Thursday, 2 January 2025

کڑپہ کی تاریخ میں تاریخ ساز اجلاس!

کڑپہ کی تاریخ میں تاریخ ساز اجلاس!


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)









ریاست آندھرا پردیش کے رائل سیما علاقے کا ضلع کڑپہ کا نام اس وقت سرخیوں میں آگیا جب ملک کی دارالحکومت دہلی کی سرزمین پر منعقد جمعیۃ علماء ہند کے تاریخی تحفظ آئین ہند کنونشن میں اعلان کرتے ہوئے امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے فرمایا کہ 15؍ دسمبر 2024ء کو کڑپہ میں ہم لوگ ”تحفظ آئین ہند و قومی یکجہتی کانفرنس“ کے عنوان پر پانچ لاکھ مسلمانوں کو جمع کریں گے اور ملکی و ریاستی حکومت کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے۔ ملک کے موجودہ حالات میں عرصے دراز بعد ایک ایسے شہر میں اتنی قلیل مدت میں آئین کے تحفظ کے عنوان پر اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اعلان ملت اسلامیہ ہندیہ کے قائد و رہنما امیر الہند نے کی ہو اور دعوت جمعیۃ علماء ہند دے رہی ہو تو مسلمانوں کا لبیک کہنا تو لازمی تھا، اپنے قائد کی آواز پر اور ملک کی سب سے قدیم تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی دعوت پر صرف پانچ لاکھ ہی نہیں بلکہ سات آٹھ لاکھ سے زائد فرزندان توحید نے لبیک کہتے ہوئے کڑپہ کی تاریخی سرزمین پر منعقد اجلاس میں اپنے ایمانی غیرت و دینی حمیت کا وہ مظاہرہ پیش کیا کہ جس کی گونج نہ صرف ریاست اور ملک بلکہ دنیا بھر میں جا پہنچی۔


اس باوقار اجلاس میں جب جمعیۃ علماء ہند کے صدر عالی قدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب پہنچے تو ہر ایک نے کھڑے ہوکر فلک شگاف نعروں سے اپنے قائد کا استقبال کیا، سامعین کے ہاتھوں میں وہی لہراتا ہوا حزب اللہ کا جھنڈا تھا جس کو لیکر فاتح عالم ﷺ نے مکہ فتح کیا تھا، اپنے قائد کو دیکھنے اور سننے کیلئے مسلمانوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بڑی بے صبری سے انتظار کررہا تھا، ملک میں بڑھتی آمریت اور اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے، ملک کو تباہی، بربادی اور لاقانونیت سے بچانے، آئین ہند، جمہوریت اور ملک کی حفاظت کے لیے، غیر آئینی وقف ترمیمی بل کے خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے منعقد جمعیۃ علماء ہند کے اس تاریخی اجلاس کے اسٹیج سے جب صدر محترم مولانا ارشد مدنی نے بولنا شروع کیا تو ہر طرف سناٹا چاہ گیا، مولانا مدنی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ موجود ہیں، عجیب سی کیفیت طاری تھی، اس پیرانہ سالی کے باوجود ملک کے موجودہ حالات میں درپیش ہر ایک مسائل پر اتنی باریک بینی سے روشنی ڈالنا اور اسکا حل بتانا اور حکومت کے غیر آئینی پالیسیوں کی دو ٹوک مخالفت کرتے ہوئے انہیں واضح پیغام دینا یقیناً یہ ایک لائق و فائق قائد کی ہی علامت اور مولانا مدنی کا ہی حق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس تاریخی اجلاس کے ناظم اور اس اجلاس کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مفتی سید معصوم ثاقب صاحب نے صدر محترم کا ان منتخب اشعار سے استقبال کیا جو مولانا مدنی کی شخصیت کی صحیح ترجمانی کررہی تھی، فرمایا کہ:

حسین احمد کے بیٹے پہ ہے ایسا فضل ربانی

اسی پر ناز کرتی ہے فقیری ہو کہ سلطانی

سنو ارشد! اسی شیر خدا کا نام نامی ہے

جس کے خوف سے باطل کا پتا ہوگیا پانی


رات کی تاریکی میں اس تاریخی اجلاس میں جو تاریخی خطاب مولانا ارشد مدنی نے کیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، ان کا صدارتی خطاب ایک روایتی خطاب نہیں تھا بلکہ اس خطاب میں تحفظ آئین، قومی یکجہتی، وقف ترمیمی بل، یکساں سول کوڈ، مدارس اسلامیہ، اسرائیلی جارحیت، بابری مسجد جیسے حساس موضوعات شامل تھے، جس کا مولانا مدنی نے نہ صرف حق ادا کیا بلکہ جس جرأت اور بے باکی کے ساتھ گفتگو فرمائی کہ ایک طرف اقتدار کے ایوانوں میں لرزش محسوس ہورہی ہے تو دوسری طرف ملت اسلامیہ ہندیہ ملک کے ان ناموافق اور صبرآزماں دور میں ایک حوصلہ بخش پیغام پاکر پرعزم ہوچکی ہے۔


مولانا ارشد مدنی نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی آواز پر ضرب لگاتے ہوئے فرمایا کہ ہم اس ملک میں زندہ ہیں، یہیں رہیں گے اور یہیں کی مٹی میں دفن ہوں گے، ہمارا مذہب مٹ جانے والا مذہب نہیں ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کو مٹانے کا اعلان کرنے والے خود مٹ گئے اور اسلام زندہ رہا اور قیامت تک زندہ رہے گا۔اسی کے ساتھ مولانا مدنی نے ملک کے سیکولر آئین کو پامال کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والوں کو بھی واضح پیغام دیا کہ ملک کی سالمیت سیکولر دستور میں ہے اور اس کی حفاظت تمام کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ فلک شگاف نعروں کے درمیان مولانا مدنی نے وقف ترمیمی بل کے خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیز ہماری رکھوالی کوئی اور کرے، آج یہاں سے اٹھنے والی آواز ایوان اقتدار سے ٹکڑائے گی اور کہے گی کہ مسلمان وقف ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہیں۔یہ بل وقف کو ہڑپنے اور مسلمانوں کو ان کے آباء و اجداد کے قیمتی اثاثہ سے محروم کردینے کے لئے لایا جارہا ہے، ہم یہ بات یہاں کی صوبائی حکومت کے کانوں تک پہنچا دینا چاہتے ہیں کہ اگر آئین کو بچانا ہے تو اس بل کو مسترد کرنا ہوگا۔ صدر محترم نے آگے فرمایا کہ ملک کا سیکولر آئین جمعیۃ علماء ہند کے ان اکابرین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے ملک کو غلامی کی لعنت سے آزاد کرانے کے لئے قدم  قدم پر قربانیاں دی تھیں، چنانچہ آج جب آئین کو پامال اور رسوا کیا جارہا ہے تو اس کے تحفظ کے لئے جمعیۃ علماء ہند میدان عمل میں سرگرم ہوگئی۔ مولانا مدنی صرف ہندوستانی مسلمان کے حقوق کی فکر لئے نہیں آئے تھے بلکہ اس اسٹیج سے انہوں نے عالم اسلام بالخصوص فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ ملک و ملت کے مسائل کیلئے مولانا مدنی کی فکر مندی قابل رشک تھی، ان کی مسکراہٹ میں بھی درد جھلک رہا تھا اور انکے آنسوؤں سے امید کی کرن نظر آرہی تھی، ان کاوشوں پر انہیں جتنی بھی خراج تحسین پیش کی جائیں کم ہیں، سلام ہو ابن حسین احمد پر، انکی قیادت میں جمعیۃ علماء ہند کا بلکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کا یہ دور تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔


اس عظیم الشان تحفظ آئین ہند و قومی یکجہتی کانفرنس میں پانچ اہم تجاویز پیش کی گئیں، جن میں سب سے پہلی تجویز حفاظت اوقاف اور وقف ترمیمی بل 2024 سے متعلق تھی، دوسری تجویز تحفظ آئین ہند و جمہوریت، تیسری یکساں سول کوڈ کے خلاف، چوتھی تجویز حفاظت مدارس اسلامیہ اور پانچویں اسرائیلی جارحیت کے خلاف تھیں۔ ان پانچوں تجاویز کو لاکھوں فرزندان توحید نے ہاتھ اٹھاکر تائید کیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء آندھراپردیش کے ذمہ داران کی طرف سے صدر محترم مولانا ارشد مدنی صاحب کی خدمت میں پانچ لاکھ دستخط پر مشتمل ایک مسودہ بھی پیش کیا گیا جسے عنقریب وزیر اعلیٰ چندرابا بونائیڈو کو بھی پیش کیاجائے گا، یہ محض دستخط کا ایک مسودہ نہیں بلکہ آندھراپردیش کے صرف تین ضلعوں کے مسلمانوں کی وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کی آواز ہے۔


اس کانفرنس کی اہم بات یہ بھی رہی کہ سارے مسلمان اپنے اپنے مسالک، فرقے اور پارٹیوں کی سطح سے اپر اٹھ کرکے ملی مسائل میں اتحاد اور یکجہتی کیلئے آئے تھے اور اسی لیے انکو دعوت دی گئی تھی، اور اسکی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے، جلسہ میں ہر طبقہ موجود تھا اور اسٹیج پر بھی تمام سیاسی پارٹیوں کی اہم شخصیات موجود تھیں، یہ اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے کہ مسلمان ملت واحدہ کی طرح سے اکھٹا ہوکر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرے، جمعیۃ علماء ہند اس سلسلے میں مبارکباد کی مستحق ہے کہ جو بات کہی سنی تو جاتی ہے لیکن زمینی سطح پر نہیں عمل درآمد ہوپاتا وہ کڑپہ اور اسکے اطراف و اکناف کے مسلمانوں نے سچ کر دکھایا اور اپنی اپنی سطح سے اپر اٹھ کر لوگوں نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا کہ ایک باشعور ملت ایسی ہی ہوتی ہے کہ وہ باوجود یہ کہ بعض مسائل میں ایک دوسرے کے تحفظات ہوتے ہیں لیکن جو ہمارے ہندوستان کے ملی مسائل ہیں اس میں ہم سب متحد ہیں اور ایک صف میں کھڑے ہیں، اس اتحاد کے مظاہرے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہیکہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت پر سب کو اعتماد ہے۔ پچھلے سالوں میں جمعیۃ علماء ہند نے قومی یکجہتی کے بھی کئی سو اجلاس کئے ہیں، جسکے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔


جمعیۃ علماء ہند کے اس بامقصد اجلاس میں شریک لاکھوں فرزندان توحید نے باوجود اتنی بڑی تعداد ہونے کے اطاعت و اتباع کی وہ مثال پیش کی کہ ناظم اجلاس کی ایک آواز پر اٹھ کھڑے ہوتے تو انکی دوسری آواز پر خاموش بیٹھ جاتے، نہ کوئی افرا تفری، نہ کوئی ہنگامہ، نہ کسی مذہب یا مذہبی پیشوا کے خلاف کوئی نعرے لگے، اور نہ ہی کوئی خلاف قانون قدم اٹھا، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا، ملک کے موجودہ حالات اور نازک ترین مسائل پر گفتگو کو سماعت کرنا، اور اسکے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر سب لوگوں کا خاموشی سے گھر لوٹ جانا یقیناً مسلمانوں کے بلند اخلاق اور امن پسند ہونے کی مثال اور جمعیۃ علماء ہند کے وقار اور حضرت مفتی سید معصوم ثاقب صاحب کی انتظامی امور پر مضبوط پکڑ ہونے کی دلیل ہے۔


جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس اقتدار کے کرسی پر بیٹھے لوگوں تک اپنے جذبات پہنچانے اور ملک و ملت کی رہنمائی کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے منعقد ہوا تھا، جو توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کے خطاب عالی سے ملت اسلامیہ ایک طویل مدت تک رہنمائی حاصل کرتی رہے گی اور ملک کے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے لوگ اپناہر ایک قدم اٹھانے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہونگے، ان شاء اللہ۔ اسٹیج پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب بھی رونق افروز تھے، دہلی کے بعد کڑپہ کے اس اجلاس میں بورڈ کے صدر شریک رہے اور ملت کو بہترین پیغام دیا، ان دونوں ملکی پیمانے کی تنظیموں کا باہمی اتفاق اور یکجہتی دیکھ کر کہ ملت کے ہر فرد کو بڑی خوشی ہوئی، الحمدللہ بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب بڑی شفقت فرماتے ہیں، جس کو ہم نے بار بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسٹیج سے جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدور اور اس کے معزز اراکین، نیز حضرت مفتی سید معصوم ثاقب صاحب کی ولولہ انگیز نظامت کے ذریعہ جو پیغام دیا گیا، وہ یقیناً لائق تقلید اور قابل تحسین ہے۔ ریاستی حکمران پارٹی کے عہدیداران کا اجلاس میں شریک ہونا، اسٹیج پر خاموشی سے بیٹھنا اور صدر محترم کا استقبال کرنا جمعیۃ علماء ہند کی طاقت اور اثر کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ یہاں سے اٹھنے والی آواز بہت دور تک پہنچی، اسکے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں اور اللہ نے اگر چاہا تو ملک کے حالات عنقریب بہتر ہونگے، ان شاء اللہ۔


اجلاس کی تیاری کے دوران ناظم عمومی حضرت مفتی معصوم ثاقب صاحب نے بار بار چھوٹی بڑی میٹنگوں میں لوگوں کو بتایا کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں حکمت عملی بنانے والے اور کچھ لوگ ہوتے ہیں اسے عمل درآمد کرنے والے، جب سے حالات خراب ہورہے ہیں فرقہ پرستی کا عروج ہورہا ہے ان حالات سے نمٹنے کیلئے جمعیۃ علماء ہند جس حکمت عملی کو لیکر چل رہی ہے وہ عین تقاضے کے مطابق ہے، جس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہورہے رہے ہیں اور روز بہ روز اسکے طریقہ کار کی افادیت کو دیکھ کر لوگ اس کے قائل ہوتے چلے جا رہے ہیں، ایک طرف تو جمعیۃ علماء ہند نے ٹرائل کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک چارہ جوئی کر رکھی ہے، مختلف ملی مقدمات اور جو کیس بے گناہ لوگوں پر شک و شبہ نہیں بلکہ تعصب کی بنیاد پر عائد کرکے انہیں جیلوں میں بھر دیا جارہا ہے، انکی رہائی اور باعزت بری ہونے کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ اور دوسری طرف رائے عامہ کے ہموار کرنے اور انکو ملک کے سیکولر تانے بانے کو مضبوط کرنے کیلئے، انکو ایک باکردار شہری بنانے کیلئے اور انہیں مثبت پیغامات دینے کیلئے تاکہ ہماری ملکی زندگی میں اتحاد و اتفاق ہو، اور جو لوگ اس پیار و محبت کو اور بھائی چارہ کو آگ لگانا چاہتے ہیں وہ اپنے مضموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوں، جمعیۃ علماء اس سلسلے میں مصروف عمل ہے۔ دیکھا جائے تو جمعیۃ علماء ہند ایک آہنی دیوار ہے جو سماج کو سیکولر رنگ میں رنگے ہوئے ہے اور فرقہ پرستوں کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی ہے، اسٹیج پر فرقہ پرستی کی بات کرنا آسان ہے لیکن معاشرے میں اتر کرکے ہر شہری کو اپنا بھائی سمجھنا اور پیار و محبت سے پیش آنا یہ مشکل ہے، اور جمعیۃ علماء ہند یہی پیغام دیتی ہے۔ تیسری طرف تعلیم یافتہ پڑھے لکھے جو ذمہ دار ہیں، جو مختلف پارٹیوں میں قیادت کررہے ہیں یا مختلف فرقوں میں مذہبی پیشوائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، یا سرکاری مختلف مناصب یا عہدوں پر ہیں یا تعلیمی ادارے یا سول سروسز کے اداروں سے جڑے ہوئے ہیں جنکو ہمارے سماج میں دستور اور منصب کے مطابق کوئی عہدہ بھی حاصل ہے، ایسے لوگوں کا ذہن پچھلے دنوں غلط باتوں کو ان تک پہنچا کرکے بہت مضموم کیا گیا ہے، اور یہ بانٹنے والی طاقتوں نے ایسی سیاست کی ہے کہ اچھے اچھے لوگوں کے ذہن زہر آلود ہوچکا ہے، تو جمعیۃ علماء ہند نے ایسے لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور انکے ذہنوں اور دماغ کی صفائی اور انکو اچھے تاثرات ملک و ملت کے تئیں دینے کیلئے مختلف سطح پر انکے بھی چھوٹے چھوٹے پروگرام، میٹنگز اور صدر محترم کی ملاقاتوں کا اور ذمہ داروں کی ملاقاتوں کا سلسلے جاری رکھا ہے، جس کا بہت کچھ حصہ میڈیا اور اخباروں میں آتا ہے لیکن بہت کچھ وہ کام ہے جو میڈیا اور اخباروں میں نہیں آتا لیکن حقیقت میں وہ انجام دیا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی پر جمعیۃ علماء ہند شب و روز جدوجہد کررہی ہے اور اسکے اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ ایسے ملی ادارے اور جو لوگ تنظیمی کام کرتے ہیں انکو جمعیۃ علماء ہند سے یہ چیز سیکھنی چاہیے۔


یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جمعیۃ علماء ہند مسلمانان ہند کی وہ جماعت ہے، جس کے اکابر انگریزوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے اور ان سے لڑتے رہے، اس کے بانیان کا آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و تشکیل میں ناقابل فراموش کردار رہا ہے، آزادی کے بعد ملک و ملت کی تعمیر اور یہاں کے سیکولر دستور کی حفاظت کیلئے جمعیۃ علماء ہند کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تاحال جمعیۃ علماء ہند کی جدوجہد مختلف سطحوں اور متعدد میدانوں میں مسلسل جاری ہے۔ سیاسی، قانونی اور سماجی سطح پر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب فسطائی طاقتیں ملک کے سیکولر دستور کو ختم کرنا چاہتی ہیں، جمعیۃ علماء ہند آئین ہند کی حفاظت کی تحریک چلا رہی ہے۔ دہلی اور پٹنہ کے بعد کڑپہ کا یہ اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، کڑپہ میں جمعیۃ علماء ہند کے اس باوقار اسٹیج سے اکابر کے دئے گئے پیغام کو وہاں پر موجود لاکھوں فرزندان توحید نے سنا اور آن لائن لائیو نشریات کے ذریعے اس پروگرام کو دنیا کے چپے چپے میں سنا اور دیکھا گیا، ہم نے جس طرح کڑپہ میں اپنی ایمانی غیرت اور دینی حمیت کا مظاہر پیش کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں اور اسکے موقف کی تائید اور اسکی آواز پر اسی طرح سے لبیک کہتے رہیں۔ جس جماعت کے سامنے انگریز جیسی سپر پاور طاقت نے اپنے گھٹنے ٹیک دئے ہمیں امید ہیکہ وقت کی فرقہ پرست طاقتیں بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکیں گی، ان شاء اللہ۔


کڑپہ کی یہ تاریخی کانفرنس شاید ہم زندگی بھر نہیں بھول سکتے، اس پروگرام کی تیاریوں کیلئے جب ایک ہفتے قبل کڑپہ حاضری کا موقع ملا تو ہر طرف پروگرام کی تیاریاں زوروں پر تھیں، جمعیۃ کی جھنڈیوں سے شہر کو سجا دیا گیا تھا، ہر طرف جمعیۃ کے نغمے اور صدر محترم کے استقبال اور پروگرام کے چرچے تھے، باہر سے آنے والے مہمانوں کیلئے پورا شہر میزبان بنا ہوا تھا، آنے والے مجمع کو کڑپہ کے چاروں طرف بلکہ جس راستے سے مجمع آرہا تھا ہر جگہ آنے والوں کیلئے ایسی راحت رسانی کا مقام بنایا گیا تھا جہاں وہ وضو اور نماز سے فارغ ہوسکیں، آتے ہوئے بھی اپنی ضروریات سے فارغ ہوجائیں اور جاتے ہوئے بھی کھانے سے بھی فارغ ہوسکیں، اتنی ترتیب سے پروگرام منظم کیا گیا تھا کہ سات آٹھ لاکھ کا مجمع عافیت سے آیا اور چلا گیا اور کئی کلومیٹر دور تک گاڑی کھڑی رہیں۔ ایک ایک کام ضابطے اور قانون کے مطابق وہاں کے ڈسٹرکٹ کلکٹر اور ایس پی کے مشاورت سے انجام دیا گیا تھا کہ کوئی کام قانون توڑ کر نہیں کیا گیا، اور سب ایجنسیوں نے اچھے تاثرات دئے ہیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہیکہ اجلاس کے ایک روز پہلے تک سرکار کی جو خفیہ ایجنسیاں ہیں انکی رپورٹ یہی تھی کہ دو لاکھ تک کا مجمع آسکتا ہے اور وہ اسی کے تحت بار بار ہدایات بھی جاری کررہے تھے، ہم لوگ بھی اسے دیکھ رہے تھے اور مزید بندوبست کررہے تھے، لیکن بعد میں سارے اندازے اور تخمینے غلط ثابت ہوئے اور بڑھ چڑھ کر مسلمان آئے اور اچھا پیغام لیکر گئے۔ وہاں رہتے ہوئے تیاریوں میں حصہ لینا زندگی کے حسین لمحات میں شامل ہوگئے، زمینی سطح پر جو محنتیں جمعیۃ علماء کے کارکنان بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مفتی معصوم ثاقب صاحب اور انکے شاگردوں نے کیا یقیناً پروگرام کی کامیابی انہیں محنتوں کا ثمر ہے۔ پروگرام کی کامیابی کیلئے شب و روز ایک کردینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ مفتی صاحب، انکے شاگردوں اور جمعیۃ علماء کے کارکنوں کو جزائے خیر دے،انہیں جانثار ساتھیوں کی محنتوں، امیر الہند کی دعاؤں اور غیور مسلمانوں کے حوصلوں نے اس پروگرام کو ”کڑپہ کی تاریخ میں تاریخ ساز اجلاس“بنا دیا..!


#JamiatKadapaConference #ArshadMadani #Jamiat #MTIH #TIMS

Tuesday, 3 December 2024

تاریخ ساز اجلاسِ عام!

 تاریخ ساز اجلاسِ عام! 



✍️ مولانا جواد رشادی

دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور


حکومت ھند کی طرف سے گاھے ماھے کچھ نہ کچھ تیریں نہتےّ مسلمانوں پر ازل سے چھوڑی جاتی رہی ہیں، چھوڑی جارہی ہیں اور تا قیامِ قیامت یہ سلسلہ چلتا رہے گا، علامہ اقبال نے بہت پہلے کہہ دیا تھا،

 "ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

شریعت کے خلاف فیصلے دیئے جاتے ہیں اور علماء و دانشوروں کی ایماء پر مسلمان اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی اپنی صوابدید کے مطابق احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، اس وقت جو مسئلہ سُلگ رہا ہے وہ ھے" وقف ترمیمی بل" اس بل کو منسوخ کرنے کے لئے ھندی مسلمانوں کی متحدہ اور متفقہ جماعت "آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حکم پر ھندوستان کے گوشے گوشے میں احتجاجی جلوس نکالے گئے اظہارِ ناراضگی کے مظاہرے ہوئے جن میں سے ایک قابلِ ذکر ابھی 24/نومبر کو ریاستِ کرناٹک کی راجدھانی شہرِ گلستاں بنگلور میں ایک تاریخ ساز اور توقع سے زیادہ کامیاب عظیم الشان احتجاجی جلسۂ عام منعقد ہوا جس کی تیاری چند ھفتوں سے چل رہی تھی، صوبہ کرناٹک کے تمام اضلاع اور شہر بنگلور کے نوجوان جیالوں اور عمر رسیدہ بزرگوں نے بلا تفریقِ امیر غریب اور چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر قبل از ظہر ہی سے ہزاروں کی تعداد میں جلسہ گاہ میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شریک ہو کر نہ صرف عیدگاہِ قدوس صاحب میدان اور قادریہ مسجد اور اس کے صحن کو کھچا کھچ بھر دیا بلکہ کولس پارک سے لے کر کنٹونمنٹ اسٹیشن برج تک نندی درگا روڈ پر عید گاہ کی پھاٹک سے لے کر فن ورلڈ پارک تک جلسہ گاہ کے اطراف و اکناف انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُمڈ آرہا تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد تھی، جو صرف شریعت کی حفاظت کرنا اور وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنا احتجاج درج کرنا چاہتی تھی،

قابلِ تعریف بات یہ تھی کہ منتظمینِ جلسہ خصوصاً حضرت مولانا مفتی افتخار احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم، صدر جمعیۃ علماء کرناٹک اور ریاستِ کرناٹک کے ابھرتے ہوے متحرک اور فعال نوجوان عالِمِ دین عزیزِ محترم مولانا مفتی ڈاکٹر مقصود عمران رشادی زید مجدہم ،امام و خطیب جامع مسجد بنگلور سٹی، امیرِ شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی عمت فیوضہم، کی سرپرستی اور راست نگرانی و رہنمائی میں اتنے بڑے مجمعے کو بہت ہی خوش اسلوبی اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ قابو میں کئے جارہے تھے اور اس جمِّ غفیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام ہی مقررین حضرات موقع و محل کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے بصیرت افروز مگر ولولہ انگیز بیانات سے لوگوں کے قلوب کو جھنجھوڑ کر گرمانے میں کامیاب ہوگئے تھے، اتنا بڑا مجمع مکمل خاموشی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے تقریباً تمام ہی مقررین کی تقریروں میں جم کر فلک شگاف نعرے بازی بھی کر رہا تھا اور "اللہ اکبر" کی صدائیں فضاؤں میں گونج رہی تھی، وقتاً فوقتاً مقررین حضرات وعدے وعیدیں بھی لے رہے تھے جس کا پورے جوش و جذبے کے ساتھ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اور کچھ تو کھڑے ہو کر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے جواب دے رہے تھے جس سے اندازہ لگ رہا تھا کہ قوم جاگ رہی ہے، اور شریعت کی حفاظت کے لئے اپنا مال و زر کیا چیز ہے جان بھی نچھاور کرنے کو ہر وقت تیار ھے، شاعر نے کیا خوب کہا :-

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی 

حق تو یہ ہے کہ، حق ادا نہ ہوا 

اسی طرح استاذِ محترم حضرت میراں صاحب رحمہ اللہ ایک شعر گنگنایا کرتے تھے :-

میرا مجھ میں کچھ نہیں 

جو کچھ ھے وہ تیرا 

تیرا تجھ کو دے دینے سے 

کیا جاتا ھے میرا،

علامہ اقبال نے فرمایا تھا :-

نہیں ھے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے 

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، 

اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو جمع کرکے چھ آٹھ گھنٹوں تک کسی بھی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے بغیر بھیڑ کو قابو میں رکھنے کی بے پناہ صلاحیتوں کی جہاں محکمہُ پولیس انگشت بدنداں ہوکر تعریف پر مجبور ہوئی تو وہیں مسلم مخالف اور اسلام سے تعصب رکھنے والی جماعت حیرت زدہ ہوکر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے،

"ڈوب گئے ہیں لوگ سبھی حیرانی میں

جانتا ہوں میں، کون ھے کتنے پانی میں،

یاد رھے کہ ملک کے موجودہ حالات پر غور و خوض کرکے مسائل کا حل تلاشنے کے لئے" مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکینِ عاملہ کی دو روزہ خصوصی نشست مادرِ علمی دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں 23/24/نومبر 2024 کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ شاندار پیمانے پر منعقد ہوئی تھی، استقبالیہ کمیٹی اور سبیل الرشاد کے اساتذہ و طلباء نے تشریف لانے والے مہمانوں کے اعزاز میں ان کا استقبال، قیام و طعام وغیرہ کا رات دن ایک کرکے پوری آمادگی اور بشاشت کے ساتھ خیال رکھا، جس کی مدح سرائی اور اس پر مسرت کا اظہار دور دراز سے آئے ہوئے چوٹی کے مقرر حضرات نے خود بھرے مجمع کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر فرمایا،

الغرض دو روزہ کانفرنس اور اجلاسِ عام کے کامیاب انعقاد پر اراکینِ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، ریاستی و ضلعی سطح کی ہمہ جہتی کمیٹیاں اور دامے درمے سخنے تعاون کرنے والے سبھی احباب مبارکبادی کے مستحق ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ پرسنل لاء بورڈ امتِ مسلمہ کو بحرانوں سے نکال باہر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، مندرجہ ذیل اشعار ان سُرماؤوں کی نذر کرنا چاہوں گا، :-

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

جو اچھا سوچ سکتے ہیں

جو طوفاں موڑ سکتے ہیں

فلک کو کھوج سکتے ہیں

تصنّع سے مبرّا ہیں

متانت سے مرصّع ہیں

وضع داری کا پیکر ہیں

رواداری کا مظہر ہیں

نئے رستے بناتے ہیں

نئے رشتے سجاتے ہیں

ترنم گھول سکتے ہیں

دلوں کو جوڑ سکتے ہیں

تمہارے ساتھ چلنے کو

زمانہ چھوڑ سکتے ہیں

زمیں زادے ہیں دیوانے

یہ علم و فن کے پروانے

کسی کو مان دیتے ہیں

کسی کی مان لیتے ہیں

کسی کو کم نہیں کہتے

سفر میں دَم نہیں لیتے

زمیں آباد کرتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

جو اچھا سوچ سکتے......

اللہ تبارک و تعالیٰ ان جلسوں جلوسوں کی برکت سے وطنِ عزیز میں خوشگوار حالات پیدا فرمائے، پرسکون ماحول بنائے رکھے، دشمنانِ اسلام کی ناپاک سازشوں کو ناکام بنادے،علی الخصوص متعصبانہ ذہنیت رکھنے والوں کی طرف سے ہورہے عبادت گاہوں پر جھوٹے دعووں کا سلسلہ ختم فرمائے، اور وقف ترمیمی بل کو منسوخ کرنے پر حکومتِ ھند مجبور ہوجائے، آمین!

انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!

 انتیسواں اجلا س عام آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا گیارہ نکاتی اعلامیہ!



✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سبھی مسالک و مکاتب فکر اور تمام طبقات کا باوقار متحدہ و مشترکہ پلیٹ فارم ہے، جو ملک میں تحفظ شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کے لئے پچھلے پچاس سالوں سے مسلسل، مستعدی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔ بورڈ شرعی معاملات میں مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی بھی کرتا ہے، ملک میں قوانین شریعت اسلامی و شعائر اسلامی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے اور مسلمانوں میں شریعت اسلامی کی پابندی کے سلسلہ میں تحریک بھی چلاتا ہے۔ بورڈ شرعی نقطہئ نظر سے حالات اور مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینے اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ملک کے مختلف مقامات پر اپنا سالانہ اجلاس عام منعقد کرتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا انتیسواں اجلاس 23، 24 نومبر 2024ء ریاست کرناٹک کا معروف دینی درسگاہ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر بورڈ نے ایک عظیم الشان اجلاس عام بعنوان تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف بتاریخ 24 نومبر 2024ء بروز اتوار عید گاہ قدوس صاحب، ملرس روڈ، بنگلور میں بعد نماز عصر تا عشاء منعقد کیا۔ اس باوقار اجلاس عام کی سرپرستی امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان صاحب رشادی مدظلہ نے فرمائی، جبکہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اجلاس کی صدارت فرمائی، بنگلور اور ریاست کرناٹک کے چپے چپے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اس اجلاس میں حصہ لے کر تحفظ شریعت اور تحفظ اوقاف سے متعلق اکابرین امت کے پیغام کو بغور سنا۔ اس اہم اجلاس میں بورڈ کے عہدیداراں، ملت کی ممتاز شخصیات اور مختلف مسالک و مکاتب فکر کے ذمہ داران اور سربراھان کا خطاب ہوا، مختلف اکابرین امت نے تحفظ شریعت و اوقاف کے عنوان پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اجلاس میں مسلم پرسنل لا میں مداخلت پر ایک طرف جہاں حکومت کو للکارا گیا وہیں دوسری طرف ملت کو حوصلہ بخش پیغام بھی دیا گا، اجلاس کے اختتام سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ نے گیارہ نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ جس کی تائید شرکاء اجلاس نے ہاتھ اٹھا کر کی۔ وہ گیارہ نکاتی اعلامیہ مندرجہ ذیل ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ انتیسواں اجلاس عام 23 ،24 نومبر 2024ء بنگلور تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہے کہ:

 (1) ملک کے موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر دین پر ثابت قدمی کا جذبہ پیدا کریں اور طے کر لیں کہ ان کو جیسی بھی آزمائش سے گزرنا پڑے، معیشت اور کاروبار کا خطرہ ہو، جان کے لالے پڑ جائیں، نوجوانوں کو بے قصور جیل میں بھیج دیا جائے؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کا تحفظ کریں گے، اس وقت فرقہ پرست طاقتیں کئی جہتوں سے مسلمانوں کو ان کے دین سے منحرف کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، آئینی طور پر ملک کے سیکولر ہونے کے باوجود نصاب تعلیم میں مشرکانہ تصورات کو داخل کیا جا رہا ہے، کلچرل پروگراموں کے نام پر دیویوں، دیوتاؤں کا تقدس ذہن میں بٹھایا جا رہا ہے، ملک کی شاندار اور قابل فخر تاریخ،جس کا تعلق مسلم دور سے ہے، کو نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے، شہروں، سڑکوں اور اداروں کے ان ناموں کو بدلا جا رہا ہے، جن سے مسلمانوں کی نسبت کا اظہار ہوتا ہے، ایک طرف مسلمان لڑکوں کے غیر مسلم لڑکیوں سے نکاح کو تو لوجہاد قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف مسلمان لڑکیوں سے غیر مسلم لڑکوں کے تعلق کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور علی الاعلان اس کی ترغیب دی جا رہی ہے، مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کہہ کر برادران وطن کی نظر میں ان کی عزت ووقار کو مجروح کیا جا رہا ہے، ان سب کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، اپنی شریعت، اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں اور جب کوئی قوم ا حساس کمتری میں مبتلا ہو جائے تو اس کو اپنے فکر وعقیدہ سے منحرف کر دینا اور اکثریتی سوچ میں جذب کر لینا آسان ہو جاتا ہے؛ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اندر جذبہئ استقامت پیدا کریں، انبیاء کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے عزیمت کو یاد رکھیں اور نئی نسل تک بھی یہ پیغام پہنچائیں، اس کے بغیر ہم اس ملک میں اپنے آپ کو مذہبی اور تہذیبی انضمام کی سازش سے بچا نہیں سکیں گے۔


 (2) ہمارے لئے یہ بات ایک شرعی فریضہ کے درجہ میں آگئی ہے کہ ہم ہر مسلم آبادی میں بنیادی دینی تعلیم کے مکتب قائم کریں، جو لڑکوں کے لئے بھی ہوں اور لڑکیوں کے لئے بھی، جو چھوٹے بچوں کے لئے بھی ہوں اور ان میں تعلیم بالغاں کا بھی نظم ہو، ہر مسلمان بچہ چاہے آگے جو بھی تعلیم حاصل کرے، اس مرحلہ سے گزر کر آگے بڑھے؛ تاکہ وہ IAS, IPS,بنے، ڈاکٹر، انجینئریا عصری درسگاہوں کا کامیاب استاذ بنے، کسی فن میں مہارت حاصل کرے؛ لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ ایک سچا اور پکا مسلمان بھی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مکاتب کے تعلیمی نظام میں قرآن مجید، ضروری مسائل، اذکارو اوراد کے ساتھ ساتھ ان کو اچھی طرح اسلامی عقائد یعنی توحید، رسالت، ختم نبوت، عظمت صحابہ، محبت اہل بیت، قرآن مجید کی حقانیت، حدیث نبوی کی اہمیت، شرک، الحاد، دہریت وغیرہ کا رد اور روز مرہ کے شرعی احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے روشناس کرایا جائے، بچوں کا ذہن ایک سادہ تختی اور خالی کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور اِس وقت اس پر جو لکھ دیا جائے، وہ زندگی کی آخری سانس تک کے لئے نقش ہو جاتا ہے اور یہ صرف دینی بقاء کے لئے ہی ہماری ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ہم پر ہماری نسلوں کا حق ہے؛ ورنہ ہم عند اللہ خدانخواستہ مجرم سمجھے جائیں گے اور جواب دہ ہوں گے۔


 (3) کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔


 (4)اس وقت مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں سے شادی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، اگرچہ میڈیا ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند؛ لیکن بہر حال یہ واقعات نہایت افسوسناک ہیں،اس سلسلہ میں جہاں ایک طرف نکاح کو آسان بنانا اور اسراف وفضول خرچی سے بچنا اور بچانا ضروری ہے، وہیں ذہن سازی بھی ضروری ہے، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ذہن بنایا جائے کہ دین کی اہمیت مال ودولت سے زیادہ ہے اور غیر مسلم سماج میں رشتہ کرنا آخرت کے لئے تو ہے ہی نقصان وخسران کا باعث؛ لیکن ایسا رشتہ کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں دنیا میں بھی تنہا ہو جاتے ہیں، کوئی سماج انہیں قبول نہیں کرتا ہے، ان کی آئندہ نسلوں کو بھی یہی مصیبت جھیلنی پڑتی ہے اور اکثر اس کا انجام دنیا میں بھی بہت عبرتناک ہوتا ہے؛ اس لئے ہر قیمت پر اس سے بچنا ضروری ہے، مسلم سماج کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دین کی اہمیت مال سے بھی زیادہ ہے اور تعلیم سے بھی زیادہ، اگر کسی لڑکی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور اس معیار کا رشتہ نہیں مل رہا ہے تو چاہے اس سے کم معیار کا رشتہ ہو؛ لیکن ہو مسلمان، تو اس رشتہ کو قبول کرنا چاہئے؛ کیوں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ بدقسمتی سے مسلم سماج میں اعلیٰ تعلیم کا پرسینٹیج کم ہے، ان حالات میں اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اس سے مسلمان لڑکیوں کے دوسرے سماج کی طرف جانے کا راستہ کھلے گا۔


 (5) عدالتوں کے ذریعہ قانون شریعت کی نادرست تشریح کے واقعات اسی لئے پیش آتے ہیں کہ مسلمان اپنے خاندانی جھگڑے لے کر عدالتوں میں پہنچتے ہیں، جہاں فیصلہ کرنے والے ناقص معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں، نہ قانون شریعت پر ان کا یقین ہوتا ہے اور نہ وہ ان کی حکمتوں اور گہرائیوں سے واقف ہوتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے خاندانی نزاعات کو احکام شریعت سے واقف علماء، صاحب بصیرت ائمہ وخطباء اور اس مقصد کے لئے قائم کردہ اداروں میں لے جائیں، چاہے وہ دارالقضاء کے نام سے ہوں یا محکمۂ شرعیہ کے نام سے، اس طرح ہم بہتر طور پر اپنی شریعت کی حفاظت کر سکیں گے، عدالتوں اور حکومتوں کی مداخلت سے بچا سکیں گے، نیز کم خرچ اور کم مدت میں انصاف حاصل کر سکیں گے، جہاں انصاف کا ایسا نظام موجود نہ ہو، وہاں علماء، مشائخ اور مسلم سماج کی ذمہ دار شخصیتوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس کو نافذ کریں، اگر وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے اس کی درخواست کریں تو بورڈ ان شاء اللہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس ملی اور اجتماعی فریضہ کی ادائیگی میں ان کی مدد کرے گا۔


(6) اسلام کا تصور یہ ہے کہ مردو عورت انسانیت کے دو حصے ہیں، النساء شقائق الرجال (سنن ابی داؤد:1711) صلاحیتوں کے اعتبار سے بعض ذمہ داریوں میں فرق کیا گیا ہے؛ مگر بنیادی طور پر مردوں اور عورتوں کے حقوق اور ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں برابر ہیں: ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (بقرہ:228) اللہ کا شکر ہے کہ قرآن وحدیث کی ان تعلیمات کی وجہ سے اب بھی مسلم سماج میں عورتوں پر ظلم وزیادتی کے واقعات بہ مقابلہ دوسرے سماج کے کم ہوتے ہیں؛ لیکن جو کچھ ہوتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہیں، خاص کر بلا ضرورت طلاق اور عورتوں کو حق میراث سے محروم رکھنا اور ان کے حصہ پر قابض ہو جانا ایسی باتیں ہیں جو معاشرہ کو بہت نقصان پہنچا رہی ہیں اور شریعت اسلامی کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں؛ اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس پر توجہ دے اور نصف انسانیت کے ساتھ انصاف بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حُسن سلوک کا رویہ اختیار کرے۔


 (7) ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے قیام پذیر ہیں، ایسے ملے جلے سماج کے لئے خصوصی طور پر مسلمانوں کو رواداری اور وسیع الاخلاقی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے، آگے بڑھ کر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نبی ئ رحمت کی امت ہیں اور تمام عالم کے لئے امت ِدعوت ہونے کی حیثیت سے رحم وکرم، عفوودرگزر اور خوش اخلاقی ومروت ہمارا فریضہ ہے، آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جا سکتا ہے، آگ کو پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے؛ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ نفرت کی جو آگ سلگائی جا رہی ہے، ہم اس کو محبت کی شبنم سے بجھائیں اور حالات جیسے کچھ بھی ہوں اپنے داعیانہ کردار کو فراموش نہ کریں، ملک کے موجودہ حالات میں یہی ہمارے مسائل کا حل ہے، ظلم کا بادل جتنا بھی گہرا ہو، انصاف اور محبت کا سورج اسے چاک کر دیتا ہے۔


 (8) اس وقت اوقاف کا مسئلہ نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے، جس سے ہماری مسجدوں، عیدگاہوں، مدرسوں، قبرستانوں، امام باڑوں، مسافر خانوں، یتیم خانوں اور دوسرے مصارف کے لئے کئے جانے والے اوقاف کا تحفظ خطرہ میں پڑ چکا ہے، بورڈ اس کے لئے سیاسی سطح پر جدوجہد کر رہا ہے، اگر حکومت نے ہماری آواز کی اَن سنی کی، تو عوامی تحریک بھی چلائی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر قانونی جدوجہد بھی ہوگی، ان سبھی کاموں میں آپ سبھوں کا تعاون ضروری ہے، اس کے بغیر اس مشکل مسئلہ کو حل کرنا ممکن نہیں ہوگا؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ پیشگی تحفظ کے طور پر ہم ا وقاف کے دستاویزات اور ضروری کاغذات کو درست کریں، جہاں ضرورت ہو سرکاری دفاتر سے کاغذات حاصل کریں، جو زمینیں کھلی ہوئی حالت میں ہوں، ان کی احاطہ بندی کرائیں اور ہم خود اوقاف پر ناجائز قبضہ سے بچیں، یہ اجتماعی ظلم ہے اور اس کا گناہ بہت بڑھا ہوا ہے، افسوس کہ خود مسلمانوں کا مسجدوں کی اراضی، قبرستانوں وغیرہ پر ناجائز قبضہ موجود ہے، یہ نہ صرف شرعاََ سخت گناہ ہے اور پوری ملت کے ساتھ حق تلفی ہے؛ بلکہ حکومت کو اس کے ناپاک عزائم کو اس سے تقویت پہنچتی ہے۔


 (9) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا یہ عظیم الشان اجلاس جس میں ملک بھر کے مسلمانوں کی نمائندہ شخصیتیں اور مذہبی وسماجی تنظیمیں شامل ہیں، حکومت کو متوجہ کرتاہے کہ حکومت ایک قوم اور ایک مذہب کی نمائندہ نہیں ہے؛ بلکہ ملک میں بسنے والے تمام شہریوں کی نمائندہ ہے اور کسی خاص مذہب، تہذیب اور کسی خاص سیاسی پارٹی کے منشور کے مطابق اُسے ملک چلانے کا حق نہیں ہے؛ بلکہ سیکولرزم اور آئین کی پاسداری کے ساتھ اس کو ہر کام انجام دینا ہے، ایسا رویہ اختیار کرنا ہے، جس سے ظاہر ہو کہ ملک میں بسنے والی تمام قومیں یکساں حقوق کی حامل ہیں؛ مگر افسوس کہ پچھلے چند سالوں سے اقلیتوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ دستور وآئین کے ساتھ زیادتی ہے اور اس سے ملک کا امن وامان خطرہ میں پڑ سکتا ہے؛ اسی لئے اسے چاہئے کہ وقتی سیاسی مفادات کے لئے ملک کے اتحاد اور سلامتی کو خطرہ میں نہ ڈالے۔


 (10) یہ اجلاس اس حقیقت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اس ملک میں دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے اور اس نے پُر امن،ذمہ دار اور محب وطن شہریوں کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب کہ تعلیمی ادارے مکمل طور پر بزنس اور تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں، یہ ایک ایسا تعلیمی نظام ہے، جو نئی نسل کو اخلاق اور انسانیت کی تعلیم دیتا ہے، اس نے جنگ آزادی میں بھی ملک کی حفاظت میں مؤثر کردار ادا کیا تھا اور اب بھی ملک کی تعمیر وترقی، تعلیم کی اشاعت اور سماجی واصلاح کے پہلو سے نہایت اہم رول ادا کر رہا ہے؛ اس لئے حکومت کو ان کے کاموں میں رخنہ پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔


 (11) ملک بھر کے مقتدر علماء اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں کا یہ اجتماع فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل کی بربریت اور امریکہ و یورپ کی طرف سے اس کی تائید و تقویت نہایت ہی غیرانسانی اور افسوس ناک حرکت ہے، جس میں کھلے عام بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ظالموں کو ظلم کے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے، یہ اجلاس اس کی سخت مذمت کرتا ہے، مجاہدین فلسطین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، عالمی طاقتوں سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک کی اسرائیل کے جنگی جرم پر خاموشی اختیار کرنے کو جرم میں شرکت تصور کرتا ہے، یہ اجلاس حکومت ہند سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ انسانی حقوق کا پاسدار رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مخالف رویہ کی مذمت کرتا ہے، بورڈ کا احساس ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے وہ خطوط اور ای میل کے ذریعہ امریکہ اور یورپی یونین کے ملکوں کو اپنے جذبات پہنچائیں اور جیسے ہندوستان کی آزادی کے لئے اس ملک کے معماروں نے ایک زمانہ میں برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا اسی طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، کیونکہ اگر ظالم کو ظلم سے روکنے کی طاقت نہ ہوتو جس حدتک اس کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے پہنچایا جائے۔


#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور،

تجاویز انتیسواں اجلاس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
 منعقدہ 23, 24 نومبر 2024ء، سنیچر اتوار
 بمقام: دار العلوم سبیل الرشاد عربک کالج، بنگلور، کرناٹک


تجویز (1) بابت وقف ترمیمی بل:
وقف جائیدادیں ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے رضائے الہی کی خاطر اپنی قیمتی املاک راہِ خدا میں دیں، ملک کے طول وعرض میں یہ وقف جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں، مسجدیں،  مدرسے، یتیم خانے، عید گاہیں، قبرستان، درگاہیں، امام بارگاہیں اور مختلف ملی، سماجی اور رفاہی ادارے عام طریقے پر وقف کی گئی جگہ پر قائم ہیں، یہ وقف جائیدادیں کسی گورنمنٹ کی دی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کے جذبۂ سخاوت اور جذبۂ انفاق فی سبیل اللہ کی علامتیں ہیں، 1995ء میں بنایا گیا وقف ایکٹ(جس میں 2010ء اور پھر 2013ء میں ترمیم ہوئی) بڑی حد تک وقف جائیدادوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اب حکومت نے وقف ترمیمی بل لاکر وقف ایکٹ کو کمزور اور بے اثر بنانا چاہا ہے، اور وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کی ہے، جو نہایت غلط اور نامناسب بات ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اس اجلاس کا یہ احساس ہے کہ وقف ترمیمی بل کے لاگو ہونے سے پرانی وقف جائیدادوں کی حفاظت مشکل ہوجائے گی اور نیا وقف قائم کرنے میں بھی رکاوٹ کھڑی ہوگی، اس لیے یہ اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وقف ترمیمی بل کو فوراً واپس لیا جائے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

تجویز (2) بابت قضیہ فلسطین:
ٍ فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ظالموں، جابروں اور ستمگروں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اور جس طرح غاصب اور ظالم اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے، اور غزہ کو جس طرح نشانہ بنا کر تباہ وبرباد کیا گیا ہے وہ درد وکرب کی نہایت المناک داستا ن ہے، جس سے ہر مسلمان اور انصاف پسندانسان کا دل زخمی ہے، مشرق ومغرب، شمال وجنوب میں بسنے والے مسلمان فلسطین کے حالات کی وجہ سے غمزدہ اور رنجیدہ ہیں، جس طرح امریکہ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ بھی ہمارے دل کا ناسور ہے، ظلم وستم دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، معصوم بچوں بچیوں اور عورتوں تک کو قتل کیا جارہا ہے، عمارتیں گرائی جارہی ہیں، اور جبر وتشدد کا بازار گرم کیا جارہا ہے، آج کا یہ اجلاس مظلوم فلسطینیوں  کے ساتھ ہمدردی، یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، اور ظالم وجابر طاقتوں اور ظلم وجبر پر خاموش تماشائی بننے والوں کی سخت مذمت کرتا ہے، اسی طرح جس جذبۂ ایمانی اور حمیت دینی کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں نے ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کیا اور ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر حق کا اظہار کیا اور قبلہئ اول اورا پنی سر زمین کی حفاظت کے لیے جس طرح جان کی بازی لگائی، آج کا یہ اجلاس ان کے اس جذبہ ایمانی اور جرأت وہمت کی بھرپور تحسین کرتا ہیاور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ ہم ہر حالت میں اور ہر قیمت پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ہمارا حکومتِ ہند سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ موقف کو اختیار کرے اور ظالموں کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دے اور انسانیت کو بچانے کا فریضہ انجام دے۔

تجویز (3) بابت ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے قانون سازی:
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس ملک میں آئے دن حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جارہی ہے، عزت وحرمت رسول پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور پے در پے اس طرح کی حرکتیں ہورہی ہیں، پھر یہ بات بھی تکلیف دینے والی ہے کہ شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے مجرم کھلے عام پھر رہے ہیں، ان پر قانونی کارروائی بھی نہیں ہورہی ہے، حضور اکرم ﷺ انسانیت کے حقیقی مسیحا ہیں اور سارے جہان والوں کے لیے باعث رحمت ہیں، ایسی پیاری، مقدس اور محبوب شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا نہایت مجرمانہ عمل ہے، آج کا یہ اجلاس شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ سمیت ہر محترم ومقدس شخصیت کی اہانت کو روکنے کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون بنائے اور اس کا نفاذ کرے۔

تجویز (4)  بابت مساجد پر غاصبانہ قبضے کی ناپاک کوششیں:
مساجد اللہ کے گھر ہیں، انہیں اللہ کی عبادت کے لیے قائم کیا گیا ہے، مسجدوں سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے، اِدھر کئی برسوں سے مختلف مساجد کو لے کر ملک میں تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے، گیان واپی مسجد، متھرا کی عید گاہ کے بعد اب سنبھل کی جامع مسجد پر بھی مندر ہونے کا دعوی کیا گیا ہے، نہایت افسوس کی بات ہے کہ سیشن کورٹ نے بھی دعوی سنتے ہی سروے کا حکم دے دیا، حالانکہ عبادت گاہوں کی حفاظت پر مشتمل 1991ء کا قانون موجود ہے اور بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے 1991ء کے قانون کو ضروری قرار دیا تھا، اب عدالتیں خود اس قانون کو نظر انداز کررہی ہیں، جس سے ملک میں تنازعہ پیدا ہورہا ہے اور میڈیا کو ملک میں بسنے والے دو گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے اور ان میں منافرت پیدا کرنے کا موقع مل رہا ہے، یہ کیسی افسوس ناک بات ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے عدالتیں ایسا رخ اور رویہ اختیار کررہی ہیں جس سے ملک میں بے چینی اور افراتفری پیدا ہورہی ہے، آج کا یہ اجلاس مساجد پر کی جانے والی یلغار کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور عدالتوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ حق اور انصاف کا ساتھ دیں، اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔مساجد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جو کوششیں کی جاسکتی ہیں بورڈ کی جانب سے ان شاء اللہ ضرور کی جائیں گی۔

تجویز (5) بابت یونیفارم سول کوڈ:
الگ الگ مذہبوں اور تہذیبوں والے اس ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہ قابل قبول ہے اور نہ گوارا، رہ رہ کر یونیفارم سول کوڈ کی بات اٹھائی جاتی ہے اور یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسے ملک کے لیے خوشنما بنا کر پیش کیا جائے، لیکن ہندوستان جیسے ملک کے لیے یونیفارم سول کوڈ نہایت نامناسب را ہ ہے، یہ ملک کی خوبصورتی کو نقصان پہونچانے والی چیز ہے، افسوس کہ اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا بل لے آیا گیا اور بار بار اس طرح کی بات کی جارہی ہے کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ضروری ہے، آج کا یہ اجلاس یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، ملک میں بسنے والے دیگر طبقات کے لیے بھی ان کی مذہبی آزادی اور ریت رواج کو چھین لینے کا باعث ہے، اس لیے ملک کے الگ الگ طبقات کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے ہاتھ اٹھالینا چاہیے۔

تجویز (6) بابت خواتین کے ساتھ بد سلوکی:
آج کا یہ اجلاس اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ ملک میں عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان کی عزت وحرمت کو پامال کیا جارہا ہے، آئے دن عصمت دری کے درد ناک واقعات پیش آرہے ہیں، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، گذرے ہوئے چند مہینوں میں ملک میں کئی ایسی درد ناک وارداتیں پیش آئی ہیں جن کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی بدنامی ہوئی ہے، عورتوں کی عزت وحرمت کی حفاظت کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے، ظلم وتشدد کے یہ بڑھتے ہوئے واقعات پورے ملک کے لیے بد نما داغ ہیں، آج کا یہ اجلاس عورتوں پر ظلم وتشدد کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت اور ان کی عزت وآبروکی صیانت کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کرے، اور ظلم وتشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے سخت سے سخت قانون بنائے اور ان کو نافذ بھی کرے۔

تجویز (7) بابت مدارسِ اسلامیہ:
مدارس اسلامیہ دین کے مراکز ہیں، یہاں صرف حر ف شناس نہیں بنایا جاتا، انسانیت نواز بھی بنایا جاتا ہے، انسانوں کو انسانیت کا درس ان درسگاہوں سے ملتا ہے، مدارس کا ماضی تابناک اور زرین رہا ہے، ملک کی آزادی میں بھی ان مدارس کا بڑا اہم کردار ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ان تعلیم گاہوں کو تحفظ دیا جاتا، ان کی خدمات کی قدر کی جاتی، ان کے کارنامے کو سراہا جاتا، مگر تعصب اور عناد کی وجہ سے ان با فیض اداروں کو برابر نشانہ بنایا جارہا ہے اور مختلف بہانوں سے انہیں خوفزدہ اور ہراساں کرنے کی کوشش ہورہی ہے، خاص طریقے پر یوپی، ایم پی اور آسام میں مدارس کے ساتھ نہایت نازیبا اور برا سلوک کیا جارہا ہے، سروے کے نام پر مدارس کے ارد گرد شکنجہ کسنے کی کوشش ہورہی ہے، اس سلسلے میں قریبی مدت میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ مدارس کو تحفظ فراہم کرنے والا ہے اور فرقہ پرست عناصر کے لیے ایک تازیانہ ہے، آج کا یہ اجلاس مدارس کے تئیں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ملک کے اِن با فیض اداروں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔

تجویز (8) بابت مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے کی مذمت:
انسانوں کے ساتھ محبت سے پیش آنا، کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا، حق تلفی سے اپنے آپ کو بچانا اور بے حیائی کی باتوں سے دور رہنا ایسی قدریں ہیں جو ہر مذہب میں پائی جاتی ہیں، ان قدروں کی حفاظت ضروری ہے، انسان کے اندر سے اگر انسانیت نکل جائے تو وہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا، ظلم وزیادتی کا مزاج گھروں،  خاندانوں اور معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، بے حیائی کا گھن اندر سے سماج کو کھوکھلا کردیتا ہے، نوجوان نسل بری باتوں، بے حیائی کے کاموں، شہوت پرستی اور غلط کاری میں پڑجائے تو پھر اس کا مستقبل دن بہ دن تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جاتا ہے، کسی بھی مہذب سماج میں ایسے لوگ نہایت ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں جو اپنی خواہشات پر قابو نہ رکھ پائیں اور جانوروں کی طرح بے لگام ہوکر زندگی گذاریں، آج کا یہ اجلاس مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کی حفاظت کا پیغام دیتا ہے اور مشترک اور مسلم مذہبی قدروں کو پامال کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مذہبی قدروں سے بیگانہ ہوجانا فرد اور معاشرے دونوں کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

تجویز(9) بابت بورڈ کی ہدایات کو اپنانے کی ضرورت:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حفاظتِ شریعت کا گراں قدر کارنامہ انجام دے رہا ہے، اسی کے ساتھ وہ وحدت واجتماعیت کا علامتی نشان بن چکا ہے، جہاں وہ حکومتوں کی جانب سے شرعی قانون میں کی جانے والی مداخلت کو روکنے کی کوشش کرتا ہے وہیں مسلمانوں کو بھی بار بار متوجہ کرتا ہے کہ وہ رضا کارانہ طریقے پر احکامِ الہی کو سینے سے لگائیں، شرعی قوانین وہدایات اور نبوی تعلیمات کو حرزِ جاں بنائیں، یہ کیسی نا مناسب بات ہے کہ ہم دوسروں سے یہ خواہش کریں کہ وہ ہماری شریعت میں مداخلت نہ کریں اور خود مسلمان دین وشریعت کے باغی بن کر زندگی گذاریں، شریعت کے تمام احکامات عادلانہ اور منصفانہ ہیں اور انہیں اپناکر دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل کی جاسکتی ہے، بورڈ نے اپنے قیام کے روزِ اول سے مسلمانوں کو راہِ عمل دکھائی ہے، یہ اور بات ہے کہ ماحول کے فتنوں میں پڑکر بہت سے مسلمان اپنے آپ کو احکامِ شریعت سے دور کرلیتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں خسارے کا سودا کرتے ہیں، آج کا یہ اجلاس مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کا مزاج بنائیں اور معاشرے کی صلاح وفلاح کے لیے بورڈ کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔

تجویز (10) بابت بورڈ کے شعبوں کی کار کردگی:
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مختلف شعبے کار گذار اور فعال ہیں، اصلاح معاشرہ کمیٹی، تفہیمِ شریعت کمیٹی، دار القضاء کمیٹی، شعبہ خواتین، لیگل سیل اور سوشل میڈیا ڈیسک کی جانب سے ہر ایک کے دائرہ? کار میں خدمت کا سلسلہ جاری ہے، سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو روکنے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کام کررہی ہے، شریعت کے احکامات کی حکمتیں لوگوں کو سمجھانے کے لیے تفہیم شریعت کمیٹی سعی مسلسل کررہی ہے، دار القضاء کمیٹی کے ذریعے ملک کے طول وعرض میں دار القضاء کا نظام قائم کیا جارہا ہے، خلافِ شریعت فیصلوں کی روک تھام کے لیے لیگل سیل کوشاں ہے، عورتوں میں بیداری پیدا کرنے اور انہیں دین وشریعت پر قائم رکھنے کے لیے شعبہ خواتین کی کار کردگی کا سلسلہ دراز ہے، بورڈ کی سرگرمیوں کو دور تک پہونچانے، پھیلانے اور احکامِ شریعت پر کیے جانے والے اعتراضات کا مثبت طریقے پر جواب دینے کے سلسلے میں سوشل میڈیا ڈیسک کام کررہا ہے، بورڈ کے یہ شعبے اپنے اپنے کنوینر کی نگرانی میں ارکانِ بورڈ کے تعاون سے خدمت انجام دے رہے ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ محدود وسائل کے باوجود بہتر خدمت انجام پارہی ہے اور بورڈ کا پیغام دور دور تک پہونچ رہا ہے، آج کا یہ اجلاس بورڈ کے تمام شعبوں کی کار کردگی کی تحسین کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہ شعبے پہلے سے زیادہ بہتر انداز میں اپنے کاموں کو آگے بڑھائیں گے اور ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی سربلندی اور سرخروئی کے لیے کوشاں رہیں گے باذن اللہ۔

تجویز (11) بابت اظہارِ تشکر:
وقف ترمیمی بل کو روکنے کے سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بساط بھر کوشش کی ہے، جہاں ایک طرف اپوزیشن پارٹیز کے ذمہ داران وسربراہان سے ملاقاتیں کی گئیں، وہیں دوسری طرف الائنس پارٹیز سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہیں وقف ترمیمی بل کی روک تھام کے سلسلے میں متوجہ کیا گیا، بورڈ نے وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں تحریری یاد داشت بھی مرتب کی، جو مفصل بھی ہے مدلل بھی، اسی طرح جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو ای میل کے ذریعے جواب دینے کے سلسلے میں بھی بورڈ نے سعی پیہم کی، اور یہ خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ بورڈ کی تحریک پر تین کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ای میل مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے، اسی طرح ملک کے الگ الگ حصوں میں تحفظِ اوقاف پر چھوٹے بڑے بہت سے پروگرام ہوئے، جن کا سلسلہ اب بھی دراز ہے، جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو جواب بھیجنے کے سلسلے میں امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ کا خصوصی تعاون شامل رہا، اسی طرح اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں تحفظ اوقاف کانفرنس منعقد کرنے میں مختلف دینی، ملی سماجی تنظیموں اور جماعتوں کا اہم رول ہے، مختلف پارٹیز سے ملاقاتوں کے سلسلے میں بھی متعدد احباب نے تعاون کیا، آج کا یہ اجلاس امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ جھارکھنڈ سمیت تمام ملی جماعتوں، تنظیموں اور اس مشن میں ساتھ دینے والے مخلصین اور ارکانِ بورڈ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور ان کی خدمت کی تحسین کرتا ہے، نیز امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی (کنوینر مجلسِ استقبالیہ) اور مجلسِ استقبالیہ کے تمام افراد اور عمائدین شہر بنگلور کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ ان کے حسن تعاون سے یہ اجلاس خیر وخوبی، سلیقہ اور ترتیب کے ساتھ منعقد ہوا اور یہاں سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے رہنما اور حیات بخش پیغام جاری کیا گیا۔

#AIMPLBBangaloreConference #AIMPLB #Waqf #MTIH #TIMS

Friday, 11 October 2024

بنگلور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کی تیاریوں کا آغاز! کرناٹک کے علماء و عمائدین کی ایک اہم مشاورتی نشس

بنگلور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کی تیاریوں کا آغاز!

کرناٹک کے علماء و عمائدین کی ایک اہم مشاورتی نشست!




بنگلور، 11؍ اکتوبر (پریس ریلیز): کل رات بعد نماز عشاء ٹینس پویلین، بنگلورمیں منعقد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کے تعلق سے ایک اہم مشاورتی نشست منعقد ہوئی، جس میں ریاست کے علماء و عمائدین شہر بالخصوص تمام مکاتب فکر، مسالک اور دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت فرمائی۔ اور 23؍ 24؍ نومبر 2024، بروز سنیچر، اتوار کو بنگلور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سالانہ اجلاس عام کے انتظامی امور کے سلسلے میں غور و خوص کیا گیا۔ اس موقع پر اجلاس کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں شرکائے مجلس کی جانب سے بہت اہم تجویزیں اور آراء سامنے آئیں، جن کو سامنے رکھتے ہوئے اہم فیصلے کئے گئے اور بالخصوص عمومی اجلاس عام کے انتظامی امور کو جلد مکمل کرنے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے مناسب تیاریوں کا آغاز کیا گیا۔ شرکائے مجلس میں مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، مفتی محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجدسٹی بنگلور)،  ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب (امیر جماعت اسلامی کرناٹک)، جناب مسعود عبد القادر صاحب (کنوینر مسلم متحدہ محاذ کرناٹک)، جناب سلیمان خان صاحب (معاون جنرل سکریٹری ملی کونسل)، جناب محب اللہ امین صاحب (جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء کرناٹک)، جناب عباس خان صاحب (سی ای او امان اللہ خان اینڈ سنس بنگلور)، جناب امتیاز خان صاحب، جناب یونس خان صاحب، جناب عثمان شریف صاحب (جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ)، جناب آغا سلطان صاحب (نمائندہ شیعہ جماعت)، جناب افسر بیگ صاحب (سکریٹری جلوس محمدی)، مولانا ضمیر احمد رشادی صاحب، جناب محمد فرقان صاحب (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)، قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ 23؍ 24؍ نومبر 2024، بروز سنیچر، اتوار کو بنگلور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوگا۔ جس میں ملک بھر سے بورڈ کے ذمہ داران اور اراکین شریک ہونگے، اس سالانہ اجلاس عام کی جہاں خصوصی نشستیں ہونگی وہیں تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف کے عنوان سے ایک بڑا عوامی اجلاس بھی منعقد ہوگا، جس سے اکابرین ملت خطاب فرمائیں گے، یہ عوامی اجلاس ملک کی موجودہ صورتحال میں شریعت اسلامیہ اور اوقاف کے تحفظ کے سلسلے میں جہاں اپنی نوعیت کا منفرد اجلاس ہوگا وہیں اتحاد و اتفاق امت کا ایک بڑا عملی مظاہرہ ہوگا، جس میں تمام مکاتب فکر، مسالک اور دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندگان رونق اسٹیٹس ہونگے۔ اجلاس عام میں عامۃ المسلمین سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی گئی ہے۔