Tuesday, August 31, 2021

پیام فرقان - 10



🎯ائمہ مساجد کی عظمت اور جاہل ذمہ دارانِ مساجد!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اسلام میں امامت کا درجہ اور منصب بہت اہم باعزت وعظمت والا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہیکہ آج کل اگر مساجد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہیکہ اکثر مساجد میں ائمہ کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ بالخصوص ذمہ داران مساجد کے پاس تو امام و مؤذن کی کوئی قدر ہی نظر نہیں آتی، یہاں تک کہ بعض دفعہ امام و مؤذن پر ارکان کمیٹی کا ظلم و ستم ناقابل بیان ہوتا ہے۔ ہر دوسری مسجد میں مظلوم امام پر ظالم کمیٹیوں کا ظلم عروج پر ہے۔ اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہیکہ مسجد کی کمیٹی کا انتخاب شریعت کے اصولوں پر نہیں ہوتا۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ ”مسجد کمیٹی کے لیے ایسے افراد کا انتخاب ہونا چاہیے جو دیانت دار اور دین دار ہوں، فسق وفجور کی چیزوں مثلاً ترکِ نماز، فلم بینی اور ڈاڑھی منڈوانے سے بچتے ہوں نیز ان کے اندر انتظامی امور کو سمجھنے اور انہیں انجام دینے کی صلاحیت بھی ہو، انتخاب مذکورہ بالا اوصاف کے حامل لوگوں کا ہی ہونا چاہیے، خائن، فسق وفجور میں مبتلا بے نمازی یا ریش تراشیدہ کو امور مسجد کے ذمے داری سونپنا جائز نہیں ہے“ ( فتاویٰ دارالعلوم : 154220)۔ معلوم ہوا کہ مسجد کمیٹی کے انتخاب کے بھی کچھ اصول ہیں لیکن آج کل مسجد کمیٹی کا انتخاب شریعت کے ان اصولوں کے برخلاف ہوتا ہے اور مساجد کے ذمہ داران میں اکثر لوگ فسق و فجور میں مبتلا، بے نمازی، فلم بینی اور ڈاڑھی منڈھے ہی شامل رہتے ہیں۔ اب جسے شریعت کی شین اور مسجد کی میم کا بھی علم نہ ہو وہ امام و مؤذن کی قدر کیا جانے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک طرف ہم ایک شخص کو اپنا امام یعنی سردار بھی تسلیم کررہے ہیں تو وہیں دوسری طرف اس کی ناقدری بھی کررہے ہیں، جو شرعاً و اخلاقاً کسی بھی طرح درست نہیں ہے اور سراسر غلط اور عذاب کا باعث ہے۔  حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”فی زمانہ یہ ذمہ داری متولیانِ مسجد اور محلہ و بستی کے بااثر لوگوں کی ہے، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصبِ امامت کی سخت توہین ہے، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت، عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔“ (فتاویٰ رحیمیہ ۹/ ۲۹۳جدید)۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ مسجد کمیٹی کے انتخاب میں شریعت کے اصولوں کی پابندی کریں اور مساجد پر سے احمقوں اور جاہلوں کی اجارہ داری ختم کرانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ امام و مؤذن کا عزت و احترام کرنا ہر ایک مسلمان بالخصوص ذمہ داران مساجد پر لازم ہے۔



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

30؍ اگست 2021ء بروز پیر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Imam #Mauzin

Sunday, August 29, 2021

پیام فرقان - 09



🎯غلبہ اسلام پوری دنیا پر آکر رہیگا!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امریکہ دنیا میں اپنی اقدار نافذ کرنا چاہتا ہے اور اسلام امریکہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہیکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے جبکہ ہر جگہ مسلمان خود ظلم اور دہشت گردی کے شکار ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور اُنہیں ہی دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے کیونکہ مغرب کو خطرہ دہشت گردی سے نہیں بلکہ اسلام، اس کی دعوت اور اس کے حسن سے ہے۔ امریکہ اسلام کے حسن کے دنیا پر آشکارا ہوجانے کے ڈر سے اس کے خلاف شور مچا رہا ہے۔ کفر کی تمام طاقتیں مسلمانوں پر حملہ آور ہیں اور عالم اسلام کے خلاف فوجی، سیاسی، اقتصادی اورثقافتی جنگ جاری ہے اور اسلام کی اقدار اور تہذیب تباہ کردینا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ دن دور نہیں جب پوری دُنیا میں ایک بار پھر اسلام کا پرچم لہرائے گا اور دین اسلام غالب آکر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورہ توبہ میں واضح الفاظ میں فرما دیا کہ يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ کہ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر نہیں رہے گا اور اگرچہ کافر ناپسند ہی کریں۔ اور آگے فرمایا هُوَ الَّـذِىٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـهٝ بِالْـهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٝ عَلَى الـدِّيْنِ كُلِّـهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُـوْنَ کہ اس (اللہ) اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔ تو معلوم ہوا کہ دین اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت یعنی قرآن پاک اور دین حق یعنی اسلام دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔

اس دنیا کے آفاق پر، رحمت کا بادل چھائے گا

اور پاک سے پاکیزہ تر، پورا عالم ہوجائے گا

پھر کفر کا ،الحاد کا، سکہ نہ چلنے پائے گا

پیغمبرِ اسلام کا، پرچم یہاں لہرائے گا

اسلام غالب آئے گا، اسلام غالب آئے گا



فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

28؍ اگست 2021ء بروز سنیچر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #Islam #Muslim

Saturday, August 28, 2021

پیام فرقان - 08




🎯دشمنانِ عمر ؓ کا منھ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یکم محرم الحرام سن 24 ھ کو جام شہادت نوش فرمائی۔ اور روضۂ نبوی میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ یہ مشیت خداوندی ہی ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے اور پھر مرقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سرہانے تا قیامت استراحت کیلئے دو گز جگہ بھی عطا ہوگئی۔ قیامت تک جو بھی مسلمان روضۂ اقدس میں سلامی کیلئے حاضر خدمت ہوگا وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔ دشمنان صحابہ بالخصوص دشمنانِ عمر ؓ کا منہ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

28؍ اگست 2021ء بروز سنیچر

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS #UmarFarooq

Wednesday, August 25, 2021

پیام فرقان 07




🎯شہداء کربلا کا پیغام!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے، جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے ہزاروں صفحات روشن ہیں۔ سانحہ کربلا سے ایک اہم پیغام یہ بھی ملتا ہیکہ ”حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جکھ نہیں سکتا۔“

مولانا محمد علی جوہر ؒ نے کیا خوب کہا:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید تھا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

25؍ اگست 2021ء بروز چہارشنبہ

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #Karbala #Husain #MTIH #TIMS

Saturday, August 21, 2021

ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، نئی نسل کو اپنی تاریخ سے واقف کروانا وقت کی اشد ضرورت ہے!



 ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، نئی نسل کو اپنی تاریخ سے واقف کروانا وقت کی اشد ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے جشن یوم آزادی کانفرنس سے مولانا اشہد رشیدی، مفتی اشرف عباس قاسمی، مفتی سبیل احمد قاسمی اور مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحبان کا خطاب!


 بنگلور، 19؍ اگست (پریس ریلیز): یوم آزادی کے موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان آن لائن ”جشن یوم آزادی کانفرنس“ منعقد ہوا۔ جس کی صدارت جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے مہتمم اور جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر نواسۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اشہد رشیدی صاحب نے فرمائی۔ جبکہ کانفرنس کی نگرانی مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان اور نظامت جمعیۃ علماء رائچور کے صدر مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی نے فرمائی۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا اشہد رشیدی صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو سمجھنے کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہیکہ جو کردار ہمارا ہے وہ کسی کا نہیں ہے، جو کردار ہمارے بزرگوں نے پیش کیا ہے دوسری قومیں اپنے پاس اسکی کوئی مثال نہیں رکھتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہیکہ آج مسلم قوم اور ہمارے نوجوان خود اپنے بزرگوں کی تاریخ، کردار اور وطن عزیز کیلئے ان کی قربانیوں سے ناواقف ہے۔ مولانا نے آزادی وطن میں ہمارے بزرگوں کی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان کے طول و عرض پر مسلمانوں نے حکومت کی اور ملک کو سونے کی چڑیا بنایا۔ لیکن جب شاہی خاندان میں بے راہ روی عام ہوگئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ملک کی سیاست میں دخل دینا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ پورے ملک پر قبضہ جمانا شروع کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے پہلے انگریز کے خلاف بغاوت اور جہاد کرنے والے مسلمان ہی تھے۔ جنوبی ہند میں حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے 1799ء میں جام شہادت نوش فرمالی۔ اور ادھر 1803ء میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒنے انگریز کے خلاف جہاد کرنے کا فتویٰ دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ 1857 میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہید ؒجیسی بزرگ ہستیوں نے انگریز کے خلاف جہاد کیا۔ پھر 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی تاکہ جنگ آزادی کیلئے ہماری نسلوں کو تیار کیا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ 1907ء میں انگریز کے خلاف حضرت شیخ الہندؒ نے ریشمی رول کی تحریک چلائی۔ جس کی وجہ سے انہیں اور انکے شاگرد شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کو مالٹا کی جیل میں قید کردیا گیا۔ پھر 1919ء میں جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی، جس نے برادران وطن کو ساتھ لیکر آزادیٔ وطن کیلئے قربانیاں پیش کیں اور ہزاروں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد بالآخر 1947ء میں ہندوستان آزاد ہوا۔ مولانا نے فرمایا کہ 1803ء سے لیکر 1919ء تک آزادی کے حصول کیلئے صرف مسلمان ہی انگریز سے لڑتے رہے اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے رہے جس کی مثال کسی اور قوم کے پاس نہیں ہے۔ مولانا اشہد رشیدی نے موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں نفرت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے لہٰذا ان حالات میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر قومی اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے اور آپسی ملاپ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہمیں اعمال صالحہ کو انجام دیتے ہوئے زندگی کے ہر قدم پر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ راضی ہوگیا تو ساری دنیا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند استاذ حدیث حضرت مفتی اشرف عباس قاسمی صاحب نے فرمایا کہ جب ملک کی فرقہ پرست طاقتیں جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناقابل فراموش قربانیوں کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کررہی ہیں، ایسے حالات میں ملک و ملت کو مسلمانوں کی روشن تاریخ سے واقف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا نے آزادی ہند میں مسلمان بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کی تاریخ آزادی کبھی مکمل نہیں ہوسکتی بلکہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ موجودہ حکومت نے 14؍ اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے نام پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کے باشندوں کو آزادیٔ وطن کی اصل تاریخ اور تقسیم کی اصل حقیقت اور ذمہ داران سے واقف کروانا چاہئے۔ غلط تاریخ بتاکر اصل تاریخ کو قطعاً مٹانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر حضرت مولانا مفتی سبیل احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ سے لیکر حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ، حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت شیخ الاسلامؒ تک ہزاروں مسلمان خصوصاً علماء کرام کی قربانیوں سے ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا آج ضرورت ہیکہ ہم نوجوان طبقہ بالخصوص عصری تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقف کروائیں، اسکول و کالج اور مدارس اسلامیہ میں تاریخ آزادی کو نصاب میں داخل کیا جائے، تحریک آزادی میں صف اول میں شامل رہنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند سے جڑ کر قومی یکجہتی اور پیام انسانیت کو عام کرنی کی کوشش کریں، مجاہدین آزادی کی تاریخ کو پورا سال بیان کریں۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ آج فرقہ پرست طاقتیں مجاہدین آزادی کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کررہی ہیں بالخصوص حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ پر بے جا تنقید کی جاتی ہیں، جو جنگ آزادی کے اولین مجاہدین میں سے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جس طرح آزادی وطن میں تمام مذاہب والوں نے ایک ہوکر قربانیاں پیش کی تھیں اسی طرح اپنے آباؤ اجداد کی روشن تاریخ کی حفاظت اور اس ملک کی ترقی اور سلامتی کیلئے تمام مذاہب والوں کو متحد ہونا پڑے گا اور ایک ہوکر کام کرنا پڑے گا۔


 قابل ذکر ہیکہ اس عظیم الشان جشن یوم آزادی کانفرنس کا آغاز قاری اسامہ کی تلاوت اور قاری فخر الاسلام کبیر نگری کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے تمام مہمانان کا استقبال کیا۔ اسٹریم میں مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی خاص طور پر شریک تھے۔اپنے خطاب میں تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کے خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Thursday, August 19, 2021

سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ



”سیرت شہید کربلا، نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ“

(10؍ محرم الحرام یوم شہادت)


از قلم: بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ولادتِ باسعادت 5؍ شعبان المعظم سن 4 ھ مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال قبیلہ بنو ہاشم میں حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر ہوئی۔ آپ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے، شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیؓ و خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ کے چھوٹے بیٹے اور حضرت سیدنا حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ ؓکی ولادت کی خوشخبری سنکر جناب محمد رسول اللہﷺ تشریف لائے، آپ کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنا لعاب مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمایا اور دعائیں دیں اور ”حسین“ نام رکھا۔ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کی گئی۔ آپؓ کی کنیت ”ابو عبداللہ“ہے۔ آپؓ کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کریگا۔ حسین میری اولاد میں بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح ابن حبان)

 

حضرت حسین ؓ نے اپنے نانا حضور اکرمؐ سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضی ؓاور سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپؓ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحم دلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے والد ماجد امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت حسن ؓسینہ سے لے کر سر مبارک تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور سیدنا حضرت حسین ؓ قدموں سے لے کر سینہ تک رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور آپؐ کے حسن و جمال کی عکاسی کرتے تھے۔ اس مشابہت ِرسول اللہ ؐکااثر فقط جسم کے ظاہری اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ آپ ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ آپؓ کے مقام کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ”حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔“ (ترمذی)


جناب محمد رسول اللہ کو اپنے لاڈلے حسین سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ حضرت حسینؓ کو گود میں اٹھاتے، سینہ مبارک سے لگاتے، کاندھے مبارک پر اٹھاتے، کمر مبارک پر بٹھا کر پھراتے۔ نماز میں سجدے کی حالت میں اگر حضرت حسینؓ آپ کی پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے تو نہ انہیں کبھی ڈانٹتے نہ ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ بلکہ سجدہ کو طول کر دیا کرتے یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علاحدہ ہوجاتا۔ آپؐ کا معمول یہ تھا کہ کبھی حضرت حسین ؓکے ہونٹوں کو بوسہ دیتے تو کبھی رخسار کو چومتے۔ آپؐ کا اپنے نواسوں سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا ”جس نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا“ (مسند امام احمد)۔ نیز حضرت حسینؓ کی شان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ حضرت حسینؓ کو اپنے کندھے مبارک پر اٹھائے ہوئے تھے کہ ایک صحابی یہ منظر دیکھ کر بولے ”اے بچے! تم کتنی بہترین سواری پر سوار ہو۔“ رسول اللہ نے جوابا فرمایا”سوار بھی تو کتنا بہترین ہے“ (ترمذی شریف)۔ خلیفۂ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، خلیفۂ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ اورخلیفۂ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ سمیت تمام صحابہ کرام کو بھی حسنین کریمین اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور الفت تھی۔


نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپؓ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپؓ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے۔ عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ شب زندہ دار اور سوائے ایام ممنوعہ کے ہمیشہ روزہ سے ہوتے۔ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے فرماتے اور حج بھی بکثرت کرتے ایک روایت کے مطابق آپ نے پچیس حج پیدل فرمائے۔ آپ ؓ کی مجالس وقار و متانت کا حسین مرقع اور آپؓ کی گفتگو علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتی۔ لوگ آپؓ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اوران کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپؓ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہؐ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا ”حسین میں میری سخاوت اور میری جرأت ہے۔“ چنانچہ آپؓ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا۔بعض دفعہ خود ضرورت مندوں کے پاس جاکر انکے مسائل حل کرتے۔ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپؓ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آپؓ انہیں آزاد کر دیتے تھے۔ آپؓ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا۔ مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپؓ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپؓ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ ”صحیفہ حسینیہ“ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے۔آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔


مظلومانہ شہادت:

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفیوں کے بے شمار خطوط موصول ہونے پر سفر پر روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفے کا جائزہ لینے بھیجا تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی۔ نیز کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر آپ نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لائیں۔ لہٰذا حضرت سیدنا حسینؓ سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً کوفہ کے موجودہ حاکم نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ اس نے کوفہ پہنچ کر یہ اعلان کیا کہ جو بھی یزید کی بیعت پر قائم رہے گا اسکی جان بخش دی جائیگی ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ابن زیاد کے اس اعلان کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسینؓ سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ دیا۔دوران سفر حضرت حسینؓ کو یہ بھی اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کردیا ہے۔ جسے سن کر حضرت حسینؓ کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں میں سے کچھ حضرات نے سفر کو ختم کردیا اور واپس ہوگئے لیکن حضرت حسین ؓنے اپنا سفر جاری رکھا۔ چنانچہ قافلہ روانہ ہوا، مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حربن یزید ایک ہزار کے مسلح سوار لشکر کے ساتھ ملا۔ حضرت حسین ؓنے کوفیوں کے تمام خطوط دکھائے اور کہا کہ تم لوگوں نے خود دعوت دی ہے، اب اگر آپکا ارادہ بدل گیا ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ لیکن آپ ؓکے مطالبے کو قبول نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ مختصر سا قافلہ 2؍ محرم الحرام 61ھ کو آخر کار کربلا پہنچا۔ ابن زیاد نے خط کے ذریعے حضرت حسینؓ کو کہا کہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسینؓ نے صاف انکار کردیا۔ لہٰذا چند افراد، یعنی 72؍ افراد کے روبرو ہزاروں کا لشکر کھڑا کیا گیا۔ 10؍ محرم الحرام 61 ھ کو میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا اور حضرت حسینؓ کے خیمہ کو گھیر کر جلا دیا اور نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور انکے خاندان کے کئی افراد اور رفقاء سمیت سب کو شہید کردیا گیا۔ آخر نبی کریمؐ کی پیشنگوئی صحیح ثابت ہوئی۔ اس طرح یزید کے بھیجے ہوئے لشکر نے حضرت حسین کو شہید کردیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نے حضرت حسین ؓکو فقط گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابن زیاد نے انہیں شہید کیا اور بعض نے لکھا ہے کہ چونکہ یزید کی دور حکومت میں حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا اور یزید اگر چاہتا تو اسے روک سکتا تھا لہٰذا حضرت حسین ؓکی شہادت کا ذمہ دار براہ راست یزید ہے۔ لہٰذا ہمارے جمہور علماء اور اکابرین کا مؤقف یہ ہے کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت یزید کے دور حکومت اور اسی کی فوج سے ہوئی اور یزید فاسق و فاجر بھی تھا لیکن یزید کے مسئلہ پر سکوت اختیار کرنا چاہئے یعنی اس پر نہ تو رحمت بھیجی جائے اور نہ ہی لعنت۔ یزید کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ”سکوت اور توقف کرنا چاہئے، نہ اس کو کافر کہا جائے نہ اس پر لعن طعن کیا جائے، بلکہ اس کے امر کو خدا کے حوالے کردینا چاہئے“(فتاوی دارالعلوم)۔ اس کے علاوہ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ یزید کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں کہ ”اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے، کیونکہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لعن نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب محض مباح ہے۔ اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں“(فتاوی رشیدیہ: 78؍ قدیم)۔ الغرض حضرت سیدنا حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرأت اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ حضرت حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے،جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کیلئے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔نواسۂ رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے ہزاروں صفحات روشن ہیں۔ سانحہ کربلا سے ایک اہم پیغام یہ بھی ملتا ہیکہ ”حق کیلئے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے سامنے سر جکھ نہیں سکتا۔“

مولانا محمد علی جوہر ؒنے کیا خوب کہا:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید تھا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٠؍ محرم الحرام ١٤٤٣ھ

19؍ اگست 2021ء بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


____

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #HazratHusain #Husain #YaumeSahadath #Muharram

Monday, August 16, 2021

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مشاعرۂ جشن آزادی کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!



 مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام مشاعرۂ جشن آزادی کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!

تحریک آزادی اردو شعر و ادب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی: مفتی افتخار احمد قاسمی


بنگلور، 16؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یوم آزادی کی مناسبت سے ایک عظیم الشان آن لائن مشاعرۂ جشن آزادی مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن بنگلور و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) کی صدارت اور مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی میں منعقد ہوا۔ جسکی نظامت کے فرائض مدرسہ تعلیم القرآن شاخ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے صدر المدرسین مولانا غفران احمد ندوی نے انجام دئے۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی اس مشاعرے کے کنوینر رہے اور مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان خاص طور پر شریک تھے۔ مشاعرے کا آغاز قاری محمد ثاقب قاسمی معروفی کی تلاوت اور قاری بدرعالم چمپارنی کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ مشاعرۂ جشن آزادی میں ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام نے شرکت کی۔ خصوصاً مولانا سجاد اعظم قاسمی لکھیم پوری، قاری اشفاق بہرائچی، قاری وجیہ الدین جلال کبیرنگری، مولانا فیصل میرٹھی، قاری فردوس کوثر جھارکھنڈ، قاری بدرعالم چمپارنی، وغیرہ نے اس عظیم الشان آن لائن مشاعرۂ جشن آزادی میں شرکت فرماکر سامعین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ بالخصوص جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار، اپنے بزرگوں کی جد وجہد، دارالعلوم دیوبند اور اسکے اکابرین کی قربانیاں، حب الوطنی اور قومی یکجہتی پر بہترین اشعار پڑھے۔ اس موقع پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز کے سرپرست مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ شاعری انسانی جزبات کی عکاسی کرنے کا ایک خوبصورت اور نہایت طاقتور ذریعہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کی باتیں چونکہ وحی خداوندی والہامات ربانی پہ مبنی ہوتی ہیں؛ جبکہ شعراء کی باتیں شعور وآگہی، تخیل، پروازیِ فکر اور بسا اوقات حد درجہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں؛ اس لیے شعر وشاعری نبیوں اور رسولوں کے مقام نبوت کی شایان شان قرار تو نہیں دی گئی، لیکن رسولوں سے مطلقاً اس کی نفی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ یہ فن عطاء نہیں ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذبان مبارک سے مختلف مواقع پر بیساختہ اشعار جاری فرمایا۔ اس معلوم ہوا کہ شعر و شاعری کہنا جائز ہے کیونکہ اگر شعر کہنا صحیح نہیں ہوتا تو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے شعر کبھی جاری نہیں ہوتا۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صحابہ کرام اشعار پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم داد وتحسین سے نوازتے تھے، گویا کہ یہ مشاعروں کی محفل ہوا کرتی تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ شعر و شاعری بہت اچھا فن ہے اور اس کے ذریعے بڑے بڑے انقلابات روئے زمین پر رونما ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں قدیم زمانے سے شعر و شاعری کا سلسلہ چلا آرہا ہے اور ہندوستان کے مشاعروں نے قومی یکجہتی میں بڑا رول ادا کیا ہے، ملک کی آزادی کی تحریک میں قومی جذبے اور حرارت کو کوٹ کوٹ کر بھردیئے۔ یہی وجہ ہیکہ تحریک آزادی شعر و شاعری اور اردو ادب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں مشاعرے ابتداء خالص اصولی، ادبی اور تہذیبی شان کے حامل وامین  اور تہذیبی اقدار وتقدس کے محافظ رہے۔ ادب وشائستگی، حیاء و وقار ان مشاعروں کا خاص امتیاز رہا ہے۔ لیکن ادھر قریب ایک دہائی سے ہمارے ملک کے اردو مشاعرے ہماری تاریخی ثقافت، ادبی معنویت اور تہذیبی روایات کھو بیٹھے، مشاعرے کی تہذیبی فضاء بری طرح مجروح ہوئی، ادبی معیار گھٹ کر بازاری بن گیا،  اسلام نے جس جاہلی شاعری کی تطہیر کی تھی، فحاشی وعریانیت، شہوت انگیز بد گوئی اور فضولیات پہ مشتمل اشعار کو ناجائز وحرام قرار دیا تھا۔ اعتقادات و اخلاقیات کو خراب وفاسد کردینے والی حیاء باختہ و گمراہ کُن منفی شاعری پہ بندش لگائی تھی، ہمارے مشاعرے پھر اسی جاہلی شاعری کی ڈگر پہ رواں ہوگئے، دبے پاؤں ان میں پھر وہی ساری خرابیاں در آئیں۔ مولانا نے فرمایا آج ضرورت ہیکہ ہم ان مروجہ مشاعروں کو روکنے کی بھر پور کوشش کریں اور انکا بائیکاٹ کریں اور مشاعروں کی محفلیں اس طریقہ پر منعقد کریں جس کی ہمیں شریعت اجازت دیتی ہو اور جس طرح دور نبوی میں قائم ہوتا تھا۔ مولانا افتخار احمد قاسمی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اراکین قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے شرعی حدود میں رہ کر اس مشاعرہ کو منعقد کرکے امت کے سامنے ایک مثال قائم کردی، لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ بھی اسی طریقے پر مشاعرہ منعقد کریں اور مروجہ مشاعرہ سے بلکل احتراز کریں۔ قابل ذکر ہیکہ پروگرام کے اختتام سے قبل مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر مشاعرہ، شعراء کرام، مہمانان خصوصی اور آنے والے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر مشاعرہ مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب کی دعا سے یہ عظیم الشان مشاعرۂ جشن آزادی اختتام پذیر ہوا۔

Sunday, August 15, 2021

ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں کی سنہری تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی!









 ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے، مسلمانوں کی سنہری تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام یوم آزادی کے موقع پر جشن یوم آزادی کانفرنس!


بنگلور، 14؍ اگست (پریس ریلیز): یوم آزادی 15؍ اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے، اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، اور طوقِ سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا۔ ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا، جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، تختہ دار پر چڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرأت و حوصلہ اور کمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید و بند کی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے، اور تقریباً دو سو سال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا اور انگریز ملک سے نکل جانے پر مجبور ہوئے اور ہندوستان آزاد ہوا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ آج ہم جو اطمینان اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں، اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے۔ اگر مسلمان میدان جنگ میں نہ کودتے اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد و آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان غلامی سے نجات نہیں پاسکتا تھا۔ بلکہ ہندوستان کی آزادی مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔کیونکہ ہم نے اس راہ میں اپنا اتنا خون بہایا ہیکہ دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب لیے جان وتن نچھاور کیا۔ سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک وطن کی محبت میں کمی آنے دی۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ افسوس کی بات ہیکہ جدوجہد آزادی میں جس قوم مسلم نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں آج اسکی تاریخ کو مٹانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے اور مسلمان بھی اس سلسلے میں غفلت کا شکار نظر آرہے ہیں۔ایک سازش کے تحت فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپانے اور عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ ایسے دور میں ضرورت ہیکہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کی روشن تاریخ کو ملک کے چپے چپے تک پہنچائیں بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کو اپنی تاریخ سے واقف کروائیں، کیونکہ جو قوم اپنی تاریخ ماضی فراموش کردے اسکا وجود ختم ہوجاتا ہے۔مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے یوم آزادی کے موقع پر ”عظیم الشان آن لائن جشن یوم آزادی کانفرنس“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی صدارت جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر نواسہئ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اشہد رشیدی صاحب (مہتمم جامعہ قاسمی شاہی مرادآباد) فرمائیں گے، جبکہ بطور مہمانان و مقررین خصوصی کے طور پر دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی اشرف عباس قاسمی صاحب، جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر حضرت مولانامفتی سبیل احمد قاسمی صاحب اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب شرکت فرمائیں گے۔جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی تلاوت اور قاری فخر الاسلام کبیر نگری کے نعتیہ اشعار سے کانفرنس کا آغاز ہوگا اور جمعیۃ علماء رائچور کے صدرمفتی سید ذیشان حسن قادری قاسمی کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دینگے۔ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر 15؍ اگست بروز اتوار کی رات 9:00سے براہ راست لائیو نشر کیا جائے گا۔محمد فرقان نے تمام اہل وطن سے اپیل کی کہ وہ اس اہم اور عظیم الشان آن لائن جشن یوم آزادی کانفرنس میں شرکت کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں اور جنگ آزادی کی حقیقی تاریخ سے پورے ملک کو واقف کرائیں۔

Saturday, August 14, 2021

تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابل فراموش ہے!

 



تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابل فراموش ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان مشاعرہ جشن آزادی، اہل وطن سے شرکت کی اپیل!


 بنگلور، 13؍ اگست (پریس ریلیز): ہندوستان کی جنگ آزادی کی تحریک ایک ایسی داستان کا درجہ رکھتی ہے، جو شہیدان وفا کے خون سے گوناگوں رنگین نظر آتی ہے۔ جس میں ایک رنگ اردو کا بھی ہے۔ جب بھی تحریک آزادی کی بات چھڑیگی تو”اردو“ کا تذکرہ ضرور ہوگا کیونکہ اس کے تذکرے کے بغیر تحریک آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہماری مادری زبان اردو نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ جب ہمارا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تو اس دوران سرزمین ہند نے اپنی کوکھ سے جہاں بے شمار مجاہدین آزادی کو جنمیں دیا وہیں بے شمار شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو بھی جنم دیا۔اردو شعراء نے وطن کی محبت میں نہ جانے کتنے ترانے گائے۔ انقلاب زندہ باد اور آزادی پائندہ باد جیسے نعرے لگائے۔ انکی شعر و شاعری اور شعلہ بار تقریروں سے تمام ہندوستانیوں بالخصوص مجاہدین آزادی کو عزم و حوصلہ اور طاقت و توانائی عطا کرنے، عوام کو بیدار کرنے، اس کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے، ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے، انگریزوں کے ظلم کی داستان بیان کرنے اور انسانوں کی پیدائش و فطری آزادی کا نعرہ بلند کرنے کا کام نہایت کامیابی سے کیا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ تحریکِ آزادی میں اردو شعر و ادب کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ لہٰذا اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے 75ویں یوم آزادی کے جشن کے طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند بتاریخ 14؍ اگست 2021ء بروز سنیچر ٹھیک رات 8:00بجے ایک ”عظیم الشان آن لائن مشاعرہ جشن آزادی“ کے عنوان سے ایک آن لائن مشاعرہ منعقد کرنے جارہی ہے۔ جسکی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک و مہتمم جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن بنگلور) فرمائیں گے اور نظامت کے فرائض حضرت مولانا غفران ندوی صاحب (صدر المدرسین مدرسہ تعلیم القرآن شاخ ندوۃ العلماء لکھنؤ) انجام دینگے۔ جبکہ ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام مثلاً مولانا سجاد اعظم قاسمی لکھیم پوری، قاری اشفاق بہرائچی، قاری وجیہ الدین جلال کبیرنگری، مولانا فیصل میرٹھی، قاری فردوس کوثر جھارکھنڈ، قاری بدرعالم چمپارنی، وغیرہ اس عظیم الشان آن لائن مشاعرہ جشن آزادی میں شرکت فرمائیں گے اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اس مشاعرے کے کنوینر مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی رہیں گے اور مشاعرہ کا آغاز مولانا قاری محمد ثاقب معروفی صاحب قاسمی (استاد تجوید و قرأت مدرسہ کنز العلوم ٹڈولی سہارنپور) کی تلاوت سے ہوگا۔ اختتام سے قبل صدر مشاعرے و سرپرست مرکز کا”جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار“کے عنوان پر کلیدی و جامع خطاب ہوگا۔ یہ مکمل پروگرام مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اہل وطن سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔

Friday, August 13, 2021

ارتداد کے طوفان کو روکنے کیلئے امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کو آگے آنا ہوگا!


 ارتداد کے طوفان کو روکنے کیلئے امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کو آگے آنا ہوگا!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مولانا عمرین محفوظ رحمانی، مولانا محمود دریابادی اور مولانا یحییٰ نعمانی کا خطاب!


 بنگلور 12؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب اور حل“ کی دوسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور مرکز کے تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی دین و اسلام ہے اور کائنات کے سارے انسانوں کی کامیابی صرف اور صرف اسلام میں ہے۔ دین و اسلام ایک عظیم نعمت ہے اور جو یہ نعمت چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اپنائے گا اسے دونوں جہاں میں سزا بھگتنی پڑے گی۔ کیونکہ یہی وہ نعمت ہے جو دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہیکہ آج ہمیں اس نعمت کی قدر اور عظمت کا احساس نہیں ہے اور کتنے ہماری بہنیں اور بھائی ہیں جو ارتداد کا شکار ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فکری، عملی اور ذہنی ارتداد کی لہروں نے امت کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن ہمیں مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے معاملات اپنے عروج پر ہیں۔ اور یہ ارتداد کے واقعات کوئی اتفاقی واقعات نہیں ہے بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور پوری تیاری و سازش کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ جسکے پیچھے کئی فرقہ پرست تنظیمیں کام کررہی ہیں، غیر مسلم لڑکوں کو مسلمان لڑکیوں کو رجھانے، قریب کرنے اور پھر ان کا جنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دئے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائیل، لیپ ٹاپ، گاڑیاں وغیرہ دی جارہی ہے۔ اور باضابطہ ان کی فنڈنگ کی جا رہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ لو جہاد نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے، البتہ یہ شوشہ صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں انتقامی جذبہ ابھارا جائے اور خود مسلمانوں کو لوجہادمیں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کی دوسری وجہ یہ ہیکہ لڑکے لڑکیوں کا اختلاط ہورہا ہے، مخلوط تعلیم کی وجہ بے حیائی اور بے پردگی عام ہورہی، بے جا رسومات کی وجہ سے شادی بیاہ مہنگے ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کے اس طوفان کو روکنے کیلئے امت مسلمہ کے ہر ایک فرد بالخصوص علماء و دانشوران اور مذہبی و ملی تنظیموں کو میدان میں آنا ہوگا اور مسلسل محنت کرنی ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ارتداد کو روکنے کیلئے ہمیں اپنے اندر دینی غیرت و حمیت پیدا کرنی چاہیے، مسجد کے منبر و محراب سے اس موضوع پر صاف صاف گفتگو کرنی چاہیے، مستورات کے اجتماعات منعقد کرنی چاہیے، اسکول اور کالجز میں پڑھنے والے بچوں سے بات کرنی چاہیے انہیں بتانا چاہئے کہ دونوں جہاں کی کامیابی صرف دین و اسلام میں ہے، اسی کے ساتھ مکاتب کے نظام کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہئے، اپنے نونہالوں کے دلوں پر عقیدہ توحید و رسالت کو نقش کرنا چاہیے، ساتھ ہی ہمیں سماجی بیداری پیدا کرنی چاہیے اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی بیداری پیدا کرنی چاہیے- مولانا نے فرمایا کہ والدین کو خاص طور پر اپنے بچوں پر نگرانی کرنی چاہیے اور انکی ہر طرح سے ترتیب کرنی چاہیے۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمود احمد خان دریابادی صاحب نے فرمایا کہ ارتداد کا مسئلہ بڑا سنگین مسئلہ ہے۔یہ مسئلہ فقط ملکی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے، جس سے دیگر مذاہب والے بھی شکار ہیں۔ اور یہ صرف لڑکیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ لڑکوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں اس مسئلے میں اب ایک سازش اور سیاست داخل ہوچکی ہے۔ اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم لڑکے اور لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک تعداد اعلانیہ طور پر ارتداد کا شکار ہورہی ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے عصری اسکولوں وکالجز میں زیر تعلیم نوجوان طبقہ حتیٰ کہ دیندار گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کی اکثریت فکری ارتداد میں مبتلا ہیں وہ بظاہر تو مسلمان ہیں مگر غیر شعوری طور پر انکے دلوں سے ایمان نکل رہا ہے۔ اور اپنے دین و مذہب کے سلسلے میں وہ مشکوک ہورہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں سب سے پہلے اس فکری ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ مسلم لڑکیوں میں بڑھتا ارتداد کی وجہ بے دینی، مخلوط تعلیم، بے پردگی اور شادی بیاہ میں بے جا رسوم و رواج ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دینی چاہیے اور شادی بیاہ کو آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا یحییٰ نعمانی صاحب نے فرمایا کہ ارتداد کی لہر اپنے عروج پر ہے لیکن جس قدر ہم لوگ کو اس مسئلے کے سلسلے میں غفلت کا شکار ہیں وہ قابل افسوس ہے۔ ماضی میں جب کبھی ارتداد کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش آجاتا تو پوری امت بے چین ہوجاتی تھی لیکن آج ہزاروں مسلم لڑکے اور لڑکیاں مرتد ہورہے ہیں اور ہمارے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مولانا نے فرمایا کہ جس دین و مذہب کو ہمیں دوسروں تک پہنچانے تھا آج اسی دین و مذہب کے ماننے والے دوسرے مذاہب کو اپنا رہے ہیں۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ ارتداد کی بنیادی وجہ بے دینی، جہالت، مخلوط تعلیم نظام اور مختلف شعبوں اور اداروں میں اجنبی مرد و عورت کا اختلاط ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ایسی جگہوں پر شرم و حیا اور پردہ کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ اور ایسے لوگوں میں دین کا شعور نہیں ہوتا۔مولانا نعمانی نے فرمایا کہ امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیت کے علاوہ کچھ وقت اور سرمایہ ایسے لوگوں میں دین کا شعور پیدا کرنے کیلئے خرچ کریں اور امت کے نوجوانوں میں دینی اور ملی حمیت اور فکر پیدا کریں اور انہیں شرک اور کفر کی سنگینی سے واقف کروائیں جو وقت کی بہت اہم ترین ضروری ہے۔ مولانا یحییٰ نعمانی نے فرمایا کہ ضرورت ہے کہ ہم بیدار ہوں اور اس امت کے بھٹکتے لوگوں کی کچھ رہنمائی کرسکیں اور انھیں کفرو شرک سے بچاکر ایمان ودین کی محبت سے سرشار کردیں۔


 قابل ذکر ہیکہ یہ اصلاح معاشرہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور قاری پرویز مشرف قاسمی کی نعتیہ کلام سے ہوا، جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی بطور خاص شریک تھے۔ کانفرنس سے خطاب کرنے والے تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Wednesday, August 11, 2021

ارتداد کا فتنہ عروج پر، نئی نسل کے ایمان کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!



 ارتداد کا فتنہ عروج پر، نئی نسل کے ایمان کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے اصلاح معاشرہ کانفرنس سے مولانا الیاس بھٹکلی ندوی اور مولانا خالد بیگ ندوی کا خطاب!


 بنگلور، 11؍ اگست (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب اور حل“ کی پہلی اور افتتاحی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب نے فرمایا کہ امت مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ ”فتنہ ارتداد“ اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلم لڑکیاں غیر مسلم نوجوانوں کے دام الفت میں گرفتار ہوکر مرتد ہوتی جارہی ہیں اور پھر مذہب اسلام سے خارج ہوکر، ماں باپ کو شرمسار کرتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں رچا رہی ہیں، مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی خبریں مسلمانوں پر بجلی بن کر گر رہی ہیں اور ہر غیرت مند مسلمان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔ ارتداد کی خبریں سن کر مسلم معاشرہ سخت کربناک حالات سے دوچار ہے۔ مولانا بھٹکلی نے فرمایا کہ ارتداد کے اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے چین ہونا فطری ہے لیکن ہمیں اس کے اسباب پر غور کرکے اسکا حل تلاش کرنا چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر مسلم معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ مسلم لڑکیوں کے ایمان سے ہاتھ دھونے اور ارتداد کی لپٹ میں آنے کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے ناواقفیت اور دوری ہے۔ ظاہر ہے جو بچی بے دینی کے ماحول میں پرورش پا کر بڑی ہوگی اور وہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہوگی تو پہلے ہی وہ اُس حد کے قریب چل رہی ہے جہاں سے ارتداد کا راستہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ اس لیے مسلم والدین سے گزارش ہیکہ خود بھی دیندار بنیں اور گھر میں بھی دینداری کا ماحول بنائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ عصری تعلیم ضرور دلائیں لیکن اس سے قبل انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کروائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ بچپن سے دینی تعلیم ایسی مضبوط ہوکہ ہمارے بچے یورپ اور امریکہ کے کلیساؤں میں جاکر بھی دین کے داعی بنیں۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ مخلوط تعلیمی نظام اور نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے بھی مسلم معاشرے میں ارتداد کے واقعات بڑھ رہے ہیں لہٰذا پوری ملت اسلامیہ بالخصوص حضرات علماء کرام کو چاہیے کہ وہ مکاتب کے نظام کو مضبوط اور مستحکم کریں اور ہرگاؤں گاؤں اور شہرشہر میں مکاتب کو قائم کریں اور اپنے بچوں کو ان مکاتب کی طرف متوجہ کریں جس سے ان کے اندر دینی ماحول پیدا ہو تاکہ وہ کفر و ارتداد کے طوفانوں سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرسکے۔


 اصلاح معاشرہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالم دین حضرت مولانا خالد بیگ ندوی صاحب (مہتمم دارالارقم ٹمکور) نے فرمایا کہ اس وقت ملک اپنی تاریخ کے سنگین دور سے گزر رہا ہے بالخصوص مسلمان ہندوستان کے سب سے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن اس آزمائش اور فتنوں کے دور میں ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہوکر حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ اس وقت جو واقعات پورے ملک میں ہورہے ہیں اسکے چند وجوہات ہیں۔ اقتدار پر موجود بھگوا پارٹی کا ایجنڈا ہی ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔ اور وہ اس کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ ملک ایک سیکولر ملک ہے جہاں مختلف مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں، اسی میں مسلمان بھی اپنی دینی تشخص کے ساتھ رہتے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہیکہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو ہندو رنگ میں رنگا چاہ رہی ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ بابری مسجد، این آر سی، یکساں سول کوڈ کے مسائل یقیناً بڑے ہیں لیکن میرے نزدیک اس سے بھی سنگین مسئلہ 2020 ء کی نئی تعلیمی پالیسی کا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اب تک ہمارا تعلیمی نظام سیکولر تھا لیکن اب یہ نئی تعلیمی پالیسی کو مکمل ہندو رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ اور اس نظام میں تعلیم حاصل کرنے والے ہماری نئی نسلیں چند سال میں ہندو سوچ اور تہذیب اپنانے لگے گی اور ہزاروں معصوم مسلم بچے ارتداد کر دہانوں پر ہونگے۔ جو ملت اسلامیہ ہندیہ کا سب سے بڑا المیہ ہوگا۔ لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینی کی سخت ضرورت ہے۔ مولانا خالد بیگ ندوی نے فرمایا کہ ہماری نئی نسل بالخصوص دختران ملت میں بڑھتے ارتداد کے واقعات کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے دوری، انٹرنیٹ اور موبائل کا غلط استعمال، مخلوط تعلیمی نظام اور شادی کو مشکل کرنا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم لوگ اسلامی اسکول اور کالجز کا قیام عمل میں لائیں تاکہ ہمارے بچے اسلامی ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں، مکاتب کے جال کو ہر محلے اور ہر گاؤں میں قائم کریں تاکہ نونہالان امت کے ایمان مضبوط ہوسکے اور انکا بچپن سے اسلامی مزاج بن سکے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی طرح ہفتے میں ایک مرتبہ ہر محلے میں مستورات کا اجتماع کریں اور انہیں دین کی باتیں بتائیں۔نیز ہر علاقے میں شادی کونسل سنٹر قائم کریں اور بالخصوص ہماری بچیوں کو کم از کم ہفتے میں ایک مرتبہ اسلامی شادی اور اسکی اہمیت سے انہیں واقف کروائیں اور اسی کے ساتھ اسکول اور کالجز میں پڑھنے والے بچوں کی کارنرس میٹنگ کروائیں اور انکی ذہن سازی کریں۔ کیونکہ جب تک ذہن اسلامی رہے گا کوئی فتنہ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ لہٰذا اس کاموں کیلئے امت مسلمہ بالخصوص حضرات علماء کرام کو آگے آنا ہوگا ورنہ کل قیامت کے دن ہمیں جواب دینا پڑے گا۔


 قابل ذکر ہیکہ یہ اصلاح معاشرہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت سے ہوا۔ دونوں اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا خالد بیگ ندوی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

ارتداد کی لہر! ایک لمحہ فکریہ



 ارتداد کی لہر! ایک لمحہ فکریہ


✍️عبدالرحمن الخبیرقاسمی بستوی(بنگلور کرناٹک) 

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند و ترجمان تنظیم ابنائے ثاقب)


محترم قارئین کرام! 

یہ دور فتنوں کا دور ہے، طرح طرح کے فتنوں کا وجود ہورہا ہے، جیسے جیسے ذرائع ابلاغ بڑھتے جارہے ہیں اتنے ہی فتنے بڑھتے جارہے ہیں، ان فتنوں میں ایک فتنہ ارتداد، الحاد سر اٹھا رہا ہے، اس فتنے کے زہریلی اثرات مسلم معاشرہ میں تیزی سے پھیل رہے ہیں، رات دن مسلم خواتین کو مرتد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ارتداد امت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے، اپنوں کا دین و اسلام سے پھر جانا اور مرتد ہوجانا بڑے دکھ کی بات ہے، اس وقت سارے عالم میں دینِ اسلام کو مٹانے اور اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسلام دشمن طاقتیں متحد ہو کر پوری طرح زور آزما رہے ہیں کہ اسلام کو کس طرح صفحہ ہستی سے مٹایا جائے یا کم ازکم مسلمانوں کو مسلمانیت باقی نہ رکھی جائے، اور ایک سازش کے تحت دشمنانِ اسلام مسلم لڑکیوں کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہیں، اور نوجوانوں کاایک بڑا طبقہ اسلام سے دوری اختیار کر رہا ہے، اس وقت حالات بڑے نازک ہیں، ایک طرف قوانینِ شرعیہ پر حملے کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف فرقہ پرست طاقتیں مسلم بچیوں کو ارتداد کے دھانے تک پہنچا رہے ہیں، تیسرے میڈیا کے ذریعہ نئی نسل کا ذہن خراب کررہے ہیں، اور چوتھی ہرطرف اسکولوں اور کالجوں میں بےحیائی کا ماحول بنایا جارہا ہے، نئی نسل عیش وعشرت کے راستہ پر چل رہی ہے، عورتیں بے ہودہ ہوچکی ہیں، اللہ کے احکامات سے بغاوت کررہی ہیں، زنا آسان ہوگیا ہے، کل تک اغیار اپنی اکثریتی علاقوں میں ظلم و ستم کا کھیل کھیلتے تھے، اب وہ اتنے بےلگام ہوگئے ہیں کہ ہماری آبادیوں میں گھس کر ہماری بہن بیٹیوں کی عزت کو پامال کررہے ہیں۔ 


یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا 

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی


ملک کے مختلف علاقوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کررہی ہیں، اور اپنا دین وایمان، ضمیر و حیا، بیچ کر اپنے خاندان اور اپنے سماج اور معاشرہ پر بدنامی کا داغ لگا رہی ہیں، اس طرح کے واقعات پہلے کبھی کبھار اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملتےتھے، لیکن چند دنوں سے باضابطہ پلاننگ کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھنسایا جارہا ہے، اور آئے دن یہ تعداد بہت تیزی کےساتھ بڑھ رہی ہے، ابھی چند دن قبل ہمارے ایک عزیز دوست نے صرف عروس البلاد ممبئی اور تھانہ کی بیس ناموں کی ایک فہرست ارسال فرماتےہوئے کہا کہ صرف ایک مہینے کی فہرست ہے جو اگلے مہینے غیروں سے شادی کے لئے تیار ہیں،اردو،انگریزی اخبارات میں بکثرت ایسے واقعات شائع ہورہے ہیں جس میں مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکوں کے عشق ومحبت میں گرفتارہوکرنہ صرف اپنے دین وایمان کا سودا کررہی ہیں بلکہ اپنی عفت وعصمت کے قیمتی جوہر کو لٹارہی ہیں ،آج سے پچیس تیس سال قبل کا مسلم سماج ایسے بے حیائی کے واقعات سے پاک تھا، لیکن مسلم سماج کی دین سے دوری نے الحادوبے دینی کوفروغ دینے میں بڑارول اداکیاہے، الیکٹرانک میڈیا وپرنٹ میڈیاسے اکثریہ بات دہرائی جارہی ہے کہ انتہاء پسند کٹر ہندوتوا کے حامی لیڈرس غیرمسلم لڑکوں کوباضابطہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ مسلم لڑکیوں کواپنے دام فریب میں پھنسائیں، اورایسے غیر مسلم لڑکوں کو انعام واکرام سے نوازاجارہاہے،مسلم لڑکیاں جو مخلوط نظام تعلیم یا مخلوط نظام ملازمت پرمبنی اداروں سے وابستہ ہیں وہ بہت جلدان کے جھانسے میں آجاتی ہیں، ایسے ناخوشگوار کچھ واقعات مسلم وغیرمسلم ملی جلی بستیوں میں رہائش کی بنا پر ہورہے ہیں، کچھ واقعات اپنے گھرسے تعلیمی یا ملازمتی اداروں تک سفرکے دوران اورکچھ واقعات مذکورہ مخلوط اداروں میں تعلیم یا ملازمت کی وجہ سے پیش آرہے ہیں، مسلم سماج کے بعض مذہبی وسماجی رہنماؤں کا مانناہے کہ مسلم سماج میں جہیز، جوڑے، لین دین کا غیر اسلامی چلن بھی اس کی وجہ ہے، کسی نہ کسی درجہ میں یہ بات قابل تسلیم ہے ،تاہم اس کوکلی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، چونکہ جہیز، جوڑے ، لین دین اور غیر اسلامی رسوم و رواجات بھی مسلم معاشرہ کی بے دینی کا تسلسل ہیں، اس میں اوربھی بہت سے عوامل ہیں جن سے صرف نظرنہیں کیا جاسکتا، صرف اسی کومسلم لڑکیوں کے ارتدادکی وجہ قراردینا حقائق سے چشم پوشی ہے،ان میں بنیادی وجہ اسلامی احکام سے انحراف ہے اور بروقت وبرمحل نکاح نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ بعض نوجوان لڑکے لڑکیوں کے گناہوں میں مبتلاء ہو نے کے خطرات بڑھ گئے ہیں یا رشتۂ نکاح کے قیام میں جائزوناجائزکی پرواہ کئے بغیرباطل مذاہب کے پیروکاروں سے رشتے استوار ہورہے ہیں۔مغربی تہذیب کے پروردہ گان کیلئے تویہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، اسلام کے خلاف جدیدتہذیب وثقافت نے ان کے دل ودماغ پرقبضہ جمالیاہے،اس کوذہنی وسعت فکرکا نام دےدیا گیاہے،مسلم گھرانے میں ضرورپیداہوگئے ہیں لیکن اسلام سے ان کا صرف برائے نام تعلق رہ گیاہے، بلوغ کے فوری بعدنکاح کا انتظام جہاں عفت وعصمت کا ضامن ہے وہیں اس سے معاشرہ کی پاکیزگی برقراررہتی ہے،زمانہ جس برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پرگامزن ہے اورخیرالقرون سے دوری بڑھتی جارہی ہے اسی تیزی کے ساتھ اسلامی ماحول ،دیندارانہ اوصاف ،مذہبی شناخت اورملی تشخص رخصت ہو تے جارہے ہیں، خاندان کےذمہ داران کی دین سے دوری ،مغربی تہذیب وکلچرسے لگاؤ اورغیر دیندارانہ حال وماحول نے نسل ِنو کومغربی تہذیب وثقافت کا دلدادہ بنادیاہے، رشتہ نکاح کے سلسلہ میں اب دینداری قابل ترجیح نہیں رہی ہے، اول توہرکوئی حسن وجمال کا متلاشی ہے،حسنِ سیرت پیش نظرنہیں ہے،بقول شاعر


حسن صورت چند روزہ حسن سیرت مستقل

اِس سے خوش ہوتی ہیں لوگ اُس سے خوش ہوتا ہے دل


دینداری، اعلیٰ اخلاق ،اسلامی اقدار،امورخانہ داری وغیرہ میں مہارت جیسی باتیں قصہ پارینہ بن گئی ہیں، جہیز، جوڑے، عمدہ وقیمتی سامان، اعلی شادی خانہ کا نظم، لوازمات سے بھرپور طعام کا انتظام، شادی خانہ واسٹیج کی خوبصورت ودیدہ زیب سجاوٹ وغیرہ جیسے مطالبات سامنے آتے ہیں اور لڑکی والے بھی لڑکے اور لڑکے والوں کی مالی پوزیشن و سماجی حیثیت سے مرعوب ہوکران کے ہر مطالبہ کو قبول کرنے تیار ہوجاتے ہیں اور بعض ایسے نادان بھی دیکھے گئے ہیں جوراضی خوشی ان کے مطالبات سے کہیں زیادہ دینے کو سماجی وجاہت سمجھتے ہیں اوریہ سب کچھ نام ونمود، شہرت ودکھاوا، فخر اوراپنی حیثیت وپوزیشن کواونچا دکھانے کی غرض سے ہوتا ہے۔ اللہم الحفظنا


فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں۔ 

"کچھ مدت تک یہ بات ناقابلِ قیاس سمجھی جاتی تھی کہ مسلمان دین حق سے منحرف ہوکر رسم ورواج یا کوئی اور مذہب قبول کرلیں؛ لیکن جہالت اور پسماندگی، غربت یا غفلت کی وجہ سے اب صورت حال خاصی بدل چکی ہے، بعض کم فہم اور غافل مسلمان ارتداد کی چنگل میں مبتلاء نظر آنے لگے ہیں، اسباب جو بھی ہوں، ان حالات میں دینی تحریکوں جماعتوں تنظیموں اور اداروں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ اس کے سد باب کےلئے باہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور مسلمانوں میں شعور پیدا کریں" 

اس کی ایک مثال تملنادو کے مشہور شہر "میل وشارم" کی ہے، جہاں پر اس طرح ارتداد کے واقعات کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن مقامی علماء کرام فوری حرکت میں آکر ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد یہ تھا کہ چند مستورات کے ذریعے ایسے لڑکیوں تک رسائی کرنا اور ان تک پہنچ کر قرآن وحدیث اور عقائد کوسمجھانا جن کا تعلق غیروں سے ہے، ہمیں بھی اپنی بہن بیٹیوں کو ارتداد کے دہانے سے بچانے کےلئے اس طرح کے اقدامات کی سخت ضرورت ہے ۔ 


اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ہر فتنہ سے حفاظت فرمائے، شریعت کا پابند بنائے،اللہ تعالیٰ ایمان پر استقامت اور ایمان پر خاتمہ بالخیر فرمائے..... آمین ثم آمین یا رب العالمین


(کالم نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ اور تنظیم ابنائے ثاقب کے ترجمان ہیں) 

+91 9666009943

”سیرت خلیفہ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“ (یکم محرم الحرام یوم شہادت)



 ”سیرت خلیفہ ثانی،امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“

(یکم محرم الحرام یوم شہادت)


✍️بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکۃ المکرمہ میں واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد قبیلہ بنو عدی میں خطاب بن نفیل کے گھر ہوئی۔ آپؓ صحابی رسول اور مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپؓ کا شمار عشرہئ مبشرہ جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی، ان میں ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓرسول اللہؐ کے خسربھی ہیں۔ آپؓ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا رسول اللہؐ کی ازواج میں سے ایک ہیں۔ آپ ؓکا لقب فاروق، کنیت ابو حفص ہے۔ لقب و کنیت دونوں محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اللہؐ سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہؐ مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمرؓ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔


حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار مکہ کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جو پڑھ لکھ سکتے تھے۔ جب حضورؐ نے پہلے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو حضرت عمر ؓاسکے مخالف تھے۔ آپؐ کی دعا سے آپؓ نے نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد مشرف بااسلام ہوئے۔ اسی لئے آپکو مراد رسول کہا جاتا ہے۔ ”آپ ؓکے اسلام لانے پر فرشتوں نے بھی خوشیاں منائی تھیں“ (مستدرک حاکم)۔ ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کیلئے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپؓ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپؓ نے تلوار ہاتھ میں لی، کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ”تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دکھائے“۔ مگر کسی کافر کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کا راستہ روک سکے۔ رسول اللہؐ نے آپ ؓکو مخاطب کرتے ہوئے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، عمر جس راستے پر چلتے ہیں شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے“ (مصنف ابن ابی شیبہ)۔ ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کی معیت میں رہے۔


ٍ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور ؐنے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلے کیلئے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیؐ کے فیصلے کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیؐ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے پاس اس کا یہی فیصلہ ہے۔ کئی موقعوں پر نبی کریم ؐکے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔


حضرت عمر فاروقؓ باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران تھے۔ ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓحق و صداقت کے علمبردار تھے۔ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے وقت وصال امت کی زمام آپؓ ہی کے سپرد کی تھی، 22؍ جمادی الثانی 13 ھجری کو آپ مسند نشین خلافت ہوئے۔آپ ؓکے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے۔ آپ ہی کہ دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آگیا۔ آپؓ نے 22؍ لاکھ مربع میل کے رقبے پر اسلام کا جھنڈا لہرایا اور قبلہ اول بیت المقدس کی شاندار فتح کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓنے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔ آپؓ کا دور خلافت عدل و انصاف کا درخشندہ باب اور مثالی دور ہے نیز بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ آپؓ ہی نے تقویم اسلامی (اسلامی کیلنڈر) کی ابتداء ہجرت مدینہ کی بنیاد پر یکم محرم الحرام سے کروائی۔ مفتوحہ علاقوں میں 900؍ جامع مساجد اور 4000؍ عام مساجد تعمیر کروا کر اس میں تعلیم و تدریس کا انتظام کروایا، جب کہ حرمین شریفین کی توسیع بھی آپؓ کے دور خلافت میں ہوئی۔تاریخ کی سب سے پہلی مردم شماری، کرنسی سکہ کا اجراء، مہمان خانوں (سرائے) کی تعمیر، لاوارث بچوں کی خوراک،تعلیم و تربیت کا انتظام اور وطائف کا اجراء دور فاروقی میں کیا گیا۔ آپؓ کا مقام و مرتبہ کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر بن خطاب ہوتے۔“(ترمذی)


27؍ ذی الحجہ سن 23ھ بروز بدھ کو مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کی امامت کررہے تھے۔ نماز کے دوران ابو ؤؤ فیروز نامی بدبخت مجوسی غلام نے زہر آلود خنجر سے آپؓ کے جسم مبارک پر تین چار وار کئے۔ جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ زخمی ہوکر گر پڑے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی۔ آپؓ کو بے ہوشی کی حالت میں گھر لایا گیا۔ ہوش آنے پر آپکو جب یہ بتایا گیا کہ حملہ آور مجوسی تھا تو آپ ؓنے اس بات پر اللہ کا شکریہ ادا کیا کہ حملہ آور مسلمان نہیں تھا۔ آپؓ کے علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہو رہا تھا، اس دوران اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر کہیں کہ عمر کی خواہش ہے کہ انہیں اپنے رفقاء کے جوار میں دفن ہونے کی اجازت دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیغام سننے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ”بخدا یہ جگہ میں نے اپنے لیے منتخب کرلی تھی،لیکن آج کے دن میں یہ قربان کئے دیتی ہوں۔“ تین دن کرب میں گزارنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام سن 24 ھ کو جام شہادت نوش فرماگئے۔آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ (المنتظم)۔روضۂ نبوی میں حضرت محمد رسول اللہ اور خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پہلو میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی۔ اور یوں عدل و انصاف کا یہ آفتاب ومہتاب غروب ہو گیا۔ یہ مشیت خداوندی ہی ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوتی ہے اور پھر مرقدرسول اللہ کے سرہانے تا قیامت استراحت کیلئے دو گز جگہ بھی عطا فر مادی گئی۔ قیامت تک جو بھی مسلمان روضۂ اقدس میں سلامی کیلئے حاضر خدمت ہوگا وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔ دشمنان صحابہ کا منہ بند کرنے کیلئے یہ ایک اعزاز خداوندی ہی کافی ہے۔


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 یکم محرم الحرام ١٤٤٣ھ

11؍ اگست 2021ء بروز بدھ


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #UmarFarooq #YaumeSahadath #Muharram

Saturday, August 7, 2021

مسلم لڑکیوں کو فتنہ ارتداد سے محفوظ رکھنا وقت کا اہم تقاضہ ہے



 مسلم لڑکیوں کو فتنہ ارتداد سے محفوظ رکھنا وقت کا اہم تقاضہ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام فتنہ ارتداد کے اسباب و حل پر سہ روزہ اصلاح معاشرہ کانفرنس!


بنگلور، 07؍ اگست (پریس ریلیز): ملک کے حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ امت مسلمہ دین سے دور ہورہی ہے۔ جس تیزی کے ساتھ یہ ارتداد ہماری نسلوں کو تباہ کررہا ہے اس کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کے تقریباً ہر شہروں سے ارتداد کی خبریں آرہی ہیں۔ امت مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ غیرمسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا ہے۔ یہ فعل ایک مسلمان کو ارتداد کی دہلیز پر لا کھڑا کردیتا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس سنگین مسئلہ سے شدید متاثر ہیں، ملک کے طول و عرض سے آئے دن یہ روح فرسا واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکے یا لڑکی نے فلاں غیرمسلم لڑکی یا لڑکے سے شادی رچا لی۔ ان روح فرسا اور دل کو چھلنی کردینے والے واقعات کا سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا پہلو یہ ہے کہ مسلم لڑکے اور لڑکی اپنی رضامندی اور خوشدلی سے ایسا کررہے ہیں اور انھیں اس پر ذرا بھی افسوس نہیں اور اس پر دشمن کی چالیں اور سازشیں مستزاد ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان میں بڑھتی مذہبی منافرت اب ایک نازک موڑ پر آپہنچی۔یہ بات بہت حیران کن اور فکر انگیز ہیکہ ہندوتوا ایجنڈے کے ایک سازش کے تحت محبت کا جھانسہ دیکر مسلم لڑکیوں کو غیروں نے اپنے چنگل میں پھسانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ گھر واپسی کے نام پر مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنانے کی مکمل سازش چل رہی ہے۔ اور روز بہ روز ہزاروں دختران ملت اس سازش کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں، جن کی زندگی تیاہ و برباد ہورہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ جہاں ہندو شدد پسند تنظیموں کی گھناؤنی سازش ہے وہیں دوسری وجہ اباحیت پسندی، مغربی تہذیب کی اندھی دلدادگی اور فرد کی بے محابا آزادی نے جہاں اس کو خوب بڑھاوا دیا ہے، وہیں مسلم نسل نو کی ایمانی اور اسلامی تربیت سے ہماری غفلت کوشی اور سہل انگاری کا بھی بڑا دخل ہے۔ ان تمام تر حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے ارتداد کے اس سازش کو بے نقاب کرنے اور اسکے دنیوی اور اخروی نقصانات سے امت کو واقف کرواتے ہوئے اسے بیدار کرنے کیلئے ”سہ روزہ آن لائن اصلاح معاشرہ کانفرنس“بعنوان ”مسلم لڑکیاں ارتداد کے دہانوں پر: اسباب و حل“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ کانفرنس مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر روزانہ رات 9:30 بجے سے براہ راست نشر ہوگا۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرمائیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ کانفرنس کے علاوہ ان شا اللہ کچھ اہم مضامین اور لٹریچر بھی مرکز کی جانب سے شائع کیا جائے گا۔ تاکہ اکابرین کے رہبری و رہنمائی سے امت مسلمہ اس فتنہ ارتداد کے خلاف متحد ہوکر میدان عمل میں کام کرے اور امت مسلمہ کی نسل نو کے ایمان و اسلام کی حفاظت کرے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے برادران اسلام گزارش کی کہ وہ اس اہم پروگرام میں کثیر تعداد میں شرکت فرمائیں کیونکہ ان حالات میں ہمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے۔