مسجد اقصٰی مسلمانوں کی میراث ہے، اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی کا خطاب!
بنگلور، 29؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول اور خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی، یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں شامل ہیں، اسی میں قبۃ الصخرۃ بھی شامل ہے۔ مولانا دریابادی نے مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اقوام متحدہ اور دنیا کے طاقتور ممالک کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے اور فلسطین کو اپنا حق اور ان کی زمین واپس کرانی چاہئے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے غزہ اس وقت قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لیکن تمام نام نہاد انسانیت کے علمبردار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل نے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا فلسطین کے موجودہ حالات میں مسلم ممالک کو ٹھوس اقدامات کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ، حقوق انسانی کونسل، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی تنظیمیں کو مداخلت کرے عالمی امن کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ مولانا نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری مداخلت کرکے فلسطین کے مسئلہ کے پائیدار حل پر عمل درآمد کرائے، انہوں نے فوری طور پر جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کو ختم کرنے، غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، اور فوری طور پر بلاروک ٹوک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر غزہ کیلئے امداد کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ فلسطینی جدو جہد آزادی کی حمایت ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز رہی ہے۔ اب تک سبھی رہنماؤں نے نہ صرف فلسطینی جدوجہد کی حمایت کی بلکہ انکے فلسطین سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت سے اپیل ہیکہ وہ ہندوستان کی سابقہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے فلسطینیوں کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی رہے اور فلسطین کیلئے اپنے طور جو بھی مدد ہو سکتی ہے کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین انبیاء علیہم السلام کا مسکن اور مدفن ہے، مسجد اقصٰی ہمارا قبلہئ اول بھی ہے، لہٰذا ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا مذہبی و جذباتی تعلق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بائیسویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بائیسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔
#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS
No comments:
Post a Comment