اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے اور حمیت ایمانی و غیرت اسلامی کا تقاضا ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد شمشاد رحمانی کا خطاب!
بنگلور، 28؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث اور بہار، اڑیشہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی و قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ گزشتہ کئی دن سے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کے میزائل حملوں اور بمباری سے تقریباً ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی ہزار میں ہے۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر سکے۔ رہائشی علاقوں، مساجد، تعلیم گاہوں، اسپتالوں غرض ہر جگہ بمباری کر رہا ہے۔ اسرائیل نے کئی دنوں سے غزہ کے لئے بجلی، پانی، ادویات اور اشیائے خور و نوش کی ترسیل روک رکھی ہے۔ فلسطین کے ان حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند، صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ ایک مومن تو اپنے دل میں درد، جگر میں سوز اور کلیجے میں جلن محسوس کرتا ہے، یہی وجہ ہیکہ اس وقت پوری امت مسلمہ بے چین ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ درحقیقت قبلۂ اول مسجد اقصٰی سے جڑا ہوا ہے اور سرزمین فلسطین بہت بابرکت سرزمین ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن و مدفن بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا بعض لوگوں کو یہ شکایت ہیکہ فلسطینیوں کی جانب سے اس جنگ کی پہل ایک غلطی ہے جبکہ درحقیقت وہ لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطینیوں کی جانب سے یہ حملے اس غم و غصے کا اظہار ہے، جو اسرائیل کی ریاست کی جانب سے مظالم ڈھانے کی صورت میں فلسطینیوں میں موجود ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی وجہ سے یہ پہل ہوئی ہے۔ نیز اسرائیل مقبوضہ مسلسل نہتے اور مظلوم فلسطینی شہریوں پر ظلم و ستم اور قتل کررہا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ صہیونی انتہا پسند آئے روز مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں جو کہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطینی عوام قبلۂ اول اور مسجد اقصیٰ کے محافظ ہیں اور یہ مزاحمت کا خوف ہے جو اسرائیل کو اس کے ہدف کی طرف بڑھنے سے روک رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات نے بھی ایک وجہ ہیکہ فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ مزاحمت کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک فلسطینیوں کا، زمین فلسطینیوں کی مگر عالمی طاقتوں کی مدد سے ناجائز قبضہ صہیونیوں کا اور جب اس قبضے کیخلاف اور جانوں کی حفاظت کیلئے آواز اٹھائی جائے تو عالمی برادری اسے مظلوم کے بجائے ظالم کہتی ہے، یہ اسلام مسلمان دشمنی کہ واضح دلیل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک،حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں، مظلوموں کے علم بردار اور خاص طور پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اہلِ فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، افسوس تو یہ ہیکہ مسلم حکمران بے شمار وسائل رکھنے کے باوجود بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں جب فلسطینیوں کا کوئی ساتھ نہیں دے رہا لیکن اس کے باوجود اینے اندر ہمت، جرأت اور ایمان ایسا ہیکہ بے مثال قربانیوں کے باوجود اب تک میدان میں پا مردی سے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ آج بھی پوری استقامت، عزم اور حوصلے کے ساتھ مغرب کی قائم کردہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف پوری جرأت کے ساتھ کھڑے ہیں، نامساعد حالات کے باوجود ان لوگوں نے یہ ثابت کردیا ہیکہ ایمان والے شکست نہیں کھاتے۔ اللہ کی مدد و نصرت انکے ساتھ شامل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمانوں کو مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ان شاء اللہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب فلسطینیوں کو غاصب صہیونی حکومت پر فتح نصیب ہوگی، فلسطینی عوام سرخرو ہوں گے اور مسجد اقصٰی اور فلسطین مکمل مسلمانوں کے قبضے میں ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑے رہیں، انکا جس طرح ہوسکے مدد و معاونت کریں، ان کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں، اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ یہ نہ صرف ہمارا انسانی فریضہ ہے، بلکہ یہ ہماری دینی، اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بھی ہے اور حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی کا تقاضا بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ سے فلسطین اور وہاں کے اصل باشندوں کے ساتھ کھڑا ہے، لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک اور اسلاف کے سابقہ موقف پر ہی قائم رہیں اور مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بارہویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد نظام الدین مظاہری بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی و قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی و قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بارہویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔
#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment