی تلاوت سے ہوگا۔ اختتام سے قبل صدر مشاعرے و سرپرست مرکز کا”جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار“کے عنوان پر کلیدی و جامع خطاب ہوگا۔ یہ مکمل پروگرام مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اہل وطن سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔