Friday, 7 June 2024

شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!

 شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!



گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں زیر تعلیم ایک غیر مقامی طالب علم نے شان رسالت مآب ﷺ میں جو گستاخی کی ہے اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ کی تعظیم و تکریم ہم کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے اور اس طرح کے گستاخانہ حرکات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ لہٰذا ہم حکومت و انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً اس قبیح اور مذموم حرکت کے مرتکب طالب علم کے خلاف فوری کارروائی کرے اور اسے گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دیں۔ اس موقع پر ہم جموں و کشمیر کے مسلمانوں بالخصوص نوجوان طلبہ و طالبات کو سلام پیش کرتے ہیں جو گزشتہ تین دنوں سے گستاخ رسول کو سزا دلانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں!


~ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

07 جون 2024ء بروز جمعہ

Monday, 3 June 2024

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیت!

 جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیت!

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی وفات ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے: محمد فرقان







بنگلور،22؍ مئی (پریس ریلیز): عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، مسلمانانِ ہند کی قدآور اور عظیم رہنما، اکابرین دیوبند کے عملی ورثہ کے امین، مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست، مجلس تحفظ ناموس صحابہؓ الہند کے قومی صدر، جمعیۃ علماء ہند کے سابق ناظم عمومی اور موجودہ نائب صدر، ام المدارس دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین، دارالمبلغین لکھنؤ کے روح رواں، صوبۂ اترپردیش کے امیر شریعت، تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے جانباز سپاہی، تحریک مدح صحابہؓ کے سپہ سالار، ہزاروں تحریکوں، تنظیموں اور اداروں کے سرپرست، ہمارے مشفق و مربی، نامور عالم دین، مفسر قرآن، شارح حدیث، مناظر اسلام، خطیب بے باک، جانشین امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گزشتہ دنوں اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام بالخصوص مسلمانان ہند پر غم و افسوس کا بادل چھا گیا۔ ہنگامی طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے ایصال وثواب کیلئے ایک دعائیہ و تعزیتی نشست منعقد کی۔ اسکے بعد حضرت والا کے اہل خانہ و جملہ متعلقین کے نام جاری ایک تعزیتی مکتوب میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت کے وصال کی خبر یقیناً ناقابل تحمل ہے، جو انکے کیلئے بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کیلئے بالعموم سوہان روح ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت والا کے چلے جانے سے عموماً پوری ملت اسلامیہ بالخصوص جملہ اہل خانہ سمیت بندۂ ناچیز کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ جب سے ہم نے خدمت دین کیلئے چھوٹی موٹی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس وقت سے حضرت والا سے ایک دیرینہ اور گہرا رشتہ و تعلق رہا اور ہر مسئلے میں حضرت والا کی رہنمائی حاصل رہی۔ وہ ہمارے قائد و سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مشفق و مربی بھی تھے۔ بلکہ حضرت والا بندۂ ناچیز کو ایک مشفق والد کی طرح چاہتے تھے اور ہمیشہ شفقت پیدری سے نوازتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب کبھی اپنے بیانات یا گفتگو میں ہماری طرف کوئی بات منسوب کرنی ہوتی یا ہم سے مخاطب ہوتے تو وہ ہمیں کبھی نام سے یاد نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ ”بیٹا“ یا ”اپنے بچوں“ کہ کر ہی یاد فرمایا کرتے۔ قلم تو آپ اور جملہ متعلقین سے تعزیت کیلئے اٹھایا تھا لیکن آج بندہ غموں سے اتنا نڈھال ہیکہ خود کو تعزیت کا محتاج سمجھتا ہے۔ لیکن نوشۂ تقدیر کو کیا کرسکتے ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی، خدمات اور کارنامے کسی سے مخفی نہیں۔ حضرت ایک باصلاحیت اور بے باک و نڈر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف النفس، خوش اخلاق، متواضع، منکسر المزاج، حلیم و بردبار اور متقی و پرہیزگار شخص بھی تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اکابر کی محبوبیت اور عوام الناس کی مقبولیت انہیں عطا کی تھی، احقاق حق اور ابطال باطل ان کی زندگی کا نصب العین تھا، انہوں نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کی حفاظت کو اپنا شیوہ بنا رکھا تھا، اہل بیت اطہار اور حرمت صحابہؓ کا دفاع ان کی زندگی کا مشن تھا، پچاس سال سے زائد عرصہ تک وہ فرقۂ باطلہ کے لیے شمشیر برہنہ بنے رہے، ان کی پوری زندگی اہل سنت والجماعت کے عقائد ونظریات کی خدمت کیلئے وقف تھی۔ انکا شمار ان بزرگ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جنکے دینی، علمی و سماجی خدمات سے تاریخ کے بے شمار باب روشن ہیں۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے اور انھیں کئی اہم فنون میں درک حاصل تھا۔ خاص طور پر صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب اور انکی عظمت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرنے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ انکی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ انکی پوری زندگی دین و اسلام بالخصوص ناموس صحابہؓ کی حفاظت کی خدمت سے عبارت تھی اور وہ اس عہد کے ممتاز دینی و ملی قائد تھے۔ انکی ذات عالیہ پوری ملت اسلامیہ بالخصوص مسلمانانِ ہند کیلئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی۔ وہ دین و شریعت، علم و دیانت اور فکر و بصیرت کے گہرے امتزاج سے حالات کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ہر محاذ پر ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت سرپرست محترم مولانا فاروقی علیہ الرحمہ کی خاص صفت تھی۔ انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی، انہوں نے اپنی پوری زندگی جرأت اظہار اور داعیانہ کردار کے ساتھ گذاری۔ وہ ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کے پیکر مجسم تھے۔ وہ اپنے کام اور مشن میں سو فیصد مخلص رہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کی عظمت کے سلسلہ میں انہیں کوئی مصالحت قبول نہ تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان عالی میں معمولی گستاخی تک برداشت نہیں کرتے تھے۔انکی ایک آواز پر جہاں ملت اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ لبیک کہتا تھا وہیں دشمن پر انکا رعب اس طرح تھا کہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔ وہ گستاخ صحابہ اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے۔ لیکن آج وہ روشن چراغ بجھ گیا، جس کی روشنی سے لوگ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے متعارف ہوتے تھے۔ وہ زبان بند ہوگئی، جس کی آواز سے باطل کے ایوانوں میں زلزلے برپا ہوجایا کرتا تھا۔ وہ صحابہؓ کا سپاہی چل بسا، جو دفاع صحابہؓ کیلئے شمشیر بے نیام تھا، جس کی ذات تحریک مدح صحابہؓ کا مرکز تھی۔محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت فاروقی علیہ الرحمہ نے اپنے خاندان کی روشن روایات اور مشن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور ہر محاذ پر مسلمانانِ ہند کی مثالی قیادت فرمائی۔ انہوں نے پورے ملک میں تحفظ ناموس صحابہؓ و مدح صحابہؓ کی تحریک چلائی۔ اہل تشنیع اور اصحاب رسولؓ کے دشمنوں کے خلاف مورچہ سنبھالا اور اس میدان میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، انہوں نے اس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور جب تک جسم میں جان تھی، اس مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ نیز ہندوستان کی سب سے بڑی اور قدیم تنظیم ”جمعیۃ علماء ہند“ کے وہ عظیم و مشہور قائد بھی تھے، ایک عرصہ تک وہ اس کے ناظم عمومی رہے، پھر نائب صدر کی حیثیت سے تاحیات جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی بڑی نمایاں خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں متعدد اداروں و تنظیموں کے ذریعے حضرت نے تحفظ ناموس صحابہؓ، دفاع صحابہؓ اور مدح صحابہؓ کی جو تحریکیں چلائی وہ ناقابل فراموش ہیں۔ وہ اپنے جد امجد امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور فاروقیؒ کے سچے وارث، حقیقی جانشین و امین اور تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے سپہ سالار و مجاہد تھے۔ یقیناً جہاں کہیں صحابہؓ کی عظمت اور دفاع صحابہؓ کا تذکرہ ہوگا، حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی خدمات کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گرچہ بظاہر شخص واحد تھے، مگر درحقیقت وہ ایک انجمن تھے۔ انکے انتقال سے فرد واحد کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس افسوسناک حادثے سے آج جہاں ہم سب اپنے سرپرست و قائد سے محروم ہوگئے وہیں مرکز تحفظ اسلام ہند بھی اپنے محبوب سرپرست سے محروم ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب سن 2018ء میں انہوں نے جب ”مرکز تحفظ اسلام ہند“ کی بنیاد رکھی تو حضرت والا کی دعائیں شامل حال رہیں اور انکے قیمتی مشوروں سے کام آگے بڑھتا رہا، پھر جب مرکز تحفظ اسلام ہند نے سن 2020ء میں ناموس صحابہؓ کی حفاظت اور اصحاب رسول کے دشمن و گستاخوں کی سازشوں کو ختم کرنے اور انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے عظمت صحابہؓ کی تحریک چلائی تو سرپرست محترم حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف اس تحریک کی قیادت فرمائی بلکہ اس تحریک کے زیر اہتمام منعقد چالیس روزہ عظیم الشان عظمت صحابہؓ کانفرنس کی افتتاحی نشست کی صدارت فرماتے ہوئے اس تحریک کو کامیاب بنا دیا۔ اور یہی وہ تحریک تھی جس کے بعد سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو پورے ملک میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر سن 2021ء میں حضرت والا سے جب دستوری اعتبار سے باضابطہ تحریری طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرستی کی گزارش کی گئی تو انہوں نے نہ صرف اسے قبول فرمایا بلکہ اپنی منظوری کی تحریر بھی ارسال فرمائی، جو آج مرکز میں انکی یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ محمد فرقان نے بتایا کہ حضرت والا تاحیات مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرستی فرماتے رہے، بلکہ مختلف پروگراموں اور کانفرنسوں کی حضرت والا نے باقاعدہ سرپرستی و صدارت بھی فرمائی اور مرکز کا شاید ہی کوئی پروگرام ہوگا جس میں حضرت والا کا مشورہ شامل نہ ہو۔ وہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے نونہالوں کی جدوجہد اور پروگرامات کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور اسے جاری رکھنے کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2023ء کو حضرت والا کی بنگلور آمد پر انکی خدمت میں انہیں اپنے رفقاء کے ہمراہ حاضری اور شرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ گرچہ حضرت والا سے بنفس نفیس یہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن انکی بے انتہا محبت اور بے تکلف گفتگو سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ پہلی ملاقات نہ ہو اور ہم میں عمر کا کوئی فرق نہ ہو، حضرت والا سے متعلق جیسا سنا تھا حضرت کو ویسا ہی پایا، منور چہرہ، شخصیت پر علمی جلالت شان، طبیعت میں سادگی اورعاجزی، ملاقات کرکے دل باغ باغ ہوگیا۔ اس ملاقات کے احساسات اور اس طویل نشستوں کی نصیحتوں اور مشوروں کو اگر قلم بند کیا جائے تو شاید ایک علیحدہ کتاب تیار ہوجائے گی۔ بس ان نشستوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے اندر اپنے عقائد کو سمجھنے میں اور دلچسپی پیدا ہوئی، ساتھیوں کے دلوں میں صحابہؓ کے تئیں عقیدت و احترام میں اضافہ ہوا اور صحابہؓ کی ناموس کی حفاظت کیلئے کام کرنے کا جذبہ پہلے سے زیادہ بڑھا اور مرکز تحفظ اسلام ہند کی کارکردگی پر حضرت والا کے اطمینان سے مزید جدوجہد اور کام کرنے کا بہت حوصلہ ملا۔ اسکے بعد فروری 2024ء میں جب مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ ”سالانہ مشاورتی اجلاس“ منعقد ہوا تو حضرت والا نے اپنی علالت کے باوجود اسکی افتتاحی نشست کی صدارت قبول فرمائی اور اپنے قیمتی نصیحتوں سے نوازا۔ لیکن افسوس کہ آج مرکز تحفظ اسلام ہند اپنے ایک ایسے عظیم رہبر اور سرپرست سے محروم ہوگئی جن کی دعائیں اور مشورے ہمیشہ اس کے ساتھ شامل حال رہیں اور ہر محاذ پر وہ اسکے معاون و مددگار رہے۔ حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اور انکے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسکا پر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ انکا نعم البدل عطاء فرمائے، آمین۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل حضرت والا نے از خود ان کو فون کے ذریعہ یاد فرمایا تھا، دوران گفتگو جب انہوں نے ایک پروگرام کی دعوت دی تو حضرت نے اپنی علالت کا عذر پیش فرمایا۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ حضرت والا سے انکی یہ آخری بات ہورہی ہے اور چند دنوں بعد وہ ہمیں داغ مفارقت دیکر اس جہاں فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ محمد فرقان نے کہا کہ آج ہم سب بلکہ پوری ملت اسلامیہ غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لیکن موت برحق ہے، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ حضرت کی جدائی سے ہم سب صدمے میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بڑی آزمائش کی گھڑی ہے لیکن ہمیں صبر کا دامن تھام کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونا ہوگا۔ حضرت کا اس طرح سے اچانک پردہ فرما جانے سے یقیناً ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، بلکہ تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ انکا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس رنج و ملال کے موقع پر ہر ایک تعزیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا وہ خصوصاً حضرت علیہ الرحمہ کے فرزند حضرت مولانا عبد الباری فاروقی صاحب مدظلہ، نبیرہ مولانا ابو الحسن علی فاروقی، حضرت کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا عبد العظیم فاروقی صاحب مدظلہ، و دیگر فرزندان و اہل خانہ سمیت جملہ پسماندگان کے، اور حضرت والا کے تمام محبین، متعلقین، مریدین و تلامذہ کے اور عموماً پوری ملت اسلامیہ کے غم و افسوس میں برابر شریک ہیں اور اس عظیم سانحہ پر اپنی طرف سے اور مرکز تحفظ اسلام ہند کی طرف سے تعزیت مسنون پیش کرتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرماتے ہوئے انکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور انکے نہ رہنے سے جو کمی ہوئی ہے اسکی تلافی فرمائے، انکا نعم البدل عطاء فرمائے۔ نیز مرحوم کو جوار رحمت اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


#Press_Release #News #AbdulAleemFarooqi #Farooqi #MTIH #TIMS

Saturday, 18 May 2024

تعزیتی پیغام بروفات حسرت آیات جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

⭕️ تعزیتی پیغام بروفات حسرت آیات جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و صدر مجلس تحفظ ناموس صحابہ الہند

✍بندہ محمد فرقان عفی عنہ
بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند










⭕️Condolence Message On Death Of Hazrat Moulana Abdul Aleem Farooqi Sb RH
Sarparast Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind & President All India Majlis Tahaffuze Namoos-e-Sahaba

✍ Mohammed Furqan 
Founder & Director Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind


#Taziyat #AbdulAleemFarooqi #Farooqi #Jamiat #JamiatUlama #Letter_Head #MTIH #TIMS


Monday, 6 May 2024

نسل نو کی تعلیم و تربیت اور حسن معاشرت!

 نسل نو کی تعلیم و تربیت اور حسن معاشرت! 

از افادات : حضرت مولانا مفتی سید معصوم ثاقب صاحب دامت برکاتہم

ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند


جمع و ترتیب : بندہ محمد فرقان عفی عنہ

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند



دین اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات ہر موڑ پر فرد کی تربیت اور معاشرے کے حسن کے اہتمام پر زور دیتی ہیں۔ نبی کریمﷺ کی مبارک تعلیمات اور آپ کے کردار سے حسن معاشرت کے عظیم اصول ملتے ہیں۔ حسن معاشرت صرف انسان ہی نہیں بلکہ روئے زمین کے ہر ذی روح کو مطلوب ہے۔ حسن معاشرت کے بغیر بےسکونی، اضطراب، مسلسل تنزلی اور اپنے کریم خالق کی رضا سے دوری بڑھتی جاتی ہے۔ مدارس اسلامیہ جو نہ صرف ایک تعلیم گاہ ہیں، بلکہ تربیت کی بھی آماج گاہ ہیں۔ بلاشبہ دینی مدارس کا کردار تعمیر معاشرہ میں بہت اہم ہے اور یہاں سے پڑھ کر نکلے والے فارغین ہی اسکو انجام دیتے ہیں، لہٰذا تعلیم و ترتیب کسی بھی قوم و صالح معاشرے کی تشکیل اور ترقی کا ضامن ہے۔ اور تربیت ہی سے در حقیقت ایک صالح معاشرہ تیار ہوتا ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عموماً تمام عصری و دینی تعلیمی اداروں کے ذمہ داران و استاذہ اور بطور خاص مدرسین مکاتب و مدارس کیلئے

اپنے طویل تجربہ کی روشنی میں جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا سید معصوم ثاقب صاحب دامت برکاتہم نے بہت اہم گزارشات بیان فرمائی ہیں۔ چونکہ رمضان المبارک کے بعد اکثر مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوجاتا ہے، لہٰذا موقع کی مناسبت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپ حضرات کی خدمت میں اس صالح جذبہ، حسن نیت اور توقع کے ساتھ یہ اصلاحی مشورے جو دراصل حضرت والا کے افادات سے ماخوذ ہیں، پیش کئے جارہے ہیں کہ ہمارے مدارس و مکاتب کے مدرسین کے لیے نفع کا ذریعہ ثابت ہوں گے، مزید تفصیلات کیلئے تعلیم نفسیات کا مطالعہ کیجئے۔۔۔۔ مرتب)



کسی بھی قوم کا معاشرہ بنانے، بگاڑنے میں بچوں کی تعلیم و تربیت بے حد موثر اور بہت بڑا ذریعہ ہے، بچے میں چند عادات کا بچپنے میں پایا جانا ضروری ہے: (۱) معاشرت (۲) مسابقت (۳) متابعت (۴) خوف ملامت وغیرہ۔


معاشرت: - کیفیت معاشرت ۔ یہ بچے کے ہمجولیوں کا ماحول ہے، بچہ ہمیشہ خواہش مند رہتا ہے کہ اس کے ماحول میں اسکی کوئی سبکی نہ ہو اور اسکا وزن اپنے ہم جنسوں میں بھاری رہے، اس لئے وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ میری حوصلہ افزائی کی جائے۔


مسابقت : - کیفیت مسابقت - بچوں کو شوق ہوتا ہے کہ میں اپنے تمام دوستوں میں ہر قابل تعریف کام میں سب سے آگے رہوں، اس شوق میں وہ نئے نئے کام کرتا ہے، نئی تحقیقات کو پسند کرتا ہے، اپنے دوستوں سے زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے، بکثرت سوالات کرنا بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے۔


متابعت : - کیفیت متابعت ۔ بڑوں کی نقل کرنا بچے کی مشہور عادت ہے، اسکو جذبۂ تقلید بھی کہتے ہیں۔ مدرس اور مربی کو اس طرح رہنا چاہئے کہ بچے کیلئے ان کی شخصیت ہر اعتبار سے عملی نمونہ اور قابل اتباع ہو۔ جن اساتذہ میں اعتدال نہیں ہے وہ نفسیاتی امراض میں مبتلاء ہیں، وہ طلبہ پر کوئی اچھا نقش ثبت نہیں کر پاتے، صرف ملازمت کی حد تک ان کی روزی حلال ہو سکتی ہے، مگر قوم کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔


خوفِ ملامت : - کیفیت خوف ملامت۔ اگر ماحول کی وجہ سے بچہ بے شرم نہیں ہوا ہے تو بچہ کی کردار سازی میں خوف ملامت کا جذ بہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے، بچے فطرۃً بڑوں کو راضی رکھنے اور خوشنودی کے خوگر ہوتے ہیں؛ اس لئے حوصلہ افزائی کر کے ان سے بڑے سے بڑا کام لینا آسان ہوتا ہے اور عموماً بڑے بچوں سے اسی طرح اپنی باتیں منوایا بھی کرتے ہیں، بچوں کو اپنے بزرگوں کی ناراضگی کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے۔ جس طرح بچے تعریف اور انعام کی خواہش میں اچھے کام کرتے ہیں، اسی طرح خوف ملامت سے وہ بری اور کندی خرافات سے باز رہتے ہیں۔ یہ اخلاقی قدریں بڑوں میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ان کو کام میں لانا کچھ آسان نہیں، بر خلاف کمسن بچوں کے جن کی عمر دس برس کے قریب قریب ہے، ان میں اقدار و طبعیات کے ذریعہ بہت بڑا تربیتی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ 


ان امور میں طالب علم کو جب خوشی ہوتی ہے جب کہ اس کے متعلقین میں جو لوگ اس سے واقف ہیں وہ اسکی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کریں، اس لئے استاذ کو اسکے تینوں دائروں کو سمجھنا چاہئے یعنی عصبات، ذوی القربات، پسندیدہ تعلقات- تعلیمی ادارے معاشرہ کا بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کے تین میدان جس کا مختلف علوم و فنون میں اہتمام کیا جاتا ہے یعنی وہی تہذیب اخلاق، و تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ جس کی ضرورت کا کسی دور میں کسی معاشرہ میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کما حقہ تنیوں میں کامیابی کا راز اصلاح ذات پر ہی ہے، تدبیر منزل یا سیاست مدنیہ ہو یا آج کے الفاظ میں معاشرے کی اصلاح ہو، یہ سب نتیجہ ہے اصلاح ذات کا یا کہہ لیجئے کہ اصلاح فرد، اصلاح جماعت اور اصلاح عالم کے لئے شرط یا اس کی تاثیر ہے۔


غیر متعارف ماحول میں طالب علم کے جذبات کو بالکل تسکین نہیں ہوتی، اسی طرح صرف اسے اول قرار دئے جانے سے وقتی خوشی حاصل ہوتی ہے، اس لئے بطور انعام کے کچھ مادی چیزیں بھی اس کے ساتھ ملحق کر دی جائیں تو طالب علم کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ چیزیں اگر ایسی ہوں جو راست اس کے استعمال میں آرہی ہوں تو طالب علم اس پر اپنا مالکانہ حق سمجھنے لگتا ہے اور اس کی پوری نگہداشت کرتا ہے۔ اس لئے تعلیم و تربیت ، مقابلہ جات اور انعامات میں ان کے فطری جذبات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ 


(١) بچوں کی دلچسپی کے مطابق تعلیم دینا اور طرز ایسا اختیار کرنا کہ بچے خوشی محسوس کریں اپنے کو پابند سمجھنے کے بجائے استاذ کا شریکِ کار تصور کریں، اور یہ سمجھیں کہ استاذ کی رہبری میں فلاں چیز ہم نے اپنی کوشش سے سیکھی ہے۔

(۲) بچوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائے بغیر ان کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں، جذبات سے مثبت فائدے اٹھائے جائیں یعنی ان کو تعلیم کی حسن قبولیت اور حسن تاثیر کے لئے استعمال کیا جائے۔ 

(۳) مختلف عمر میں بچوں کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، اس کی رعایت رکھی جائے۔ 

(۴) تعلیم کے ساتھ عمل کا اہتمام بھی کرایا جائے مثلاً اخلاقیات کی تعلیم صرف کتابوں میں پڑھانا کافی نہیں، اس پر عمل بھی کرایا جائے اور بچے کو اخلاقی قدروں کا بچپن سے پابند بنایا جائے، ہر کام کے آداب سکھا کر سلیقہ مند بنایا جائے۔ 

(۵) اسباق کی تیاری، عبارت خوانی اور حل عبارت کی ذمہ داری طلبہ کو دی جائے، استاذ بلا شدید رد و قدح کے ان کی غلطیاں انگیز کر لیں اور پھر بذات خود صحیح حل پیش کریں ، دوران سبق انکی فرو گذاشت اور بھول چوک کی نشاندہی کرتے رہیں۔ اگر سبق کا تعلق مشق سے ہے تو تمرین کیلئے صرف اعادہ کافی نہیں؛ بلکہ الفاظ مکر رسہ کر رکہلا دے یا کوئی خلیفہ متعین کر دے جو ان طلبہ کی مدد کر سکے تا کہ اعادہ سے نقصان کی تلافی کا فائدہ حاصل ہو سکے۔ اس کے بغیر اعادہ و ترقی بے معنی ہے۔

(٦) ہر سبق اپنے اوپر سبق سے کچھ مناسبت رکھتا ہے۔ سب سے بڑی مناسبت یہ ہے کہ دوسرے سبق بلکہ بہت سے اسباق کی بنیاد ہے۔ لہٰذا کمزوری باقی رہتے ہوئے اسباق کی ترقی، نظام تعلیم کی بدخواہی اور طلبہ و مدرسہ کے ساتھ خیانت ہے، جو استاذ کے منصب کے سراسر خلاف ہے۔ اس طرح کرنے سے عملی کار کردگی مجروح ہوگی اور گنہ گار بھی ہوں گے۔ 

(۷) تعلیم کیلئے جماعت بندی تجربہ سے مفید ثابت ہو چکی ہے اور تمام تعلیمی اداروں میں اس کا رواج بھی ہے ؟ مگر کسی کمزور طالب علم کی رعایت میں جماعت کا نصاب نامکمل رکھنا اچھا نہیں۔ نیز معیاری طلبہ کے اسباق و نصاب بھی معیاری ہونے چاہئیں، برخلاف غبی، سست اور کمزور کے کہ ان کی مقدار خواندگی بھی انھیں کے معیار کی ہوئی چاہئے۔ 

(۸) درجہ میں ایسے مواقع فراہم کرنا استاذ کی اور اسکول و مدرسہ میں ناظم تعلیمات وصدر مدرسین کی اور معاشرہ و قوم میں عمائدین کی ذمہ داری ہے۔ جہاں طلبہ کی تعلیمی و اخلاقی صلاحیت اجاگر ہو سکے، طلبہ میں اس کا رجحان پیدا کرنا اور شوق دلانا چاہئے کہ درجہ، مکتب، مدرسہ، گھر اور سماج میں تعلیمی مظاہرے کرتے رہیں۔ ہمارا دین تعلیمی اور سماجی ہے تعلیم اور سماج کا گہرا تعلق ہے، اس کو ہمیشہ مد نظر رکھا جائے۔ 

(۹) تمام ماہرین تعلیم و ماہرین نفسیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تعلیم کی طرح تعطیل و رخصت بھی تعلیمی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ ہر مکتب، مدرسہ و اسکول میں کچھ دن تعطیلات کے ہوتے ہیں تو کچھ روز صرف تعلیم موقوف کر کے طلبہ کسی مشغلے میں مصروف کر دیا جاتا ہے۔ اس قسم کا جدول اور کن کن ایام میں کیا کیا مواد طلبہ کو فراہم کرنا ہے اور ان سے کیا کیا کام لینا ہے، سب پہلے سے تیار رکھنا چاہئے اور ایسے تمام ایام و مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سے تعلیم وتربیت میں پختگی ہوتی ہے اور ادارے کی نیک نامی اور پذیرائی بھی بڑھ جاتی ہے اور طلبہ کی استعداد و صلاحیت ابھر جاتی ہے۔ 


طلبہ کی تربیت میں مثبت انداز اپنانا چاہئے اور منفی انداز سے گریز کرنا چاہئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ شاندار تعمیری خدمات وہی لوگ انجام دے سکے جن کا ذہن ہر بات کو مثبت انداز سے سوچنے کا عادی تھا منفی انداز فکر کبھی کبھی تخریب کا باعث ہو جاتا ہے۔


تہذیب الاخلاق :

تعلیم گاہ اور اس سے متعلق ماحول کا صاف ستھرا ہونا بے حد ضروری ہے ، إِنَّ اللهَ نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ اور الطُّهورِ شَطرَ الإيمان پر طلبہ کو بار بار توجہ دلائی جائے اور ادب، سلیقہ سکھایا جائے، ہر موقع کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرائیں، صبح سویرے اٹھنے کی عادت بنائیں، مسواک کا استعمال کریں، بشری تقاضے پیشاب، پیخانہ وغیرہ سے وقت پر فارغ ہو جایا کریں۔ غرض ہر چیز میں صفائی ستھرائی اور سنت طریقہ کو اپنانے کی کوشش کریں، اچھی عادت اپنائیں اور بری عادتوں اور صحبتوں سے بچیں، سلام کرنے اور جواب دینے، اسی طرح اپنا تعارف کرانے میں شرمایا نہ کریں۔ کپڑے پہنے سے پہلے دیکھ لیجئے کہ کہیں پھٹا اور سلائی اکھڑی ہوئی نہ ہو، اپنے کپڑے اور بدن صاف ستھرا رکھئے، کپڑے اگر پھٹے ہوں تو سل کر پہنے، اس کو عیب نہ سمجھئے، اپنا سامان ان کی مقررہ جگہ پر سلیقے سے رکھئے، کپڑے صندوق سے باہر ادھر ادھر نہ رکھیں اور بستر بھی بے ترتیب نہ رکھیں، جو چیز جہاں سے اٹھائیں وہیں رکھیں، دوسری جگہ رکھنے سے دوسروں کو تکلیف ہوگی۔ ٹوپی، رومال وغیرہ صاف رکھیں، گندے نہ رکھیں۔ ناک کی ریزش صاف کرتے رہے، اندر نہ نگلئے یہ بہت گندی اور بری بات ہے۔ چڈی انڈرویئر ایسی جگہ سکھائیں جہاں لوگوں کی نظر نہ پڑتی ہو۔ پائجامہ پر صرف بنیائن پہن کر مت رہئے، اس سے بے پردگی ہوتی ہے، اگر ضرورت ہو تو لنگی بنیائن پہن سکتے ہیں۔ ساتھیوں کے درمیان ہی کھنکھار کر مت تھو کئے؛ بلکہ باہر جا کر کھنکھا ریئے اور وہیں تھو گئے۔ استنجا خانہ و بیت الخلاء میں بات نہ کیجئے۔ دروازوں اور دیواروں پر ہرگز کچھ نہ لکھئے۔ بڑوں کی گفتگو کو خاموشی سے سنئے، بیچ بیچ میں نہ بولئے۔ ایسی جگہ نہ بیٹھئے جہاں سے اٹھا دیا جائے۔ راستوں میں ایسی چیز نہ ڈالئے جس سے کسی کو تکلیف ہو، اندر باہر صحن میں جہاں کہیں بھی کا غذ نظر آئے اس کو فوراً اٹھا کر ڈبے میں ڈالدیں، یاد رکھیں کہ کاغذ علم کا ذریعہ ہے، اس کے ادب سے علم میں برکت ہوگی۔ جوتے چپل ترتیب سے رکھیں، کسی کی چپل پر چپل نہ چھوڑیں، اور نہ ہی پیر سے دوسروں کی چپل ہٹا کر اپنے چپل چھوڑیں۔ مجلسوں اور مسجدوں میں شور نہ مچائیں۔ پانی کفایت سے خرچ کریں، اسراف نہ کریں۔ گھر کے باہر گلیوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے کچھ نہ کھایا کریں۔ اپنی اپنی کتابیں بستہ میں ہی رکھیں، اسی طرح قرآن پاک جزدان میں رکھیں۔


خلاصۂ کلام: 

 تعلیم کے ساتھ طلبہ کی دینی اور اخلاقی تربیت ایک ایسا بنیادی اور حساس موضوع ہے کہ جس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے نہ صرف اہلِ علم کو بلکہ امت کے کسی باشعور فرد کو انکار نہیں ہوسکتا؛ بلکہ فتنوں کے ایسے دور میں جب کہ اخلاقیات میں زوال وانحطاط کے نِت نئے ذرائع اور طریقے تیز رفتاری سے ایجاد ہوتے جارہے ہیں، پورا مسلم معاشرہ اس کی زد میں ہے، ایسے نازک وقت میں اپنے ماتحتوں کی اسلامی تربیت کی ذمہ داری یقینا بڑھ جاتی ہے،  مدارس کے طلبہ کے تعلیمی معیار کی بلندی اور ترقی کے لیے عموماً مختلف کوششیں اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، تاہم ان طلبہ کی اخلاقی تربیت کا نظام مقرر کرنا اور صرف زبانی یا کاغذی نہیں؛ بلکہ اس کو نافذ العمل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ امید ہیکہ اہل مدارس اس جانب ضرور توجہ فرمائیں گے۔

شائع کردہ : مرکز تحفظ اسلام ہند 

Friday, 3 May 2024

حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحبؒ کے وصال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی دعائیہ نشست سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا اظہار خیال!

 حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحبؒ کی رحلت ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ!

مولانا فاروقی صاحبؒ کے وصال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی دعائیہ نشست سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا اظہار خیال!



بنگلور، یکم مئی (پریس ریلیز): معروف عالم دین، جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد انکے ایصال ثواب، مغفرت و بلند درجات کیلئے منعقد قرآن خوانی و دعائیہ نشست میں اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ، جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر، ناموس صحابہؓ کے جانباز سپاہی، مدح صحابہؓ کے سپہ سالار اور عالمی شہرت کے حامل خطیب و مناظر، ملک کے مسلمانوں کی رہبری و رہنمائی کرنے والی تنظیم مرکز تحفظ اسلام ہند کے روز اول سے سرپرست و مشیر خاص اور اسکے پلیٹ فارم پر ہمیشہ حاضر رہنے والی، حوصلہ دینے والی شخصیت جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت والا کا انتقال ملت اسلامیہ کیلئے بہت بڑا صدمہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ عظمت صحابہ اور ناموس صحابہ کے عنوان پر حضرت کا نام باطل خیمے میں لرزہ طاری کردیا کرتا تھا اور ان کی زندگی کا مشن ہی حضرات صحابہؓ کے فضائل ومناقب کا تذکرہ اور انکے ناموس کی حفاظت تھی۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ مولانا فاروقی صاحبؒ نے ناموس صحابہ کی حفاظت کیلئے جو خدمات انجام دی ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ حضرت والا تاحیات مختلف اداروں، جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہے اور اپنے مفید مشوروں سے انکی ترقی میں بھر پور تعاون کرتے رہے، نہ صرف بڑوں بلکہ اپنے چھوٹے کا بھی بھر پور ساتھ دیا کرتے تھے، انہیں میں سے ایک تنظیم مرکز تحفظ اسلام ہند بھی ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا مرکز تحفظ اسلام ہند کے نوجوان جب بھی حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب سے رجوع ہوتے تو وہ بہت خوشی سے انکا استقبال کرتے اور بات کو مکمل سنتے اور کارآمد مفید مشوروں سے نوازتے۔نیز جب ان سے مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرست کی گزارش کی گئی تو حضرت نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اپنی منظوری کی تحریر بھی بھیجی، جو آج مرکز میں انکی یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مولانا فاروقی صاحبؒ کے چلے جانے پر جہاں ملک کے علمی طبقوں نے اپنے لیے بڑا خسارہ محسوس کیا وہیں مرکز تحفظ اسلام ہند کیلئے بھی ایک بہت بڑا نقصان ہے، کیونکہ ہر وقت مفید مشوروں سے نوازنے اور انکی سرپرستی کرنے والی شخصیت کا سایہ انکے سر سے اٹھ گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ اللہ کا دستور اور قانون ہیکہ جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے، لیکن ان لوگوں کی زندگی جن کے چلے جانے پر پورا عالم مغموم ہوتا ہے، صدمہ برداشت کرتا ہے اور ان کیلئے دعائے خیر میں بیٹھ جاتا ہے، ایسی زندگی بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے، جن میں حضرت مولانا فاروقی صاحبؒ کا نام سرفہرست ہے۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ اس وقت ہم لوگ غمگین ہیں اور ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں، لیکن اللہ کے فیصلے پر صبر کرتے ہوئے ہم مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحبؒ کے جملہ اہل خانہ و متعلقین کے غم و افسوس میں برابر کے شریک ہیں اور تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور امت کو انکا نعم البدل عطاء فرمائے اور انکے مشن کو جاری رکھے۔ قابل ذکر ہیکہ اس دعائیہ نشست میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان اور دیگر حضرات بطور خاص موجود تھے۔


#AbdulAleemFarooqi #Farooqi #IftikharAhmedQasmi #MTIH #TIMS