حضرت محمدﷺ خاتم النبیین اور رحمت اللعالمین ہیں، ختم نبوت کی حفاظت اورآپکی اطاعت ہماری ذمہ داری ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے سیرت النبیؐ کانفرنس سے مفتی راشد گورکھپوری اور مولانا مقصود عمران رشادی کا خطاب!
بنگلور، 30؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان دس روزہ آن لائن سیرت النبیؐ کانفرنس کی ساتویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کے شعبہ تحفظ ختم نبوت کے صدر و استاذ حضرت مولانا مفتی محمد راشد گورکھپوری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بھلائی، ہدایت و راہنمائی کیلئے وقتاً فوقتاً ایک لاکھ چوپوہزار کم و بیش انبیاء اور رسول دنیا میں مبعوث فرمائے اور یہ سلسلہ نبوت خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری پر ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کو آپ ؐپر ختم کر دیا ہے۔ آپ ؐاللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کر دیا گیا ہے، اب آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ جو شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ سمجھے، وہ بلا شبہ کافر ہے اور جو شخص آپؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، وہ بلا شبہ کافر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر آپؐ کے آخری نبی ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے، جو بھی آپؐ کو آخری نبی نہیں مانتا یا اس میں ذرہ بھر بھی شک کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپؐ کو خاتم النبیین قرار دے کر واضح کر دیا ہے کہ حضور ؐ کی بعثت سے رسالت و نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، آپؐ قیامت تک کیلئے نبی ہیں۔ مولانا گورکھپوری نے فرمایا کہ آپؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے نہ آج تک کوئی نبی یا رسول آیا اور نہ آئے گا۔ آپؐ کے تشریف لے جانے کے بعد جو بھی دعویٰ کرے گا، وہ جھوٹا، فریبی، مکار اور دجال ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ دور حاضر میں قادیانی اور شکیلی لوگوں کو دھوکہ دیکر انہیں مرتد کرتے ہیں۔ یہ بات ہم سب کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قادیانیت اور شکیلیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ ایمان کی تکمیل کے لیے جس طرح اللہ تعالیٰ کو معبود ماننے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُس کے علاوہ کسی کو حقیقی معبود نہ مانے، اسی طرح حضرت محمدؐ کو نبی و رسول ماننے کے ساتھ ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ آپؐ اللہ کے آخری رسول و نبی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم لوگ عہد کریں کہ ہم کسی بھی قیمت پر عقیدہ ختم نبوت کے دفاع وتحفظ اور اس کی ترویج واشاعت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس عقیدے کے خلاف کی جانے والی بڑی سے بڑی کوشش کو ناکام بنانے میں اپنا ایمانی کردار ادا کریں گے۔
مرکز تحفظ اسلام ہند کے سیرت النبیؐ کانفرنس کی نویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ رسول اللہؐ تمام دنیا کے انسانوں کے لیے مینارہ نور ہیں۔ کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔ سب سے آخر میں بھیج کر قیامت تک کے لیے آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیا کہ اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہؐ کی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ ان سے رہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناو۔ گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت عام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی رہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل رہنمائی ملے گی۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ آپؐ کی سیرت تمام انسانوں کی رہنمائی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبی اکرمؐ جس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے وہ دور انسانیت کی تباہی کا نہایت سنگین دور تھا۔ نبی اکرمؐ نے اپنی نرالی اور پیاری تعلیمات کے ذریعہ انسانوں کو تباہی کے دلدل سے نکالا اور قعر مذمت سے نکال اوج ثریا پر پہنچایا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا پاکیزہ اور پیارا معاشرہ پیش فرمایا جس کی نظیر قیامت تک نہیں پیش کی جاسکتی۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ہمارے لئے کامیابی کی کلید اور ہمارے سارے مسائل کا حل صرف اسوہ حسنہ کی پیروی ہی میں مضمر ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہمارا معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو ہمارے لئے آنحضرتؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ کیونکہ آپؐ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دونوں اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔
No comments:
Post a Comment