Friday, 18 July 2025

ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے جمعہ کو ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ منانے کا اعلان!

 ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے جمعہ کو ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ منانے کا اعلان!

امیر شریعت کرناٹک اور دیگر علماء کی ائمہ و خطباء سے جمعہ کے خطبات میں ”عظمت صحابہؓ‘‘ پر روشنی ڈالنے کی اپیل!

بنگلور، 17؍ جولائی (پریس ریلیز): امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب، حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب (بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور)، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور) نے علماء، ائمہ و خطباء کرام کے نام ایک اہم اپیل جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ امت مسلمہ اس وقت ایک نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، جہاں عقائد، شعائر اسلام اور مقدسات پر حملے تیز تر ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر منبر و محراب تک بعض فتنہ پرور عناصر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ لوگ امت کی دینی بنیادوں کو کمزور کر کے نئی نسل کو شکوک و شبہات کی دلدل میں دھکیلنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحابہ کرامؓ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی معیت میں قربانیاں دیں، اور جن کی عظمت پر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مہرِ تصدیق ثبت فرمائی: ”رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ“، ”أُولَٰٓءِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ“۔انہوں نے فرمایا کہ آج جبکہ ان مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس پر زبان دراز کی جا رہی ہے، امت کو بالعموم اور اہل علم کو بالخصوص ایک منظم علمی و فکری محاذ پر سرگرم ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے تحت مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آنے والے جمعہ یعنی 18؍ جولائی 2025ء کو پوری ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کے طور پر منایا جائے، تاکہ امت کو صحابہ کرامؓ کی عظمت، ان کی دینی خدمات، ان کا عدل و تقویٰ، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا ان کے متعلق معتدل اور حق پر مبنی موقف ازسرِنو یاد دلایا جا سکے۔ لہٰذا ہم ریاست بھر کے علماء و ائمہ کرام سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اس جمعہ کے خطبہ میں صحابہ کرامؓ کی شان و فضیلت پر روشنی ڈالیں۔ صحابہؓ کے عدل و انصاف، دیانت و تقویٰ، اور دین کے لیے ان کی جانثاری کو اجاگر کریں۔ گستاخوں کے فتنہ سے نئی نسل کو بچانے کے لیے ان کے ذہنوں کو منور کریں۔ صحابہ کرامؓ کے متعلق اہل سنت والجماعت کا متوازن، معتدل اور اجماعی موقف واضح طور پر بیان کریں۔ اور امت کو یہ شعور دیں کہ صحابہؓ کی توہین دراصل دین کے بنیادی ستون کو ہلانے کے مترادف ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم صرف دل میں محبتِ صحابہؓ پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی عظمت کے تحفظ کے لیے زبان و قلم سے، وعظ و نصیحت اور فکر و عمل سے کھل کر میدان میں آئیں۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کا دفاع، دین کا دفاع ہے۔ ان کی توہین، دین کی بنیادوں پر حملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی محبت، عقیدت، اور دفاع کے فریضہ میں مخلص بنائے اور امت کو متحد و بیدار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین




#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

”یومِ صحابہؓ“: غیرتِ ایمانی کی تجدید کا دن!

 ”یومِ صحابہؓ“: غیرتِ ایمانی کی تجدید کا دن!

اصحابِ رسول ﷺ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی جان، مال، خاندان، خواہشات اور پوری زندگی اللہ، رسول اور دینِ اسلام کے لیے قربان کر دی۔ ان کے اخلاص، استقامت، فداکاری اور نبی ﷺ سے بے مثال محبت کی گواہی خود قرآن نے دی: ”رَضِيَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ“۔ وہی صحابہؓ جنہوں نے قرآن کو محفوظ کیا، حدیث کو روایت کیا، اسلام کو پوری دنیا تک پہنچایا، آج اُن کی شان میں زبان دراز کرنا، سوشل میڈیا پر اُن کی توہین کرنا اور اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر ان پر طعن کرنا نہایت افسوسناک، خطرناک اور درحقیقت ایمان سوز عمل ہے۔


دشمنانِ اسلام جانتے ہیں کہ اگر صحابہؓ کی عظمت دلوں سے نکال دی جائے تو دین کو مشکوک بنانا آسان ہو جائے گا۔ اسی لیے فتنہ پرور حلقے اہل بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ پر طعن کرتے ہیں، حالانکہ اہل بیتؓ خود دیگر صحابہؓ کی عزت کرتے تھے، ان کی امامت میں نماز پڑھتے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے۔ گستاخانِ صحابہ دراصل نبی ﷺ کے گستاخ ہیں، کیونکہ صحابہؓ ہی نبی ﷺ کی مجلس، جنگ، قربانی اور امانت کے وارث تھے۔


آج *”یومِ صحابہؓ“* اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اُن مقدس ہستیوں کے دفاع میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ کیونکہ امتِ مسلمہ کی خاموشی، بے حسی اور غیرت کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایمان کے قلعے سے دور ہو چکے ہیں۔ اگر آج ہم نے صحابہؓ کے دفاع میں زبان نہ کھولی، نسلوں کو ان کی سیرت نہ سنائی، گستاخوں کو جواب نہ دیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور قیامت کے دن ہمیں نبی ﷺ اور اُن کے یاروں کے سامنے جواب دینا ہوگا۔


*یاد رکھو! دفاعِ صحابہ ایمان کی علامت ہے، غیرت کا تقاضا ہے اور امت کے مستقبل کا تحفظ ہے۔*


لہٰذا اُٹھو، جاگو، اور *”یومِ صحابہؓ“* مبارک موقع پر صحابہؓ کے عشق کا پرچم تھام کر باطل کو للکار دو! ان شاء اللہ دنیا بھی سنورے گی، اور آخرت بھی۔


ہم اصحابِ نبیؐ کے خادم ان کے نوکر ہیں

یہ نسبت ہے ہماری، یہ فخر کا جوہر ہے

اگر کوئی کرے توہین یاروں کی نبیؐ کے

تو پھر ہمارا ہر لفظ شمشیرِ جوہر ہے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

18 جولائی 2025ء بروز جمعہ

بموقع : ”یومِ صحابہؓ“


#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Monday, 14 July 2025

اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

 اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 ہندوستان میں حالیہ برسوں میں فلم اور میڈیا کے ذریعہ جو بیانیہ قائم کیا جا رہا ہے، وہ تخلیقی آزادی یا آزادی اظہار رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی، سماجی اور نظریاتی پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس ملک کے اندر جاری اصلی مسائل، ظلم و ناانصافی اور سماجی و آئینی جرائم سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہے۔ ”دی کشمیر فائلز“، ”دی کیرالہ اسٹوری“ اور تازہ ترین ”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور خطرناک چال کا حصہ ہیں، جس کے ذریعے اصل حقائق کو چھپایا جا رہا ہے، تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، اور اکثریتی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جا رہا ہے۔ ان فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار، سماج دشمن اور ملک مخالف قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی مسلمان اس ملک کی ترقی، تاریخ، تہذیب، آزادی اور ثقافت کا ایک ناقابلِ انکار حصہ رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج میڈیا، فلمی دنیا اور حکومت کی ملی بھگت سے انہیں ایک فرضی بیانیے کے تحت کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اگر واقعی ملک میں انصاف، سچائی اور انسانیت پر مبنی فلمیں بنانی ہوں تو انہیں ان مظلوم مسلمانوں پر بنانا چاہیے جنہیں نظامِ عدل نے بغیر کسی جرم کے دہائیوں تک قید و بند میں رکھا۔



”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں کنہیا لال کے قتل کے آڑ میں پورے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہیں، لیکن کیا آج تک کسی فلم ساز کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ 2002ء کے گجرات فسادات پر ”گجرات فائلز“ بنائے؟ وہ نسل کشی جس میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، مسجدیں شہید کی گئیں، اور پوری بستیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا، اس پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ کیوں نہیں دکھایا گیا کہ کیسے بی جے پی کے نظامِ حکومت نے ان فسادات میں اپنی ناکامی یا ملی بھگت کو چھپانے کی کوشش کی؟ کیا یہ سچائی دکھانے سے سماج کو فائدہ نہیں ہوگا؟ لیکن چونکہ ان سچائیوں سے اکثریت کی خاموش حمایت اور حکومت کی ناکامی بے نقاب ہوتی ہے، اس لیے یہ فلمیں کبھی وجود میں نہیں آتیں۔ 


اسی طرح 1989ء کے بھاگلپور فسادات، جس میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہوا، سیکڑوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے، آج تک فلمی پردے پر نظر نہیں آئے۔ جبکہ یہی میڈیا اور فلمی دنیا ہر اس واقعہ پر فوراً متحرک ہو جاتی ہے جہاں کوئی فرد واحد کسی قابلِ مذمت حرکت کا ارتکاب کرے، اگر وہ مسلمان ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام انصاف، میڈیا اور فلمی دنیا کا ایک گٹھ جوڑ ہے جو ملک کے عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھ کر ایک فرضی دشمن تراشتا ہے تاکہ ان کا غصہ، ان کی مایوسی اور ان کی بے بسی مسلمانوں پر نکالی جا سکے۔


 ملک کی عدلیہ نے اکشردھام حملے کے الزام میں گرفتار مفتی عبد القیوم منصوری کو گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد باعزت بری کیا، اور کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن ان کی تباہ شدہ زندگی پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ ان کے خاندان کی بربادی، ان کے جذباتی اور نفسیاتی صدمات پر کوئی کیمرہ کیوں نہیں گیا؟ کیا ایک بے گناہ مسلمان کی زندگی کی قیمت اس ملک میں اتنی کم ہو چکی ہے کہ اس کی کہانی کو سننے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا؟ درحقیقت یہ خاموشی خود ایک جرم ہے، اور اس خاموشی کو چھپانے کے لیے ”کشمیر فائل“ اور ”ادے پور فائلز“ جیسے شور پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ اصل سچائی پس منظر میں دفن ہو جائے۔ ہزاروں مسلمان نوجوان آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، جن پر دہشت گردی کے فرضی الزامات لگائے گئے۔ سالوں بعد جب عدالتیں انہیں باعزت بری کرتی ہیں تو نہ کوئی معاوضہ، نہ کوئی معافی، نہ ہی کوئی پچھتاوا نظر آتا ہے۔ ان کی تباہ شدہ جوانی، ان کی ماؤں کی سسکیاں، ان کے بچوں کی بھوکی آنکھیں، ان سب پر کوئی فلم نہیں بنتی، کیونکہ یہ سچ فلموں کے اسکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہاں فلم وہی بنتی ہے جو مسلمانوں کو ولن دکھائے، وہ نہیں جو سسٹم کی بدعنوانی، نفرت کی سیاست اور فرقہ پرست ذہنیت کو بے نقاب کرے۔


بابری مسجد کی شہادت ایک تاریخی سانحہ ہے۔ دن دہاڑے ایک تاریخی عبادت گاہ کو گرا دیا گیا، اور بعد میں عدالت نے یہ مانا کہ وہ توڑنا غیر قانونی تھا اور مسجد کسی مندر پر نہیں بنا تھا، لیکن پھر بھی زمین مندر کو دے دی گئی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا اس پر فلم بنانا ملک کی عوام کو سچ سے روشناس کرانا نہیں ہے؟ کیوں نہیں دکھایا جاتا کہ اس ملک میں کس طرح اکثریتی دباؤ اور مذہبی سیاست کے تحت عدالتی فیصلے بھی متاثر ہوتے ہیں؟ اگر ”ادے پور فائلز“ ایک شخص کے قتل کے آڑ میں پورے مسلم سماج کو بدنام کرنے کیلئے بن سکتی ہے تو بابری مسجد کی شہادت پر کیوں نہیں؟ اس لیے کہ وہاں مظلوم مسلمان تھے، اور ظالم کی پشت پناہی اقتدار کر رہا تھا۔ 


مسلمان خواتین کی زندگی اس ملک میں دوہری تلوار کے نیچے ہے۔ ایک طرف ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پردے پر طنز کیے جاتے ہیں، شرعی نظام کو پسماندگی کہا جاتا ہے، اور دوسری طرف خود سماج میں انہیں بے پردگی، اسلام مخالف قوانین، اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ ”سلی ڈیلز“ (Sulli Deals) اور ”بلّی بائی“ (Bulli Bai) جیسے ایپس پر ان کی نیلامی کی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر ان کے حجاب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ کیا ان مسلم خواتین کی عزت و عصمت اور ان کے خلاف ہونے والی بھگوا سازشوں پر آج تک کوئی فلم بنی؟ نہیں، کیونکہ یہاں مقصد صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانا ہے۔


شریعت پر حملے ہو رہے ہیں، اسلامی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مدارس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے، دارالعلوم دیوبند جس کے علماء کی بدولت ملک کو آزادی ملی اس ادارے کو دہشت گردی کا اڈا بتایا جارہا ہے، اور وقف املاک کو ہتھیانے کے لیے قانون بدلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سب موضوعات کبھی کسی فلمی ڈائریکٹر کا موضوع نہیں بنتے۔ کیونکہ ان پر روشنی ڈالنا موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، اور ایسا کوئی فلم ساز یا پروڈیوسر کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے مالی مفادات، حکومتی حمایت، اور پروپیگنڈا مشینری کا چکر اس کی اجازت نہیں دیتا۔


 اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف یہ فلمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھاتی ہیں، بلکہ اصل سماجی، اقتصادی اور آئینی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران، کسانوں کی بدحالی، عدلیہ کی کمزوری، اور میڈیا کی جانبداری جیسے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیل کر ایک فرضی دشمن کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ ہر سوال کو فرقہ واریت میں دفن کیا جا سکے۔یہ فلمیں دراصل حکومتی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے ایک شطرنج کا مہرہ ہیں، اور ان کا ہدف صرف مسلمان نہیں بلکہ وہ ہر شخص ہے جو انصاف، عقل، اور آئینی قدروں پر یقین رکھتا ہے۔ جو آج مسلمانوں کے خلاف زہر کو نظرانداز کرے گا، کل اسے خود اس زہر کا نشانہ بننا پڑے گا۔ نفرت کے اس کاروبار کا نقصان صرف اقلیتوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوگا۔ ایک ایسا سماج جو انصاف اور سچائی پر نہیں بلکہ جھوٹ اور تعصب پر قائم ہو، وہ زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتا۔


 یہ وقت ہے کہ ہم ان جھوٹے، گمراہ کن اور خطرناک بیانیوں کے خلاف ایک سچ پر مبنی، باوقار اور انسانیت نواز بیانیہ کھڑا کریں۔ ہمیں اب خاموشی، خوف یا وقتی مصلحت سے بالاتر ہو کر اس پروپیگنڈا کے طوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو ہتھیار بنانا ہوگا، کیمرے کو سچ کا آئینہ بنانا ہوگا، آواز کو مظلوموں کی فریاد بنانا ہوگا، اور شعور کو بیداری کا پرچم بنانا ہوگا۔ ہمیں اس سرزمین پر ہونے والی نسل کشیوں، مذہبی ناانصافیوں، عدالتی زیادتیوں اور سماجی تفریق کی کہانیاں دنیا کے سامنے لانی ہوں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف ”ادے پور فائلز“، ”کشمیر فائلز“ اور ”کیرالا اسٹوری“ جیسے جھوٹے فلم کے بیانیوں کا جواب نہیں بلکہ اس ملک کی حقیقی تاریخ، اصل المیوں اور مظلوم انسانوں کی پکار کو اجاگر کرنا ہوگا اور سچائی پر مبنی واقعات اور ظلم کی داستان کو دکھنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ ہندوستان صرف نفرت کی زمین نہیں، بلکہ سچائی، انصاف اور ضمیر والوں کی سرزمین بھی ہے۔ ہمیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ اگر ظلم کے ساتھ طاقت ہے تو مظلوم کے ساتھ حق ہے، اگر پروپیگنڈا کے ساتھ پیسہ ہے تو سچ کے ساتھ خدا ہے۔ یہ جنگ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ہر اُس انسان کی ہے جو انصاف، عزتِ انسانی، برابری اور آئینی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ اگر ہم سب نے مل کر اب بھی خاموشی اختیار کی، تو آنے والی نسلیں صرف ہماری بے بسی کا نوحہ پڑھیں گی، ہمیں تاریخ کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں گی اور سوال کریں گی کہ جب سچ پامال ہو رہا تھا، انصاف روندھا جا رہا تھا، اقلیتوں کو شیطان بنا کر پیش کیا جا رہا تھا،آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں؛ تب تم کہاں تھے؟ آج وقت ہے کہ ہم تاریخ کا صحیح رُخ متعین کریں۔ ایک ایسا رُخ جو سچ، عدل، امن، انسانیت، اور باہمی احترام پر قائم ہو، نہ کہ جھوٹ، نفرت، سیاسی مفاد اور اکثریتی تسلط پر۔ یہ تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے اور فیصلہ ہمیں کرنا ہے، آج، ابھی اور اسی وقت!

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہند کے مسلمانو!

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

14؍ جولائی 2025ء بروز پیر


#UdaipurFiles #PaighameFurqan #Islamophobia #IslamobhopicFilm #Film #Bollywood #MTIH #TIMS #KashmirFiles #KeralaStory

بغض صحابہؓ درحقیقت بغض رسولؐ ہے، انکی گستاخی دین پر حملہ اور ایمان کی تباہی ہے!

 بغض صحابہؓ درحقیقت بغض رسولؐ ہے، انکی گستاخی دین پر حملہ اور ایمان کی تباہی ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ سے مولانا عبد الرحیم رشیدی اور حافظ ارشد احمد کے خطابات!



 بنگلور، 12؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت بلند و بالا ہے، وہ ایسی مقدس شخصیات ہیں جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا، اور جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ہر حکم پر اپنی جان و مال قربان کر دی۔ ان کی قربانیوں کی نظیر تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ قرآنِ کریم نے ان کے مقام و مرتبے کی گواہی دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: "رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ"۔ ایسے مقدس اور منتخب نفوس پر زبان درازی کرنا، درحقیقت اپنی آخرت برباد کرنے اور جہنم کی آگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے سخت لہجے میں فرمایا کہ جو لوگ صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں وہ لعنتی، کم عقل، جاہل اور ایمان سے محروم لوگ ہیں۔ صحابہؓ کے بارے میں بدگمانی اور انکی شان میں گستاخی دراصل رسول اللہ ﷺ کی توہین کے مترادف ہے، کیونکہ ان کے مربی و معلم خود سرورِ کائنات ﷺ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں ان پاکباز ہستیوں نے ایمان، فداکاری، سچائی، قربانی اور دیانت کا وہ عملی نمونہ پیش کیا جسے قیامت تک کے لیے امت کے لیے معیارِ حق بنا دیا گیا۔ ہمیں چاہئے کہ صحابہؓ کی سیرت اور ان کے تذکروں کو عام کریں، ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور ان سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ بنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو قوم اپنے محسنوں اور بزرگوں کی قدر نہیں کرتی وہ تاریخ کے صفحات سے مٹا دی جاتی ہے، اور صحابہ کرامؓ وہ ہستیاں ہیں جن کے بغیر دین کا کوئی باب مکمل نہیں۔ صحابہؓ کے دفاع کو ایمان کا دفاع سمجھنا چاہیے، اور ہر فرد کو ان کی ناموس کے تحفظ کے لیے بیدار ہونا چاہیے۔


اسی نشست سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے نائب صدر حضرت حافظ ارشد احمد حنفی صاحب نے فرمایا کہ آج اسلام دنیا بھر میں جس حیثیت سے موجود ہے، وہ صحابہ کرامؓ کی انتھک جدوجہد، بے مثال قربانیوں اور دعوتی محنت کا ثمر ہے۔ اسلام، صحابہ کے واسطے سے ہم تک پہنچا، اور جہاں کہیں بھی ایمان، قرآن، اذان اور نماز ہے، وہ صحابہ کی محنت کا فیض ہے۔ افسوس کہ آج انہی ہستیوں کی شان میں گستاخی کی جا رہی ہے، یہ ایک ایسا خطرناک فتنہ ہے جو دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صحابہ پر اعتراضات دراصل نبی کریم ﷺ کی تربیت و کردار پر اعتراض ہے، کیونکہ صحابہ کے معلم و مزکی خود نبی کریم ﷺ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحابہ کے فضائل قرآن و حدیث میں بکثرت موجود ہیں، اور جو شخص ان کی شان میں گستاخی کرے وہ دراصل اپنے انجام کو جہنم کے لیے تیار کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر صحابہ کرامؓ کی عدالت، صداقت اور امانت پر سوال اٹھا دیا جائے تو پورا دین مشکوک بن جاتا ہے، کیونکہ ہمیں دین انہی کے توسط سے ملا ہے۔ ان کے ذریعہ قرآن ہم تک پہنچا، سنت محفوظ ہوئی، اور اسلام کا نظامِ زندگی ہم تک منتقل ہوا۔ آج کے دور میں جبکہ ایمان پر فکری حملے ہو رہے ہیں، صحابہؓ کا تذکرہ کرنا، ان کی سیرت کو زندہ رکھنا، اور ان کا دفاع کرنا از حد ضروری ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ عدل و انصاف، دیانت و شجاعت کے عالمی نمونے ہیں، یہاں تک کہ غیر مسلم مؤرخین بھی ان کی سچائی، بہادری اور اخلاص کی مثالیں دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دفاعِ صحابہ وقت کی شدید ضرورت ہے اور ہمیں ہر گھر، ہر فرد تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں اور ان کی تنقیص ایمان کی کمزوری بلکہ بربادی ہے۔


اس موقع پر دونوں حضرات نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ دشمنانِ صحابہ سے مکمل بیزاری کا اعلان کریں، ان کے فتنوں سے بچیں، اور صحابہؓ کے فضائل و مناقب کو عام کریں۔ ان کی سیرت کو اپنا شعار بنائیں اور دفاعِ صحابہ کے اس مقدس فریضے کو اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ ان شاء اللہ، اسی کے ذریعہ سے امت کے ایمان، اتحاد اور عزت کا تحفظ ممکن ہے۔


قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکنِ تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن شوریٰ قاری محمد عمران کی تلاوت و نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور عظمتِ صحابہ کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدرِ اجلاس کی دعا پر یہ عظیم الشان ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئیں۔


#AzmateSahaba #DifaSahaba #Sahaba #TIMS #MTIH #PressRelease

Sunday, 13 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمتِ صحابہؓ کانفرنس“ کی شاندار کامیابی کے پیش نظر پانچ دن کی توسیع کا اعلان

 مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”عظمتِ صحابہؓ کانفرنس“ کی شاندار کامیابی کے پیش نظر پانچ دن کی توسیع کا اعلان

اکابر علماء کی ہدایت، شرکاء کے اصرار اور دینی تقاضوں کی تکمیل کے لیے اہم فیصلہ!


بنگلور، 13؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن ”عظمتِ صحابہؓ کانفرنس“ کی شاندار عوامی و علمی پذیرائی، بھرپور دینی اثر انگیزی، ممتاز علماء کرام کے پے در پے فکر انگیز خطابات، اور ملت کے مختلف طبقات سے مسلسل موصول ہونے والے مثبت ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز اکابر علماء کرام کی خصوصی ہدایت اور مشورے کی تعمیل میں اس کانفرنس کے پروگرام میں مزید پانچ دنوں کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے آج منعقد ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اعلان کیا کہ یہ کانفرنس جس جذبے، قبولیت، اور بیداری کے ماحول کے ساتھ جاری ہے، وہ کسی بھی علمی تحریک کے لیے باعثِ فخر ہے۔ صحابہ کرامؓ کے فضائل، مناقب، سیرت، خدمات اور دفاع کے موضوع پر ہونے والی اس ہمہ گیر مہم نے امت کے اندر ایمان کی تجدید، عقیدے کی اصلاح، اور دشمنانِ صحابہؓ کے خلاف علمی صف بندی کی نئی فضا قائم کی ہے۔ عوامی مطالبات، علماء کی رائے، اور دعوتِ دین کے وسیع تر مفاد میں ہم نے اس کانفرنس کو مزید پانچ دنوں تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس مشن کی وسعت کو نئی جہت دی جا سکے۔


واضح رہے کہ پہلے مرحلے میں یہ پروگرام 9؍ جولائی تا 13؍ جولائی تک پانچ دن کے لیے متعین کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر کے چوٹی کے جید علمائے کرام، مفتیانِ عظام، خطباء و مبلغین نے شرکت کی، اور صحابہ کرامؓ کی عظمت، ان کی عدل و دیانت، دین کے لیے ان کی قربانیوں اور دشمنانِ صحابہ کی شرانگیزیوں کے خلاف مدلل، متوازن اور ایمان افروز بیانات پیش کیے۔ اس پانچ روزہ سلسلے کو پورے ملک میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ہزاروں افراد نے براہِ راست مجالس میں شرکت کی، اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس بیداری مہم سے جڑی۔


علمائے کرام کی جانب سے مشورہ دیا گیا کہ جب تک گستاخ صحابہ کا فتنہ زندہ ہے، تب تک دفاعِ صحابہ کا فریضہ بھی زندہ اور جاری رہنا چاہیے۔ اس لیے صرف وقتی ردعمل پر اکتفا کرنے کے بجائے ایک تسلسل کے ساتھ، منظم علمی جواب اور عوامی شعور کی بیداری کو جاری رکھا جائے۔ اسی روح کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اہم فیصلہ کیا گیا کہ 14؍ جولائی تا 18؍ جولائی 2025 تک مزید پانچ دن اس کانفرنس کو جاری رکھا جائے گا۔ نئی توسیع کے تحت بھی ممتاز مقررین و علمائے کرام کے خطابات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ موضوعات کو وسعت دیتے ہوئے نہ صرف صحابہؓ کے دفاع کو تقویت دی جائے گی بلکہ ان کی سیرت کو نئی نسل تک پہنچانے کی مؤثر کوشش کی جائے گی۔ ان مجالس کو حسب سابق مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر ہر رات 10 بجے براہِ راست نشر کیا جائے گا۔


مرکز تحفظ اسلام ہند تمام مسلمانوں، بالخصوص نوجوان نسل سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ان مجالس میں بھرپور شرکت کریں، اپنے ایمان کو تازہ کریں، صحابہ کرامؓ کی سیرت سے روشنی حاصل کریں، اور دشمنانِ دین کے خلاف ایک مضبوط فکری و ایمانی قلعہ بن کر ابھریں۔ یہ توسیع صرف ایک پروگرام کا بڑھایا جانا نہیں بلکہ ایک جدوجہد، ایک تحریک، اور ایک فکری جہاد ہے جسے آپ کی شرکت اور تائید سے تقویت ملے گی۔ آئیے! اس کارواں کا حصہ بنیے، دفاعِ صحابہؓ کے علم کو تھام لیجیے، اور پوری امت کو یہ پیغام دیجیے کہ ناموسِ صحابہؓ کی حفاظت آج بھی ہمارے دلوں کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے منعقد اس اہم پریس کانفرنس میں مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بطور خاص موجود رہے۔


#AzmateSahaba #DifaSahaba #Sahaba #TIMS #MTIH #PressRelease