Sunday, 20 July 2025

مرکز تحفظ اسلام ہند کے دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی اختتامی نشست میں اکابر علماءِ کرام کے ولولہ انگیز خطابات!

 تمام صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں، ان کی شان اقدس میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی اختتامی نشست میں اکابر علماءِ کرام کے ولولہ انگیز خطابات!

حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد خان رشادی کی صدارت، امت مسلمہ کے نام اہم پیغام!

حضرت مفتی شعیب اللہ خان، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی، حضرت مفتی مقصود عمران رشادی، حضرت مولانا زین العابدین رشادی، حضرت مفتی عبد العزیز قاسمی، حضرت مولانا الیاس بھٹکلی، اور حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی کے اہم خطابات!

بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدہ عظیم الشان آن لائن دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ کی اختتامی نشست امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب مدظلہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی، جس میں ریاست کرناٹک کے ممتاز و اکابر علماء کرام نے خصوصی شرکت فرمائی۔ یہ کانفرنس کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کے تاریخی اور کامیاب انعقاد کا تسلسل اور اس کے روحانی اثرات کا مظہر بھی تھی۔


اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے حضرت امیر شریعت کرناٹک نے فرمایا کہ صحابہ کا مقام اور عظمت بلند و بالا ہے، کوئی بھی مسلمان صحابہ کرام ؓکے مقام و مرتبہ کو نہیں پا سکتا، کیونکہ وہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کے بارے میں خود رسول اللہ ؐ نے اکرام و تعظیم کا حکم دیا اور ان کو گالی دینے والوں پر اللہ کی لعنت کا اعلان فرمایا۔ آج جو فتنہ پرور عناصر صحابہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں، لعن طعن اور زبان درازی سے ان کی عظمت کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، وہ درحقیقت عذابِ خداوندی کو دعوت دے رہے ہیں۔ ایسے گستاخ اور ملعون عناصر کسی بھی صورت میں امت مسلمہ کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صحابہؓ کا ادب و احترام اپنے دلوں میں راسخ کریں، ان کی سیرت کو مشعلِ راہ بنائیں، اور ان کے خلاف ہر زہرآلود سازش کو مکمل اتحاد، ایمان اور غیرت ایمانی کے ساتھ ناکام بنائیں، کیونکہ صحابہؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں جن کی پیروی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ صحابہ کو برا بھلا کہنا، ان پر زبان درازی کرنا صرف گمراہی نہیں بلکہ ایمان کے لیے خطرہ ہے، اور ملت اسلامیہ ہرگز یہ گستاخی برداشت نہیں کرے گی۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فتنوں کے اس دور میں جہاں ایمان، دینی شعائر اور مقدسات پر حملے ہو رہے ہیں، ایک منظم سازش صحابہ کرامؓ پر اعتماد ختم کرنے کی بھی ہے۔ خاص طور پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ وہ جلیل القدر صحابی، کاتب وحی، عظیم اسلامی سپہ سالار، اور علم و عدل کے پیکر تھے جنہیں محدثین اور مفسرین نے ثقہ، متقی اور معتبر قرار دیا ہے۔ ان کی فضیلت پر متعدد احادیث موجود ہیں۔ مشاجرات صحابہ کو بنیاد بنا کر کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ اختلافات اجتہادی تھے جن میں سب مأجور ہیں۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل اور ہدایت کے ستارے ہیں۔ اس نشست میں مفتی صاحب نے علمی و تحقیقی انداز میں حضرت امیر معاویہؓ پر کیے جانے والے اعتراضات کے تفصیلی دلائل سے جواب دیے اور واضح کیا کہ صحابہ کی توہین درحقیقت اسلام اور ایمان پر حملہ ہے، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔


اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر اور مرکز تحفظ اسلام ہند سرپرست حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ قرآن و حدیث میں صحابہ کرامؓ کی شان و عظمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے، اور تمام صحابہ عادل، حق کے پیمانہ اور امت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ افسوس کہ آج بعض افراد اہل بیتؓ کی محبت کا جھوٹا نعرہ لگا کر دیگر جلیل القدر صحابہؓ پر زبان درازی کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اہل بیتؓ کے بھی دشمن ہیں، کیونکہ اہل بیتؓ خود صحابہ کرامؓ کی عزت و توقیر کرتے تھے۔ جو شخص صحابہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، وہ نہ صرف گمراہ ہے بلکہ اپنے ایمان کو بھی خطرے میں ڈال چکا ہے۔ یہ دراصل اسلام کی بنیادوں پر حملے کی سازش ہے تاکہ دین کے اولین محافظوں کو مشکوک بنا کر اسلام کو ہی مشتبہ ٹھہرایا جائے، کیونکہ صحابہؓ ہی وہ واسطہ ہیں جن کے ذریعے دین ہم تک پہنچا۔ لہٰذا امت مسلمہ پر لازم ہے کہ ان سازشوں سے ہوشیار رہے، صحابہ کرامؓ کا احترام کرے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی ایمانی بنیاد کو مضبوط بنائے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ کی عظمت ہمارے دلوں میں رچی بسی ہے، اور ان کی شان میں کوئی گستاخی ہمارے لیے ہرگز قابل برداشت نہیں۔ آج سوشل میڈیا پر اسلام دشمن عناصر نئی نسل کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لیے صحابہ کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، مگر ہمیں ان کے پروپیگنڈے پر ہرگز کان نہیں دھرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرمؐ نے صحابہ کرامؓ کی عظمت، عدالت اور مقام کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے، لہٰذا کسی کی گستاخی سے ان کے مقام میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آتا۔


اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے مہتمم حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ یہ فتنوں کا دور ہے، اور فتنوں کی کثرت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ بعض فتنہ پرور عناصر صحابہ کرام جیسے نفوسِ قدسیہ پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ خود صحابہ سے راضی ہیں تو کسی کو ان پر زبان درازی کا ہرگز کوئی حق نہیں، لہٰذا ملتِ اسلامیہ صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کرے اور ان کا ادب و احترام لازم جانے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک کے نائب امیر شریعت حضرت مفتی عبد العزیز قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ امتِ مسلمہ کے لیے نجومِ ہدایت ہیں، جن کا رتبہ انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے بلند ہے۔ ان کے اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی کو بھی ان کی شان میں گستاخی یا تنقیص کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ ہر صحابیؓ لائقِ احترام اور واجب التعظیم ہے۔ ان کا ادب و احترام صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی طرزِ عمل سے ظاہر ہونا چاہیے۔ صحابہؓ کی عظمت کو دل میں بسانا، ان کی سیرت سے رہنمائی لینا اور ان کی توہین کرنے والوں کا علمی و دینی رد کرنا ملت اسلامیہ کی ایمانی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ امت مسلمہ کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں۔ افسوس کہ آج کچھ عناصر انہیں تنقید کا نشانہ بنا کر نئی نسل کے دلوں میں ان کے خلاف شکوک پیدا کرنے کی سازش کر رہے ہیں، تاکہ اسلام پر اعتماد متزلزل کیا جا سکے۔ یاد رکھیں! ہمیں دین اسلام صحابہؓ کے ذریعے ہی ملا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی دراصل اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل کے دلوں میں اسلام پر اعتماد بحال کریں، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم عظمتِ صحابہ کو دلوں میں زندہ کریں، ان کی سیرت کو عام کریں اور ان کی محبت کو ایمان کا جزو سمجھیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ قرآن و حدیث صحابہ کرامؓ کی عظمت و رفعت کا واضح اعلان کرتے ہیں، مگر افسوس کہ آج کچھ لوگ من گھڑت اور ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر ان مقدس ہستیوں پر جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے عام مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے، جس کا مقابلہ علمی، ایمانی اور ملی سطح پر کرنا نہایت ضروری ہے۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کی شان میں گستاخی وہی کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان کی روشنی باقی نہ ہو۔


قابل ذکر ہے کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیرِ اہتمام منعقد یہ عظیم الشان آن لائن ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مولانا فیاض احمد رشادی کی تلاوت اور مولانا محمد مصعب قاسمی کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین قاری محمد عمران، تبریز عالم وغیرہ بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر تمام اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ اور ”یوم صحابہؓ“ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اس موقع پر مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی نے مرکز کی جانب سے دس نکاتی اعلامیہ پیش کیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے اعلان کیا یہ مرکز تحفظ اسلام ہند ”دفاع صحابہؓ“ کی تحریک کو اخیر تک لے جائے گی، انہوں نے تمام اکابر اور جملہ سامعین و معاونین کا شکریہ ادا کیا اور سرپرست مرکز کی دعا پر یہ عظیم الشان دس روزہ ”عظمت صحابہؓ کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔






#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Saturday, 19 July 2025

کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کا تاریخی انعقاد، غیرت ایمانی کا مظاہرہ اور امت کا متحد پیغام!

 صحابہ کرامؓ معیار حق ہیں، ان کی شان اقدس میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!

کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کا تاریخی انعقاد، غیرت ایمانی کا مظاہرہ اور امت کا متحد پیغام!

بنگلور، 18؍ جولائی 2025ء (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب، جامعہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب اور جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب کی اپیل پر ریاست بھر میں 18؍ جولائی بروز جمعہ ”یومِ صحابہؓ“ نہایت ہی کامیابی، دینی جوش، غیرت ایمانی اور اتحاد و اخوت کے ماحول میں منایا گیا۔ اس دن ریاست کرناٹک کے تمام اضلاع، تحصیلوں، شہروں اور دیہاتوں میں واقع ہزاروں مساجد کے خطباء و ائمہ کرام نے اپنے خطباتِ جمعہ میں اصحابِ رسول ﷺ کی عظمت، ان کے عدل و تقویٰ، قربانی و ایثار اور دین کے لیے ان کی بے مثال خدمات پر ایمان افروز انداز میں روشنی ڈالی۔ ان خطبات کے ذریعے امت مسلمہ کو یہ باور کرایا گیا کہ صحابہ کرامؓ کی شان و مقام نہ صرف قرآن و سنت سے ثابت ہے بلکہ ان کا احترام ایمان کا جزوِ لاینفک ہے، اور ان کی گستاخی گویا دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی کوشش ہے۔ نیز صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں، جن کی زندگیوں اور فیصلوں سے حق و باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ ان پر اعتماد دراصل دینِ خالص پر اعتماد ہے، اور ان کی اہانت، ہدایت کے اصل سرچشمے کو مشکوک بنانے کی سازش ہے۔ علماء کرام نے مؤثر انداز میں صحابہ کرامؓ کے خلاف بڑھتے ہوئے فتنوں پر تنبیہ کی، اور اہل سنت والجماعت کا معتدل، متوازن اور اجماعی موقف واضح کیا۔ خطباء نے نوجوانوں کے دلوں میں صحابہؓ کی محبت و عقیدت کے چراغ روشن کیے اور انہیں یہ شعور دیا کہ دین ہم تک جن نفوسِ قدسیہ کے ذریعے پہنچا، ان کی توہین گویا خود دین کی اہانت ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر تعلیمی اداروں تک اور گھروں سے لے کر مساجد تک، یہ پیغام واضح طور پر دیا گیا کہ امت مسلمہ کسی بھی قیمت پر صحابہ کرامؓ کی ناموس پر حملہ برداشت نہیں کرے گی۔ ان خطبات کے ذریعہ گستاخانِ صحابہ کے خلاف ایک ہم آواز اور پرامن مگر غیرت ایمانی سے لبریز موقف سامنے آیا، جس نے نوجوانوں کے دلوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی۔ اس موقع پر اہلِ قلم نے بھی اپنی تحریروں کے ذریعے صحابہؓ کے دفاع میں زوردار آواز بلند کی اور علمی مورچہ کو مضبوط کیا۔ ان کے مضامین نے فکری رہنمائی کا فرض بخوبی انجام دیا۔ مزید خوش آئند بات یہ ہے کہ کرناٹک کی اس عظیم دینی تحریک نے ریاستی سرحدوں کو عبور کر کے ملک کے دیگر حصوں میں بھی اثرات چھوڑے۔ بیرون ریاست کے کئی علاقوں میں علماء نے انہی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ”یومِ صحابہؓ“ منایا، اور منبر و محراب سے صحابہ کرامؓ کی محبت کا پرخلوص اظہار کیا۔ یوں کرناٹک نے ملک بھر کے لیے ایک عملی نمونہ، تاریخ ساز مثال اور جرأت ایمانی کا ریکارڈ قائم کر دیا کہ جب دین کے بنیادی ستونوں پر حملہ ہو، تو امت بیدار ہوتی ہے، متحد ہوتی ہے، اور اپنے اسلاف کی عزت و ناموس کے لیے سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ یومِ صحابہؓ منانے کا یہ فیصلہ صرف وقتی ردعمل نہ تھا، بلکہ ایک پائیدار دینی پیغام کا آغاز تھا جس نے ثابت کیا کہ جب علمائے کرام، خطباء و ائمہ متحد ہو جائیں تو دین کے خلاف اٹھنے والی کوئی آواز دیرپا نہیں ہو سکتی۔ اس موقع پر تمام اکابرین کرناٹک کی جانب سے مرکز تحفظ اسلام ہند، ریاست بھر کے تمام علماء کرام، ائمہ و خطباء، اہلِ قلم، مساجد کی انتظامیہ، اور ان تمام احباب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اس مقدس مقصد کے لیے اپنا کردار ادا کیا، محبت صحابہؓ کا پرچم بلند کیا اور دشمنانِ صحابہ کو ایک زوردار پیغام دیا کہ صحابہ کرامؓ کے تحفظ کے لیے امت مسلمہ بیدار ہے، متحد ہے، اور ان شاء اللہ ہمیشہ میدان میں رہے گی۔ اللہ تعالیٰ سب کی ان مساعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اور ہمیں دین کی عظمتوں کے تحفظ کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔


#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Friday, 18 July 2025

ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے جمعہ کو ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ منانے کا اعلان!

 ناموس صحابہؓ کے تحفظ اور امت کی رہنمائی کے لیے جمعہ کو ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ منانے کا اعلان!

امیر شریعت کرناٹک اور دیگر علماء کی ائمہ و خطباء سے جمعہ کے خطبات میں ”عظمت صحابہؓ‘‘ پر روشنی ڈالنے کی اپیل!

بنگلور، 17؍ جولائی (پریس ریلیز): امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب، حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب (بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور)، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، حضرت مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور) نے علماء، ائمہ و خطباء کرام کے نام ایک اہم اپیل جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ امت مسلمہ اس وقت ایک نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، جہاں عقائد، شعائر اسلام اور مقدسات پر حملے تیز تر ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر منبر و محراب تک بعض فتنہ پرور عناصر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ لوگ امت کی دینی بنیادوں کو کمزور کر کے نئی نسل کو شکوک و شبہات کی دلدل میں دھکیلنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ صحابہ کرامؓ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی معیت میں قربانیاں دیں، اور جن کی عظمت پر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مہرِ تصدیق ثبت فرمائی: ”رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ“، ”أُولَٰٓءِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ“۔انہوں نے فرمایا کہ آج جبکہ ان مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس پر زبان دراز کی جا رہی ہے، امت کو بالعموم اور اہل علم کو بالخصوص ایک منظم علمی و فکری محاذ پر سرگرم ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے تحت مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آنے والے جمعہ یعنی 18؍ جولائی 2025ء کو پوری ریاست کرناٹک میں ”یومِ صحابہؓ“ کے طور پر منایا جائے، تاکہ امت کو صحابہ کرامؓ کی عظمت، ان کی دینی خدمات، ان کا عدل و تقویٰ، اور اہل السنۃ والجماعۃ کا ان کے متعلق معتدل اور حق پر مبنی موقف ازسرِنو یاد دلایا جا سکے۔ لہٰذا ہم ریاست بھر کے علماء و ائمہ کرام سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اس جمعہ کے خطبہ میں صحابہ کرامؓ کی شان و فضیلت پر روشنی ڈالیں۔ صحابہؓ کے عدل و انصاف، دیانت و تقویٰ، اور دین کے لیے ان کی جانثاری کو اجاگر کریں۔ گستاخوں کے فتنہ سے نئی نسل کو بچانے کے لیے ان کے ذہنوں کو منور کریں۔ صحابہ کرامؓ کے متعلق اہل سنت والجماعت کا متوازن، معتدل اور اجماعی موقف واضح طور پر بیان کریں۔ اور امت کو یہ شعور دیں کہ صحابہؓ کی توہین دراصل دین کے بنیادی ستون کو ہلانے کے مترادف ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم صرف دل میں محبتِ صحابہؓ پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ان کی عظمت کے تحفظ کے لیے زبان و قلم سے، وعظ و نصیحت اور فکر و عمل سے کھل کر میدان میں آئیں۔ یاد رکھیں! صحابہؓ کا دفاع، دین کا دفاع ہے۔ ان کی توہین، دین کی بنیادوں پر حملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی محبت، عقیدت، اور دفاع کے فریضہ میں مخلص بنائے اور امت کو متحد و بیدار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین




#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

”یومِ صحابہؓ“: غیرتِ ایمانی کی تجدید کا دن!

 ”یومِ صحابہؓ“: غیرتِ ایمانی کی تجدید کا دن!

اصحابِ رسول ﷺ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی جان، مال، خاندان، خواہشات اور پوری زندگی اللہ، رسول اور دینِ اسلام کے لیے قربان کر دی۔ ان کے اخلاص، استقامت، فداکاری اور نبی ﷺ سے بے مثال محبت کی گواہی خود قرآن نے دی: ”رَضِيَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ“۔ وہی صحابہؓ جنہوں نے قرآن کو محفوظ کیا، حدیث کو روایت کیا، اسلام کو پوری دنیا تک پہنچایا، آج اُن کی شان میں زبان دراز کرنا، سوشل میڈیا پر اُن کی توہین کرنا اور اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر ان پر طعن کرنا نہایت افسوسناک، خطرناک اور درحقیقت ایمان سوز عمل ہے۔


دشمنانِ اسلام جانتے ہیں کہ اگر صحابہؓ کی عظمت دلوں سے نکال دی جائے تو دین کو مشکوک بنانا آسان ہو جائے گا۔ اسی لیے فتنہ پرور حلقے اہل بیتؓ کے نام پر دیگر صحابہؓ پر طعن کرتے ہیں، حالانکہ اہل بیتؓ خود دیگر صحابہؓ کی عزت کرتے تھے، ان کی امامت میں نماز پڑھتے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے۔ گستاخانِ صحابہ دراصل نبی ﷺ کے گستاخ ہیں، کیونکہ صحابہؓ ہی نبی ﷺ کی مجلس، جنگ، قربانی اور امانت کے وارث تھے۔


آج *”یومِ صحابہؓ“* اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اُن مقدس ہستیوں کے دفاع میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ کیونکہ امتِ مسلمہ کی خاموشی، بے حسی اور غیرت کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ایمان کے قلعے سے دور ہو چکے ہیں۔ اگر آج ہم نے صحابہؓ کے دفاع میں زبان نہ کھولی، نسلوں کو ان کی سیرت نہ سنائی، گستاخوں کو جواب نہ دیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور قیامت کے دن ہمیں نبی ﷺ اور اُن کے یاروں کے سامنے جواب دینا ہوگا۔


*یاد رکھو! دفاعِ صحابہ ایمان کی علامت ہے، غیرت کا تقاضا ہے اور امت کے مستقبل کا تحفظ ہے۔*


لہٰذا اُٹھو، جاگو، اور *”یومِ صحابہؓ“* مبارک موقع پر صحابہؓ کے عشق کا پرچم تھام کر باطل کو للکار دو! ان شاء اللہ دنیا بھی سنورے گی، اور آخرت بھی۔


ہم اصحابِ نبیؐ کے خادم ان کے نوکر ہیں

یہ نسبت ہے ہماری، یہ فخر کا جوہر ہے

اگر کوئی کرے توہین یاروں کی نبیؐ کے

تو پھر ہمارا ہر لفظ شمشیرِ جوہر ہے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

18 جولائی 2025ء بروز جمعہ

بموقع : ”یومِ صحابہؓ“


#Sahaba | #YaumeSahaba | #AzmateSahaba |#DifaeSahaba | #NamooseSahaba | #Newspaper | #News | #NamooseSahaba | #MTIH | #TIMS

Monday, 14 July 2025

اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

 اسلاموفوبک فلمیں: سچائی کو چھپانے کا نیا ہتھیار!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 ہندوستان میں حالیہ برسوں میں فلم اور میڈیا کے ذریعہ جو بیانیہ قائم کیا جا رہا ہے، وہ تخلیقی آزادی یا آزادی اظہار رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک منظم سیاسی، سماجی اور نظریاتی پروپیگنڈا ہے، جس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ اس ملک کے اندر جاری اصلی مسائل، ظلم و ناانصافی اور سماجی و آئینی جرائم سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہے۔ ”دی کشمیر فائلز“، ”دی کیرالہ اسٹوری“ اور تازہ ترین ”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور خطرناک چال کا حصہ ہیں، جس کے ذریعے اصل حقائق کو چھپایا جا رہا ہے، تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، اور اکثریتی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولا جا رہا ہے۔ ان فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، غدار، سماج دشمن اور ملک مخالف قوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی مسلمان اس ملک کی ترقی، تاریخ، تہذیب، آزادی اور ثقافت کا ایک ناقابلِ انکار حصہ رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج میڈیا، فلمی دنیا اور حکومت کی ملی بھگت سے انہیں ایک فرضی بیانیے کے تحت کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اگر واقعی ملک میں انصاف، سچائی اور انسانیت پر مبنی فلمیں بنانی ہوں تو انہیں ان مظلوم مسلمانوں پر بنانا چاہیے جنہیں نظامِ عدل نے بغیر کسی جرم کے دہائیوں تک قید و بند میں رکھا۔



”ادے پور فائلز“ جیسی فلمیں کنہیا لال کے قتل کے آڑ میں پورے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہیں، لیکن کیا آج تک کسی فلم ساز کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ 2002ء کے گجرات فسادات پر ”گجرات فائلز“ بنائے؟ وہ نسل کشی جس میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، مسجدیں شہید کی گئیں، اور پوری بستیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا، اس پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ کیوں نہیں دکھایا گیا کہ کیسے بی جے پی کے نظامِ حکومت نے ان فسادات میں اپنی ناکامی یا ملی بھگت کو چھپانے کی کوشش کی؟ کیا یہ سچائی دکھانے سے سماج کو فائدہ نہیں ہوگا؟ لیکن چونکہ ان سچائیوں سے اکثریت کی خاموش حمایت اور حکومت کی ناکامی بے نقاب ہوتی ہے، اس لیے یہ فلمیں کبھی وجود میں نہیں آتیں۔ 


اسی طرح 1989ء کے بھاگلپور فسادات، جس میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام ہوا، سیکڑوں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں، اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے، آج تک فلمی پردے پر نظر نہیں آئے۔ جبکہ یہی میڈیا اور فلمی دنیا ہر اس واقعہ پر فوراً متحرک ہو جاتی ہے جہاں کوئی فرد واحد کسی قابلِ مذمت حرکت کا ارتکاب کرے، اگر وہ مسلمان ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام انصاف، میڈیا اور فلمی دنیا کا ایک گٹھ جوڑ ہے جو ملک کے عوام کو اصل مسائل سے غافل رکھ کر ایک فرضی دشمن تراشتا ہے تاکہ ان کا غصہ، ان کی مایوسی اور ان کی بے بسی مسلمانوں پر نکالی جا سکے۔


 ملک کی عدلیہ نے اکشردھام حملے کے الزام میں گرفتار مفتی عبد القیوم منصوری کو گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد باعزت بری کیا، اور کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن ان کی تباہ شدہ زندگی پر کوئی فلم کیوں نہیں بنی؟ ان کے خاندان کی بربادی، ان کے جذباتی اور نفسیاتی صدمات پر کوئی کیمرہ کیوں نہیں گیا؟ کیا ایک بے گناہ مسلمان کی زندگی کی قیمت اس ملک میں اتنی کم ہو چکی ہے کہ اس کی کہانی کو سننے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا؟ درحقیقت یہ خاموشی خود ایک جرم ہے، اور اس خاموشی کو چھپانے کے لیے ”کشمیر فائل“ اور ”ادے پور فائلز“ جیسے شور پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ اصل سچائی پس منظر میں دفن ہو جائے۔ ہزاروں مسلمان نوجوان آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، جن پر دہشت گردی کے فرضی الزامات لگائے گئے۔ سالوں بعد جب عدالتیں انہیں باعزت بری کرتی ہیں تو نہ کوئی معاوضہ، نہ کوئی معافی، نہ ہی کوئی پچھتاوا نظر آتا ہے۔ ان کی تباہ شدہ جوانی، ان کی ماؤں کی سسکیاں، ان کے بچوں کی بھوکی آنکھیں، ان سب پر کوئی فلم نہیں بنتی، کیونکہ یہ سچ فلموں کے اسکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ یہاں فلم وہی بنتی ہے جو مسلمانوں کو ولن دکھائے، وہ نہیں جو سسٹم کی بدعنوانی، نفرت کی سیاست اور فرقہ پرست ذہنیت کو بے نقاب کرے۔


بابری مسجد کی شہادت ایک تاریخی سانحہ ہے۔ دن دہاڑے ایک تاریخی عبادت گاہ کو گرا دیا گیا، اور بعد میں عدالت نے یہ مانا کہ وہ توڑنا غیر قانونی تھا اور مسجد کسی مندر پر نہیں بنا تھا، لیکن پھر بھی زمین مندر کو دے دی گئی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا اس پر فلم بنانا ملک کی عوام کو سچ سے روشناس کرانا نہیں ہے؟ کیوں نہیں دکھایا جاتا کہ اس ملک میں کس طرح اکثریتی دباؤ اور مذہبی سیاست کے تحت عدالتی فیصلے بھی متاثر ہوتے ہیں؟ اگر ”ادے پور فائلز“ ایک شخص کے قتل کے آڑ میں پورے مسلم سماج کو بدنام کرنے کیلئے بن سکتی ہے تو بابری مسجد کی شہادت پر کیوں نہیں؟ اس لیے کہ وہاں مظلوم مسلمان تھے، اور ظالم کی پشت پناہی اقتدار کر رہا تھا۔ 


مسلمان خواتین کی زندگی اس ملک میں دوہری تلوار کے نیچے ہے۔ ایک طرف ان کے مذہبی تشخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے، پردے پر طنز کیے جاتے ہیں، شرعی نظام کو پسماندگی کہا جاتا ہے، اور دوسری طرف خود سماج میں انہیں بے پردگی، اسلام مخالف قوانین، اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ ”سلی ڈیلز“ (Sulli Deals) اور ”بلّی بائی“ (Bulli Bai) جیسے ایپس پر ان کی نیلامی کی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر ان کے حجاب کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ کیا ان مسلم خواتین کی عزت و عصمت اور ان کے خلاف ہونے والی بھگوا سازشوں پر آج تک کوئی فلم بنی؟ نہیں، کیونکہ یہاں مقصد صرف مسلمانوں کو نیچا دکھانا ہے۔


شریعت پر حملے ہو رہے ہیں، اسلامی تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مدارس پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے، دارالعلوم دیوبند جس کے علماء کی بدولت ملک کو آزادی ملی اس ادارے کو دہشت گردی کا اڈا بتایا جارہا ہے، اور وقف املاک کو ہتھیانے کے لیے قانون بدلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سب موضوعات کبھی کسی فلمی ڈائریکٹر کا موضوع نہیں بنتے۔ کیونکہ ان پر روشنی ڈالنا موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، اور ایسا کوئی فلم ساز یا پروڈیوسر کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے مالی مفادات، حکومتی حمایت، اور پروپیگنڈا مشینری کا چکر اس کی اجازت نہیں دیتا۔


 اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف یہ فلمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھاتی ہیں، بلکہ اصل سماجی، اقتصادی اور آئینی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران، کسانوں کی بدحالی، عدلیہ کی کمزوری، اور میڈیا کی جانبداری جیسے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیل کر ایک فرضی دشمن کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ ہر سوال کو فرقہ واریت میں دفن کیا جا سکے۔یہ فلمیں دراصل حکومتی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے ایک شطرنج کا مہرہ ہیں، اور ان کا ہدف صرف مسلمان نہیں بلکہ وہ ہر شخص ہے جو انصاف، عقل، اور آئینی قدروں پر یقین رکھتا ہے۔ جو آج مسلمانوں کے خلاف زہر کو نظرانداز کرے گا، کل اسے خود اس زہر کا نشانہ بننا پڑے گا۔ نفرت کے اس کاروبار کا نقصان صرف اقلیتوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ہوگا۔ ایک ایسا سماج جو انصاف اور سچائی پر نہیں بلکہ جھوٹ اور تعصب پر قائم ہو، وہ زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتا۔


 یہ وقت ہے کہ ہم ان جھوٹے، گمراہ کن اور خطرناک بیانیوں کے خلاف ایک سچ پر مبنی، باوقار اور انسانیت نواز بیانیہ کھڑا کریں۔ ہمیں اب خاموشی، خوف یا وقتی مصلحت سے بالاتر ہو کر اس پروپیگنڈا کے طوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے قلم کو ہتھیار بنانا ہوگا، کیمرے کو سچ کا آئینہ بنانا ہوگا، آواز کو مظلوموں کی فریاد بنانا ہوگا، اور شعور کو بیداری کا پرچم بنانا ہوگا۔ ہمیں اس سرزمین پر ہونے والی نسل کشیوں، مذہبی ناانصافیوں، عدالتی زیادتیوں اور سماجی تفریق کی کہانیاں دنیا کے سامنے لانی ہوں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم صرف ”ادے پور فائلز“، ”کشمیر فائلز“ اور ”کیرالا اسٹوری“ جیسے جھوٹے فلم کے بیانیوں کا جواب نہیں بلکہ اس ملک کی حقیقی تاریخ، اصل المیوں اور مظلوم انسانوں کی پکار کو اجاگر کرنا ہوگا اور سچائی پر مبنی واقعات اور ظلم کی داستان کو دکھنا ہوگا۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ ہندوستان صرف نفرت کی زمین نہیں، بلکہ سچائی، انصاف اور ضمیر والوں کی سرزمین بھی ہے۔ ہمیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ اگر ظلم کے ساتھ طاقت ہے تو مظلوم کے ساتھ حق ہے، اگر پروپیگنڈا کے ساتھ پیسہ ہے تو سچ کے ساتھ خدا ہے۔ یہ جنگ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ہر اُس انسان کی ہے جو انصاف، عزتِ انسانی، برابری اور آئینی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ اگر ہم سب نے مل کر اب بھی خاموشی اختیار کی، تو آنے والی نسلیں صرف ہماری بے بسی کا نوحہ پڑھیں گی، ہمیں تاریخ کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کریں گی اور سوال کریں گی کہ جب سچ پامال ہو رہا تھا، انصاف روندھا جا رہا تھا، اقلیتوں کو شیطان بنا کر پیش کیا جا رہا تھا،آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں؛ تب تم کہاں تھے؟ آج وقت ہے کہ ہم تاریخ کا صحیح رُخ متعین کریں۔ ایک ایسا رُخ جو سچ، عدل، امن، انسانیت، اور باہمی احترام پر قائم ہو، نہ کہ جھوٹ، نفرت، سیاسی مفاد اور اکثریتی تسلط پر۔ یہ تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے اور فیصلہ ہمیں کرنا ہے، آج، ابھی اور اسی وقت!

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہند کے مسلمانو!

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں 


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

14؍ جولائی 2025ء بروز پیر


#UdaipurFiles #PaighameFurqan #Islamophobia #IslamobhopicFilm #Film #Bollywood #MTIH #TIMS #KashmirFiles #KeralaStory