سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم ؑ کی میراث ہے، جس پر مسلمانوں کا حق ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی محمد حذیفہ قاسمی کا خطاب!
بنگلور، 13؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے ناظم تنظیم اور انجمن احیاء سنت مہاراشٹرا کے صدر حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین وہ خطہ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا میراثی خطہ کہلاتا ہے۔ لیکن دنیا کی آنکھوں میں یہ دھول جھونکی جارہی ہیکہ اس خطہ پر یہودیوں کا حق ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کے صحیح مصداق یہودی ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے، اور اسکے اصل حقدار مسلم عرب فلسطینی ہیں۔ مولانا نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے فلسطین جارہے تھے اور درمیان میں آپ نے مصر میں پڑاؤ ڈالا۔ بادشاہ مصر ایک عیاش قسم کا انسان تھا، لیکن کچھ معجزات کو دیکھنے کے بعد بادشاہ نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ علیہما السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دیتے ہوئے حضرت سارہ علیہما السلام کے حوالہ کردیا کہ ان کی خدمت گذار رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسکے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور ابھی وہ بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ ادھر چند سال بعد حضرت سارہ علیہما السلام حاملہ ہوئیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی فلسطین میں پیدائش ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے مگر برابر مکہ میں حضرت ہاجرہ و اسماعیل علیہا السلام کو دیکھنے آتے رہتے تھے- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی اثناء میں اللہ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مسجد الاقصیٰ کی تعمیر فرمائی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد قریش ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں انکے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے تیرہ بیٹے تھے، جن میں سے ایک حضرت یوسف ؑعلیہ السلام تھے۔ یہ دنوں خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ جو یہودی قوم ہے جو انبیاء کی توہین سے لیکر انکے قتل کرنے تک کی مرتکب ہے، جب انہیں معلوم ہوا کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بنی اسرائیل کے بجائے قریش میں ہوئی ہے، تو ان یہودیوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی طرح طرح کی سازشیں کیں۔ اور افواہ پھیلائی کہ حضرت ہاجرہ علیہما السلام باشاہ کی بیٹی نہیں لونڈی تھی جبکہ یہ تاریخی حقائق کے برخلاف ہے، یہودیوں نے تورات کے دوسرے مضامین کی طرح اس میں بھی تحریف کی تاکہ بنی اسماعیل اہل قریش کو بنی اسرائیل سے کمتر دیکھا سکیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پڑپوتے تھے، فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون کی وادی میں تھی، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مسکن بھی یہی تھا۔ مولانا نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن سے لیکر مصر کے بادشاہ بننے تک کی مکمل تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ چند سالوں بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے والدین اور تمام بھائیوں کو مصر بلا لیا، جہاں وہ خوب بڑھے، پھلے اور پھولے اور اس طرح مصر میں ان کی آبادی تیزی سے پھیلتی رہی۔ یہ خاندان فلسطین سے منتقل ہوکر مصر میں آباد ہوا اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کا انتقال ہوا تو انکی تدفین ارض فلسطین (کنعان) میں ہوئی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس کے سینکڑوں سال بعد جب مصر پر فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور اس نے بنو اسرائیل پر ظلم وستم کی انتہا کردی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بنو اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ فرعون نے ان کا پیچھا کیا، لیکن بحر احمر میں ڈبو دیا گیا۔ فلسطین آکر بنو اسرائیل نے طرح طرح کی نافرمانیاں شروع کر دیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں وادی تیہ میں 40 سال تک کے لیے بھٹکا دیا۔ اسی دوران سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام نے عمالقہ جو اس وقت بیت المقدس پر قابض تھے سے جنگ کی اور بیت المقدس کے علاقے کو فتح کیا اور بالآخر کچھ سالوں بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصال ہوا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت بھی یہودی وہاں نہیں اور بعد میں بھی محض گنے چنے لوگوں کے علاوہ وہاں یہودی نہیں تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو جو فتح کیا ہے وہ عیسائیوں سے لیا ہے، پھر کچھ دنوں بعد عیسائیوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا، پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسکو فتح کرلیا، پھر خلافت عثمانیہ کے پاس رہا، اور جب خلافت عثمانیہ کو شکشت ہوئی تو وہ خطہ برطانیہ میں شامل ہوگیا اور اس وقت دنیا کے یہودیوں نے امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی میں وہاں بسیرا ڈالا کیونکہ ہٹلر نے انکی قوم کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ اہل فلسطین نے انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی زمین انہیں دی اور اقوام متحدہ نے زبردستی انہیں ایک الگ خطہ مختص کردیا۔ اس کے بعد سے اس ظالم قوم نے اہل فلسطین جو وہاں کے اصل باشندے ہیں ان پر ظلم و ستم کا پہاڑ ڈھانا شروع کردیئے اور انکی زمین اور مقدس مقامات پر قبضہ کرنا شروع کردیا، جو اب تک جاری ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی شروع سے ہی نافرمان اور ظالم قوم ہے، جنہوں نے اپنے انبیاء کرام پر ہی جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں وہ پوری دنیا کے سامنے واضح ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ ہیکہ فلسطین پر اصل حق عرب مسلمانوں فلسطینیوں کا ہے، کیونکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث ہے۔ اور یہودیوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری و قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، اراکین عمیر الدین، سید توصیف، وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مفتی محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔
#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment