Tuesday, December 29, 2020

”مجلس احرار اسلام ہند“؛ ہمت وجرأت کے 91؍ سال! (29؍ دسمبر یوم تاسیس)



”مجلس احرار اسلام ہند“؛ ہمت وجرأت کے 91؍ سال!

(29؍ دسمبر یوم تاسیس)


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(صدر مجلس احرار اسلام بنگلور و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


تحریک آزادیٔ ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لازوال و بے مثال ایثار و قربانی اور ایمان و عزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احرار اسلام ہند سر فہرست ہے۔جس کی جرأت، استقامت، بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آج سے تقریباً 91؍ سال قبل جب سن 1929ء میں دریائے راوی لاہور کے کنارے کانگریس کے اجلاس کے اختتام پر نہرو رپورٹ دریا میں بہا دی گئی اور انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبۂ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا اور کشمیر میں ڈوگری حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ مظالم کے درمیان انگریز کے خودکاشتہ پودے مرزا غلام قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کی طرف سے کشمیر کو مرزائیت میں رنگنے کی سازش رچی جانے لگی تو مسلمانوں کے سامنے ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدوں بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا اور ملک کے اکابرین بھی ایک ایسی جماعت کے خواہشمند تھے جو تحریک آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کی بھی نمائندگی کرے۔بالآخر 29؍ دسمبر 1929ء کو دریائے راوی کے کنارے اسلامیہ کالج لاہور کے حبیب ہال میں تحریک آزادی کے حریت پسندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، سید الاحرار امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مفکر احرار چودھری افضل حقؒ، مولانا سید محمد غزنویؒ، مولانا مظہر علی مظہرؒ، شیخ حسام الدینؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ جیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کے تجویز کردہ نام کے مطابق ”مجلس احرار اسلام ہند“ کے نام سے اس انقلابی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اجلاس کے اختتام پر بطل حریت رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کو مجلس احرار اسلام ہند کا صدر منتخب کیا گیا۔


مجلس احرار اسلام ہند کا قیام اس دور کے مشہور بزرگ شیخ المشائخ حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ اور امام المحدثین حضرت مولانا سیدانور شاہ کشمیری ؒکے عین خواہشات کے مطابق تھا۔ ان بزرگوں نے ہمیشہ احرار کی سرپرستی فرمائی۔ مجلس احرار کا قیام جہاں تحریک آزادی کے حریت پسندوں کیلئے ایک مضبوط جماعت کی شکل میں ہوا وہیں ملک میں اس جماعت نے اسلامی روایات کے مطابق میدان سیاست میں قدم رکھا۔ چونکہ مجلس احرار اسلام کے بنیادی مقاصد میں آزادی وطن اور تحفظ ختم نبوت ایسے عظیم اہداف شامل تھے۔ اس لیے کسی بھی مکتبہ فکر کے لیے احرار میں شمولیت کے لیے بے پناہ کشش پائی جاتی تھی۔ اس طرح مجلس احرار نے آزادی کی جدوجہد میں نہ صرف مذہبی شعور کو اجاگر کیا بلکہ مختلف مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں کو یکجا کر کے مشترکہ قیادت فراہم کی۔ احرار کے قیام سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور فرنگی حکومت کے چہرے پر شکن پڑگئے۔


مجلس احرار اسلام ہند نے اپنے قیام کے فوراً بعد کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین کی سازش کو ناکام بنانے کیلئے سن 1931ء میں پہلی ملک گیر تحریک کشمیری مسلمانوں کے حق میں چلائی۔ جو تحریک خلافت کے بعد سب سے بڑی تحریک ثابت ہوئی۔ جس میں پچاس ہزار احرار کارکن گرفتار ہوئے۔ مجلس احرار اسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا۔ تحریک کشمیر کے بعد احرار کی مقبولیت آسمانوں کو چھونے لگی اور ملک کے مختلف حصوں میں احرار کی شاخیں قائم ہوئیں۔تحریک تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ جھوٹی نبوت کے گڑھ قادیان کو فتح کرنا تھا۔ اسی کے پیش نظر مجلس احرار اسلام ہند کے قائدین رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ؒاور امیر شریعت مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنے احرار کے جانثار قافلے کے ساتھ سن 1934ء میں قادیان کا دورہ کرتے ہوئے وہاں سہ روزہ کانفرنس منعقد کیا اور اسی درمیان قادیان میں مجلس احرار اسلام کا دفتر قائم ہوا، جس پر احرار کا پرچم لہرا دیا گیا۔ جسے دیکھ کر جھوٹی نبوت کے پیروکار مرزائیوں کے یہاں زلزلہ برپا ہوگیا۔ اسی کو شاعر نے کہا:

ڈر کے سوتے ہی نہیں رات کو مرزا مرتد

آنکھ لگتی ہے تو احرار نظر آتے ہیں


مجلس احرار اسلام ہند کے قائدین بے غرضی اور بے لوثی میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہیں مفکر احرار چوہدری افضل حقؒ کا دماغ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا جوش عمل اور امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی ساحرانہ خطابت میسر تھی۔ اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں احرار کا طوطی بولنے لگا۔ مجلس احرار اسلام نے انگریزی استعمار کے شدید مظالم کے مقابلے میں دل برداشتہ اور مایوس ہونے کے بجائے عزم کامل اور پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ حریتِ اسلامی اور آزادیِ وطن کا علم بلند کیا۔ احرار کا قافلۂ ولی اللّٰہی اپنی مکمل دینی شناخت اور پہچان کے ساتھ تحریک آزادی میں کامیابی، مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت اور خدمت انسانیت کے جذبوں کو پروان چڑھانے کی جدوجہد میں اپنی قربانیوں کا رنگ بھرتا چلا گیا۔ تحریک آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ مجلس احرار نے تحریک کشمیر، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک بحالیِ مسجد شہید گنج، تحریک مسجد منزل گاہ سکھر، تحریک امداد و تعاون زلزلہ زدگان کوئٹہ ومتاثرین قحط بنگال جیسی درجنوں تحریکوں کی قیادت کی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا حق ادا کر دیا۔ ہندوستان کے جید علماء و مشائخ کی دعائیں اور سرپرستی احرار کو شاملِ حال رہی۔


تحریک آزادی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور سن 1947ء میں ملک آزاد ہوا لیکن افسوس کہ آزادی کے ساتھ ساتھ ملک تقسیم بھی ہوگیا۔ مجلس احرار اسلام نے روز اول سے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ الغرض ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ملک تقسیم ہوا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں فسادات کی ابتداء ہوگئی، ہر طرف قتل و غارت، لوٹ مار کا بازار گرم تھا، پاکستان سے بڑی تعداد میں سکھ اور ہندوستان سے بڑی تعداد میں مسلمان ہجرت کررہے تھے۔ کچھ عرصے بعد ہجرت کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سمیت احراریوں کی ایک تعداد بھی پاکستان ہجرت کرگئی لیکن چند ہی دنوں بعد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اپنے اہل خانہ سمیت ہندوستان دوبارہ واپس تشریف لے آئے۔ 1947ء کے بعد پاکستان میں امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے احرار کی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ہندوستان میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے عزم احرار کو زندہ رکھا۔ البتہ دونوں مقامات میں فرق یہ تھا کہ امیر شریعت ؒکے ہمراہ بے شمار احراری موجود تھے اور رئیس الاحرارؒ نے دیار کفر میں اس کا پرچم بلند رکھا تھا۔


مجلس احرار اسلام ہند نے دینی معاملات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوز رکھی۔ تقسیم ہند کے بعد جب پنجاب و اطراف کے علاقوں میں دین اسلام کا نام لینے والا کوئی بھی نہ رہا اس وقت بھی رئیس الاحرار نے ہمت نہ ہاری بلکہ پنجاب میں مساجد آباد کاری کا کام شروع کروایا اور الحمدللہ انکی قربانیوں کے صدقے آج مشرقی پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ اسی کے ساتھ سیاسی میدان میں نہ ہونے کے باوجود قومی امور اور عوامی مسائل پر مجلس احرار کی توانا آواز سنائی دیتی رہی۔ ستمبر 1956ء میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کا اچانک وصال ہوگیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ رئیس الاحرار کے تمام صاحبزادے پنجاب میں اسلام کی اشاعت نو میں متحرک تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کے فرزند مفتیٔ اعظم مفتی محمد احمد لدھیانویؒ نے عزم احرار کو آگے بڑھایا اور اس ضمن میں پندرہ روزہ اخبار ”الحبیب“ بھی جاری کیا جو کہ احرار کی ترجمانی کررہا تھا۔ رئیس الاحرار کی رحلت کے بعد پنجاب میں مساجد اور مسلمانوں کو آباد کرنے، تحریک ختم نبوت، مدرسہ حبیبیہ کا قیام جیسے مختلف تحریکوں کے ذریعہ اپنی نمایاں خدمات انجام دیتے ہوئے 27؍ مئی 1988ء میں اس مرد مجاہد نے بھی داعی اجل کو لبیک کہ دیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مفتیٔ اعظم کے انتقال کے صرف ایک سال بعد لدھیانہ جامع مسجد میں احرار قائدین کی میٹنگ ہوئی، جس میں مجلس احرار اسلام ہند کو ایک بار پھر ملک بھر میں سرگرم کرنے کیلئے اور مسلمانوں کو جذبۂ احرار سے آشناء کروانے کیلئے طویل مجلس کے بعد اتفاق رائے سے قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی دامت برکاتہم کو جماعت احرار کا صدر منتخب کیا گیا۔

جس کے ایثار سے ملت کی دوبالا ہوئی شان

اس جماعت کے ہیں سردار حبیب الرحمن


مجلس احرار اسلام ہند کا صدر بننے کے بعد قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی نے تمام تر ذمہ داریاں بخوبی ادا کرنی شروع کردیں۔ اولاً تحریک تحفظ ختم نبوت، ثانیاً پنجاب میں مساجد کی آبادکاری اور دینی تعلیم کا فروغ، ثالثاً جماعت احرار کی تنظیم کے کام کو سرفہرت رکھا۔ آپ نے چند سالوں میں ہی نہ صرف جماعت احرار کو منظم کیا بلکہ احراریوں کو ایک بار پھر سے قادیانیوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح قائم کردیا۔ آپ نے پورے ملک کا طوفانی دورہ کرتے ہوئے انگریز کے خودکاشہ پودے قادیانیوں کو اس طرح بے نقاب کیا کہ قادیانی کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ سن 2001ء میں قادیانیوں نے آپکے فرزند ارجمند اور مجلس احرار اسلام ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمدعثمان رحمانی لدھیانوی سمیت دیگر احراریوں کے خلاف قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ درج کرواتے ہوئے گرفتار کرواکر جیل بھیج دیا گیا۔ اس گرفتاری کے بعد قادیانی خوش تھے کہ وہ کامیاب ہوگئے لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ احراری جہاں جائیں وہاں اللہ کے فضل سے انفرادی انداز میں دین کا کام کرتے ہی رہتے ہیں۔ لدھیانہ جیل میں احراریوں نے عشق رسول اور جرأت و بے باکی کی بے شمار مثالیں قائم کی۔ مجلس احرار اسلام ہند کے تعاون اور قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کی سرپرستی میں اسیران ختم نبوت نے لدھیانہ سنٹرل جیل میں فقط پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں برصغیر کے جیلوں میں اول”مسجد ختم نبوت“ تعمیر کردی، جسکا افتتاح سن 2005ء میں قائد الاحرار نے کیا۔ اسی طرح مرتد قادیانی پر علمائے لدھیانہ کے سرخیل مولانا شاہ محمد لدھیانویؒ، مولانا شاہ عبداللہ لدھیانویؒ اور مولانا شاہ عبد العزیز لدھیانویؒ کی جانب سے جاری کئے گئے اول فتویٰ تکفیر کے ساتھ جو تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی تھی اسکے سو سال مکمل ہونے پر مجلس احرار اسلام ہند نے 10؍ اپریل 2011ء کو قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی کی صدارت میں لدھیانہ کی سرزمین پر تاریخی صد سالہ جلسہ منعقد کیا، جس میں تقریباً 10؍ لاکھ سے زائد فرزند توحید نے شرکت کی اور قادیانیوں کا تعاقب اور تاج ختم نبوت کی حفاظت کا عزم کیا۔ جسے دیکھ کر قادیانی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور ملک کی حکومت اور اسکے اہلکاروں کے یہاں احرار کی شکایتیں کرنے لگے لیکن انہیں شاید معلوم نہیں کہ ایسی شکایتوں سے احرار نہ کبھی ماضی میں گھبرایا تھا اور نہ آج اور کل گھبرائے گا کیونکہ احرار تاج ختم نبوت کی حفاظت کے خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا جانتا ہے تو شکایت اور مقدمہ کیا چیز ہے!


الحمداللہ! آج 29؍ ڈسمبر 2020ء کو مجلس احرار اسلام ہند عزم، ہمت، جرأت اور استقامت کے 91؍ سال مکمل کرچکی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں اپنا یوم تاسیس منا رہی ہے۔ یہ حقیقت ہیکہ علماء لدھیانہ نے بقائے احرار کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں۔ پرچم احرار بلند رکھا اور اپنے عظیم نصب العین کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔ جس کے نتیجے میں قافلۂ احرار آج بھی قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی دامت برکاتہم کی قیادت میں رواں دواں ہے اور مجلس احرار اسلام ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمد عثمان لدھیانوی کی مدبرانہ صلاحیتوں کے نتیجے میں حلقۂ احرار وسیع ہورہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج ملک کے طول و عرض میں شیر اسلام، شاہی امام پنجاب، قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آج ملت اسلامیہ ہندیہ کا ایک بڑا طبقہ جہاں آپکی آواز پر لبیک کہتا ہے وہیں دشمن پر آپکا رعب اس طرح طاری ہیکہ دشمن ڈر بھاگتا ہے۔ آج احرار میں وہی جذبۂ حریت، بے خوف، حق گوئی کی صفات موجود ہے جس کی بنیاد رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ اور امیر شریعت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے رکھی تھی۔ آج بھی احرار کا شمار ان جماعتوں میں ہوتا ہے جو فتنۂ قادیانیت کے خلاف صف اول میں ملت اسلامیہ کی رہنمائی کررہے ہیں اور مظلوموں کے حق میں ظالم حکومتوں کے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کررہی ہے۔ احرار کے خلاف قادیانیوں کی لگاتار شکایتیں، قائد الاحرار پر بزدلانہ حملے، احراریوں پر ناجائز مقدمات، گودی میڈیا کا قائد الاحرار کے خلاف غلط پروپیگنڈا اور ظالم حکومت کو للکارنے پر قائد الاحرار کا ملک کی راجیہ سبھا میں تذکرہ ہونا اسکی جیتی جاگتی ثبوت ہے کہ احرار کا عمل قبول ہورہا ہے اور یہ واضح پیغام ہیکہ احرار ہیں ہم بیدار ہیں ہم! الغرض ہم دعا کرتے ہیں کہ دین و اسلام اور تحریک ختم نبوت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کرنے والے اس مرد مجاہد، ملت اسلامیہ کے عظیم جرنیل، شیر اسلام، قائد الاحرار مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی مدظلہ کی قیادت میں مجلس احرار اسلام ہند اپنی پیش قدمی جاری رکھی، آمین یارب العالمین۔

یہ طنطنہ یہ دبدبا ہے مسلمان کا

ہیبت سے کانپتا ہے بدن قادیان کا

احراریوں نے جو کیا انگریزیوں کے ساتھ

حشر اس سے بڑھ کے ہوگا مرتدوں کے ساتھ


(مجلس احرار اسلام ہند اور علماء لدھیانہ کی تاریخ اور خدمات کو پڑھنے کیلئے مولانا محمد عثمان لدھیانوی کی کتاب ”قافلہ علم حریت“ کا مطالعہ ضرور کریں!)


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

١٣؍ جمادی الاول ١٤٤٣ھ

مطابق 29؍ دسمبر 2020ء


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_____________________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور

Sunday, December 27, 2020

Moulana Mohammed Ilyas Sb (Ameer Majlise Tahaffuze Khatm-e-Nabuwat Hong Kong) Speech In Online Tahaffuze Aqaid-e-Islam Conference

 Newspapers | 27 Dec 2020









🎯Moulana Mohammed Ilyas Sb (Ameer Majlise Tahaffuze Khatm-e-Nabuwat Hong Kong) Speech In Online Tahaffuze Aqaid-e-Islam Conference!


Saturday, December 26, 2020

جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی منتخب ہونے پر مفتی معصوم ثاقب قاسمی کو جمعیۃ علماء کرناٹک نے پیش کی تہنیت!



 جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی منتخب ہونے پر مفتی معصوم ثاقب قاسمی کو جمعیۃ علماء کرناٹک نے پیش کی تہنیت!


بنگلور، 26/ ڈسمبر (پریس ریلیز): پچھلے دنوں مسلمانانِ ہند کی سب سے قدیم و بڑی جماعت جمعیۃ علماء ہند کے اراکین عاملہ کی میٹنگ کے بعد صدر جمعیۃ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ نے ملک کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد معصوم ثاقب صاحب قاسمی کو قومی ناظم عمومی نامزد کیا ہے۔ جمعیۃ کے اس اعلیٰ عہدے کے حسن انتخاب کے بعد تمام مسلمانوں خصوصاً جمعیۃ علماء کے کارکنوں میں خوشی کا ماحول پایا جارہا ہے۔اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے ذمہ داران نے مفتی معصوم ثاقب صاحب قاسمی کو ناظم عمومی منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کیا اور صدر جمعیۃ مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے فیصلے کو شاندار و تاریخی قرار دیتے ہوئے اس حسن انتخاب کی بھر پور ستائش کی۔ انہوں نے اکابرین جمعیۃ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ مفتی صاحب بڑے فعال و متحرک اور باصلاحیت شخصیت ہیں اور ایک عرصے دراز بلکہ اپنے زمانۂ طالب علمی سے جمعیۃ علماء ہند اور اسکے اکابرین سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اکابرین جمعیۃ کی سرپرستی میں مفتی صاحب جمعیۃ علماء ہند کے اغراض و مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکے اصول و ضوابط کے تحت ملک کے مختلف گوشوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایسے فعال و متحرک اور ممتاز و جید عالم دین کی نامزدگی پر جمعیۃ علماء کرناٹک جہاں انہیں مبارکباد پیش کرتی ہیں وہیں جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم کا شکریہ بھی ادا کرتی ہے اور امید ظاہر کرتی ہیکہ اکابرین جمعیۃ کی سرپرستی و قیادت میں جمعیۃ علماء ہند کو پورے ملک میں مزید مضبوطی ملے ہوگی۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، نائب صدر مولانا شمیم سالک مظاہری، جنرل سیکرٹری محب اللہ خان امین، رکن عاملہ حافظ محمد یل فاروق، جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانامحمد صلاح الدین قاسمی، نائب صدر حافظ محمد آصف، رکن عاملہ اعجاز موسیٰ خان، ارشد موسیٰ خان، مولانا شیخ آدم قاسمی،فاضل احمد، احسان قریشی وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔

انسان کی نجات عقیدہ پر موقوف ہے، عقائد کی خرابی نجات نہ ہونے کا سبب!



 انسان کی نجات عقیدہ پر موقوف ہے، عقائد کی خرابی نجات نہ ہونے کا سبب!

مرکز تحفظ اسلام ہند کی آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس سے ہانگ کانگ کے مولانا محمد الیاس کا خطاب!


بنگلور، 26/ ڈسمبر (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقدعظیم الشان آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوتؐ ہانگ کانگ کے امیر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ہمارے اکابر و اسلاف نے عقائد کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے بہت ساری کتابیں لکھیں ہیں۔ اور اکابر علماء دیوبند نے عقائد بیان کرنے سے پہلے عقائد کی اہمیت و عظمت دل میں بٹھائی ہے، کیونکہ جب تک آدمی کے دل میں کسی چیز کی عظمت نہیں ہوتی وہ اسکی حفاظت بھی نہیں کرتا۔ مولانا محمدالیاس نے اکابرین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی نجات عقیدہ کی حفاظت پر موقوف ہے۔ تفسیر مکی میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی شخص کے عقائد خراب ہوں اور اسے غلاف کعبہ میں لپیٹ کر دفن کیا جائے تو بھی اسکی مغفرت نہیں ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ آخرت کے فیصلے عقیدوں پر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا نور الحسن بخاریؒ نے عقائد کے بارے میں ایک بات لکھی کہ”اللہ نہ کرے اگر کسی کا عقیدہ ٹھیک نہیں تو وہ قیامت کے میدان میں نیکیوں کے سمندر میں تیرتا ہوا بھی آئیگا تو اللہ تعالیٰ اسکی کسی نیکی کو میزان میں نہیں رکھے گا!“مولانا نے فرمایا کہ علامہ جلال الدین سیوطی ؒکے فیصلوں سے اکابر نے ایک بات لکھی کہ”اگر کسی شخص کا عقیدہ ٹھیک نہیں اور اس نے اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے کوئی نیک کام کیا ہے تو دنیا ہی میں اسکو اسکا اجر مل جائے گا مگر آخرت میں اسکے لیے کچھ بھی نہیں۔“ مولانا محمد الیاس نے مسلمانوں پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عقائد پر ہمارا کوئی مطالعہ نہیں جب کہ ہمارے اکابرین کے عقائد پر سینکڑوں کتابیں لکھیں ہیں، بالخصوص فقط مولانا ادریس کاندھلویؒ نے عقائد پر اصول اسلام، عقائد الاسلام اور علم کلام کے نام سے تین کتابیں لکھیں ہیں! مولانا محمدالیاس نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ اگر عقیدہ صحیح ہے تو ان شاء اللہ نجات بھی ہے کیونکہ صاحب منہاج مسلم نے لکھا ہے کہ ”اگر کسی کے عقائد ٹھیک نہیں تو اسکی بخشش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ مولانا نے فرمایا کہ مولانا ادریس کاندھلویؒ نے اپنی کتاب عقائد الاسلام میں لکھا ہے کہ شریعت کے دو جزو ہیں ایک اعتقادی اور دوسرا عملی، پہلا جزو اصل ہے اور دوسرا اسکی فرع اور فرمایا کہ اگر کسی کے عقیدے مضبوط ہیں اور عمل مفقود ہے تو ایک نہ ایک دن وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا، اور اگر کسی کے عقیدے مضبوط نہیں ہیں تو اسکے جنت میں داخل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنے اور دوسروں کے عقائد کی حفاظت کریں۔بیان کے اختتام پر مولانا محمد الیاس صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش سلسلہ عقائد اسلام پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر مختلف شعبوں کے ذریعہ عقائد اسلام پر اپنی نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے۔اسی سلسلے کے تحت ہر ہفتہ اور اتوار بعد نماز مغرب آن لائن تحفظ عقائد اسلام کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ جس میں اکابر علماء کے لائیو خطابات ہوتے ہیں، جو مرکز کے آفیشل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ملت اسلامیہ سے گزارش ہیکہ اس کانفرنس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور اس سلسلے سے بھر پور فائدہ اٹھائیں!

Thursday, December 24, 2020

Aqaid-e-Islam

 عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम





Wednesday, December 23, 2020

Silsila Aqaid-e-Islam | Dars Aqidah Tahawiya

VIDEO : https://youtu.be/eVxZfPKJzkE


سلسلہ عقائد اسلام | درس عقیدہ طحاویہ

 توحید و صفات باری تعالیٰ | عقیدہ نمبر 25-28

مدرس : متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ


Silsila Aqaid-e-Islam | Dars Aqidah Tahawiya

Tawheed Wa Sifaate Bari Tala | Aqidah No : 25-28

By: Mutakallim-e-Islam Moulana Ilyas Ghuman Sb DB


सिलसिला अकाइद-ए-इस्लाम | दरस अकीदा तहाविया

तोहीद व सिफते बारि ताला | अकीदा : 25-28

मौलाना मुहम्मद इलियास घुम्मन साहब द.ब


Presented By:

Tahaffuz-e-Islam Media Service

(Bangalore, Karnataka, India)

عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम

 




Hazrat Mohammed ﷺ Ke Bare Main Aqaid!


VIDEO : https://youtu.be/W0qWeoyzOAA


سلسلہ عقائد اسلام | درس اسلامی اسباق

حضرت محمد ﷺ کے بارے میں عقیدے!

عقیدہ نمبر : 09 - 07

✍️فقیہ العصر مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہ


🎙️قاری عبد الرحمٰن الخبیر قاسمی بستوی

(رکن شوریٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)



Aqaid-e-Islam Series | Dars Islami Asbaaq

Hazrat Mohammed ﷺ Ke Bare Main Aqaid!

Aqidah No : 07 - 09

✍️ Mufti Shuaibullah Khan Miftahi Sb DB


🎙️Qari Abdur Rahman Al-Khabeer Qasmi Bastawi

(Rukn Shora Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind)


सिलसिला अकाइद-ए-इस्लाम | दरस इस्लामी अस्बाक

हज़रत मुहम्मद ﷺ के बारे में अकीदा!

अकीदा नंबर : 07 - 09

✍️ मुफ्ती मुहम्मद शोएबुल्लाह खान साहब मिफ्ताही द.ब


🎙️कारी अब्दुर्रहमान अल-खबीर क़ासमी बस्तवी

(रूकने शुरा मर्कज़ तहफ्फुज-ए-इस्लाम हिंद)


Presented By:

Tahaffuz-e-Islam Media Service

(Bangalore, Karnataka, India)


Allah Ka Special Banda... | Moulana Peer Zulfiqar Ahmed Naqshbandi DB



اللہ کا اشپیشل بندہ... | حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی مدظلہ

Allah Ka Special Banda... | Moulana Peer Zulfiqar Ahmed Naqshbandi DB

अल्लाह का इस्पेसल बंदा... | मौलाना पीर जुल्फिकार अहमद नक्शबंदी साहब द.ब


VIDEO : https://youtu.be/ONmWyeUd1g4


Presented By:

Tahaffuz-e-Islam Media Service

(Bangalore, Karnataka, India)

Thursday, December 17, 2020

Aqaid-e-Islam

 عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम





عقائد کے خلاف فتنوں کی کثرت مرض کی علامت ہے!



عقائد کے خلاف فتنوں کی کثرت مرض کی علامت ہے! 


از قلم : حضرت مولانا مولانا شاہ عالم گورکھپوری صاحب دامت برکاتہم

(نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دارالعلوم دیوبند)


اسلام میں عقیدہ کو اوّلیت حاصل ہے پہلے خدا اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر درست عقیدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے پھر اس کے بعد ہی اعمال کی ابتدا ہوتی ہے ، تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی ضرورت بھی اسی شخص کو پڑے گی جس کا پہلے خدا ، اس کے رسول اور خدا کی کتابوں پر ایمان ہوگا ورنہ احادیث،تفسیر اور فقہ وغیرہ علوم اسلامیہ کو ماننا ایسا ہی بے سودہوگا جیسے کہ بغیر بنیاد کے عمارت کھڑی کردی جائے ۔عقیدہ کی حیثیت اور اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں مگر حیرت اس بات پر ہے کہ عقائد کی حفاظت کے لیے جو محنت درکار ہے اس میں مجموعی طورپر حد درجہ تغافل سے کام لیا جارہا ہے ۔ مدارس اسلامیہ میں داخل عقائد کے نصاب پر اور ان کی تعلیم اور انداز تعلیم و تعلم پر اگر منصفانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے عقائد کے باب میں وہ محنت نہیں کی جاتی جودیگر ابواب میں دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے ۔


ماضی میں اسلامی عقائد پر جب یونانی فلسفہ نے یلغار مچایا تو اس کے فریب کو توڑنے کے لیے ہمارے بڑوں نے اس طرح محنتیں کیں کہ یونانی فلسفہ کی جادوگری آج خود فلسفیوں کے لیے مضحکہ خیز بن کر رہ گئی ہے ،متکلمین اسلام کے وضع کردہ اصولوں نے فلسفہ کے راستے سے آنے والے ارتدادی سیلاب کو نہ صرف یہ کہ قیامت تک کے لیے بند کردیا بلکہ نازک خیال فلسفیوں کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ لیکن آج صورت حال یوں بدل گئی ہے کہ جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے ، نئے نئے ارتدادی فتنے مسلمانوں کے درمیان جنم لے رہے اور پنپ رہے ہیں ،قدیم فلسفیوں کے زہریلے اثرات کو نئی نئی تعبیرات و زبان میں پیش کرکے ایک بار پھر اسلامی عقائد کو مسخ کرنے کی فکر میں بیشمار تنظیمیں شب و روز مصروف ہیں، اعمال میں تو خود مسلمانوں نے ہی دین کو بغیر ماہرینِ دین کے چلانے کی وکالت شروع کررکھی ہے لیکن پانی سر سے اتنا اونچا ہوچکا ہے کہ عقائد میں بھی اب دین کو بغیر ماہرینِ دین کے چلانے کی وبا عام مسلمانوں میں پھیلنے لگی ہے ،ہر دانشوراسلامی عقائد میں رائے زنی کرنااپنا موروثی حق سمجھنے لگا ہے ۔ پھر ملحددانشوروں کی تلچھٹ مرزا قادیانی اوراُس جیسے دیگر لوگ جیسے شکیل بن حنیف یا راشد شاز#وغیرہ ،اپنے آپ کو کیوں پیچھے رکھیں؛چناں چہ وہ بھی مسلمانوں کے درمیان عقائد کی مضبوط تعلیم نہ ہونے کا جی بھرکے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس خودسری کا بھیانک نتیجہ ؛ عقائد اسلامیہ کو بازیچہٴ اطفال بنانے کی صورت میں نکلے گا،جیسا کہ عام طور پر اب دیکھنے میں بھی آرہا ہے کہ جگہ جگہ اسلام کے قطعی اور یقینی عقائد و نظریات کو تختہٴ مشق بنایا جانے لگا ہے ۔ میدان میں بالکل خاموشی کی بات تو نہیں کی جاسکتی لیکن سوائے چند افراد اور دو ایک تنظیموں کے کتنے لوگ ہیں جو اس سیلاب بلاکو روکنے میں فکر مند ہیں ؟۔


فکر مندوں کا بھی حال یہ ہے کہ مرض کی بجائے علامات مرض کے علاج میں لگے ہیں جبکہ فتنوں کی کثرت اِس مرض کی علامت ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ کمزور ہوچکا ہے اُسے مضبوط کیاجائے تاکہ فتنوں سے بچاوٴ میں مسلمان خود اپنی طاقت استعمال کرسکیں ۔ علاج کا کامیاب طریقہ یہ ہے کہ مرض کو دُور کیا جائے اور براہ راست مرض کا علاج کیا جائے نہ کہ علامتوں کا ۔لیکن آج کل فتنوں کے پیچھے طرح طرح کی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں علامات مرض کے پیچھے دوڑ لگانے والے کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل مرض کے ازالے کی جانب توجہ کتنے لوگوں کی ہے ؟ ۔


بلاشبہ اس میدان میں کام کرنے والی تنظیموں پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں جن کے نبھانے میں وہ کوتاہ عمل ہیں لیکن مسئلے کا حل ؛کسی کو مورد الزام ٹھہرانے میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ ایمان و عقائد کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے سد باب کے لیے عقائد اور علم کلام کی تعلیم کے لیے محنت میں کچھ اضافہ کیا جائے اور علم کلام کی تعلیم کو نہ صرف یہ کہ معقولیت و معنویت کے ساتھ اپنے اپنے مکاتب ومدارس کے نصاب کا جزو بنایا جائے بلکہ عام فہم بیانات اورکتابوں کے ذریعہ مساجد کی صبح و شام کی تعلیم کا حصہ بنادیا جائے ۔متکلمین اسلام نے عقائد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جوکامیاب و لاجواب علمی اور عقلی اصول دئیے ہیں، اُن کی روشنی میں حالات حاضرہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے علاقائی اور رائج زبان و بیان کے ذریعہ عام مسلمانوں میں بھی اتنی صلاحیت پیدا کردی جائے کہ گلی کوچوں میں جنم لینے والی ارتدادی لہروں کا مسکت جواب دینے کی صلاحیت اُن میں پیدا ہوجائے ۔


علم کلام جوعقائد کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس سے بیگانگی اور ناواقفیت کے سبب آج کا مسلمان اس قدر مرعوب ہوگیا ہے کہ اگر کوئی قادیانی یا شکیلی کسی گلی کوچے میں وسوسہ چھوڑدے تو ہمارا نوجوان اس کو بہت بڑا تیر سمجھ کر مولانا صاحبوں کے پیچھے پڑجائے گا کہ اس کا جواب کیا ہے؟ لیکن کوئی عالم دین مسجد کے ممبر و محراب سے معقول سے معقول ترجواب دے دے تو اس کو لے کر قادیانیوں یا شکیلیوں کے پیچھے کبھی نہیں پڑتا کہ تم نے بلاوجہ کا یہ وسوسہ اسلام میں کیوں پیداکیا ؟۔ مسلمانوں کے درمیان مرعوبیت کی اس حالت کو اگر پلٹنا ہے تو اس کے لیے معقول توڑ دریافت کرنا پڑے گا ۔راقم سطور نے اپنے بڑوں کی تحریرات و بیانات کی روشنی میں اس کا جو حل سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ دور حاضر کی زبان میں علم کلام کے دلائل سے مسلمانوں کو مزین کردیا جائے ۔ اگر اس باب میں بچپن کی تعلیم مضبوط ہوجائے تو عمر کے ہرمرحلے میں اُن دلائل سے وہ بھر پور فائدہ اٹھائیں گے اورقدیم علم کلام کو اپنی من پسندجدید زبان میں پا کر ہر دہریے اور ملحدکا توڑ ؛وہ خود دریافت کریں گے ،بلکہ اسلامی عقائد کے روشن ماضی سے خود کو مربوط رکھنے کی ذمہ داری کو بھی وہ محسوس کریں گے ۔


قدیم متکلمین اسلام کے مضامین کو جدید اور سہل زبان میں بیان کرنے یا سمجھنے کے لیے ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ، حضرت مولانا محمد مسلم دیوبندی ؒ، اسی طرح حضرت مولانا محمد میاں صاحب ؒ وغیرہ اکابر دیوبند کے رسائل و مضامین جو بطور خاص عقائد اور کلام کے ہی موضوع پر تصنیف کیے گئے ہیں؛ شائقین اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے نفع بخش ہوسکتے ہیں۔ یا ان بزرگوں کی تحریرات کی روشنی میں اپنے اپنے علاقوں میں پیش آمدہ مخالفین اسلام کے اعتراضات و وساوس کے جوابات؛ نئی نئی مثالوں کے ذریعہ ششتہ و سلیس زبان میں ترتیب بھی دیئے جاسکتے ہیں۔


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

عقیدہٴ توحید کی عظمت واہمیت!



 عقیدہٴ توحید کی عظمت واہمیت! 

از قلم : حضرت مولانا یرید احمد نعمانی مدظلہ


          یَا أَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ(21) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَالسَّمَاء بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلہِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (22)…(سورةالبقرة)


          ترجمہ: ”اے لوگو! اپنے اس پرودگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جوتم سے پہلے گزرے ہیں؛ تاکہ تم متقی بن جاؤ(21)(وہ پرودگار) جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایااور آسمان کو چھت، اور آسمان سے پانی برسایا،پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے۔ لہٰذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹہراؤ؛جب کہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو۔(22)“ (آسان ترجمہٴ قرآن)


تشریح وتوضیح:

          قرآن کریم سرچشمہٴ ہدایت ہے۔یہ اللہ رب العالمین کی وہ آخری الہامی کتاب ہے،جو اس نے اپنے آخری نبی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری۔ یہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو فلاح،نجات اورسعادت کاراستہ دکھاتی رہے گی۔اس کلام مبین سے کون فائدہ اٹھاتا ہے اورکون انکارکرکے اپنے لیے ابدی شقاوت کا سامان اکٹھا کرتاہے؟ اس کا جواب سورت بقرہ کی ابتدائی آیات سے ہی مل جاتاہے۔جن میں رب کریم نے انسانوں کے تین طبقات کا ذکر فرمایا ہے:


          ۱۔مومنین          ۲۔کافرین           ۳۔ منافقین


          ابتدائے سورت میں ہر ایک کی الگ الگ صفات بیان فرمانے کے بعد، تمام انسانوں کو ”یا ایھا الناس“ سے مخاطب کیا گیاہے۔ اس خطاب میں مومن مخلص بھی داخل ہے اور کافر ومنافق بھی۔ قرآن مجید میں یہ پہلا خطاب ہے،جس میں اللہ رب العالمین پوری انسانیت کو کسی لحاظ وامتیاز کے بغیر اپنی ذات عالی کی طرف متوجہ فرمارہے ہیں اور بندوں کو اپنی قدرتِ کاملہ اور الوہیتِ مطلقہ سے آگاہ کرنے کے لیے ”آفاقی اور انفسی نعمتوں“ کا تذکرہ فرمارہے ہیں۔


          یعنی کچھ نعمتیں تو وہ ہیں جو براہ راست انسان کی اپنی ذات سے متعلق ہیں۔ بعضے ایسی ہیں جن کا تعلق انسان کے اردگرد پائی جانے والی چیزوں سے ہے۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت، خود اس کا وجود ہے۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ اس حوالے سے لکھتے ہیں:”نیست سے ہست اور نابود سے بودکرنا، پھر بطن مادر کی تاریکیوں اور گندگیوں میں ایسا حسین وجمیل ،پاک وصاف انسان بنا دینا کہ فرشتے بھی اس کی پاکی پر رشک کریں،یہ سوائے اُ س ذات حق کے کس کا کام ہوسکتاہے،جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔“(معارف القرآن:133/1)


          جب کہ آفاقی نعمتوں میں چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے:


          ۱۔       زمین               ۲۔       آسمان


          ۳۔      بارش              ۴۔      زمین سے غلہ اگنا


          ان چاروں نعمتوں کے خالق ومالک بھی صرف اورصرف اللہ رب العالمین ہیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر ان کی تخلیق وپیدائش کا مفصل ذکر کیا گیاہے۔ غرض! انسان کو حاصل تمام نعمتیں خواہ ان کا تعلق ا س کی ذات سے ہو یا نہ ہو ،اللہ تعالیٰ کی عطافرمودہ ہیں۔اوربندگی والوہیت کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔


          شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی زید مجدہم آیاتِ بالا کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں:”ان دوآیتوں میں اسلام کے بنیادی عقیدئہ توحید کی دعوت دی گئی ہے۔ اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین وآسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا،او راس سے پیداوار اگانا،یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کررکھے ہیں۔ اوروہ بت اپنے اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیزکے پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔“(آسان ترجمہ قرآن: 49/1)


آیات صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نبوی کے آئینے میں


          یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے پیارے نبی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کون سا گنا ہ اللہ کے ہاں بڑاہے؟تو آپ علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا:”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہراؤ(ذات میں یا صفات میں) حالاں کہ اسی نے تمہیں تن تنہا پیدا کیا ہے۔“(تفسیر ابن کثیر بحوالہ صحیحین:80/1)


          ایک دوسری حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایاگیا:”اے معاذ!کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟(پھر ارشاد فرمایا بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ) اسی کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹہرائیں۔“(حوالہ بالا)


          شریعت مطہرہ میں عقیدہٴ توحید کی حفاظت کا کس قدر حکم دیاگیاہے؟اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جن الفاظ سے شرک کا معمولی شائبہ بھی پیدا ہوسکتاہو، شارع علیہ السلام نے امت کو اس سے اجتناب کا حکم فرمایاہے۔ اس سلسلے میں طفیل رضی اللہ عنہ ،جو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ماں شریک بھائی بھی ہیں،کا واقعہ لائق مطالعہ ہے۔


          وہ فرماتے ہیں: ”ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ میں یہود کی ایک جماعت کے پاس سے گزررہاہوں۔میں نے ان سے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہودی ہیں۔ میں نے یہ سن کر کہا:”تم وہی قوم ہو جس نے عزیر ابن اللہ ( کامشرکانہ جملہ) کہاتھا۔“ جواب میں وہ کہنے لگے :”تم لوگ بھی ایسی (شرک سے مشابہ باتیں) منہ سے نکالتے ہو کہ ماشاء اللہ وماشاء محمد (جو اللہ چاہے اور جومحمد چاہے) کہتے ہو۔“طفیل کہتے ہیں کہ اس کے بعد میرا گزر عیسائیوں کی ایک جماعت پر ہوا۔ان سے بھی یہی دریافت کیا۔ انہوں نے کہا ہم عیسائی ہیں۔میں نے کہا تم وہی قوم ہو جس نے المسیح ابن اللہ ( کا مشرکانہ جملہ) کہا تھا۔جواب میں انہوں نے بھی یہود والی بات دہرائی۔“


          حضرت طفیل کہتے ہیں کہ صبح ہوئی تو جس کو اس بارے میں خبر دے سکتاتھا،دے دی ۔پھر اللہ کے پیارے نبی علیہ اسلام کی خدمت میں حاضری دی اورساراماجرا کہہ سنایا۔


          آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا:”کیا آپ نے اس بارے میں کسی اورکو بھی خبردی ہے؟“ میں نے اثبات میں جواب دیا۔آپ علیہ السلام نے کھڑے ہوکر خطبہ کے بعد ارشاد فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے۔ وہ جس جس کو تم میں سے خبر دے سکا، دے دی۔ یادرکھو!تم لوگ ایک ایسا کلمہ کہتے رہے ہو ،جس کے روکنے سے مجھے اب تک رکاوٹ تھی۔بس( آج کے بعد) تم لوگ”ماشاء اللہ وشاء محمد“ کا جملہ نہ کہو بلکہ (اس کی جگہ) صرف ماشاء اللہ کہو۔“(بن کثیر:80/1)


نکات ومعارف

۱ .......”یا ایھاالناس“

          مذکورہ جملے کا اردومیں ترجمہ کیا جائے تو مطلب ہوگا:”اے انسانو“۔اس کی لغوی تحقیق وتشریح کے بعدامام عبداللہ بن احمد نسفی اس طرز خطاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ”قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اس طرح کا خطاب لایاگیاہے۔ وجہ ا س کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جن اوامرونواہی،وعدووعید کا مخاطب بناتے ہیں وہ اپنی جگہ عظیم الشان ہیں۔لہٰذا بندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غفلت سے نکل کر کامل بیداری اورقلبی میلان کے ساتھ ان ندآتِ ربانیہ کی طرف متوجہ ہوں۔ یہی سبب ہے کہ اس طرزِ تخاطب کو عربی زبان کے اعتبار سے بہت زیادہ مُوکَّد بنایاگیاہے۔“(مدارک:32/1)


۲…”عبادت “کا مفہوم ومطلب:

          عبادت کے معنی اپنی پوری طاقت مکمل فرماں برداری میں صرف کرنا اور خوف وعظمت کے پیش نظر نافرمانی سے دور رہنا۔(معارف القران بحوالہ روح البیان:132/1)


          اسی بات کو حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قد س سرہ نے اپنے ایک ملفوظ میں یوں بیان فرمایا ہے:”اگر انسان میں عبدیت پیدا ہوجائے تو وہ انسان ہے ورنہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔ انسانیت حقیقی یہی ہے کہ عبدیت ہو،فناہو، افتقارہو، انکسار ہو، عجز ہو؛ کیوں کہ یہ سب علامات ہیں عبد کامل کی۔ اسی عبدیت کی بدولت ہر وقت انسان کے اندر ایک حتیاج کی سی کیفیت غالب رہتی ہے،جو عین مقصود اورمطلوب ہے۔“(ملفوظات حکیم الامت: 141/4)


۳… وجود باری تعالیٰ پر چند اقوال:

          امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:” اس کائنات کو بنانے والا کوئی ہے؟“ انہوں نے جو اب میں فرمایا :” شہتوت کا پتہ جس کا ذائقہ ایک ہے؛لیکن اگرریشم کا کیڑا اسے کھائے تو اس سے ریشم نکلتاہے۔اگر شہد کی مکھی کھائے تواس سے شہد نکلتاہے۔اگرگائے، بکری اوردیگر چوپائے اس اپنے پیٹ میں ڈالیں تو یہ گوبر اورمینگنی کی صور ت میں باہر نکلتاہے۔ہرن کھالے تو مشک نکلتاہے؛حالاں کہ چیز ایک ہی ہے؛مگرصورتیں مختلف بن رہی ہیں۔“( یہ مختلف نتائج ایک شئی سے کس طرح برآمد ہورہے ہیں)


          کسی عرب بدو سے جب خداتعالیٰ کے وجود پر دلیل پوچھی گئی تو اس نے کہا:”سبحان اللہ! جب اونٹ کی مینگنی اس پر دلالت کرتی کہ یہاں سے اونٹ گزراہے۔کسی مسافر کے نقش قدم سے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ اس راستے سے اس کا گزرہواہے۔ تو پھر یہ آسمان جو ستاروں سے چمک دمک رہاہے۔یہ زمین جو راستوں سے سجی ہوئی ہے اور یہ سمندر جو لہروں کے ساتھ جوش ماررہاہے، کیا کسی ایسی ہستی کے ثبوت ووجود پر دلالت نہیں کرتا جو خوب باخبر بھی ہے اور تمام چیزوں کے حقائق واسرار سے واقف بھی؟“


ابن المعتزشاعر کہتاہے          #


فَیَا عَجَباً کیفَ یُعْصَیٰ الْالٰہ       اَمْ کیفَ یَجْحَدُہ الجاحِد


وَفِیْ کُلِّ شئیٍ لَہ ایة      تَدُلُّ علی أنَّہ وَاحِد


          ترجمہ: تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کیسے کی جاسکتی ہے یا اس کے وجود سے کوئی کیسے منکرہوسکتاہے ؟جب کہ ہر چیز میں اس کے وجود کی نشانی اور دلیل موجود ہے۔جو بہ زبان حال پکار پکار کر گواہی دے رہی ہے کہ وہ اکیلا ویکتاہے اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔(ابن کثیر:82/1)


۴…”انداد“ کسے کہتے ہیں؟

          علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :”انداد وہ شرک ہے ،جو اندھیری رات میں سیاہ پتھر کے اوپر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ پوشیدہ اورمخفی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی یوں کہے: ”اللہ کی قسم اور تمہاری زندگی کی قسم!“ یا کوئی یوں بولے:”اگر یہ کتا ہماری چوکیداری نہ کررہا ہوتا تو رات گھر میں چور آجاتے “ اسی طرح کوئی انسان اپنے دوست سے یہ کہے کہ ”جو اللہ چاہے اور تم چاہو“ یہ تمام کے تمام الفاظ اور جملے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک صحابی رسول نے یوں کہا:”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں“یہ سن کر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”کیا تم مجھے اللہ کا شریک ٹہرارہے ہو؟“(ابن کثیر:81/1)


حاصل کلام

          مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی نوراللہ مرقدہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر ”معارف القرآن“ میں آیات بالا کا خلاصہ یوں ذکر کرتے ہیں:”عقیدہٴ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے،یہ صرف ایک نظریہ نہیں؛ بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے۔ جو انسان کی تمام مشکلات کا حل،اورہر حالت میں اس کے لیے پناہ گاہ اورہرغم وفکر میں اس کا غم گسار ہے۔ کیوں کہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ عناصر کے کون وفساد اوران کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی مشیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں۔ اورظاہر ہے کہ جب یہ عقیدہ کسی کے قلب ودماغ پر چھا جائے اور اس کا حال بن جائے تو یہ دنیا ہی اس کے لیے جنت بن جائے گی۔ سارے جھگڑے فساد اور ہر فساد کی بنیادیں ہی منہدم ہوجائیں گی۔ اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بے نیاز، ہر خوف وخطر سے بالاتر زندگی گزارتاہے؛ مگر ظاہر ہے کہ توحید محض کازبانی اقرار اس کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور استحضار ضروری ہے؛ کیوں کہ توحید خدا․․․․․

واحد دیدن بود، نہ واحد گفتن

          کلمہ لا الہ الا اللہ کے پڑھنے والے توآج دنیا میں کروڑوں ہیں اوراتنے ہیں کہ کسی زمانے میں اتنے نہیں ہوئے؛ لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں ورنہ ان کا بھی وہی حال ہوتا جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ نہ کوئی بڑی سے بڑی قوت وطاقت ان کو مرعوب کرسکتی تھی اور نہ کسی قوم کی عددی اکثریت ان پر اثر انداز ہوسکتی تھی۔نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت وسلطنت ان کے قلوب کو خلاف حق اپنی طرف جھکا سکتی تھی۔ ایک پیغمبر کھڑا ہوکر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتاتھا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”کیدون فلا تنظرون“ انبیا کے بعد صحابہ وتابعین جو تھوڑی مدت میں دنیا پر چھاگئے، ان کی طاقت وقوت اسی حقیقی توحید میں مضمر تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فرمائیں۔“(معارف القرآن :139/1) 

------------------------------------------

(ماخوذ : ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 - 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء) 


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبۂ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Wednesday, December 9, 2020

Aqaid-e-Islam

عقائد اسلام | Aqaid-e-Islam | अकाइद-ए-इस्लाम





انسانی زندگی میں عقائد کی اہمیت!



 انسانی زندگی میں عقائد کی اہمیت! 


از قلم : حضرت مولانا مفتی محمد مسعود عزیزی ندوی مدظلہ


عقیدہ کی مثال:

محترم دینی بھائیو! آج کی اس مجلس میں ہمیں عقیدہ سے متعلق گفتگو کرنی ہے، اللہ تعالی عقیدہ کو سمجھنے پھر صحیح عقیدہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

میرے عزیزو! انسانی زندگی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے ، اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح کسی بھی عمارت میں بنیاد کی ، یعنی اگر بنیاد صحیح ، درست اور مضبوط ہوگی تو اس پر تعمیر ہونے والی ہر عمارت مضبوط اور دیر پا ہوگی، اوراگر بنیاد میں کسی قسم کی کمی ہوگی یا بنیاد صحیح مٹیریل (Material)صحیح مال لگا کر اور اچھے اندازپر نہیں رکھی جائے گی، تو اس پر تعمیر ہونے والی ہر عمارت بے کار، بے سود ، بے فائدہ او رکمزور ہو گی اوراس کے بھیانک نتائج جلد آشکارا ہوجائیں گے ۔

دوستو! بالکل اسی طرح اپنی ز ندگی کی بنیاد کو سمجھو! اگر ہماری زندگی کی بنیاد صحیح عقائد اور صحیح اصول پر قائم ہوگی تو ہماری زندگی میں ہونے والا ہر عمل چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، نتیجہ کے اعتبار سے بڑا سود مند، فائدہ مند، باثمر، مضبوط اور اللہ تعالی کے یہاں مقبول او رمبرور ہوگا ، اس لئے آج آپ اس نکتے کو سمجھ لوکہ یہ کیسی بیش بہا اور قیمتی چیز ہے ۔


عقیدہ کسے کہتے ہیں؟

میرے بھائیو! عقیدہ کہتے ہیں کسی بات کا یقین دل میں جمانا اور اس کو خدا کا حکم سمجھنا اور پھر اس کے مطابق عمل کرنا ، اسی لیے فاران کی چوٹی پر نبی برحق حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کے لوگوں کو اکٹھا کرکے جو پہلی آواز لگائی تھی وہ تھی:’’قُوْلُوْا لاَاِلَہَ اِلاَّاللّٰہُ تُفْلِحُوْا‘‘(۱) کہ اے لوگو! اللہ کو ایک مانو، کامیابی تمہارے قدم چومے گی ، اس میں سب سے پہلے اسی عقیدہ کی دعوت دی گئی ہے ، جس پر انسان کی زندگی کی عمارت تعمیر ہوسکتی ہے ۔


عقیدہ کا اجمال:

دوستو! عقیدہ کا اجمال یہ ہے :’’ آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ہُوَ بِاَسْمَآئِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ، اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ کہ ایمان لایا میں اللہ پر ، جیسا کہ وہ اپنے ناموں اوراپنی صفات کے متصف ساتھ ہے ،اور میں نے اس کے تمام احکام کو قبول کیا، اوراس بات کا میں زبان سے اقرار کرتاہوں اور دل سے تصدیق کرتاہوں ۔


عقیدہ کی تفصیل:

تفصیلی طورپر اس کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے :’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وُرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالَی وَالْبَعَثِ بَعْدَالْمَوْتِ‘‘ یعنی ایمان لایا میں اللہ پر ، او راس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اوراس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور ہر اچھی بری تقدیر پر کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ۔


تین بنیادی عقائد:

اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں :

(۱) توحید کا عقیدہ

(۲) رسالت کا عقیدہ

(۳) آخرت کا عقیدہ


پہلا عقید ہ توحید کاہے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ، جس نے اس کا ئنات کو پیدا کیا ، اس کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں ، وہ وحدہ لاشریک ہے ، اکیلا ہے ۔


دوسرا عقیدہ رسالت کا ہے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول اور خاتم النبیین ہیں اور آپ سے پہلے تمام انبیاء اور رسول برحق ہیں ۔


تیسرا عقیدہ آخرت کا ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور بھی زندگی ہے جس کو آخرت کہاجاتاہے، جو کچھ انسان اس دنیا میں کرے گا، اسے اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہو کر جواب دینا پڑے گا،اوریہ عقیدہ سب انبیاء کرام کا رہا، اس لیے کہ دین کا تصور اس کے بغیر ادھورا ہوتاہے ۔


باقی دوسرے عقائد:

باقی دوسرے عقائد بھی ہیں ،جیسے اللہ کے فرشتوں پرایمان لانا ، اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا ، اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لانا ۔


اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا:

اس بات کا بھی یقین رکھنا کہ اللہ کی کی ایک مخلوق فرشتے بھی ہیں ، اللہ نے فرشتوں کونور سے پیدا کیااوراللہ تعالی نے فرشتوں کوجس کام میں لگادیا ہے ، اسی کام میں وہ لگے ہوئے ہیں ، فرشتوں کی تعداد اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، لیکن فرشتوں میں چاربڑے فرشتے یہ ہیں :

(۱)جبرائیل : انبیاء کرام علیہم السلام پر کتابیں اور اللہ کے احکام لاتے ہیں ۔

(۲)میکائیل : بارش کا انتظام اور روزی پہنچانے کاکام کرتے ہیں ۔

(۳)اسرافیل: قیامت کے دن صور پھونکیں گے ، جس سے ساری کائنات فنا ہوجائے گی۔

(۴)عزرائیل: جان نکالنے کے لئے مقر رہیں ۔


اللہ کی کتابوں پر ایمان لانا:

اللہ تعالی نے انبیائے سابقین پر بھی اپنی کتابیں بھیجیں ہیں ، جن پر ایمان لانا او ران کو اللہ کی برحق کتابیں ماننا ضروری ہے ، اللہ تعالی کی چار مشہور کتابیں یہ ہیں :

(۱) توریت : حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔

(۲)زبور: حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی ۔

(۳)انجیل : حضرت عیسی علیہ السلام پرنازل ہوئی ۔

(۴) قرآن : حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔


اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا:

اس بات کا بھی عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ ہر اچھی بری چیز اللہ کی طرف ہے ، جو کچھ انسان زندگی میں کرتاہے ، یا پاتاہے ، وہ سب اس کی تقدیر میں لکھا ہوا ہے ،مثلاً: روزی کہاں سے آئیگی ، شادی کہاں ہوگی ، کتنے بچے ہوں گے ، موت کہاں ہوگی ، غرضیکہ ساری چیزیں اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں ، ہراچھی بری بات جو بھی اس کوزندگی میں پیش آئے گی، سب اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے ۔


مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان لانا:

مرنے کے بعد ایک دن ایسا آئے گا کہ ساری دنیا کے لوگ پھر سے زندہ ہوجائیں گے ، اس کی شکل یہ ہوگی کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام صورپھونکیں گے ، مردے زندہ ہوکرکھڑے ہوجائیں گے ، پھرسب کا حساب وکتاب ہوگا، اس بات پر یقین رکھنا بھی ضروری ہے، چونکہ اس دن اچھے برے اعمال تولیں جائیں گے ، ان کا حساب ہوگا، جہاں نیکو کاروں کو ان کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گااور وہ جنت میں جائیں گے، جبکہ بدکاروں کو ان کانامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنم میں جائیں گے ۔


اللہ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے:

عزیزو! غور سے سن لو کہ آج سے تم اپنے اس عقیدے کو پختہ اور مضبوط کرو گے کہ آسمان وزمین اور ان کے درمیان میں تمام چیزوں کا پیدا کرنیوالا اللہ ہے ، اور زمین وآسمان کا نظام بھی اللہ کے حکم سے چلتاہے : ’’ اَلَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَہُوَ یَہْدِیْنِ وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَہَوَ یَشْفِیْنِ وَالَّذِیْ یَمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ‘‘(۱) اللہ ہی پیدا کرتاہے ، اللہ ہی مارتاہے ، اور اللہ ہی دوبارہ زندہ کرے گا، اللہ ہی ہدایت دیتاہے ، اللہ ہی بیماری دیتاہے ، اللہ ہی شفا دیتاہے اللہ ہی کھلاتاہے ، اللہ ہی پلاتاہے ، اللہ ہی اولاد دیتاہے ، کسی میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی جان کو پیدا کردے اور کسی کی ہمت نہیں کہ وہ کسی کو ماردے ، مگر جب اللہ کا حکم آجائے تو کوئی بھی سبب بن سکتاہے ، اللہ ہی نفع پہنچاتاہے ، اللہ ہی نقصان پہنچاتاہے، اللہ کے علاوہ پور ی دنیا مل کر تم کو نقصان پہنچانا چاہے یا نفع پہنچانا چاہے تو کوئی نہیں ہے اللہ کے سواجو نفع یا نقصان پہنچائے ۔


اللہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا:

میرے بھائیو! اس بات کی گرہ باندھ لو کہ اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اللہ کے حکم کے بنا ایک ذرہ بھی نہیں اڑسکتا، اللہ کے علاوہ کسی میں پیدا کرنے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں موت دینے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں شفا ء دینے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں نفع نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ، اللہ کے علاوہ کسی میں اولاد دینے کی طاقت نہیں ، کوئی دوا اس وقت تک فائدہ نہیں پہنچاسکتی جب تک کہ اللہ کا حکم نہ ہو ، کوئی انجکش اس کے حکم کے بغیر آرام نہیں پہنچاسکتا، جادو ، سحر ، ٹونا اور ٹوٹکا انسانی زندگی میں تصرف نہیں کرسکتا’’اِلاَّبِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ مگر اللہ کے حکم سے ۔


ہر چیز پر اللہ کی حکمرانی ہے:

دوستو! تم ہوا میں اڑو، سمندرمیں تیرو ، دنیا کا چکر لگاؤ، چاندپر پہنچو ، ستاروں پر کمندیں ڈالو، مگر یا درکھو’’اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ‘‘(۱) اللہ ہی کے حکم سے سب کچھ ہے ، اسی کے قبضہ میں سب کچھ ہے ، اسی کے تصرف میں سب کچھ ہے ، اللہ سے مانگو، اللہ دے گا، اولاد اللہ دے گا، شفاء اللہ دے گا، روزی اللہ دے گا، راحت اللہ دے گا، یاد رکھنا آج کے بعد غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہ کرنا،سرنہ جھکانا، اللہ کو چھوڑ کر کسی فقیر، پیر ، ولی، غوث ، ابدال اور صاحب قبر یا پجاری سے نہ مانگنا، کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا، اللہ کے علاوہ کسی کو صاحب تصرف نہ سمجھنا’’اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ‘‘(۲)ہر چیز پر اللہ کی حکمرانی ہے ۔


عقیدہ کی پختگی ضروری ہے:

دینی بھائیو! اگر آج تم نے تمام شرکیہ باتوں سے توبہ کرلی اوریہ عقیدہ ذہن میں بٹھالیا کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہے ، اللہ نے ہی اس کائنات کو اور دنیا کے نظام کو بنایا اور وہی اس کو چلاتاہے، اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اور آپ کی شریعت پر چلے بغیر نجات نہیں ہوگی ، ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر اگر تم نے اللہ کے احکامات کو مانا، اس کے رسول کی سچی پیروی کی اور شریعت پر مکمل عمل کیا تو خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ تمہاری جنت پکی ہے ۔

اللہ تعالی ہم تمام کو اپنے عقائد درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور شریعت کے احکامات پر عمل کرنے کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے ۔


(ماخوذ کتاب : عقائد اور ارکان اسلام، تالیف : مولانا قاری مفتی محمد مسعود عزیزی ندوی خلیفۂ مجاز حضرت مولانا ظریف احمدصاحب قاسمی ندوی مدنی مدظلہ خلیفہ مجازمفکر اسلام حضرت مولانا سیدابو الحسن علی حسنی ندوی نوراللہ مرقدہ)


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبہ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

Tuesday, December 8, 2020

مسلمانوں کے بنیادی عقائد!



 مسلمانوں کے بنیادی عقائد!


از قلم : شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ


 حدیث جبرائیل میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا پہلا سوال یہ تھا کہ اسلام کیا ہے؟ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے پانچ ارکان ذکر فرمائے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا دوسرا سوال یہ تھا کہ: ایمان کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: “ایمان یہ ہے کہ تم ایمان لاوٴ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور ایمان لاوٴ اچھی بری تقدیر پر۔”


ایمان ایک نور ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق سے دل میں آجاتا ہے، اور جب یہ نور دل میں آتا ہے تو کفر و عناد اور رسومِ جاہلیت کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور آدمی ان تمام چیزوں کو جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے، نورِ بصیرت سے قطعی سچی سمجھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “تم میں سے کوئی شخص موٴمن نہیں ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں لے کر آیا ہوں۔” آپ کے لائے ہوئے دین میں سب سے اہم تر یہ چھ باتیں ہیں جن کا ذکر اس حدیث پاک میں فرمایا ہے، پورے دین کا خلاصہ انہی چھ باتوں میں آجاتا ہے:


۱:…اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ذات و صفات میں یکتا سمجھے، وہ اپنے وجود اور اپنی ذات و صفات میں ہر نقص اور عیب سے پاک اور تمام کمالات سے متصف ہے، کائنات کی ہر چیز اسی کے ارادہ و مشیت کی تابع ہے، سب اسی کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں، کائنات کے سارے تصرفات اسی کے قبضہ میں ہیں، اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔


۲:…فرشتوں پر ایمان یہ کہ فرشتے، اللہ تعالیٰ کی ایک مستقل نورانی مخلوق ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم ہو، بجا لاتے ہیں، اور جس کو جس کام پر اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس میں کوتاہی نہیں کرتا۔


۳:…رسولوں پر ایمان یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت اور انہیں اپنی رضامندی اور ناراضی کے کاموں سے آگاہ کرنے کے لئے کچھ برگزیدہ انسانوں کو چن لیا، انہیں رسول اور نبی کہتے ہیں۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی خبریں رسولوں کے ذریعے ہی پہنچتی ہیں، سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام تھے، اور سب سے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت نہیں ملے گی، بلکہ آپ ہی کا لایا ہوا دین قیامت تک رہے گا۔


۴:…کتابوں پر ایمان یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی معرفت بندوں کی ہدایت کے لئے بہت سے آسمانی ہدایت نامے عطاکئے، ان میں چار زیادہ مشہور ہیں: تورات، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتاری گئی، زبور جو حضرت داوٴد علیہ السلام پر نازل کی گئی، انجیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی اور قرآن مجید جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ یہ آخری ہدایت نامہ ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے پاس بھیجا گیا، اب اس کی پیروی سارے انسانوں پر لازم ہے اور اس میں ساری انسانیت کی نجات ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس آخری کتاب سے روگردانی کرے گا وہ ناکام اور نامراد ہوگا۔


۵:…قیامت پر ایمان یہ کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دنیا ختم ہوجائے گی زمین و آسمان فنا ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سب کو زندہ کرے گا اور اس دنیا میں لوگوں نے جو نیک یا برے عمل کئے ہیں، سب کا حساب و کتاب ہوگا۔ میزانِ عدالت قائم ہوگی اور ہر شخص کی نیکیاں اور بدیاں اس میں تولی جائیں گی، جس شخص کے نیک عملوں کا پلہ بھاری ہوگا اسے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا پروانہ ملے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کے مقام میں رہے گا جس کو “جنت” کہتے ہیں، اور جو شخص کی برائیوں کا پلہ بھاری ہوگا اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا پروانہ ملے گا اور وہ گرفتار ہوکر خدائی قیدخانے میں جس کا نام “جہنم” ہے، سزا پائے گا، اور کافر اور بے ایمان لوگ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے۔ دنیا میں جس شخص نے کسی دوسرے پر ظلم کیا ہوگا، اس سے رشوت لی ہوگی، اس کا مال ناحق کھایا ہوگا، اس کے ساتھ بدزبانی کی ہوگی یا اس کی بے آبروئی کی ہوگی، قیامت کے دن اس کا بھی حساب ہوگا، اور مظلوم کو ظالم سے پورا پورا بدلا دلایا جائے گا۔ الغرض خدا تعالیٰ کے انصاف کے دن کا نام “قیامت” ہے، جس میں نیک و بد کو چھانٹ دیا جائے گا، ہر شخص کو اپنی پوری زندگی کا حساب چکانا ہوگا اور کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں ہوگا۔


۶:…”اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانے” کا مطلب یہ ہے کہ یہ کارخانہٴ عالم آپ سے آپ نہیں چل رہا، بلکہ ایک علیم و حکیم ہستی اس کو چلا رہی ہے۔ اس کائنات میں جو خوشگوار یا ناگوار واقعات پیش آتے ہیں وہ سب اس کے ارادہ و مشیت اور قدرت و حکمت سے پیش آتے ہیں۔ کائنات کے ذرہ ذرہ کے تمام حالات اس علیم و خبیر کے علم میں ہیں اور کائنات کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ نے ان تمام حالات کو، جو پیش آنے والے تھے، “لوحِ محفوظ” میں لکھ لیا تھا۔ بس اس کائنات میں جو کچھ بھی وقوع میں آرہا ہے وہ اسی علم ازلی کے مطابق پیش آرہا ہے، نیز اسی کی قدرت اور اسی کی مشیت سے پیش آرہا ہے۔ الغرض کائنات کا جو نظام حق تعالیٰ شانہ نے ازل ہی سے تجویز کر رکھا تھا، یہ کائنات اس طے شدہ نظام کے مطابق چل رہی ہے۔


(ماخوذ: کتاب "آپ کے مسائل اور انکا حل" جلد اول، مؤلف : شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ)


پیشکش : سلسلہ عقائد اسلام، شعبہ تحفظ اسلام میڈیا سروس، مرکز تحفظ اسلام ہند

کسانوں کے بھارت بند کو مرکز تحفظ اسلام ہند کی حمایت!


 

کسانوں کے بھارت بند کو مرکز تحفظ اسلام ہند کی حمایت!

 مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں سے ہندوستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے!


بنگلور، 07/ڈسمبر (ایم ٹی آئی ہچ): مرکز کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ ملک کے کسانوں پر مسلط کئے گئے تین زرعی قوانین کیخلاف پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے لاکھوں کسان دہلی میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ نئے زرعی قوانین ملک کی زراعت کو تباہ کردیں گے۔ کسانوں کو اپنی زمینات کارپوریٹ گھرانوں کے پاس گروی رکھنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ نئے قوانین غیرجمہوری طریقہ سے لائے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں منظورہ ان قوانین کے ذریعہ کسانوں کو بے بس کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان قوانین پر وسیع تر غور و خوص نہیں کیا گیا اور نہ ہی رائے دہی کروائی گئی۔ مودی حکومت کی پالیسیوں سے ہندوستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ زرعی سرگرمیاں اور ہمارے کسانوں کو شدید دھکا پہونچایا گیا ہے۔کسانوں کیلئے اقل ترین امدادی قیمت اور زرعی ارضیات کو رہن رکھنے کیلئے یہ قوانین خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ ان زرعی قوانین کیخلاف کسانوں نے 08/ ڈسمبر2020ء بروز منگل کو بھارت بند کا اعلان کیا ہے۔جس کو تمام اپوزیشن پارٹیوں اور تمام ملی، سماجی، رفاہی تنظیموں کی تائید حاصل ہے۔لہٰذا ملک بھر کی تمام ملی، سماجی، رفاہی و سیاسی تنظیموں کے ساتھ مرکز تحفظ اسلام ہند بھی 08/ دسمبر بروز منگل بھارت بند کی مکمل تائید کرتا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے ملک کے تمام باشندوں سے اپیل کی کہ وہ 08/دسمبر بروز منگل کو کسانوں کے حق میں اپنی دکانیں اور کاروبار کی ساری سرگرمیوں کو بند کر کے بھارت بند کو کامیاب بنائیں،تاکہ مرکز ی حکومت ہمارے کسانوں کے جائز مطالبات کو پورا کریں اور کسان دشمن قوانین کو واپس لے سکے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی، آرگنائزر حافظ حیات خان وغیرہ شریک تھے۔

Saturday, December 5, 2020

عقائد اسلام کا تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!



 عقائد اسلام کا تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!


بنگلور، 05/ ڈسمبر (ایم ٹی آئی ہچ): انسانی زندگی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح کسی بھی عمارت میں بنیاد کی، یعنی اگر بنیاد صحیح، درست اور مضبوط ہوگی تو اس پر تعمیر ہونے والی ہر عمارت مضبوط اور دیر پا ہوگی، اور اگر بنیاد میں کسی قسم کی کمی ہوگی یا بنیاد صحیح مال لگا کر اور اچھے انداز پر نہیں رکھی جائے گی، تو اس پر تعمیر ہونے والی ہر عمارت بے کار، بے سود، بے فائدہ اور کمزور ہوگی اور اس کے بھیانک نتائج جلد آشکارا ہوجائیں گے۔ اسلام میں عقیدے کو اوّلیت حاصل ہے، پہلے خدا اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر درست عقیدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے پھر اس کے بعد ہی اعمال کی ابتدا ہوتی ہے۔ عقیدہ کی حیثیت اور اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں مگر حیرت اس بات پر ہے کہ عقائد کی حفاظت کے لیے جو محنت درکار ہے اس میں مجموعی طور پر حد درجہ تغافل سے کام لیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے، نئے نئے ارتدادی فتنے مسلمانوں کے درمیان جنم لے رہے اور پنپ رہے ہیں، قدیم فلسفیوں کے زہریلے اثرات کو نئی نئی تعبیرات و زبان میں پیش کرکے اسلامی عقائد کو مسخ کرنے کی فکر میں دشمنانِ اسلام شب و روز مصروف ہیں۔ فتنوں کی کثرت اِس مرض کی علامت ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ کمزور ہوچکا ہے۔ ان تمام تر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے 07/ ڈسمبر 2020ء سے مکمل ایک ماہ تک مرکز تحفظ اسلام ہند”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز کرنے جارہا ہے۔ تاکہ مسلمانوں کو کم از کم اسلام کے بنیادی عقائد سے واقفیت ہوجائے اور وہ اپنے عقائد کو مضبوط کریں تاکہ فتنوں سے بچاؤ میں مسلمان خود اپنی طاقت استعمال کرسکیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش سلسلہ عقائد اسلام کی نگرانی خاص طور پر مرکز کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی، اراکین شوریٰ مفتی محمد جلال الدین قاسمی، مولانا محافظ احمد، وغیرہ کریں گے۔ نظام الاوقات یومیہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مرکز کے آرگنائزر حافظ حیات خان نے فرمایا کہ روزانہ بعد نماز ظہر جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم، فقیہ العصر مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی مدظلہ کی کتاب ”اسلامی اسباق“ سے ایک عقیدہ اردو، ہندی اور رومن ترجمہ کے ساتھ اشتہار کی شکل میں شئیر کیا جائے گا اور روزانہ رات 07/ بجے مجلس تحفظ ختم نبوتؐ ہانگ کانگ کے امیر، وکیل احناف مولانا محمد الیاس مدظلہ کا مختصر و جامع درس ہوگا۔ اسی کے ساتھ ہفتہ وار نظام میں بعد نماز عشاء عقائد اسلام سے متعلق بروز پیر کو مضمون، بروز منگل کو فارم پیلٹ، بروز چہارشنبہ کو دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ، بروز جمعرات کو دارالعلوم دیوبند کی تجویز شدہ کتاب، بروز جمعہ کو اسلامی اسباق باب عقائد کی ویڈیو، بروز ہفتہ کو پریس ریلیز، بروز اتوار کو اکابر علماء دیوبند کے بیانات کی نشر و اشاعت ہوگی۔ اس سنہرے موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے امت مسلمہ سے درخواست کی کہ وہ مرکز تحفظ اسلام ہند کی سوشل میڈیا ڈسک تحفظ اسلام میڈیا سروس کے آفیشل اکاؤنٹس سے جڑ کر ان تمام چیزوں سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے اور دوسروں کے عقائد کی حفاظت کریں اور دوسروں کو جوڑ کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔