Thursday, October 28, 2021

سیرت النبیؐ کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں رائج کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!


 سیرت النبیؐ کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں رائج کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے سیرت النبیؐ کانفرنس سے مفتی شفیق احمد قاسمی اور مولانا بلال حسنی ندوی کا خطاب!


 بنگلور، 28؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن دس روزہ سیرت النبیؐ کانفرنس کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ تاریخ عالم پر نظر دوڑائیں تو ہمیں عظیم شخصیتوں کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہے لیکن کوئی شخصیت بھی جملہ صفات و کمالات کی جامع اور ہر لحاظ سے کامل نظر نہیں آتی۔ انسانیت اپنے جملہ صفات و کمالات کی تکمیل کے لئے ایک ایسی جامع و کامل شخصیت کی محتاج رہی ہے جو انفرادی و اجتماعی لحاظ سے انسان کے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا کرسکے اور زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرسکے۔ایسی ذات گرامی صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہے۔ اسی لئے آپؐ کی ذات کو پروردگار عالم نے تمام انسانوں کے لئے نمونہ حیات قرار دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ رحمت دوعالمؐ کی رسالت عالم گیر ہے، آپؐ پوری دُنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے، آپؐ ایک ایسے نظام حیات کے داعی تھے جو ازل سے ابد تک انسانیت کیلئے رہنما و معلم ہے۔ آپؐ نے زندگی کے کسی بھی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ کامل و مکمل طریقہ سے تمام شعبوں میں زبانی و عملی ہر طرح سے اور ہر سطح سے رہبری فرمائی۔ خواہ ان اُمور کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے یا معاشرت واخلاقیات سے، زندگی کا ہر مرحلہ اس آفتابِ نبوت کی پاکیزہ و مقدس روشنی سے منور اور روشن ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ آپ ؐ ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دُنیا راہ یاب ہوسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل آپؐ ہی کی اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات و مصائب سے نجات کا نسخہ آپکی زندگی میں ہی مل سکتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبی آخرا لزماں ؐ کی حیات طیبہ ہر ایک کے لیے ایسا روشن نمونہ ہے کہ جس پر چل کر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکتی اور انسان دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم سیرت النبیؐ کو عملی طور پر اپنائیں۔


 مرکز تحفظ اسلام ہند کے سیرت النبیؐ کانفرنس کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ آج سے چودہ سو سال قبل جب دنیا ایک ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی، تہذیب و تمدن عنقاء تھا، پوری انسانیت ضلالت وگمراہی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، ہرطرف کفر وشرک کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے، جہالت وبربریت کا دور دور تھا، چار سو قتل وغارت گری کی حکومت قائم تھی، ظلم وستم کا بازار گرم تھا، نہ کوئی یتیم کا پرسان حال تھا، نہ بیوہ کا یار و مددگار، غریبوں و لاچاروں کو زور و زبردستی کی چکی میں پیسا جاتا تھا، عورت کے وجود کو منحوس گردانا جاتا تھا، ظلم کی آخری انتہا یہ تھی کہ جزیرۃ العرب میں بچیاں زندہ درگور کر دی جاتی تھیں۔ ایسے زمانہ جاہلیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کیلئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو رحمت بنا کر بھیجا۔مولانا نے فرمایا کہ آپ ؐ کی تشریف آوری سے ظلمت کدہ عالم میں روشنی پھیلی، خزاں رخصت ہوگئی، بہار کی ہوائیں چلنے لگیں اور مختصر وقت میں وہ عظیم انقلاب برپا ہوا کس کی تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔مولانا ندوی نے فرمایا کہ نبی ؐکی سیرت نہایت جامع اور کامل ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر اعتبار سے آپؐ کی زندگی کو انسانیت کے لیے نمونہ اور اسوہ بنایا ہے، زندگی کا کوئی پہلو اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں آ پکی تعلیمات نہ ہوں، ہر موقع اور مرحلہ کے لیے آپؐ نے انسانوں کو مستقل تعلیمات سے نوازا ہے۔ انسانیت کی کامیابی اور ابدی نجات آپ ؐکی سیرت پر عمل آوری ہی میں پوشیدہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبی کریمؐ نے جن تعلیمات کے ذریعہ دنیا میں انقلاب برپا کیا اور انسانوں کی کایا پلٹی وہ تعلیمات ہمارے لیے مسلسل پیغام دیتے ہیں کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ہم انہی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم اپنے آپ کو سنت و شریعت کا پابند بنائیں اور اسی کے مطابق زندگی گزاریں اور سیرت النبی ؐکو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں رائج کریں، یہی سیرت النبی ؐکا اصل پیغام ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دنوں اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

No comments:

Post a Comment