Tuesday, 3 December 2024

انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!

 انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!



✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سبھی مسالک و مکاتب فکر اور تمام طبقات کا باوقار متحدہ و مشترکہ پلیٹ فارم ہے، جو ملک میں تحفظ شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کے لئے پچھلے پچاس سالوں سے مسلسل، مستعدی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔ بورڈ شرعی معاملات میں مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی بھی کرتا ہے، ملک میں قوانین شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے اور مسلمانوں میں شریعت اسلامی کی پابندی کے سلسلہ میں تحریک بھی چلاتا ہے۔ بورڈ شرعی نقطہئ نظر سے حالات اور مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینے اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ملک کے مختلف مقامات پر اپنا سالانہ اجلاس عام منعقد کرتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا انتیسواں اجلاس 23، 24 نومبر 2024ء ریاست کرناٹک کا معروف دینی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر بورڈ نے ایک عظیم الشان اجلاس عام بعنوان تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف بتاریخ 24 نومبر 2024ء بروز اتوار عید گاہ قدوس صاحب، ملرس روڈ، بنگلور میں بعد نماز عصر تا عشاء منعقد کیا۔ اس باوقار اجلاس عام کی سرپرستی امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی مدظلہ نے فرمائی، جبکہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اجلاس کی صدارت فرمائی، بنگلور اور ریاست کرناٹک کے چپے چپے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اس اجلاس میں حصہ لے کر تحفظ شریعت اور تحفظ اوقاف سے متعلق اکابرین امت کے پیغام کو بغور سنا۔ اس اہم اجلاس میں بورڈ کے عہدیداراں، ملت کی ممتاز شخصیات اور مختلف مسالک و مکاتب فکر کے ذمہ داران اور سربراھان کا خطاب ہوا، مختلف اکابرین امت نے تحفظ شریعت و اوقاف کے عنوان پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اجلاس میں مسلم پرسنل لا میں مداخلت پر ایک طرف جہاں حکومت کو للکارا گیا وہیں دوسری طرف ملت کو حوصلہ بخش پیغام بھی دیا گا، اجلاس کے اختتام سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ نے گیارہ نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ جس کی تائید شرکاء اجلاس نے ہاتھ اٹھا کر کی۔ وہ گیارہ نکاتی اعلامیہ مندرجہ ذیل ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ انتیسواں اجلاس عام 23 ،24 نومبر 2024ء بنگلور تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہے کہ:

 (1) ملک کے موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر دین پر ثابت قدمی کا جذبہ پیدا کریں اور طے کر لیں کہ ان کو جیسی بھی آزمائش سے گزرنا پڑے، معیشت اور کاروبار کا خطرہ ہو، جان کے لالے پڑ جائیں، نوجوانوں کو بے قصور جیل میں بھیج دیا جائے؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کا تحفظ کریں گے، اس وقت فرقہ پرست طاقتیں کئی جہتوں سے مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، آئینی طور پر ملک کے سیکولر ہونے کے باوجود نصاب تعلیم میں مشرکانہ تصورات کو داخل کیا جا رہا ہے، کلچرل پروگراموں کے نام پر دیویوں، دیوتاؤں کا تقدس ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے، ملک کی شاندار اور قابل فخر تاریخ،جس کا تعلق مسلم دور سے ہے، کو نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے، شہروں، سڑکوں اور اداروں کے ان ناموں کو بدلا جا رہا ہے، جن سے مسلمانوں کی نسبت کا اظہار ہوتا ہے، ایک طرف مسلمان لڑکوں کے غیر مسلم لڑکیوں سے نکاح کو تو لوجہاد قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان لڑکیوں سے غیر مسلم لڑکوں کے تعلق کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور علی الاعلان اس کی ترغیب دی جا رہی ہے، مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کہہ کر برادران وطن کی نظر میں ان کی عزت ووقار کو مجروح کیا جا رہا ہے، ان سب کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، اپنی شریعت، اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں اور جب کوئی قوم ا حساس کمتری میں مبتلا ہو جائے تو اس کو اپنے فکر وعقیدہ سے منحرف کر دینا اور اکثریتی سوچ میں جذب کر لینا آسان ہو جاتا ہے؛ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اندر جذبہئ استقامت پیدا کریں، انبیاء کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے عزیمت کو یاد رکھیں اور نئی نسل تک بھی یہ پیغام پہنچائیں، اس کے بغیر ہم اس ملک میں اپنے آپ کو مذہبی اور تہذیبی انضمام کی سازش سے بچا نہیں سکیں گے۔


 (2) ہمارے لئے یہ بات ایک شرعی فریضہ کے درجہ میں آگئی ہے کہ ہم ہر مسلم آبادی میں بنیادی دینی تعلیم کے مکتب قائم کریں، جو لڑکوں کے لئے بھی ہوں اور لڑکیوں کے لئے بھی، جو چھوٹے بچوں کے لئے بھی ہوں اور ان میں تعلیم بالغاں کا بھی نظم ہو، ہر مسلمان بچہ چاہے آگے جو بھی تعلیم حاصل کرے، اس مرحلہ سے گزر کر آگے بڑھے؛ تاکہ وہ IAS, IPS,بنے، ڈاکٹر، انجینئریا عصری درسگاہوں کا کامیاب استاذ بنے، کسی فن میں مہارت حاصل کرے؛ لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ ایک سچا اور پکا مسلمان بھی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مکاتب کے تعلیمی نظام میں قرآن مجید، ضروری مسائل، اذکارو اوراد کے ساتھ ساتھ ان کو اچھی طرح اسلامی عقائد یعنی توحید، رسالت، ختم نبوت، عظمت صحابہ، محبت اہل بیت، قرآن مجید کی حقانیت، حدیث نبوی کی اہمیت، شرک، الحاد، دہریت وغیرہ کا رد اور روز مرہ کے شرعی احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے روشناس کرایا جائے، بچوں کا ذہن ایک سادہ تختی اور خالی کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور اِس وقت اس پر جو لکھ دیا جائے، وہ زندگی کی آخری سانس تک کے لئے نقش ہو جاتا ہے اور یہ صرف دینی بقاء کے لئے ہی ہماری ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ہم پر ہماری نسلوں کا حق ہے؛ ورنہ ہم عند اللہ خدانخواستہ مجرم سمجھے جائیں گے اور جواب دہ ہوں گے۔


 (3) کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔


 (4)اس وقت مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں سے شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، اگرچہ میڈیا ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند؛ لیکن بہر حال یہ واقعات نہایت افسوسناک ہیں،اس سلسلہ میں جہاں ایک طرف نکاح کو آسان بنانا اور اسراف وفضول خرچی سے بچنا اور بچانا ضروری ہے، وہیں ذہن سازی بھی ضروری ہے، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ذہن بنایا جائے کہ دین کی اہمیت مال ودولت سے زیادہ ہے اور غیر مسلم سماج میں رشتہ کرنا آخرت کے لئے تو ہے ہی نقصان وخسران کا باعث؛ لیکن ایسا رشتہ کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں بھی تنہا ہو جاتے ہیں، کوئی سماج انہیں قبول نہیں کرتا ہے، ان کی آئندہ نسلوں کو بھی یہی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے اور اکثر اس کا انجام دنیا میں بھی بہت عبرتناک ہوتا ہے؛ اس لئے ہر قیمت پر اس سے بچنا ضروری ہے، مسلم سماج کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دین کی اہمیت مال سے بھی زیادہ ہے اور تعلیم سے بھی زیادہ، اگر کسی لڑکی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور اس معیار کا رشتہ نہیں مل رہا ہے تو چاہے اس سے کم معیار کا رشتہ ہو؛ لیکن ہو مسلمان، تو اس رشتہ کو قبول کرنا چاہئے؛ کیوں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ بدقسمتی سے مسلم سماج میں اعلیٰ تعلیم کا پرسینٹیج کم ہے، ان حالات میں اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اس سے مسلمان لڑکیوں کے دوسرے سماج کی طرف جانے کا راستہ کھلے گا۔


 (5) عدالتوں کے ذریعہ قانون شریعت کی نادرست تشریح کے واقعات اسی لئے پیش آتے ہیں کہ مسلمان اپنے خاندانی جھگڑے لے کر عدالتوں میں پہنچتے ہیں، جہاں فیصلہ کرنے والے ناقص معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں، نہ قانون شریعت پر ان کا یقین ہوتا ہے اور نہ وہ ان کی حکمتوں اور گہرائیوں سے واقف ہوتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے خاندانی نزاعات کو احکام شریعت سے واقف علماء، صاحب بصیرت ائمہ وخطباء اور اس مقصد کے لئے قائم کردہ اداروں میں لے جائیں، چاہے وہ دارالقضاء کے نام سے ہوں یا محکمۂ شرعیہ کے نام سے، اس طرح ہم بہتر طور پر اپنی شریعت کی حفاظت کر سکیں گے، عدالتوں اور حکومتوں کی مداخلت سے بچا سکیں گے، نیز کم خرچ اور کم مدت میں انصاف حاصل کر سکیں گے، جہاں انصاف کا ایسا نظام موجود نہ ہو، وہاں علماء، مشائخ اور مسلم سماج کی ذمہ دار شخصیتوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس کو نافذ کریں، اگر وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے اس کی درخواست کریں تو بورڈ ان شاء اللہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس ملی اور اجتماعی فریضہ کی ادائیگی میں ان کی مدد کرے گا۔


(6) اسلام کا تصور یہ ہے کہ مردو عورت انسانیت کے دو حصے ہیں، النساء شقائق الرجال (سنن ابی داؤد:1711) صلاحیتوں کے اعتبار سے بعض ذمہ داریوں میں فرق کیا گیا ہے؛ مگر بنیادی طور پر مردوں اور عورتوں کے حقوق اور ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں برابر ہیں: ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (بقرہ:228) اللہ کا شکر ہے کہ قرآن وحدیث کی ان تعلیمات کی وجہ سے اب بھی مسلم سماج میں عورتوں پر ظلم وزیادتی کے واقعات بہ مقابلہ دوسرے سماج کے کم ہوتے ہیں؛ لیکن جو کچھ ہوتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہیں، خاص کر بلا ضرورت طلاق اور عورتوں کو حق میراث سے محروم رکھنا اور ان کے حصہ پر قابض ہو جانا ایسی باتیں ہیں جو معاشرہ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہیں اور شریعت اسلامی کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں؛ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس پر توجہ دے اور نصف انسانیت کے ساتھ انصاف بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حُسن سلوک کا رویہ اختیار کرے۔


 (7) ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے قیام پذیر ہیں، ایسے ملے جلے سماج کے لئے خصوصی طور پر مسلمانوں کو رواداری اور وسیع الاخلاقی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے، آگے بڑھ کر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نبی ئ رحمت کی امت ہیں اور تمام عالم کے لئے امت ِدعوت ہونے کی حیثیت سے رحم وکرم، عفوودرگزر اور خوش اخلاقی ومروت ہمارا فریضہ ہے، آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا ہے، آگ کو پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے؛ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ نفرت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، ہم اس کو محبت کی شبنم سے بجھائیں اور حالات جیسے کچھ بھی ہوں اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کریں، ملک کے موجودہ حالات میں یہی ہمارے مسائل کا حل ہے، ظلم کا بادل جتنا بھی گہرا ہو، انصاف اور محبت کا سورج اسے چاک کر دیتا ہے۔


 (8) اس وقت اوقاف کا مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے، جس سے ہماری مسجدوں، عیدگاہوں، مدرسوں، قبرستانوں، امام باڑوں، مسافر خانوں، یتیم خانوں اور دوسرے مصارف کے لئے کئے جانے والے اوقاف کا تحفظ خطرہ میں پڑ چکا ہے، بورڈ اس کے لئے سیاسی سطح پر جدوجہد کر رہا ہے، اگر حکومت نے ہماری آواز کی اَن سنی کی، تو عوامی تحریک بھی چلائی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر قانونی جدوجہد بھی ہوگی، ان سبھی کاموں میں آپ سبھوں کا تعاون ضروری ہے، اس کے بغیر اس مشکل مسئلہ کو حل کرنا ممکن نہیں ہوگا؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پیشگی تحفظ کے طور پر ہم ا وقاف کے دستاویزات اور ضروری کاغذات کو درست کریں، جہاں ضرورت ہو سرکاری دفاتر سے کاغذات حاصل کریں، جو زمینیں کھلی ہوئی حالت میں ہوں، ان کی احاطہ بندی کرائیں اور ہم خود اوقاف پر ناجائز قبضہ سے بچیں، یہ اجتماعی ظلم ہے اور اس کا گناہ بہت بڑھا ہوا ہے، افسوس کہ خود مسلمانوں کا مسجدوں کی اراضی، قبرستانوں وغیرہ پر ناجائز قبضہ موجود ہے، یہ نہ صرف شرعاََ سخت گناہ ہے اور پوری ملت کے ساتھ حق تلفی ہے؛ بلکہ حکومت کو اس کے ناپاک عزائم کو اس سے تقویت پہنچتی ہے۔


 (9) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ عظیم الشان اجلاس جس میں ملک بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتیں اور مذہبی وسماجی تنظیمیں شامل ہیں، حکومت کو متوجہ کرتاہے کہ حکومت ایک قوم اور ایک مذہب کی نمائندہ نہیں ہے؛ بلکہ ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کی نمائندہ ہے اور کسی خاص مذہب، تہذیب اور کسی خاص سیاسی پارٹی کے منشور کے مطابق اُسے ملک چلانے کا حق نہیں ہے؛ بلکہ سیکولرزم اور آئین کی پاسداری کے ساتھ اس کو ہر کام انجام دینا ہے، ایسا رویہ اختیار کرنا ہے، جس سے ظاہر ہو کہ ملک میں بسنے والی تمام قومیں یکساں حقوق کی حامل ہیں؛ مگر افسوس کہ پچھلے چند سالوں سے اقلیتوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ دستور وآئین کے ساتھ زیادتی ہے اور اس سے ملک کا امن وامان خطرہ میں پڑ سکتا ہے؛ اسی لئے اسے چاہئے کہ وقتی سیاسی مفادات کے لئے ملک کے اتحاد اور سلامتی کو خطرہ میں نہ ڈالے۔


 (10) یہ اجلاس اس حقیقت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اس ملک میں دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے اور اس نے پُر امن،ذمہ دار اور محب وطن شہریوں کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب کہ تعلیمی ادارے مکمل طور پر بزنس اور تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں، یہ ایک ایسا تعلیمی نظام ہے، جو نئی نسل کو اخلاق اور انسانیت کی تعلیم دیتا ہے، اس نے جنگ آزادی میں بھی ملک کی حفاظت میں مؤثر کردار ادا کیا تھا اور اب بھی ملک کی تعمیر وترقی، تعلیم کی اشاعت اور سماجی واصلاح کے پہلو سے نہایت اہم رول ادا کر رہا ہے؛ اس لئے حکومت کو ان کے کاموں میں رخنہ پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔


 (11) ملک بھر کے مقتدر علماء اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں کا یہ اجتماع فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل کی بربریت اور امریکہ و یورپ کی طرف سے اس کی تائید و تقویت نہایت ہی غیرانسانی اور افسوس ناک حرکت ہے، جس میں کھلے عام بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ظالموں کو ظلم کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے، یہ اجلاس اس کی سخت مذمت کرتا ہے، مجاہدین فلسطین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، عالمی طاقتوں سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی اسرائیل کے جنگی جرم پر خاموشی اختیار کرنے کو جرم میں شرکت تصور کرتا ہے، یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کا پاسدار رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مخالف رویہ کی مذمت کرتا ہے، بورڈ کا احساس ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے وہ خطوط اور ای میل کے ذریعہ امریکہ اور یورپی یونین کے ملکوں کو اپنے جذبات پہنچائیں اور جیسے ہندوستان کی آزادی کے لئے اس ملک کے معماروں نے ایک زمانہ میں برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا اسی طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، کیونکہ اگر ظالم کو ظلم سے روکنے کی طاقت نہ ہوتو جس حدتک اس کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جائے۔


#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور،

تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
 منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار
 بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور، کرناٹک


تجویز (1) بابت وقف ترمیمی بل:
وقف جائیدادیں ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے رضائے الہی کی خاطر اپنی قیمتی املاک راہِ خدا میں دیں، ملک کے طول وعرض میں یہ وقف جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں، مسجدیں،  مدرسے، یتیم خانے، عید گاہیں، قبرستان، درگاہیں، امام بارگاہیں اور مختلف ملی، سماجی اور رفاہی ادارے عام طریقے پر وقف کی گئی جگہ پر قائم ہیں، یہ وقف جائیدادیں کسی گورنمنٹ کی دی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے جذبۂ سخاوت اور جذبۂ انفاق فی سبیل اللہ کی علامتیں ہیں، 1995ء میں بنایا گیا وقف ایکٹ(جس میں 2010ء اور پھر 2013ء میں ترمیم ہوئی) بڑی حد تک وقف جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اب حکومت نے وقف ترمیمی بل لاکر وقف ایکٹ کو کمزور اور بے اثر بنانا چاہا ہے، اور وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کی ہے، جو نہایت غلط اور نامناسب بات ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس اجلاس کا یہ احساس ہے کہ وقف ترمیمی بل کے لاگو ہونے سے پرانی وقف جائیدادوں کی حفاظت مشکل ہوجائے گی اور نیا وقف قائم کرنے میں بھی رکاوٹ کھڑی ہوگی، اس لیے یہ اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وقف ترمیمی بل کو فوراً واپس لیا جائے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

تجویز (2) بابت قضیہ فلسطین:
ٍ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ظالموں، جابروں اور ستمگروں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اور جس طرح غاصب اور ظالم اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے، اور غزہ کو جس طرح نشانہ بنا کر تباہ وبرباد کیا گیا ہے وہ درد وکرب کی نہایت المناک داستا ن ہے، جس سے ہر مسلمان اور انصاف پسندانسان کا دل زخمی ہے، مشرق ومغرب، شمال وجنوب میں بسنے والے مسلمان فلسطین کے حالات کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں، جس طرح امریکہ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ بھی ہمارے دل کا ناسور ہے، ظلم وستم دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، معصوم بچوں بچیوں اور عورتوں تک کو قتل کیا جارہا ہے، عمارتیں گرائی جارہی ہیں، اور جبر وتشدد کا بازار گرم کیا جارہا ہے، آج کا یہ اجلاس مظلوم فلسطینیوں  کے ساتھ ہمدردی، یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، اور ظالم وجابر طاقتوں اور ظلم وجبر پر خاموش تماشائی بننے والوں کی سخت مذمت کرتا ہے، اسی طرح جس جذبۂ ایمانی اور حمیت دینی کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں نے ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کیا اور ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر حق کا اظہار کیا اور قبلہئ اول اورا پنی سر زمین کی حفاظت کے لیے جس طرح جان کی بازی لگائی، آج کا یہ اجلاس ان کے اس جذبہ ایمانی اور جرأت وہمت کی بھرپور تحسین کرتا ہیاور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہم ہر حالت میں اور ہر قیمت پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ہمارا حکومتِ ہند سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ موقف کو اختیار کرے اور ظالموں کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دے اور انسانیت کو بچانے کا فریضہ انجام دے۔

تجویز (3) بابت ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے قانون سازی:
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔

تجویز (4)  بابت مساجد پر غاصبانہ قبضے کی ناپاک کوششیں:
مساجد اللہ کے گھر ہیں، انہیں اللہ کی عبادت کے لیے قائم کیا گیا ہے، مسجدوں سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے، اِدھر کئی برسوں سے مختلف مساجد کو لے کر ملک میں تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے، گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ کے بعد اب سنبھل کی جامع مسجد پر بھی مندر ہونے کا دعوی کیا گیا ہے، نہایت افسوس کی بات ہے کہ سیشن کورٹ نے بھی دعوی سنتے ہی سروے کا حکم دے دیا، حالانکہ عبادت گاہوں کی حفاظت پر مشتمل 1991ء کا قانون موجود ہے اور بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے 1991ء کے قانون کو ضروری قرار دیا تھا، اب عدالتیں خود اس قانون کو نظر انداز کررہی ہیں، جس سے ملک میں تنازعہ پیدا ہورہا ہے اور میڈیا کو ملک میں بسنے والے دو گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے اور ان میں منافرت پیدا کرنے کا موقع مل رہا ہے، یہ کیسی افسوس ناک بات ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالتیں ایسا رخ اور رویہ اختیار کررہی ہیں جس سے ملک میں بے چینی اور افراتفری پیدا ہورہی ہے، آج کا یہ اجلاس مساجد پر کی جانے والی یلغار کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور عدالتوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ حق اور انصاف کا ساتھ دیں، اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔مساجد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جو کوششیں کی جاسکتی ہیں بورڈ کی جانب سے ان شاء اللہ ضرور کی جائیں گی۔

تجویز (5) بابت یونیفارم سول کوڈ:
الگ الگ مذہبوں اور تہذیبوں والے اس ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہ قابل قبول ہے اور نہ گوارا، رہ رہ کر یونیفارم سول کوڈ کی بات اٹھائی جاتی ہے اور یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسے ملک کے لیے خوشنما بنا کر پیش کیا جائے، لیکن ہندوستان جیسے ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہایت نامناسب را ہ ہے، یہ ملک کی خوبصورتی کو نقصان پہونچانے والی چیز ہے، افسوس کہ اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا بل لے آیا گیا اور بار بار اس طرح کی بات کی جارہی ہے کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ضروری ہے، آج کا یہ اجلاس یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، ملک میں بسنے والے دیگر طبقات کے لیے بھی ان کی مذہبی آزادی اور ریت رواج کو چھین لینے کا باعث ہے، اس لیے ملک کے الگ الگ طبقات کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے ہاتھ اٹھالینا چاہیے۔

تجویز (6) بابت خواتین کے ساتھ بد سلوکی:
آج کا یہ اجلاس اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ ملک میں عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کی عزت وحرمت کو پامال کیا جارہا ہے، آئے دن عصمت دری کے درد ناک واقعات پیش آرہے ہیں، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، گذرے ہوئے چند مہینوں میں ملک میں کئی ایسی درد ناک وارداتیں پیش آئی ہیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی بدنامی ہوئی ہے، عورتوں کی عزت وحرمت کی حفاظت کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے، ظلم وتشدد کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات پورے ملک کے لیے بد نما داغ ہیں، آج کا یہ اجلاس عورتوں پر ظلم وتشدد کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت اور ان کی عزت وآبروکی صیانت کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرے، اور ظلم وتشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سخت سے سخت قانون بنائے اور ان کو نافذ بھی کرے۔

تجویز (7) بابت مدارسِ اسلامیہ:
مدارس اسلامیہ دین کے مراکز ہیں، یہاں صرف حر ف شناس نہیں بنایا جاتا، انسانیت نواز بھی بنایا جاتا ہے، انسانوں کو انسانیت کا درس ان درسگاہوں سے ملتا ہے، مدارس کا ماضی تابناک اور زرین رہا ہے، ملک کی آزادی میں بھی ان مدارس کا بڑا اہم کردار ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ان تعلیم گاہوں کو تحفظ دیا جاتا، ان کی خدمات کی قدر کی جاتی، ان کے کارنامے کو سراہا جاتا، مگر تعصب اور عناد کی وجہ سے ان با فیض اداروں کو برابر نشانہ بنایا جارہا ہے اور مختلف بہانوں سے انہیں خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش ہورہی ہے، خاص طریقے پر یوپی، ایم پی اور آسام میں مدارس کے ساتھ نہایت نازیبا اور برا سلوک کیا جارہا ہے، سروے کے نام پر مدارس کے ارد گرد شکنجہ کسنے کی کوشش ہورہی ہے، اس سلسلے میں قریبی مدت میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ مدارس کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے اور فرقہ پرست عناصر کے لیے ایک تازیانہ ہے، آج کا یہ اجلاس مدارس کے تئیں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ملک کے اِن با فیض اداروں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔

تجویز (8) بابت مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے کی مذمت:
انسانوں کے ساتھ محبت سے پیش آنا، کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا، حق تلفی سے اپنے آپ کو بچانا اور بے حیائی کی باتوں سے دور رہنا ایسی قدریں ہیں جو ہر مذہب میں پائی جاتی ہیں، ان قدروں کی حفاظت ضروری ہے، انسان کے اندر سے اگر انسانیت نکل جائے تو وہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا، ظلم وزیادتی کا مزاج گھروں،  خاندانوں اور معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، بے حیائی کا گھن اندر سے سماج کو کھوکھلا کردیتا ہے، نوجوان نسل بری باتوں، بے حیائی کے کاموں، شہوت پرستی اور غلط کاری میں پڑجائے تو پھر اس کا مستقبل دن بہ دن تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جاتا ہے، کسی بھی مہذب سماج میں ایسے لوگ نہایت ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں جو اپنی خواہشات پر قابو نہ رکھ پائیں اور جانوروں کی طرح بے لگام ہوکر زندگی گذاریں، آج کا یہ اجلاس مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کی حفاظت کا پیغام دیتا ہے اور مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مذہبی قدروں سے بیگانہ ہوجانا فرد اور معاشرے دونوں کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

تجویز(9) بابت بورڈ کی ہدایات کو اپنانے کی ضرورت:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حفاظتِ شریعت کا گراں قدر کارنامہ انجام دے رہا ہے، اسی کے ساتھ وہ وحدت واجتماعیت کا علامتی نشان بن چکا ہے، جہاں وہ حکومتوں کی جانب سے شرعی قانون میں کی جانے والی مداخلت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی بار بار متوجہ کرتا ہے کہ وہ رضا کارانہ طریقے پر احکامِ الہی کو سینے سے لگائیں، شرعی قوانین وہدایات اور نبوی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں، یہ کیسی نا مناسب بات ہے کہ ہم دوسروں سے یہ خواہش کریں کہ وہ ہماری شریعت میں مداخلت نہ کریں اور خود مسلمان دین وشریعت کے باغی بن کر زندگی گذاریں، شریعت کے تمام احکامات عادلانہ اور منصفانہ ہیں اور انہیں اپناکر دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل کی جاسکتی ہے، بورڈ نے اپنے قیام کے روزِ اول سے مسلمانوں کو راہِ عمل دکھائی ہے، یہ اور بات ہے کہ ماحول کے فتنوں میں پڑکر بہت سے مسلمان اپنے آپ کو احکامِ شریعت سے دور کرلیتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں خسارے کا سودا کرتے ہیں، آج کا یہ اجلاس مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کا مزاج بنائیں اور معاشرے کی صلاح وفلاح کے لیے بورڈ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔

تجویز (10) بابت بورڈ کے شعبوں کی کار کردگی:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مختلف شعبے کار گذار اور فعال ہیں، اصلاح معاشرہ کمیٹی، تفہیمِ شریعت کمیٹی، دار القضاء کمیٹی، شعبہ خواتین، لیگل سیل اور سوشل میڈیا ڈیسک کی جانب سے ہر ایک کے دائرہ? کار میں خدمت کا سلسلہ جاری ہے، سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو روکنے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کام کررہی ہے، شریعت کے احکامات کی حکمتیں لوگوں کو سمجھانے کے لیے تفہیم شریعت کمیٹی سعی مسلسل کررہی ہے، دار القضاء کمیٹی کے ذریعے ملک کے طول وعرض میں دار القضاء کا نظام قائم کیا جارہا ہے، خلافِ شریعت فیصلوں کی روک تھام کے لیے لیگل سیل کوشاں ہے، عورتوں میں بیداری پیدا کرنے اور انہیں دین وشریعت پر قائم رکھنے کے لیے شعبہ خواتین کی کار کردگی کا سلسلہ دراز ہے، بورڈ کی سرگرمیوں کو دور تک پہونچانے، پھیلانے اور احکامِ شریعت پر کیے جانے والے اعتراضات کا مثبت طریقے پر جواب دینے کے سلسلے میں سوشل میڈیا ڈیسک کام کررہا ہے، بورڈ کے یہ شعبے اپنے اپنے کنوینر کی نگرانی میں ارکانِ بورڈ کے تعاون سے خدمت انجام دے رہے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ محدود وسائل کے باوجود بہتر خدمت انجام پارہی ہے اور بورڈ کا پیغام دور دور تک پہونچ رہا ہے، آج کا یہ اجلاس بورڈ کے تمام شعبوں کی کار کردگی کی تحسین کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ شعبے پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنے کاموں کو آگے بڑھائیں گے اور ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی سربلندی اور سرخروئی کے لیے کوشاں رہیں گے باذن اللہ۔

تجویز (11) بابت اظہارِ تشکر:
وقف ترمیمی بل کو روکنے کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بساط بھر کوشش کی ہے، جہاں ایک طرف اپوزیشن پارٹیز کے ذمہ داران وسربراہان سے ملاقاتیں کی گئیں، وہیں دوسری طرف الائنس پارٹیز سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہیں وقف ترمیمی بل کی روک تھام کے سلسلے میں متوجہ کیا گیا، بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں تحریری یاد داشت بھی مرتب کی، جو مفصل بھی ہے مدلل بھی، اسی طرح جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کے ذریعے جواب دینے کے سلسلے میں بھی بورڈ نے سعی پیہم کی، اور یہ خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بورڈ کی تحریک پر تین کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ای میل مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے، اسی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں تحفظِ اوقاف پر چھوٹے بڑے بہت سے پروگرام ہوئے، جن کا سلسلہ اب بھی دراز ہے، جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو جواب بھیجنے کے سلسلے میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ کا خصوصی تعاون شامل رہا، اسی طرح اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں تحفظ اوقاف کانفرنس منعقد کرنے میں مختلف دینی، ملی سماجی تنظیموں اور جماعتوں کا اہم رول ہے، مختلف پارٹیز سے ملاقاتوں کے سلسلے میں بھی متعدد احباب نے تعاون کیا، آج کا یہ اجلاس امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ سمیت تمام ملی جماعتوں، تنظیموں اور اس مشن میں ساتھ دینے والے مخلصین اور ارکانِ بورڈ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور ان کی خدمت کی تحسین کرتا ہے، نیز امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی (کنوینر مجلسِ استقبالیہ) اور مجلسِ استقبالیہ کے تمام افراد اور عمائدین شہر بنگلور کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ ان کے حسن تعاون سے یہ اجلاس خیر وخوبی، سلیقہ اور ترتیب کے ساتھ منعقد ہوا اور یہاں سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے رہنما اور حیات بخش پیغام جاری کیا گیا۔

#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

Friday, 11 October 2024

بنگلور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کی تیاریوں کا آغاز! کرناٹک کے علماء و عمائدین کی ایک اہم مشاورتی نشس

بنگلور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کی تیاریوں کا آغاز!

کرناٹک کے علماء و عمائدین کی ایک اہم مشاورتی نشست!




بنگلور، 11؍ اکتوبر (پریس ریلیز): کل رات بعد نماز عشاء ٹینس پویلین، بنگلورمیں منعقد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کے تعلق سے ایک اہم مشاورتی نشست منعقد ہوئی، جس میں ریاست کے علماء و عمائدین شہر بالخصوص تمام مکاتب فکر، مسالک اور دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت فرمائی۔ اور 23؍ 24؍ نومبر 2024، بروز سنیچر، اتوار کو بنگلور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سالانہ اجلاس عام کے انتظامی امور کے سلسلے میں غور و خوص کیا گیا۔ اس موقع پر اجلاس کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں شرکائے مجلس کی جانب سے بہت اہم تجویزیں اور آراء سامنے آئیں، جن کو سامنے رکھتے ہوئے اہم فیصلے کئے گئے اور بالخصوص عمومی اجلاس عام کے انتظامی امور کو جلد مکمل کرنے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے مناسب تیاریوں کا آغاز کیا گیا۔ شرکائے مجلس میں مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، مفتی محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجدسٹی بنگلور)،  ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب (امیر جماعت اسلامی کرناٹک)، جناب مسعود عبد القادر صاحب (کنوینر مسلم متحدہ محاذ کرناٹک)، جناب سلیمان خان صاحب (معاون جنرل سکریٹری ملی کونسل)، جناب محب اللہ امین صاحب (جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء کرناٹک)، جناب عباس خان صاحب (سی ای او امان اللہ خان اینڈ سنس بنگلور)، جناب امتیاز خان صاحب، جناب یونس خان صاحب، جناب عثمان شریف صاحب (جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ)، جناب آغا سلطان صاحب (نمائندہ شیعہ جماعت)، جناب افسر بیگ صاحب (سکریٹری جلوس محمدی)، مولانا ضمیر احمد رشادی صاحب، جناب محمد فرقان صاحب (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)، قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ 23؍ 24؍ نومبر 2024، بروز سنیچر، اتوار کو بنگلور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوگا۔ جس میں ملک بھر سے بورڈ کے ذمہ داران اور اراکین شریک ہونگے، اس سالانہ اجلاس عام کی جہاں خصوصی نشستیں ہونگی وہیں تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف کے عنوان سے ایک بڑا عوامی اجلاس بھی منعقد ہوگا، جس سے اکابرین ملت خطاب فرمائیں گے، یہ عوامی اجلاس ملک کی موجودہ صورتحال میں شریعت اسلامیہ اور اوقاف کے تحفظ کے سلسلے میں جہاں اپنی نوعیت کا منفرد اجلاس ہوگا وہیں اتحاد و اتفاق امت کا ایک بڑا عملی مظاہرہ ہوگا، جس میں تمام مکاتب فکر، مسالک اور دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندگان رونق اسٹیٹس ہونگے۔ اجلاس عام میں عامۃ المسلمین سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی گئی ہے۔





Monday, 7 October 2024

پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شان میں نرسنگھا نند سرسوتی کی گستاخی ناقابل برداشت!

 پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شان میں نرسنگھا نند سرسوتی کی گستاخی ناقابل برداشت! 

نرسنگھا نند ملک کے امن و مان کیلئے خطرہ، حکومت سے فوری و سخت کاروائی کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کا مطالبہ!


بنگلور، 07؍ اکتوبر (پریس ریلیز): پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ملعون یتی نرسنگھا نند سرسوتی کے توہین آمیز بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ مسلمانوں کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سب سے محترم اور عزیز ہے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن حضور اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ملعون یتی نرسنگھا نند سرسوتی نے توہین رسالت کر کے جو ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے یہ ملک کی فرقہ وارانہ خیر سگالی کو متاثر کرنے والا ہے۔ نبیﷺ کی شان میں نرسنگھا نند سرسوتی کے ذریعہ گستاخی کرکے جو مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے وہ دستور ہند کے سخت خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوراً ایسے شخص کو گرفتار کریں اور اسکے خلاف جو ملک کے امن و امان کے لیے خطرہ ہے سخت قانونی کارروائی کرے۔ محمد فرقان نے کہا کہ محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہﷺ نے پوری دنیا کو جو انسانیت کا درس دیا ہے اسکا نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کے سبھی مذاہب کے ماننے والے احترام کرتے ہیں۔ بلکہ عظمت مصطفیٰؐ پر غیر مسلم پیشواؤں کے سینکڑوں کتب اور بے شمار اقوال موجود ہیں۔ لیکن نرسنگھانند سرسوتی اور رام گری جیسے ملعون لوگ بھولے بھالے غیر مسلم بالخصوص ہمارے ہندو بھائیوں کے ذہنوں میں اپنے مکر و فریب اور جھوٹ سے مسلمانوں اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف غلط فہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہر آئے دن ایسے فرقہ پرست اور آتنکی لوگوں کی جانب سے مذہب اسلام، مقدس قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی ہوتی رہتی ہے، جو ناقابل برداشت ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ پچھلے چند سالوں سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو خراب کرنے اور یہاں کے امن و امان کو نیست و نابود کرنے کیلئے ایک سازش کے تحت شان رسالت مآبﷺ میں گستاخیاں کی جارہی ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک کے آئین کی دفعہ 295 اے اور 153 اے کے مطابق کوئی شخص کسی کی توہین نہیں کرسکتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملعون نرسنگھانند سرسوتی ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان اقدس میں مسلسل گستاخیاں کرتا جارہا ہے لیکن ملک کے سیاسی و سرکاری حلقوں میں ایسی دل آزاری کا نوٹس نہیں لیا جارہا ہے، بلکہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہیکہ ملی و سماجی تنظیموں کی جانب سے جب ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی جاتی ہے تو محکمہ اسے درج کرنے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو لوگوں کا قانون پر جو اعتماد ہے وہ ختم ہوتا جائے گا، اور ملک میں عدل و انصاف ختم ہوجائے گا اور قانون بطور نام رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملعون نرسنگھا نند نے اس طرح کی تکلیف دہ حرکت اسی لیے دوبارہ کی ہے کہ وہ ابھی تک قانون کی گرفت سے آزاد ہے، مرکزی اور ریاستی حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ نرسنگھانند سرسوتی نے ملک میں امن وامان کو نیست و نابود کرنے، یہاں افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ کرنے، لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرنے اور ہندو مسلم کے درمیان دشمنی اور فساد پربا کرنے کیلئے شان رسالت مآبﷺ میں گستاخی کی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہوا ہے اور نبی کریمﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے اہل ایمان سراپا احتجاج ہیں اور اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا حکومت ملعون نرسنگھانند سرسوتی اور ان جیسے بدبختوں کو فوراً گرفتار کریں اور انہیں سخت سے سخت سزا دیں تاکہ وہ دوسروں کیلئے نشان عبرت ثابت ہوں اور ملک میں گنگا جمنی تہذیب اور امن و امان باقی رہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے حکومت سے ایک قانون بنانے کا بھی مطالبہ کیا، جس کے تحت کسی بھی مذہبی پیشوا کی شان میں گستاخی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔




#Press_Release #News #ArrestNarsinghanand #Arrest_Narsinghanand #ArrestRamgiri #ProphetMuhammad #NamooseRisalat #Blaspemous #MTIH #TIMS

وقف املاک اللہ کی ملکیت ہے، اسکی حفاظت ہر قیمت پر ضروری اور مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے!

 وقف املاک اللہ کی ملکیت ہے، اسکی حفاظت ہر قیمت پر ضروری اور مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی و مولانا شمشاد رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 05؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چھٹی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کی اسلامی شریعت میں ایک اہم اور مقدس حیثیت ہے، جو نہ صرف صدقہ جاریہ کی ایک صورت ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے دین و دنیا کی فلاح و بہبود کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ وقف کے اصول و ضوابط واضح ہیں جن میں واقف کی نیت اور مقصد کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اپنی املاک کا وقف قائم کرنا شروع کر دیا۔ مسلم حکمرانوں نے بھی بہت سی زمین وقف کیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک کی نگرانی اور حفاظت کیلئے وقف قانون بنایا گیا، اس کے تحت مرکزی و ریاستی وقف بورڈ کو قائم کیا گیا، جو ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ذمہ دار ادارہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ واضح رہے کہ وقف بورڈ محض ایک قانونی ادارہ ہے اور وقف املاک کا مالک نہیں ہے، وقف بورڈ کا کام صرف املاک کی نگرانی اور تحفظ ہے، نہ کہ ان میں تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل 2024ء میں ایسی کئی خامیاں ہیں، جو وقف کی اصل روح اور اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ بل مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کی حفاظت کے بجائے حکومت کا ان پر قبضہ کرنے کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈ کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت کو لازم بنا دیا گیا ہے۔جو مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں براہ راست مداخلت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں، لہٰذا جس غیر آئینی و غیر شرعی بل سے وقف جائیدادوں کی حیثیت ونوعیت بدل جائے یا اس پر قبضہ جمالینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز قابل قبول نہیں۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جو کوششیں کررہا اس میں تمام مسلمانوں کو ساتھ دینا چاہیے، اور انکی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ وقف کی حفاظت اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی مدظلہ (استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند) نے فرمایا کہ اوقاف ہمارا قیمتی سرمایہ ہے، ہمارے آباء و اجداد نے رضائے الٰہی اور اجر و ثواب کی نیت سے اپنی جائیدادیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہیں، ان اوقاف کی صیانت و حفاظت ہمارا اولین فریضہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ برسراقتدار طبقہ وقف ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہ رہا ہے اور مجوزہ وقف ترمیمی بل سے یہ صاف ظاہر ہیکہ اس سے اوقاف کی نوعیت و حیثیت بدل جائے گی اور اوقاف کا تحفظ غیر یقینی ہوجائے گا، اسی طرح وقف بورڈ کے اختیارات بھی سلب کرلئے جائیں گے، جس سے اوقاف پر قبضے کی راہیں ہموار ہو جائیں گی۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف دراصل اللہ کی ملکیت ہے اور وقف بورڈ ان کے نگران کار ہیں۔ اوقافی جائیدادوں اور وقف کے اُمور میں حکومت کو مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ مولانا نے اس مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ یہ بل نہ صرف غیر آئینی بھی ہے بلکہ غیر شرعی بھی ہے اور مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہیکہ لیکن اپنی دین و شریعت میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ مولانا نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر ملت اسلامیہ ہندیہ نے تقریباً پانچ کڑور سے زائد ای میل بھیج کر اس بل کی مخالفت میں اپنا احتجاج درج کروایا، ہمیں اسی اتحاد اور جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ ہم اس بل کو بالکیہ مسترد کریں اور یہ بل جب تک واپس نہیں لیا جاتا تب تک اسکی مخالفت کرتے رہیں۔ ہمیں یہ جدوجہد تسلسل اور استقامت کے ساتھ جاری رکھنا ہوگا، اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھنا ہوگا، اور کسی بھی حالات اور مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے پر عزم رہنا پڑے گا۔مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ حکومت کو یہ بل واپس لینا ہوگا، کیونکہ یہ بل مسلمانوں کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چھٹی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن حافظ محمد شعیب اللہ خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے ارکان مفتی مختار حسن قاسمی و محمد حارث پٹیل بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں اکابر حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی چھٹی نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS