Thursday, 4 September 2025

عشقِ رسولﷺ: حیاتِ مومن کا سرمایہ!

 عشقِ رسولﷺ: حیاتِ مومن کا سرمایہ!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ 

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عشق رسول ﷺ وہ سرمدی حقیقت ہے جو ایمان کی جان ہے، زندگی کا مرکز ہے اور آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو دلوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتا ہے، وہ خوشبو ہے جو روح کے ہر گوشے کو معطر کر دیتی ہے، وہ نغمہ ہے جو سینے کو وجد میں ڈال دیتا ہے اور وہ حقیقت ہے جس کے بغیر ایمان ادھورا اور زندگی بے مقصد ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ وہ محبوب ہیں جن کی محبت پر کائنات فخر کرتی ہے، وہ رحمت ہیں جن کی رحمت نے زمین و آسمان کو اپنی آغوش میں لیا ہے۔ ان کی ذات وہ مرکز ہے جس پر ہر عاشق اپنی جان و دل نچھاور کرتا ہے اور ہر مومن اپنی عقیدت اور عظمت کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ دنیا کے ہر رشتے میں کمی ہوسکتی ہے، ہر تعلق میں ٹوٹ پھوٹ آسکتی ہے، ہر محبت زوال پذیر ہوسکتی ہے لیکن رسول اللہؐ سے محبت ایسی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، جس کی خوشبو قیامت تک باقی رہتی ہے اور جس کی تاثیر دلوں کو ایمان کے نور سے بھر دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ کی ذات وہ چراغ ہے جس کے بغیر انسان اندھیروں میں بھٹکتا ہے، وہ مرکز ہے جس کے بغیر انسان کا وجود بکھر جاتا ہے، وہ رحمت ہے جس کے بغیر دنیا قہر و غضب کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایمان کا کمال اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب رسول اللہﷺ  کی محبت والدین، اولاد، دوستوں اور دنیا کے ہر تعلق سے بڑھ جائے۔ حدیث پاک میں صاف اعلان ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک رسول اللہﷺ اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ یہ محبت محض دعوے یا نعرے کا نام نہیں بلکہ یہ دل کی دھڑکن اور زندگی کے ہر عمل میں ظاہر ہونے والی کیفیت ہے۔ محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ کو، اپنے جذبات کو، اپنی عادات کو اور اپنی پوری زندگی کو محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ڈھال دے۔ زبان پر درود و سلام کے نغمے ہوں، دل میں عقیدت کی روشنی ہو اور زندگی کے ہر گوشے میں اتباعِ مصطفیؐ جھلک ہو۔


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی عشق کے پیکر تھے۔ ان کے نزدیک دنیا کی کوئی چیز رسول اللہ ﷺ کی رضا اور محبت سے بڑھ کر نہیں تھی۔ بدر و احد کے میدان اسی عشق کے گواہ ہیں کہ کیسے ایک ایک صحابی اپنی جان قربان کرتا مگر حضورﷺ کے قدموں میں قربانی پیش کرنے سے پیچھے نہ ہٹتا۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی زندگی سراسر حضور ؐ پر فنا ہونے کی تفسیر تھی، حضرت فاروق اعظمؓ کی غیرت عشقِ رسول ؐ سے سرشار تھی، حضرت عثمان غنیؓ کی بے مثال سخاوت محمد رسول اللہ ؐ کے عشق و محبت کا آئینہ دار تھی، اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی جوانی اور شجاعت حضورؐکے قدموں میں قربان ہو کر عشق کی کامل تصویر بن گئی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی رگوں میں خون کی جگہ عشق مصطفیٰ ﷺ دوڑ رہا تھا۔ کیونکہ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی تمام خواہشات، اپنی تمام آرزوئیں، اپنے سارے خواب حضور ؐکی محبت پر قربان کردے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے نزدیک حضور ﷺ کی ایک مسکراہٹ دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر تھی۔ وہ آپ ؐ کے وضو کا پانی پینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے، آپ ؐ کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے تھے، آپ ؐ کے بالوں کو تبرک سمجھ کر محفوظ کرلیتے تھے۔ یہ سب اسی عشق کی علامتیں تھیں جس نے ان کے دلوں کو ایمان سے لبریز کردیا تھا۔


محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سراسر رحمت ہے۔ دشمنوں نے آپ کو ستایا، پتھر مارے، وطن سے نکالا لیکن آپ ؐ نے بدلے میں کبھی بددعا نہیں کی، بلکہ ہمیشہ معافی اور رحمت کے دامن کو پھیلایا۔ طائف کے میدان میں لہولہان بدن کے ساتھ بھی یہ دعا کی کہ اے اللہ! ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کر جو تجھ پر ایمان لائیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ؐ نے دشمنوں کے سامنے اعلان فرمایا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، حالانکہ یہ وہی دشمن تھے جنہوں نے زندگی بھر اذیتیں دیں۔ یہ رحمت ہی عشق کی سب سے بڑی بنیاد ہے، یہی وہ صفت ہے جس نے دلوں کو کھینچ کر آپ ؐکا دیوانہ بنایا اور آپ کے دشمن بھی معترف ہوگئے۔


عشق کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کی اطاعت کی جائے۔ قرآن کریم نے صاف فرمایا کہ اگر اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو رسول اللہﷺ کی اتباع کرو، تبھی اللہ تم سے محبت کرے گا۔ یہی عشق کی اصل ہے، یہی محبت کا ثبوت ہے۔ ورنہ نعرے اور دعوے کھوکھلے ہیں۔ سچا عاشق وہ ہے جو اپنی روزمرہ زندگی میں حضور ؐکی سنت کو زندہ کرے، چاہے وہ کھانے پینے کا طریقہ ہو یا چلنے کا انداز، عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق ہوں یا عادات، ہر جگہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جھلک نظر آئے۔یہی محبت علماء دیوبند نے اپنے قلوب میں بسائی اور عشق رسول ؐ کی سب سے روشن مثالیں قائم کی۔ ان کے نزدیک دین کی اصل روح اتباع سنت اور عشق رسول ؐ تھی۔ ان کی سادہ زندگی حضور ؐ کی سنتوں کی عملی تصویر تھی۔ انہوں نے جیل کی تاریکیوں میں بھی عشق رسول ؐ کو اپنے دل کی روشنی بنایا۔ ان کی تعلیمات اور اصلاحی مشن عشق رسول ؐکی خوشبو سے معطر تھے۔ یہ وہ علم و حریت کا قافلہ ہے جنہوں نے اپنے قلم اور عمل دونوں سے یہ واضح کیا کہ عشق رسول ؐ کا مطلب صرف عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ شریعت کی پابندی، سنتوں کی پیروی اور دین کے غلبے کے لیے قربانی دینا ہے۔عاشق رسول ﷺ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ جب دنیا میں نبی ؐ کی عظمت پر حملے ہوں تو وہ اپنی جان و مال قربان کردے لیکن رسول اللہ ؐکی شان پر آنچ نہ آنے دے۔ یہی عشق ہے جس نے صحابہؓ کو ہر میدان میں فاتح بنایا اور یہی عشق تھا جس نے علماء دیوبند کو غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی جدوجہد کے لیے تیار کیا۔ ان کے نزدیک عشق رسول ؐ کا تقاضا تھا کہ ظلم کے سامنے ڈٹ جائیں، باطل کے خلاف علم اٹھائیں اور دین کی عزت کے لیے کوئی قربانی دینے سے نہ گھبرائیں۔


رسول اللہ ﷺ کی ذات وہ پناہ ہے جس کے بغیر دلوں کو سکون نہیں ملتا۔ وہ محبوب ہیں جن کی محبت سے دل زندہ ہوتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، زبان درود و سلام سے تر ہوجاتی ہے اور روح کو وہ لذت نصیب ہوتی ہے جو کسی اور تعلق سے ممکن نہیں۔ ان پر درود و سلام پڑھنے والا دل بیدار ہوجاتا ہے، ان کی سیرت پر غور کرنے والا دل نرم ہوجاتا ہے، ان کی سنت اپنانے والا انسان کامیاب ہوجاتا ہے۔ عشق رسول ؐ وہ سرور ہے جو عاشق کو جھومنے پر مجبور کر دیتا ہے، وہ آگ ہے جو دل کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے مگر اس میں ایمان کا نور باقی رکھتی ہے۔ عشق رسول ؐ کے بغیر ایمان کی لذت نہیں، عبادت کی روح نہیں اور زندگی کی راحت نہیں۔ عاشق کے دل میں ہر لمحہ یہی تمنا رہتی ہے کہ کاش میری زندگی بھی سنت کے مطابق ہوجائے، میری آنکھوں کا نور حضور ؐ کا دیدار بن جائے، میرے کانوں کی لذت درود و سلام کی صدائیں ہوں اور میرے دل کا قرار حضور ؐ کی یاد ہو۔ یہ عشق ہی ہے جو ایک عام انسان کو ولی بنادیتا ہے، غلام کو آقا کے قریب کردیتا ہے، اور گناہگار کو مغفرت کے دروازے تک پہنچادیتا ہے۔ یہی عشق ہے جو روزِ محشر نجات کی ضمانت ہے۔ حضور ؐ کی شفاعت اسی کو نصیب ہوگی جو دل و جان سے آپ ؐکا عاشق ہوگا، جو اپنی زندگی کو آپ ؐ کی سیرت کے مطابق گزارے گا اور جو آپ ؐ کے نام پر اپنی جان بھی قربان کردے گا۔


کون سا عاشق رسول ﷺ ہے جو یہ سن کر نہ تڑپے کہ روزِ قیامت جب سب لوگ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے ہوں گے، وہاں صرف ایک ہستی ہوگی جو“امتی! امتی!”کی صدا لگائے گی، اور وہ ہستی ہے محمد مصطفیﷺ کی۔ اس دن سچے عاشقوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی کہ ہم جس کے دیوانے تھے وہی ہماری شفاعت کے لیے کھڑا ہے، مگر یہ حقیقت ہمیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ کیا محض عاشق رسول ؐ ہونے کا دعویٰ کافی ہے؟ اگر ہماری زندگی سنت مصطفیؐ سے خالی ہے، اگر ہماری عادات و معاملات شریعت کے مطابق نہیں، اگر ہمارے دل و دماغ نبی ؐ کے نقش قدم سے محروم ہیں، تو پھر ہمارا دعویٰ عشق ایک بے جان صدا بن کر رہ جائے گا۔ سچا عاشق وہی ہے جو اپنے محبوب ؐ کے ہر فرمان کو دل سے قبول کرے، اپنی ذات کو ان کے دین پر قربان کرے اور اپنی زندگی کو حضور ؐ کی سنتوں کی خوشبو سے معطر کرے، تبھی قیامت کے دن رسول اللہ ؐ کی شفاعت نصیب ہوگی اور آنکھوں کو وہ ٹھنڈک ملے گی جس کا خواب ہر مومن اپنے دل میں سجائے بیٹھا ہے۔


یہی وہ پیغام ہے جو صحابہؓ نے دیا، یہی وہ تعلیم ہے جو علماء دیوبند نے آگے بڑھائی اور یہی وہ راستہ ہے جو ہر مومن کو اختیار کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت ایمان کا سر ہے، عشق ایمان کی جان ہے اور اتباع اس کی حقیقت ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں جمع ہوجائیں تو انسان کی زندگی نور سے بھر جاتی ہے اور اس کا انجام جنت الفردوس میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کے ساتھ ہوتا ہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے


#ProphetMohammed | #Muhammad | #RabiulAwwal | #Madina | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS

Saturday, 30 August 2025

آسام کی بدلتی سیاست، مولانا محمود مدنی کی للکار اور ہیمنت بسوا سرما کی بوکھلاہٹ!

 آسام کی بدلتی سیاست، مولانا محمود مدنی کی للکار اور ہیمنت بسوا سرما کی بوکھلاہٹ!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)



آج کے ہندوستان میں اقتدار کی کرسی پر بیٹھے کچھ لوگ جب زبان کھولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ جمہوری ملک نہیں بلکہ کسی آمریت کی چراگاہ ہے، جہاں قانون، انصاف اور آئین کے بجائے غرور، تعصب اور طاقت کی زبان بولی جاتی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کے خلاف زبان درازی کرتے ہوئے یہ کہنا کہ ”اگر مجھے مولانا محمود مدنی مل گئے تو میں انہیں بنگلہ دیش بھیج دوں گا“ دراصل اسی زہریلی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ یہ جملہ نہ صرف ایک مذہبی قائد کی توہین ہے بلکہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کی عزت و وقار کو للکارنے کے مترادف ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس کے آئین نے سب کو برابری کا حق دیا، لیکن آج حکمرانوں کی زبان سے ایسے جملے نکل رہے ہیں جو نہ صرف آئین بلکہ انسانیت کی بھی توہین ہیں۔ اس بیان نے صاف کر دیا ہے کہ آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ زمین بازیابی یا تجاوزات ہٹانے کا معاملہ نہیں بلکہ ایک خاص مذہبی طبقے کو نشانہ بنانے کی منظم سازش ہے۔


جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے گزشتہ دنوں مولانا محمود مدنی کی صدارت میں بروقت اور برمحل قدم اٹھاتے ہوئے وزیر اعلیٰ آسام کو معطل کرنے اور ان پر ہیٹ اسپیچ کے مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ وہی جمعیۃ ہے جو اپنے قیام 1919ء سے آج تک ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ڈھال بنی ہوئی ہے۔ اس کی تاریخ میں قربانیوں کے ایسے ایسے باب درج ہیں جن پر پوری ملت فخر کرتی ہے۔ آزادی کی تحریک سے لے کر بعد آزادی کے نازک ترین مواقع تک، جب بھی ملک میں مسلمانوں یا اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا یا ان کے مذہبی و آئینی حقوق پر شب خون مارنے کی کوشش کی گئی، جمعیۃ ہمیشہ سب سے آگے کھڑی رہی۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی بے مثال جدوجہد اور ان کی جرأت مندی آج بھی تاریخ کے اوراق پر جگمگا رہی ہے۔ انہوں نے انگریز سامراج کے خلاف قیادت کی، جیلیں کاٹیں، تعذیبیں برداشت کیں مگر حق گوئی اور استقلال سے پیچھے نہ ہٹے۔ وہ اس نظریے کے داعی تھے کہ یہ ملک ہندو مسلم سب کا ہے اور سب کو ساتھ مل کر اس کی حفاظت کرنی ہے۔ انہی کی اولاد مولانا محمود اسعد مدنی آج اسی حوصلے اور عزم کے ساتھ اپنے بزرگوں کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس شخص کے دادا نے ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کے وقار کے لیے اپنی زندگی قربان کی، اس کے پوتے کو بنگلہ دیش بھیجنے کی دھمکی دینا نہ صرف بدزبانی ہے بلکہ اپنی سیاسی پستی اور بوکھلاہٹ کا اعتراف بھی ہے۔


آسام کے حالات گواہی دے رہے ہیں کہ انخلا کے نام پر ظلم کی ایسی داستان لکھی جا رہی ہے جس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔ پچاس ہزار خاندانوں کو گھروں سے محروم کر کے کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ اور یہ سب کچھ اس دعوے کے ساتھ کیا گیا کہ یہ لوگ غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں، جب کہ اب تک اجاڑے گئے سب خاندان سو فیصد مسلمان ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا یہ اعتراف کہ ”ہم صرف میاں مسلمانوں کو بے دخل کر رہے ہیں“ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ محض انتظامی کارروائی نہیں بلکہ خالص مسلم دشمنی ہے۔ کیا یہ بیان آئین ہند کی روح سے کھلا مذاق نہیں؟ کیا یہ سپریم کورٹ کی واضح گائیڈ لائنز کی صریح خلاف ورزی نہیں؟ جمعیۃ علماء ہند نے نہایت متوازن اور اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی سرکاری زمین پر ناجائز قبضے کی حامی نہیں رہی، لیکن موجودہ بے دخلی کی مہم انصاف اور انسانی ہمدردی کے تمام تقاضوں کو روندتے ہوئے ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کا ثبوت ہے۔ یہی وہ اصولی رویہ ہے جس نے ہمیشہ جمعیۃ کو دوسروں سے ممتاز کیا ہے۔ ماضی قریب میں جب آسام کے چالیس لاکھ شہریوں کو ان شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی گئی۔ اس نازک موقع پر جمعیۃ علماء ہند نے میدان میں آ کر بھرپور جدوجہد کی۔ قانونی اور عوامی محاذ پر مضبوط دلائل کے ساتھ آواز بلند کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کی سازش ناکام ہوئی اور انصاف کی جیت ہوئی۔ یوں جمعیۃ علماء ہند نے چالیس لاکھ آسامیوں کو ان کا حق دلا کر تاریخ رقم کی جس کو آج ہر طرف سراہا جاتا ہے۔


اصل حقیقت یہ ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی حکومت بدعنوانی اور اقربا پروری میں دھنسی ہوئی ہے۔ گروکھوتی کثیر مقصدی زرعی منصوبہ (Garukhuti Multipurpose Agricultural Project) کی مثال آج بھی سامنے ہے، جس میں ہزاروں مسلم گھرانوں کو اجاڑ کر زمین حاصل کی گئی اور پھر گائے کے نام پر ایسا گھپلا کیا گیا جس نے حکومت کی نیت کو بے نقاب کر دیا۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے خریدی گئی گائیں یا تو مر گئیں یا وزیروں اور ایم ایل ایز کے فارم ہاؤسوں پر پہنچا دی گئیں۔ عوام کا پیسہ لوٹا گیا اور کسانوں کو فریب دیا گیا۔ یہ سب کچھ ”گؤ ماتا“ کے تحفظ کے نام پر کیا گیا، مگر اصل مقصد سیاسی اور مالی مفادات سمیٹنا تھا۔اس مسئلہ کو اپوزیشن نے پورے آسام میں گرما رکھا ہے۔


اسی کے ساتھ اگلے سال 2026ء میں آسام کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر آسام کی سیاست میں اس وقت جو منظرنامہ ابھر رہا ہے، وہ ہیمنت بسوا سرما کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کو کھول کر سامنے لے آ رہا ہے۔ کانگریس کے گورو گگوئی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، ان کی شفاف شبیہ اور عوامی حمایت نے بی جے پی کے مضبوط قلعے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرما کبھی ان پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں، تو کبھی مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دے کر اپنی بے بسی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جارحانہ لب و لہجہ دراصل ان کے دل میں گھر کرتی اس سیاسی خوف کا اظہار ہے، جو بدلتی ہوئی فضاؤں نے ان پر طاری کر دیا ہے۔ آسام میں بی جے پی کے پاس بلاشبہ عددی طاقت موجود ہے، لیکن اقتدار مخالف لہر، بدعنوانی کے الزامات، اندرونی اختلافات اور عوامی ناراضگی نے اس طاقت کو کھوکھلا بنا دیا ہے۔ سرما کے لیے یہ وقت سخت آزمائش کا ہے، کیونکہ شمال مشرق کی سیاست میں منی پور سمیت مختلف ریاستوں کے بحرانوں نے بی جے پی کی قیادت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ آج وہ جس اعتماد کے ساتھ بی جے پی کے واحد مضبوط چہرے کے طور پر ابھرتے تھے، وہ اعتماد تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر بی جے پی آسام کے انتخابات جیت بھی لے تو اندرونی حالات اور قیادت کے بحران کے باعث ممکن ہے کہ ہمنتا بسوا سرما کو اقتدار کی کرسی سے محروم ہونا پڑے۔ گویا آسام کی بدلتی ہوا نہ صرف بی جے پی کے لیے دردِ سر بنتی جارہی ہے بلکہ خود سرما کی سیاسی بقا پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیمنت بسوا سرما اپنی اقتدار کی کرسی بچانے کے لیے کبھی مسلمانوں کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں اور کبھی ملت اسلامیہ ہندیہ کی رہنما تنظیم جمعیۃ علماء ہند اور اس کی قیادت پر زہر افشانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دھمکی آمیز جملے دراصل اس گھبراہٹ کا اعتراف ہیں جو آسام کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا نے ان کے دل میں پیدا کر دی ہے۔ 


آج دنیا فلسطین میں جاری نسل کشی بھی دیکھ رہی ہے جہاں مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے محروم کیا جا رہا ہے، اور آسام کی کہانی بھی کچھ اسی طرح ہے۔ ایک طرف اسرائیل کے ٹینک اور بم فلسطینی گھروں کو مٹا رہے ہیں، دوسری طرف آسام میں بے دخلی کی آڑ میں مسلمانوں کے مکانات اجاڑے جا رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اجلاس میں دونوں مسائل کو اٹھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی آواز ہے۔ یہی وہ جرأت ہے جو جمعیۃ کو تاریخ کے روشن ابواب میں جگہ دیتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے عظیم سپوت شیخ الہندؒ اور شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ نے جو چراغ جلایا تھا وہ آج بھی بجھا نہیں، اور مولانا محمود مدنی جیسے جانشین اسی روشنی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہیمنت سرما لاکھ شور مچائیں، انگوٹھا دکھائیں یا دھمکیاں دیں، وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ جمعیۃ علماء ہند کی جڑیں اس ملک کی مٹی میں اتنی گہری ہیں کہ کوئی آندھی انہیں اکھاڑ نہیں سکتی۔


وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے انصاف پسند ادارے اور عدلیہ آگے بڑھیں۔ اگر آج ہیمنت بسوا سرما جیسے وزرائے اعلیٰ کو لگام نہ دی گئی تو کل آئین اور انصاف کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ جمعیۃ کا مطالبہ بالکل بجا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو برطرف کیا جائے، ان پر ہیٹ اسپیچ کے مقدمات درج ہوں، اور متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری فوری کی جائے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ حق کا پرچم بلند رکھا ہے اور آج بھی یہ پرچم سر بلند ہے۔ یہ جدوجہد صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے لیے ہے۔ ظلم اور دھمکیاں کبھی حق کی روشنی کو بجھا نہیں سکتیں، بلکہ وہ روشنی مزید تیز ہو کر ظلم کی اندھیری رات کو چیر دیتی ہے۔ ہیمنت بسوا سرما کی بوکھلاہٹ اس بات کی دلیل ہے کہ آسام میں رات کی تاریکی ختم ہونے والی ہے اور صبحِ روشن قریب ہے!


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

30؍ اگست 2025ء بروز سنیچر


+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Assam | #MahmoodMadni | #HimantBiswaSharma | #AssamDemolition | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS

Thursday, 14 August 2025

ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار!

 ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ جب کسی غیر جانبدار نظر سے پڑھی جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس سرزمین کی آزادی کا چراغ سب سے پہلے مسلمانوں نے جلایا، اس کی حفاظت کے لیے اپنے خون کی ندیاں بہائیں اور صدیوں تک اس چراغ کو بجھنے نہ دیا۔ برصغیر میں انگریزوں کے قدم جمائے جانے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے نہ صرف ان کی غلامی کو مسترد کیا بلکہ اس کے خلاف اعلانِ جہاد کر کے اس ملک میں آزادی کی ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کیا جو تقریباً دو صدی سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔ یہ وہ جدوجہد تھی جس کی بنیاد اسلام کے تصورِ آزادی اور جہاد میں مضمر تھی۔ مسلمان اس حقیقت پر یقین رکھتے تھے کہ غلامی انسانیت کی توہین ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کا غلام نہ ہو۔ یہی عقیدہ تھا جس نے ان کے دلوں میں غیرت و حمیت کا وہ شعلہ بھڑکایا جس کی روشنی سے پورا برصغیر منور ہوا۔


سترہویں صدی سن 1754ء میں نواب سراج الدولہؒ کے نانا علی وردی خان نے کلکتہ کے فورٹ ولیم پر حملہ کر کے انگریزوں کو شکست دی اور انہیں ڈائمنڈ ہاربر میں پناہ لینے پر مجبور کیا، جسے ملک کی پہلی منظم مسلح جنگ آزادی کہا جا سکتا ہے۔ علی وردی خان کے بعد سراج الدولہؒ حکمران بنے اور انگریزوں کے بڑھتے خطرے کو ختم کرنے کا عزم کیا، مگر دربار کی سازشوں کے باعث 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں شکست ہوئی اور مرشدآباد میں شہید کر دیے گئے۔ اس طرح بنگال کے نواب سراج الدولہؒ نے انگریز سامراج کے خلاف میدان سنبھالا اور پلاسی کی جنگ میں اپنی جان دے کر اس ملک میں آزادی کی پہلی اینٹ رکھی۔


اسی طرح جنوب ہند دکن کے عظیم فرمانروا حیدر علیؒ (م 1782ء) اور ان کے فرزند سلطان ٹیپو شہیدؒ برصغیر کی جنگ آزادی کے وہ عظیم مجاہد تھے جو ہمیشہ انگریزوں کے لیے خطرہ بنے رہے۔ والد کے انتقال کے بعد سلطان ٹیپو ؒ نے 1783ء میں انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ لڑی اور انگریزوں کو شکست دیا، اس کے بعد کئی جنگیں ہوئی اور سلطنتِ میسور کے شیر، سلطان ٹیپو شہیدؒ اپنے تخت و تاج کی پرواہ کیے بغیر انگریزوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کے عہد پر قائم رہے۔ اور بالآخر 1799ء میں اپنی جان قربان کر کے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ ایک مسلمان حکمران کے لیے غلامی قبول کرنے سے بہتر ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں شہادت کو گلے لگا لے۔


اس کے بعد اٹھارویں صدی کے اوائل یعنی 1803ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ”فتویٰ“ دیا کہ ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے اور یہاں انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہے۔ یہ فتویٰ محض ایک دینی رائے نہیں تھی بلکہ ایک عملی اعلانِ جنگ تھا، جس نے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں بغاوت کی آگ بھڑکا دی۔ اس فتوے کا اثر یہ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف ہر گوشے سے مزاحمت اٹھنے لگی۔ یہ مزاحمت صرف زبانی نعروں تک محدود نہ تھی بلکہ خون اور جانوں کی قربانی سے مزین تھی۔ چنانچہ سن 1831ء میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ ”بالاکوٹ کے میدان“ میں انگریزوں کے خلاف جہاد میں شہید ہوئے، مگر ”لبریشن تحریک“ مولانا نصیرالدین دہلویؒ، پھر مولانا ولایت علی عظیم آبادیؒ (م1852ء) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادیؒ (م1858ء) کی قیادت میں جاری رہی اور بالآخر 1857ء کی جنگ آزادی تک پہنچی۔


انگریزوں کے خلاف یہ معرکہ محض حکمرانوں تک محدود نہ رہا بلکہ عوام الناس، علماء، صوفیاء، اور دیندار طبقے نے بھی اس میں حصہ لیا۔ انگریزوں کی ریشہ دوانیوں، عیاریوں اور سازشوں کے باوجود مسلمانوں نے اپنی جدوجہد ترک نہ کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کو جسے تاریخ میں پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے تو درحقیقت یہ وہ آگ تھی جو ایک صدی سے جل رہی تھی اور اس کی لو کو تیز کرنے والوں میں مسلمانوں کا کردار نمایاں تھا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ، شاہ اسحاق محدث دہلویؒ اور ان کے شاگردوں کی طویل محنت کے نتیجے میں علماء کی ایک جماعت تیار ہوئی اور اس جنگ میں انہوں نے قیادت کی اور ہر محاذ پر انگریزوں کو للکارا۔ ”شاملی کا میدان“ جس کے امیر حاجی امداللہ مہاجر مکیؒ تھے اور جس کی قیادت حجۃ لاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرما رہے تھے، انہوں اپنے قلیل وسائل کے باوجود انگریز فوج کا مقابلہ کیا تو یہ دراصل اس عزم کا اعلان تھا کہ آزادی کی راہ میں جان و مال کی کوئی قربانی بڑی نہیں۔ اسی معرکے میں حافظ ضامنؒ سمیت کئی علماء شہید ہوئے۔ 1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کو بظاہر شکست ہوئی، مگر درحقیقت یہ شکست نہیں بلکہ ایک طرح کی فتح تھی۔ اس جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے اسلام پر حملہ کرتے ہوئے اس کے عقائد، فکر اور تہذیب کو ہندوستان سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا، لیکن یہی وہ فیصلہ تھا جس سے انگریزوں کے زوال کا آغاز ہوا۔ چنانچہ اسلام کے خلاف اس سازش کو بھانپتے ہوئے مولانا قاسم نانوتوی اور انکے رفقاء اکابرین دیوبند نے 30؍ مئی 1866ء کو ”دارالعلوم دیوبند“ کی بنیاد رکھی گئی، جو محض ایک دینی درسگاہ نہ تھی بلکہ ایک فکری و عملی قلعہ تھی جہاں آزادی، خودداری اور دینی غیرت کی شمع جلائی جاتی رہی۔ اس ادارے نے نہ صرف دینی علوم کی حفاظت کی بلکہ آزادی کی تحریک کو ایک فکری و نظریاتی بنیاد فراہم کی، جس نے آنے والے عشروں میں ہزاروں مجاہدین آزادی کو تیار کیا۔شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسے عظیم سپوتوں نے آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی سطح پر بھی جوڑا۔ مالٹا کی جیل میں شیخ الہند اور شیخ الاسلام نے سالہا سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان کے عزم و حوصلے کو توڑنا ممکن نہ ہوا۔ انگریزوں کے خلاف 1912ء میں شروع ہونے والی ان کی ”تحریک ریشمی رومال“ خفیہ منصوبہ بندی سے لے کر خلافت موومنٹ تک پھیلی ہوئی تھی، جس نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ سن 1919ء میں شیخ الہند کے شاگردوں نے ”جمعیۃ علماء ہند“ کی بنیاد رکھی اور اسکے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کو منظم کیا اور مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ آزادی محض ایک سیاسی ضرورت نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ ہے۔ انہیں ایام میں ”تحریکِ خلافت“ وجود میں آئی، جس کے بانی مولانا محمد علی جوہرؒ تھے، اس تحریک سے ہندو مسلم اتحاد عمل میں آیا۔ گاندھی جی اور مسلم رہنماؤں نے ایک ساتھ ملک گیر دورہ کیا، اس تحریک نے عوام اور مسلم علماء کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا۔ اور ادھر مالٹا کی جیل سے شیخ الہند کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29؍ جولائی 1920ء کو ”ترکِ موالات“ کا فتوی شائع کیا گیا۔ اس کے بعد 29؍ دسمبر 1929ء کو امرتسر میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے آزادی کی تحریک کو مضبوط کرنے کیلئے ایک اور تحریک کا اعلان کرتے ہوئے ”مجلس احرار اسلام ہند“ کی بنیاد رکھی۔ یوں مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے پرچم تلے مسلمانوں نے آزادی کی شمع روشن رکھی، اور دارالعلوم دیوبند و جمعیۃ علماء ہند جیسے اہم پلیٹ فارمز سے انگریز سامراج کے خلاف مسلسل بھرپور آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ اور بالآخر 15؍ اگست 1947ء کے دن وطن عزیزبھارت کو انگریزوں سے مکمل آزادی ملی۔


یہ حقیقت بھی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے کہ آزادی کی اس طویل جدوجہد میں ایک صدی تک مسلمان عملاً تن تنہا میدان میں ڈٹے رہے۔ انگریز حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسلمانوں کی قیادت کو ختم کیا جائے، ان کے تعلیمی ادارے بند کیے جائیں، ان کے دینی شعائر کو مٹایا جائے اور ان کے تشخص کو مسخ کیا جائے، لیکن مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری۔ چاہے وہ 1857ء کے شہداء ہوں، چاہے بالا کوٹ کے میدان میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کا خون ہو، یا پھر 1920ء کی جمعیۃ علماء ہند، تحریک خلافت کے جلسے اور جلوس؛ ہر مقام پر مسلمانوں نے اپنے ایمان اور عزم کا ثبوت دیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں آزادی کی وہ فضا پیدا ہوئی جس میں دوسرے طبقات نے بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شروع کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فضا کو قائم رکھنے اور پروان چڑھانے والے مسلمان ہی تھے۔


آج افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اس ملک کو آزادی دلائی، ان ہی سے آج محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ طلب کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال ان زبانوں سے اٹھ رہا ہے جن کا اس جنگ آزادی میں دور دور تک کوئی کردار نہ تھا، بلکہ بعض کے آبا و اجداد انگریزوں کے وفادار رہے اور آزادی کی تحریک کو کچلنے میں انگریزوں کے مددگار بنے۔ تاریخ کے یہ سیاہ کردار آج اس حد تک جری ہو گئے ہیں کہ ملک کی آزادی کے اصل محافظوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے مذہبی شعائر پر قدغن لگاتے ہیں، ان کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرتے ہیں۔لیکن تاریخ کا ایک اور سبق یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی ظلم و جبر کے سائے تلے زندگی گزاری، انہوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اپنی جان و مال قربان کیے۔ اگر آج بھی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ ظلم اپنی انتہا کو چھو لے اور انصاف کا چراغ بجھنے لگے، تو وہی مسلمان جو کل انگریزوں کے خلاف سینہ سپر تھے، آج کے ظالموں کے خلاف بھی میدان میں ہوں گے۔ کیونکہ ان کے خون میں وہی غیرت، وہی حمیت اور وہی جذبہ موجزن ہے جو سلطان ٹیپو شہیدؒؒ، مولانا قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ کے رگ و پے میں دوڑتا تھا۔


ہندوستان کی آزادی کی کہانی محض سیاسی جملوں یا سرکاری نصاب کی محدود سطروں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ کہانی شہادتوں، قربانیوں اور جدوجہد کے ان ابواب پر مشتمل ہے جنہیں مسلمانوں کے خون سے لکھا گیا۔ یہ کہانی ان بزرگوں کی ہے جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، پھانسی کے پھندوں کو بوسہ دیا، جلاوطنی کو گلے لگایا اور اپنی نسلوں کو غلامی سے بچانے کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ اور یہ کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ محب وطن وہ نہیں ہوتے جو صرف زبانی دعوے کریں بلکہ وہ ہیں جو آزادی کی قیمت اپنے خون سے ادا کریں۔ 


لہٰذا آج اگر کوئی مسلمان کے حب الوطنی پر سوال اٹھاتا ہے تو دراصل وہ تاریخ سے ناواقف ہے یا جان بوجھ کر سچ کو مسخ کر رہا ہے۔ مسلمانوں کا کردار اس ملک کی آزادی میں بنیاد کا ہے اور بنیاد کو کمزور کر کے عمارت مضبوط نہیں رہ سکتی۔ جو قوم اپنی بنیاد کو فراموش کر دے، وہ خود اپنے زوال کو دعوت دیتی ہے۔ مسلمانوں نے کل بھی اس وطن کو غلامی سے نکالا تھا اور اگر آج ضرورت پڑی تو وہی کردار ادا کر کے اس وطن کو ہر ظالم اور جابر کے پنجے سے آزاد کرائیں گے، کیونکہ آزادی اور خودداری مسلمانوں کی میراث ہے اور وہ اس میراث کی حفاظت کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ گرچہ مسلمانوں کی قربانیوں کو مٹانے اور ان کے کردار کو فراموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن مسلمانوں کی تاریخ، جدوجہد اور خدمات ایسی روشن اور ناقابلِ فراموش حقیقت ہیں جو وقت کی گرد میں دب نہیں سکتیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ حوصلہ، عزم اور آزادی کی جستجو کا چراغ بنی رہیں گی۔

جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا

جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

12؍ اگست 2025ء بروز منگل


#IndependenceDay | #Azaadi | #FreedomFighters | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS

Monday, 4 August 2025

قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک!

 قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


فلسطین کے جانباز شہریوں نے اسرائیل کے ناجائز قبضے، ظلم و ستم، اور انسانی وقار کی پامالی کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے 2005ء میں اپنی سوسائٹی کی نمائندہ 170؍ تنظیمیں، تحریکیں اور این جی اوز کے ذریعے ایک عالمی تحریک کی بنیاد رکھی، جو آج دنیا بھر میں BDS (Boycott, Divestment, Sanctions) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ تحریک ایک پُرامن، باوقار اور عالمی سطح پر مؤثر احتجاجی جدوجہد ہے، جس کا مقصد اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کرے۔ BDS تین بنیادی نکات پر قائم ہے: (1) بائیکاٹ (Boycott): یعنی اسرائیلی مصنوعات، اداروں، اور ان کمپنیوں کا مکمل سوشل اور معاشی بائیکاٹ جو اسرائیل کی حمایت یا تعاون کرتی ہیں۔ (2) سرمایہ نکالنا (Divestment): یعنی ان کمپنیوں یا اداروں سے سرمایہ کاری واپس لینا جو اسرائیل کو مالی سہارا فراہم کرتے ہیں یا اس کے قبضے میں شریک ہیں۔ اور (3) پابندیاں (Sanctions): یعنی حکومتوں سے مطالبہ کہ وہ اسرائیل پر اقتصادی، فوجی اور سفارتی پابندیاں عائد کریں تاکہ وہ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں بند کرے۔ یہ تحریک ظلم کے خلاف انسانیت کی آواز ہے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک منظم اور پرامن کاوش ہے۔ بی ڈی ایس تحریک کی نوعیت کسی ہتھیار یا تشدد پر مبنی نہیں بلکہ یہ اخلاقی، سماجی، معاشی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ایک ایسے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتی ہے جو دنیا کی مختلف اقوام، اداروں اور حکومتوں پر یہ واضح کر دے کہ وہ اسرائیلی ظلم پر خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ تحریک اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ کسی خاص مذہب، رنگ، نسل یا ملک سے وابستہ نہیں، بلکہ دنیا کے ہر انصاف پسند انسان کی آواز بن چکی ہے۔



بی ڈی ایس تحریک کے آغاز کی بنیاد 2005ء میں فلسطینی عوام اور سماجی اداروں کے اُس مشترکہ اعلامیے سے ہوئی جس میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم، زمین پر غاصبانہ قبضہ، شہری حقوق کی پامالی، جبری نقل مکانی، اور انسانی عزت نفس کی تذلیل کے خلاف دنیا بھر کی اقوام سے بائیکاٹ، سرمایہ نکالنے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب اسرائیل نے دیوارِ فاصل (Apartheid Wall) تعمیر کر کے فلسطینی علاقوں کو مزید محصور کر دیا تھا۔ بستیوں کی تعمیر، مقدس مقامات کی توہین، بچوں، عورتوں اور معمر افراد پر مظالم اور بنیادی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، مگر طاقتور مغربی دنیا اور عالمی ادارے، خاص طور پر اقوام متحدہ، صرف مذمت تک محدود رہے۔ ایسے میں BDS تحریک فلسطینی عوام کی طرف سے ایک مؤثر، پرامن اور عالمی سطح پر منظور شدہ احتجاجی حکمت عملی بن کر ابھری۔


یہ عالمی BDS تحریک کے تین بنیادی مطالبات ہیں: (پہلا) اسرائیل 1967ء سے قبضہ کیے گئے تمام فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہو۔(دوسرا) اسرائیل میں موجود عرب نژاد فلسطینیوں کو بھی وہی حقوق دیے جائیں جو یہودیوں کو حاصل ہیں۔ اور(تیسرا) 1948ء اور 1967ء کے دوران جبری طور پر نکالے گئے تمام فلسطینیوں کو واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کا حق دیا جائے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ تینوں مطالبات نہ صرف انصاف پر مبنی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔


یہ تحریک پرامن بائیکاٹ کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس بائیکاٹ کا دائرہ کار ان مصنوعات، اداروں، یونیورسٹیوں، ثقافتی پروگراموں، اسپورٹس ایونٹس اور سرمایہ کاری منصوبوں تک پھیلتا ہے جو اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں یا اس کے قبضے کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ Coca-Cola، HP، McDonald’s، Starbucks، Intel، Puma، Caterpillar، اور Nestlé جیسی درجنوں کمپنیاں یا تو اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں میں سرمایہ لگاتی ہیں، یا مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں ملوث ہیں۔ BDS ان کمپنیوں کے بائیکاٹ کی عوامی مہم چلاتی ہے، تاکہ اسرائیل کو اس کے جرائم کی قیمت چکانی پڑے۔ اسی تناظر میں مرکز تحفظ اسلام ہند نے سن 2024ء میں ایک نہایت اہم تحقیقی رپورٹ شائع کی، جس میں اسرائیلی مصنوعات اور ان سے وابستہ معاون عالمی و مقامی کمپنیوں کی تفصیلی فہرست پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں امت مسلمہ اور انصاف پسند شہریوں سے ان مصنوعات کے بائیکاٹ کی پُرزور اپیل شامل ہے۔ ملک بھر میں اس رپورٹ کو عوامی سطح پر بے حد سراہا گیا، اور بائیکاٹ کی مہم کو تقویت ملی۔ مرکز کی یہ علمی و تحریکی کاوش درحقیقت عالمی BDS تحریک کی ہم آہنگی اور اس کے اصولوں کا عملی تسلسل ہے، جو فلسطین کی حمایت اور صہیونی استعمار کی مزاحمت کا ایک مضبوط اور سنجیدہ قدم ثابت ہوئی۔


بی ڈی ایس تحریک کی کامیابیاں قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں کئی بڑی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ نکالنے کا اعلان کیا۔ جنوبی افریقہ، آئرلینڈ، ملائیشیا، اور چلی جیسے ممالک میں عوامی دباؤ کے نتیجے میں کئی اداروں نے اسرائیلی مصنوعات پر پابندیاں عائد کیں۔ عالمی شہرت یافتہ موسیقاروں، مصنفین، فنکاروں اور کھلاڑیوں نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے اشتراک سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ بعض اسرائیلی دانشوروں اور یہودی انسان دوست حلقوں نے بھی BDS کی حمایت کی۔ اس تحریک کی اخلاقی طاقت نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی حکومت نے BDS کے خلاف عالمی سطح پر تشہیری مہم شروع کر دی اور بعض ممالک میں اس پر پابندی لگوانے کی کوشش کی۔ یہ سب کچھ اس بات کی علامت ہے کہ BDS ایک کامیاب اور مؤثر تحریک ہے۔ جو آج بھی پوری قوت، مؤثر اور زندہ دلی کے ساتھ عالمی سطح پر جاری و ساری ہے۔ اگر ہم تازہ ترین رپورٹس پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جنوری 2025 میں City University of New York (CUNY) کی پروفیسرز یونین نے اسرائیلی کمپنیوں اور حکومتی بانڈز سے مکمل سرمایہ نکالنے کا اعلان کیا، جو 2026 تک مکمل ہوگا۔ دنیا بھر میں طلبہ، اساتذہ، اور انسانی حقوق کے علمبردار تعلیمی اداروں، پنشن فنڈز، اور سرمایہ کاری کمپنیوں سے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ Trinity College Dublin، University of Amsterdam، UC Berkeley، اور Stanford جیسے ادارے اس جدوجہد کا حصہ ہیں، جہاں قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، بھوک ہڑتالیں ہوئیں، اور اسرائیلی اداروں سے تعلقات پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ثقافتی محاذ پر BDS کے دباؤ سے بڑے میوزک فیسٹیولز اور کھیلوں کے مقابلے اسرائیلی شراکت داری سے دور ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں BDS کے خلاف 38 ریاستوں نے قانون سازی کی ہے، مگر اس کے باوجود طلبہ اور یونیورسٹی یونینز کی مزاحمت جاری ہے۔ 2025ء میں Protect Economic and Academic Freedom Act جیسے قوانین BDS کے خلاف لائے گئے، مگر اس تحریک کے اثرات Harvard، Yale، Georgetown، اور NYU جیسے اداروں کے سرمایہ نکالنے کے فیصلوں کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نیویارک سٹی نے اسرائیلی بانڈز میں اپنی سرکاری سرمایہ کاری تقریباً مکمل طور پر ختم کر دی۔ یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ BDS تحریک نہ صرف زندہ ہے بلکہ دن بہ دن عالمی سطح پر مضبوط تر ہو رہی ہے، اور تعلیم، ثقافت، معیشت اور سیاست جیسے شعبوں میں فلسطینی کاز کے حق میں ایک موثر آواز بنتی جا رہی ہے۔


یہ تحریک نہ صرف فلسطینی عوام کی آواز ہے بلکہ ظلم کے خلاف ہر مظلوم قوم کی علامت بن چکی ہے۔ اس تحریک نے دنیا کو یاد دلایا کہ طاقت صرف فوجی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عوامی بیداری، معاشی دباؤ اور اخلاقی سچائی میں بھی ہوتی ہے۔ BDS نے دنیا کے نوجوانوں کو متحرک کیا، تعلیمی اداروں کو بیدار کیا، اور عام انسانوں کو احساس دلایا کہ ان کا روزمرہ کا ایک چھوٹا سا قدم مثلاً کسی اسرائیلی مصنوعات کا نہ خریدنا بھی عالمی انصاف کی طرف ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔ اس تحریک نے ایک عام شہری کو ایک عالمی مجاہد میں بدل دیا، جس کا میدان جنگ اس کا بٹوہ، اس کی زبان، اس کی سوشل میڈیا پوسٹ اور اس کا شعور بن گیا۔ BDS کی موجودہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں انسانیت کو روند رہا ہے، ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کو بمباری سے شہید کیا جا رہا ہے، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے بے بسی کا شکار ہیں، اور عالمی میڈیا اسرائیلی ظلم کو چھپاتا اور فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسے حالات میں BDS ایک مظلوم کی آخری عالمی صدا ہے جو ہر زندہ ضمیر تک پہنچنا چاہتی ہے۔


اسلامی نقطہ نظر سے بھی BDS ایک نہایت جائز اور ضروری اقدام ہے۔ جب کسی مسلمان پر ظلم ہو، تو شریعت ہمیں حکم دیتی ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکو، مظلوم کی مدد کرو، کم از کم دل سے برا جانو۔ BDS تحریک دل کی برائی کو زبان، عمل اور شعور میں بدلتی ہے۔ یہ بائیکاٹ صرف معاشی نہیں، ایک دینی غیرت، ملی حمیت اور انسانی ضمیر کا اعلان ہے۔ یہ کہنا کہ ”ہم ظالم کو سپورٹ نہیں کریں گے“ ایک اسلامی اصول ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ”ظالم کی بھی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم“۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ظالم کی مدد کیسے؟ آپؐ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے روکو، یہی اس کی مدد ہے“۔ بی ڈی ایس تحریک اسی اصول پر عمل کر رہی ہے۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک نے اسرائیل سے تجارتی، سفارتی اور عسکری تعلقات قائم کر لیے ہیں، جو امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کے خلاف ہے۔ ایسے وقت میں BDS امت مسلمہ کو جگانے کی ایک صدا ہے کہ اگر تم میں سے ہر کوئی ظالم کے خلاف کھڑا ہو جائے، تو وقت کے فرعون کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ فلسطین کی سرزمین ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ہم سے مت غافل ہو، ہم پر ظلم ہو رہا ہے، تمہاری خاموشی ہمارے قاتل کی طاقت بن رہی ہے۔ BDS ایک تحریک ہے، ایک دعوت ہے، ایک غیرت ہے، ایک مزاحمت ہے، ایک شعور ہے۔ یہ ایک صدا ہے کہ اگر ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے، تو کم از کم ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہو۔ اگر جنگ کے میدان میں نہیں جا سکتے، تو اپنے بٹوے، اپنے بازار، اور اپنی زبان کو ایک ہتھیار بنا دو۔ اگر تم صرف ایک Coca-Cola کی بوتل سے ہاتھ کھینچ لو، تو یہ بھی ایک مزاحمت ہے۔ اگر تم اپنے اسکول، اپنی یونیورسٹی، اپنے دفتر، اپنی مسجد میں فلسطین کا تذکرہ کرتے ہو، BDS کا شعور دیتے ہو، تو یہ بھی ایک جہاد ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ BDS کو محض ایک تحریک نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک عالمی فریضہ سمجھا جائے۔ یہ ایک امت کی اجتماعی آواز ہے جو ظلم، قبضے، اور نسل پرستی کے خلاف صف آرا ہے۔ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسرائیل غاصب قبضے سے دستبردار نہیں ہوتا، فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے، اور مظلوم انسانیت کو انصاف نہیں ملتا۔ اور جب تک دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی ظالم باقی ہے، BDS جیسے پرامن اور مؤثر ہتھیار باقی رہیں گے، کیونکہ ظلم کے خلاف مزاحمت ہی انسانیت کی بقاء کی ضامن ہے۔ اگر BDS کے اس پیغام کو دنیا بھر کے مسلمان، انصاف پسند اور انسانی حقوق کے علمبردار قبول کر لیں تو ایک دن ضرور آئے گا جب القدس آزاد ہوگا، فلسطین کے بچے ہنسی کھیلیں گے، اور ظالم اسرائیلی حکومت کو اپنے ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔ یہی BDS کا خواب ہے، اور یہی ہر زندہ انسان کا خواب ہونا چاہیے۔


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

04؍ اگست 2025ء بروز پیر


#Palestine | #Gaza | #BDSMovement | #BoycottIsraelProducts | #IsraelProducts | #PaighameFurqan | #MTIH #TIMS

Thursday, 31 July 2025

فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

 فریادِ اقصیٰ، آہِ فلسطین اور ضمیرِ امت کا امتحان!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

فلسطین وہ سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہ السلام نے قدم رکھے، وہ مقدس خطہ جہاں اللہ کے محبوبوں کی صدائیں گونجتی تھیں، جہاں آسمانوں کی طرف معراج کا سفر شروع ہوا، جہاں بیت المقدس کے در و دیوار نے رسول اللہ ﷺ کی امامت دیکھی۔ وہی فلسطین آج خون میں نہایا ہوا ہے، وہی القدس آج صیہونی جارحیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، وہی اقصیٰ آج اُمت کے غفلت آلود سکوت پر نوحہ کناں ہے۔ یہ مسئلہ صرف کسی قوم یا قبیلے کا مسئلہ نہیں، یہ کسی جغرافیائی یا نسلی نزاع کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ اُمت مسلمہ کی روحانی، دینی، اور ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ درد ہے جسے ہر مومن کو اپنے سینے میں محسوس کرنا چاہیے، یہ وہ زخم ہے جو چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام کے قلب پر لگا ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو ارضِ اقصیٰ سے اٹھتی ہے اور ہر باضمیر مسلمان کے دل کو چیر دیتی ہے۔


فلسطین کی اہمیت محض اس کی جغرافیائی حیثیت میں نہیں، بلکہ یہ وہ سرزمین ہے جسے قرآن نے مبارک کہا، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے خوابوں کی وادی قرار دیا، جسے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے سینچا، جس پر سیدنا فاروق اعظم ؓنے فتح کے بعد عدل کا جھنڈا گاڑا، اور جس کے باسیوں کو نبی کریم ﷺ نے اپنا بھائی قرار دیا۔ بیت المقدس وہ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کرکے صحابہؓ نے برسوں نماز ادا کی، وہی مسجد ہے جہاں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء نے اللہ کے آخری نبی کے پیچھے نماز پڑھی، وہی جگہ ہے جہاں سے حضوراکرم ﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا، اور وہی جگہ ہے جو قیامت کے قریب دجال اور امام مہدیؑ کے درمیان آخری معرکہ کی گواہ بنے گی۔


فلسطین کی سرزمین پر آج جو ظلم ہو رہا ہے، وہ تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے۔ لاکھوں بچے یتیم ہو چکے، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں، مساجد کھنڈر بنادی گئیں، قرآن کے اوراق جلا دیے گئے، اسپتالوں پر بم برسائے گئے، اسکولوں میں بارود بھرا گیا، حتیٰ کہ وہ نومولود جنہوں نے ابھی دنیا کی ہوا تک نہ چھوئی، انہیں بھی میزائلوں نے آغوشِ اجل میں پہنچا دیا۔ یہ ظلم محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، یہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہے، یہ تہذیبِ مغرب کا اصل چہرہ ہے، یہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مکمل منافقت کا عکاس ہے۔ ایک طرف غزہ کی گلیوں میں بچوں کے ٹکڑے بکھرے ہیں، دوسری طرف امریکہ و اسرائیل ہتھیاروں کے سودے کررہے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی مائیں اپنے معصوم بچوں کی لاشیں گود میں لیے بین کررہی ہیں، تو دوسری طرف یورپی اقوام اسرائیلی جارحیت کو ”دفاعی کارروائی“ قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کررہی ہیں۔ اقصیٰ کے منبر پر اذان دینے والے شہید کردیے گئے، قرآن سنانے والوں کے سینے چھلنی کردیے گئے، اور پوری دنیا… بالخصوص 57 اسلامی ممالک… صرف مذمتی بیانات، علامتی اجلاس، اور خاموش دعاؤں تک محدود ہیں۔


کیا یہ امت محمد ﷺ کی غیرت کا مظہر ہے؟ کیا یہ اُمت جو ایک جسم کی مانند کہلائی، وہ اپنے ہی جسم کے ایک عضو کے زخم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟ کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم نے ایک مظلوم مسلمان کی مدد نہ کی، تو اللہ تمہیں بھی بے یار و مددگار چھوڑ دے گا؟۔فلسطین آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے، یہ ہماری ایمانی بقا، دینی غیرت، اور نبوی نسبت کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم اقصیٰ کے حق میں نہ اٹھے، اگر آج ہم نے فلسطینیوں کی صداؤں پر لبیک نہ کہا، اگر آج ہم نے اپنی زبان، قلم، دل، اور وجود کو اس میں شریک نہ کیا، تو کل جب ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہوں گے، تب ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم آپ کی امت ہیں؟


ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کا دفاع محض عسکری یا سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ جس طرح ہم اپنے گھر کی دیوار کے ایک پتھر کو بھی غیروں کے قبضے میں نہیں جانے دیتے، اسی طرح بیت المقدس… جو ہمارا قبلہ اول ہے… وہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے، اور اس کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنی ترجیحات کو بدلیں، اپنے دلوں میں فلسطین کے لیے درد پیدا کریں، اور ہر محاذ پر؛ چاہے وہ میڈیا ہو، معیشت ہو، سیاست ہو یا سفارت؛ فلسطین کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، ان کمپنیوں کا محاسبہ کرنا چاہیے جو صیہونی جرائم میں شریک ہیں، ہمیں اپنی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ محض مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ہماری مساجد، ہمارے مدارس، ہمارے اسکول، ہمارے میڈیا، ہماری تحریریں، ہماری تقریریں، ہر ہر چیز کو فلسطین کا ترجمان بننا چاہیے۔ ہمیں امت کو بیدار کرنا ہوگا، دلوں میں ایمان کی حرارت جگانی ہوگی، نوجوانوں میں بیداری کی روح پھونکنی ہوگی، اور ظالموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ امتِ محمدیہ مر نہیں گئی، بلکہ وہ لمحہ قریب ہے جب یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے گی۔


یاد رکھیے! اقصیٰ کا مسئلہ صرف فلسطینی ماں کے بیٹے کا مسئلہ نہیں، یہ آپ کے بیٹے کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کی بیٹی کے حجاب کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کے ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر آج ہم نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا، تو کل ہماری گلیوں میں بھی یہی ظلم دہرایا جائے گا۔آج مسجد اقصیٰ پکار رہا ہے، غزہ چیخ رہا ہے، اور مظلوم بچوں کے لاشے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ کہاں ہے وہ امت جس کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں“؟ کہاں ہے وہ غیرت جو بدر و اُحد کے میدانوں میں گونجی تھی؟ کہاں ہیں وہ آنسو جو مظلوموں کے لیے بہا کرتے تھے؟ کہاں گیا وہ جذبہ جو کربلا میں یزید کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا؟ اے امت مسلمہ! اُٹھ جا، ابھی وقت ہے، اب بھی جاگ جائے تو اقصیٰ بچ سکتا ہے، اگر تُو نے صدائے حق بلند کی تو ظلم کے ایوان لرز سکتے ہیں، اگر تُو نے فلسطینی بچوں کی چیخوں کو اپنی صدا بنا لیا تو پھر اقصیٰ کے منبر سے اذان کی گونج سنائی دے سکتی ہے، ورنہ یاد رکھ، تاریخ خاموش نہیں رہتی، کل یہی فلسطین تمہیں یاد کرے گا اور کہے گا: ”تم ہمارے اپنے تھے، مگر تم نے ہمیں یتیموں کی طرح تنہا چھوڑ دیا!“۔ اگر تیرے ہاتھ میں قلم ہے تو اسے فلسطین کا سفیر بنا، اگر تیری زبان میں اثر ہے تو اس سے فلسطین کی آہ کو دنیا تک پہنچا، اگر تیرے پاس دولت ہے تو اسے مظلوموں کی مدد میں خرچ کر، اگر تیرے پاس اثر و رسوخ ہے تو اسے اسرائیلی بائیکاٹ کے لیے استعمال کر، اور اگر تیرے پاس صرف دعا ہے تو اسے آنسوؤں اور سچائی سے بھر دے تاکہ وہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچے؛ ورنہ جب قیامت کے دن ایمان کا سوال ہوگا، تو فلسطین کی چیخ تیرے جواب کے بیچ گونجے گی، اور بیت المقدس کی دیواریں گواہی دیں گی: ”یہ وہ لوگ تھے… جو امت کے زخموں پر پھول چڑھاتے رہے!“

اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے

مومن ہے تو پھر مسجد اقصیٰ کی خبر لے


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

31 جولائی 2025ء بروز جمعرات


8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#Palestine | #Gaza | #Israel | #PahalgamTerroristAttack | #FREEPalestine | #PaighameFurqan | #MTIH | #TIMS