Tuesday, 21 November 2023

قرب قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی!

 قرب قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا خطاب!



بنگلور، 19؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہ مرادآباد کے مہتمم فاتح شکیلیت حضرت اقدس مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے فرمایا روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلے گھر مسجد حرام خانۂ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر ہوئی۔ مسجد اقصیٰ روئے زمین پر بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الٰہی کیلئے تعمیر کیا گیا۔ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتی۔ معراج کے سفر میں بھی یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی منزل تھا۔ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت بیت المقدس میں فرمائی۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کی پاک سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن رہا ہے، اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتا ہے، یہ بڑی بابرکت سرزمین ہے۔ مولانا نے فرمایا یہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ فتح ہونے کے بعد کسی کا ایک قطرہ خون نہیں بہا تھا، کسی پر ظلم نہیں ہوا تھا اور انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ سب کی عام معافی کی جاتی ہے۔ بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے سن 1099 (490ھ) میں صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا اور تقریباً ستر ہزار مسلمان شہید کر دیئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔  لیکن پھر سن 1087 (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے بیت المقدس کو فتح کیا۔  اب یہ ہو سکتا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ 490 ہجری کے تمام ظلم و ستم کا حساب لے لیتے، یہ ممکن تھا اور ان کے پاس طاقت بھی تھی، وہ اگر چاہتے تو صلیبیوں کے لاشوں کے ڈھیر لگاتے تھے لیکن مسلمانوں کا انصاف، مسلمانوں کے دریا دلی، مسلمانوں کا عفو و درگزر آپ دیکھیے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کسی بھی طرح کا انتقام لینے کے بجائے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس سنت کو زندہ کیا اور پھر عیسائیوں کو یہ رعایت دی کہ جو چاہے یہاں سے نکل جائے، جو چاہے یہاں پر رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی، یہاں تک کہ سن 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر سن 1967ء میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ قرب قیامت میں شام میں اسلام کا غلبہ ہوگا، قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرب قیامت جب فتنے بکثرت ہونگے تو ایمان اور اہل ایمان زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا لشکر ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سب سے پہلی علامت حضرت امام مہدی کا ظہور ہے، احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے کہ امام مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، تو مسلمان امام مہدی کو تلاش کریں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ شام روانہ ہوں گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوجائیں گے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، امام مہدی ملک کا انتظام سنبھال کر وہاں سے قسطنطنیہ فتح کرکے شام کے لئے روانہ ہوں گے، دمشق میں انکا قیام ہوگا اور عرصے بعد دجال نکل پڑے گا، دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور گھومتا گھماتا دمشق کے قریب پہنچ جائے گا۔ اسی دوران سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا۔ اس کے بعد دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا، بالآخر باب لد پر پہنچ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا اور آخری وقت زمانۂ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور بیت المقدس آزاد ہوگا۔ اس وقت روئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے گا، سب مسلمان ہوں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ اب قیامت بہت قریب ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم اہل فلسطین کی مدد کریں اور اپنے اعمال کی فکر کریں۔ نیز بیت المقدس کے ان مجاہدین کیلئے دعا کریں اور قنوت نازلہ پڑھیں جو بیت المقدس کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ انکی مدد و نصرت فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے رکن شوریٰ مولانا سید ایوب قاسمی، قاری یعقوب شمشیر، عمران خان بطور خاص موجود تھے۔اس موقع پر حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھٹی نشست اختتام پذیر ہوئی۔

#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS 

Monday, 20 November 2023

مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

 مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست مفتی افتخار احمد قاسمی کا ملت اسلامیہ کے نام اہم پیغام!

بنگلور، 17؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے تحت گزشتہ پندرہ دنوں سے ”عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس“ پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ ملک کے اکابر علماء کرام اس کانفرنس سے کلیدی خطاب فرمارہے ہیں۔ اس درمیان مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے امت مسلمہ کے نام ایک پیغام جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری ملت اسلامیہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس وقت اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارض فلسطین اور اس مقدس سرزمین کے مکین تقریباً ستر سالوں سے اسرائیل کا ظلم سہتے آرہے ہیں اور تنے تنہا کسی کی مدد ونصرت کے بغیر مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے صرف اور صرف توکل الی اللہ پر اپنی بساط اور طاقت وقوت کے بقدر ان ظالموں کا بھر پور جواب دیتے آرہے ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ سلام ہو ان فلسطینی جیالوں پر جو بے خوف وخطر ہو کر تنہ تنہا مسلسل ان ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ گزشتہ ایک مہینے سے اسرائیلی فوج کی فضائی درندگی اور ظلم وستم کا سلسلہ دوبارہ جاری ہے، وہ مسلسل جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں مگر دنیا کے لئے قوانین بنانے والے سب کے سب خاموش ہیں، اسرائیل غزہ کی آبادیوں میں، تعلیم گاہوں پر اور ہسپتالوں پر بم برسارہا ہے اور اس وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے، لیکن اس قدر کٹھن اور نازک حالات میں بھی مظلوم فلسطینی ثابت قدم اور پُر جوش ہیں۔ ایسے حالات میں جب اہل فلسطین پوری ملت اسلامیہ کی جانب سے فرض کفایہ کے طور پربخوبی اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں اور اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی جان، مال، جائداد اور اپنے عزیزوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں، تو ہم لوگ جو ان سے بہت دور بیٹھے ہیں ہماری یہ ذمہ داری ہیکہ ان کے ساتھ برابر کھڑے رہیں، ان سے اظہار ہمدردی و یکجہتی کریں، ان کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں، فجر میں قنوت نازلہ پڑھنے کا اہتمام کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ نیز یہ بھی ضرورت ہیکہ ہم بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی تاریخ، اسکے مقام و مرتبہ، اسکی اہمیت و فضیلت سے امت مسلمہ کو واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ انہیں مقاصد کے حصول کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے تحریک تحفظ القدس کے تحت عظیم الشان تحفظ القدس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا، جو پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری ہے اور روزانہ رات بعد 9 بجے منعقد ہورہی ہے۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام مخصوص عناوین پر اپنے منفرد انداز میں خطاب فرما رہے ہیں۔جو مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹیوٹر اکاؤنٹ پر براہ راست لائیو نشر کیا جاتا ہے۔ اب ہمارے یہ ذمہ داری ہیکہ ہم اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے کم از کم ان پروگرامات میں شریک ہوں اور تاریخ سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے اہل فلسطین سے یکجہتی کا اظہار کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس مبارک تحریک تحفظ القدس اور تحفظ القدس کانفرنس کے سلسلے کو بے انتہا قبول فرمائے اور اس کے انعقاد کے مقاصد میں بھرپور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS


Friday, 17 November 2023

فلسطین و غزہ میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے، جمعیۃ علماء ہند اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی ہے!

 فلسطین و غزہ میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے، جمعیۃ علماء ہند اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے قائد جمعیۃ مولانا محمد حکیم الدین قاسمی کا خطاب!



بنگلور، 15؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چودھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد حکیم الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین کی سرزمین پر قائم کی جانے والی صیہونی ریاست اسرائیل ایک ناجائز اور غاصب ریاست ہے۔ جس نے 1948ء میں بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا، جو گذشتہ پچھتر سالوں سے مسلسل فلسطینی عوام کو قتل کر رہی ہے اور ظلم و بربرہت کی بدترین داستیں رقم کر رہی ہے اور آج بھی اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جب فلسطین کی زمینوں کو بیچنے کیلئے عرب علماء نے اجازت دی تھی تو اس فیصلے پر ہمارے اکابر علماء دیوبند راضی نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ارضِ فلسطین کے ساتھ ایک ظلم اور زیادتی کے مترادف ہوگا۔ صیہونی ریاست کے قیام سے اس سرزمین کے اصل وارث یعنی فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بار، کاروبار اور حیاتِ زندگی تنگ کر دی جائے گی، جبکہ بیت المقدس قبلۂ اول بھی غاصب صیہونی ریاست کے قبضے میں چلی جائے گی۔ مولانا نے غزہ میں ہونے والے قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت غزہ بچوں کے قبرستان میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس علاقے میں روزانہ سیکڑوں بچے اور بچیاں جاں بحق یا زخمی ہو رہی ہیں، غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے، غزہ میں بے تحاشہ بمباری اور زمینی حملوں کے ساتھ ہی اہل غزہ کے لئے اناج، پانی اور غذا کی سپلائی بھی بند کردی گئی ہے، جس کے بعد فلسطینی عوام بھوک اور پیاس سے بھی پریشان ہوکر موت کی نیند سورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ کی صورتحال دن بہ دن اور مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ افسوس کہ جنگی اصولوں کی دھجیاں اڑانے اور انسانی بنیادوں پر حملے کے باوجود اس ظلم و ستم کو روکنے کے بجائے دنیا کے نام نہاد انسانیت دوست ممالک اور اورعالمی حقوق انسانی کے محافظ تنظیمیں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اور دوسری طرف عالم عرب بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جو قابل افسوسناک ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی مسلمانوں کیلئے بہت مقدس ہے، یہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور فلسطین انبیاء علیہم السلام کا مسکن اور مدفن ہے۔ لہٰذا مسجد اقصٰی اور ارض فلسطین سے مسلمانوں کا مذہبی اور ایمانی تعلق ہے۔یہی وجہ ہیکہ آج فلسطین اور غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت فلسطین اور غزہ میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہیکہ اسے اسلام اور کفر کی شکل نہ دیکر اسے ظالم اور مظلوم کی شکل دینی چاہیے اور دیگر اقوام عالم کو ساتھ لیکر اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے۔ مولانا نے فرمایا نہ صرف مذہبی اعتبار سے بلکہ تاریخی اعتبار سے سرزمین فلسطین پر مسلمانوں کا حق ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مولانا نے دوٹوک انداز میں فرمایا کہ اس دنیا میں بہت سارے ظالم پیدا ہوئے لیکن اللہ نے ان کی ایسی پکڑ کی کہ آج انکا نام و نشان تک باقی نہیں ہے کیونکہ ظلمت کی شب زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی اور ہمیشہ مظلوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت شامل حال رہتی ہے۔ لہٰذا یاد رکھیں کہ ایک وقت آئے گا جب ظالم اسرائیل کا نام و نشان نہیں رہے گا اور فلسطین دوبارہ آباد ہوگا جس پر مسلمانوں کا مکمّل اختیار ہوگا۔مولانا نے فرمایا کہ جمعیۃ علماء ہند روز اول سے اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی تھی، کھڑی ہے اور آئندہ بھی کھڑی رہے گی، نیز غزہ پر اسرائیل کی جارحیت، وحشیانہ حملوں اور مظالم کی جمعیۃ علماء ہند نہ صرف شدید مذمت کرتی ہے بلکہ اہل فلسطین و غزہ کیلئے مدد و معاونت کیلئے بھی کوشاں ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ایسے حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری یہ ہیکہ وہ اہل فلسطین و غزہ کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف دیگر اقوام عالم کو لیکر صدائے احتجاج بلند کریں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چودھویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا محمد حکیم الدین صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد حکیم الدین قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چودھویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)




گزشتہ کئی دہائیوں سے غزہ اور فلسطین میں جاری اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے پیش نظر حالیہ دنوں حماس کے 'طوفان الاقصیٰ' آپریشن کے بعد سے قبلۂ اول بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آگئے۔ بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہل فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ انکے خون سے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے ہر چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب ہی جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اس کے بارے میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بزبان حال یہی کہ سکتے ہیں:
تم شہرِ اماں کے رہنے والے! درد ہمارا کیا جانو!
ساحل کی ہوا تم موج صبا طوفان کا دھارا کیا جانو!

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ فلسطین کا غم امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔ اور یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہیکہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
اقصٰی کی زمین کو ہم سب مل کے چھڑائیں گے
تاریخ فلسطین ہم گھر گھر میں بتائیں گے

https://markaztahaffuzeislamhind.blogspot.com/2021/06/blog-post_11.html

قارئین! ”القدس“ فلسطین کا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصٰی اور گنبد الصخرہ واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ شہر 31؍ درجے 45؍ دقیقے عرض بلد شمالی اور 35؍درجے 13؍ دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے۔ القدس کو یورپی زبانوں میں ”یروشلم“ کہتے ہیں۔ القدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام ”کوہِ صیہون“ ہے جس پر ”مسجد اقصٰی“ اور ”گنبد الصخرہ“ واقع ہیں۔ مسجد اقصی کے اطراف 1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر 09؍ دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔

مسجد اقصٰی کی بنیاد مکہ مکرمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے ڈالی۔ پھر اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علیہ السلام نے کی۔ عرصۂ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس مقام پر رکھی جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی۔ چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اقصٰی کو تعمیر کیا۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، ہجرت کے بعد 16؍ سے 17؍ ماہ تک نبی کریمﷺ بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی ہے۔ مقامی مسلمان اسے ”المسجد الاقصیٰ“ یا ”حرم قدسی شریف“ کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے“ (سورہ الاسراء)۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں۔ مسجد اقصٰی روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔ جہاں ایک نماز کا ثواب ڈھائے سو اور بعض روایتوں کے مطابق 25؍ ہزار ملتا ہے۔

بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جب نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور تھا۔ لیکن اسی وقت نبی کریمﷺ نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت 16ھ مطابق سن 236ء میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ سن 66ھ اور 86ھ کے درمیان خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور سن 86ھ اور 96ھ کے درمیان انکے صاحبزادے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔

بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا۔ اور ادھر فاطمی حکومت نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجوقیوں کے خاتمے کیلئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئی طرح کی سہولتیں فراہم کردیں اور بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی خلفاء کے ساتھ غداری اور دھوکہ کیا۔ اور القدس پر قبضہ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرلیا اور پھر 70؍ ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے بالآخر 492ھ مطابق سن 1099ء کو صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ اور یروشلم پر اپنی مسیحی حکومت قائم کردی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔

پھر اسکے بعد سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16؍ جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر 538ھ مطابق سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ اور مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی۔ پھر پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ 14؍ مئی 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور جب 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی، فلسطین کے 78؍ فیصد رقبے پر قابض ہوگئے۔ تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ پھر تیسری عرب اسرائیل جنگ جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ اور اس طرح سن 1967ء سے بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔

اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآبؐ میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کیخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ بیسویں صدی کے حادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے۔ یہود ونصاریٰ نے یہ مسئلہ پیدا کرکے گویا اسلام کے دل میں خنجر گھونپ رکھا ہے۔ سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہوئے غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کرکے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21؍ اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔

گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کے ملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ غزہ تو مکمل ایک زندان بن چکی ہے۔ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عالم اسلام اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر مقاومت کی کوشش کرتا تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر عالم اسلام کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔ ’صدی معاہدہ‘ کی آمادگی اور اس کے نفاذ میں متعدد اسلامی ملکوں کی شمولیت اور کچھ عرصے قبل عالم عرب کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توسیع نے یہ ثابت کردیا کہ عالم عرب ’القدس‘ کی بازیابی کے لیے سنجید ہ نہیں ہے۔ وہ دشمن کے عزائم کی کامیابی میں حصہ دار اور مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنے مفادات کے لیے سمجھوتہ کرنے والی قوم ہے۔ ورنہ اگر مسلمان ممالک متحد ہوکر القدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے قبضے سے آزاد نہ ہو۔ فلسطینی مظلوموں کی زبانی حمایت اور درپردہ صہیونیت نوازی نے اسرائیل کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیا۔ آج یمن، شام، عراق اور فلسطین کے ناگفتہ بہ حالات دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا نتیجہ کم، عالم اسلام کی غلامی اور بے حسی کا نتیجہ زیادہ ہے۔ عرب قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت ہی غیرت مند قوم ہوتی ہے لیکن پے درپے جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست، امریکی غلامی اور عیاشی نے اسے بزدل قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ اسی کا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کردیتا ہے۔ اگر خطے کے ممالک فلسطین کی مدد و معاونت، فنڈ اور اسلحہ فراہم کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی اور فلسطینی جانباز اپنے دم پر ہی اسرائیل کا ناطقہ بند کردیتے۔ عرب ممالک نے ہمیشہ ضابطوں کا حوالہ دے کر فلسطینی کی مدد سے گریز کیا جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے تمام ضابطوں کی دھجیاں اڑاکر اسرائیل کو نہ صرف عرب ممالک سے بچایا ہے بلکہ اقوام متحدہ (امریکہ کا رکھیل) کو استعمال کرکے اسے تمام کارروائیوں سے محفوظ رکھا۔ لیکن سلام ہو ان نہتے فلسطینیوں پر کہ وہ بیت المقدس کے تقدس کیلئے اور اپنے حق کے خاطر مسلسل قربانیاں پیش کررہے ہیں لیکن اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ فقط زمین کا نہیں اپنے ایمان کا مسئلہ ہے، حق و باطل کا معرکہ ہے۔ تاریخ شاہد ہیکہ اسلام کے ابتدائے آفرینش ہی سے حق اور باطل ہمیشہ برسر پیکار رہے ہیں۔ یہ دراصل نور و ظلمت اور ایمان و کفر کی قوتوں کے درمیان ایسا تصادم اور ٹکراؤ ہے جو ازل سے چلی آرہی ہے اور یہ واضح ہیکہ ابد تک کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن ہر دو میں باطل پر حق غالب آیا ہے اور باطل کو ہمیشہ مٹنا ہی پڑا ہے۔ ظالم اگر وقتی یا ظاہری طور پر کامیاب بھی نظر آئے لیکن ہمیشہ مظلوم کی ہی حقیقی فتح اور کامیابی ہوئی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے مظلوم ہی کا نام ہمیشہ روشن کیا ہے۔ ہر دور میں حق اور باطل کی معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ جیت حق اور اہل حق کی ہی ہوئی ہے۔ تاریخ اسلامی میں ہزاروں واقعات درج ہیں جس سے صاف واضح ہوجاتا ہیکہ باطل مٹنے کیلئے اور حق غالب آنے کیلئے آیا ہے۔ اور ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہودیوں پر مسلمان غالب آئیں گے اور کفر کی تاریکی رات ختم ہوکر اسلام کی صبح روشن ہوگی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
لاکھ جلے دشمن لیکن، مٹ جائے حق ناممکن
سارے عالم میں اک دن، پرچمِ حق لہرائے گا
باطل تو مٹ جائے گا، حق ہی غالب آئے گا

قارئین کرام! ارض فلسطین یقیناً آج پھر کراہ رہا ہے۔ ہزاروں نہتے فلسطینی بیت المقدس کی حفاظت کیلئے تنے تنہا اسرائیلی دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں اور جام شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ صرف کچھ ممالک کے دبے سر میں مذمت کے چند الفاظ بہ مشکل نکل رہے ہیں۔ امریکہ تو کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہا ہے اور اسرائیلی وحشی پن کو حق دفاع قرار دے رہا ہے۔ اب تو پوری دنیا میں یہ بات عیاں ہے کہ دہشت گرد کون ہے؟ دہشت گردی یا بدی کا محور کون ہے؟ اسرائیلی حملے میں اب تک سیکڑوں فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور اسرائیل ہلاکت خیز حملے پے درپے کرتا جارہا ہے۔ حملے میں عام عمارتوں، میڈیا کے دفاتر، ہسپتالوں، اسکول کالجز اور دیگر بنیادی سہولتوں کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ شہداء کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن یہ یہود اور اسکے حواریں یاد رکھیں کہ ”شام“ جو زمانہ قدیم میں لبنان، فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا، جہاں آج یہ یہود قابض ہیں، احادیث کے مطابق قرب قیامت میں وہاں اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایمان اور اہل ایمان فتنوں کے اس دور میں زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ فتنوں کے اس زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا۔ اور آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز ومحور ارض مقدسہ ہوگی۔ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا، تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔ دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا۔ دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا۔ مگر دجال مکہ، مدینہ، بیت المقدس اور کوہ طور میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے  جامع مسجد کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا۔ اور وہ دجال کو ”باب لد“ کے پاس قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اور اسی طرح فتنہ یا جوج و ماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب ”جبل الخمر“ کے پاس ہوگی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت کے قریب حضرت امام مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ایک مومن جماعت کے ہاتھوں بزور شمشیر مسلمانوں کا قبلۂ اول بیت المقدس فتح ہوگا۔ بیت المقدس اور فلسطین کے موجودہ حالات سے یہ بات واضح ہیکہ وہ وقت اب قریب ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قبلہ اول کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی نسلوں کو اسکی تاریخ سے واقف کرواتے ہوئے اسکی بازیابی کیلئے تیار کریں!
اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے
مومن ہے تو پھر مسجد اقصٰی کی خبر لے

فقط و السلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
_____________
*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری
بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

#پیغام_فرقان
#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #Alquds #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #Palestine #Gaza

Thursday, 16 November 2023

مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!

 مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


بنگلور، 09؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی آٹھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین قدس، قبلۂ اول کی بنا پر تمام امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ یہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی کثرت بعثت کی بنا پر یہ ”سرزمین انبیاء“ بھی کہلاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک مدت تک بحکم الٰہی ”بیت المقدس“ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کی ہے، اسی لیے یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہلاتا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی اور ”امام الانبیاء“ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفر معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا ہے۔ اس بنا پر امت محمدیہ کا سرزمین فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ ایک ایمانی رشتہ قائم ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی قوم پچھلے ستر سالوں سے اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتل عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، لیکن مسلم حکمران جو طاقت، دولت اور بے شمار وسائل سے مالا مال اور لیس ہیں، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ تقریباً ایک مہینے سے غزہ کی پٹی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، گھروں سے لیکر تعلیم گاہوں تک، مسجد سے ہسپتال تک سب کچھ تباہ و برباد کردیئے گئے، بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت یکساں ان مظالم سے دوچار ہوئے، فلسطینی شہداء ہزاروں کی تعداد سے متجاوز ہوگئی، لیکن عالمی اسلامی تنظیموں خصوصاً مسلم حکمرانوں کی بے حسی و بے بسی تماشائے عالم بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند،صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے، جس سے پوری دنیا بالخصوص پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخی حیثیت سے مسجد اقصیٰ ہی وہ ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں، لہٰذا اسکی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور مسئلہ فلسطین پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنے والے فلسطین و غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انکی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین کی مدد کریں، ان کے حق میں دعائیں کریں، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوع سخن بنائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ سب ہمارے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے، اور باتوفیق مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ مولانا نے تمام انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں خاص طور پر اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ فوری کارروائی کرتے ہوئے فلسطین میں امن کو قائم فرمائیں اور انکی مدد فرمائیں۔ مولانا نے ہندوستان کی حکومت، وزیر اعظم اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ عالمی سطح پر ملک کی جانب سے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، انکی مدد و معاونت کریں اور وہاں جنگ بندی کرنے اور امن کے قیام کی کوششوں کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS