Friday, October 11, 2024

بنگلور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کی تیاریوں کا آغاز! کرناٹک کے علماء و عمائدین کی ایک اہم مشاورتی نشس

بنگلور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کی تیاریوں کا آغاز!

کرناٹک کے علماء و عمائدین کی ایک اہم مشاورتی نشست!




بنگلور، 11؍ اکتوبر (پریس ریلیز): کل رات بعد نماز عشاء ٹینس پویلین، بنگلورمیں منعقد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس عام کے تعلق سے ایک اہم مشاورتی نشست منعقد ہوئی، جس میں ریاست کے علماء و عمائدین شہر بالخصوص تمام مکاتب فکر، مسالک اور دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت فرمائی۔ اور 23؍ 24؍ نومبر 2024، بروز سنیچر، اتوار کو بنگلور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سالانہ اجلاس عام کے انتظامی امور کے سلسلے میں غور و خوص کیا گیا۔ اس موقع پر اجلاس کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں شرکائے مجلس کی جانب سے بہت اہم تجویزیں اور آراء سامنے آئیں، جن کو سامنے رکھتے ہوئے اہم فیصلے کئے گئے اور بالخصوص عمومی اجلاس عام کے انتظامی امور کو جلد مکمل کرنے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے مناسب تیاریوں کا آغاز کیا گیا۔ شرکائے مجلس میں مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک)، مفتی محمد مقصود عمران رشادی صاحب (امام و خطیب جامع مسجدسٹی بنگلور)،  ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب (امیر جماعت اسلامی کرناٹک)، جناب مسعود عبد القادر صاحب (کنوینر مسلم متحدہ محاذ کرناٹک)، جناب سلیمان خان صاحب (معاون جنرل سکریٹری ملی کونسل)، جناب محب اللہ امین صاحب (جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء کرناٹک)، جناب عباس خان صاحب (سی ای او امان اللہ خان اینڈ سنس بنگلور)، جناب امتیاز خان صاحب، جناب یونس خان صاحب، جناب عثمان شریف صاحب (جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ)، جناب آغا سلطان صاحب (نمائندہ شیعہ جماعت)، جناب افسر بیگ صاحب (سکریٹری جلوس محمدی)، مولانا ضمیر احمد رشادی صاحب، جناب محمد فرقان صاحب (ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)، قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ 23؍ 24؍ نومبر 2024، بروز سنیچر، اتوار کو بنگلور میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوگا۔ جس میں ملک بھر سے بورڈ کے ذمہ داران اور اراکین شریک ہونگے، اس سالانہ اجلاس عام کی جہاں خصوصی نشستیں ہونگی وہیں تحفظ شریعت و تحفظ اوقاف کے عنوان سے ایک بڑا عوامی اجلاس بھی منعقد ہوگا، جس سے اکابرین ملت خطاب فرمائیں گے، یہ عوامی اجلاس ملک کی موجودہ صورتحال میں شریعت اسلامیہ اور اوقاف کے تحفظ کے سلسلے میں جہاں اپنی نوعیت کا منفرد اجلاس ہوگا وہیں اتحاد و اتفاق امت کا ایک بڑا عملی مظاہرہ ہوگا، جس میں تمام مکاتب فکر، مسالک اور دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندگان رونق اسٹیٹس ہونگے۔ اجلاس عام میں عامۃ المسلمین سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی گئی ہے۔





Monday, October 7, 2024

پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شان میں نرسنگھا نند سرسوتی کی گستاخی ناقابل برداشت!

 پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ کی شان میں نرسنگھا نند سرسوتی کی گستاخی ناقابل برداشت! 

نرسنگھا نند ملک کے امن و مان کیلئے خطرہ، حکومت سے فوری و سخت کاروائی کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کا مطالبہ!


بنگلور، 07؍ اکتوبر (پریس ریلیز): پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ملعون یتی نرسنگھا نند سرسوتی کے توہین آمیز بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ مسلمانوں کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سب سے محترم اور عزیز ہے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن حضور اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ملعون یتی نرسنگھا نند سرسوتی نے توہین رسالت کر کے جو ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے یہ ملک کی فرقہ وارانہ خیر سگالی کو متاثر کرنے والا ہے۔ نبیﷺ کی شان میں نرسنگھا نند سرسوتی کے ذریعہ گستاخی کرکے جو مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے وہ دستور ہند کے سخت خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوراً ایسے شخص کو گرفتار کریں اور اسکے خلاف جو ملک کے امن و امان کے لیے خطرہ ہے سخت قانونی کارروائی کرے۔ محمد فرقان نے کہا کہ محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہﷺ نے پوری دنیا کو جو انسانیت کا درس دیا ہے اسکا نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کے سبھی مذاہب کے ماننے والے احترام کرتے ہیں۔ بلکہ عظمت مصطفیٰؐ پر غیر مسلم پیشواؤں کے سینکڑوں کتب اور بے شمار اقوال موجود ہیں۔ لیکن نرسنگھانند سرسوتی اور رام گری جیسے ملعون لوگ بھولے بھالے غیر مسلم بالخصوص ہمارے ہندو بھائیوں کے ذہنوں میں اپنے مکر و فریب اور جھوٹ سے مسلمانوں اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف غلط فہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہر آئے دن ایسے فرقہ پرست اور آتنکی لوگوں کی جانب سے مذہب اسلام، مقدس قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی ہوتی رہتی ہے، جو ناقابل برداشت ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ پچھلے چند سالوں سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو خراب کرنے اور یہاں کے امن و امان کو نیست و نابود کرنے کیلئے ایک سازش کے تحت شان رسالت مآبﷺ میں گستاخیاں کی جارہی ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک کے آئین کی دفعہ 295 اے اور 153 اے کے مطابق کوئی شخص کسی کی توہین نہیں کرسکتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملعون نرسنگھانند سرسوتی ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان اقدس میں مسلسل گستاخیاں کرتا جارہا ہے لیکن ملک کے سیاسی و سرکاری حلقوں میں ایسی دل آزاری کا نوٹس نہیں لیا جارہا ہے، بلکہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہیکہ ملی و سماجی تنظیموں کی جانب سے جب ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی جاتی ہے تو محکمہ اسے درج کرنے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو لوگوں کا قانون پر جو اعتماد ہے وہ ختم ہوتا جائے گا، اور ملک میں عدل و انصاف ختم ہوجائے گا اور قانون بطور نام رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملعون نرسنگھا نند نے اس طرح کی تکلیف دہ حرکت اسی لیے دوبارہ کی ہے کہ وہ ابھی تک قانون کی گرفت سے آزاد ہے، مرکزی اور ریاستی حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ نرسنگھانند سرسوتی نے ملک میں امن وامان کو نیست و نابود کرنے، یہاں افراتفری، عدم رواداری اور عدم تحمل میں اضافہ کرنے، لوگوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرنے اور ہندو مسلم کے درمیان دشمنی اور فساد پربا کرنے کیلئے شان رسالت مآبﷺ میں گستاخی کی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہوا ہے اور نبی کریمﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے اہل ایمان سراپا احتجاج ہیں اور اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ لہٰذا حکومت ملعون نرسنگھانند سرسوتی اور ان جیسے بدبختوں کو فوراً گرفتار کریں اور انہیں سخت سے سخت سزا دیں تاکہ وہ دوسروں کیلئے نشان عبرت ثابت ہوں اور ملک میں گنگا جمنی تہذیب اور امن و امان باقی رہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند نے حکومت سے ایک قانون بنانے کا بھی مطالبہ کیا، جس کے تحت کسی بھی مذہبی پیشوا کی شان میں گستاخی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔




#Press_Release #News #ArrestNarsinghanand #Arrest_Narsinghanand #ArrestRamgiri #ProphetMuhammad #NamooseRisalat #Blaspemous #MTIH #TIMS

وقف املاک اللہ کی ملکیت ہے، اسکی حفاظت ہر قیمت پر ضروری اور مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے!

 وقف املاک اللہ کی ملکیت ہے، اسکی حفاظت ہر قیمت پر ضروری اور مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی و مولانا شمشاد رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 05؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چھٹی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کی اسلامی شریعت میں ایک اہم اور مقدس حیثیت ہے، جو نہ صرف صدقہ جاریہ کی ایک صورت ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے دین و دنیا کی فلاح و بہبود کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ وقف کے اصول و ضوابط واضح ہیں جن میں واقف کی نیت اور مقصد کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اپنی املاک کا وقف قائم کرنا شروع کر دیا۔ مسلم حکمرانوں نے بھی بہت سی زمین وقف کیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک کی نگرانی اور حفاظت کیلئے وقف قانون بنایا گیا، اس کے تحت مرکزی و ریاستی وقف بورڈ کو قائم کیا گیا، جو ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ذمہ دار ادارہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ واضح رہے کہ وقف بورڈ محض ایک قانونی ادارہ ہے اور وقف املاک کا مالک نہیں ہے، وقف بورڈ کا کام صرف املاک کی نگرانی اور تحفظ ہے، نہ کہ ان میں تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل 2024ء میں ایسی کئی خامیاں ہیں، جو وقف کی اصل روح اور اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ بل مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کی حفاظت کے بجائے حکومت کا ان پر قبضہ کرنے کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈ کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت کو لازم بنا دیا گیا ہے۔جو مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں براہ راست مداخلت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں، لہٰذا جس غیر آئینی و غیر شرعی بل سے وقف جائیدادوں کی حیثیت ونوعیت بدل جائے یا اس پر قبضہ جمالینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز قابل قبول نہیں۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جو کوششیں کررہا اس میں تمام مسلمانوں کو ساتھ دینا چاہیے، اور انکی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ وقف کی حفاظت اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی مدظلہ (استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند) نے فرمایا کہ اوقاف ہمارا قیمتی سرمایہ ہے، ہمارے آباء و اجداد نے رضائے الٰہی اور اجر و ثواب کی نیت سے اپنی جائیدادیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہیں، ان اوقاف کی صیانت و حفاظت ہمارا اولین فریضہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ برسراقتدار طبقہ وقف ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہ رہا ہے اور مجوزہ وقف ترمیمی بل سے یہ صاف ظاہر ہیکہ اس سے اوقاف کی نوعیت و حیثیت بدل جائے گی اور اوقاف کا تحفظ غیر یقینی ہوجائے گا، اسی طرح وقف بورڈ کے اختیارات بھی سلب کرلئے جائیں گے، جس سے اوقاف پر قبضے کی راہیں ہموار ہو جائیں گی۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف دراصل اللہ کی ملکیت ہے اور وقف بورڈ ان کے نگران کار ہیں۔ اوقافی جائیدادوں اور وقف کے اُمور میں حکومت کو مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ مولانا نے اس مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ یہ بل نہ صرف غیر آئینی بھی ہے بلکہ غیر شرعی بھی ہے اور مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہیکہ لیکن اپنی دین و شریعت میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ مولانا نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر ملت اسلامیہ ہندیہ نے تقریباً پانچ کڑور سے زائد ای میل بھیج کر اس بل کی مخالفت میں اپنا احتجاج درج کروایا، ہمیں اسی اتحاد اور جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ ہم اس بل کو بالکیہ مسترد کریں اور یہ بل جب تک واپس نہیں لیا جاتا تب تک اسکی مخالفت کرتے رہیں۔ ہمیں یہ جدوجہد تسلسل اور استقامت کے ساتھ جاری رکھنا ہوگا، اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھنا ہوگا، اور کسی بھی حالات اور مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے پر عزم رہنا پڑے گا۔مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ حکومت کو یہ بل واپس لینا ہوگا، کیونکہ یہ بل مسلمانوں کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چھٹی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن حافظ محمد شعیب اللہ خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے ارکان مفتی مختار حسن قاسمی و محمد حارث پٹیل بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں اکابر حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی چھٹی نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS


Sunday, October 6, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی و مولانا ابو طالب رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!

 وقف ترمیمی بل ناقابل قبول ہے، اوقاف کے تحفظ کیلئے مسلمان بیدار ہوجائیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی و مولانا ابو طالب رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 04؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی حضرت مولانا محمود احمد خان صاحب دریابادی مدظلہ نے فرمایا کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے خلاف روز بروز نئے قوانین بنا رہی ہے اور طرح طرح سے مسلمانوں کو پریشان کر رہی ہے۔ اب حکومت نے مسلمانوں کی جائیدادوں کو جو ہمارے آباء و اجداد اور بزرگوں نے مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف کیا تھا۔ ان پر قبضہ کرنے کے لیے وقف ترمیمی بل 2024ء لایا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک کو ختم کرنے کا عمل برطانوی راج میں شروع ہوا تھا۔ نہ صرف وقف املاک کو ذاتی اثاثوں کے طور پر فروخت اور منتقل کیا گیا بلکہ انگریزوں نے ایسی پالیسیاں بھی نافذ کیں جن کی وجہ سے ان کی تباہی اور قبضہ ہوا۔ اس کے بعد اس وقت ہمارے بڑوں نے وقف املاک کی حفاظت کیلئے کوششیں کیں - پھر آزادی کے بعد 1995ء میں ایک نیا وقف ایکٹ بنایا گیا اور 2013ء میں اس میں ترمیم کر کے ریاستی وقف بورڈوں کو مزید اختیارات دیے گئے۔ گرچہ اس قانون میں بھی کئی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، لیکن وہ وقف جائدادوں کے تحفظ کیلئے بڑی حد تک کامیاب ہیں۔لیکن موجودہ حکومت نے حالیہ دنوں میں جو وقف ترمیمی بل 2024ء اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، اسکی شقیں نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہیں بلکہ وقف املاک کے لیے خطرناک بھی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف جائیدادوں سے متعلق کسی بھی تنازع میں آخری فیصلہ ’وقف ٹربیونل‘ کا ہوتا ہے۔ لیکن نئی بل کی منظوری سے کلکٹر راج وجود میں آئے گا۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کون سی جائیداد وقف ہے اور کون سی نہیں ہے، ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی طرح حکومت نے سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم ارکان کے تقرر کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائیدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔ یہ براہ راست ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ جو ترامیم کی گئی ہیں ان سے وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت بدل جائے گی اور حکومت کے لیے ان پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا اور وقف املاک مسلمانوں کے ہاتھ سے چھین لئے جائیں گے۔ لہٰذا اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا جائے گا۔ ایسے وقت میں ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقف کی حفاظت کیلئے بیدار ہوجائیں اور اپنے بڑوں کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کی مستقل مذہبی حیثیت ہے، اس کا مکمل نظام ہے، رسول اللہﷺ کے دور سے لے کر اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے، وقف عام انسانوں کی معاشی، رفاہی اور سماجی ترقی کا ضامن ہے، وقف کا فائدہ تمام انسانوں کو پہونچتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ ہماری بے توجہی اور غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑی تعداد میں وقف جائیدادوں کو اونے پونے داموں میں بیچ دیا گیا۔ خود مسلمان بھی کثرت سے وقف جائیدادوں کے استحصال میں شامل ہیں۔ لگاتار واقف کے منشاء اور وقف کے اغراض و مقاصد کو بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے، بڑے بڑے کاروباریوں، فیکٹریوں کے مالکان اور مفاد پرست لوگوں نے وقف کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ بہت ساری وقف اراضی پر حکومت نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں، کئی ایکڑ زمینوں کی حصار بندی کر دی اور ان پر قبضہ کرلیا۔ لیکن ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت کو تو چاہئے تھا کہ اوقاف کے قوانین کو مضبوطی سے نافذ کریں اور وقف املاک کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرے لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کی شقیں دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہیکہ حکومت کی نیت وقف املاک اور مسلمانوں کے تعلق سے صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف املاک کی حفاظت کے بجائے مجوزہ بل کے ذریعے وقف املاک کو ہڑپنے کی کوشش کررہی ہے۔ اور مسلمانوں کو انہیں کے وقف کردہ املاک سے دستبردار کرنا چاہتی ہے۔ایسے میں ضرورت ہیکہ ہم بحیثیت مسلمان اور ہندوستان کے شہری، ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جد و جہد کریں اور اس غیر آئینی وقف ترمیمی بل 2024ء کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ملت اسلامیہ کو کسی بھی طرح کے تجاوزات، غیر قانونی قبضہ یا وقف املاک کی غیر مجاز منتقلی کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے، وقف املاک کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال اور تحفظ میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے عوامی بیداری مہم چلائیں گے، جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن مولانا عبد الاحد بستوی کی تلاوت سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے ارکان مولانا سید ایوب قاسمی، قاری یعقوب شمشیر، محمد حارث پٹیل بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS


Saturday, October 5, 2024

وقف اللہ کی ملکیت ہے، اور وقف ترمیمی بل، وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے!

 وقف اللہ کی ملکیت ہے، اور وقف ترمیمی بل، وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا عبد الرحیم رشیدی و مفتی حذیفہ قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 03؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چوتھی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔ مسلمانوں نے ہر دور اور ہر دیار میں اس کارخیر اور فلاحی پروگرام کو رواج دیا ہے۔ اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے، انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے، مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے، مریضوں اور پریشان حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اہل علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہندوستان میں وقف املاک کی حفاظت کیلئے وقف قانون بنایا گیا تھا لیکن موجودہ حکومت اس میں ترمیمات کرنا چاہتی، اور مجوزہ وقف ترمیمی بل کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، یہ بجائے وقف املاک کی حفاظت کے اسکو ہڑپنے کی کوشش کررہی ہے- مولانا دوٹوک فرمائے کہ یہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے اور اسے فوراً واپس لے لیا جائے، اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ جو چاہے کرسکتی ہے تو یہ انکی بھول ہے، طاقت اور اقتدار کی کرسی ہمیشہ کیلئے نہیں رہتی، ملک کے باشندوں کو انکے جمہوری حق سے دستبردار کرنا سب سے بڑا ظلم ہے، جسے کسی بھی قیمت برداشت نہیں کیا جاسکتا- مولانا نے فرمایا کہ اوقاف کی مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے-



تحفظ اوقاف کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے ناظم تنظیم حضرت مفتی سید حذیفہ قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ایک عبادت ہے، جب کوئی شخص زمین وقف کرتا ہے تو واقف کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور اس زمین پر اللہ کی ملکیت قائم ہوجاتی ہے- مولانا نے فرمایا کہ ملک کی آزادی کے بعد وقف ایکٹ بنایا گیا اور مختلف مواقع پر اس میں ترمیم کی گئی، اس قانون کا مقصد وقف جائداد کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کے غلط استعمال کو روکنا تھا لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے- مولانا نے فرمایا کہ اس ترمیم میں ایک بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اب نئے وقف کونسل میں غیر مسلم بھی شامل ہوں گے بلکہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکیٹیو غیر مسلم بن سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ جب مندوں اور گرودوارہ کمیٹی میں کوئی مسلمان ممبر نہیں ہوتا ہے، تو پھر وقف بورڈ میں کوئی ہندو کیوں کر ممبر ہوگا اور اس کے مرکزی عہدوں پر ہندو کیوں کر فائز ہوسکتا ہے، کیا یہ مسلمانوں کی املاک کو غیر مسلموں کو دینے جیسا نہیں ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ کیا حکومت ہندو مندر کی کمیٹیوں میں مسلمانوں کو بھی شامل کرے گی؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہیکہ اس بل کے مطابق کوئی غیر مسلم وقف نہیں کرسکتا  لیکن وقف کا ممبر ضرور بن سکتا ہے؟ اس بل کی یہ شقیں خود حکومت کے منشاء پر سوال کھڑے کرتا ہے- مولانا نے فرمایا کہ وقف کے احکام کے مطابق واقف نے وہ جگہ جس  جہت اور مقصد کے لیے وقف کی ہو اس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، نہ اسکو کسی اور کام کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا تک جائز نہیں ہے- لیکن نئی ترمیم میں یہ داخل ہے کہ اوقاف کی جائداوں کو کس طرح استعمال کیا جائے گا اس کا حکومت تعیین کرے گی، ظاہر ہے کہ یہ ترمیمی وقف کے اصول کے خلاف ہے- اس ترمیمی کے ذریعے حکومت وقف کو جہاں چاہے گی استعمال کرے گی، جس کے ذریعے سے وقف کی جائدادیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی- ایسے ہی بہت ساری خرابیاں اس بل میں شامل ہیں- مولانا نے فرمایا کہ یہ ظاہر ہیکہ موجودہ حکومت کو مسلمانوں کی اوقاف سے بھی تکلیف ہے اور وہ کسی قیمت ان جائداوں کا ناجائز قبضہ چاہتے ہیں- لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم عوامی بیداری پیدا کریں اور وقف کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہیں- 



قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چوتھی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن تاسیسی مولانا محمد قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، ارکان قاری یعقوب شمشیر، شبلی محمد اجمعین بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی چوتھی نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS

Tuesday, October 1, 2024

حکومت فوری طور غیر آئینی وقف ترمیمی بل کو واپس لے، یہ بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے!

 حکومت فوری طور غیر آئینی وقف ترمیمی بل کو واپس لے، یہ بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی اختتامی نشست سے اکابر علماء ہند کا ولولہ انگیز خطاب!

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی صدارت، حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی کی سرپرستی، امت کے نام اہم پیغامات!



حضرت مولانا فضل الرحیم مجددی، حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، حضرت مولانا صغیر احمد رشادی، حضرت مولانا محمد یوسف علی، حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری، حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی، حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی و دیگر کے اہم خطابات!

 

بنگلور، 30؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے کے زیر اہتمام منعقد ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی اختتامی نشست ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث امیر ملت حضرت اقدس مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ کی سرپرستی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔


اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں صدر بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کا مسئلہ ملت اسلامیہ کے ملی وجود کا مسئلہ ہے، اگر یہ وقف ترمیمی بل پاس ہوگیا تو ہمارے مساجد و مدارس، خانقاہیں، درگاہیں، قبرستانیں سب کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، وقف املاک حکومت کی مہربانی سے مسلمانوں کو نہیں ملی بلکہ مسلمانوں کے آباؤ اجداد نے اللہ کے نام پر دینی و خیراتی ضرورتوں کے لئے اپنی حق حلال کی کمائی وقف کی ہے۔ لہٰذا حکومت کا وقف ترمیمی بل کے ذریعے وقف املاک کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش غیر آئینی و غیر دستوری ہے- مسلمانوں اور تمام انصاف پسند افراد کو وقف بل کی مخالفت کرنی چاہئے۔ بورڈ اس بل کو روکنے کے لیے قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے مختلف سطح پر کوشش کر رہا ہے، اور وہ حالات کو سامنے رکھ کر احتجاج کی مختلف  امن صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ بورڈ جب بھی آواز دے، اور جس بات کی اپیل کرے، تمام مسلمان دل و جان سے اس پر عمل کریں، اور وقف کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس بل کو واپس لے لے اور ایسا قانون بنانے سے گریز کرے جو اقلیت دشمنی پر مبنی ہے۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مدظلہ (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ اب تک مختلف قوانین کے ذریعے مسلمان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ وقف ترمیمی بل سب سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ اس سے ہماری مساجد، مدارس، خانقاہیں، قبرستان، وغیرہ سب داؤ پر لگ جائیں گی اور اگر یہ بل پاس ہوگیا تو انکا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ سابقہ وقف قانون وقف املاک کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کافی تھا لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو ہڑپنے کی گھناؤنی سازش ہے، اس بل میں وقف ٹربیونل کو ختم کرکے سارے اختیارات کلکٹر کو دئے جارہے ہیں اور وقف بائے یوزر کو بھی ختم کردیا جارہا ہے۔ ظاہر ہیکہ وقف کے تعلق سے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، یہ مسئلہ ملت کی موت و حیات کا ہے، اس کیلئے ہم سب کو تیار رہنا ہے اور آخری حد تک اس کے خلاف لڑائی لڑنی ہے، اس سلسلے میں متحد ہو کر ہم سب کو عوامی بیداری پیدا کرنی چاہیے۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف خالص مذہبی و دینی مسئلہ ہے، ہم اس ملک میں اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ رہیں گے، وقف ترمیمی بل ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہے، اور ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، لہٰذا حکومت اسے فوراً واپس لے، یہی ملک و ملت کے حق میں بہتر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف بائے یوزر کو ختم کرنا، سارے اختیار کلکٹر کے حوالے کرنا اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے- یہ مسلمانوں کو کبھی منظور نہیں ہے- اگر حکومت نے یہ غیر دستوری بل زبردستی پاس کروایا تو مسلمان اپنی آئینی و جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اس بل کے خلاف تاریخ ہند کا سب سے زبردست اور سخت ترین احتجاج درج کرائے گا۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت نقصاندہ ہے، یہ بل قانون کے نام پر لاقانونیت ہے، حکومت کی منشاء وقف جائیدادوں پر قبضہ کا ہے۔ ہماری بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اس بل کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ضرورت ہیکہ ہم عوامی بیداری پیدا کریں اور اپوزیشن نیز حلیف پارٹیوں سے دوٹوک بات کی جائے کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔مولانا نے فرمایا کہ اس ملک میں اگر ہمیں اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ جینا ہے تو ہمیں حق لینا کا ہنر بھی جاننا ہوگا، زندہ قومیں ہمت و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں، لہٰذا اگر یہ بل واپس نہیں ہوتا تو بوقت ضرورت بورڈ کی آواز پر ہمیں ملک گیر احتجاج کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد رشادی صاحب مدظلہ (رکن عاملہ بورڈ) نے فرمایا کہ وقف املاک اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، موجودہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیمات ذریعے ہماری وقف جائیدادوں کی حیثیت کو گھٹانے اور ان پر قبضے کرنے کی کوشش کررہی ہے، لہٰذا ہماری دینی و ملی ذمہ داری ہیکہ ہم اس کی حفاظت کیلئے کوشش کریں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے رکن عاملہ حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری صاحب مدظلہ (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے، لہٰذا اوقاف کی حفاظت کیلئے امت کو بیدار کرنا چاہیے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت شمالی مشرقی ہند حضرت مولانا محمد یوسف علی صاحب مدظلہ (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ اوقاف کی حفاظت اوت وقف ترمیمی بل کی مخالفت اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مدظلہ (سکریٹری بورڈ) نے فرمایا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل اوقاف کی جائدادوں کو کنٹرول کرنے، مسلمانوں کو وقف املاک سے محروم کرنے اور وقف کرنے کی استطاعت کو محدود کرنے کیلئے لایا جارہا ہے۔ یہ بل دستور ہند کے خلاف ہے، اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت ہے۔ مولانا نے اس بل کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ اس بل کے خلاف ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپوزیشن کو بھی اس کیلئے آمادہ کریں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند) نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس کرنے، ہڑپنے اور مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی موجودہ حکومت کی سوچی سمجھی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ لہٰذا اس بل کی مخالفت کرنا ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہیے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کیلئے نقصان دہ ہے، اس بل سے وقف املاک پر قبضہ کی راہ ہموار ہوگی، لہٰذا ضرورت ہیکہ اوقاف کی حفاظت کیلئے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز شعبہ قرأت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے صدر حضرت قاری ریاض احمد مظاہری صاحب مدظلہ کی تلاوت اور دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ قرأت کے استاذ حضرت قاری اقرار احمد بجنوری صاحب مدظلہ کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان بطور خاص موجود رہے۔ اپنے خطاب میں تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ہفت روزہ ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ کانفرنس کے اختتام سے قبل مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی نے تحفظ اوقاف کانفرنس کا ”اعلامیہ“ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اکابرین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS