Friday, 13 September 2024

جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو رائے دینا کیوں ضروری؟

 جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو رائے دینا کیوں ضروری؟


✍️ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ 

(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)


وقف ترمیمی بل 2024ء اپنے مشمولات کے اعتبار سے خطرناک اور نقصاندہ ہے، 1995ء میں بنائے گئے وقف ایکٹ میں تبدیلی اور ترمیم کے نام پر لائے گئے اس بل میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں ان کے پیش نظر یہ سمجھنا آسان ہے کہ حکومت کی نیت کیا ہے اور آنے والے دنوں میں وہ کیا کرنا چاہتی ہے، ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائیدادیں مسلمانوں کا قیمتی سرمایہ ہیں،حکومت وقف ترمیمی بل کے ذریعے ان پر قبضے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے، اسی لئے اس وقف ترمیمی بل میں’’وقف بائے یوزر‘‘ختم کیاجارہا ہے اور کلکٹر کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی جائیدادوقف کی ہے اور کون سی سرکاری ملکیت کی ، اسی طرح وقف جائیدادکے اندراج کی بات بھی وقف ترمیمی بل میں موجود ہے اور تمام اوقاف جائیدادوں کو چھ مہینے میں اندراج نہ ہونے کی شکل میں ان پر بھی خطرے کی تلوار لٹکادی جائے گی، اسی طرح وقف بورڈمیں مسلمان ممبران کے علاوہ غیر مسلم ممبران کے اضافے کی بات بھی لکھی گئی ہے، ایک نقصاندہ پہلو یہ بھی ہے کہ آئندہ وقف کرنے والے شخص کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے مسلمان ہے، یہ اور اسی طرح کی کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے پیش نظر صاف محسوس ہوتا ہے کہ وقف ترمیمی بل ،پرانی وقف جائیدادوں پر قبضے اور نئے اوقاف قائم کرنے کے سلسلے میں مشکلات کھڑی کرنے کا باعث ہے۔اور مسلمانوں کے فائدے کے نام پر لایاجانے والا یہ وقف ترمیمی بل ہر لحاظ سے ان کے حق میں نقصاندہ ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت تمام دینی، ملی ،سماجی جماعتوں اورتنظیموں نے اس وقف ترمیمی بل کو مسترد کردینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی کوششیں کی جارہی ہیں۔


  چونکہ یہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہوسکا اور اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے پروسیجر کے مطابق پبلک ،اسٹیک ہولڈرس ، ماہرین اور مختلف اداروں سے رائے طلب کی ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بڑے پیمانے پر اس بل کے خلاف رائے دینے کی گزارش کی ہے اور اس کے لئے ایک سسٹم بھی جاری کیا ہے، بحمداللہ اب تک دو کڑور سے زیادہ ای میل کئے جاچکے ہیں اور آج 13؍ستمبر بروز جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، بعض لوگ ناواقفیت کی بنیاد پر یہ بھی کہہ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور برادران وطن کی تعداد زیادہ ہے، ایسے میں اگر دونوں طرف سے رائے بھیجی جارہی ہے تو برادران وطن کی رائے بڑھ جائے گی اور مسلمانوں کا نقصان ہوگا، کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان تنظیموں نے رائے دینے کو قبول کرکے بے وقوفی کا ثبوت دیا ہے، انہیں پہلے مرحلے ہی میں اس پر اعتراض جتانا چاہئے تھا کہ وقف چونکہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے اس لئے صرف انہی سے اس سلسلے میں رائے لینی چاہئے،کہنے کو تو یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے جب کوئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی یا سلیکٹ کمیٹی بنتی ہے تو اس کے نظام العمل اور پروسیجر کا یہ حصہ ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پبلک سے رائے مانگتی ہے ، اور اس میں کسی خاص طبقے کی تعیین نہیں کی جاتی ہے ، بلکہ کسی بھی مذہب یا ملک کی کسی بھی ریاست کا شخص ،کوئی سی زبان بولنے والا ہو، یا کسی تہذیب کا اپنانے والا ہو، اپنی رائے دے سکتا ہے ۔ جب رائے مانگنا اور کسی بھی طبقے کو مخصوص کئے بغیر رائے طلب کرنا جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے نظام العمل کا حصہ ہے تو اب یہ کہنا کہ مسلم تنظیموں کو اسے قبول ہی نہیں کرنا چاہئے تھا سرے سے غلط بات ہے ، جواب دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کل کلاں یہ معاملہ اگرکورٹ میں گیا تو کورٹ یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ سے جب رائے مانگی گئی تھی تو آپ نے رائے کیوں نہیں دی؟ اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ مسلمانوں کی رائے کم رہے اور برادران وطن کی رائے بڑھ جائے، اس لئےکہ تعداد اگرچہ برادران وطن کی زیادہ ہے ، لیکن جو مذہبی جذبہ ،اپنے دینی اور مذہبی معاملات سے تعلق اور محبت اسی طرح ملی مسائل سے جو وابستگی مسلمانوں میں ہے وہ دوسرے طبقوں میں نہیں ہے، اس کا تجربہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے چلائی گئی پچھلی مہم کے دوران بھی ہوا،اس وقت یونیفارم سول کوڈ کا سلگتا ہوا مسئلہ سامنے تھا، اور اس پر لاکمیشن آف انڈیا نے پورے ملک کے باشندوں سے رائے طلب کی تھی، شدت پسند غیر مسلم تنظیموں کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت میں رائے بھیجنے کی کوششیں بھی کی گئیں اور اس کے لئے مختلف تدبیریں بھی اختیار کی گئیں اس کے باوجود مسلمانوں کی رائے کا تناسب زیادہ رہا، مسلمانوں کی جو رائے لاکمیشن آف انڈیا کو پہنچی اس کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ کے آس پاس رہی اور دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کی رائے پچیس لاکھ کا عدد بھی پار نہ کرسکی۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ برادران وطن کی رائے زیادہ ہوجائے گی اور ہماری رائے کم پڑجائےگی یہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ اس کے قائم کرنے کا یہ مقصد ہے ،اسے تو صرف اپنی سفارشات اور تجاویز پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنی ہیں، اس لئے یہ سمجھنا کہ اگر برادران وطن کی رائے زیادہ چلی جائے گی تو یہ بل پاس ہوجائے گا یہ بھی غلط بات ہے ،ہاں اگر مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر رائے دی اور اس وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی (جیسا کہ وہ کررہے ہیں) تو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سمیت حکومت اور ملک کے باشندوں پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مسلمان اس سیاہ بل کے خلاف ہیں، اور یہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اس مہم کا بنیادی مقصد ہے ، اپوزیشن پارٹیز اور ارکان پارلیمنٹ کو متوجہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل اور بڑے پیمانے پر رائے بھیجنا ضروری ہے ،جب مسلمان اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے مضبوطی سے اپنی بات رکھیں گے تو اپوزیشن پارٹیز اوربر سر اقتدار پارٹی کا ساتھ دینے والی حلیف پارٹیوں کو بھی (جو الیکشن کے موقع پر مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے کے لئے بڑی ڈھٹائی سے چلی آتی ہیں)یہ محسوس ہوگا کہ مسلمان اس وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں سخت ناراض اور اس سے پوری طرح بیزار ہیں، اوراسی کے پیش نظر انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے ہوگی۔


  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ای میل بھیجنے کے سلسلے میں ماہرین قانون، وکلاء اور ملک و ملت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے علماء، قائدین اور دانشوروں سے مشاورت کے بعد یہ مہم شروع کی ہے، یہ کوئی عجلت یا جذباتیت میں لیا گیا فیصلہ نہیں ہے ،اس کے پورے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھ کر پھر فیصلہ کیا گیا ہے اور اللہ کا کرم ہے کہ یہ مہم بڑی حد تک کامیاب اور مؤثر ہے ، یہاں یہ بات بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ بورڈ نے صرف ای میل کے ذریعے رائے بھیجنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی ہے بلکہ اپوزیشن پارٹیز کے سربراہوں اور حکومت کی حلیف پارٹیز کے لیڈران سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا ہے ،اسی طرح ہر علاقے کے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں اور تحریری یادداشتیں بھی پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس متنازعہ اور نقصاندہ بل کے مضر پہلوؤں سے ان کو واقف کرایا جائے اور اگر دوبارہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوتا ہے تو ابھی سے اس کے نا منظور کئے جانے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس لئے مسلمانانِ ہند کسی تذبذب یا تردد میں پڑے بغیربورڈ کی اس مہم کا بھرپور ساتھ دیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں اور اگر اگلے مرحلے میں کسی تحریک کی ضرورت پڑے تو اس تحریک کے لئے بھی تیار رہیں کہ زندہ ملتوں اور قوموں کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور مشکلات اور مصائب سے پنجہ آزمائی کی راہ پر چلنا پڑتا ہے۔ حالات اگرچہ کہ ناموافق اور ناخوشگوار ہیں مگر ہمیں اپنی سی کوشش جاری رکھنی ہوگی اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، دل میں یہ یقین لئے ہوئے کہ یہ حالات زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں ،اور ظلم کی تاریکیوں اور اندھیریوں کے بعد صبح روشن کا طلوع ہونا ایک زندہ حقیقت ہے ؎

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں

دست فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے


٭…٭…٭

Thursday, 5 September 2024

وقف ترمیمی بل کے خلاف ہر انصاف پسند اپنی رائے یا تجویز جے پی سی کو ضرور دے: مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی

 حکومت وقف جائیدادوں پر تسلط چاہتی ہے، وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے!

وقف ترمیمی بل کے خلاف ہر انصاف پسند اپنی رائے یا تجویز جے پی سی کو ضرور دے: مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی




بنگلور، 04؍ ستمبر (پریس ریلیز): وقف ترمیمی بل 2024ء کے سلسلے میں ملک کے تمام باشندوں بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ سے ایک اپیل کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ایک خالص دینی اور مذہبی مسئلہ ہے، جس کا مقصد اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کے نفع کی غرض سے  اپنی کوئی چیزخاص کردینا ہے۔یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں نے رضائے الٰہی کے خاطر اپنی زمینیں، جائیدادیں، اپنی ملکیت کی چیزیں اللہ کی راہ میں وقف کی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں وقف جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقف قانون بنایا گیا تھا، جس میں اب تک کئی ترمیمیں کی جاچکی ہیں، گرچہ اس میں بھی کئی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، لیکن موجودہ وقف ایکٹ وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے بڑی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن موجودہ حکومت ہند نے حالیہ دنوں میں جو وقف ترمیمی بل 2024ء اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، اسکی شقیں نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہیں بلکہ وقف املاک کے لیے خطرناک بھی ہیں۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل ایسا ہے جسکی وجہ سے وقف جائیدادوں پر قبضہ کی راہ ہموار ہوگی۔ نیز تجویز کردہ تبدیلی ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔ جس کی وجہ سے وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت خطرے میں آجائے گی اور نئی چیزوں کو وقف کرنے کے سلسلے میں بھی دشواریاں پیدا ہونگی۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ مسلمانوں کی جائیداد پر اپنا تسلط چاہتی ہے، جو مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اس غیر آئینی بل کی مسلمان اور حزب اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہی ہیں۔ مولانا محمدعمرین محفوظ رحمانی نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام دینی اور ملی جماعتوں اور تنظیموں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ اس وقف ترمیمی بل 2024ء کو واپس لیا جائے۔حکومت نے پہلے وقف ترمیمی بل کو اسمبلی میں پیش کیا اور جب وہاں یہ کامیاب نہ ہوسکا تو  اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیج دیا گیا، اور مذکورہ کمیٹی نے عوام الناس، اسٹیک ہولڈرز، ماہرین اور این جی اوز سے رائے طلب کی ہیکہ وہ وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں اپنی تجویز یا رائے بھیجیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس سلسلے میں یہ عرض ہیکہ مسلمانان ہند کو بڑی تعداد میں اپنی رائے جے پی سی کو بھیجنی چاہیے۔ اس کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک QR کوڈ جاری کیا ہے، جس کے ذریعے ہر کوئی آسانی کے ساتھ اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں۔ رائے بھیجنے کے لیے QR کوڈ کو اسکین کریں یا نیچے دئے گئے لنک گوگل کروم میں پیسٹ کریں۔ لنک اوپن کرنے کے بعد ہندی یا انگریزی زبان منتخب کریں، اس کے بعد ”جی میل کھولیں“ پر کلک کریں، جواب جی میل میں کھلنے کے بعد صرف سینڈ بٹن پر کلک کرنے سے یہ جواب جے پی س کو پہنچ جائے گا۔مولانا نے ائمہ و خطباء مساجد سے گزارش کرتے ہوئے فرمایا کہ بورڈ کی جانب سے جو QR کوڈ جاری کیا گیا ہے وہ اپنی اپنی مساجد میں اسے چسپاں کروائیں اور اپنے مصلیوں کو ترغیب دیں کہ وہ ضرور بالضرور ای میل کے ذریعے اپنی اپنی رائے بھیجیں، نیز آنے والی جمعہ کو بھی استعمال کرتے ہوئے خطباء کرام اسی موضوع پر اپنی مساجد میں تقریر کریں۔ اسی طرح علاقائی و مقامی تنظیمیں، جماعتیں، انجمنیں دیگر کمیٹیاں اپنے طریقے اور اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے QRکوڈ کو لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں ای میل کرنے کی ترغیب دیں۔ اس موقع پر مولانا رحمانی نے سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے بھی اپیل کی کہ وہ ناظرین کو اسکی ترغیب دیں اور انہیں وقف ترمیمی بل 2024ء کے نقصانات سے بھی آگاہ کریں۔ مولانامحمد عمرین رحمانی نے فرمایا کہ جمہوریت میں اٹھے ہاتھوں کی قیمت ہوتی ہے گرے ہوئے ہاتھوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اس لئے ہمیں پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے دینی چاہیے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کیلئے آگے آنا چاہیے۔ تھوڑا وقت، تھوڑی صلاحیت اور تھوڑا سرمایہ ہمیں اس کام پر لگانا چاہئے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل 2024ء ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے اور مسلم اقلیتی شہریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، جو مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا ہر ایک انصاف پسند کو اسکی پرزور مخالفت کرنی چاہیے اور احتجاج اس پیمانے پر ہوکہ مرکزی حکومت اس بل کو پاس نہ کراسکے اور واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔

رائے بھیجنے کی لنک یہ ہے:

 https://tinyurl.com/is-no-waqf-amendment





#Press_Release #News #WaqfAmendmentBill #WaqfBill #WaqfBoard #UmrainRahmani #AIMPLB #MTIH #TIMS


Saturday, 10 August 2024

جمعیۃ علماء ہند کے وفد کا وائناڈ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ

 جمعیۃ علماء ہند کے وفد کا وائناڈ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ

ناظم عمومی کی قیادت میں وفد نے متاثرین سے ملاقات کی اور جان ومال کے نقصان کا جائزہ لیا

اس مصیبت کی گھڑی میں جمعیۃ علماء ہند بلا تفریق مذہب و ملت آپ کے ساتھ کھڑی ہے : مولانا ارشد مدنی



نئی دہلی، 10؍ اگست (محمد فرقان) : گزشتہ 26؍ جولائی کو شروع ہوئی طوفانی بارش سے کیرالا کے وائناڈ ضلع میں جو بھیانک تباہی ہوئی ہے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، چھ سوسے زیادہ لوگوں کی موتیں ہوچکی ہیں اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے، راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے، لیکن جس طرح کی تباہی ہوئی ہے اس کے پیش نظر وہاں وسیع پیمانہ پر راحت رسانی کی ضرورت ہے، جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی ہدایت پر جمعیۃ علماء کے ایک نمائندہ وفد نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور جان ومال کی جو تباہی ہوئی ہے اس کا مشاہدہ کیا۔ دورہ کے بعد وفد نے کہا کہ کیرالا میں سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں، جس پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کیرالا میں آئے تباہ کن طوفان کے متاثرین سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا ہے، اور انہیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں جمعیۃ علماء ہند بلاتفریق مذہب وقوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے، ہم مالک کائنات کے بندہ ہیں لہٰذا اس کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کردینا ہی ہماری بندگی کا تقاضا ہے، وہی ہماری پریشانی کا مداویٰ کرے گا، پھر بھی بطور اسباب کے جمعیۃ علماء ہند اور اس کے خدام اور اس کی شاخیں اپنی بساط کے مطابق طوفان متاثرین کی مدد و اعانت کے لئے سرگرم عمل ہیں، ساتھ ہی مولانا مدنی نے راحت رسانی بازآبادکاری، طبی خدمات و دیگر ضروری کاموں میں مصروف جمعیۃ کی ٹیموں کو یہ ہدایت دی ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر ہندو ہو یا عیسائی یا مسلمان تمام متاثرین کے لئے انسانی ہمدردی کے جذبہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح ایک ایسی ٹیم بھی تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جو دستاویز بنوانے میں متاثرین کی صحیح رہنمائی کرے اور سرکاری کاغذات کو درست کرائے تاکہ سرکاری اسکیم اور ریلیف سے فائدہ حاصل کرنے میں کسی طرح کی پریشانی سے بچاجاسکے۔ خدا کی ذات سے توقع ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی اس خدمت کو انجام تک پہنچانے میں مددکریگا، ان شاء اللہ۔ اور اسی وقت سے جمعیۃ علماء ہند نے مصیبت کی اس گھڑی میں ضلع وائناڈ کے میپاڑی میں مستقل ریلیف کیمپ قائم کردیا ہے جہاں سے متاثرین کو روزہ مرہ استعمال کی اشیاء فراہم کی جارہی ہے، اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو متاثرہ جگہ سے کہیں دور فی الحال کرایہ پر رہ رہے ہیں، انہیں بھی کھانے پینے اور پکانے کے لئے برتن وغیرہ دیئے جارہے ہیں اور جن کو ابھی تک کوئی رہنے کی جگہ دستیاب نہیں ہوسکی ہے ایسے تقریباً پانچ سو لوگوں کو روزانہ کھانا مہیا کرایا جارہا ہے، جمعیۃعلماء ہند یہ کام بلاتفریق مذہب وملت انجام دے رہی ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی دیتی رہے گی۔


وفد کی قیادت جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا مفتی سید معصوم ثاقب صاحب مدظلہ نے کی، وفد نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اب پنجیر مٹھم، منڈکئی، چورل ملائی گاؤں جو ایک ندی کے کنارے آباد تھے، پہاڑی سیلاب میں پوری طرح سماگئے، وہاں 26؍  جولائی سے مسلسل طوفانی بارش ہورہی تھی، اس لئے بھی فوری راحت رسانی کا کام متاثر ہوا، زمین کے تودوں کے کھسکنے کی وجہ سے تمام راستہ بند ہوگئے تھے، اور وہاں ہیلی کاپٹر سے ہی پہنچا جاسکتا تھا، بارش کے تھمنے کے بعد فوج نے بڑی مشقت کے بعد راستہ کھولے، صدر جمعیۃعلماء ہند نے اول دن سے کرناٹک اور کیرالا اکائیوں کو وہاں پہنچ کر راحت رسانی کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے، چنانچہ جیسے ہی راستہ کھلے جمعیۃ علماء کے رضاکار وہاں پہنچ گئے، صدر جمعیۃ علماء نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بعد میں اپنے ناظم عمومی مفتی سید معصوم ثاقب صاحب کی سربراہی میں ایک وفد وہاں بھیجا جس میں جمعیۃ علماء کرناٹک، میسور، ہاسن، چامراج نگر اور بنگلورکے اراکین کے ساتھ جمعیۃ علماء کیرالاکے اراکین بھی شامل تھے، وفد نے متاثرین سے ملاقات کرکے وہاں ہونے والی تباہی کی ہولناک داستان سنی، وفد کے ساتھ مقامی ممبر اسمبلی ایڈوکیٹ صدیق بھی تھے، یہاں مسلم لیگ اور بہت سی غیر سرکاری تنظیموں کے وہ نمائندہ بھی موجود تھے جنہوں نے ریسکیو کا کام کیا تھا، وفد نے ان لوگوں سے بھی ملاقات کیں، بعد ازاں وفد نے مقامی مسجد کے اس امام سے بھی ملاقات کی جس نے اپنے ہاتھوں سے بہت سی میتوں کو غسل دیا تھا اور ان کے کفن دفن کا انتظام کیا تھا، مذکورہ امام نے 26 جولائی سے 06 اگست تک وہاں جو کچھ ہوا اس کی دلخراش تفصیل وفد کو بتائی، ہر چند کے راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے لیکن اب بھی یہاں بڑے پیمانہ پر راحت رسانی کی ضرورت ہے، وفد نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پنجیر مٹھم 150، منڈکئی 200، اور چورل ملائی گاؤں میں تقریباً سو مکانات پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں، یہاں جو بازار تھا وہ بھی بے نام نشاں ہوچکا ہے، اب تک تقریباً چھ سو سے زیادہ لاشوں کو ملبہ سے نکالا جاچکا ہے، یہاں کثرت سے چائے کے باغات ہیں، جن میں کام کرنے والے زیادہ تر بہار، بنگال اور آسام کے لوگ ہیں، جن کا کوئی ایڈریس پروف نہیں ہے، پورے علاقہ کو خالی کرالیا گیا ہے، جو مکانات تباہ ہونے سے بچ گئے ہیں وہ بھی اب رہنے کے لائق نہیں ہیں، بہت سی عبادت گاہیں جن میں مسجد، چرچ اور مندر شامل ہیں زمین دوز ہوچکی ہیں، اس سے پہلے 2019ء میں کیرالا میں جو سیلاب آیا تھا، اس سے بھی کافی تباہی ہوئی تھی، اس وقت جمعیۃ علماء ہند آگے آئی تھی، مولانا مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے سو مکانات کی تعمیر کروائی تھی اس خبر کو قومی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا تھا اور جمعیۃ علماء ہند کی اس انسانیت نوازی کی ستائش کی تھی، چنانچہ کیرالا کے عوام کو خواہ وہ مسلم ہو یا عیسائی یا پھر ہندو ان سب کو حکومت سے زیادہ مولانا مدنی کی ذات پر یقین ہے کہ وہ جو وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں، دوسرے لوگ تو آتے ہیں دلاسہ دیتے ہیں، اعلانات کرتے ہیں اور واپس جاکر بھول جاتے ہیں، مگر جمعیۃ علماء ہند جو کہتی ہے اسے کرتی ہے، 2019ء میں جمعیۃ علماء ہند نے جن بے گھروں کو نئے گھر مہیا کرائے تھے ان میں ایک بڑی تعداد میں عیسائی اور ہندو شامل تھے، یوں بھی جمعیۃ علماء ہند کی یہ تاریخ رہی ہے کہ بلاتفریق مذہب وملت محض انسانیت کی بنیاد پر فلاح و بہبود کا کام کرتی ہے، چنانچہ جمعیۃ علماء ہند کے اس وفد کو اپنے درمیان پاکر وائناڈ سیلاب متاثرین نہ صرف جذباتی ہوگئے بلکہ ان سب نے ایک زبان میں کہا کہ مولانا مدنی کے لوگ آگئے اب ہم بے گھر نہیں رہیں گے۔ یہاں ہزاروں لوگوں کو کیمپوں میں رکھا جارہا ہے، ان کیمپوں میں بہت سے ایسے بچے اور بچیاں بھی ہیں جن کے ماں باپ اب اس دنیا میں نہیں رہے، دریں اثنا جمعیۃ علماء کے وفد نے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے، جن لوگوں کے مکانات تباہ ہوچکے ہیں ان کے بارے میں بھی کمیٹی رپورٹ تیارکریگی۔ علاقائی ممبر اسمبلی نے وفد کو بتایا کہ ریاستی حکومت نے بھی اس طرح کی ایک کمیٹی بنائی ہے، پریشانی یہ ہے کہ مزدور پیشہ لوگ ندی کے کنارے یا پھر جنگلات کے علاقوں میں گھر بناکر رہنے لگتے ہیں جو درحقیقت ان کی اپنی ملکیت نہیں ہوتی، بلکہ وہ سرکاری زمین ہوتی ہے۔ وفد نے متاثرین کو یقین دلایا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں جمعیۃ علماء ہند ان کے ساتھ ہے اور رپورٹ آنے پر جتنے بھی بے گھر لوگ ہیں ریاستی حکومت جہاں زمین فراہم کریگی جمعیۃ علماء ہند وہاں انہیں رہنے کے لئے اپنی بساط کے مطابق نئے مکانات بناکر دیگی۔ وفد میں بطور خاص جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی اور جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین و دیگر صاحبان موجود رہے۔


شائع کردہ : تحفظ اسلام میڈیا سروس


Friday, 7 June 2024

شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!

 شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں!



گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں زیر تعلیم ایک غیر مقامی طالب علم نے شان رسالت مآب ﷺ میں جو گستاخی کی ہے اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ کی تعظیم و تکریم ہم کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے اور اس طرح کے گستاخانہ حرکات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ لہٰذا ہم حکومت و انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوراً اس قبیح اور مذموم حرکت کے مرتکب طالب علم کے خلاف فوری کارروائی کرے اور اسے گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دیں۔ اس موقع پر ہم جموں و کشمیر کے مسلمانوں بالخصوص نوجوان طلبہ و طالبات کو سلام پیش کرتے ہیں جو گزشتہ تین دنوں سے گستاخ رسول کو سزا دلانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں!


~ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

07 جون 2024ء بروز جمعہ

Monday, 3 June 2024

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیت!

 جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی تعزیت!

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی وفات ملت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے: محمد فرقان







بنگلور،22؍ مئی (پریس ریلیز): عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، مسلمانانِ ہند کی قدآور اور عظیم رہنما، اکابرین دیوبند کے عملی ورثہ کے امین، مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست، مجلس تحفظ ناموس صحابہؓ الہند کے قومی صدر، جمعیۃ علماء ہند کے سابق ناظم عمومی اور موجودہ نائب صدر، ام المدارس دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین، دارالمبلغین لکھنؤ کے روح رواں، صوبۂ اترپردیش کے امیر شریعت، تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے جانباز سپاہی، تحریک مدح صحابہؓ کے سپہ سالار، ہزاروں تحریکوں، تنظیموں اور اداروں کے سرپرست، ہمارے مشفق و مربی، نامور عالم دین، مفسر قرآن، شارح حدیث، مناظر اسلام، خطیب بے باک، جانشین امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گزشتہ دنوں اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی عالم اسلام بالخصوص مسلمانان ہند پر غم و افسوس کا بادل چھا گیا۔ ہنگامی طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے ایصال وثواب کیلئے ایک دعائیہ و تعزیتی نشست منعقد کی۔ اسکے بعد حضرت والا کے اہل خانہ و جملہ متعلقین کے نام جاری ایک تعزیتی مکتوب میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت کے وصال کی خبر یقیناً ناقابل تحمل ہے، جو انکے کیلئے بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کیلئے بالعموم سوہان روح ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت والا کے چلے جانے سے عموماً پوری ملت اسلامیہ بالخصوص جملہ اہل خانہ سمیت بندۂ ناچیز کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ جب سے ہم نے خدمت دین کیلئے چھوٹی موٹی جدوجہد کا آغاز کیا تو اس وقت سے حضرت والا سے ایک دیرینہ اور گہرا رشتہ و تعلق رہا اور ہر مسئلے میں حضرت والا کی رہنمائی حاصل رہی۔ وہ ہمارے قائد و سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مشفق و مربی بھی تھے۔ بلکہ حضرت والا بندۂ ناچیز کو ایک مشفق والد کی طرح چاہتے تھے اور ہمیشہ شفقت پیدری سے نوازتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب کبھی اپنے بیانات یا گفتگو میں ہماری طرف کوئی بات منسوب کرنی ہوتی یا ہم سے مخاطب ہوتے تو وہ ہمیں کبھی نام سے یاد نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ ”بیٹا“ یا ”اپنے بچوں“ کہ کر ہی یاد فرمایا کرتے۔ قلم تو آپ اور جملہ متعلقین سے تعزیت کیلئے اٹھایا تھا لیکن آج بندہ غموں سے اتنا نڈھال ہیکہ خود کو تعزیت کا محتاج سمجھتا ہے۔ لیکن نوشۂ تقدیر کو کیا کرسکتے ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی، خدمات اور کارنامے کسی سے مخفی نہیں۔ حضرت ایک باصلاحیت اور بے باک و نڈر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف النفس، خوش اخلاق، متواضع، منکسر المزاج، حلیم و بردبار اور متقی و پرہیزگار شخص بھی تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اکابر کی محبوبیت اور عوام الناس کی مقبولیت انہیں عطا کی تھی، احقاق حق اور ابطال باطل ان کی زندگی کا نصب العین تھا، انہوں نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس کی حفاظت کو اپنا شیوہ بنا رکھا تھا، اہل بیت اطہار اور حرمت صحابہؓ کا دفاع ان کی زندگی کا مشن تھا، پچاس سال سے زائد عرصہ تک وہ فرقۂ باطلہ کے لیے شمشیر برہنہ بنے رہے، ان کی پوری زندگی اہل سنت والجماعت کے عقائد ونظریات کی خدمت کیلئے وقف تھی۔ انکا شمار ان بزرگ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جنکے دینی، علمی و سماجی خدمات سے تاریخ کے بے شمار باب روشن ہیں۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے اور انھیں کئی اہم فنون میں درک حاصل تھا۔ خاص طور پر صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب اور انکی عظمت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرنے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ انکی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ انکی پوری زندگی دین و اسلام بالخصوص ناموس صحابہؓ کی حفاظت کی خدمت سے عبارت تھی اور وہ اس عہد کے ممتاز دینی و ملی قائد تھے۔ انکی ذات عالیہ پوری ملت اسلامیہ بالخصوص مسلمانانِ ہند کیلئے قدرت کا عظیم عطیہ تھی۔ وہ دین و شریعت، علم و دیانت اور فکر و بصیرت کے گہرے امتزاج سے حالات کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ہر محاذ پر ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت سرپرست محترم مولانا فاروقی علیہ الرحمہ کی خاص صفت تھی۔ انکی بے باکی اور حق گوئی ہر خاص و عام میں مشہور تھی، انہوں نے اپنی پوری زندگی جرأت اظہار اور داعیانہ کردار کے ساتھ گذاری۔ وہ ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کے پیکر مجسم تھے۔ وہ اپنے کام اور مشن میں سو فیصد مخلص رہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کی عظمت کے سلسلہ میں انہیں کوئی مصالحت قبول نہ تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان عالی میں معمولی گستاخی تک برداشت نہیں کرتے تھے۔انکی ایک آواز پر جہاں ملت اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ لبیک کہتا تھا وہیں دشمن پر انکا رعب اس طرح تھا کہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔ وہ گستاخ صحابہ اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے۔ لیکن آج وہ روشن چراغ بجھ گیا، جس کی روشنی سے لوگ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے متعارف ہوتے تھے۔ وہ زبان بند ہوگئی، جس کی آواز سے باطل کے ایوانوں میں زلزلے برپا ہوجایا کرتا تھا۔ وہ صحابہؓ کا سپاہی چل بسا، جو دفاع صحابہؓ کیلئے شمشیر بے نیام تھا، جس کی ذات تحریک مدح صحابہؓ کا مرکز تھی۔محمد فرقان نے فرمایا کہ حضرت فاروقی علیہ الرحمہ نے اپنے خاندان کی روشن روایات اور مشن کو بہت خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا اور ہر محاذ پر مسلمانانِ ہند کی مثالی قیادت فرمائی۔ انہوں نے پورے ملک میں تحفظ ناموس صحابہؓ و مدح صحابہؓ کی تحریک چلائی۔ اہل تشنیع اور اصحاب رسولؓ کے دشمنوں کے خلاف مورچہ سنبھالا اور اس میدان میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، انہوں نے اس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا اور جب تک جسم میں جان تھی، اس مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ نیز ہندوستان کی سب سے بڑی اور قدیم تنظیم ”جمعیۃ علماء ہند“ کے وہ عظیم و مشہور قائد بھی تھے، ایک عرصہ تک وہ اس کے ناظم عمومی رہے، پھر نائب صدر کی حیثیت سے تاحیات جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی بڑی نمایاں خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں متعدد اداروں و تنظیموں کے ذریعے حضرت نے تحفظ ناموس صحابہؓ، دفاع صحابہؓ اور مدح صحابہؓ کی جو تحریکیں چلائی وہ ناقابل فراموش ہیں۔ وہ اپنے جد امجد امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور فاروقیؒ کے سچے وارث، حقیقی جانشین و امین اور تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے سپہ سالار و مجاہد تھے۔ یقیناً جہاں کہیں صحابہؓ کی عظمت اور دفاع صحابہؓ کا تذکرہ ہوگا، حضرت مولانا عبد العلیم فاروقیؒ کی خدمات کو ضرور یاد کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گرچہ بظاہر شخص واحد تھے، مگر درحقیقت وہ ایک انجمن تھے۔ انکے انتقال سے فرد واحد کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔ اس افسوسناک حادثے سے آج جہاں ہم سب اپنے سرپرست و قائد سے محروم ہوگئے وہیں مرکز تحفظ اسلام ہند بھی اپنے محبوب سرپرست سے محروم ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب سن 2018ء میں انہوں نے جب ”مرکز تحفظ اسلام ہند“ کی بنیاد رکھی تو حضرت والا کی دعائیں شامل حال رہیں اور انکے قیمتی مشوروں سے کام آگے بڑھتا رہا، پھر جب مرکز تحفظ اسلام ہند نے سن 2020ء میں ناموس صحابہؓ کی حفاظت اور اصحاب رسول کے دشمن و گستاخوں کی سازشوں کو ختم کرنے اور انکے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے عظمت صحابہؓ کی تحریک چلائی تو سرپرست محترم حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف اس تحریک کی قیادت فرمائی بلکہ اس تحریک کے زیر اہتمام منعقد چالیس روزہ عظیم الشان عظمت صحابہؓ کانفرنس کی افتتاحی نشست کی صدارت فرماتے ہوئے اس تحریک کو کامیاب بنا دیا۔ اور یہی وہ تحریک تھی جس کے بعد سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو پورے ملک میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر سن 2021ء میں حضرت والا سے جب دستوری اعتبار سے باضابطہ تحریری طور پر مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرستی کی گزارش کی گئی تو انہوں نے نہ صرف اسے قبول فرمایا بلکہ اپنی منظوری کی تحریر بھی ارسال فرمائی، جو آج مرکز میں انکی یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ محمد فرقان نے بتایا کہ حضرت والا تاحیات مرکز تحفظ اسلام ہند کی سرپرستی فرماتے رہے، بلکہ مختلف پروگراموں اور کانفرنسوں کی حضرت والا نے باقاعدہ سرپرستی و صدارت بھی فرمائی اور مرکز کا شاید ہی کوئی پروگرام ہوگا جس میں حضرت والا کا مشورہ شامل نہ ہو۔ وہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے نونہالوں کی جدوجہد اور پروگرامات کو بڑی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور اسے جاری رکھنے کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2023ء کو حضرت والا کی بنگلور آمد پر انکی خدمت میں انہیں اپنے رفقاء کے ہمراہ حاضری اور شرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ گرچہ حضرت والا سے بنفس نفیس یہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن انکی بے انتہا محبت اور بے تکلف گفتگو سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ پہلی ملاقات نہ ہو اور ہم میں عمر کا کوئی فرق نہ ہو، حضرت والا سے متعلق جیسا سنا تھا حضرت کو ویسا ہی پایا، منور چہرہ، شخصیت پر علمی جلالت شان، طبیعت میں سادگی اورعاجزی، ملاقات کرکے دل باغ باغ ہوگیا۔ اس ملاقات کے احساسات اور اس طویل نشستوں کی نصیحتوں اور مشوروں کو اگر قلم بند کیا جائے تو شاید ایک علیحدہ کتاب تیار ہوجائے گی۔ بس ان نشستوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے اندر اپنے عقائد کو سمجھنے میں اور دلچسپی پیدا ہوئی، ساتھیوں کے دلوں میں صحابہؓ کے تئیں عقیدت و احترام میں اضافہ ہوا اور صحابہؓ کی ناموس کی حفاظت کیلئے کام کرنے کا جذبہ پہلے سے زیادہ بڑھا اور مرکز تحفظ اسلام ہند کی کارکردگی پر حضرت والا کے اطمینان سے مزید جدوجہد اور کام کرنے کا بہت حوصلہ ملا۔ اسکے بعد فروری 2024ء میں جب مرکز تحفظ اسلام ہند کا دو روزہ ”سالانہ مشاورتی اجلاس“ منعقد ہوا تو حضرت والا نے اپنی علالت کے باوجود اسکی افتتاحی نشست کی صدارت قبول فرمائی اور اپنے قیمتی نصیحتوں سے نوازا۔ لیکن افسوس کہ آج مرکز تحفظ اسلام ہند اپنے ایک ایسے عظیم رہبر اور سرپرست سے محروم ہوگئی جن کی دعائیں اور مشورے ہمیشہ اس کے ساتھ شامل حال رہیں اور ہر محاذ پر وہ اسکے معاون و مددگار رہے۔ حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال سے مرکز تحفظ اسلام ہند کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اور انکے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسکا پر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ انکا نعم البدل عطاء فرمائے، آمین۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل حضرت والا نے از خود ان کو فون کے ذریعہ یاد فرمایا تھا، دوران گفتگو جب انہوں نے ایک پروگرام کی دعوت دی تو حضرت نے اپنی علالت کا عذر پیش فرمایا۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ حضرت والا سے انکی یہ آخری بات ہورہی ہے اور چند دنوں بعد وہ ہمیں داغ مفارقت دیکر اس جہاں فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ محمد فرقان نے کہا کہ آج ہم سب بلکہ پوری ملت اسلامیہ غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ لیکن موت برحق ہے، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ حضرت کی جدائی سے ہم سب صدمے میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بڑی آزمائش کی گھڑی ہے لیکن ہمیں صبر کا دامن تھام کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونا ہوگا۔ حضرت کا اس طرح سے اچانک پردہ فرما جانے سے یقیناً ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، بلکہ تحریک تحفظ ناموس صحابہؓ کے میدان میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ انکا انتقال ایک عظیم خسارہ ہے بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس رنج و ملال کے موقع پر ہر ایک تعزیت کا مستحق ہے۔ لہٰذا وہ خصوصاً حضرت علیہ الرحمہ کے فرزند حضرت مولانا عبد الباری فاروقی صاحب مدظلہ، نبیرہ مولانا ابو الحسن علی فاروقی، حضرت کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا عبد العظیم فاروقی صاحب مدظلہ، و دیگر فرزندان و اہل خانہ سمیت جملہ پسماندگان کے، اور حضرت والا کے تمام محبین، متعلقین، مریدین و تلامذہ کے اور عموماً پوری ملت اسلامیہ کے غم و افسوس میں برابر شریک ہیں اور اس عظیم سانحہ پر اپنی طرف سے اور مرکز تحفظ اسلام ہند کی طرف سے تعزیت مسنون پیش کرتے ہیں۔ اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی مغفرت فرماتے ہوئے انکی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور انکے نہ رہنے سے جو کمی ہوئی ہے اسکی تلافی فرمائے، انکا نعم البدل عطاء فرمائے۔ نیز مرحوم کو جوار رحمت اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین


#Press_Release #News #AbdulAleemFarooqi #Farooqi #MTIH #TIMS