قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اور ہر صاحب نصاب کی طرف سے الگ الگ قربانی دینا لازم اور واجب ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد شفیق احمد قاسمی کا خطاب!
بنگلور، 17؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ امام ابوحنیفہ بنگلور کے مہتمم اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بالخصوص قربانی کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ ذی الحجہ کو بڑی فضیلت سے نوازا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اور ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی۔ کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ مولانا قاسمی نے متعدد احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپؐ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓکی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔ مفتی شفیق احمد قاسمی نے فرمایا کہ حضور ؐ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی، اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، لیکن قربانی کرنے والا اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔ مولانا نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے ساتھ سارے گھر والوں کو شریک کر لے تو یہ جائز ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا کہ یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چوں کہ آپؐ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا اس لیے اب امت کے ذمہ سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپؐ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ مفتی صاحب نے اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی تو جن حدیثوں میں بڑے جانور گائے، اونٹ، وغیرہ کو سات کی طرف سے متعین کیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہوں گے؟ کیوں کہ نصوص کی روشنی میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ ایک بکری گائے کے ساتویں حصے کے برابر ہے، لہٰذا اگر ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوجائیں تو بمقتضائے تحدید کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہو جائے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر ایک گھر میں مثلاً دس افراد صاحبِ نصاب ہوں تب بھی ایک بکری گھر کے تمام دس افراد کی طرف سے کافی ہوجائے اور سب کی قربانی ادا ہو جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بکری تو دس افراد کی طرف سے کافی ہو جائے اور ایک گائے آٹھ افراد کی طرف سے کافی نہ ہو، اور اگر یہ کہا جائے کہ گائے کا ساتواں حصہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا تو پھر تو ایک گائے کے اندر صرف سات افراد نہیں بلکہ ساٹھ، ستر افراد کی قربانی ہو سکے گی جو کہ واضح طور پر نصوص کے خلاف ہے۔ مفتی شفیق احمد قاسمی نے فرمایا کہ خلاصہ یہ ہے کہ گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔
No comments:
Post a Comment