Friday, 6 June 2025

شعائرِ اسلام اور ویجیٹیرین سیاست: قربانی کے خلاف پراپیگنڈے کی حقیقت!

 شعائرِ اسلام اور ویجیٹیرین سیاست: قربانی کے خلاف پراپیگنڈے کی حقیقت!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عیدالاضحیٰ کا مقدس تہوار مسلمانوں کے عقیدے اور تاریخ کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے، جس کا تعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے ہے، جنہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے جگر گوشے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس اطاعت اور وفا کو رہتی دنیا تک کے لیے مثال بنا دیا۔ اسی سنت کی یاد میں مسلمان ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر اللہ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، جس میں اطاعت، ایثار، تقویٰ، اور سماجی فلاح کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ جس سے لاکھوں لوگوں کو گوشت جیسی نعمت میسر آتی ہے۔


تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر سال جب عیدالاضحیٰ قریب آتی ہے، کچھ مخصوص حلقے اور نام نہاد جانوروں کے حقوق کے علمبردار، سوشل میڈیا سے لے کر میڈیا کے پلیٹ فارم تک مسلمانوں کی قربانی کو نشانے پر رکھتے ہیں اور اس عظیم عبادت کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ان کے نعروں میں انسانی ہمدردی کا لبادہ اوڑھا ہوتا ہے، مگر ان کے تیور میں تعصب، تہذیبی تکبر اور اسلام دشمنی جھلکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہے، قربانی ایک وحشیانہ عمل ہے، اور دنیا کو ویجیٹیرین (Vegetarian) یعنی سبزی خور ہو جانا چاہیے۔ وہ قربانی کے عمل کو ”ظالمانہ“، ”غیر انسانی“ یا ”ماحولیاتی نقصان دہ“ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں، لیکن ان کے اس موقف میں علم، عدل اور اخلاص کی کمی اور تضاد کی بہتات ہوتی ہے۔ سوال ہے کہ ان کے اعتراضات صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ جانوروں سے ہمدردی کا جذبہ واقعی مخلص ہے، یا محض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا ہتھیار ہے؟


اسلام میں قربانی محض گوشت خوری یا جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا عمل ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہم اپنی محبوب ترین چیزیں بھی قربان کر سکتے ہیں۔ قرآن میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ”لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ“ (سورہ الحج: 37) کہ ”اللہ کو نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ یہ قربانی ایک عبادت ہے جو ایک بندے کو اس کے خالق سے جوڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل لاکھوں افراد کو گوشت جیسی قیمتی نعمت مہیا کرتا ہے، جو عام دنوں میں ان کی دسترس میں نہیں ہوتی۔


قربانی پر اعتراض کرنے والے لوگ نہ تو مذہبی شعائر کی روح کو سمجھتے ہیں، اور نہ ہی زمینی حقیقتوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے قربانی صرف جانور کا قتل ہے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ عمل کس قدر منظم، بامقصد، اور انسان دوست ہوتا ہے۔ قربانی کا گوشت خاندان، رشتہ داروں، اور بالخصوص غریبوں میں تقسیم ہوتا ہے، جو سال بھر گوشت کی ایک بوند کو ترستے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں یہ تہوار فلاحی نظام کا حصہ ہے، جو سماجی مساوات اور غریب نوازی کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔


مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (Vegetarianism) کے علمبردار سال بھر مارکیٹس میں بکنے والے فاسٹ فوڈ چینز (فاسٹ Food Chains)، فیکٹری فارمنگ (Factory Farming) ، اور قصائی خانوں (Meat Processing Plant) پر کبھی آواز بلند نہیں کرتے، جہاں جانوروں کو مشینوں کے ذریعے غیر انسانی انداز میں مارا جاتا ہے۔ یہ نام نہاد ہمدرد اس پر تو خاموش رہتے ہیں، لیکن جب مسلمان شریعت کے مطابق، شفقت اور نظم کے ساتھ قربانی کرتے ہیں تو ان کے دل میں جانوروں کی ”محبت“ جاگ اٹھتی ہے۔ ان کا اعتراض نہ گوشت سے ہے، نہ جانوروں کے ذبح کرنے سے، بلکہ انہیں اصل مسئلہ مسلمانوں کے مذہبی عمل اور تہذیبی شناخت سے ہے۔


اس سے بڑا تضاد یہ ہے کہ دنیا کے کئی مذاہب میں جانوروں کی قربانی صدیوں سے رائج ہے، لیکن نشانہ صرف مسلمان بنتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی مختلف موقعوں پر جانوروں کی بلی (قربانی) دیتے ہیں۔ نیپال میں ہندو مذہب کے ماننے والے ہر پانچ سال پر گادھی مائی میلہ مناتے ہیں، جہاں ہزاروں جانوروں کی بلی (قربانی) دی جاتی ہے۔ آسام، جھارکھنڈ، اور اڑیسہ میں قبائلی رسموں میں بکروں اور مرغوں کی بلی (قربانی) صدیوں پرانی روایت ہے۔ بہت سے مندروں میں مثلاً تریپورہ سندری، کاماکھیا اور کالی گھاٹ کالی جیسے مندروں میں بھی نذر کے طور پر جانور چڑھائے جاتے ہیں۔ مگر کسی بھی ویجیٹیرین تنظیم یا جانوروں کے حقوق کے گروہ کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کا مسئلہ جانور نہیں، مسلمان ہے۔ اسی طرح جب کرسمس (Christmas) یا تھینکس گیونگ (Thanksgiving) جیسے مغربی تہواروں پر لاکھوں ٹرکی (ٹرکی Turkey؛ مرغبانی کی صنعت میں ایک بڑا پرندہ ہے، جسے ترکی پرندہ بھی کہتے ہیں) اور دیگر جانور ذبح کیے جاتے ہیں تو دنیا خاموش رہتی ہے، لیکن جب ایک مسلمان اپنے دین کے مطابق قربانی کرتا ہے، تو سب کو جانوروں کی ”تکلیف“ یاد آ جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار سراسر تعصب، منافقت، اور تہذیبی نسل پرستی کا مظہر ہے، جو ویجیٹیرین ازم کے نقاب میں مسلمانوں کے شعائر اور مذہبی آزادی پر حملہ آور ہوتا ہے۔


اب آئیے اس تضاد کے ایک اور پہلو پر غور کرتے ہیں۔ بھارت میں مویشی فارمنگ ایک منظم، تجارتی اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والی بڑی صنعت ہے، جس کی بنیاد وسیع پیمانے پر مویشیوں کی آبادی پر ہے، جو کہ تقریباً 515 ملین ہے، اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی فارمنگ صرف دودھ یا کھاد کے لیے نہیں کی جا رہی، بلکہ اس کا ایک بڑا مقصد گوشت کی پیداوار ہے۔ IMARC Group کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت میں گوشت کی مارکیٹ 2024 میں 55.3 ارب امریکی ڈالر کی ہو چکی ہے، اور 2033 تک یہ 114.4 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مزید یہ کہ FAO (Food and Agriculture Organization) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، بھارت دنیا کے سب سے بڑے گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ بھارت میں سالانہ گوشت کی پیداوار تقریباً 6.3 ملین ٹن ہے، جو اسے پیداوار کے حجم کے اعتبار سے دنیا میں پانچویں نمبر پر رکھتا ہے۔


 یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ بھارت نہ صرف دنیا میں گوشت پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، بلکہ وہ دنیا کے سب سے بڑے بیف ایکسپورٹ (Beef Exporter) ممالک میں شامل ہے۔ سرکاری APEDA کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت نے 1.5 بلین ڈالر سے زیادہ کا بیف برآمد کیا، جو ملک کی مجموعی برآمدات میں ایک اہم حصہ رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعبے پر غلبہ رکھنے والی بڑی کمپنیاں، جن کے مالکان غیر مسلم ہیں، ہر سال لاکھوں ٹن گائے، بھینس اور بیل کا گوشت بیرونِ ملک بھیج کر اربوں کا منافع کماتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں کئی کارپوریٹ ادارے، صنعت کار، اور بعض حکومتی یا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں اور حکومت ان کو نہ صرف لائسنس فراہم کرتی ہے بلکہ ان کے کاروبار کو بڑھانے میں مدد بھی کرتی ہے۔ لیکن کیا کبھی ان بڑے اداروں کے خلاف ان کمپنیوں کے گوشت پر ”جانوروں کے حقوق“ کی تنظیموں نے مظاہرہ کیا؟ کیا کسی مرکزی میڈیا ہاؤس نے ان کے فیکٹری فارموں کے خلاف کیمرہ گھمایا؟ کیا کبھی ان سے سوالات کیے گئے کہ جانوروں کو کیسے رکھا اور ذبح کیا جا رہا ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ کیونکہ جب معاملہ طاقتور طبقات، سرمائے اور منافع کا ہو، تو ”اخلاقیات“، ”جانوروں کے حقوق“ اور ”ہندو جذبات“ سب خاموش ہو جاتے ہیں۔  یہاں اصل تضاد کھل کر سامنے آتا ہے: اگر کوئی غریب یا متوسط طبقے کا مسلمان فرد، مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے ایک یا دو جانور قربان کرتا ہے، تو اسے ظلم، وحشت اور شدت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے سماجی میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے، اور بعض اوقات تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر یہی عمل بڑی کارپوریٹ کمپنیاں لاکھوں گائیں، بیل اور دیگر جانور ذبح کر کے منافع کمائیں تو وہ ایک ”قابلِ ستائش کاروبار“ اور ”برآمداتی کامیابی“ قرار پاتا ہے۔ یہ دہرا معیار صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں، بلکہ جانوروں کے حقوق اور تجارتی اخلاقیات کے اصولوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ 



درحقیقت، اسلام مخالف پراپیگنڈہ کی یہ نئی شکل ہے، جو ویجیٹیرین ازم (Vegetarianism) اور ماحولیاتی تبدیلی (Environmental change) جیسے عالمی موضوعات کا سہارا لے کر مسلمانوں کے مذہبی شعائر کو نشانہ بناتی ہے۔ قربانی صرف عبادت نہیں، ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اور جس تہذیب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ دنیا کی واحد تہذیب ہے جو قربانی کے ساتھ صفائی، فلاح، اور عدل کا سبق بھی دیتی ہے۔ اسلام میں قربانی نہ صرف جانور کے جسم کی بلکہ دل کی قربانی ہے، وہ قربانی جو غرور، لالچ، انا اور خود غرضی کو ختم کر کے انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔ یہ قربانی صرف ایک ذاتی عبادت نہیں بلکہ ایک اجتماعی عمل ہے، جس میں ہر فرد کی شرکت سماج کے کمزور طبقے تک نعمتیں پہنچاتی ہے۔


اسلام کسی پر کھانے پینے کے معاملے میں جبر نہیں کرتا، نہ ہی کسی کے ذوق کو برا کہتا ہے۔ لیکن یہ حق ضرور دیتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکے، بشرطیکہ وہ قانون اور شریعت کے دائرے میں ہو۔ ہندوستان جیسے آئینی، سیکولر ملک میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، اور قربانی اس آئینی حق کا حصہ ہے۔ ایسے میں قربانی پر اعتراض صرف مذہبی تعصب اور سماجی پولرائزیشن (Social Polarization) کو ہوا دینے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔


مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وہ اس پروپیگنڈہ کے خلاف محض جذباتی نہیں، بلکہ مکمل دلیل کے ساتھ عقلی، سائنسی، آئینی اور اخلاقی جواب دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا کو دکھائیں کہ ہماری قربانی صرف جانور نہیں، بلکہ انسانیت کے ساتھ محبت، سماج کے ساتھ انصاف، اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا پیغام ہے۔ ہمیں اپنی قربانی کو اس طرح انجام دینا چاہیے کہ اس میں صفائی، شفقت، اور معاشرتی فلاح کا پیغام ہو؛ جس کی تعلیم دین اسلام دیتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ قربانی صرف ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ یہ غربت کے خلاف ایک بڑی مہم ہے، ایک فلاحی نظام کا حصہ ہے، اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ ہم صفائی کا خیال رکھیں، ماحول کو آلودہ نہ کریں، اور اس عبادت کو اس کے حقیقی وقار کے ساتھ انجام دیں۔


ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بھارت کا آئین ہمیں مذہبی آزادی، شخصی آزادی اور عبادت کا حق دیتا ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اس آئینی حق کو سوشل میڈیا کے دباؤ یا ٹی وی کی چیخ پکار سے چھین نہیں سکتا۔ مسلمان اپنی عبادات پر شرمندہ نہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں چاہیے کہ علم، اخلاق، اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی شناخت کا دفاع کرتے رہیں۔ دنیا کو ویجیٹیرین (Vegetarian) بننے سے نہیں روکا جا رہا، لیکن یہ بات بھی قبول نہیں کہ کسی کے ”غذائی عقیدے“ کو دوسروں کے ”ایمانی عقیدے“ پر مسلط کیا جائے۔ قربانی نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایک حق ہے، اور اس حق کا دفاع علمی، آئینی، اور پرامن طریقے سے ہر مسلمان کا فرض ہے۔


یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تہذیب، عقیدے اور روایات کے تحفظ کے لیے باوقار انداز میں کھڑے ہوں، اور دنیا کو بتائیں کہ ہمارے شعائر ہماری پہچان ہیں اور ہم اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دین ہمیں قربانی کے ذریعے ایثار، اطاعت، اور فلاحِ انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔


اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ 

”میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“ (سورۃ الانعام: 162)


Thursday, 5 June 2025

وقف اسلام کا اہم ترین جز ہے، غیر آئینی وقف ترمیمی قانون واپس ہونے تک تحریک جاری رہے گی

 وقف اسلام کا اہم ترین جز ہے، غیر آئینی وقف ترمیمی قانون واپس ہونے تک تحریک جاری رہے گی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ سے مولانا فضل الرحیم مجددی، مفتی افتخار احمد قاسمی، مولانا مقصود عمران رشادی، مولانا عبد الرحیم رشیدی کے خطابات!


بنگلور، 04؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”وقف بچاؤ،دستور بچاؤ کانفرنس“کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے فرمایا کہ وقف کا تصور اسلام کا ایک بنیادی، دینی اور روحانی نظام ہے، جو قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل پایا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی فلاح و بہبود، دینی تعلیمات کی ترویج، اور مستحقین کی مدد ہے بلکہ یہ اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک اہم ستون بھی ہے۔ وقف کا وجود پارلیمانی قانون سازی کا محتاج نہیں بلکہ اس کی بنیاد دین اسلام میں مضمر ہے، اور اس میں مداخلت دراصل مسلمانوں کے دینی امور میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حالیہ وقف ترمیمی قانون 2025ء اسی اسلامی روح اور آئینی ڈھانچے کے خلاف ایک سنگین کوشش ہے، جو آئین ہند کے دیے گئے مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور شخصی آزادی کے اصولوں سے متصادم ہے۔ مولانا مجددی نے فرمایا کہ ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ وقف کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا جائے گا، اس کالے قانون کو مسلمان کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے اور اس ترمیمی قانون کے خلاف پرامن، آئینی اور جمہوری دائرے میں رہ کر بھرپور تحریک جاری رکھی جائے گی۔ وقف کے تحفظ کے لیے ہماری جدوجہد صرف قانونی ہی نہیں بلکہ یہ ایک دینی فریضہ ہے۔


کانفرنس کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ وقف ایک خالص مذہبی اور دینی معاملہ ہے، جس کی بنیاد اسلام کی تعلیمات پر ہے، اور جس کا مقصد عبادت گاہوں، دینی اداروں، یتیموں، غریبوں اور انسانی خدمت کے مختلف شعبوں کو مستقل اور منظم سہارا فراہم کرنا ہے۔ ایسے مقدس نظام میں حکومت یا کسی غیر مسلم ادارے یا لوگوں کی مداخلت نہ صرف مذہبی آزادی میں خلل ہے بلکہ آئین ہند کی روح کے بھی منافی ہے۔ حالیہ وقف ترمیمی قانون 2025ء درحقیقت آئینی، مذہبی اور اقلیتی حقوق پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اگر یہ قانون واقعی آئینی ہوتا تو سپریم کورٹ اس پر عارضی پابندی عائد نہ کرتا۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ آج اگر مسلمانوں کے وقف پر قدغن لگائی جا رہی ہے تو کل کسی اور اقلیت کی مذہبی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر انصاف پسند، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہو، اس قانون کے خلاف آواز بلند کرے۔ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں، تمام اہلِ ایمان اور آئینِ ہند کا مشترکہ مسئلہ ہے۔


کانفرنس کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ وقف ایک مقدس امانت ہے جو کسی فرد کی ذاتی جائیداد نہیں بلکہ اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، جسے صدیوں سے دینی، فلاحی اور تعلیمی مقاصد کے لیے وقف کیا جاتا رہا ہے۔ اس نظام میں مداخلت نہ صرف مذہبی آزادی پر حملہ ہے بلکہ آئین ہند کی خلاف ورزی بھی ہے، جو اقلیتوں کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتا ہے۔ حالیہ وقف ترمیمی قانون کے تحت وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنا انتہائی قابل اعتراض ہے، کیونکہ اگر یہ اصول درست ہے تو کیا غیر مسلم کے مذہبی اداروں کے بورڈز میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جائے گا؟ سپریم کورٹ کی جانب سے اس قانون پر عبوری پابندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس میں آئینی خامیاں موجود ہیں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ ہم اپنے اکابرین کے حکم اور آئینی حق کے تحت ان غیر آئینی ترمیمات کے خلاف پرامن تحریک جاری رکھیں گے، کیونکہ وقف صرف زمین نہیں بلکہ دین کا حصہ ہے، اور اس کی حفاظت ہم سب کا دینی و قومی فرض ہے۔


کانفرنس کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ وقف اسلام کا ایک اہم اور ثابت شدہ جز ہے، جس کی بنیاد قرآن و حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ اس کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ وقف کا تصور اسلام یا قرآن میں نہیں پایا جاتا، سراسر لاعلمی اور گمراہی ہے۔ وقف کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں نے مدارس، مساجد، یتیم خانے، اور دیگر فلاحی ادارے قائم کیے اور امت کی اجتماعی خدمت انجام دی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج وہی لوگ جو نہ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہیں، نہ وقف کی روح اور تاریخ کو سمجھتے ہیں، وہی ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں، جو کہ نہ صرف دینی آزادی کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین کے بنیادی حقوق کے بھی منافی ہے۔ مولانا رشیدی نے فرمایا ہمیں چاہیے کہ ہم شعور و بیداری کے ساتھ، قانونی اور جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے، اس مداخلت کے خلاف منظم اور پرامن جدوجہد جاری رکھیں، کیونکہ وقف کا دفاع دراصل دین اور آئین دونوں کا دفاع ہے۔


قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کی نشستیں مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی، نشستوں کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان اور رکن مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت اور رکن قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانا محمد نظام الدین مظاہری، حارث پٹیل، محمد فرحان، مولانا ایوب قاسمی، سید توصیف، محمد کیف، وغیرہ بطور خاص شریک تھے۔ اس موقع پر تمام اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور متعلقہ نشستوں کے صدر کی دعا پر یہ عظیم الشان ”وقف بچاؤ، دستور بچاؤ کانفرنس“ کی الگ الگ نشستیں اختتام پذیر ہوئی۔

#SaveWaqfSaveConstitution | #WaqfBachaoCampaign | #RejectWaqfAct | #WithdrawWaqfAmendments | #WaqfAmendmentAct | #MTIH | #TIMS

Tuesday, 3 June 2025

ظلم کے اندھیرے میں چراغِ بیداری؛ وقت کی پکار ہے!

 ظلم کے اندھیرے میں چراغِ بیداری؛ وقت کی پکار ہے!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



ہمارا ملک اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر انصاف پسند شہری کے لیے فکرمندی کا باعث ہیں۔ جہاں جمہوریت، سیکولرازم، اور قانون کی بالادستی کے دعوے کیے جاتے ہیں، وہیں حقیقت یہ ہے کہ ان اقدار کو آئے دن پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جہاں سچ بولنے، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے، اور مذہبی شناخت کے ساتھ جینے تک کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب، اور امتیازی سلوک اب انفرادی معاملات نہیں رہے بلکہ ایک منظم ریاستی رویہ بنتا جا رہا ہے۔


سوشل میڈیا جو کبھی اظہار رائے، علم کی ترسیل اور انصاف کی آواز کے لیے استعمال ہوتا تھا، آج مسلمانوں کے لیے جال، ہتھکڑی اور قید کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ صرف ایک پوسٹ، ایک ویڈیو، یا کسی واقعے پر سچ بولنے کی پاداش میں درجنوں مسلم نوجوان جیلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ اُن پر ملک دشمنی، مذہبی جذبات بھڑکانے یا "نفرت انگیز" مواد کا الزام لگا کر ان کی زندگیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، جبکہ وہی زبانیں جو دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی ہیں، آزاد گھومتی ہیں اور سرکاری تحفظ پاتی ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ انصاف کا ترازو اب یکطرفہ ہو چکا ہے۔


وقف املاک صدیوں سے مسلمانوں کی دینی، تعلیمی اور فلاحی ضروریات پوری کرتی رہی ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف عبادت و روحانیت کا مرکز رہے بلکہ مسلمانوں کی خود انحصاری اور اجتماعی طاقت کی علامت بھی تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے لایا گیا وقف ترمیمی قانون ان املاک کو حکومتی گرفت میں لے کر ان کے اصل مصرف کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ قانون محض قانونی ترمیم نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت مسلمانوں کی خودمختار شناخت، ان کے ادارے، اور ان کا ماضی سب مٹا دیے جائیں۔ وقف بورڈز کو حکومت کے ماتحت کرنا، ان جائیدادوں کی خرید و فروخت کا اختیار حکومتی افسروں کو دینا، اور ان پر مسلمانوں کا عملی اختیار ختم کرنا، ایک طرح کا جدید "قانونی قبضہ" ہے۔


مدارس جنہوں نے اس ملک کو ہزاروں علماء، مصلحین، مجاہدین آزادی اور محب وطن افراد دیے، آج ان پر بھی تنگ نظری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ انہیں بدنام کیا جا رہا ہے، ان کے نصاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور بعض ریاستوں میں تو انہیں بند کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ مدارس نے ہمیشہ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آزادی کی جدوجہد میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، آزادی کی تحریک میں مدارس نے جو قربانیاں دیں، وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہیں۔ ان مدارس نے ہمیشہ اپنے طلباء کو نہ صرف دینی علوم سے آراستہ کیا، بلکہ ان میں وطن کی محبت، قربانی کی روح اور ملت کی خدمت کا جذبہ بھی اجاگر کیا۔ مدارس کی موجودگی ملک کی ثقافتی و دینی ورثہ کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے اصل محافظ ہیں۔ آج جن مدارس پر حملے ہو رہے ہیں، وہ دراصل ملک کی جڑوں اور ملت اسلامیہ کی دینی کی بنیادوں پر حملہ ہیں۔ یہ کوششیں مسلمانوں کو اپنی جڑوں سے کاٹنے اور ان کی تاریخ و ثقافت کو مٹانے کی ناپاک سازش ہیں۔ ان اداروں کو بدنام کرنے اور ان کے نصاب کو نشانہ بنانے کے پیچھے ایک سوچ ہے جو ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی تنوع کو ختم کرنا چاہتی ہے، جن کا مقابلہ حکمت، دانشمندی اور مکمل تیاری سے کیا جانا ضروری ہے۔



دوسری طرف شان رسالت میں گستاخ کے روح فرسا واقعات میں بھی دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین امتِ مسلمہ کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان گستاخوں کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں انہیں "اظہارِ رائے کی آزادی" کے نام پر بہادری کا تمغہ دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ امت کا ہر فرد رسولِ خدا ﷺ سے اپنی جان، مال، عزت سے زیادہ محبت رکھتا ہے، اور اس محبت کی توہین برداشت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس حساسیت کو نہ سمجھا جاتا ہے، نہ تسلیم کیا جاتا ہے، بلکہ جو مسلمان ان واقعات پر ردِعمل ظاہر کرے، اسی کو شدت پسند اور خطرناک قرار دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔


پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم نفرت انگیزی کا ماحول تیار کیا جا چکا ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، انہیں شدت پسند، دہشت گرد، یا سماج کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ نفرت صرف زبانی نہیں رہی بلکہ عملی صورت میں مآب لنچنگ، سوشل بائیکاٹ، کاروباری نقصان، اور تعلیمی مواقع سے محرومی کی شکل میں سامنے آ چکی ہے۔ اس فضا میں مسلمانوں کا زندہ رہنا، اپنی شناخت کو بچائے رکھنا، اور اپنی نئی نسل کی فکری و تعلیمی تربیت کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔


ایسے کٹھن حالات میں مسلمانوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے، انہیں تعلیمی بیداری کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا۔ دینی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کو اپنے اپر لازمی کرنا ہوگا، عصری علوم بالخصوص جدید ترین ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کر کے نوجوانوں کو باوقار اور مضبوط شہری بنانا ہوگا۔ انہیں نہ صرف اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا سکھانا ہوگا، بلکہ دوسروں کے لیے بھی عدل اور مساوات کی آواز بلند کرنے والا بنانا ہوگا۔ قوم کو آپس کے اختلافات، فرقہ واریت اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ایک مضبوط ملت کی صورت میں منظم ہونا ہوگا۔ اتحاد، شعور، اور مسلسل محنت ہی وہ زادِ راہ ہے جس سے ہم اس اندھیرے دور میں روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔


ہمیں قانونی میدان میں اپنی موجودگی مضبوط کرنی ہوگی، باوقار انداز میں اپنے اداروں، اپنی تہذیب اور اپنے وقار کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ہمیں سوشل میڈیا پر حکمت اور فہم کے ساتھ سرگرم رہنا ہوگا، جذباتیت سے نہیں بلکہ علم و دلیل سے کام لینا ہوگا۔ ہر مسلمان کو اپنی بات کہنے کا حق ہے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کا مقدمہ وقار، دانائی اور سچائی کے ساتھ پیش کرے۔


یہ وقت بے حسی، خاموشی یا مایوسی کا نہیں، بلکہ بیداری، بیداری اور صرف بیداری کا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خود کو منظم نہ کیا، اپنے نوجوانوں کو تیار نہ کیا، اپنے اداروں کو نہ بچایا، اور اپنے دین و تشخص کی حفاظت کے لیے کھڑے نہ ہوئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ یہ وقت تاریخ کا وہ موڑ ہے جہاں ایک طرف ظلم، ناانصافی اور نفرت کا سیلاب ہے، اور دوسری طرف ایمان، صبر، حکمت، اور عزم کا چراغ ہے، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس چراغ کو تھام کر اندھیرے میں راستہ بناتے ہیں یا حالات کے آگے بے بس ہو کر خود کو بھلا دیتے ہیں۔


ظلم کے اندھیرے میں چراغِ بیداری؛ وقت کی پکار ہے!



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

03 جون 2024ء بروز منگل


#PaighameFurqan | #ProphetMohammed | #IndianMuslim | #SaveMadrasas | #StopMadrasaShutdown | #RejectWaqfAct | #WaqfAmendmentAct | #WithdrawWaqfAmendments | #MobLynching | #FakeNews 

Friday, 30 May 2025

دارالعلوم دیوبند کی ”یومِ تاسیس“ اور اکابر دیوبند کا طرزِ عمل!

 دارالعلوم دیوبند کی ”یومِ تاسیس“ اور اکابر دیوبند کا طرزِ عمل! 


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


دارالعلوم دیوبند برصغیر کی وہ عظیم دینی درسگاہ ہے جس نے نہ صرف اسلامی علوم کی شمع روشن کی بلکہ برطانوی استعمار کے خلاف فکری و عملی جہاد کا بھی مرکز رہی۔ اس ادارے کی بنیاد ١٥؍ محرم الحرام ١٢٧٣ھ مطابق 31؍ مئی 1866 کو رکھی گئی، اور اس کے بعد سے یہ ادارہ امت مسلمہ کی علمی، دینی، اور فکری رہنمائی کا مرکز بنا رہا۔ تاہم حالیہ برسوں میں بعض حلقوں کی جانب سے ”یومِ تاسیس“ منانے کی روایت شروع کی گئی ہے، جو دیوبند کے اصل مزاج و منہج سے ہم آہنگ نظر نہیں آتی۔


دارالعلوم دیوبند کی امتیازی خصوصیات میں اخلاص، سادگی، ریاکاری سے اجتناب اور غیر رسمی طرزِ عمل شامل رہے ہیں۔ اکابرینِ دیوبند کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی رسمی تقریبات، سالگرہ منانے یا ادارہ جاتی دنوں کی خصوصی تقریبات سے اجتناب کرتے رہے۔ ان کے نزدیک دین کی خدمت ہی اصل شرف ہے، نہ کہ اس کی نمائش۔


بعض لوگوں کی نظر میں یومِ تاسیس منانا ایک جائز امر ہے، جس میں ادارے کی خدمات کا اعتراف اور نئی نسل کو اس کی تاریخ سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ عمل؛ رسمی تقاریب، دکھاوے اور دنیاوی نمائش کا شکار ہو جائے، اخلاص کی جگہ شہرت اور پذیرائی مقصود ہو جائے، اور یہ تقاریب دیگر مکاتبِ فکر کی غیر اسلامی رسوم کی نقل پر مبنی ہوں۔


دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں تقریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کے باوجود اس کے اکابرین نے کبھی بھی ”یومِ تاسیس“ منانے کا اہتمام نہیں کیا۔ نہ اس کی کوئی باقاعدہ تقریب منعقد کی، نہ ہی اس دن کو خصوصی اہمیت دی اور نہ ہی اس کی کوئی عملی مثال چھوڑی۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ،  شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ، اور دیگر جملہ اکابر نے دارالعلوم کی بنیاد کے دن کو کوئی ”مقدس“ یا ”خصوصی“ حیثیت نہیں دی۔ ان کے نزدیک دارالعلوم کی اہمیت اس کی تاریخِ آغاز سے نہیں، بلکہ اس کے مشن اور خدمات سے تھی۔


یہ بات غور طلب ہے کہ اکابر کی اتنی طویل جماعت میں سے کسی نے بھی کبھی اس دن کو منانے کا مشورہ نہیں دیا، نہ ہی اس پر کوئی مضمون، تقریر یا تحریر موجود ہے۔ اگر اس طرح کا اہتمام مستحسن ہوتا، تو یقیناً ہمارے اکابر اس پر نہ صرف خاموش نہ رہتے بلکہ اس کی عملی مثال بھی قائم کرتے۔ ان کے نزدیک ہر دن علم، تقویٰ، اور دین کی خدمت کا دن تھا۔ دارالعلوم کی بقا کا راز بھی اسی خلوص، سادگی، اور ریاکاری سے اجتناب میں پوشیدہ ہے۔ 


کسی بھی بدعت کی ابتداء بظاہر جائز یا مباح امور سے ہوتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ وہی عمل رسم بن جاتا ہے، اور پھر اس میں دین داری کا گمان پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر آج ہم یومِ تاسیس کو ”محض تاریخی یادگار“ کہہ کر منائیں، تو کل کو یہی عمل ”دینی تقاضا“ سمجھا جانے لگے گا۔


دارالعلوم دیوبند کی عظمت اس کی تاریخ منانے میں نہیں، بلکہ اس کے منہج کو زندہ رکھنے میں ہے۔ اگر ہم واقعی دارالعلوم سے محبت رکھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے اکابر کے طرزِ عمل کو اپنائیں، علم، اخلاص، اور عمل سے وابستہ رہیں، نہ کہ رسمی تقاریب اور دنیاوی نمائش سے۔ دارالعلوم دیوبند کی یومِ تاسیس منانا نہ صرف دیوبندی مزاج کے خلاف ہے بلکہ اس میں ایسی رسمیت اور دکھاوا شامل ہو سکتا ہے جو دین کی روح کے خلاف ہے۔ ہمیں اپنے اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے سادگی، خلوص، اور خدمتِ دین کو اپنانا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اکابر کے مزاج، منہج، اور فکری طہارت کو زندہ رکھیں۔ خلوص کے اس چراغ کو دنیاوی رسموں اور غیر ضروری تقریبات کی ہوا سے بجھنے نہ دیں۔ امید ہے کہ ہم اس طرف توجہ فرمائیں گے، اور دیوبندیت کو محض ظاہری نسبت نہیں بلکہ فکری و عملی پیروی کی شکل میں اپنائیں گے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

30؍ مئی 2025ء، بروز جمعہ

#PaighameFurqan | #DarulUloomDeoband | #DarulUloom | #Deoband

Monday, 26 May 2025

وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف خواتین کے احتجاجی مظاہرے : چند گزارشات!

 وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف خواتین کے احتجاجی مظاہرے : چند گزارشات! 


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند) 



وقف ترمیمی قانون 2025 بلاشبہ ایک حساس، شرعی، اور آئینی مسئلہ ہے، جس پر ملتِ اسلامیہ ہند کا احتجاج ایک فطری اور ضروری رد عمل ہے۔ اس قانون کے ذریعے نہ صرف وقف کی شرعی بنیادوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ اسے ہڑپنے اور خاص طور پر اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں قوم کا بیدار ہونا، آواز بلند کرنا، اور آئینی دائرے میں جدوجہد کرنا قابل تحسین ہے۔


تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جائز تحریک کی آڑ میں بعض مقامات پر ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں جن کا شریعتِ مطہرہ اور اسلامی غیرت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر خواتین کی جانب سے بے پردگی، مخلوط اجتماعات، اور ایسے نعروں کا استعمال جو اسلامی آداب اور تہذیب سے متصادم ہیں، یہ سب ایک سنگین فکری اور عملی انحراف کی علامت ہے۔


اسلام نے عورت کو عظمت، حیاء، اور وقار کا پیکر بنایا ہے۔ اسلام کا دیا ہوا پردہ محض ایک ظاہری لباس نہیں، بلکہ یہ اُس روحانی تحفظ، عفت اور وقار کا ضامن ہے جس سے ایک معاشرہ پاکیزگی، برکت، اور امن کا گہوارہ بنتا ہے۔ وقف کی حفاظت کی بات ہو اور وقف کی اصل روح یعنی دینی اقدار کو ہی پامال کیا جائے، تو یہ خود اپنے مقصد سے انحراف ہے۔


تحریکیں اگر کردار سازی سے خالی ہوں، اور صرف جذباتی نعروں اور وقتی شورش پر مبنی ہوں، تو وہ دیرپا اثر نہیں چھوڑتیں۔ خاص طور پر جب خواتین اسلام کے وقار کو نمایاں کرنے کے بجائے میڈیا کی توجہ کا ذریعہ بن جائیں، تو نقصان دوگنا ہوتا ہے: نہ صرف تحریک کی سنجیدگی مشکوک بن جاتی ہے بلکہ اسلام مخالف عناصر کو ملت پر تنقید کا موقع بھی مل جاتا ہے۔


لہٰذا ضروری بلکہ لازم ہے کہ :

1) تحریک اور احتجاج کے تمام شرکاء خاص طور پر خواتین مکمل طور پر شرعی آداب، پردے اور اسلامی اخلاق کا پاس و لحاظ رکھیں، تاکہ ہماری جدوجہد دینِ اسلام کی اقدار کا آئینہ دار ہو۔

2) پروگرام کے منتظمین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ خواتین کا احتجاج اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار جیسا کہ حیا، وقار اور کردار کا عملی مظہر ہو، تاکہ دنیا کے سامنے  دینِ اسلام کی حقیقی اور مثبت تصویر پیش کی جا سکے۔

3) نوجوان نسل کو یہ سمجھایا جائے کہ شریعت اور دستور کی حفاظت کے لیے جدوجہد، خود شریعت کی پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔


وقف کی حفاظت ہمارے دین اور تہذیبی ورثے کا ایک اہم تقاضا ہے، اور اس کے لیے بھرپور جدوجہد وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ تاہم یہ بات ہر کارکن، ہر رہنما اور ہر فرد کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ یہ جدوجہد اسی وقت بااثر اور بابرکت ہو سکتی ہے جب وہ مکمل طور پر دینِ اسلام کی تعلیمات، شریعت کی حدود، اور اخلاقی آداب کے دائرے میں رہ کر کی جائے۔ کیونکہ شریعت سے ہٹ کر کی جانے والی کوئی بھی کوشش، کتنی ہی پرجوش کیوں نہ ہو، آخرکار اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ وقف بچانے کا راستہ، شریعت اپنانے سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا اصل ہتھیار ہماری اخلاقی برتری، ہماری دینی وابستگی، اور ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اگر ہم خود ہی اپنی بنیادوں کو کھوکھلا کریں گے، تو کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔