انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے اور مسجد اقصیٰ کا حقدار مسلمان ہی ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا ثمیر الدین قاسمی کا خطاب!
بنگلور، 28؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی نویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے ماہر فلکیات حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین جو صدیوں سے ایک مقدس اور پاکیزہ سرزمین رہا ہے۔بے شمار انبیاء کا مسکن و مدفن ہے۔ خاص طور پر انبیاء بنی اسرائیل کا قیام مسجد اقصٰی کے ارد گرد رہا ہے، یہ جب بھی نماز پڑھنے مسجد اقصٰی تشریف لاتے تھے تو انکا رخ بیت اللہ کی طرف ہوتا تھا یعنی تمام انبیاء نبی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اس وقت نماز پڑھتے ہوئے آپؐ اس انداز میں کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں آپؐ کے سامنے ہوتے۔ مدینہ طیبہ آمد کے بعد رسول اکرم ؐ کو حکم الٰہی تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی اہلِ اسلام کا قبلہ رہا، مگر رسول اکرم ؐ کی تمنا یہی تھی کہ کعبۃ اللہ کو ہی قبلہ بنایا جائے۔ رسول اکرم ؐاس سلسلے میں وحئ الٰہی کا انتظار فرما رہے تھے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد آپؐ کو بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ جبکہ یہود کا قبلہ بیت اللہ نہیں ہے وہ دیوار گریہ کو سب کچھ مانتے ہیں۔ لہٰذا انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ تھا اور مسلمانوں کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہیکہ مسجد اقصیٰ کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے۔ اس لحاظ سے اس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ، جو یہود کے جلیل القدر عالم تھے، انکو یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ؐ ہیں جن کی بعثت کی پیشین گوئی صحائف قدیمہ میں درج ہیں، لہٰذا وہ دوسرے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے چند مسائل دریافت کیے جسکا آپؐ نے اطمینان بخش جواب دیا، جس کے بعد حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے ایمان قبول کرلیا۔ اسکے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کو بلایا اور ان کو اسلام کی دعوت دی لیکن یہودیوں نے قبول نہیں کیا۔لہٰذا اب جس قوم نے اپنے بڑے علماء کی اور اپنی کتاب کی بات نہیں مانی وہ باطل پر قائم ہے اور مسلمان ہی حق پر ہیں۔اس لحاظ سے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تیسری بات یہ ہیکہ جب سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کی ہے تب سے لیکر آج تک مسجد اقصیٰ میں اللہ کی عبادت، نمازوں کا اہتمام جو انبیاء بنی اسرائیل بھی کرتے تھے، آج وہ صرف مسلمان ہی کررہے ہیں، یہود و نصاریٰ اور عیسائی نہیں۔اس اعتبار سے بھی بیت المقدس پر جو حق ہے وہ مسلمانوں کا ہے کسی اور کا نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس کو مسلمانوں نے نمازوں اور عبادتوں سے آبا رکھا ہے، یہود اگر وہاں آئیں گے بھی تو اس طرح نماز نہیں پڑھیں گے جس طرح ان کے نبیوں نے پڑھی تھی، اور توحید پر جو عقیدہ انبیاء بنی اسرائیل کا تھا وہ آج کے یہودیوں کا نہیں ہے۔ یہ چوتھی دلیل ہیکہ اس اعتبار سے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ پانچوں بات یہ ہیکہ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرہ ہے۔ اس کے نیچے ایک غار ہے، جو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، معراج کی رات حضورؐ بیت المقدس سے قبۃ الصخرہ تشریف لے گئے اور اس کی زیارت کروائی گئی۔ اس غار میں انبیاء بنی اسرائیل آکر عبادت کیا کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے، اس غار کو جب بھی کھولا جاتا ہے اور اس میں آج جب مسلمان جاتے ہیں تو وہ وہاں نماز پڑھتے ہیں، تو اس پانچویں دلیل کے اعتبار سے بھی مسجد اقصی کا حقدار مسلمان ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ بھی حقدار بن سکتے تھے لیکن اگر وہ اس طرح عبادت کرتے جیسے ان کے انبیاء عبادت کرتے تھے، چونکہ وہ اس طرح نہیں کرتے اور خاتم الانبیاءﷺ پر ایمان نہیں رکھتے تو اس پر انکا کوئی حق نہیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت ارضِ فلسطین کے جو حالات ہیں اس سے پوری امت مسلمہ پریشان ہے، ہماری دعا ہیکہ بیت المقدس محفوظ رہے، بیت المقدس پر نماز ہوتی رہے اور بیت المقدس ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہے اور جو اہل فلسطین و غزہ کی اللہ تعالیٰ مدد و نصرت فرمائے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔
#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment