Wednesday, 28 July 2021

مہاراشٹر، کرناٹک اور دیگر سیلاب متاثرین کیلئے بلاتفریق مذہب و ملت امداد کرنے مرکز تحفظ اسلام ہند کی اپیل!


 مہاراشٹر، کرناٹک اور دیگر سیلاب متاثرین کیلئے بلاتفریق مذہب و ملت امداد کرنے مرکز تحفظ اسلام ہند کی اپیل!

سیلاب متاثرین کی امداد کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری ہے: محمد فرقان


 بنگلور، 28 ؍ جولائی (پریس ریلیز): گزشتہ چند دنوں سے مہاراشٹر سے لے کر کرناٹک،گوا، آندھرا پردیش، راجستھان اور بہار تک بارش کا قہر جاری ہے۔ اور اس موسلا دھار بارش کی وجہ سے مختلف ریاست کے کئی اضلاع میں سیلاب کی سی صورت حال ہے۔ جس کی وجہ سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے، ہزاروں لوگ اس کی زد میں آکر بے گھر ہوگئے ہیں اور سینکڑوں افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔ جس پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ خشکی و تری میں جو فساد برپا ہوتا ہے، جو تغیر و تبدل ہوتا ہے، یہ انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے یعنی انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر بارش اور پانی کا ذکر کیا اور اسے عظیم نعمت قرار دیا ہے۔ جس کے بغیر انسان تو انسان کسی بھی جاندار کی حیات کا تصور ممکن نہیں، روئے زمین پر ساری حیاتیات کا دارومدار پانی پر ہے۔ الغرض پانی ایک ناگزیر انسانی ضرورت ہے، لیکن ایسی ناگزیر ضرورت کو اللہ تعالیٰ اس وقت تباہی کے سامان میں تبدیل کرتے ہیں جب روئے زمین پر انسانی معاشرہ میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور بندگان خدا رب کی بندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر خدا فراموشی اور عصیاں شعاری پر اتر آتے ہیں، آج کونسی اخلاقی خرابی ہے جس سے ہمارا سماج محفوظ ہو؟ محمد فرقان نے فرمایا کہ جب تک مسلمان دین پر قائم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ان کے موافق کردیتا ہے، اور جب وہ دین کی ناقدری کرتے ہیں تو نظام کائنات کو ان کا مخالف کردیا جاتا ہے، آسمان سے پانی کا برسنا اور زمین کا زلزلوں سے محفوظ رہنا سب کا تعلق نظام کائنات سے ہے، جس کا سرا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کہیں بارش سرے سے ہی نہ ہو تو یہ قحط سالی اور پریشانی کا باعث ہے اور اگر کسی جگہ حد سے زیادہ بارش ہو جائے تو یہ بھی پریشانیوں، تکلیفوں، اور مصیبتوں کا باعث ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارش کا جو معیار ہے اس سے کم بھی تکلیف کا باعث اور اس معیار سے زیادہ بھی پریشانی کا باعث ہے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ موجودہ تباہ کن سیلاب ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم اپنے احوال کو درست کرلیں اور سارے گناہوں سے سچی توبہ کرکے رجوع الی اللہ کا اہتمام کریں۔ اسی کے ساتھ سیلاب متاثرین کی مدد کرنا ہمارا ملی و اخلاقی فریضہ ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے اہل خیر حضرات سے اپیل کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے مختلف ریاستوں بالخصوص مہاراشٹر اور شمالی کرناٹک کے بہت سے اضلاع سیلاب سے متاثر ہوگئے ہیں - سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے لوگ بے آسرا و بے سہارا ہوگئے اور بہت سارے لوگ بیمار اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ایسی حالت میں امت مسلمہ کے ہر فرد کو چاہیئے کہ ان کا تعاون کریں، ان کا سہارا بنیں، ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی تصور کریں،ان کے غم کو مٹانے کی فکر کریں۔ ان کے گھر بسانے کے لئے آگے آئیں، کھانے پینے کے سامان کا انتظام کریں، جن کے اعزہ و اقارب سیلاب کے زد میں آگئے ان سے تسلی کی باتیں کریں۔ بلکہ ایسے موقع پر تمام لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور بلا تفریق مذہب و ملت، بلا رنگ و نسل مالی اعتبار سے اور دیگر ضروری اشیاء کے ذریعے امداد و اعانت کریں، اگر براہ راست کوئی امداد کی شکل نظر نہ آئے تو جو تنظیمیں وہاں کام کررہی ہیں انکا ساتھ دیتے ہوئے انکا تعاون کریں تاکہ سیلاب متاثرین کی زندگیوں میں دوبارہ خوشحالی واپس آئے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ امداد کے ساتھ ساتھ سیلاب کے ان واقعات سے ہمیں عبرت حاصل کرنا چاہیے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اللہ کے دربار میں رجوع ہو کر اپنے گناہوں سے معافی مانگنی چاہیے۔

Saturday, 24 July 2021

ایثار و قربانی اور اطاعت ربانی عید قرباں کا پیغام ہے!



 ایثار و قربانی اور اطاعت ربانی عید قرباں کا پیغام ہے!

علماء کرام کے ولولہ انگیز خطابات سے مرکز تحفظ اسلام ہند کی” ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ اختتام پذیر!


 بنگلور، 24؍ جولائی (پریس ریلیز): قربانی دراصل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم سنت کی یاد ہے جب وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے لخت جگر، نورِ نظر اور محبوب بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے چلے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک اس سنت کو زندہ و تابندہ کر دیا۔ کروڑوں مسلمان ہر سال اس ”ذبح عظیم“ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم سنت ہر سال ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے کہ اگر خدا کی دوستی چاہتے ہو تو ہر چیز کو اس کی رضا پر قربان کر دینے کے لیے تیار رہو۔ اگر دنیاوی اسباب کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے طلب گار ہو تو ایثار و قربانی اور اطاعت و وفا کی راہوں پر گامزن ہو جاؤ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں خصوصی رحمتوں کے متمنی ہو تو اس کے ہر حکم اور ہر اشارہ پر سر تسلیم خم کر دو۔ انہوں نے فرمایا کہ قربانی محض ایک رسم نہیں کہ جانور خریدا اور ذبح کر دیا۔ یہ عبادت ہے، اس میں ایک عظیم سبق ہے جسے ہم بھول چکے ہیں۔ اور یہ اس سبق کو بھولنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم دنیا میں عظیم افرادی قوت ہوتے ہوئے بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔ آج ہمارے پاس کونسی چیز نہیں؟ افرادی قوت بھی موجود ہے، وسائل بھی میسر ہیں، دولت کی بھی کمی نہیں اور ارباب فہم و دانش بھی موجود ہیں۔ پھر ہم کیوں سرگرداں ہیں؟ ہمیں اپنا راستہ اور منزل کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر سر جھکانے اور دین و ملت کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کی ادا بھلا دی ہے۔ محمد فرقان نے کہا کہ آج بھی ہم اطاعت خداوندی اور ایثار و قربانی کا راستہ اختیار کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت آگے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھامے گی۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند روز اول سے اکابرین کی سرپرستی میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔حالات کے پیش نظر مختلف پروگرامات اور کانفرنسوں کا انعقاد کرتے رہتا ہے۔ اسی طرح عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی کی فضیلت و اہمیت سے امت مسلمہ کو واقف کروانے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے یکم ذی الحجہ سے ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کا آغاز کیا۔ جس سے حضرت مولانا محمد مقصود عمران صاحب رشادی (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور)، حضرت مولانا مفتی ہارون صاحب ندوی (صدر جمعیۃ علماء جلگاؤں و ڈائریکٹر وائرل نیوز انڈیا)، حضرت مولانا سید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی (استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)، حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد صاحب قاسمی (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی (بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور)، حضرت مولانا مفتی اشرف عباس صاحب قاسمی (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا مفتی افتخار احمد صاحب قاسمی (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے مختلف موضوعات پر بصیرت افروز خطاب فرمایا۔مرکز کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس کانفرنس کی اختتامی نشست09؍ ذی الحجہ مطابق 19؍ جولائی2021ء بروز پیر کی شب منعقد ہوئی۔جسکی صدارت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی نے فرمائی، جبکہ بطور مہمانان خصوصی حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب رحمانی (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) اور حضرت مولانا ابو طالب صاحب رحمانی (رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) شریک ہوئے اور اپنی قیمتی خطابات سے برادران اسلام کو مستفید فرمایا، البتہ بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کسی اہم مصروفیت کی وجہ سے شریک نہیں ہوپائے۔ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جارہا تھا، جسے دیکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔تمام حضرات علماء کرام نے یہ واضح پیغام دیا کہ عید قرباں کا مقصد جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دینا ہی قربانی ہے۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اسکے اندر نکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب اور حصول تقویٰ کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی کے ساتھ تمام حضرات اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام 12؍ جولائی 2021ء سے جاری ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کا اختتام 19؍ جولائی 2021ء کو مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی کے صدارتی خطاب و دعا سے ہوا۔ اس موقع پر مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کانفرنس سے خطاب کرنے والے تمام اکابر علماء کرام اور سننے والے تمام ناظرین اور اراکین مرکز تحفظ اسلام ہند کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج ملت اسلامیہ کو عید قرباں کا پیغام اور مقصد سمجھتے ہوئے اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

Wednesday, 21 July 2021

عید قرباں کا مقصد مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے!


عید قرباں کا مقصد مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے!

حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کی زیر صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس کی اختتامی نشست کا انعقاد!

مولانا عمرین محفوظ رحمانی اور مولانا ابو طالب رحمانی کا خصوصی خطاب!


ٍ بنگلور، 20؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام گزشتہ ایک ہفتے سے جاری عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی اختتامی نشست کل رات منعقد ہوئی۔ جسکی صدارت عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت نے فرمایا کہ قربانی بلا شبہ ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ جو ہر صاحب نصاب پر واجب ہے۔ آپؐ کا ہر سال پابندی سے قربانی کرنا اسکی اہمیت و فضلیت اور عند اللہ اسکے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ عید الاضحٰی حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی اور جاں سپاری کی یادوں کی سوغات لاتی ہے، جو انہوں نے اپنے رب کے حضور میں پیش کی تھی۔ جو قربانی اور جانثاری کی شاندار مثال ہے۔ حضرت ندوی مدظلہ نے فرمایا کہ عید قرباں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس انوکھے عمل کی یاد دلاتا ہے جب آپ ؑ نے اپنے نور نظر لخت جگر اور بے حد فرمانبردار بیٹے کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنی طرف سے قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے تھے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دکھایا تھا جس کو پورا کرنا ہمہ شمہ اور بڑے سے بڑے کے بس میں نہیں تھا اور نہ ہے۔ بات کہنے میں بڑی آسان لگتی ہے کہ رضائے الٰہی کیلیے ایک باپ نے اپنے اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلادی۔ تصورات کی دنیا میں یہ امر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ لیکن دل اگر نور ایمانی سے معمور ہو اور جذبہئ روحانی سے روشن ہو جسکا ظاہر معرفت خداوندی سے مزین اور جسکا باطن محبت و اطاعت اور تسلیم و رضا سے منور ہو تو خدا کی محبت میں ہر چیز کا لٹانا آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ قربانی کے لیے اخلاص ضروری ہے۔ اخلاص اللہ کو بے حد پسند ہے۔ اخلاص کے نتیجہ میں بظاہر معمولی عمل بھی اللہ کے نزدیک غیر معمولی ہو جاتا ہے۔ قربانی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی یاد میں کی جاتی ہے۔ وہ ان دونوں ہستیوں کا اخلاص ہی تھا اور اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع فرمان کرنے کا جذبہ تھا جو اللہ کو اس قدر پسند آیا ہے کہ اس نے قیامت تک آنے والے ان تمام انسانوں کے لیے جو ایمان لائیں گے اس عمل کو لازم قرار دے دیا۔ حضرت رابع صاحب نے فرمایا کہ قربانی تو محض ایک علامت ہے، خون کا بہانا اور جانور کی گردن پر چھری کا چلانا یہ صرف علامت اورنشانی ہے، حقیقی قربانی تو اپنے جذبات، خواہشات، اپنے ارمانوں اور آرزؤں کی دینی ہے، خدا عزوجل کے احکام کے سامنے اپنے کو خم کرنا ہے، ہر حکم خدا وندی کے سامنے اپنے آپ کو جھکا لینا ہے۔ اسی کے ساتھ قربانی کی اس عظیم یادگار سے ہمیں پیغام یہ ملتا ہے کہ آج اس جانور کا خون اللہ تعالیٰ کے حکم پر بہایا جا رہا ہے، اگر ضرورت پڑی تو دین اسلام کی خاطر اسی طرح اپنے مال اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دوں گا۔ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب نے فرمایا کہ ضرورت ہے کہ ہم قربانی کی اس روح اور پیام و پیغام کو سمجھیں اور اس سے حاصل ہونے والے دروس و عبرت سے نفع اٹھائیں اور زندگی کے جس موڑ پر ہم سے جیسی قربانی مانگی اور چاہی جائے ہم اس کے لئے اپنے کو تیار رکھیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ عید قرباں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اور سنت ہے جس میں انہوں نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔ یہ قربانی ہماری اطاعت اور ہماری آمادگی کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم حکم خدا پر اپنی محبوب شے کو بھی قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں گے۔ عید قرباں کا مقصد بھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا یہی قربانی ہے۔ اس سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے اور فکر آخرت میں مگن رہیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے فرمایا کہ عید قرباں کے موقع پر پوری دنیا میں مسلمان حکم خداوندی کی تعمیل میں کثیر تعداد میں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ یقیناً قربانی ایک مہتم بالشان عمل ہے اور بلاشبہ بڑے شوق وذوق سے مسلمانوں کو قربانی کرنی بھی چاہئے۔ اسی کے ساتھ ہمیں صفائی و ستھرائی کا بھی بھر پور خیال رکھنا چاہیے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو صفائی ستھرائی اور نظافت و پاکیزگی کا بڑا تاکیدی حکم دیا ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور صفائی ستھرائی کا خوب خیال رکھیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے تو اللہ اس نعمت کو واپس چھین لیتا ہے۔ ذی الحجہ کا مبارک مہینہ میں پوری دنیا سے لوگ حج بیت اللہ کیلئے سفر کرتے تھے لیکن کرونا کی وجہ سے امسال بھی ہم لوگ اس سے محروم رہے۔ شاید ہم لوگوں نے اس نعمت کی ناقدری کی ہے، ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی چاہیے اور اسکی قدر کرنی چاہیے۔


قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے مرکز کی خدمات پر مختصر روشنی ڈالی۔صدر جلسہ سمیت تمام حضرات علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Tuesday, 20 July 2021

یوم عرفہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل دن ہے، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے!


 

یوم عرفہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل دن ہے، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی ساتویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر اور جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن کے مہتمم حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ماہ ذی الحجہ کو بڑی فضیلت و اہمیت سے نوازا ہے۔ بالخصوص ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے ایام ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے اور اللہ تعالیٰ معمولی چیزوں کی قسم نہیں کھاتے بلکہ مہتم بالشان چیزوں کی قسم کھاتے ہیں۔ چنانچہ چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی“ یہاں دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج کا اہم رکن اور وقوف عرفہ منیٰ میں قیام اور قربانی کا عظیم فریضہ بھی اسی عشرے میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے خاص فضل و کرم حاصل کرنے کا عشرہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ میں عبادتوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایام میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ ان دس دنوں میں ہر نیک عمل کا اجر وثواب دوسرے دنوں کی بنسبت زیادہ ہے۔ پہلے نو دنوں میں سے کسی بھی دن روزہ رکھنا خاص ثواب رکھتا ہے۔ لیکن عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کے روزے کی فضیلت زیادہ ہے۔ نبی کریمﷺ سے عرفہ کے روزے کے متعلق دریافت کیے جانے پر فرمایا کہ ”گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔“ مولانا نے ایک اورحدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہیکہ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے اسی کے ساتھ فرمایا کہ 9؍ ذوالحجہ کی فجر سے 13؍ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز کے ساتھ ایک بار تکبیرات تشریق پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اور ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے۔ مولانا نے قربانی کی اہمیت و فضیلت بتاتے ہوئے فرمایا کہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ اور دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ کو نہ ہمارے قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون؛ لیکن اس کے پاس ہمارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال و وقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ کرونا وائرس کے اس خوف ناک ماحول میں ہم سب کی حتی الامکان کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا زیادہ سے زیادہ وقت طاعت و عبادت میں صرف ہو، ہم اپنے شب وروز مالک الملک کو منانے اور روٹھے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں گزاریں، معاصی اور گناہوں سے کلی اجتناب کی فکر کریں بالخصوص آنکھ اور زبان کے گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ کی پہچان اور شناخت کا دن ہے! مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد اشرف عباس قاسمی کا خطاب!



 یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ کی پہچان اور شناخت کا دن ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد اشرف عباس قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی محمد اشرف عباس صاحب قاسمی نے فرمایا کہ سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینے: محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ جس طرح بڑے احترام وعظمت والے مہینے ہیں ٹھیک اسی طرح دنوں میں چار دن: عیدین، جمعہ اور عرفہ کے دن بڑے احترام والے دن ہیں، پہر ہفتہ بھر کے دنوں میں افضل دن تو جمعہ کا ہے! لیکن سال بھر میں سب سے افضل ترین دن نو ذی الحجہ یعنی عرفہ کا دن ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرفہ، ماہ ذوالحجہ کے نویں دن کو کہا جاتا ہے، جس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے لہٰذا اس مناسبت سے تاریخ اسلام میں کثیر تعداد میں روایات و احادیث ملتی ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ عرفہ حج کا اعظم رکن ہے۔ عرفہ کا مطلب معرفت کرانا یا پہچاننا ہے۔ یہ دین اسلام کی تکمیل اور نعتموں کے اتمام کا دن ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرفہ کا دن اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی قسم کھائی ہے۔ مولانا قاسمی نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یوم عرفہ سے زیادہ کسی اور دن میں اپنے بندوں کو آگ سے آزادی نہیں دیتا، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے قریب ہوتا اور پھر فرشتوں کے سامنے بندوں کے تعلق سے فخر کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے دو سال کے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں یعنی عرفہ کا روزہ گزرے ہوئے اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ مولانا نے ایک اہم مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ روزہ رکھنے والے کے شہر و ملک میں 9؍ ذی الحجہ کی تاریخ جس دن پڑے گی وہ اسی دن روزہ رکھیں، ان کا عرفہ وہی دن ہوگا، کیونکہ میدان عرفات میں حجاج کے قیام کی تاریخ دنیا کے دیگر آبادی و شہر والوں کے لئے اس بابت دلیل و حجت نہیں۔ مولانا اشرف عباس قاسمی نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ”عرفہ ہی حج ہے“- انہوں نے فرمایا کہ وقوفِ عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدانِ عرفات میں پہنچنا اس کے حج کی ادایگی کے سلسلے میں سب سے بڑا رُکن ہے، جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چناں چہ حج کے دو رکنوں؛ طواف الافاضہ اور وقوفِ عرفات میں وقوفِ عرفات چوں کہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے، اس لیے اگر یہ ترک ہو گیا تو حج ہی نہیں ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ عظیم دن ہمیں یوم حشر رب کے حضور پیشی کی فکر اور عملی تربیت بھی مہیا کرتا ہے کہ کچھ اسی طرح سے مخلوق حشر میں اپنے اعمال کی جوابدہی کیلئے اللہ کے حضور پیش ہوگی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ کی پہچان اور شناخت کا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے اور اپنے بندوں کے لیے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دستر خوان بچھا دیئے ہیں، یہ دن اللہ تعالیٰ کی پہچان، معرفت اور محبت کا مظہر ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ دن نہایت مبارک ہے کہ اس میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس دن روزہ، تلاوت، ذکر و استغفار کا کثرت کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی اشرف عباس صاحب قاسمی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔