Wednesday, 18 June 2025

مدارس پر حکومتی یلغار اور جمعیۃ علماء ہند کی آئینی جنگ!

 مدارس پر حکومتی یلغار اور جمعیۃ علماء ہند کی آئینی جنگ! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

آزادیٔ ہند کی تاریخ جب بھی دیانتداری اور غیرجانبداری کے ساتھ دیکھی جائے گی، تو اس کے اوراق میں ایک تابناک اور ناقابلِ فراموش عنوان "مدارسِ اسلامیہ" کی صورت میں ضرور نمایاں ہوگا۔ وہی مدارس، جو محض عبادت و تعلیم کے مراکز نہ تھے بلکہ ایک بھرپور انقلابی تحریک کے مراکز تھے، جہاں سے انگریز سامراج کے خلاف سب سے پہلی، دلیرانہ اور منظم مزاحمت کی بنیاد پڑی۔ یہ وہی علمی و روحانی قلعے تھے جہاں مجاہدینِ آزادی کی فکری تربیت ہوئی، جہاں علم و شعور کے چراغ جلائے گئے، آزادی کی چنگاریاں سلگائی گئی، اور جہاں کے علماء نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ملت کو بیداری اور خودی کا پیغام دیا۔ ان مدارس نے نہ صرف دین کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا بلکہ قوم کی تہذیبی و فکری شناخت کو بھی دوام بخشا اور آزادی کی تحریک کا آغاز کیا۔ آج وہی مدارس، جو ملت کی دینی، تہذیبی اور تعلیمی شناخت کے مضبوط قلعے رہے ہیں، ایک بار پھر سازشوں کے نرغے میں ہیں، انہی مدارس پر نئے دور کی یلغار برپا ہے، اس مرتبہ دشمن کا یہ حملہ بندوق یا توپ سے نہیں بلکہ سرکاری پالیسیوں، عدالتی تشریحات، انتظامی تعصبات، فرقہ وارانہ ذہنیت اور میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے سے لیس ہے، جو انہیں کمزور کرنے، بدنام کرنے اور غیر مؤثر بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔


ایسے پرآشوب وقت میں ان حملوں کے مقابلے میں، جمعیۃ علماء ہند اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم المرتبت قائد حضرت مولانا سید ارشد مدنی، نہایت بالغ نظری، بصیرت اور جرأت کے ساتھ ان سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مدارس کے تحفظ و بقا کی سب سے توانا اور مؤثر آواز بن کر ابھرے ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جو خود دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارے کا امین ہے۔ مولانا نے اپنی تمام تر صلاحیتیں، بصیرت، فہم و فراست اور قیادت کی طاقت کو مدارس کے تحفظ کے لیے وقف کیا۔ انہوں نے نہ صرف قانونی سطح پر ان اداروں کے دفاع کی حکمت عملی تیار کی بلکہ عوامی ذہن سازی اور سیاسی بیداری کے میدان میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کا قیام جن مقاصد کے لیے عمل میں آیا تھا، ان میں ایک بڑا مقصد مدارس اسلامیہ کی حفاظت اور ترویج بھی شامل تھا۔ اس عظیم ملی، دینی اور انقلابی تنظیم نے نہ صرف مدارس کو سرکاری مداخلت سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کیں بلکہ ہر اُس سازش کا پردہ چاک کیا جو کسی نہ کسی بہانے سے مدارس کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی۔ آزادی سے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی جمعیۃ نے مدارس کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا فکری، قانونی، عوامی اور سیاسی کردار بخوبی ادا کیا۔ وقت کے ساتھ جب مدارس پر الزامات کا ایک طوفان اٹھا، کبھی دہشت گردی کے الزامات، کبھی غیر معیاری تعلیم کی دہائی، کبھی قومی دھارے سے نہ جڑنے کا پروپیگنڈا، تو جمعیۃ علماء ہند اور اس کے موجودہ صدر مولانا سید ارشد مدنی ان الزامات کا مدلل جواب دینے اور مدارس کی اصل حقیقت کو ملک کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ ان کی قیادت، ان کا اخلاص، اور ان کی بےلوث جدوجہد آج اس بات کی دلیل ہے کہ جب بھی ملت پر کڑا وقت آیا، مدارس اور ان کے محافظین صفِ اول میں کھڑے دکھائی دیے۔ 


ملک میں اس وقت مسلمانوں پر جو ہمہ جہت سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی یلغار جاری ہے، اس کا ایک نہایت خطرناک اور منظم پہلو مذہبی تعلیم کے مضبوط قلعوں، یعنی مدارس اسلامیہ، کے خلاف جاری مہم کی صورت میں نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ان اداروں کو کمزور کرنے، بدنام کرنے اور ان کے وجود کو مشکوک بنانے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے، بالخصوص اُن ریاستوں میں جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے، جیسے اترپردیش، اتراکھنڈ اور آسام، وہاں مدارس کو یکے بعد دیگرے نشانہ بناکر سینکڑوں مدارس یا تو بند کیے جا چکے ہیں یا انہیں نوٹس دے کر قانونی پیچیدگیوں میں الجھایا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ کارروائیاں حقِ تعلیم ایکٹ یا زمین کی نوعیت جیسے مسائل کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں لیکن ان اقدامات کے پیچھے کارفرما ذہنیت خالصتاً تعصب، خوف اور اقلیت دشمنی پر مبنی ہے، جو ملک کی اقلیتی برادری، خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے دینی، تعلیمی اور تہذیبی مراکز سے محروم کر دینے کی دانستہ و منصوبہ بند کوشش کا نہ صرف حصہ ہے، بلکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ 


مدارس، جو صدیوں سے نہ صرف دینی علوم کا سرچشمہ رہے ہیں بلکہ سماجی انصاف، روحانی تربیت اور قومی یکجہتی کے ضامن بھی رہے ہیں، آج اُنہیں شدت پسند پروپیگنڈے، میڈیا ٹرائل، اور سرکاری جبر کے ذریعے ایک مشتبہ ادارے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ نئی نسل کو ان اداروں سے بدظن کیا جا سکے اور دینی علوم کی روایت کو رفتہ رفتہ ختم کیا جا سکے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب ملک کو مذہبی ہم آہنگی، تعلیم کے تنوع، اور آئینی مساوات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، مگر افسوس کہ مدارس کو نشانہ بنا کر نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے بلکہ ایک پوری قوم کے فکری، روحانی اور تمدنی تشخص پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اس ناپاک مہم کے پیچھے وہی ذہن کارفرما ہے جو چاہتا ہے کہ مسلمان تعلیمی، فکری اور ثقافتی سطح پر کمزور پڑ جائیں، تاکہ وہ اپنے دینی شعور اور ملی وحدت سے محروم ہو کر آسان ہدف بن جائیں۔ یہ صورتحال نہ صرف قابلِ تشویش ہے بلکہ تمام انصاف پسند، سیکولر اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شہریوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، کیونکہ مدارس پر حملہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے آئینی اقدار، اقلیتی حقوق اور تعلیمی آزادی پر ایک کھلا وار ہے، جسے ہر باضمیر فرد کو سمجھنے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

 

جمعیۃ علماء ہند نے اس خطرناک رجحان کو نہ صرف بروقت پہچانا بلکہ اس کے خلاف قانونی، سیاسی اور سماجی ہر محاذ پر مسلسل لڑائی بھی لڑی۔ سپریم کورٹ میں مدارس کے تحفظ کے لیے داخل کی گئی پٹیشن ہو یا مختلف ریاستوں کی کارروائی کے خلاف قانونی چارہ جوئی، جمعیۃ نے کسی بھی محاذ پر پسپائی اختیار نہیں کی۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے یہ ثابت کیا کہ جب ملت کے مفادات خطرے میں ہوں، تو قیادت کا اصل تقاضا صرف تقریر یا احتجاج نہیں بلکہ عملی جدوجہد، حکمت، اور صبر و استقامت کے ساتھ میدان عمل میں رہنا ہے۔ اترپردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد جس نے مدرسہ بورڈ کی قانونی حیثیت کو ہی چیلنج کر دیا تھا، ملت میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے منظور شدہ مدارس بھی اس زد میں آ گئے۔ اس وقت بھی مولانا ارشد مدنی نے نہایت فہم و فراست کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اور 6 نومبر 2024ء کو عدالتِ عظمیٰ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مدارس کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مدرسہ قانون آئینی ہے اور اس پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا۔ اس فیصلے نے جمعیۃ کی قانونی جدوجہد کو ایک اہم کامیابی عطا کی، اور مدارس کی بقاء کو وقتی طور پر محفوظ کیا۔ 



تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالتوں کے واضح فیصلوں اور آئینی دفعات کے باوجود ریاستی حکومتیں اپنی ضد پر قائم ہیں اور مسلمانوں کو تعلیمی طور پر پسپا کرنے کی سازش رچ رہی ہیں۔کیونکہ اس فیصلے کے بعد جو نیا سلسلہ شروع ہوا، اس میں مدرسوں اور مزارات کو زمین کی نوعیت کے بہانے نشانہ بنایا گیا۔ جنگلاتی زمین، سرکاری زمین، اور مبینہ طور پر غیر منظور شدہ تعمیرات کو بنیاد بنا کر مدارس، مساجد اور درگاہوں کو مسمار کیا جانے لگا۔ رپورٹ کے مطابق صرف یوپی اور اتراکھنڈ میں اب تک سینکڑوں مدارس کو نوٹس جاری کیا گیا ہے اور کئی مدارس بند کیے جا چکے ہیں۔ جن میں سے اتراکھنڈ میں ہی 17 مزارات شہید کر دیے گئے، اور 170 مدارس کے خلاف کارروائی کی گئی، اور اتر پردیش کے سرحدی علاقوں میں سینکڑوں مدرسوں کو ’غیر قانونی‘ قرار دے کر تالے ڈالے گئے۔ یہی نہیں، یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اقلیتی اداروں کو حق تعلیم ایکٹ 2009ء سے استثنا حاصل ہے۔ لیکن بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں جس طرح مدارس کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ محض انتظامی فیصلے نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد مسلم بچوں کو دینی تعلیم سے محروم کرنا اور قوم کو اپنے تعلیمی و روحانی مراکز سے کاٹ دینا ہے۔ اس بار بھی جمعیۃ علماء ہند میدان میں آئی اور سپریم کورٹ میں نہ صرف قانونی پٹیشن دائر کی بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت آرکیٹیکٹ پینل تشکیل دیا، تاکہ مدارس کی تعمیری منظوری جیسے تکنیکی امور کو آسانی سے حل کیا جا سکے۔


مولانا ارشد مدنی نے بارہا اس حقیقت کو دوہرایا کہ مدارس محض تعلیم گاہیں نہیں بلکہ قوم کی تہذیبی اور دینی پہچان کا استعارہ ہیں، جو ہمارا بنیادی آئینی حق ہے۔ انہوں نے متعدد مواقع پر واضح الفاظ میں کہا کہ "مدارس ہماری شہ رگ ہیں، ہم اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے۔" ان کا یہ جملہ صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم ہے جو ہر مسلمان کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا مدنی نے اعظم گڑھ کے سرائے میر میں منعقد حالیہ تحفظ مدارس کانفرنس میں مدارس کے کردار پر روشنی ڈالی اور یاد دلایا کہ یہی مدارس 1857ء کی جنگ آزادی کے حقیقی مورچے تھے جہاں سے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند ہوئی، تو دشمنوں کو سب سے زیادہ تکلیف انہی سچائیوں سے ہوئی اور مسلسل میڈیا پر ان کے بیانات کو لے کر شور برپا رہا۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مدرسے آزادی کی تحریک کے اولین مراکز رہے ہیں۔ انکار کی جتنی کوششیں کی جائیں، تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ اور مولانا مدنی نے واضح کر دیا کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، بدلا نہیں جا سکتا۔ اس طرح جمعیۃ نے نہ صرف قانونی لڑائی لڑ رہی ہے بلکہ زمینی سطح پر بھی مربوط اقدامات کررہی ہے۔ حالیہ تحفظ مدارس کانفرنس، اس کا عملی نمونہ ہے۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کے ذمہ داران شریک ہوئے، جس سے یہ بھی پیغام گیا کہ مدارس کا تحفظ کسی ایک مسلک یا ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت کا مشترکہ فریضہ ہے۔ 


جمعیۃ علماء ہند کی اس جدوجہد کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ صرف رد عمل میں کام نہیں کرتی بلکہ پیشگی منصوبہ بندی اور زمینی تیاری کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ مدارس اور مساجد کے لیے وقف زمین کی تصدیق، تعمیرات کے لیے قانونی منظوری، اور حکومت کے منفی پروپیگنڈے کا قانونی و میڈیا سطح پر جواب، یہ تمام اقدامات جمعیۃ کی دوراندیشی اور معاملہ فہمی کا مظہر ہیں۔ مدارس پر حملہ درحقیقت صرف ایک تعلیمی ادارے پر حملہ نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کی شناخت، دینی ورثے اور قومی تاریخ کے ان صفحات کو مٹانے کی کوشش ہے جن پر ملت کو فخر ہے۔ نیز جس قانون یعنی Right to Education Act 2009 کا سہارا لے کر مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسی قانون کی دفعہ 1 کی شق 5 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ ایکٹ مدارس اور پاٹھ شالاؤں پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مدارس کے خلاف کارروائی، ریاستی اور مرکزی آئینی اقدار کے صریح خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اور اسکے صدر مولانا ارشد مدنی کی قیادت نہ صرف ان حملوں کو بے نقاب کر رہی ہے بلکہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کا مقابلہ کررہی ہے، ملت کو حوصلہ دے رہی ہے، اور یہ باور کرا رہی ہے کہ جب قیادت بیدار ہو، تو سازشیں دم توڑ دیتی ہیں۔


ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ وقت ایک نازک اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں، تعلیمی بہانوں اور قانونی پردوں میں چھپ کر ملت کی روح پر وار کر رہی ہیں۔ لہٰذا یہ وقت صرف احتجاج کا نہیں، منصوبہ بند مزاحمت کا ہے۔ اور یہ مزاحمت صرف نعرے بازی سے نہیں بلکہ علمی، قانونی، اور فکری سطح پر ہونی چاہیے۔ جمعیۃ علماء ہند اس جدوجہد کا محاذ بن چکی ہے، اور مولانا ارشد مدنی جیسے رہنما اس کشتی کے ناخدا ہیں۔ مدارس کے تحفظ کے لیے ہر صاحبِ ضمیر کو آگے آنا ہوگا، تاکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی قرآن، دین، اور اپنی دینی شناخت سے جڑی رہیں اور مدارس کا دفاع درحقیقت ملت کی بقا، تہذیب کی حفاظت، اور آئین کی پاسداری کا دفاع ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جب تک ملک میں جمعیۃ علماء ہند جیسی تنظیم باقی رہے گی، تب تک مدارس کے چراغ بجھ نہیں سکتے۔ وہ چراغ جو کبھی علم سے، کبھی قربانی سے، اور کبھی مزاحمت سے روشن رہے ہیں، ان شاء اللہ ہمیشہ روشن رہیں گے۔


#SaveMadrasas #StopMadrasaShutdown #Madrasas #ArshadMadani #Jamiat #JamiatUlama #MTIH #TIMS #PaighameFurqan

Wednesday, 11 June 2025

رواداری کے چراغ، تعصب کی آندھیوں میں: عید الاضحٰی کا ہندوستانی منظر نامہ!

 رواداری کے چراغ، تعصب کی آندھیوں میں: عید الاضحٰی کا ہندوستانی منظر نامہ!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی شناخت اس کی گنگا جمنی تہذیب، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے بنی ہے۔ صدیوں سے یہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، جین، بدھ سبھی مذاہب کے لوگ نہ صرف ایک ساتھ رہتے آئے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک ہو کر محبت، اتحاد اور یکجہتی کی لازوال مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔ عیدین ہوں یا دیگر مذاہب کے تہوار ان سب مواقع پر ہندوستانی معاشرہ ایک رنگین گلدستے کی مانند نظر آتا تھا جہاں مذہب اور ثقافت، تعصب اور نفرت سے بالاتر ہوکر صرف انسانی اقدار اور اخوت کی بنیاد پر پروان چڑھتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ادھر چند دہائیوں سے اس گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی رواداری کو کسی کی نظر لگ گئی ہے اور فرقے پرست عناصر اس چراغِ کو مسلسل بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔


عید الاضحیٰ، جو قربانی، ایثار اور توحید کی علامت ہے، ہر سال پوری دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی تزک و احتشام سے منائی جاتی ہے۔ حالیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ملک بھر میں تقریباً تیس کروڑ مسلمانوں نے نہایت سکون، صبر، اور باوقار انداز میں اپنے مذہبی فریضے ادا کیے۔ لاکھوں لاکھ مسلمان نماز عید کے لیے عیدگاہوں اور مساجد میں جمع ہوئے، اللہ کے حضور جھکے، اور پھر قربانی کی سنت ادا کی۔ یہ تمام سلسلہ ایسے وقت میں انجام پایا جب ہندوستان سمیت دنیا کے کئی حصوں میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت نے فضا کو مکدر کر رکھا تھا، لیکن ہندوستانی مسلمانوں نے اس موقع پر جس شعور، ذمہ داری اور ضبط کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ ملک کے مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور سیکولر کردار کا عملی ثبوت بھی ہے۔


بقرعید کے دوران، جب ملک کے لاکھوں مسلمان اپنے مذہبی فرض کی ادائیگی میں مصروف تھے، کچھ جگہوں پر ایسی مشکلات اور رکاوٹیں بھی سامنے آئیں جن کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچانا تھا بلکہ ان کے مذہبی جذبے کو بھی ٹھیس پہنچانا تھا۔ کئی شہروں میں جہاں مسلمانوں نے اپنی قربانی کی تیاری کی، وہاں کچھ اشتعال انگیز عناصر نے جان بوجھ کر مسائل پیدا کیے۔ مثلاً بعض علاقوں میں جانوروں کی خرید و فروخت میں رکاوٹیں ڈالی گئیں، قربانی کے لیے مختص جگہوں پر پولیس یا انتظامیہ نے غیر ضروری پابندیاں عائد کیں، اور بعض مقامات پر ناپسندیدہ ہجوم نے مساجد یا عیدگاہوں کے گرد ہنگامہ برپا کیا۔ 


عید قرباں عطاء، ایثار اور روحانی وحدت کا پیغام لیے ہوتا ہے، لیکن 2025 میں بھارت کے کئی علاقوں میں مسلمان اس مقدس دن کو خوف، پابندیوں اور انتظامی مظالم میں گزارنے پر مجبور ہوئے۔ کشمیر کے سری نگر میں جامع مسجد کو عید کے دن انتظامیہ کی طرف سے بند کر دیا گیا۔ پوری وادی میں مسلمانوں کی عبادات پر خاموش پہرہ بٹھا دیا گیا۔ یہ سب ایک ایسے خطے میں ہوا جو پہلے ہی سیاسی قید میں ہے، اب مذہبی جبر کا بھی شکار ہو چکا ہے۔ اترپردیش میں مجمع بڑھنے پر سڑکوں پر نمازِ عید کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی۔ بعض مقامات پر پولیس نے باقاعدہ اعلان کیا کہ اگر کسی نے سڑکوں پر نماز پڑھی تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ یوں لگتا ہے جیسے مسلمانوں کو ان کی عبادات بھی ریاست کی اجازت سے کرنی ہوں گی، اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کیلئے سڑکوں کا استعمال صرف مسلمانو پر ہی پابندی ہے دیگر مذاہب والے جو چاہئیں کرسکتے ہیں۔ قربانی کے لیے جانور لانے والوں کو کہیں گئو رکشکوں نے روکا، کہیں گاڑیوں کی تلاشی لی گئی، تو کہیں راستے میں پتھراؤ اور تشدد کی اطلاعات آئیں۔ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی قربانی کا نشانہ بنایا گیا، فرق صرف اتنا تھا کہ ان کا خون سڑکوں پر بہنے سے پہلے خوف کی زبان میں سلب کر لیا گیا۔ دہلی اور یوپی میں باقاعدہ اوپن اسپیس میں قربانی تک کرنے پر پابندی عائد کی گئی، ملک کے کئی علاقوں سے خبر موصول ہوئی کہ مقامی انتظامیہ نے گھروں سے قربانی کے جانوروں کو ضبط کرلیا، یہاں تک کہ جن ریاستوں میں اقتدار کی کرسی پر سیکولر کہلائے جانے والی پارٹیاں موجود ہے وہاں سے بھی ایسی خبریں موصول ہوئیں، بنگلور کے کئی علاقوں میں ہندوتوا عناصر کے دباؤ میں انتظامیہ نے قربانی کے جانور ضبط کئے۔ بقرعید سے پہلے اور دوران، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانات کا سیلاب آیا، سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف زہریلی ٹویٹس کی جارحانہ مہم چلائی گئی، بنگال میں بی جے پی کے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے بھی عید پر نفرت بھرا ماحول پیدا کیا۔ کچھ شدت پسند لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا۔ انہیں درندہ پرست، گوشت خور، اور غدار جیسے القاب سے نوازا گیا۔ مہاراشٹر کے وزیر نتیش رانے نے نفرت انگیز بیان دیتے ہوئے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ "قربانی کرنے والے پر ہماری ہندوتوا سرکار کاروائی کرے گی"- کرناٹک، مہاراشٹرا، یوپی، بہار، دہلی، آسام کے مضافاتی علاقوں میں نفرت کا وطیرہ پھیلا، جس پر نہ میڈیا نے سوال اٹھایا، نہ قانون نے مداخلت کی، اور انتظامیہ مسلسل خاموش رہی۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہی ہے کہ ریاستی ادارے یا تو خاموش رہے یا بعض جگہوں پر اس ظلم کے معاون بنے۔ جبکہ یہ سب کچھ انسانی حقوق اور آئین کے مُبنی برابری فریم ورک کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 14، 19، 25، 28 ہر شہری کو مذہبی آزادی، مساوی حقوق، اور پرامن اجتماع کا حق دیتا ہے، مگر مسلمانوں سے یہ حقوق روز بروز چھین لیے جا رہے ہیں۔


لیکن ان تمام حالات کے باوجود مسلمانوں نے مکمل تحمل، صبر اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے نہ تو غصہ ظاہر کیا، نہ ہی انتشار پھیلایا بلکہ قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی عبادات جاری رکھیں۔ مثال کے طور پر، بہار اور مدھیہ پردیش کے چند علاقوں میں جب قربانی کے جانوروں کی خریداری میں رکاوٹیں پیش آئیں تو مسلمان کمیونٹی نے قانونی راستے اختیار کیے اور انتظامیہ سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ کہیں بھی عوامی مقامات پر شور شرابہ یا ناخوشگوار واقعات نہیں ہوئے، جس نے ملک بھر میں امن قائم رکھنے میں مدد دی۔ یہی نہیں، کئی جگہوں پر جہاں مخالف عناصر نے اشتعال انگیزی کی کوشش کی، وہاں مسلمانوں نے اپنی مثال آپ قائم کی۔ انہوں نے مسجد اور گھروں کے باہر صفائی کا خاص خیال رکھا، مقامی پولیس اور انتظامیہ کے تعاون سے اپنی قربانی کے عمل کو منظم انداز میں مکمل کیا، اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اس رویے نے نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی و اخلاقی تربیت کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا بلکہ ایک طرح سے پوری قوم کو یہ پیغام دیا کہ اسلام مذہب میں صرف عبادت اور قربانی نہیں، بلکہ تحمل، برداشت اور بھائی چارہ بھی شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قربانی کے موقع پر مختلف شہروں میں مسلمانوں نے ہندو، سکھ اور عیسائی پڑوسیوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کیا، کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کیں اور ایک دوسرے کی مذہبی جگہوں کا احترام کیا۔ اس رویے نے اس بات کو ثابت کیا کہ مسلمانوں کا مذہب نفرت، تشدد اور انتشار کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ یہ رواداری اور محبت کا درس دیتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر فرقہ پرست عناصر نے چھوٹے بڑے پیمانے پر جھگڑے یا رکاوٹیں پیدا کیں، لیکن ان کے باوجود پوری کمیونٹی نے تحمل اور قانون کی پاسداری کو مقدم رکھا، اور ہر قسم کے نقصان دہ عناصر کے خلاف صبر و بردباری سے کام لیا۔


یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ ہندوستانی مسلمان آج بھی ان روایات کے امین ہیں جو ان کے آبا و اجداد نے صدیوں پہلے قائم کی تھیں؛ وہ روایات جن میں دوسروں کے مذہب کا احترام، پڑوسیوں کے جذبات کا خیال، اور معاشرتی ہم آہنگی کو اولیت حاصل رہی ہے۔ ہندو مسلم اتحاد کی وہ کہانیاں آج بھی بزرگوں کی زبان پر زندہ ہیں جن میں ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت، ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے، اور غمی خوشی میں شریک ہونے کی روایت پائی جاتی تھی۔ اسی تاریخی ہم آہنگی کو عید الاضحٰی کے اس حالیہ موقع پر ایک بار پھر زندہ کر دیا گیا۔ عید کی نماز کیلئے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے اکھٹا ہونے کے باوجود کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان مذہب کے نام پر نفرت نہیں، بلکہ قربانی، ایثار، اور رواداری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ یہ وہ طرز عمل ہے جو صرف کسی ضابطے یا قانون کے خوف سے نہیں، بلکہ دلوں میں موجود اس محبت، اس اخلاقی فہم، اور اس دینی تربیت سے جنم لیتا ہے جو اسلام کا اصل جوہر ہے۔ اور یہی وہ رویہ ہے جو امن، بھائی چارے اور ملکی یکجہتی کی بنیاد بن سکتا ہے، بشرطیکہ اسے تسلیم کیا جائے، سراہا جائے، اور دوسروں کے لیے بھی ایک معیار بنایا جائے۔


لیکن اس مثبت طرز عمل کے برعکس ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جب بعض دوسرے مذاہب کے تہوار آتے ہیں، جیسے رام نومی، ہنومان جینتی، یا نوراتری کے مواقع پر، تو ملک کے مختلف حصوں سے ایسی خبریں موصول ہوتی ہیں جن سے مذہبی ہم آہنگی کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے۔ متعدد بار یہ دیکھا گیا ہے کہ جلوسوں کے نام پر مساجد کے سامنے دانستہ اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی، گانے بجائے گئے، تلواریں اور دیگر ہتھیار لہرائے گئے، اور بعض اوقات نشے کی حالت میں ہنگامہ آرائی بھی کی گئی اور مسجد میں توڑ پھوڑ اور اسے نذر آتش بھی کیا گیا۔ صرف 2023 میں رام نومی کے موقع پر بہار، مغربی بنگال، گجرات اور مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ کچھ جگہوں پر مساجد پر پتھراؤ ہوا، کچھ جگہوں پر مساجد کے باہر ہندو انتہا پسند تنظیموں کے افراد نے نفرت آمیز نعرے بازی کی، اور کہیں پر مسجد کی دیواروں پر چڑھ کر جھنڈے لگانے کی کوششیں کی گئیں۔ حیدرآباد میں ٹی راجہ سنگھ نامی بی جے پی رکن اسمبلی نے رمضان اور عید کے دوران اشتعال انگیز بیانات دیے، جس میں مسلمانوں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ ان کے بیانات کو لاکھوں افراد نے دیکھا، سنا اور سراہا، لیکن پولیس کی کارروائی کا حال یہ رہا کہ اکثر مقدمات یا تو دب گئے یا سست روی کا شکار ہو گئے۔ مغربی بنگال میں 2023 کی رام نومی کے موقع پر ہاؤڑہ اور بہالا میں شدید تشدد ہوا، جہاں مندروں کے قریب سے گزرنے والے جلوسوں نے مساجد کے سامنے رک کر گانے بجانے اور نعرے بازی کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران شرپسند عناصر نے پتھراؤ بھی کیا جس سے کئی مکانات اور دکانوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ بعض ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جلوس شرکاء نشے کی حالت میں مساجد کے سامنے ناچ رہے ہیں، اور بھڑکاؤ الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ سال 2022 میں جودھ پور، راجستھان میں عید سے ایک دن پہلے ہندو مسلم جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب ایک خاص مجسمے کے مقام پر جھنڈا لگانے کے مسئلے کو لے کر دونوں کمیونٹی آمنے سامنے آ گئیں۔ پولیس کو کرفیو نافذ کرنا پڑا اور کئی دن تک انٹرنیٹ بند رہا۔ وہاں بھی ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں نوجوان شراب کے نشے میں مساجد کے باہر "جے شری رام" کے نعرے لگا رہے تھے، اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی طرح ہنومان جینتی کے موقع پر دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں 2022 میں جلوس جب مسجد کے قریب پہنچا تو ڈھول، باجے اور تلواروں کے ساتھ مظاہرہ شروع ہوا۔ کچھ لوگوں نے مسجد کے سامنے رقص کیا، تو کچھ نے مسجد کے گیٹ کے اوپر چڑھ کر جھنڈے لگانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جو تصادم ہوا وہ کئی دنوں تک میڈیا میں چھایا رہا، مگر میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے ان اشتعال انگیز حرکات کو نظرانداز کیا اور صرف ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ یوپی کے کئی اضلاع، خاص طور پر علی گڑھ، کانپور اور میرٹھ میں یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ تہواروں کے دوران منظم طور پر مسجدوں کے قریب جلوس گزارے جاتے ہیں، اور وہاں نعرے بازی کی جاتی ہے۔ کئی بار پولیس کو لکھ کر اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ جلوس متبادل راستوں سے گزارے جائیں تاکہ امن برقرار رہے، لیکن اکثر اوقات انتظامیہ یا تو خاموش تماشائی بنی رہتی ہے یا ان عناصر کی پشت پناہی کرتی ہے۔ کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے جہاں مسجدوں پر جھنڈے لگانے، لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے، اور یہاں تک کہ جان بوجھ کر نماز کے اوقات میں شور مچانے کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔



اس تمام پس منظر میں اگر مسلمانوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو ایک حیران کن تضاد سامنے آتا ہے۔ اتنی بڑی آبادی، اتنی وسیع پیمانے پر اجتماعات، لیکن نہ کہیں مذہبی مقامات کی بے حرمتی، نہ کوئی انتشار، نہ کسی کی دل آزاری۔ نہ کسی مندروں کے سامنے مذہب مخالف نعرے، نہ کوئی ایسا واقعہ کہ مسلمانوں نے اپنے جلوس میں نفرت کو ہوا دی ہو۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر بعض عناصر جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلاتے ہیں، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان تہواروں کے دوران امن کے لیے خطرہ ہیں۔



ان تمام حالات اور مشاہدات کی روشنی میں اگر ہم ہندوستان میں واقعی ایک پرامن، جمہوری اور ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو اس کا واحد مؤثر اور دیرپا حل صرف انصاف، ایماندارانہ میڈیا کوریج، اور سخت قانونی کارروائی میں ہے۔ جب تک حکومتیں، پولیس، اور ریاستی ادارے اپنی جانبداری ترک نہیں کریں گے، اور جب تک نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف بلاتفریق اور فوری ایکشن نہیں ہوگا، تب تک فرقہ وارانہ کشیدگیاں یونہی بڑھتی رہیں گی، اور معاشرہ خوف، عدم اعتماد اور انتشار کا شکار ہوتا رہے گا۔ ملک کے ہر شہری کو اس کا مذہبی حق، اس کا وقار، اور اس کی عبادت کی آزادی بغیر کسی دباؤ، پابندی یا خوف کے حاصل ہونا چاہیے، یہ نہ صرف انسانی حق ہے بلکہ آئینِ ہند کی دفعات 14، 19، 25 اور 28 کی بھی بنیادی ضمانت ہے۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ مذہبی یا سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر آئینی اصولوں کے مطابق غیر جانبدارانہ کردار ادا کریں تاکہ کسی بھی برادری کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے۔ میڈیا کو بھی اپنی بنیادی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سچائی، توازن اور اخلاقیات پر مبنی رپورٹنگ کرنی ہوگی، تاکہ وہ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دے نہ کہ نفرت کو۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی نفرت انگیز مہمات کو روکنے کے لیے مؤثر سائبر قوانین کا اطلاق، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے۔ اسی کے ساتھ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کے سلسلے میں لوگوں کو متوجہ کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کو محض قانون و امن کا مسئلہ نہ سمجھے، بلکہ اسے انسانی حقوق اور قومی یکجہتی کا مسئلہ تصور کرتے ہوئے دیرپا حل نکالے۔ مذہبی آزادی کا تحفظ حکومت، عدلیہ، اور سول سوسائٹی کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اور اس کے لیے ہر سطح پر بیداری، تربیت، اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجوں اور میڈیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری، اور سماجی وحدت کے پیغامات کو فروغ دینا ہوگا تاکہ نئی نسل کو نفرت کی بجائے محبت، احترام اور باہمی بقاء کا پیغام ملے اور ہم آہنگی کا شعور حاصل ہو۔ سب سے بڑھ کر، اکثریتی طبقے کے ذمہ دار افراد، مذہبی رہنما، اور رائے ساز طبقہ اگر اقلیتوں کے حقوق اور وقار کے تحفظ کے لیے کھل کر آواز بلند کریں، تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے جہاں ہر شخص کو بلاخوف اپنی عبادات، تہواروں اور شناخت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔ یہ سب اقدامات محض اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے جمہوری اور اخلاقی مستقبل کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ کیونکہ جب قانون، اخلاق، اور انصاف سب کے لیے برابر ہوں گے، تب ہی ہندوستان اپنی اصل شناخت یعنی "وحدت میں کثرت" کے فلسفے پر قائم رہ سکے گا، اور نفرت و انتشار کے بجائے محبت، قربانی، ایثار اور اخوت کی روشنی میں ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔ 



اس تمام پس منظر میں، عید الاضحیٰ جیسے مواقع پر ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے جس تحمل، صبر، قانون پسندی، اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا گیا، وہ نہ صرف ایک اخلاقی اور سماجی مثال ہے بلکہ ان تمام الزامات کو بھی جھٹلا دیتا ہے جو بعض شدت پسند حلقے مسلمانوں پر لگاتے ہیں۔ ان کا رویہ یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام صرف عبادات کا مذہب نہیں، بلکہ رواداری، ایثار، اور معاشرتی ہم آہنگی کا بھی داعی ہے۔ اس طرز عمل کو نہ صرف سراہا جانا چاہیے بلکہ اکثریتی برادری اور ریاستی اداروں کے لیے ایک مشعل راہ بننا چاہیے۔ کیونکہ احترام صرف دوسروں سے مانگا نہیں جاتا، بلکہ اسے اپنے کردار، گفتار اور عمل سے کمایا جاتا ہے اور ہندوستانی مسلمان بار بار یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے اہل ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست، سماج، اور میڈیا بھی اسی بالغ نظری، انصاف پسندی اور انسانی اقدار کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ ہندوستان واقعی ایک ایسا ملک بن سکے جہاں "سب کا ساتھ، سب کا وِکاس" محض نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہو۔ کیونکہ بقرعید جیسے پُرامن اور روحانی تہوار پر ہندوستانی مسلمانوں نے جس صبر، نظم، اور اخلاق کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف ان کے کردار کی پختگی کا آئینہ ہے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک ضمیر کی دستک بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک ایک فریق کو صرف صبر، قربانی اور خاموشی کی تلقین کی جاتی رہے گی، اور کب وہ دن آئے گا جب انصاف، برابری اور مذہبی آزادی کو عملی طور پر سب کے لیے یکساں بنایا جائے گا؟ اس مضمون کا مقصد صرف شکایت نہیں بلکہ شعور ہے؛ صرف زخم نہیں بلکہ علاج کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ہم واقعی ایک جمہوری، باوقار اور مہذب ہندوستان چاہتے ہیں تو ہمیں تعصب کے اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے صرف اقلیتوں کی رواداری پر انحصار نہیں کرنا ہوگا، بلکہ اکثریتی طبقے، ریاستی اداروں، اور میڈیا کو بھی اس روشنی کا حصہ بننا ہوگا۔ ورنہ یہ چراغ، جنہیں ابھی تک طوفانوں نے بجھنے نہیں دیا، ایک دن تھک کر خود ہی گل ہو سکتے ہیں، اور اس کا خمیازہ صرف اقلیتیں نہیں، بلکہ پورا ہندوستان بھگتے گا۔



#EidulAdha | #EidulAzha | #Qurbani | #Muslim | #Islam | #Hindutva | #MobLynching | #IndianMuslims | #mdfurqanofficial | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS

مدارس کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی سوشل میڈیا ٹیم کی کامیاب ٹیوٹر مہم

 مدارس کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی سوشل میڈیا ٹیم کی کامیاب ٹیوٹر مہم

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی ہر سطح پر مدارس کی حفاظت کے لیے سرگرم


نئی دہلی، 10؍ جون (محمد فرقان): مدارس اسلامیہ صرف تعلیمی ادارے نہیں، بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی دینی، تہذیبی اور انقلابی شناخت کے مضبوط قلعے ہیں۔ ان کا وجود نہ صرف دین اسلام کے بقا و تحفظ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ادارے تحریک آزادی میں بھی نمایاں کردار ادا کرچکے ہیں۔ اسی حقیقت کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہند نے مدارس کے خلاف حالیہ حکومتی کارروائیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور ہر محاذ پر اپنی موجودگی کا مؤثر ثبوت دیا۔ ان کارروائیوں کے خلاف احتجاج کا ایک نیا، مؤثر اور ہمہ گیر طریقہ حالیہ دنوں میں سامنے آیا جب جمعیۃ علماء ہند کی سوشل میڈیا ٹیم نے ٹیوٹر (ایکس) پر ایک منظم، مربوط اور زبردست مہم کا آغاز کیا۔ یہ مہم ان ریاستی حکومتوں کے فیصلوں کے خلاف تھی جنہوں نے مختلف بہانوں سے مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف آئین ہند کے آرٹیکل 25، 26، 29 اور 30 کی صریح خلاف ورزی ہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ان عبوری احکامات کی بھی توہین ہیں جن کے تحت بعض ریاستوں میں مدارس کے خلاف کارروائیوں پر پابندی لگائی گئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کی سوشل میڈیا ٹیم کی طرف سے چلائی گئی اس مہم نے ٹیوٹر پر #SaveMadrasas #StopMadrasaShutdown اور دیگر ہیش ٹیگز کے تحت چند ہی گھنٹوں میں قومی سطح پر ٹرینڈ حاصل کرلیا۔ ہندوستان کے ٹاپ ٹرینڈنگ چارٹس میں یہ کئی گھنٹوں تک موجود رہا۔ لاکھوں افراد نے اس میں شرکت کی، ٹویٹس، ری ٹویٹس اور تبصروں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا، اور دنیا بھر سے اس پر ردعمل موصول ہوا اور اس مہم کی حمایت میں آواز بلند کی۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس مہم میں خود بھی حصہ لیا اور ایک پرزور پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ”مدارس کو بند کرنے کی مہم مسلمانوں کے دستوری، مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر ایک سنگین حملہ ہے۔ مدارس مسلمانوں کی شہ رگ ہیں، اب ہماری اسی شہ رگ کو کاٹنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ہم جمہوریت، آئین کی بالادستی اور مدارس کے تحفظ کے لیے قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔“ ان کا یہ بیان لاکھوں لوگوں تک پہنچا، جسے عوام اور ذرائع ابلاغ نے خوب سراہا۔ سوشل میڈیا کی یہ مہم اس وقت چلائی گئی جب جمعیۃ علماء ہند نے اعظم گڑھ، اترپردیش میں ایک عظیم الشان ”تحفظ مدارس کانفرنس“ بھی منعقد کیا، جس میں ملک بھر سے علماء کرام، دینی مدارس کے نمائندگان، دانشور حضرات اور ہزاروں عوام شریک ہوئے۔ مولانا ارشد مدنی نے صدارت فرمائی اور واضح پیغام دیا کہ مدارس ہمارا دین ہے دنیا نہیں، اس کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر بھرپور جدوجہد کی جائے گی۔ اس مہم کی کامیابی کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ جہاں قومی میڈیا مدارس کے خلاف ہو رہی کارروائیوں پر خاموش تماشائی بنا ہوا تھا، وہیں جمعیۃ کی منظم سوشل میڈیا تحریک نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اس مسئلے کو کوریج دیں۔ کئی بڑے میڈیا ہاؤسز نے مولانا مدنی کے بیانات اور مدارس کی آئینی حیثیت کو اپنے پلیٹ فارم پر نہ صرف جگہ دی بلکہ اعظم گڑھ میں منعقد تحفظ مدارس کانفرنس کو قومی میڈیا نے براہ راست نشر کیا، جس کو ملک بھر میں کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ مسئلہ نمایاں ہوا، اور کئی عالمی میڈیا اداروں نے اسے اپنے چینل پر نشر کیا نیز اخباروں اور نیوز پورٹلز پر شائع کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی سوشل میڈیا ٹیم نے اس کامیاب مہم پر قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا یہ مہم اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملت اب بیدار ہے، اور جب بھی دین و دستور پر ضرب پڑے گی، ہم عدالت سے لے کر ایوان تک اور سوشل میڈیا سے میدان تک ہر جگہ حاضر رہیں گے۔ سوشل میڈیا صارفین، دانشوروں، طلبہ، نوجوان، اور عوام الناس نے اس مہم کو خوب سراہا اور جمعیۃ علماء ہند سے امید ظاہر کی کہ ایسی مؤثر مہمات کو بار بار دہرایا جائے تاکہ مدارس کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بروقت بے نقاب کیا جا سکے۔ بہت سے معروف صحافیوں، اساتذہ، ماہرین قانون اور سماجی رہنماؤں نے بھی اس مہم کو جمہوریت اور آئین کی حفاظت کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا۔ یہ سوشل میڈیا مہم اس بات کا ثبوت ہے کہ مدارس کی حمایت صرف ایک فرقے یا طبقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ آئینی و جمہوری اقدار کے تحفظ کی اجتماعی آواز ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی اس کامیاب مہم نے نہ صرف قوم میں بیداری پیدا کی بلکہ ایک مؤثر احتجاج کے نئے دَر بھی کھول دیے۔ اب یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ایسی کوششیں مستقل بنیادوں پر جاری رکھی جائیں تاکہ نہ صرف مدارس بلکہ آئینی و مذہبی آزادی کے تمام ادارے محفوظ رہیں۔



#SaveMadrasas | #StopMadrasaShutdown | #Madrasa | #Islam | #Muslim | #MadrasaBoard | #MTIH | #TIMS

Saturday, 7 June 2025

عیدِ قرباں پر اہلِ غزہ کی فریادِ لہو...!

 عیدِ قرباں پر اہلِ غزہ کی فریادِ لہو...! 

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


آج عید الاضحٰی کا مبارک دن ہے۔ ہر طرف خوشیوں کی رونقیں بکھری ہوئی ہیں، گلیاں چراغاں ہیں، قربانی کے جانوروں کی گونج، بچوں کی قلقاریاں، گوشت کی خوشبو، دعوتوں کی تیاری، نئے کپڑے، عیدی کے مناظر، سب مل کر ایک عید کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ سب کچھ سنتِ ابراہیمی کی یاد کو منانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن... ذرا رک کر سوچئے، کیا واقعی پوری امتِ مسلمہ اس عید پر خوش ہے؟ کیونکہ ان خوشیوں، قہقہوں اور خوشبوؤں کے بیچ ایک اور منظر بھی ہے۔ دنیا کا ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں آج کی صبح بھی عید کی خوشیوں کا نہیں، چیخوں کی ہے۔ جہاں عید کا چاند لاشوں پر طلوع ہوا ہے۔ جہاں بقرعید کے دن بھی قربانی کے جانور نہیں بلکہ انسان ذبح ہورہے ہیں، جہاں خون نالیوں میں نہیں، گلیوں میں بہہ رہا ہے۔ وہ سرزمین غزہ ہے... لاشوں کا شہر، یتیم بچوں کی سرزمین، اور امت کی اجتماعی بے حسی کا نوحہ، ایک ایسا نوحہ جسے دنیا سننا ہی نہیں چاہتی۔ کیا یہ عید بھی وہی عید ہے جسے ”یوم النحر“ کہا گیا؟ یا پھر... یہ وہ دن ہے، جب اہلِ غزہ کے معصوم بچوں کی لاشیں جانوروں کے کھالوں سے لپیٹ کر دفنائی جائیں گی، کہ کفن تو کب کا ختم ہو چکا ہے! 



ہم یہاں قربانی کیلئے بکرے اور بیل چن رہے ہیں، لیکن اہل غزہ اپنے پیاروں کے جسم کے پرخچے چن رہے ہیں۔ ہم خوشبو دار پانی سے جانور نہلا رہے ہیں، وہ اپنے بچوں کو مٹی سے صاف کر کے دفنا رہے ہیں۔ ہمارے بچے بکروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، وہاں بچے بارود کے ڈھیر پر اپنی جان سے کھیل رہے ہیں۔ ہم عید کی نمازوں کے بعد مسکراتے ہوئے ”بسم اللہ“ کہہ کر قربانی کررہے ہیں، اور غزہ کے آسمان پر اسرائیلی جنگی جہازوں کی گرج سنائی دے رہی ہے، اور کسی معصوم بچے کا سر اس کی ماں کی گود سے چھین لیا گیا ہے۔ جب ہماری زبانوں سے ”تکبیراتِ تشریق“ بلند ہورہی ہیں، اسی وقت غزہ میں کوئی باپ اپنے بیٹے کی نماز جنازہ کیلئے ”اللہ اکبر“ کہہ رہا ہے۔ ہم قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں بانٹ رہے ہیں، وہ اپنے خوابوں، گھروں اور نسلوں کو تین حصوں میں بٹتا دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گھروں میں بچوں کے قہقہے گونج رہی ہیں، اور وہاں سسکیاں قبرستان کے سناٹے میں دب رہی ہیں۔ ہماری عید خوشیوں کا پیغام لائی ہے، ان کی عید تازہ لاشوں کی فہرست لائی ہے۔ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں کھلونے ہیں، ان کے بچوں کے ہاتھ میں کفن ہے۔ 


ہم سنت ابراہیمی کی پیروی میں جانور ذبح کررہے ہیں، قربانی کے جذبے سے سرشار ہورہے ہیں۔ لیکن وہ بچے، جو روزانہ اپنی جان قربان کررہے ہیں، اُن کی فریاد پر ہماری زبانیں گنگ ہیں اور عالم اسلام کی آنکھیں اہلِ غزہ کی لاشیں دیکھ کر بھی بند ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اہلِ غزہ اپنی جانیں کس سنت کی ادائیگی میں دے رہے ہیں؟ ان کے کٹے ہوئے جسم، ان کے جلے ہوئے گھر، اور ان کی اجڑی ہوئی گودیں کون سی عبادت کی علامت ہیں؟ کیا ان کا خون ہماری قربانی سے کم قیمتی ہے؟ یا ہم نے سمجھ لیا ہے کہ قربانی صرف بکرے یا بیل کو ذبح کرنے کا نام ہے، انسانیت کے درد کو محسوس کرنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں؟ کیا قربانی صرف خون بہا دینے کا نام ہے، یا یہ احساس، ایثار، درد، اور امت کا درد بانٹنے کا جذبہ بھی ہے؟ عالم اسلام کی خاموشی، اہل غزہ کے بچوں کی چیخوں کو مزید تیز کرتی جا رہی ہے۔ ہم چپ ہیں، کیونکہ ہمارے آسمان پر جنگی طیارے نہیں اُڑتے، ہمارے محلوں پر بم نہیں گرتے، ہمارے بچوں کی لاشیں ہم نہیں اٹھاتے۔ مگر یاد رکھو، ان کا صبر اور ہماری بے حسی اب ایک مقام پر آکر ٹکرا رہی ہے۔ وہ لاشوں کے درمیان بھی عید منا رہے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کی قربانی عرش کو ہلا دیتی ہے۔ مگر ہم... ہم صرف گوشت کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے عبادت مکمل کر لی۔


یہ کیسی عید ہے جہاں امتِ مسلمہ کا ایک حصہ قہقہوں، گوشت اور خوشیوں میں مصروف ہے، جبکہ دوسرا حصہ آنسو، کفن اور ملبے تلے دبا ہوا ہے؟ کیا یہی وہ امت ہے جس کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم تڑپتا ہے؟“ آج مسجدِ اقصیٰ لہو لہان ہے، غزہ کی گلیوں میں بچوں کا خون بہہ رہا ہے، مائیں اپنے لختِ جگر دفنا رہی ہیں، اور ہم خوشیوں کے شور میں ان کی صدائیں بھلا بیٹھے ہیں۔ قربانی کا جذبہ صرف جانوروں کے خون تک محدود ہو چکا ہے، جبکہ حقیقی قربانی تو یہ تھی کہ ہم امت کے درد کو محسوس کرتے، ان کے لیے آواز اٹھاتے، اور اپنے قبلۂ اول کی حرمت کے لیے تڑپتے۔ کیا بیت المقدس، جو ہمارا دینی اور روحانی ورثہ ہے، ہمیں کچھ بھی نہیں کہتا؟ کیا فلسطین صرف اُن کا مسئلہ ہے جن کے گھر ملبے میں دفن ہو چکے ہیں؟ ستتاون اسلامی ممالک ہونے کے باوجود کب تک ہم مذمتی بیانات اور علامتی دعاؤں سے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے رہیں گے؟ کب ہم اس بات کو سمجھیں گے کہ فلسطین کا مسئلہ ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ان کے بچوں کی مسکراہٹ ہم سے سوال کرتی ہے، کہ ”کیا ہم بھی اس امت کا حصہ ہیں، جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم تڑپتا ہے؟“ اگر آج بھی ہمارے دل نہ جاگے، تو ہم صرف عید نہیں منا رہے، ہم اپنی بے حسی کا جشن منا رہے ہیں۔ 


کیا ہم نے کبھی تصور کیا ہے کہ ایک ماں عید کی صبح کیسے گزارتی ہوگی جب اس کے لعل کا چہرہ قبر کی مٹی میں چھپ چکا ہو؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ مائیں اپنے بچوں کو آخری بار کس طرح سینے سے لگاتی ہیں، جب باہر لوگ قربانی کے جانوروں پر پرفیوم چھڑک رہے ہوتے ہیں؟ ان کی عید کا پہلا لمحہ دعاؤں سے نہیں، آہوں سے شروع ہوتا ہے، ان کے گھروں میں سیویاں نہیں بنتیں، صرف کفن کی سلائیاں چلتی ہیں۔ ایک باپ، جس نے کبھی اپنے بیٹے کے لیے عید کے کپڑے خریدے تھے، آج وہی باپ اسپتال کے فرش پر خون میں لت پت اپنے بیٹے کی لاش کو گود میں لیے بیٹھا ہے۔ ایک بچی، جو شاید اس عید پر نئے کپڑے پہننے کے خواب دیکھ رہی تھی، اب وہ خواب اس کی قبر میں دفن ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے عید کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آج بھی بمباری ہوگی یا نہیں، آج بھی ان کا وجود مٹایا جائے گا یا ایک دن اور جی لیا جائے گا۔ ہماری عید کے کپڑوں پر عطر کی خوشبو ہے، ان کے کپڑوں پر خون کے دھبے ہیں۔ ہم بکروں کے لیے ٹینٹ لگارہے ہیں، وہ اپنے گھر کے ملبے میں سایہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم بچوں کو عیدی دے رہے ہیں، وہ بچوں کی لاشوں کو دفنا رہے ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں ”عید مبارک“، وہ کہہ رہے ہیں ”شہادت قبول ہو“۔ کیا ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ایک لاش پر ہمارے دل نہیں لرزتے؟ کیا ہم اس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ ایک ماں کی چیخ ہماری سماعت سے نہیں ٹکراتی؟ 



آج غزہ کے قبرستان آباد ہیں، اور ہماری عید گاہیں بھیڑ سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے گھروں میں چولہا بجھا ہے، اور ہمارے ہاں گوشت کے ذخیرے ہو چکے ہیں۔ ان کی مائیں اپنے بچوں کے چہرے آخری بار چوم رہی ہیں، اور ہماری مائیں بچوں کو عیدی دے کر خوش ہو رہی ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو قربان گاہ پر لے جائیں، اور اس امت کا وہ حصہ بنیں جو صرف عید پر نہیں، بلکہ ہر لمحے اپنی قوم کے درد سے جڑا ہو۔ اگر ہم نے اس عید پر اہل غزہ کو اپنی دعاؤں میں شامل نہ کیا، ان کی آواز نہ بنے، ان کے درد کو نہ محسوس کیا، تو ہماری عید محض ایک رسم ہے، ایک تہوار ہے جس میں روح نہیں۔ ہم اگر اس عید پر اپنے گوشت کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تقسیم نہیں کرتے، ایک حصہ اہل غزہ کے درد میں شریک نہیں کرتے، تو ہم سنت ابراہیمی کی روح سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی بے حسی، اپنی خودغرضی، اور اپنے ضمیر کی غفلت کو کاٹنے کا نام ہے۔ ہمیں اپنی روحانی مردگی کی قربانی دینا ہوگی، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب مسجد اقصیٰ، شہید بچوں کی روحیں، اور معصوم ماؤں کے آنسو قیامت کے دن ہمارا گریبان پکڑیں گے، اور پوچھیں گے: ”ہم کٹتے رہے، تم کھاتے رہے، ہم روتے رہے، تم ہنستے رہے، ہم نے قربانی دی، اور تم نے قربانی کو صرف گوشت سمجھا؟“


ہمیں آج کی عید کو حقیقی بنانا ہے۔ ہمیں جانوروں کے ساتھ ساتھ اپنی بے ضمیری کو بھی قربان کرنا ہوگا۔ ہمیں اہل غزہ کے لیے ایک جملہ، ایک دعا، ایک آنسو، ایک آواز، اور ایک عملی قدم بڑھانا ہوگا۔ یہ وقت گوشت کے وزن سے خوش ہونے کا نہیں، بلکہ امت کے زخموں کا وزن اٹھانے کا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا، تو ہماری عید، ایک سوگوار چیخوں کے درمیان ہنسی کی بے وقت گونج بن کر رہ جائے گی۔


آئیے، آج کی قربانی کو مکمل کریں، صرف جانور نہیں، اپنی بے حسی بھی قربان کریں۔ اپنے حصے کی آواز بنیں، اپنی دعاؤں میں انہیں شامل کریں، اور اس عید کو حقیقی معنوں میں امت کی عید بنائیں۔ کیونکہ اگر عید کے دن بھی ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے درد کو نہ سمجھ سکیں، تو ہم سے بڑا مردہ کوئی نہیں۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

١٠؍ ذی الحجہ ١٤٤٦ھ بروز سنیچر


#PaighameFurqan | #EidulAdha | #EidulAzha | #Qurbani | #Palestine | #Gaza | #Muslim | #Ummah | #MTIH | #TIMS

Friday, 6 June 2025

شعائرِ اسلام اور ویجیٹیرین سیاست: قربانی کے خلاف پراپیگنڈے کی حقیقت!

 شعائرِ اسلام اور ویجیٹیرین سیاست: قربانی کے خلاف پراپیگنڈے کی حقیقت!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عیدالاضحیٰ کا مقدس تہوار مسلمانوں کے عقیدے اور تاریخ کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے، جس کا تعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت سے ہے، جنہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے جگر گوشے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا عزم کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس اطاعت اور وفا کو رہتی دنیا تک کے لیے مثال بنا دیا۔ اسی سنت کی یاد میں مسلمان ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر اللہ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، جس میں اطاعت، ایثار، تقویٰ، اور سماجی فلاح کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ جس سے لاکھوں لوگوں کو گوشت جیسی نعمت میسر آتی ہے۔


تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر سال جب عیدالاضحیٰ قریب آتی ہے، کچھ مخصوص حلقے اور نام نہاد جانوروں کے حقوق کے علمبردار، سوشل میڈیا سے لے کر میڈیا کے پلیٹ فارم تک مسلمانوں کی قربانی کو نشانے پر رکھتے ہیں اور اس عظیم عبادت کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ان کے نعروں میں انسانی ہمدردی کا لبادہ اوڑھا ہوتا ہے، مگر ان کے تیور میں تعصب، تہذیبی تکبر اور اسلام دشمنی جھلکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہے، قربانی ایک وحشیانہ عمل ہے، اور دنیا کو ویجیٹیرین (Vegetarian) یعنی سبزی خور ہو جانا چاہیے۔ وہ قربانی کے عمل کو ”ظالمانہ“، ”غیر انسانی“ یا ”ماحولیاتی نقصان دہ“ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں، لیکن ان کے اس موقف میں علم، عدل اور اخلاص کی کمی اور تضاد کی بہتات ہوتی ہے۔ سوال ہے کہ ان کے اعتراضات صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ جانوروں سے ہمدردی کا جذبہ واقعی مخلص ہے، یا محض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا ہتھیار ہے؟


اسلام میں قربانی محض گوشت خوری یا جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی تربیت کا عمل ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہم اپنی محبوب ترین چیزیں بھی قربان کر سکتے ہیں۔ قرآن میں واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ ”لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ“ (سورہ الحج: 37) کہ ”اللہ کو نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“ یہ قربانی ایک عبادت ہے جو ایک بندے کو اس کے خالق سے جوڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل لاکھوں افراد کو گوشت جیسی قیمتی نعمت مہیا کرتا ہے، جو عام دنوں میں ان کی دسترس میں نہیں ہوتی۔


قربانی پر اعتراض کرنے والے لوگ نہ تو مذہبی شعائر کی روح کو سمجھتے ہیں، اور نہ ہی زمینی حقیقتوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے قربانی صرف جانور کا قتل ہے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ عمل کس قدر منظم، بامقصد، اور انسان دوست ہوتا ہے۔ قربانی کا گوشت خاندان، رشتہ داروں، اور بالخصوص غریبوں میں تقسیم ہوتا ہے، جو سال بھر گوشت کی ایک بوند کو ترستے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں یہ تہوار فلاحی نظام کا حصہ ہے، جو سماجی مساوات اور غریب نوازی کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔


مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (Vegetarianism) کے علمبردار سال بھر مارکیٹس میں بکنے والے فاسٹ فوڈ چینز (فاسٹ Food Chains)، فیکٹری فارمنگ (Factory Farming) ، اور قصائی خانوں (Meat Processing Plant) پر کبھی آواز بلند نہیں کرتے، جہاں جانوروں کو مشینوں کے ذریعے غیر انسانی انداز میں مارا جاتا ہے۔ یہ نام نہاد ہمدرد اس پر تو خاموش رہتے ہیں، لیکن جب مسلمان شریعت کے مطابق، شفقت اور نظم کے ساتھ قربانی کرتے ہیں تو ان کے دل میں جانوروں کی ”محبت“ جاگ اٹھتی ہے۔ ان کا اعتراض نہ گوشت سے ہے، نہ جانوروں کے ذبح کرنے سے، بلکہ انہیں اصل مسئلہ مسلمانوں کے مذہبی عمل اور تہذیبی شناخت سے ہے۔


اس سے بڑا تضاد یہ ہے کہ دنیا کے کئی مذاہب میں جانوروں کی قربانی صدیوں سے رائج ہے، لیکن نشانہ صرف مسلمان بنتے ہیں۔ جبکہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی مختلف موقعوں پر جانوروں کی بلی (قربانی) دیتے ہیں۔ نیپال میں ہندو مذہب کے ماننے والے ہر پانچ سال پر گادھی مائی میلہ مناتے ہیں، جہاں ہزاروں جانوروں کی بلی (قربانی) دی جاتی ہے۔ آسام، جھارکھنڈ، اور اڑیسہ میں قبائلی رسموں میں بکروں اور مرغوں کی بلی (قربانی) صدیوں پرانی روایت ہے۔ بہت سے مندروں میں مثلاً تریپورہ سندری، کاماکھیا اور کالی گھاٹ کالی جیسے مندروں میں بھی نذر کے طور پر جانور چڑھائے جاتے ہیں۔ مگر کسی بھی ویجیٹیرین تنظیم یا جانوروں کے حقوق کے گروہ کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کا مسئلہ جانور نہیں، مسلمان ہے۔ اسی طرح جب کرسمس (Christmas) یا تھینکس گیونگ (Thanksgiving) جیسے مغربی تہواروں پر لاکھوں ٹرکی (ٹرکی Turkey؛ مرغبانی کی صنعت میں ایک بڑا پرندہ ہے، جسے ترکی پرندہ بھی کہتے ہیں) اور دیگر جانور ذبح کیے جاتے ہیں تو دنیا خاموش رہتی ہے، لیکن جب ایک مسلمان اپنے دین کے مطابق قربانی کرتا ہے، تو سب کو جانوروں کی ”تکلیف“ یاد آ جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار سراسر تعصب، منافقت، اور تہذیبی نسل پرستی کا مظہر ہے، جو ویجیٹیرین ازم کے نقاب میں مسلمانوں کے شعائر اور مذہبی آزادی پر حملہ آور ہوتا ہے۔


اب آئیے اس تضاد کے ایک اور پہلو پر غور کرتے ہیں۔ بھارت میں مویشی فارمنگ ایک منظم، تجارتی اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والی بڑی صنعت ہے، جس کی بنیاد وسیع پیمانے پر مویشیوں کی آبادی پر ہے، جو کہ تقریباً 515 ملین ہے، اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی فارمنگ صرف دودھ یا کھاد کے لیے نہیں کی جا رہی، بلکہ اس کا ایک بڑا مقصد گوشت کی پیداوار ہے۔ IMARC Group کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت میں گوشت کی مارکیٹ 2024 میں 55.3 ارب امریکی ڈالر کی ہو چکی ہے، اور 2033 تک یہ 114.4 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مزید یہ کہ FAO (Food and Agriculture Organization) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، بھارت دنیا کے سب سے بڑے گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ بھارت میں سالانہ گوشت کی پیداوار تقریباً 6.3 ملین ٹن ہے، جو اسے پیداوار کے حجم کے اعتبار سے دنیا میں پانچویں نمبر پر رکھتا ہے۔


 یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ بھارت نہ صرف دنیا میں گوشت پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، بلکہ وہ دنیا کے سب سے بڑے بیف ایکسپورٹ (Beef Exporter) ممالک میں شامل ہے۔ سرکاری APEDA کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت نے 1.5 بلین ڈالر سے زیادہ کا بیف برآمد کیا، جو ملک کی مجموعی برآمدات میں ایک اہم حصہ رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شعبے پر غلبہ رکھنے والی بڑی کمپنیاں، جن کے مالکان غیر مسلم ہیں، ہر سال لاکھوں ٹن گائے، بھینس اور بیل کا گوشت بیرونِ ملک بھیج کر اربوں کا منافع کماتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں کئی کارپوریٹ ادارے، صنعت کار، اور بعض حکومتی یا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں اور حکومت ان کو نہ صرف لائسنس فراہم کرتی ہے بلکہ ان کے کاروبار کو بڑھانے میں مدد بھی کرتی ہے۔ لیکن کیا کبھی ان بڑے اداروں کے خلاف ان کمپنیوں کے گوشت پر ”جانوروں کے حقوق“ کی تنظیموں نے مظاہرہ کیا؟ کیا کسی مرکزی میڈیا ہاؤس نے ان کے فیکٹری فارموں کے خلاف کیمرہ گھمایا؟ کیا کبھی ان سے سوالات کیے گئے کہ جانوروں کو کیسے رکھا اور ذبح کیا جا رہا ہے؟ جواب ہے: نہیں۔ کیونکہ جب معاملہ طاقتور طبقات، سرمائے اور منافع کا ہو، تو ”اخلاقیات“، ”جانوروں کے حقوق“ اور ”ہندو جذبات“ سب خاموش ہو جاتے ہیں۔  یہاں اصل تضاد کھل کر سامنے آتا ہے: اگر کوئی غریب یا متوسط طبقے کا مسلمان فرد، مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے ایک یا دو جانور قربان کرتا ہے، تو اسے ظلم، وحشت اور شدت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے سماجی میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے، اور بعض اوقات تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر یہی عمل بڑی کارپوریٹ کمپنیاں لاکھوں گائیں، بیل اور دیگر جانور ذبح کر کے منافع کمائیں تو وہ ایک ”قابلِ ستائش کاروبار“ اور ”برآمداتی کامیابی“ قرار پاتا ہے۔ یہ دہرا معیار صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں، بلکہ جانوروں کے حقوق اور تجارتی اخلاقیات کے اصولوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ 



درحقیقت، اسلام مخالف پراپیگنڈہ کی یہ نئی شکل ہے، جو ویجیٹیرین ازم (Vegetarianism) اور ماحولیاتی تبدیلی (Environmental change) جیسے عالمی موضوعات کا سہارا لے کر مسلمانوں کے مذہبی شعائر کو نشانہ بناتی ہے۔ قربانی صرف عبادت نہیں، ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ اور جس تہذیب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ دنیا کی واحد تہذیب ہے جو قربانی کے ساتھ صفائی، فلاح، اور عدل کا سبق بھی دیتی ہے۔ اسلام میں قربانی نہ صرف جانور کے جسم کی بلکہ دل کی قربانی ہے، وہ قربانی جو غرور، لالچ، انا اور خود غرضی کو ختم کر کے انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔ یہ قربانی صرف ایک ذاتی عبادت نہیں بلکہ ایک اجتماعی عمل ہے، جس میں ہر فرد کی شرکت سماج کے کمزور طبقے تک نعمتیں پہنچاتی ہے۔


اسلام کسی پر کھانے پینے کے معاملے میں جبر نہیں کرتا، نہ ہی کسی کے ذوق کو برا کہتا ہے۔ لیکن یہ حق ضرور دیتا ہے کہ ایک مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکے، بشرطیکہ وہ قانون اور شریعت کے دائرے میں ہو۔ ہندوستان جیسے آئینی، سیکولر ملک میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، اور قربانی اس آئینی حق کا حصہ ہے۔ ایسے میں قربانی پر اعتراض صرف مذہبی تعصب اور سماجی پولرائزیشن (Social Polarization) کو ہوا دینے کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔


مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وہ اس پروپیگنڈہ کے خلاف محض جذباتی نہیں، بلکہ مکمل دلیل کے ساتھ عقلی، سائنسی، آئینی اور اخلاقی جواب دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا کو دکھائیں کہ ہماری قربانی صرف جانور نہیں، بلکہ انسانیت کے ساتھ محبت، سماج کے ساتھ انصاف، اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا پیغام ہے۔ ہمیں اپنی قربانی کو اس طرح انجام دینا چاہیے کہ اس میں صفائی، شفقت، اور معاشرتی فلاح کا پیغام ہو؛ جس کی تعلیم دین اسلام دیتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ قربانی صرف ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ یہ غربت کے خلاف ایک بڑی مہم ہے، ایک فلاحی نظام کا حصہ ہے، اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ ہم صفائی کا خیال رکھیں، ماحول کو آلودہ نہ کریں، اور اس عبادت کو اس کے حقیقی وقار کے ساتھ انجام دیں۔


ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بھارت کا آئین ہمیں مذہبی آزادی، شخصی آزادی اور عبادت کا حق دیتا ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اس آئینی حق کو سوشل میڈیا کے دباؤ یا ٹی وی کی چیخ پکار سے چھین نہیں سکتا۔ مسلمان اپنی عبادات پر شرمندہ نہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں چاہیے کہ علم، اخلاق، اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی شناخت کا دفاع کرتے رہیں۔ دنیا کو ویجیٹیرین (Vegetarian) بننے سے نہیں روکا جا رہا، لیکن یہ بات بھی قبول نہیں کہ کسی کے ”غذائی عقیدے“ کو دوسروں کے ”ایمانی عقیدے“ پر مسلط کیا جائے۔ قربانی نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایک حق ہے، اور اس حق کا دفاع علمی، آئینی، اور پرامن طریقے سے ہر مسلمان کا فرض ہے۔


یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تہذیب، عقیدے اور روایات کے تحفظ کے لیے باوقار انداز میں کھڑے ہوں، اور دنیا کو بتائیں کہ ہمارے شعائر ہماری پہچان ہیں اور ہم اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دین ہمیں قربانی کے ذریعے ایثار، اطاعت، اور فلاحِ انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔


اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ 

”میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“ (سورۃ الانعام: 162)