Sunday, 27 June 2021

عزت و ذلت کا مالک اللہ ہے!



 { پیام فرقان - 06 }


🎯عزت و ذلت کا مالک اللہ ہے!


✍️بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


یہ دنیا ایک دھوکے کا گھر ہے، جہاں قدم قدم پر حاسدین اور منافقین کا بسیرا ہے۔ یہ دنیا اتنی خود غرض ہیکہ اس دنیا میں کسی کی کامیابی کسی سے برداشت نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور ہر شئے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کوئی ذرہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی جگہ سے نہ ہل سکتا ہے اور نہ کوئی پتّہ گر سکتا ہے۔ جس طرح اس کائنات کا کوئی معمولی سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا اسی طرح انسان کی عزت و ذلت بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ” قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۤءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۤءُۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۤءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۤءُ ۗ بِيَدِكَ الْخَيْرُۗ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ “ کہ ”آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے“ (سورہ آل عمران : 26)۔ معلوم ہوا کہ عزت اور ذلت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی انسان کسی کو ‏نہ عزت دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ذلیل کر سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو عزت دینا چاہے تو پھر ساری دنیا مل کر بھی اسے ذلیل نہیں کر سکتی۔ جو کوئی بھی عزت چاہتا ہے اسے پتہ ہونا چاہئے کہ عزت صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ اچھے اعمال انسان کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں اور برے اعمال انسان کی ذلت و پستی کا باعث ہوتے ہیں۔ اور یہ بات عیاں ہیکہ جو لوگ دوسروں کے لئے گڑھا کھودتے ہیں وہ خود اسی میں گرتے ہیں، ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں۔ کوئی کتنا بھی زور لگائے جسے اللہ عروج پر پہنچنا چاہے تو پھر کسی میں بھی اتنی قدرت نہیں کہ اسے روک سکے۔ کیونکہ عزت و ذلت دینے والی صرف وہی ایک ذات ”اللہ“ ہے۔؂

خدا کے ہاتھ میں ہے میری عزت و ذلت

امیر شہر سے ڈرنا مجھے نہیں آتا


فقط و السلام

بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

27؍ جون 2021ء بروز اتوار 

+918495087865

mdfurqan7865@gmail.com


#PayameFurqan #پیام_فرقان

#ShortArticle #MTIH #TIMS

Saturday, 26 June 2021

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام کل ہند نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!



 مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام کل ہند نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد، ملک کے مشہور شعراء نے کی شرکت!

اتباع رسولؐ ہی حب رسولؐ کا اصل تقاضا ہے: مولانا 

محمد عمرین محفوظ رحمانی کا صدارتی خطاب 


 بنگلور، 26؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں عظیم الشان آن لائن کل ہند نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ جسکی صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) نے فرمائی۔ جبکہ نظامت کے فرائض مدرسہ تعلیم القرآن شاخ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے صدر المدرسین مولانا غفران احمد ندوی نے انجام دئے۔ نعتیہ مشاعرہ میں ملک کے مشہور و معروف شعراء اسلام نے شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ حضورؐ سے محبت اور الفت رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ اور محبت کا معیار اور تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اپنی جان و مال، اولاد و والدین، عزیز و اقارب حتیٰ کہ ہر عزیز چیز سے زیادہ ہونی چاہیے اور یہی دین و ایمان کی اساس اور بنیاد ہے اور اگر اس میں کمی ہوگی تو دین و ایمان میں کمی اور خامی باقی رہ جائیگی۔ خود نبی کریمؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے، اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہو جاؤں۔ مولانا نے فرمایا کہ ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم حضورؐ سے سچی محبت کریں اور انکی اتباع کریں کیونکہ اصل محبت تو اتباع میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا ہی آپؐ سے محبت کا اصل تقاضا ہے اور اصل محبت تو یہی ہے کہ ہم آپؐ کی پیروی کریں، آپؐ کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیں اور آپؐ کی حیات طیبہ کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب دل میں سچی محبت ہو اور ہم سچی محبت کے دعوے دار ہوں۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ نعت خوانی کی مجالس بڑے مبارک ہوتے ہیں اور حضورؐ کی شان اقدس میں نعت لکھنا، پڑھنا اور سننا بڑی سعادت کی بات ہے۔ ہر دور میں شعراء اسلام نے نعتوں کی روایات کو فروغ دیا ہے کیونکہ عشقِ رسولؐ کے حصول کیلئے نعت خوانی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس موقع پر عالمی شہرت یافتہ شعراء عظام قاری اسعد بستوی (ممبئی)، قاری تابش ریحان (مؤناتھ بھنجن)، قاری ضیاء الرحمن فاروقی (ڈائریکٹر تحفظ دین میڈیا سروس)، قاری محمد عمران مصباحی (رکن مرکز تحفظ اسلام ہند)، قاری محمد اسامہ قاسمی (فیض آباد، یوپی) وغیرہ نے منفرد انداز اور مسحور کن لہجے میں قیمتی اور ایمان افروز اشعار و نعتیہ کلام پیش کرتے ہوئے سامعین کے دلوں کو مزین کردیا۔ اس عظیم الشان کل ہند نعتیہ مشاعرہ کا آغاز مرکز تحفظ اسلام ہند کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی نے تمام شعراء کا استقبال کرتے ہوئے مرکز کی خدمات پر مختصراً روشنی ڈالی۔ پروگرام کے اختتام پر مرکز کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام ہی شعراء، مہمانان خصوصی اور آنے والے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر صدر مشاعرہ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی اور تمام شعراء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی دعا سے یہ کل ہند نعتیہ مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔

Thursday, 17 June 2021

عشقِ رسولﷺ کے حصول کیلئے نعت خوانی بہترین ذریعہ ہے!





 عشقِ رسولﷺ کے حصول کیلئے نعت خوانی بہترین ذریعہ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام عظیم الشان کل ہند نعتیہ مشاعرہ، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!


بنگلور، 16؍ جون (پریس ریلیز): حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑے اہتمام کے ساتھ مدح سرائی فرمائی ہے اور سارا قرآن پاک حضور اکرمؐ کی مدحت و توصیف بیان کرتا ہے۔ جس طرح دین اسلام کے محاسن بیان کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح اس دین کو لانے والے کی خوبیاں بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی کریمؐ نے خود کئی مرتبہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نعت سماعت فرمائی ہے۔ انہوں کے کہا کہ دورِ صحابہ سے لے کر آج کے دور کے علماء و مشائخ تک حضور پاکؐ کی نعتوں کی روایت کو فروغ دیا کیونکہ اسلام کی ترویج و اشاعت کے ساتھ عشقِ رسولؐ ایمان کی تکمیل کے لئے ناگزیر ہے اور عشقِ رسولؐ کے حصول کے لئے نعت خوانی بہترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند بتاریخ 17؍ جون 2021ء بروز جمعرات ٹھیک رات 9:00 بجے سے ایک ”عظیم الشان آن لائن کل ہند نعتیہ معاشرہ“ منعقد کرنے جارہی ہے۔ جسکی صدارت شاعر اسلام حضرت مولانا قاری احسان محسن قاسمی صاحب (مہتمم جامعہ قاسم العلوم کٹیہسرہ، مظفرنگر یوپی) فرمائیں گے اور نظامت کے فرائض حضرت مولانا غفران ندوی صاحب (صدر المدرسین مدرسہ تعلیم القرآن شاخ ندوۃ العلماء لکھنؤ) انجام دینگے۔جبکہ ملک کے مشہور و معروف شعراء کرام مثلاً قاری عبدالباطن فیضی (فیض آباد، یوپی)، قاری اسعدصاحب بستوی (ممبئی)، مفتی طارق جمیل قاسمی قنوجی (یوپی)، قاری تابش ریحان (مؤناتھ بھنجن)، قاری ضیاء الرحمن فاروقی (ڈائریکٹر تحفظ دین میڈیا سروس، اورنگ آباد)، قاری اشفاق بہرئچی (یوپی)، قاری محمد عمران مصباحی (رکن مرکز تحفظ اسلام ہند) وغیرہ اس عظیم الشان آن لائن کل ہند نعتیہ مشاعرہ میں شرکت فرمائیں گے اور نعتیہ کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔ یہ پروگرام مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے برادران اسلام سے کثیر تعداد میں شرکت کی اپیل کی ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی بطور خاص شریک تھے۔

Friday, 11 June 2021

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!



 بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!


از قلم:  بندہ محمد فرقان عفی عنہ 

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 گذشتہ دنوں ماہ رمضان المبارک میں غزہ اور فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے بعد قبلۂ اول بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آگئے۔ بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہل فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ انکے خون سے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے ہر چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب ہی جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اس کے بارے میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بزبان حال یہی کہ سکتے ہیں:

تم شہرِ اماں کے رہنے والے! درد ہمارا کیا جانو!

ساحل کی ہوا تم موج صبا طوفان کا دھارا کیا جانو!


 اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ فلسطین کا غم امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔ اور یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہیکہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

اقصٰی کی زمین کو ہم سب مل کے چھڑائیں گے

تاریخ فلسطین ہم گھر گھر میں بتائیں گے


 قارئین! ”القدس“ فلسطین کا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصٰی اور گنبد الصخرہ واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ شہر 31؍ درجے 45؍ دقیقے عرض بلد شمالی اور 35؍درجے 13؍ دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے۔ القدس کو یورپی زبانوں میں ”یروشلم“ کہتے ہیں۔ القدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام ”کوہِ صیہون“ ہے جس پر ”مسجد اقصٰی“ اور ”گنبد الصخرہ“ واقع ہیں۔ مسجد اقصی کے اطراف 1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر 09؍ دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔


 مسجد اقصٰی کی بنیاد مکہ مکرمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے ڈالی۔ پھر اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علیہ السلام نے کی۔ عرصۂ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس مقام پر رکھی جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی۔ چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اقصٰی کو تعمیر کیا۔


 بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، ہجرت کے بعد 16؍ سے 17؍ ماہ تک نبی کریمﷺ بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی ہے۔ مقامی مسلمان اسے ”المسجد الاقصیٰ“ یا ”حرم قدسی شریف“ کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے“ (سورہ الاسراء)۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں۔ مسجد اقصٰی روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔ جہاں ایک نماز کا ثواب ڈھائے سو اور بعض روایتوں کے مطابق 25؍ ہزار ملتا ہے۔


بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جب نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور تھا۔ لیکن اسی وقت نبی کریمﷺ نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت 16ھ مطابق سن 236ء میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ سن 66ھ اور 86ھ کے درمیان خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور سن 86ھ اور 96ھ کے درمیان انکے صاحبزادے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ 


 بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا۔ اور ادھر فاطمی حکومت نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجوقیوں کے خاتمے کیلئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئی طرح کی سہولتیں فراہم کردیں اور بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی خلفاء کے ساتھ غداری اور دھوکہ کیا۔ اور القدس پر قبضہ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرلیا اور پھر 70؍ ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے بالآخر 492ھ مطابق سن 1099ء کو صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ اور یروشلم پر اپنی مسیحی حکومت قائم کردی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ 


 پھر اسکے بعد سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16؍ جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر 538ھ مطابق سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ اور مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی۔ پھر پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ 14؍ مئی 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور جب 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی، فلسطین کے 78؍ فیصد رقبے پر قابض ہوگئے۔ تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ پھر تیسری عرب اسرائیل جنگ جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ اور اس طرح سن 1967ء سے بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔


اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآبؐ میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کیخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ بیسویں صدی کیحادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے۔ یہود ونصاریٰ نے یہ مسئلہ پیدا کرکے گویا اسلام کے دل میں خنجر گھونپ رکھا ہے۔ سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہوئے غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بیدخل کرکے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21؍ اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہئ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کے ملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ غزہ تو مکمل ایک زندان بن چکی ہے۔ اور اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن یہ یہود اور اسکے حواریں یاد رکھیں کہ ”شام“ جو زمانہ قدیم میں لبنان، فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا، جہاں آج یہ یہود قابض ہیں، احادیث کے مطابق قرب قیامت میں وہاں اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایمان اور اہل ایمان فتنوں کے اس دور میں زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ فتنوں کے اس زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا۔ اور آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز ومحور ارض مقدسہ ہوگی۔ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا، تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔ دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا۔ دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا۔ مگر دجال مکہ، مدینہ، بیت المقدس اور کوہ طور میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے مشرق میں سفید مینار کے پاس ہوگا۔ اور وہ دجال کو ”باب لد“ کے پاس قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اور اسی طرح فتنہ یا جوج و ماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب ”جبل الخمر“ کے پاس ہوگی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت کے قریب حضرت امام مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ایک مومن جماعت کے ہاتھوں بزور شمشیر مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس فتح ہوگا۔ بیت المقدس اور فلسطین کے موجودہ حالات سے یہ بات واضح ہیکہ وہ وقت اب قریب ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قبلہ اول کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی نسلوں کو اسکی تاریخ سے واقف کرواتے ہوئے اسکی بازیابی کیلئے تیار کریں!

اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے

مومن ہے تو پھر مسجد اقصٰی کی خبر لے



فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

٢٩؍ شوال المکرم ١٤٤٢ھ

مطابق11؍ جون 2021ء بروز جمعہ


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

_____________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #Alquds #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #Palestine #Gaza

Wednesday, 9 June 2021

”بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے مسلمان ہر طرح کی قربانی دینے تیار رہیں“




 ”بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے مسلمان ہر طرح کی قربانی دینے تیار رہیں“


مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ القدس کانفرنس سے ملک کے نوجوان قائدین کا ولولہ انگیز خطاب!


مولانا عمرین محفوظ رحمانی کی صدارت،برداران اسلام سے اسرائیلی مصنوعات بائیکاٹ کرنے کی اپیل!


بنگلور، 09؍ جون (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند نے گزشتہ دنوں ”مسجد اقصٰی سازشوں کے گھیرے میں“کے عنوان پر ایک عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس مرکزتحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی صدارت میں منعقد کیا۔ جس میں ملک کے مختلف اداروں، تنظیموں اور تحریکوں کے نوجوان قائدین و ذمہ داران نے شرکت کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی سے ہمارا ایمانی اور روحانی تعلق ہے۔ مسجد اقصٰی ہمارا قبلہ اول ہے۔ معراج کے سفر کا اولین منزل مسجد اقصٰی ہے اور وہیں امام الانبیاءؐ نے تمام الانبیاء کی امامت فرمائی۔ قرآن و حدیث میں اس سرزمین کی بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ بیت المقدس اور ارض فلسطین کی حفاظت اور آزادی کیلئے مسلمانوں کو ہر طرح کی قربانی دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اسلام کی تاریخ قربانیوں کی تاریخ ہے اور اسلام میں بزدلی و احساس کمتری کی کوئی جگہ نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین نے ہر دور میں اغیار کو شکست فاش دیکر امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا ہیکہ جو اللہ کی راہ میں چلتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسکی مدد و نصرت فرماتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم بیت المقدس اور اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں، انکی مالی تعاون کریں، اسرائیل کا ظالمانہ چہرہ اور نام نہاد اسلامی ممالک کا منافقانہ چہرہ کا پردہ فاش کرتے ہوئے پوری دنیا کو بیت المقدس اور فلسطین کی تاریخ اور حقائق سے واقف کروائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ پوری ملت اسلامیہ کو اس پر فکر مند ہونا چاہیے اور اس مسئلے کو پورے عالم اسلام کا مسئلہ بنانا چاہئے۔انہوں نے فرمایا کہ عالمی اداروں اور حقوق انسانی تنظیموں کی خاموشی پر ہمیں اپنا احتجاج درج کروانا چاہئے۔اسی کے ساتھ ہمیں چاہیے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور اسکی فہرست کو مختلف زبانوں میں تیار کرکے پوری دنیا میں عام کریں۔ مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ ہم ہر وقت اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، انکے غم و افسوس اور جدوجہد میں برابر کے شریک ہیں اور انکی ہمت و جرأت اور عزیمت کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ 


اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث اور بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا شمشاد رحمانی صاحب نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی اور فلسطین کا مسئلہ جہاں شرعی اور مذہبی مسئلہ ہے وہیں پوری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی افواج کی جانب سے ظلم و بربریت کا جو ننگا ناچ کھیلا جارہے وہ انسانیت کا قتل عام ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہیکہ مسلم حکمرانوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، انکے اندر اسلامی اہمیت و غریت مر چکی ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جانا بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں عوامی بیداری کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیں چاہیے کہ اس ظلم و بربریت کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی حقوق انسانی کونسل پر دباؤ بنائیں، اس کیلئے ملک کے بڑے اداروں اور تنظیموں کو آگے آکر اس مشن کو آگے بڑھانا چاہئے۔ 


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالمبلغین لکھنؤ کے استاذ حضرت مولانا عبد الباری فاروقی صاحب نے فرمایا کہ اہل فلسطین اس وقت دنیا کے سب سے مظلوم ترین مسلمان ہیں۔بیت المقدس فقط اہل فلسطین نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں لیکن افسوس کا مقام ہیکہ کچھ نام نہاد مسلم حکمران انکا ساتھ دے رہے ہیں۔ مولانا فاروقی نے فرمایا کہ اہل فلسطین تن تنہا ان ظالموں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور بیت المقدس کی حفاظت کررہے ہیں۔انہوں نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی کی حفاظت پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اہل فلسطین کا ہر ممکن تعاون کریں۔


اس موقع پر صفا بیت المال انڈیا کے صدر حضرت مولانا غیاث احمد رشادی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی نسلوں کو مسجد اقصٰی اور فلسطین کی تاریخ سے واقف کروائیں اور ممکن ہو تو اسکا سفر بھی کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل کا بیت المقدس اور فلسطین پر ناجائز قبضہ، مقدس مقامات کی بیحرمتی اور وہاں کے باشندوں پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرنے میں عالمی طاقتیں برابر کی شریک ہیں۔ لیکن وہ لوگ یاد رکھیں کہ ظلم و ستم زیادہ دنوں تک نہیں چلتا، کیونکہ ہر عروج کو زوال ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ان شا اللہ اہل فلسطین کی قربانی رائگاں نہیں جائے گی، حالات بدلیں گے اور فلسطین اور بیت المقدس عنقریب آزاد ہوگا۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ ہمیں اس موقع پر اسرائیل مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہئے، اس سے انکی معیشت کمزور ہوگی۔


 کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد کے نائب ناظم حضرت مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی صاحب نے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ فلسطین کے مسئلہ کو ایک انسانی مسئلے کی حیثیت سے پیش کیا جائے اور پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو اس تحریک کا حصہ بنایا جائے اور ہماری نسل نو کو اسکی تاریخ سے واقف کروایا جائے۔ اسی کے ساتھ ہر سال بڑے پیمانے پر ملک میں یوم القدس منایا جائے تاکہ اس کے ذریعے امت میں بیداری پیدا ہو۔اور وقتاً فوقتاً بیت المقدس کے متعلق اجلاس و جمعہ کے خطبات کے ذریعہ امت کو آگاہ و بیدار کرنا چاہیے۔مولانا نے فرمایا کہ ملک کی تمام ملی و سماجی تنظیمیں کو چاہیے کہ وہ ایک سرکولر جاری کریں کہ تمام مسلم ادارے اپنے نصاب میں القدس کا موضوع شامل کریں۔ اسی کے ساتھ سوشل میڈیا کے طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بے نقاب کیا جائے۔ مولانا عمر عابدین نے فرمایا کہ عرب ممالک جنہوں نے اسرائیل کی حمایت کی یا اس مسئلے پر خاموش رہے انکی مذمت کی جائے۔نیز معاشی اعتبار سے اہل فلسطین کی مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ 


قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد ریاض الدین مظاہری صاحب بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ یہ عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور جمعیۃ علماء رائچور کے صدر مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور مرکز کی خدمات پر مختصر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی بھی شریک رہے۔ تمام حضرات علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور اس کانفرنس میں وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔