Tuesday, November 29, 2022

عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے مسلمان ہمہ وقت تیار رہیں

 ”عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے مسلمان ہمہ وقت تیار رہیں!“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کا خطاب!


 بنگلور، 29؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی بارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں آخری نبی و رسول بنا کر مبعوث فرمایا، آپؐ تمام انبیاء کرام اور جمیع مخلوقات سے افضل ہیں۔ آپﷺ نہ صرف نبی و رسول ہیں بلکہ خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہیں اور یہ شرف فقط آپؐ کو ہی حاصل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ مولانا نے فرمایا کہ تاج ختم نبوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی انوکھی اور یکتا شان ہے، جو اور کسی بھی نبی و رسول کو عطا نہ ہوئی، آپؐ کو انبیائے کرام علیہ السلام پر جن چیزوں سے فضیلت دی گئی، ان میں سے ایک آپؐ کا ”خاتم النبیین“ ہونا ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ ’خاتم النبیین‘ رسول اللہﷺ کا بہت ہی عظیم اور خاص وصف و لقب و منصب ہے۔ اس کے معنیٰ و مفہوم بالکل واضح و ظاہر ہیں کہ سب نبیوں سے آخری، نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والے، سب سے آخری نبی، سلسلۂ نبوت پر مہر لگا کر بند کردینے والے۔ یہی معنیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ لہٰذا جھوٹ مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت مثلاً قادیانیت، شکیلیت، گوہر شاہیت، احمد عیسیٰ وغیرہ جو ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ میں طرح طرح کی بے بنیاد، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاویلات فاسدہ کرتے ہیں درحقیقت وہ قرآن و احادیث اور اجماع صحابہ و اجماع امت کے خلاف ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آخری میں تشریف لائے اور ختم نبوت کا تاج انہیں پہنایا گیا، اب انکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور کوئی شریعت بھی نہیں آئے گی کیونکہ دین اب مکمل ہوچکا ہے۔ سرپرست مرکز نے احادیث کی روشنی میں فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ مکمل، اس آخری امت پر امت کا سلسلہ مکمل اور آسمانی صحائف کے نزول کا سلسلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ لہٰذا صدیوں سے دین اسلام مکمل اور محفوظ ہے۔ اس میں کوئی ردوبدل کی گنجائش نہیں، نہ ہی اس دین میں کوئی کمی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی اضافہ کی گنجائش ہے۔ قیامت تک ہر زمان و مکان کیلئے یہ دین یوں ہی رہے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کے ذریعے اسے تکمیل کو پہنچایا اور محفوظ حالت میں رکھا ہوا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس دین کی تکمیل خاتم الانبیاء ﷺ پر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آخری ہدایت کو اسلام سے تعبیر فرما کر اس کا بھی اعلان کردیا کہ اب قیامت تک اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں، اور یہ کہ انسانی نجات کے لیے صرف یہی ایک راستہ متعین ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام دین کامل اور جامع دین ہے۔ دین اسلام نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے، ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین، اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ قرآن میں اصول دین کو پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسولﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ لہٰذا زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آنحضرتﷺ کی ذات اقدس ایک مسلمان کیلئے کامل نمونہ ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے جو سلسلۂ رشد شروع ہوا تھا، وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا، آپؐ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ آپؐ اللہ کے آخری نبی ہیں، خاتم الانبیاء اور سیّد المرسلین ہیں۔ نبوت و رسالت کی آخری اینٹ اور آخری کڑی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آپﷺ پر دین کی تکمیل کردی گئی۔ آپؐ کی عطا کردہ شریعت رشد و ہدایت کا ابدی سرچشمہ ہے۔ اسلام دین کامل اور ابدی ضابطہئ حیات ہے، اس کی اتباع ہی دین و دنیا میں کامیابی کی ضمانت اور آخرت میں نجات کی کلید ہے۔ مولانا فرمایا کہ رشد و ہدایت کا سلسلہ اور ایمان سے وابستگی درحقیقت عقیدہ ختم نبوت پر ایمان سے وابستہ ہے۔ اس پر ایمان بندگی کا لازمی اور ناگزیر تقاضا ہے، جس کے بغیر دین و ایمان کا تصور بھی محال ہے۔ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے فرمایا کہ ختم نبوت امت مسلمہ کا وہ اجماعی عقیدہ ہے جس کی حفاظت کیلئے آج تک امت مسلمہ نے لازوال قربانیوں پیش کی ہیں کیونکہ ختم نبوت کے سلسلے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت ختم نبوت کے خلاف جو سازشیں ہورہی ہیں اور جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے فتنوں نے جس طرح سے امت کو گھیرا ہوا ہے، ایسے وقت میں ان باطل پرستوں کے جھوٹ کا پردہ فاش کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کیلئے ہمیں آگے آنا چاہیے۔ اور ہماری یہ ذمہ داری ہیکہ ہم عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے پوری طاقت اور وسائل کے ساتھ ہمہ وقت تیار رہیں، ورنہ کل قیامت کے دن ہم کس منھ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہونگے؟ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے پیچھے دنیا کی باطل طاقتوں یار و مددگار ہیں لیکن یاد رکھیں کہ جو بھی ختم نبوت کی حفاظت کیلئے کام کرے گا اللہ تعالیٰ اسکا یار و مددگار ہوگا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت جدید ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے یہ فتنے کافی پھیل رہے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی جدید ذرائع ابلاغ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ان فتنوں کا سدباب اور رد کرنا چاہئے۔ جگہ جگہ ختم نبوت کے پروگرامات اور ورکشاپ منعقد کئے جانے چاہئے، نوجوانوں کے درمیان ختم نبوت کے موضوع پر تحریری و تقریری مقابلہ کروانے چاہیے، اپنے اردگرد منکرین ختم نبوت کے فتنوں سے باخبر رہنا چاہیے اور امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت کیلئے ہر ایک کو فکر مند ہونا چاہیے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ ایسے حالات میں مرکز تحفظ اسلام ہند ذمہ داران نے عامۃ المسلمین کو عقیدۂ ختم نبوت سے واقف کروانے اور اسکی حفاظت کرنے کے سلسلے میں یہ ”پندرہ روزہ عظیم الشان تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ منعقد کرکے بڑی خدمت انجام دی ہے، اللہ تعالیٰ انکی کوششوں کو قبول فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی بارہویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانا محمد نظام الدین مظاہری، حافظ محمد نور اللہ، حافظ محمد شعیب اللہ، عمیر الدین وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر سرپرست مرکز حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس کی دعا سے کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS #UmrainRahmani

Friday, November 25, 2022

عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت اور فتنۂ قادیانیت کا تعاقب امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے!

 عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت اور فتنۂ قادیانیت کا تعاقب امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مفتی محمدشفیق احمد قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 24؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی دسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرما دیا، اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہی عقیدۂ ختم نبوت ہے، جو اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اور اسکے منکر اسلام سے خارج اور اسکے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ منکرین ختم نبوت کا فتنہ آپ ؐکے دور ہی میں شروع ہوگیا تھا، جہاں آپ ؐنے اپنی ختم نبوت کا اعلان فرمایا، وہیں آپ ؐ نے قیامت تک نمودار ہونے والے ان کذابین کا بھی تذکرہ فرمایا تھا میرے بعد تیس جھوٹے کذاب پیدا ہونگے اور ہر ایک دعویٰ نبوت کرے گا لیکن میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ انہی میں سے ایک فتنہ ”قادیانیت کا فتنہ“ ہے، جسکا بانی مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جسکی جھوٹی نبوت کا فتنہ چودھویں صدی کا عظیم فتنہ ہے، جسے انگریز نے اپنے ناپاک اغراض و مقاصد کی خاطر جنم دیا۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمارے اکابر علماء کرام نے مرزا قادیانی کی زندگی سے ہی اس کا تعاقب شروع کردیا تھا جو ابتک جاری ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا، ان اکابرین نے اس فتنہ کے سدباب اور تدارک کے لیے تاریخ ساز خدمات انجام دئیے اور اس سلسلہ میں بالواسطہ وبلاواسطہ آگے آنے والوں کے لیے نمونہ عمل چھوڑا۔ مولانا نے فرمایا کہ بحیثیت مسلمان ہر ایک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر طریقہ سے اس فتنہ کا تعاقب کرے، اور اس فتنہ کے تعاقب، سدباب اور سرکوبی کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرے۔ کیونکہ قادیانی اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں، جھوٹی نبوت کی تشہیر پورے زوروں سے جاری ہے اور مسلمان کو مختلف ہتھکنڈوں سے قادیانی بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد قادیانیوں کی ناپاک سازشوں سے بالکل ناواقف ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہیکہ ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے لائیں۔


مفتی شفیق احمد قاسمی نے فتنۂ قادیانیت کی حقیقت کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزا کا نام غلام احمد والد کا نام غلام مرتضی، آبائی وطن قصبہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداس پور پنجاب ہے، اسکی پیدائش 1839ء یا 1840ء میں ہوئی۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر مرزا قادیانی کے صرف حسب و نصب پر ہی روشنی ڈالی جائے تو اسکے جھوٹ کا پردہ فاش ہوجائے گا، کیونکہ وہ اپنی اصل ونسل کے بارے میں متضاد بیانات دیتا رہا اور کسی ایک نسل یا خاندان پر اکتفا نہیں کیا۔ مولانا نے مرزا قادیانی کی تحریروں کی روشنی میں ارشاد فرمایا کہ مرزا قادیانی اس حد تک تضاد بیانی کا شکار تھا کہ کبھی وہ اپنے آپکو مغلوں کی شاخ برلاس کہتا تھا، تو کبھی فارسی الأصل ہونے کا دعویٰ کرتا اور جب طبیعت اس پر بھی اکتفا نہیں کرتی تو بیک جنبشِ قلم خود کو اسرائیلی اور فاطمی بھی قرار دینے لگا، پھر کبھی چینی تو کبھی مہدی بننے کے چکر میں بنی فاطمہ ہونے کا دعویٰ کرتا، حد تو یہ ہیکہ اس نے ہندو، سکھ اور آریوں کا پاشاہ ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔


 مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یہ بات مسلَّم ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے روحانی اور جسمانی قویٰ بالکل بے عیب اور عام لوگوں کے قویٰ سے مضبوط ممتاز اور برتر ہوتے ہیں ہاں انہیں بتقاضہ بشریت عارضی طور پر بعض بیماریاں مثلا ًبخار، سر درد وغیرہ لاحق ہوسکتیں ہیں لیکن ایسا نہ ہوگا کہ انبیاء کرام علیھم السلام ایسے موذی امراض میں مبتلا ہوں جو انہیں قبر تک پہنچا دیں اس کے برعکس مرزا قادیانی بیسیوں بیماریوں کا مجموعہ تھا اور ابتدائے عمر ہی سے مالیخولیا کا مریض تھا اور 1908ء میں ہیضہ میں مبتلا ہوکر نہایت عبرت ناک موت مرگیا۔ 


مولانا نے مرزا قادیانی کے دعوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مرزا قادیانی نے 1880ء میں اپنے ملہم من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا، 1881ء میں خود کو بیت اللہ قرار دیا، 1882ء میں مجدد ہونے کا، 1891 ء میں مسیح موعود ہونے کا، 1898ء میں مہدی ہونے کا 1899 ء میں ظلی بروزی نبی ہونے کا اور 1901ء میں باقاعدہ نبوت کا دعویٰ کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخ میں بہت سے جھوٹے مدعی نبوت گزرے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم مدعی ایسے ہیں جن کے دعوؤں کی تعداد دو یا تین سے متجاور ہو ہاں البتہ مرزا قادیانی اس میدان میں بھی سب سے جدا ہے، مرزا قادیانی نے اس کثرت سے دعوے کیے ہیں کہ اُن کا شمار ایک عام آدمی کے لیے بالکل محال ہے اور پھر دعوے بھی اتنے مضحکہ خیز ثناقض اور متضاد ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ مرزا قادیانی جاندار ہے یا بے جان، انسان ہے چھلاوہ، مرد ہے یا عورت، مسلمان ہے یا ہندو، مہدی ہے یا مسیح، ولی ہے یا نبی۔ اسکے دعوؤں کو سن کر ایک عام انسان بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہیکہ یہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔ 


مولانا نے فرمایا کہ اس کے دعوؤں کی طرح اسکی ہر پیشنگوئیاں بھی جھوٹی ثابت ہوئیں۔ مولانا نے فرمایا کہ 1893ء میں عیسائی پادری عبداللہ آتھم سے مناظرہ میں شکست کھانے کے بعد مرزا قادیانی نے پیشنگوئی کی کہ 05؍ ستمبر 1894ء کو آتھم مر جائے گا لیکن دنیا گواہ ہے کہ وہ پادری اس دن کے بعد بھی عرصہ دراز تک صیح سلامت موجود رہا۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے خدا کے نام سے محمدی بیگم کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی بار بار کی اور اس کے پورا نہ ہونے پر اپنی سزا خود تجویز کی، جبکہ محمدی بیگم کی شادی مرزا سلطان محمد سے ہوگئی، اس پر مرزا قادیانی نے سلطان محمد کے بارے میں بھی پیشگوئی کی کہ وہ ڈھائی سال کے اندر اندر مر جائے گا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مرزا قادیانی کی 1908ء میں موت آ گئی اور مرزا سلطان محمد زندہ رہا، مرزا سلطان محمد کے محمدی بیگم سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ جو مرزا قادیانی کے کذب کی چلتی پھتی تصویریں تھے۔ مرزا قادیانی اس کی موت کو تقدیر مبرم کہتا تھا مگر مرزا کی اپنی تقدیر بدل چکی تھی نہ محمدی بیگم مرزا کی زندگی میں بیوہ ہوئی اور نہ مرزا کے نکاح میں آئی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ اسی طرح حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے بارے میں ایک تحریر میں اس نے پیشنگوئی کی کہ مجھے آپ مردود، کذاب، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں، لہٰذا اگر میں ایسا ہی ہوں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا اور اگر نہیں تو آپ طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریوں سے میری زندگی میں ہلاک ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخ گواہ ہیکہ اس پیشگوئی کے تقریباً ایک سال بعد مرزا قادیانی کی موت نے ”آخری فیصلہ“ کر دیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھا کیونکہ اس کی موت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی زندگی میں بقول اس کے ”خدائی ہاتھوں کی سزا“ سے یعنی ہیضہ میں مبتلا ہوکر ہوئی۔ 


مولانا نے فرمایا کہ ویسے تو مرزا قادیانی نے بہت ساری پیشنگوئیاں کی تھی جن میں سے بطور نمونہ چند پیشگوئیاں آپ احباب کے سامنے پیش کی ہیں، جن کو سن کر ہر صاحب عقل انسان مرزا قادیانی کی حقیقت کو جان سکتا ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جو مرزا قادیانی کو، مجدد، مہدی، مسیح اور نبی مانتے ہیں ان کے لیے یہ ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہیکہ وہ مرزا کے اقوال کو پڑھیں اور افعال کی طرف بھی دیکھیں کیا اتنا بڑا جھوٹا انسان جو شرابی بھی ہو او ر زنا بھی کرتا ہو۔ مجدد، مہدی، مسیح اور نبی بننا تو بہت دور کی بات ہے، کیا ایک اچھا انسان کہلوانے کے بھی قابل ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ مرزائی مسلمانوں کے ذہنوں میں حضرت مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ اسلام کے مسائل محض اس لیے ڈالتے ہیں کہ مسلمان عوام مرزا قادیانی کی اس قسم کی باتوں پر غور نہ کریں اور نہ ان کو زیر بحث لائیں اور مرزا قادیانی کے ان تھوک جھوٹوں پر پردہ پڑا رہے۔ جبکہ ایک سادہ لوح مسلمان کیلئے قادیانیت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں کہ مرزا قایانی کی حالات زندگی اور اسکی پیشگوئیوں پر غور کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہیکہ اس فتنۂ قادیانیت کی حقیقت کو لوگوں تک پہنچانے کی فکر کریں، اسکی حالات زندگی اور جھوٹی پیشنگوئیوں سے لوگوں کو واقف کروائیں، اس فتنہ کے تعاقب اور رد نیز ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ جتنا ہوسکے کام کریں۔ قابل مبارکباد ہیں مرکز تحفظ اسلام ہند کے ذمہ داران نے انہوں نے ”پندرہ روزہ عظیم الشان تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ منعقد کرکے ان کاموں کا بیڑا اٹھایا ہے، اللہ تعالیٰ انکی کوششوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پردارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS #Qadiyani

Wednesday, November 23, 2022

ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں، منکرین ختم نبوت اور منکرین حدیث کے فتنوں سے امت مسلمہ ہوشیار رہیں!“

 ”ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں، منکرین ختم نبوت اور منکرین حدیث کے فتنوں سے امت مسلمہ ہوشیار رہیں!“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا سید بلال حسنی ندوی کا خطاب!


بنگلور، 22؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی گیارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے ہر دور میں انبیائے کرام ؑ کو مبعوث فرمایا اور انہیں ایسی شریعت عطا کی جس پر عمل کرنے والا جنت کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ ان کے زمانے کے اعتبار سے وہ شریعت کامل اور نجات دہندہ تھی لیکن ان کی شریعتیں مخصوص زمان و مکان کے لئے تھیں۔ ایک امت کو جو نظام زندگی دیا جاتا وہ اس وقت تک قابل عمل ہوتا جب تک کہ دوسرے نبی نہ آجائیں۔ دوسرے نبی اور پیغمبر کے آنے کے بعد ماضی کے بہت سے احکام منسوخ ہوجاتے اور پھر نئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہوتا۔ اسی طرح ان کی شریعت خاص قوم اور محدود خطے کے لئے ہوتی تھی۔ بسا اوقات مختلف علاقوں میں تبلیغ وہدایت کے لئے الگ الگ انبیاء بھیجے جاتے اور بیک وقت کئی نبی اس روئے زمین پر تشریف فرما ہوتے جو اپنی اپنی قوم کی رہنمائی و رہبری کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ یہ سلسلہ حضرت عیسٰی ؑ تک چلتا رہا لیکن جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو آپ کو آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا۔ آپ کی امت آخری امت اور آپ پر نازل کی جانے والی کتاب آخری کتاب قرار دی گئی، اسی طرح آپکی شریعت کو بھی آخری شریعت کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد جس طرح اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، اسی طرح سے اب قیامت تک کوئی نئی کتاب یا کوئی شریعت نہیں آئے گی بلکہ رہتی دنیا تک سارے اقوام کے لئے اسی قرآن و حدیث اور شریعت مطہرہ پر عمل کرنا لازم ہوگا، یہی راہ نجات اور اسی میں اللہ تعالیٰ کی رضا مضمر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ دین ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہوچکا۔ ایک انسان کی ہدایت کے لئے جن احکام کی ضرورت تھی وہ دے دیئے گئے۔ دنیا خواہ کتنی ہی ترقی پذیر ہوجائے اورٹیکنالوجی جس بلندی پر بھی پہنچ جائے ہمیشہ کے لئے یہ شریعت آچکی۔ یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی۔ اب نہ تو اس کا کوئی حکم منسوخ ہوگا اور نہ اس کے رہتے ہوئے کسی دوسرے قانون کی ضرورت ہوگی۔ ہر طرح کی ترمیم و تنسیخ سے بالا تر اسلامی شریعت نازل کردی گئی جو اس امت کا اعزاز اور لائقِ فخر ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ قرآن و حدیث شریعت اسلامی کی بنیاد اور اولین حجت ہے اور ان دونوں چیزوں کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ جس طرح متعدد جھوٹے اور کذابوں نے ختم نبوت کا انکار کی اسی طرح متعدد کذابوں نے احادیث مبارکہ کا بھی انکار کیا۔ جبکہ حضور اکرمﷺ کی حدیث کو قرآن مجید کے بعد اسلامی قانون کا دوسرا اہم ترین ماخذ مانا جاتا ہے لیکن ہر دور میں اسے عناصر امت مسلمہ میں موجود رہے ہیں جنہوں نے نبی اکرمؐ کی حدیث کو ماننے کی بجائے اپنی عقل اور تاویلات سے احادیث رسول کا انکار کیا ہے اور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ منکرین حدیث ظاہراً حدیث رسول کے منکر ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید اور مذہب اسلام کے بھی مخالف ہی؛ کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مذہب اسلام کا مدار دو ہی چیزیں رہی ہیں۔ ایک کتاب اللہ یعنی قرآن مجید اور دوسرا سنت رسول اللہ یعنی حدیث، خلفائے راشدین، صحابۂ کرام فقہائے عظام؛ بلکہ تمام عالم کے علماء حدیث رسول کو حجت مانتے آئے ہیں، مگر اس فرقے یعنی منکرین حدیث جو اپنے آپ کو اہل قرآن کہتے ہیں، انکا خیال اور عقیدہ یہ ہے کہ حدیث رسول حجت نہیں۔ در اصل اس فرقے کا مقصد صرف انکار حدیث تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ اسلام کے سارے نظام کو مخدوش کرکے ہر امر ونہی سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، کیوں کہ قرآن مجید میں ہرچیز کا بیان اجمالاً ہے جس کی تشریح وتفصیل حدیث میں ہے، یہ فرقہ ان سب تفصیلات اور پورے نظام کو یکسر بدلنا چاہتا ہے، نیز قرآن کریم میں بھی من مانی تفسیر کرکے حقیقی مطالب اور مرادِ الٰہی کو ختم کردینا چاہتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید کے بعد کوئی کتاب نہیں اس لیے وہ قیامت تک محفوظ ہے، اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اس لیے آنحضرتؐ کے ارشادات بھی قیامت تک کے لیے محفوظ اور حجت ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام کو اللہ کا آخری دین اور قیامت تک محفوظ رہنے کو ماننے کا نتیجہ یقینی، حتمی اور بدیہی طور پر یہ ہے کہ دین اسی شکل میں محفوظ رہ سکتا ہے جب قرآن بھی محفوظ ہو اور حدیث بھی محفوظ ہو۔ اگر حدیث محفوظ نہیں تو اللہ کا آخری دین محفوظ نہیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ نے اپنا آخری دین اپنے آخری رسول حضرت محمدرسول اللہ ؐ کے ذریعہ انسانیت تک بھیجا، لہٰذا ان کے ارشادات یعنی حدیث نبویؐ پر ایمان اور ان پر عملدر آمد ہی ہمارے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ مذہبی لحاظ سے سطحِ ارض پر اگرچہ بے شمار فتنے رونما ہو چکے ہیں، اب بھی موجود ہیں اور تا قیامت باقی رہیں گے لیکن فتنہ انکار ختم نبوت کے بعد فتنہ انکارِ حدیث اپنی نوعیت کا واحد فتنہ ہے۔ باقی فتنوں سے تو شجرِ اسلام کے برگ و بار کو ہی نقصان پہنچتا ہے لیکن اس فتنہ سے شجرِ اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور اسلام کا کوئی بدیہی سے بدیہی مسئلہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر، قرآن مجید کے آخری کتاب ہونے پر، شریعت محمدیہؐ کا آخری شریعت ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح سے احادیث رسولؐ پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن کو ماننا اور احادیث کا انکار کرنا کفر ہے اور جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ درحقیقت قرآن کا بھی منکر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے فتنوں سے امت مسلمہ کو باخبر کرنا اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں  سے نوازا۔



#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Mufti-e-Azam Pakistan Hazrat Moulana Mufti Mohammed Rafi Usmani Saheb RH Ke Intiqaal Per Taziyati Paigham

 🎯 مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب عثمانیؒ کے انتقال پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم  کے نام تعزیتی پیغام...!




🎯 Mufti-e-Azam Pakistan Hazrat Moulana Mufti Mohammed Rafi Usmani Saheb RH Ke Intiqaal Per Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Sarparast Sheikh-e-Tariqat Hazrat Moulana Mohammed Umrain Mahfooz Rahmani Sb DB Ka Sheikhul Islam Hazrat Moulana Mufti Mohammed Taqi Usmani Saheb DB Ke Naam Taziyati Paigham...!


#Taziyat #RafiUsmani #Usmani #TaqiUsmani #Letter_Head


Monday, November 21, 2022

تعزیتی پیغام بروفات حسرت آیات مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ!

 ⭕️تعزیتی پیغام بروفات حسرت آیات مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ!





✍بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


⭕️Condolence Message On Death Of Mufti-e-Azam Pakistan Hazrat Moulana Mufti Mohammed Rafi Usmani Saheb RH! 


✍ Mohammed Furqan 

(Founder & Director Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind)


#Taziyat #RafiUsmani #Usmani #TaqiUsmani #Letter_Head

”جھوٹے مہدویت و مسیحیت کے دعویداروں سے امت مسلمہ ہوشیار رہیں اور انکے بہکاوے میں نہ آئیں“

 ”جھوٹے مہدویت و مسیحیت کے دعویداروں سے امت مسلمہ ہوشیار رہیں اور انکے بہکاوے میں نہ آئیں“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مفتی محمد حذیفہ قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی ساتویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے ناظم حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ہے، جس طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول ماننا ضروری ہے اسی طرح نبی کو آخری نبی بھی ماننا ضروری ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہر دور میں کچھ بدبختوں نے ختم نبوت و رسالت پر ڈاکہ ڈالیں کی پر زور کوششیں کیں لیکن سب کے سب جھوٹے ثابت ہوئے۔ انہوں نے فرمایا کہ دعویٰ نبوت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ اپنی سستی شہرت اور مال کی لالچ میں باطل کے اہلکار بن کر مہدی اور مسیح ہونے کے بھی جھوٹے دعویٰ کرتے ہیں۔ جبکہ امام مہدی کا ظہور اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے سلسلے میں متعدد احادیث میں ان کی آمد سے پہلے کے حالات و واقعات، ان کی ولادت، ظہور و نزول اور شخصی اوصاف کو واضح طور پر بیان فرما دیا گیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں قربِ قیامت حضرت مہدی کا ظہور ہوگا۔ امام مہدی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ مدینہ منورہ میں ان کی پیدائش وتربیت ہوگی، ان کا نام نامی ”محمد“ اور والد صاحب کا نام ”عبداللہ“ ہوگا، وہ شکل وشباہت اور اخلاق وشمائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، مکہ مکرمہ میں ان کی بیعت خلافت ہوگی اور بیت المقدس ان کی ہجرت گاہ ہوگا، بیعتِ خلافت کے وقت ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی، ان کی خلافت کے ساتویں سال دجال نکلے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوگا، حضرت مہدی کے دوسال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معیت میں گزریں گے اور 49؍ برس میں ان کا وصال ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ روایات میں حضرت مہدی کے زمانے میں ہی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نزول ہوگا اور یہ حضرت مہدی سے الگ شخصیت ہوگی۔ انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارے پر نازل ہوں گے، عین اس وقت جب کہ نماز فجر کی اقامت ہوچکی ہوگی۔ آپ علیہ السلام اپنی دونوں ہتھیلیاں فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے، ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (جو مصلے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے۔ مگر وہ یہ کہہ کر انکار فرما دیں گے کہ یہ اعزاز اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے رکھا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے اور انہیں کے ہاتھوں سے مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے۔ روئے زمین پر امن وامان کا دور دورہ ہوگا، شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے، روایات کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام امام مہدی کے ساتھ مل کر دنیا پر اسلام کی حکومت قائم کریں گے، قبیلہ ازد کی ایک خاتون سے شادی کریں گے، کم و بیش 45؍ سال دنیا میں رہنے کے بعد ان کی وفات ہوگی اور وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے روضے میں مدفون ہوں گے جہاں ایک قبر کی جگہ آج بھی خالی موجود ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ مذکورہ تفصیلات سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہیکہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں، اور حضرت مہدی دنیا میں پہلی مرتبہ تشریف لائیں گے، جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسری مرتبہ تشریف لائیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ متعدد احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی سے متعلق یہ ساری تفصیلات وضاحت کے ساتھ مروی ہیں جن کی روشنی میں امت مسلمہ کے لئے حقیقی عیسیٰ علیہ السلام اور حقیقی امام مہدی کو پہچان کر چھوٹے مدعیان کی شناخت کرنا آسان ہے۔ لیکن اس کے باوجود طالع آزماؤں نے ہر دور میں جناب رسول اللہﷺ کی اس پیشین گوئی سے غلط فائدہ اٹھانے اور مہدی و مسیح ہونے کے دعوے کے ساتھ اپنا کاروبار چمکانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی تاریخ میں سینکڑوں افراد گزرے ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں مہدی و مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور عجیب و غریب باتیں کر کے اپنے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا کر لیا۔ انہیں جھوٹے دعویداروں میں ہمارے ملک کا مرزا غلام احمد قادیانی اور شکیل بن حنیف بھی شامل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بیک وقت مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور دونوں کو ایک شخصیت قرار دے کر ان کے بارے میں جناب نبی اکرمؐ کی فرمودہ علامات کو خود پر فٹ کرنے کے لیے ایسی ایسی تاویلیں کیں کہ عقل سر پیٹ کر رہ گئی، لیکن اسکا جھوٹ دنیا پر ظاہر ہوگیا۔ اس کے باوجود مرزا قادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہار سے تعلق رکھنے والا شکیل بن حنیف نامی ایک شخص نے اپنے بارے میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ مسیح اور مہدی ہے، اور اس کے ماننے والے ان احادیث صحیحہ متواترہ کو جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مہدی کے بارے میں مروی ہیں اس شخص (شکیل بن حنیف)پر چسپاں کرکے لوگوں میں اس بات کی تبلیغ کرتے ہیں کہ وہ شخص مسیح موعود اور مہدی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس شخص کا مسیح موعود ہونے کا دعوی تو ایسا جھوٹا ہے کہ کسی صورت اس پر مسیح موعود کی علامتیں منطبق نہیں ہوتی ہیں، احادیث صحیحہ میں مسیح موعود کے بارے میں آیا ہے کہ وہ عیسی ابن مریم ہیں جو بغیر والد کے محض قدرت خداوندی سے پیدا ہوئے،جنہیں دشمنوں کی شازشوں سے بچاکر بحفاظت آسمان پر اٹھالیا گیا، اور پھر وہ قرب قیامت میں آسمان سے اتریں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ بغیر کسی غور وفکر کے ایک عام انسان بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ جس طرح شکیل بن حنیف سے پہلے مسیح ہونے کے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی میں مہدی و مسیح موعود کی علامتوں میں سے ایک بھی نہیں پائی گئی تو وہ مردور اور جھوٹا قراردیا گیا، اسی طرح اس جھوٹے شکیل بن حنیف میں بھی ان علامتوں میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی کہ وہ ابن مریم نہیں بلکہ ابن حنیف ہے، وہ نہ آسمان پر کبھی اٹھایا گیا اور نہ ہی دنیا کہ کسی علاقہ میں آسمان سے اترا ہے، بلکہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوا ہے، نہ ہی اس کا حلیہ مسیح موعود کے جیسا ہے اور نہ اسے دجال اور دجالی جماعت سے مقابلہ کرنے کا موقع ملا ہے، نہ اس نے خنزیر کو قتل کیا اور نہ ہی عیسائیت کا خاتمہ کیا ہے، اور ارض فلسطین کو تو اس نے آج تک دیکھا نہیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مرزا قادیانی کی طرح شکیل بن حنیف کی شخصیت کو بھی احادیث کے آئینے میں دیکھا جائے تو وہ کسی لحاظ سے بھی امام مہدی یا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معیار پر پورا نہیں اُترتے، سو دیگر دعاوی کی طرح ان کا دعویٰ مہدویت و مسیحیت بھی مبنی برکذب و افترا اور جہالت و گمراہی ہے، بلکہ اس کی شخصی اوصاف کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ یہ تو ایک اچھا انسان کہلانے کے لائق نہیں چہ جائیکہ مہدی، مسیح یا نبی وغیرہ۔ مولانا حذیفہ قاسمی نے فرمایا کہ احادیث میں قرب قیامت بہت زیادہ فتنوں کے ظاہر ہونے کی خبر دی گئی اور فرمایا گیا ہیکہ بہت سے دجال اور جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے، جو اپنے گمراہ اور باطل عقائد کو دھوکہ دہی وجعل سازی کے ذریعہ سچ اور صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ مسلم معاشرہ میں وقفہ وقفہ سے نبی، مہدی اور مسیح ہونے کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوتے رہے ہیں، اس وقت مختلف علاقوں میں یہ فتنے رونما ہورہے ہیں، باطل طاقتوں کی مدد سے یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اسلئے عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس طرح کے نئے نئے دعوے کرنے والوں اور اسلاف ومتقدمین کے نہج سے ہٹ کر قرآن وسنت کی تشریح وتاویل کرنے والوں سے دور رہیں اور ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ایسے حالات میں مرکز تحفظ اسلام ہند ذمہ داران نے عامۃ المسلمین کو ان اہم عقائد سے واقف کروانے اور اسکی حفاظت کرنے کے سلسلے میں یہ”پندرہ روزہ عظیم الشان تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ منعقد کرکے بڑی خدمت انجام دی ہے، اللہ تعالیٰ انکی کوششوں کو قبول فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی ساتوں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد حذیفہ قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مفتی محمد حذیفہ قاسمی صاحب کی دعا سے کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Friday, November 18, 2022

”نوجوان نسل کو ختم نبوت کی اہمیت سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!“

 ”نوجوان نسل کو ختم نبوت کی اہمیت سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


بنگلور، 17؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی نویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مقصود عمران صاحب رشادی مدظلہ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کا یہ متفق علیہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے آخری نبی رسول ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ ؐ کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ نبی کریم ؐ کی ختم نبوت کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں“۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا ہے کہ آپؐہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک، جھوٹے دجالوں کا خروج ہے۔ یہ ایسے لوگ ہوں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے اور اپنے جھوٹ سے لوگوں کے درمیان فتنے کو ہوا دیں گے۔ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ان کی تعداد تیس ہوگی۔ آپؐ نے فرمایا کہ ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس جھوٹے دجال نکل جائیں (وہ سب کے سب) ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرتا ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔“ مولانا نے فرمایا کہ ختم نبوت کے دشمن اس طاق میں بیٹھے ہیں کہ وہ کس طرح اسلامی شعائر اور ہمارے عقائد پر حملہ آور ہو سکے، مسیلمہ کذاب سے لیکر مرزا قادیانی تک ہر زمانے میں نبوت پر ڈاکہ زنی کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن الحمدللہ ختم نبوت کے محافظوں نے ختم نبوت کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے جھوٹے مدعیان نبوت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا اور آج تک اسی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام مخالف طاقتیں آج نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، وہ فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کر کے عقیدۂ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر قادیانی اور اس کے متبعین اس قطعی اور اجماعی مسئلہ میں خلاف و شقاق کا دروازہ کھولنے کی پر زور کوشش کررہے ہیں اور عوام کی جہالت اور مغربی تعلیم سے متاثر اور دینی تعلیم سے بیگانہ افراد کی ناواقفیت سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مسئلہ میں طرح طرح کے اوہام وشکوک ان کے دلوں میں پیدا کرکے انکو گمراہ کرنے کی دن رات سازشیں کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ان حالات میں فتنوں بالخصوص جھوٹے مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا اور امت کو اُن سے خبردار کرنا دینی تقاضوں اور فرائض میں سے ہے اور معاشرہ میں کسی بھی حوالہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کر کے مسلمانوں کو اُن سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ ضرورت اس بات کی ہیکہ پوری امت مسلمہ بالخصوص نوجوان نسل کو ختم نبوت کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا جانا چاہیے، ان کے دلوں میں حضور نبی کریم ﷺ کی محبت، عشق رسول اور بالخصوص عقیدۂ ختم نبوت کو واضح کرنا چاہئے۔ آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والے ایک ہوکر ختم نبوت کے حصار کو مضبوط کریں کیونکہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو آپ کا دین محفوظ ہے اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو آپ کا دین بھی محفوظ نہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی نویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب کی دعا سے کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Thursday, November 17, 2022

اسلام کے تین بنیادی عقائد!

 اسلام کے تین بنیادی عقائد!



✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


عقیدہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ کو کہتے ہیں، دین کی وہ اصولی اور ضروری باتیں جن کا جاننا اور دل سے ان پر یقین رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔اسلام میں عقیدہ کو اولیت حاصل ہے۔ صحیح عقیدے کے بعد ہی اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔ صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اور اس کی درستگی پر ہی اعمال کی صحت کا دارومدار ہے۔ حیات انسانی میں عقیدہ کی جو اہمیت ہے، اس کی مثال عمارت کی بنیاد کی ہے۔ اگر اسکی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوگی تو عمارت بھی صحیح اور مضبوط ہوگی اور اگر بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور اور غلط ہوگی تو عمارت بھی کمزور اور غلط ہوگی اور ایک نہ ایک دن اسکے بھیانک نتائج لاحق ہونگے۔ بس کسی کا عقیدہ درست ہو اور کثرت عبادت نہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن جنت ضرور ملے گی اور اگر عقیدہ ہی غلط اور باطل ہو تو اسکا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جہنم ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ عقیدہ ہر عمل کی قبولیت کی اولین شرط ہے، اگر عقیدہ درست ہوگا تو عمل قبول ہوگا اور اگر عقیدہ غلط ہوگا تو عمل قبول نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام کے تین بنیادی عقائد:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کا دارومدار عقائد پر رکھا ہے اور اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ ان تینوں عقیدوں پر ایمان لانا ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین بنیادی عقائد میں سے کسی دو پر ایمان لاکر کسی ایک پر ایمان نہیں لاتا یا اس پر شک و شبہ کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، کیونکہ مسلمان ہونے کیلئے ان تینوں عقیدوں پر بلا کسی شک و شبہ کے ایمان لانا ضروری ہے۔قرآن و حدیث میں اللہ تبارک تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن تین بنیادی عقیدوں کا کثرت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہیں؛ پہلا عقیدۂ توحید، دوسرا عقیدۂ رسالت اور تیسرا عقیدۂ آخرت ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کیلئے بنیادی طور پر ان تین عقائد پر ایمان لانا بہت ضروری ہے۔ بقیہ ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں بیان کی گئی ہیں۔


عقیدۂ توحید اور اسکی اہمیت:

اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ عقیدۂ توحید ہے۔ عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہیکہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور جُملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ وحدہ لاشریک ہے۔ ہر شئی کا مالک اور رب ہے۔ کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔ صرف وہی با اختیار ہے۔ ساری عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے۔ اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں۔ وہ ہر کمال والی صفت سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نہ اولاد ہے اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہے۔ عقیدۂ توحید تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمۂ توحید ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ“ ہے۔ شریعت اسلامیہ اسی کلمۂ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔ عقیدہ توحید کی اہمیت کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کو مبعوث کیا سب کے سب انبیاء حتیٰ کہ خاتم النبیین حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مقصد اور بنیادی دعوت عقیدۂ توحید ہی تھا۔ قرآن مجید کے سورۃ اعراف میں ہیکہ تمام انبیاء کرام اسی دعوت توحید کو لے کر آئے اور اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوئے کہ: ”یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ“ کہ ”اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 59)۔ ایک حدیث میں ہیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سب سے پہلے مشرکین مکہ کو یہی دعوت توحید دیتے ہوئے فرمایا کہ ”یَا أیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ الٰہَ الاّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا“ کہ ”اے لوگو! لاالٰہ الا اللہ کہو کامیاب رہوگے۔“ (مسند احمد)۔ توحید کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید یعنی اپنی عبادت کی خاطر اس پوری کائنات کو بنایا اور اسی توحید کی طرف بلانے کے لیے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں اپنے بندوں سے سب سے پہلے اسی توحید کا اقرار لیا کہ: ”اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ“ کہ ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ تو بنی آدم نے جواب دیا: ”قَالُوْا بَلٰی،شَہِدْنَا“ کہ ”کیوں نہیں آپ ہمارے رب ہیں۔“ (سورۃ الاعراف، 172)۔ عقیدہ توحید کی تعلیم و تفہیم کے لیے حضرات انبیاء و خاتم النبیینﷺ، اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین، ائمہ عظام و سلف صالحین، بزرگانِ دین و دیوبندی اکابرین نے بے شمار قربانیاں دیں ہیں کیونکہ عقیدہ توحید صرف آخرت کی کامیابی اور کامرانیوں کی ہی ضمانت نہیں، بلکہ دنیا کی فلاح، سعادت و سیادت، غلبہ و حکمرانی اور استحکام معیشت کا علمبردار بھی ہے۔ امت مسلمہ کے عروج اور زوال کی یہی اساس ہے۔ لہٰذا عقیدۂ توحید پر ایمان دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور اسکی حفاظت و دعوت امت مسلمہ پر فرض عین ہے!


عقیدۂ رسالت اور اسکی اہمیت:

عقیدۂ رسالت دین اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے اپنے برگزیدہ بندوں نبیوں اور رسولوں کو ان کے درمیان بھیجا، جو اللہ تعالیٰ کا پیغام لیکر امت تک پہنچاتے تھے۔یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننے کو عقیدۂ رسالت کہتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں جہاں عقیدۂ توحید کا ذکر ہے وہیں عقیدۂ رسالت کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا“ کہ ”پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر وہ جو اتارا ہم نے۔“ (سورۃتغابن، 8)۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم کو اللہ کے احکام و فرامین پہنچتے ہیں۔ اللہ کے نبی پر ایمان اور اسکی اطاعت ہم پر فرض ہے اور اسکی شہادت کے بغیر ایمان نا مکمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلْ یَآ اَیُّہَا النَّاسُ کہہ دو اے لوگو! اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَاِ  میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، الَّذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ جس کی حکومت آسمانوں اور زمین میں ہے،  لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ  اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول اُمّی نبی پر الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ جو کہ اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر یقین رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔“ (سورۃ الاعراف، 158)۔ لہٰذا ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت ایمان کا اہم حصہ ہیں، جسکی شہادت و اطاعت پر ہی ہماری نجات کا دارومدار ہے۔ بعض گمراہ لوگ تمام انبیاء و رسل پر تو ایمان لاتے ہیں لیکن خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ جب تک کوئی شخص تمام انبیاء و رسل پر ایمان نہ لائے اور ساتھ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء نہ مانے وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بند کردیا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ”اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَ“ کہ ”اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آچکا ہے، لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔“ لہٰذا ایک مسلمان کو تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اقرار کرنا لازمی ہے، ورنہ اس کے بغیر آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔


عقیدۂ آخرت اور اسکی اہمیت:

عقیدۂ آخرت، عقیدۂ توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا، نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں اور گناہگاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا، اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدۂ آخرت کہتے ہیں۔ جس طرح دیگر عقائد کے منکرین ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیائے فانی میں عقیدۂ آخرت کے منکرین بھی پائے جاتے ہیں، جبکہ انکی دلیلیں بے بنیاد اور سرار غلط ہیں۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات اور آپﷺ سے بے شمار احادیث عقیدہ آخرت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ“ کہ ”کہہ دو اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مارتا ہے پھر وہی تم سب کو قیامت میں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔“ (سورۃ الجاثیہ،26)۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ عقیدہ آخرت صحیح اور حق ہے، اسی لیے آخرت پر یقین کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ عقیدۂ آخرت انسان کو اس تصور کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کل قیامت کے دن ہمیں اللہ کے حضور تن تنہا حاضر ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینا ہوگا، وہاں کوئی رشتہ داری یا آل اولاد کام آنے والی نہیں، بس اپنے اعمال صالحہ کام آئیں گے۔ عقیدۂ آخرت کی وجہ سے جواب دہی کا احساس انسان کو نیکی و تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتا ہے، اس کے افکار و نظریات کو ایمان کے رنگ میں رنگ دیتا ہے، اس کا ایمان اسے اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کی بلندیوں پر پہونچا دیتا ہے۔ الغرض آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازم ہے، کیونکہ اسکے بغیر انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔


بنیادی عقائد پر ایمان ضروری ہے:

دین اسلام کے ان تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے، اسکے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں اور آدمی اس پر ایمان لائے بغیر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عقائد پر بھی ایمان لانا ضروری ہے جو ایمان مفصل میں درج ہیں۔ایمان مفصل میں سات اجزاء بیان کی گئی ہیں ”اٰمَنْتُ بِاِ وَمَلَاءِکَتِہ وَ کُتُبِہ وَ رُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہ وَ شَرِّہ مِنَ اِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ“ کہ ”ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بری تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر!“۔ (صحیح مسلم)۔


خلاصۂ کلام:

خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی تعلیم وتفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ ہے۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ اور دنیا وآخرت کی خوش نصیبی اسے مضبوطی سے تھامنے پر منحصر ہے اور اس عقیدے کے جمال وکمال میں نقص یا خلل ڈالنے والے تمام قسم کے امور سے بچنے پر موقوف ہے۔ لیکن افسوس کہ عقائد کی جتنی اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملے میں غافل اور اسکی محنت سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہورہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے جنم لے رہے ہیں۔لہٰذا ہمیں عقائد اسلام پر اس طرح کی پختگی حاصل کرنی چاہیے کہ اس کے خلاف سوچنے یا عمل کرنے کی ہمارے اندر ہمت نہ ہو، اس کے خلاف سننا یا دیکھنا ہم سے برداشت نہ ہو، ہم اپنے عقائد پر اس طرح مضبوط ہوجائیں کہ پوری دنیا بھی اگر ہمارے پیچھے لگ جائے تب بھی ہم اپنے عقائد پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ کیونکہ عقائد اصل ہیں اور اعمال فرع ہیں اور صحیح عقائد ہی مدار نجات ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اور دوسروں کے عقیدوں کو درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمیں دونوں جہاں کی خوشیاں اور کامیابیاں میسر ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے دین و ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے اور صحیح عقیدہ اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢١؍ ربیع الثانی ١٤٤٤ھ

17؍ نومبر 2022ء، بروز جمعرات


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com



#PaighameFurqan 

#پیغام_فرقان 

#Mazmoon #Article #AqaideIslam #AqidahIslam #IslamicBeleifs

عقیدہ ختم نبوتؐ دین اسلام کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے!

 ”عقیدہ ختم نبوتؐ دین اسلام کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے!“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا ابو طالب رحمانی کا خطاب!


 بنگلور، 14؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی آٹھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن خطیب بے باک حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم فرما دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی، کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آ سکتا ہے اور نہ آئے گا، اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرا برابر شک اور تردّد کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کیونکہ نبوت آپؐ پر ختم ہو گئی ہے اور آپؐ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، حتیٰ کہ جب قرب قیامت حضرت عیٰسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ بھی بحیثیت امتی نازل ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شریعت پر عمل پیرا ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، اس پر ایمان لانا اسی طرح ضروری ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، حضور ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ عقیدہ کئی آیات مبارکہ اور سینکڑوں احادیث شریفہ سے ثابت ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ امت کا سب سے پہلا اجماع بھی اسی پر منعقد ہوا، یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مشکوک اور مشتبہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی اس پر بحث کی ضرورت سمجھی گئی بلکہ ہر دور میں متفقہ طور پر اس پر ایمان لانا ضروری سمجھا گیا۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت کی نزاکت وحساسیت کا اندازہ امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒکے اس قولِ مبارک سے بھی ہوتا ہے، جس میں کسی کا خود دعویٰ نبوت کرنا تو بہت دور کی بات ہے، کسی دوسرے شخص کا نبی کریمﷺ کے بعد مدعی نبوت سے اپنے دعویٰ کے متعلق دلیل طلب کرنا بھی کفر ہے، چنانچہ حضرت امام اعظم ؒفرماتے ہیں کہ ”جو شخص حضورﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے وہ تو کافر ہے ہی اور جو اس سے دلیل طلب کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے“۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ دور حاضر میں خاص طور ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت سے امت مسلمہ کو واقف کروانا بہت ضروری ہے کیونکہ قادیانیت جیسے فتنے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کررہی ہیں، وہ لوگ مسلمانوں کے درمیان بڑے زور سے کہتے ہیں کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے ہیں جسے سن کر عام مسلمان انکے جال میں پھنس جاتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہیکہ یہ لوگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تو مانتے ہیں لیکن آخری نبی نہیں مانتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کو آخری نبی مانتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کی اساس اور اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے۔ دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدے پر کھڑی ہے۔ کیونکہ اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو مسلمان نہ صرف اپنی متاع ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ دائرہ اسلام بھی خارج ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی اور اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کریں، عقیدۂ ختم نبوتؐ کی اہمیت و فضیلت کو انکی رگ رگ میں بسا دیں اور فتنہ مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت سے امت مسلمہ کو آگاہ کریں تاکہ دوسرے لوگ ان فتنوں سے واقف رہیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں۔ مولانا نے فرمایا تحفظ ختم نبوت ایک بڑا حساس مسئلہ ہے، اس موضوع پر کام کرنا اور اس کے دفاع کرنا اور ختم نبوت کی حفاظت کرنا یہ ایمانی فریضہ ہے کیونکہ یہی عقیدہ امت مسلمہ کو وحدت کی ایک لڑی میں پروتا ہے اور اسی منصب ختم نبوت کی برکت سے قرآن مجید آخری آسمانی کتاب، امت محمدیہؐ آخری امت اور دین اسلام آخری دین ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں  سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Wednesday, November 16, 2022

”فتنوں کے اس دور میں ایمان بالخصوص عقیدۂ ختم نبوتؐ کی حفاظت ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے!“

 ”فتنوں کے اس دور میں ایمان بالخصوص عقیدۂ ختم نبوتؐ کی حفاظت ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے!“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا احمد ومیض ندوی کا خطاب!


 بنگلور، 10؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث پیر طریقت حضرت مولانا سید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی مدظلہ نے فرمایا کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے، ہر سمت سے مختلف فتنوں کی یلغار ہے، انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے الحاد اور لادینیت کی شورشیں عروج پر ہیں۔ انہیں حالات کی پیشگوئی خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ”فتنے ایسے گریں گے جیسے بارش کے قطرے گرتے ہیں“۔ اور فرمایا تھا کہ ”فتنے رات کے اندھیرے کی طرح پھیل جائیں گے اور اس دور میں انسان صبح کافر اور شام کو مومن ہوگا یا صبح مومن اور شام کو کافر ہوگا“۔ لہٰذااگر ہم آج کے حالات پر طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہیکہ دور فِتن کی علامات جو احادیث میں بیان کی گئی ہیں وہ اب ظاہر ہوتی جارہی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ آج ہر گھر تک بآسانی رسائی حاصل کرسکتے ہیں، اور یہ ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس سے پوری قوم کے افکار ونظریات متزلزل کئے جاسکتے ہیں، ان میں ایک بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ افسوس کہ اس جدید ٹیکنالوجی پر باطل طاقتوں کا قبضہ ہے اور وہ اسکے ذریعے سے فتنوں کو بہت جلد پوری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ بعض فتنے علاقائی ہوتے ہیں اور بعض عالمی ہوتے ہیں، انہیں میں سے ایک فتنۂ قادیانیت کا فتنہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام کو یہودیت اور عیسائیت سے اتنا نقصان نہیں ہے جتنا کہ قادیانیت سے نقصان ہے کیونکہ یہ لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو اسلام کا نام لیکر انکے عقائد پر حملہ کرکے انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ اورہمارے لوگ ان منافقین کا ظاہر دیکھ کر ان پر بھروسہ کرلیتے ہیں۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ قادیانی خاص طور دیہاتوں اور گاؤں کے غریب طبقے کے لوگوں کو مالی اور دیگر ذرائع سے امداد کرکے اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور بعد میں انکے درمیان اپنے عقائد کو نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنا امت کے ہر ایک فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”خاتم النبیین“ بنا کر بھیجا اور آپؐ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا، آپؐ کو وہ کتاب اور شریعت عطاء کی گئی جس کے بعد قیامت تک کسی نئی کتاب اور نئی شریعت کی ضرورت نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان درحقیقت اس اُمت پر ایک احسان عظیم ہے، کیونکہ اگر آپؐ پر نبوت ختم نہیں ہوتی تو یہ امت بھی پچھلی امتوں کی طرح آزمائش میں مبتلا ہوجاتی۔ مولانا نے فرمایا کہ پچھلے زمانوں میں جب نئے نبی دنیا میں تشریف لاتے تو پچھلے نبی پر ایمان لانے والے نئے نبی پر ایمان لانے سے منع کردیا کرتے تھے، جس کے بعد ان پر عذاب مسلط کردیا جاتا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہؐ پر کرم فرمایا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”خاتم النبیین“ بنا دیا اور آپ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا، اس طرح سے امت ایک بڑی آزمائش سے محفوظ ہوگئی۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ ختم نبوت اعزاز ہے، ختم نبوت اللہ کا انعام ہے، ختم نبوت کا ثبوت قرآن و حدیث سے ملتا ہے، لہٰذا خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کے ساتھ آخری نبی ماننے والا ہی مسلمان ہے اور اسی پر امت کا اجماع ہے ہیکہ آپﷺ آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مولانا نقشبندی نے فرمایا کہ بحیثیت مسلمان ہر ایک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر طریقہ سے ہم مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے فتنوں بالخصوص اس فتنہ قادیانیت کا تعاقب کریں، اور اس فتنہ کے تعاقب، سد باب اور سرکوبی کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کیلئے قصبات، گاؤں، دیہات کا دورہ کریں اور وہاں مساجد و مدارس اسلامیہ کا قیام کریں، نیز شہری مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ پسماندہ علاقوں میں مالی امداد اور ضروری سامان مہیا کرائیں، نیز معاشی اعتبار سے ان کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں تاکہ قادیانی قرض اور مالی وغیرہ کی امداد کے بہانے ان بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے جال میں نہ پھنسالے۔ اسی کے ساتھ ضرورت ہیکہ ہمارے نوجوان اور طلبہ کرام بالخصوص جدید تعلیم حاصل کررہے طلبہ کرام کیلئے ترتیبی کیمپ لگائیں کیونکہ امت مسلمہ کے بیشتر نوجوان ایمانیات بالخصوص عقیدہ ختم نبوت کی بنیادی اور اہم باتوں سے ناواقف ہیں۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ اہل علم پر واجب ہے کہ وہ قادیانیت کا تعاقب کرکے اس کی بیخ کَنی کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھیں اور عوام الناس کو ان کی ارتدادی سرگرمیوں سے بچانے کی پوری کوشش کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس فتنوں کے دور میں سب سے سنگین مدعیان نبوت و منکرین ختم نبوت کے فتنوں کے رد اور عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے یہ ”پندرہ روزہ عظیم الشان تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ منعقد کیا۔اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت عطا فرمائے۔قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث شیخ طریقت حضرت مولانا سید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں  سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Tuesday, November 15, 2022

رام نگر سیلاب متاثرین کیلئے جمعیۃ علماء کرناٹک کی مثالی خدمات!

 رام نگر سیلاب متاثرین کیلئے جمعیۃ علماء کرناٹک کی مثالی خدمات! 



متاثرین کی راحت رسانی اور باز آباد کاری کیلئے جمعیۃ علماء کرناٹک کی مختلف مراحل میں بڑی امداد!


بنگلور، 15؍ نومبر (پریس ریلیز): گزشتہ دنوں ریاست کرناٹک کے ضلع رام نگر کے سینکڑوں افراد موسلا دھار بارش اور سیلاب کی زد میں آگئے، جس کی وجہ سے وہاں نظام زندگی تتر بتر ہوگئی تھی، روز مرہ کماکر زندگی بسر کرنے والے چھوٹے موٹے کام و کاج کرنے والے اور مزدور بہت زیادہ متاثر ہوئے، جنکا سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کے حکم پر جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے ضلع رام نگر میں موسلا دھار بارش اور سیلاب متاثرین کی راحت رسانی اور باز آباد کاری کا عمل بلا تفریق مذہب بڑے پیمانے پر مسلسل جاری تھا۔ اسی ضمن میں گزشتہ روز جمعیۃ علماء کرناٹک کے ریاستی وفد نے چوتھے مرحلے میں مزید 12؍ متاثرہ افراد کو نئے گھر میں منتقل ہونے کیلئے 25-25؍ ہزار روپیہ کی رقم کی چیک دی۔ اور حسب وعدہ جن متاثرہ افراد کو پہلے مرحلے میں اڈوانس کیلئے رقم دی گئی تھی انہیں جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے ایک ماہ کے کرایہ کی رقم بھی ادا کی گئی۔ جس پر سیلاب متاثرین نے جمعیۃ علماء کرناٹک کا شکریہ ادا کیا اور خوب دعاؤں سے نوازا۔ واضح رہے کہ ریاستی وفد کی ابتدائی سروے رپورٹ کے فوری بعد جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری حضرت مولانا مفتی سید معصوم ثاقب صاحب قاسمی مدظلہ کی زیر نگرانی پہلے مرحلے میں جمعیۃ علماء کرناٹک نے سینکڑوں متاثرین کے درمیان ضروریات زندگی کا سامان تقسیم کیا، اور اسی کے ساتھ 23؍ متاثرہ افراد جنکا گھر اور پورا ساز و سامان سیلاب کی زد میں آگیا تھا، انہیں 25؍ ہزار روپیہ کی رقم کی چیک دی گئی تھی تاکہ وہ کسی نئے گھر میں منتقل ہوسکیں۔ پھر دوسرے مرحلے میں جمعیۃ علماء کرناٹک نے اس موسلا دھار بارش اور سیلاب سے متاثرہ ایسے 350؍ افراد کے درمیان گھریلو ساز و سامان تقسیم کیا، جنکا اس قیامت خیز سیلاب میں سب کچھ تباہ ہوگیا تھا۔ تیسرے مرحلے میں 10؍ تباہ کن مکانات کی مرمت کا کام مکمل کراکر ان کے مالکان کے حوالے کیا گیا نیز مزید 100؍ افراد کے درمیان گھریلو ساز و سامان تقسیم کیا گیا۔ اب چوتھے مرحلے میں پھر جمعیۃ علماء کرناٹک نے ان متاثرین کیلئے بڑا تعاون پیش کیا ہے۔ قابل ذکر جمعیۃ علماء کرناٹک روز اول سے رام نگر سیلاب متاثرین کی راحت رسانی اور باز آباد کاری کیلئے مسلسل سرگرم رہی، سروے سے لیکر گھریلو سامان کی تقسیم اور تعمیرات نو سے لیکر نئے گھروں کے انتظامات تک جمعیۃ علماء کرناٹک کے کارکنان نے دن رات محنتیں کیں، مشقتیں اٹھائیں، اور اپنی ترجیحات میں سیلاب متاثرین کی آباد کاری اور بحالی کے کاموں کو اولیت دی۔ کیونکہ خدمت خلق نہ صرف قرب خداوندی کا ذریعہ ہے بلکہ ایمان کا ایک اہم ترین شعبہ ہے اور مفلوک الحال اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا ہی مومن کی علامت ہے۔یہی وجہ ہیکہ خدمت خلق جمعیۃ علماء ہند کے اہم مقاصد میں سے ہے۔ مخلوق خدا کی خدمت کرنا، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو، جمعیۃ علماء کا فریضہ ہے۔ جس پر جمعیۃ علماء کے کارکنان سختی سے عمل پیرا ہیں۔واضح رہے کہ سیلاب متاثرہ علاقہ رام نگر میں امداد کی تقسیم کے موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین، جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانا محمد صلاح الدین قاسمی، جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین حسین احمد خان عرف سردار، مولانا عبد الرزاق اور محمد فرقان وغیرہ خصوصی طورپرشریک تھے۔



#Press_Release #News #RamnagarFlood #FloodRelief #JamiatUlama #Jamiat #ArshadMadni #Flood

Friday, November 11, 2022

Hazrat Tipu Sultan Shaheed RH Ke Mukhalifeen Ko Mooh Tood Jawab!

 🎯حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے مخالفین کو منھ توڑ جواب!


🎙️قائد الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ



https://youtu.be/Z9F6HeHJM94


🎯Hazrat Tipu Sultan Shaheed RH Ke Mukhalifeen Ko Mooh Tood Jawab!


🎙️Qaidul Ahrar Hazrat Maulana Habib Ur Rahman Sani Ludhianvi Saheb RH


#TipuSultan #TipuSultanIndiasHero #SultanTipu #Ahrar #Ludhianvi #MTIH #TIMS

Thursday, November 10, 2022

”مہدویت و مسیحیت کا جھوٹا دعویدار شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں“

 ”مہدویت و مسیحیت کا جھوٹا دعویدار شکیل بن حنیف اور اسکے متبعین شکیلی اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں“



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا خطاب!


بنگلور، 10؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی پانچوں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہؒ مرادآباد کے مہتمم فاتح شکیلیت حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر حضرات صحابہ کرامؓ کا سب سے پہلا اجماع ہوا۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب کسی بدبخت نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اصحاب رسولؐ نے انہیں مرتد اور خارج از اسلام قرار دیکر اسکے خلاف جنگ کئے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی متعدد مرتبہ اس بات کی وضاحت فرمادی تھی کہ ”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد قیامت تک کو نبی نہیں آئے گا“، اسی کے ساتھ آپؐ نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا“۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ آپؐ کی حیات طیبہ میں ہی مسلمہ کذاب نے دعویٰ نبوت کیا تھا جس کے خلاف صحابہ کرام ؓنے جنگ کیا اور اسکا قلع قمع کیا، اسکے بعد وقتاً فوقتاً دنیا کے مختلف گوشوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو نبوت کا دعویٰ کرتے رہے، لیکن ختم نبوت کا موضوع اتنا واضح ہیکہ کسی کو براہ راست نبوت کا دعویٰ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ جس کسی نے بھی دعویٰ کیا اسنے عیسٰی اور مہدی کا سہارا لیکر کیا یا تاویل کے ساتھ دعویٰ کیا۔ مولانا سنبھلی نے فرمایا کہ نبی کریمؐ نے قرب قیامت حضرت عیسٰی اور مہدی علیہ السلام کی آمد کی بشارت دی ہے۔ لہٰذا اسلام کی تاریخ اور مدعی نبوت کے فتنوں پر اگر روشنی ڈالیں تو معلوم ہوتا ہیکہ جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے، اس نے پہلے مہدویت اور مسیحیت کا سہارا لیکر کیا ہے۔ ماضی قریب کا سب سے بڑا جھوٹا مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی یہی حال ہیکہ اس نے بھی پہلے مہدی، مسیح، ابراھیم، نوح اور بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت ایسے ہی جھوٹے مدعیان نبوت اور منکر ختم نبوت کے فتنوں نے امت کو گھیرا ہوا ہے، ہر آئے دن طرح طرح کے لوگ اٹھ کر کبھی مہدی، کبھی مسیح تو کبھی نبوت کا دعویٰ کرکے امت کے ایمان کو لوٹ رہے ہیں اور انہیں گمراہ کررہے ہیں۔ مفتی اسعد قاسم سنبھلی نے فرمایا کہ انہیں فتنوں میں سے ایک فتنہ شکیل بن حنیف کا ہے، جو اس وقت ملک میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مفتی صاحب نے فتنہ شکیلیت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ شکیل بن حنیف کی پیدائش دربھنگہ بہار میں ہوئی، وہ ملازمت کی تلاش میں دہلی آیا اور وہیں پر تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوا، لیکن ذہنی بگاڑ اور عہدہ کی ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے جماعت کے ساتھیوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا اور پہلے مہدی پھر مہدی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس نے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی، لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا۔ مولانا نے فرمایا کہ شکیل بن حنیف کا فتنہ امت کا بڑا بدترین فتنہ ہے، اسکی وجہ ہیکہ یہ شخص انتہائی سازشی اور خطرناک شخص ہے، جو ایسے سادہ لوح جدید تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جو دین سے بلکل دور ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ شکیلی اپنی پوری سرگرمی کے ساتھ خفیہ انداز میں تحریک چلاتے ہیں اور ہمارے علاقہ میں ہی ہمارے نوجوانوں پر محنت کرتے ہیں اور ہم کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوتی، اور جب ایک بڑی تعداد گمراہ ہوجاتی ہے تو اس کے بعد یہ اسکی تشہیر کرتے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ ہماری ناواقفی یا بے خبری کی یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ مولانا سنبھلی نے تفصیل سے حضرت عیسٰی اور مہدی علیہ السلام کے متعلق احادیث میں وارد تفصیلات کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ مہدویت و مسیحیت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے شکیل بن حنیف پر سچے مہدی کی کوئی علامت منطبق نہیں ہوتی۔ اس کے تمام دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور وہ محض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نہ وہ سچے مہدی کی طرح خاندان نبوت سے تعلق رکھتا ہے، نہ وہ مدینہ سے ہے، نہ اس کے ہاتھ پر عراق کے ابدال نے بیعت کی ہے، نہ اس نے قسطنطنیہ فتح کیا ہے، اور نہ ہی وہ شکل وصورت میں حدیث میں وارد علامتوں کا حامل ہے۔ بہر حال شکیل بن حنیف اور اس کے متبعین راہ راست سے منحرف ہیں اور اسلامی مسلمہ عقائد کے منکر ہیں جن کے اقرار کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ مفتی صاحب نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ مہدی اور مسیح سے متعلق جو احادیث صحیحہ متواترہ ہیں ان احادیث کو اپنے اوپر چسپاں کرنے والا شکیل بن حنیف اور اسکے حواری جو شکیل کو مہدی یا مسیح مانتے ہیں وہ سب دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ضرورت اس بات کی ہیکہ امت مسلمہ کو یکجا ہوکر ان فتنوں کا تعاقب کرنا چاہئے، لوگوں کو قادیانی اور شکیلوں کے مکر و فریب سے اور عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت سے واقف کروانا چاہئے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس سلسلے میں جلسے جلوس سے زیادہ زمینی سطح کی محنت درکار ہے، خاص طور پر عوام الناس کو زیادہ علمی بحث میں ڈالنے کی ضرورت نہیں بلکہ انکے سامنے صرف حضرت عیسٰی و مہدی علیہ السلام کا تعارف پیش کردیا جائے، ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت بیان کردیا جائے اور شکیل بن حنیف کی خباثت کو بیان کردیا جائے تو کافی ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیکہ انہوں نے یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“  منعقد کیا، ختم نبوتؐ کی حفاظت کیلئے کوششیں کرنا کوئی معمولی خدمت نہیں ہے، کیونکہ عقیدہ ختم نبوتؐ کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضہ اور آخرت میں شفاعت رسول ﷺ کا بہترین ذریعہ ہے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی پانچوں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پرفاتح شکیلیت حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب کی دعا سے کانفرنس کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #Mehdi #ImamMedhi #Isa #FitnaShakeeliyat #ShakeelBinHaneef #MTIH #TIMS

Wednesday, November 9, 2022

عقیدہ ختم نبوتؐ کا پیغام گھر گھر تک پہنچانے کی ضرورت ہے!

 عقیدہ ختم نبوتؐ کا پیغام گھر گھر تک پہنچانے کی ضرورت ہے! 



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانا محفوظ الرحمن فاروقی کا خطاب!


بنگلور، 09؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محفوظ الرحمن فاروقی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں تمام انبیاء و مُرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسول اللہؐ پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ لہٰذا آپؐ کے زمانے یا آپؐ کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے، یہ دین اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہوکر دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبیؐ ہونے پر غیر متزلزل ایمان اور انکے بعد کسی نبی، پیغمبر یا رسول کی آمد کا تصور بھی نہ کرنے کا عقیدہ ہی دراصل وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر ایمان کی عمارت کھڑی رہ سکتی ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہیکہ عقیدہ ختم نبوت ایمان کی بنیاد ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قرآن مجید میں سو مقامات پر بہت ہی واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے اپنی ختم نبوت کا واضح الفاظ میں اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ چودہ صدیوں سے امت محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اور اس کے پیروکار خارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ اسلام کی پوری تاریخ میں جب بھی کسی سر پھرے، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کو نبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اسکو اس کے انجام تک پہنچایا۔ مولانا فاروقی نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب کے فتنے نے سر اٹھایا، جو مدعی نبوت تھا، لہٰذا اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے صدیق اکبرؓ نے ایک لشکر حضرت خالد بن ولید ؓ کی قیادت میں بھیجا، بلآخر اس لشکر نے مسیلمہ کذاب کو شکست دے کر اسے ہلاک کردیا، لیکن کئی سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس جنگ میں جام شہادت نوش فرمائی۔ اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہیکہ اصحاب رسولؓ نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسلام کے اس بنیادی عقیدے کی حفاظت فرمائی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہیکہ مسلمان اس عقیدے کو مضبوطی سے تھامے اور دوسروں کو بھی اسکی تلقین کریں۔ مولانا فاروقی نے فرمایا کہ آج بھی ملک کے مختلف علاقوں میں باطل طاقتیں ختم نبوت پر حملہ آور ہیں، بالخصوص فتنۂ قادیانیت اور فتنۂ شکیلیت ان دنوں کافی سرگرم ہیں، اور بھولے بھالے مسلمانوں کو دھوکہ دیکر یا غریب و دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کو پیسوں کا لالچ دیکر اپنے جال میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ایسے حالات میں امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کی ذمہ داری بنتی ہیکہ وہ عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت سے امت مسلمہ کو واقف کروائیں اور اسکا پیغام گھر گھر تک پہنچائیں، نیز مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد کڑی نظر رکھیں اور ان فتنوں سے امت کو بچانے اور ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں، یہ ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حضرت مولانا محفوظ الرحمن فاروقی صاحب نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ختم نبوت کی حفاظت اور اسکی اہمیت و فضیلت سے امت مسلمہ کو واقف کروانے کیلئے یہ”عظیم الشان پندرہ روزہ تحفظ ختم نبوتؐ“ کانفرنس منعقد کیا۔ اللہ تعالیٰ اسکے اچھے اثرات مرتب فرمائے اور ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ہمیں قبول فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ حضرت والا نے مرکزتحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


 #Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

جون ایلیاء اور ہمارے لاعلم ساتھی

 جون ایلیاء اور ہمارے لاعلم ساتھی...!


✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


اس وقت ہمارے کچھ احباب سوشل میڈیا پر "جون ایلیاء" نامی ایک شاعر کیلئے تعریفوں کے پُل باندھ رہے ہیں، افسوس ہیکہ ان بیچاروں کو اس منحوس شخص کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں، بس بہتی گنگا میں انکو بڑھ چڑھ کر ہاتھ دھونا ہے، چاہے اس سے انکو یا معاشرے کو کچھ فائدہ ہو یا نقصان، بس سوشل کے وائرل موضوع میں حصہ لینا ہے، جو بہت افسوس کی بات ہے- یاد رکھیں کہ جون ایلیاء نامی شخص کے عقائد و نظریات اتنے خراب اور گمراہ کن ہیں کہ ایک عام مسلمان اگر اس سے متاثر ہوجائے تو اسکا ایمان خطرے میں پڑ جائے گا، اسکے اشعار میں وہ کفریہ جملے شامل ہیں جسے پڑھنے سے آدمی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا- جون ایلیاء نامی شخص ایک شرابی، زانی، جادوگر، گمراہ اور دہریہ انسان تھا، جس نے یہودیوں کے ٹکڑے کھا کر اسلام اور اسکے ماننے والوں کے خلاف نہ جانے کیسی کیسی سازشیں کیں- نیز اصحاب رسول اور خدائے وحدہ کے ذات کے بارے میں ایسی ایسی الٹی سیدھی بکواسات کئے ہیں، جسے سننا ایک عام مسلمان کیلئے بھی ناقابل برداشت ہے- پس ہمارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ کسی کی تعریف یا کسی کے تحریر شدہ مواد کی تشہیر کرنے سے قبل اس شخص کے بارے میں تحقیق کرلیں، کیونکہ کہیں آپ کے چند تعریفی و توصیفی کلمات کسی اور کی گمراہی کا سبب بن سکتی ہیں، جسکا خمیازہ آپکو بھی بھکتنا پڑے گا، اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے، آمین یارب العالمین!


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

8 اکتوبر 2022ء، بروز منگل

Tuesday, November 8, 2022

عقیدۂ ختم نبوتؐ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، جسکے منکر دائرہ اسلام سے خارج ہیں!

 عقیدۂ ختم نبوتؐ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، جسکے منکر دائرہ اسلام سے خارج ہیں! 



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ سے مولانامحمد ارشد علی قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 08؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد پندرہ روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوتؐ ٹرسٹ تلنگانہ و آندھراپردیش کے سکریٹری حضرت مولانا محمد ارشد علی صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ رسول اور نبی دونوں اہم مناصب ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ مخصوص بندوں کو منتخب کرتے ہیں، نبوت و رسالت ملنا کا تعلق عبادت، ریاضت اور نہ ہی کسی سفارش سے ہے، بلکہ نبی و رسول کا انتخاب من جانب باللہ ہوتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی اور رشد و ہدایت کے لئے انبیاء کرام ؑ کا سلسلہ شروع کیا جس کا آغاز حضرت آدم ؑ کی ذات سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گروہ انبیاء کرام کے آخری فرد ہیں اور سلسلہ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء و رسل کے آخر میں مبعوث فرمایا اور سلسلہ نبوت و رسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا گیا ہے۔ اب آپؐ کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئیگا۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبانِ مبارک سے متعدد بار اپنے آخری نبی ہونے کو بیان فرمایا ہے کہ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قرب قیامت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دین محمدی کی تبلیغ کریں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اسلام کی ساری خصوصیات اور امتیازات اسی پر موقوف ہیں۔ ختم نبوت ہی کے عقیدہ میں اسلام کا کمال اور دوام باقی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام اور اہل سنت و الجماعت کے ان بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے، جس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اسلام کے اصول اور ضروریاتِ دین میں سے ہے اور اسکے منکر دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ اگر کوئی کسی نئے نبی کے لیے نبوت ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر ہو جائے گا اور اسے کافر و مرتد کہا جائے گا اور اس کو مرتد و کافر نہ ماننے والا بھی کافرو مرتد ہو جائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت ہر زمانہ میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا جس کسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا جس کسی نے بھی دعویٰ کو قبول کیا ہے اسے متفقہ طور پر اسلام سے خارج سمجھا گیا ہے اور اسلامی حکومت میں مدعی نبوت واجب القتل ہے۔ اس پر تاریخ کے بہت سے واقعات مثلاً مسلمہ کذاب، اسود عنسی وغیرہ کے واقعات شاہد ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں نبوت و رسالت کی کسی قسم کی تقسیم نہیں ہے مثلاً ظلی نبی، بروزی نبی، تشریعی نبی یا غیر تشریعی نبی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور جو لوگ یہ قسمیں بیان کرتے ہیں وہ بھی گمراہ ہیں۔ مولانا ارشد علی قاسمی نے فرمایا کہ آج بعض لوگ عقیدہ ختم نبوت پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ایک وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو ”احمدیہ مسلم جماعت“ کہتے ہیں اور ”قادیانی“ کے نام سے مشہور ہیں، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ قادیانی انتہائی دجل اور فریب سے کام لیتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانتے ہیں، جسے بھولے بھالے مسلمان سن کر گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ اصل بات یہ ہیکہ قادیانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تو مانتے ہیں لیکن آخری نبی نہیں مانتے۔ لہٰذا مزرا قادیانی اور اسکے ماننے والے سب دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا محمد ارشد علی قاسمی نے ”فتنہ گوہر شاہی“ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے کے لیے مہدی، نبی یا خدا ہونے کے جھوٹے دعوے کیے انہیں میں سے ایک نام ”ریاض احمد گوہر شاہی“ کا بھی ہے۔ جس نے پہلے مہدیت پھر مسیحیت، اسکے بعد نبوت اور بالآخر خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ نیز ایسے ہزاروں اسکے گمراہ کن عقائد ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی، قرآن میں تحریف، کلمہ طیبہ میں تبدیلی اور حضرت آدم و حضرت موسیٰ و دیگر انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی گستاخی وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ گوہر شاہی نے تصوف وسلوک کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس نے اپنی ناپاک زہریلی تعلیمات کے ذریعے اپنے آپ کو نبوت اور الوہیت کے درمیان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اب اس فتنہ گوہر شاہی کا پیشوا اور سربراہ یونس گوہر شاہی بن گیا ہے اور اسلام مسلمان دشمنوں کی طاقت سے ہر آئے دن سوشل میڈیا کے ذرائع ابلاغ کی مدد سے امت کو گمراہ کررہا ہے۔ جبکہ گوہر شاہی اور اُس کے متبعین اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ تاج ختم نبوت کے جس اعزاز کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاء کیا اسکی حفاظت کریں، امت میں شعور بیدار کرنے کیلئے کانفرنس اور جلسے جُلوس منعقد کریں اور لوگوں کو ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت سے واقف کروائیں۔ اور امت مسلمہ کے ہر ایک فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال اور اطراف و اکناف کے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر مجلس تحفظ ختم نبوتؐ ٹرسٹ تلنگانہ و آندھراپردیش کے سکریٹری حضرت مولانا محمد ارشد علی صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS

Saturday, November 5, 2022

 عقیدۂ ختم نبوتؐ کی حفاظت میں شعرائے اسلام کی خدمات ناقابل فراموش ہیں!


مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”عظیم الشان آن لائن نعتیہ معاشرہ بر شان عقیدۂ ختم نبوتؐ“، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!


بنگلور، 05؍ نومبر (پریس ریلیز): حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ یہی عقیدہ ختم نبوتؐ ہے، جسکو تسلیم کرنا عین اسلام و ایمان ہے اور جو اسکا انکار کے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ دورِ صحابہ سے لے کر اب تک جتنے بھی افراد نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ان کے فاسد اور کفریہ عقائد و نظریات کی ہر دور میں تردید کی جاتی رہی ہے۔ ان کذابوں کی دروغ گوئی کا ہر زمانے میں پردہ چاک کرنے میں علمائے کرام کے ساتھ ساتھ شعرائے اسلام نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ مذکورہ خیالات اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ شعرائے اسلام نے مختلف انداز میں اپنی قوتِ متخیلہ کو بروے کار لاتے ہوئے اپنی نعتوں اور دیگر اصناف کے وسیلے سے عقیدہ ختم نبوتؐ کو اشعار کے پیکر میں ڈھالنے کی خوب صورت کوششیں کی ہیں۔ خاص طور پر اردو شعر و شاعری پر جب ہم طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو بیشتر شعراء کے یہاں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کی تلقین کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کا رنگارنگ انداز جلوہ گر نظر آتا ہے۔ جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے جھوٹے مدعیان نبوت کے عقائد باطلہ کا رد اور ختم نبوتؐ کی شان بیان کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند”عظیم الشان آن لائن پندرہ روزہ تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کے کامیاب انعقاد کے بعد اب بتاریخ 06؍ نومبر 2022ء بروز اتوار ٹھیک رات 8:30 بجے سے ایک ”عظیم الشان آن لائن نعتیہ معاشرہ بر شان عقیدہ ختم نبوتؐ“ منعقد کرنے جارہی ہے۔ جسکی صدارت خادم القرآن حضرت مولانا مفتی افتخار احمدصاحب قاسمی مدظلہ (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) فرمائیں گے اور نظامت کے فرائض مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قاسمی انجام دینگے۔ یہ پروگرام مرکز کے شعبہ قرأت و نعت کمیٹی کی جانب سے منعقد کی جارہی ہے، جس کے کنوینر قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، معاون کنوینرز حافظ محمد حیات خان اور حافظ محمد شعیب اللہ خان ہیں۔ اس پروگرام میں ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام مثلاً قاری عبدالباطن فیضی (یوپی)، قاری اسعد بستوی (ممبئی)، قاری تابش ریحان (مؤناتھ بھنجن)، قاری ضیاء الرحمن فاروقی (ڈائریکٹر تحفظ دین میڈیا سروس، اورنگ آباد)، قاری محمد فیصل میرٹھی (یوپی)، قاری وجہ الدین جلا کبیر نگری (یوپی)، مولانا عمر عبداللہ قاسمی بارہ بنکوی (یوپی)، مولاناقاری نصرت الباری مظاہری (پورنیہ، بہار) وغیرہ شرکت فرمائیں گے اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔ پروگرام کا آغاز قاری ثاقب معروف قاسمی (استاذ تجوید و قرأت مدرسہ کنزالعلوم ٹڈولی ضلع سہارنپور) کی تلاوت قرآن سے ہوگا۔ یہ پروگرام مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے برادران اسلام سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔


#Press_Release #News #Naatiya #Mushaira #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS #Letter_Head





Friday, November 4, 2022

عقیدہ ختم نبوتؐ کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

 عقیدہ ختم نبوتؐ کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!



حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کی زیر سرپرستی اور حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی کی زیر صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوت کانفرنس“ کی اختتامی نشست کا انعقاد!


مولانا عبد العلیم فاروقی، مولانا شاہ جمال الرحمن مفتاحی، مولانا حکیم الدین قاسمی، مفتی افتخار احمد قاسمی، مولانا عمرین محفوظ رحمانی کے خصوصی خطبات!


بنگلور، 04؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی اختتامی نشست ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدر حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ کی زیر صدارت اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہ کی زیر سرپرستی منعقد ہوئی۔ جس میں ملک کے ممتاز علماء کرام نے شرکت فرمائی۔


اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ نے فرمایا کہ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ہے۔ جس طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا فرض ہے اسی طرح آپؐ کے خاتم النبیین ہونے پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ یعنی حضورؐ کو صرف رسول مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہیکہ آپؐ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپؐ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ رسول اللہؐ نے اس امر کی پیشنگوئی فرمائی تھی کہ میری امت میں تیس کذاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ لہٰذا حضورؐ کی تمام پیشنگوئی کی طرح یہ پیشنگوئی کا بھی پورا ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ حضورؐ کے آخری دور میں ہی جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ شروع ہوا اور وہ اپنے اپنے انجام کو پہنچے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں جھوٹے مدعیان نبوت کا وجود ہوتا رہا بالخصوص قادیانیت اور شکیلیت کا فتنہ ان دونوں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حضرت مہتمم صاحب نے فرمایا کہ ہمارا یہ فرض بنتا ہیکہ ہم برداران اسلام کو سمجھائیں کیونکہ یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے بلکہ صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک تمام امت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ نبی اکرم  ؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا جھوٹا اور کذاب ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ خاص طور پر ہمارے وہ نوجوان جو عصری تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جنکو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ نہیں کیا گیا، جنکو ایمانیات کی تفصیلات نہیں بتلائی گئی۔ انکو یہ باطل فرقے کے مبلغین اپنے دامن تزویر کے اندر بڑی آسانی سے گرفتار کرلیتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہیکہ ختم نبوتؐ کی حقیقت، اہمیت اور فضیلت سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے کیونکہ اس میں ذرہ برابر بھی شک پیدا ہونے سے آدمی ایمان کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے اور کوئی کسی کو خدانخواستہ نبی مان لے تو اسکا ایمان حقیقتاً رخصت ہوجاتا ہے۔ حضرت مہتمم صاحب نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے فتنوں کے اس دور میں ختم نبوت کی حفاظت کیلئے یہ اہم پروگرام منعقد کیا، اللہ انکی کوششیں کو شرف قبولیت بخشے۔


تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ختم نبوت کا مسئلہ کبھی شک و تردد کا مسئلہ نہیں رہا، تاریخ انسانی میں کئی لوگوں نے جھوٹی عزت اور شہرت حاصل کرنے کیلئے نبوت کا دعویٰ کیا اور عوام کو دھوکہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن جھوٹی اور غیر منطقی بات زیادہ نہیں چلتی ہے۔ چنانچہ قرن اول میں اسود العنسی، مسلمہ کذاب سامنے آئے اور اپنے انجام کو پہنچے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت محمد رسولؐ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور آپ نے از خود ارشاد فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ حضور ؐنے قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی بتلائی ہیکہ قرب قیامت جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے ظاہر ہونگے، انکا کام یہ ہوگا کہ امت میں فتنہ برپا کریں گے اور امت کو آپ ؐسے کاٹنے کی کوشش کریں گے۔ آپؐ کے زمانے سے لیکر آج تک بہت سے مدعی نبوت نکلے اور اپنے انجام کو پہنچے۔ مولانا نے فرمایا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے سامنے آتے رہیں گے اور ان میں آخری کڑی دجال کی ہوگی، گویا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے دجالی سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور دجال کے آنے تک کڑیوں میں کڑیاں جڑتی رہیں گی۔ اس لئے علماء کی ذمہ داری ہیکہ اس طرح کے معاملات پر پوری نظر رکھیں اور عوام کو گمراہی سے بچانے کیلئے جو بھی کوشش وہ کرسکتے ہیں خواہ لٹریچر کے ذریعہ، جلسوں کے ذریعہ، ملاقاتوں کے ذریعہ کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ انہیں کوشش میں سے ایک کوشش مرکز تحفظ اسلام ہند کا یہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس ہے۔ امید ہیکہ اللہ تعالیٰ اس پر بھر پور اجر عطا فرمائے گا۔ قابل ذکر ہیکہ خرابیئ صحت کے باعث حضرت چونکہ کانفرنس میں تشریف نہ لاسکے، لہٰذا ان کا یہ گراں قدر پیغام کانفرنس میں ان کے محترم نمائندے مولانا امین حسنی ندوی مدظلہ نے پڑھ کر سنایا۔


تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت تلنگانہ و آندھراپردیش کے صدر امیر شریعت حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن مفتاحی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ عقیدہ ایسی بنیاد ہے جس پر تمام امتوں کا ڈھانچہ قائم ہے، ہر قوم کی صلاح و فلاح، اس کی کامیابی و کامرانی اور اس کی تمام طرح کی ترقی اس کے عقائد کی درستگی اور اس کے افکار و نظریات کی سلامتی پر منحصر ہے۔ کیونکہ اگر عقیدہ خراب ہوگیا تو سارے اعمال خراب ہوجائیں گے۔اسی لیے باطل طاقتوں امت کے عقیدوں بالخصوص عقیدہ ختم نبوت پر حملہ کرتی ہیں۔ کیونکہ اسلامی عقائد و ارکان کی سلامتی کا سب سے بڑا سبب عقیدہ ختم نبوت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عقیدہ ختم نبوت دین کی بنیاد ہے اور بنیاد کے بغیر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی، اس لیے باطل طاقتیں عقیدہ ختم نبوت کے خلاف سازشیں کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کا دربار رسالت ماٰب ﷺ سے رشتہ کمزور کر دیا جا ئے اور اسلام کی عظیم الشان عمارت کو منہدم کر دیا جائے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں کیونکہ یہ تحفظ ختم نبوت آج کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔


تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور دارالعلوم دیوبند و ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن شوریٰ جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب مدظلہ گرچہ طبیعت کی ناسازگی کی بناء پر شریک نہیں ہوپائے، البتہ حضرت نے اپنے مختصر پیغام کے ذریعے سے فرمایا کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کے ان بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے جس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اسلام کے اصول اور ضروریاتِ دین میں سے ہے، اگر یہ عقیدہ مجروح ہو جائے تو بندے کے دامنِ ایمان میں کچھ باقی نہیں بچتا۔ لہٰذا ختم نبوت کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے بلکہ ہمارے فرائض میں سے ہے۔


تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ہمارے اکابر دیوبند نے تحفظ ختم نبوت کے تعلق سے بڑی کوششیں کی ہیں، کیونکہ ختم نبوت کی حفاظت ہم سب مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ بالخصوص دیہات وغیرہ میں جہاں باطل طاقتیں مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے کی کوششیں کررہے ہیں وہاں پر ختم نبوت کی حفاظت کیلئے ہمیں ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ ان حالات میں دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت ملک کے گوشے گوشے میں تربیتی پروگرام منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 


تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ختم نبوت رسول اللہ ﷺ کا اعزاز بھی ہے اور امتیاز بھی۔ نبی کی پیشنگوئی کے مطابق دنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاً فوقتاً جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ پنپتا رہا ہے، لیکن پہلے زمانے میں گمراہی پھیلانے کے اسباب: تبلیغ اور تحریر ہوتی تھیں، جس سے گمراہی بہت تاخیر سے پھیلتی تھی۔ لیکن اس ترقی یافتہ زمانے میں آن لائن انٹرنیٹ کے ذریعے گمراہی پھیلائی جارہی ہے، جس سے لوگ بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ سوشل میڈیا پر قادیانی، شکیلی، گوہر شاہی اور دیگر گمراہ فرقوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنے گمراہ کن عقائد کی تشہیر اور فروغ کیلئے جال بچھا رکھا ہے، جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل کی بڑی تعداد مرتد ہورہی ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنے اطراف و اکناف کے اپنے لوگوں بالخصوص اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کی فکر کریں، یہ ہم سب کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے۔


تحفظ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت امت چاروں طرف سے فتنوں میں گھیری ہوئی ہے۔ کہیں قادیانی تو کہیں شکیلی امت مسلمہ کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ ایسے میں ہم لوگوں کی ذمہ داری ہیکہ ہم ختم نبوت کی حفاظت، اس کی نشر و اشاعت کیلئے ہر ممکن کوشش کریں، یہ ملت اسلامیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔خاص طور پر جب جھوٹے مدعیان نبوت کے مبلغ امت کو گمراہ کرنے میں دن رات محنت کرسکتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر امت کے ایمان کی حفاظت کیلئے تیار ہوں۔


قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“ کی اختتامی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ تجوید و قرأت کے استاذ حضرت مولانا قاری شفیق الرحمان صاحب بلندشہری مدظلہ کی تلاوت اور مرکز کے رکن شوریٰ حافظ محمد عمران کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اس موقع پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان بطور خاص شریک تھے اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے مرکز کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قاسمی نے تحفظ ختم نبوت کی مناسبت سے اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اکابرین اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا اور مرکز کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی دعا سے یہ عظیم الشان پندرہ روزہ ”تحفظ ختم نبوتؐ کانفرنس“  اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #khatmenabuwat #ProphetMuhammad #FinalityOfProphethood #LastMessenger #MTIH #TIMS