Sunday, 6 October 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی و مولانا ابو طالب رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!

 وقف ترمیمی بل ناقابل قبول ہے، اوقاف کے تحفظ کیلئے مسلمان بیدار ہوجائیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی و مولانا ابو طالب رحمانی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 04؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی حضرت مولانا محمود احمد خان صاحب دریابادی مدظلہ نے فرمایا کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے خلاف روز بروز نئے قوانین بنا رہی ہے اور طرح طرح سے مسلمانوں کو پریشان کر رہی ہے۔ اب حکومت نے مسلمانوں کی جائیدادوں کو جو ہمارے آباء و اجداد اور بزرگوں نے مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف کیا تھا۔ ان پر قبضہ کرنے کے لیے وقف ترمیمی بل 2024ء لایا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف املاک کو ختم کرنے کا عمل برطانوی راج میں شروع ہوا تھا۔ نہ صرف وقف املاک کو ذاتی اثاثوں کے طور پر فروخت اور منتقل کیا گیا بلکہ انگریزوں نے ایسی پالیسیاں بھی نافذ کیں جن کی وجہ سے ان کی تباہی اور قبضہ ہوا۔ اس کے بعد اس وقت ہمارے بڑوں نے وقف املاک کی حفاظت کیلئے کوششیں کیں - پھر آزادی کے بعد 1995ء میں ایک نیا وقف ایکٹ بنایا گیا اور 2013ء میں اس میں ترمیم کر کے ریاستی وقف بورڈوں کو مزید اختیارات دیے گئے۔ گرچہ اس قانون میں بھی کئی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، لیکن وہ وقف جائدادوں کے تحفظ کیلئے بڑی حد تک کامیاب ہیں۔لیکن موجودہ حکومت نے حالیہ دنوں میں جو وقف ترمیمی بل 2024ء اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، اسکی شقیں نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہیں بلکہ وقف املاک کے لیے خطرناک بھی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف جائیدادوں سے متعلق کسی بھی تنازع میں آخری فیصلہ ’وقف ٹربیونل‘ کا ہوتا ہے۔ لیکن نئی بل کی منظوری سے کلکٹر راج وجود میں آئے گا۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کون سی جائیداد وقف ہے اور کون سی نہیں ہے، ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی طرح حکومت نے سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم ارکان کے تقرر کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائیدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔ یہ براہ راست ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ جو ترامیم کی گئی ہیں ان سے وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت بدل جائے گی اور حکومت کے لیے ان پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا اور وقف املاک مسلمانوں کے ہاتھ سے چھین لئے جائیں گے۔ لہٰذا اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا جائے گا۔ ایسے وقت میں ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقف کی حفاظت کیلئے بیدار ہوجائیں اور اپنے بڑوں کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کی مستقل مذہبی حیثیت ہے، اس کا مکمل نظام ہے، رسول اللہﷺ کے دور سے لے کر اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے، وقف عام انسانوں کی معاشی، رفاہی اور سماجی ترقی کا ضامن ہے، وقف کا فائدہ تمام انسانوں کو پہونچتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ ہماری بے توجہی اور غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ بڑی تعداد میں وقف جائیدادوں کو اونے پونے داموں میں بیچ دیا گیا۔ خود مسلمان بھی کثرت سے وقف جائیدادوں کے استحصال میں شامل ہیں۔ لگاتار واقف کے منشاء اور وقف کے اغراض و مقاصد کو بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے، بڑے بڑے کاروباریوں، فیکٹریوں کے مالکان اور مفاد پرست لوگوں نے وقف کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ بہت ساری وقف اراضی پر حکومت نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں، کئی ایکڑ زمینوں کی حصار بندی کر دی اور ان پر قبضہ کرلیا۔ لیکن ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت کو تو چاہئے تھا کہ اوقاف کے قوانین کو مضبوطی سے نافذ کریں اور وقف املاک کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرے لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کی شقیں دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہیکہ حکومت کی نیت وقف املاک اور مسلمانوں کے تعلق سے صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف املاک کی حفاظت کے بجائے مجوزہ بل کے ذریعے وقف املاک کو ہڑپنے کی کوشش کررہی ہے۔ اور مسلمانوں کو انہیں کے وقف کردہ املاک سے دستبردار کرنا چاہتی ہے۔ایسے میں ضرورت ہیکہ ہم بحیثیت مسلمان اور ہندوستان کے شہری، ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جد و جہد کریں اور اس غیر آئینی وقف ترمیمی بل 2024ء کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ملت اسلامیہ کو کسی بھی طرح کے تجاوزات، غیر قانونی قبضہ یا وقف املاک کی غیر مجاز منتقلی کے خلاف کھڑے ہونا چاہیے، وقف املاک کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال اور تحفظ میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے عوامی بیداری مہم چلائیں گے، جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن مولانا عبد الاحد بستوی کی تلاوت سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے ارکان مولانا سید ایوب قاسمی، قاری یعقوب شمشیر، محمد حارث پٹیل بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پانچویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS


Saturday, 5 October 2024

وقف اللہ کی ملکیت ہے، اور وقف ترمیمی بل، وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے!

 وقف اللہ کی ملکیت ہے، اور وقف ترمیمی بل، وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا عبد الرحیم رشیدی و مفتی حذیفہ قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 03؍ اکتوبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چوتھی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔ مسلمانوں نے ہر دور اور ہر دیار میں اس کارخیر اور فلاحی پروگرام کو رواج دیا ہے۔ اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے، انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے، مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے، مریضوں اور پریشان حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اہل علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہندوستان میں وقف املاک کی حفاظت کیلئے وقف قانون بنایا گیا تھا لیکن موجودہ حکومت اس میں ترمیمات کرنا چاہتی، اور مجوزہ وقف ترمیمی بل کو دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، یہ بجائے وقف املاک کی حفاظت کے اسکو ہڑپنے کی کوشش کررہی ہے- مولانا دوٹوک فرمائے کہ یہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے اور اسے فوراً واپس لے لیا جائے، اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ جو چاہے کرسکتی ہے تو یہ انکی بھول ہے، طاقت اور اقتدار کی کرسی ہمیشہ کیلئے نہیں رہتی، ملک کے باشندوں کو انکے جمہوری حق سے دستبردار کرنا سب سے بڑا ظلم ہے، جسے کسی بھی قیمت برداشت نہیں کیا جاسکتا- مولانا نے فرمایا کہ اوقاف کی مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے-



تحفظ اوقاف کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے ناظم تنظیم حضرت مفتی سید حذیفہ قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ایک عبادت ہے، جب کوئی شخص زمین وقف کرتا ہے تو واقف کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اور اس زمین پر اللہ کی ملکیت قائم ہوجاتی ہے- مولانا نے فرمایا کہ ملک کی آزادی کے بعد وقف ایکٹ بنایا گیا اور مختلف مواقع پر اس میں ترمیم کی گئی، اس قانون کا مقصد وقف جائداد کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کے غلط استعمال کو روکنا تھا لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے- مولانا نے فرمایا کہ اس ترمیم میں ایک بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اب نئے وقف کونسل میں غیر مسلم بھی شامل ہوں گے بلکہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکیٹیو غیر مسلم بن سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ جب مندوں اور گرودوارہ کمیٹی میں کوئی مسلمان ممبر نہیں ہوتا ہے، تو پھر وقف بورڈ میں کوئی ہندو کیوں کر ممبر ہوگا اور اس کے مرکزی عہدوں پر ہندو کیوں کر فائز ہوسکتا ہے، کیا یہ مسلمانوں کی املاک کو غیر مسلموں کو دینے جیسا نہیں ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ کیا حکومت ہندو مندر کی کمیٹیوں میں مسلمانوں کو بھی شامل کرے گی؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہیکہ اس بل کے مطابق کوئی غیر مسلم وقف نہیں کرسکتا  لیکن وقف کا ممبر ضرور بن سکتا ہے؟ اس بل کی یہ شقیں خود حکومت کے منشاء پر سوال کھڑے کرتا ہے- مولانا نے فرمایا کہ وقف کے احکام کے مطابق واقف نے وہ جگہ جس  جہت اور مقصد کے لیے وقف کی ہو اس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، نہ اسکو کسی اور کام کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا تک جائز نہیں ہے- لیکن نئی ترمیم میں یہ داخل ہے کہ اوقاف کی جائداوں کو کس طرح استعمال کیا جائے گا اس کا حکومت تعیین کرے گی، ظاہر ہے کہ یہ ترمیمی وقف کے اصول کے خلاف ہے- اس ترمیمی کے ذریعے حکومت وقف کو جہاں چاہے گی استعمال کرے گی، جس کے ذریعے سے وقف کی جائدادیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی- ایسے ہی بہت ساری خرابیاں اس بل میں شامل ہیں- مولانا نے فرمایا کہ یہ ظاہر ہیکہ موجودہ حکومت کو مسلمانوں کی اوقاف سے بھی تکلیف ہے اور وہ کسی قیمت ان جائداوں کا ناجائز قبضہ چاہتے ہیں- لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم عوامی بیداری پیدا کریں اور وقف کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہیں- 



قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی چوتھی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے مولانا اسرار احمد قاسمی کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن تاسیسی مولانا محمد قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، ارکان قاری یعقوب شمشیر، شبلی محمد اجمعین بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی چوتھی نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS

Tuesday, 1 October 2024

حکومت فوری طور غیر آئینی وقف ترمیمی بل کو واپس لے، یہ بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے!

 حکومت فوری طور غیر آئینی وقف ترمیمی بل کو واپس لے، یہ بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی اختتامی نشست سے اکابر علماء ہند کا ولولہ انگیز خطاب!

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی صدارت، حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی کی سرپرستی، امت کے نام اہم پیغامات!



حضرت مولانا فضل الرحیم مجددی، حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، حضرت مولانا صغیر احمد رشادی، حضرت مولانا محمد یوسف علی، حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری، حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی، حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی و دیگر کے اہم خطابات!

 

بنگلور، 30؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے کے زیر اہتمام منعقد ہفت روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی اختتامی نشست ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث امیر ملت حضرت اقدس مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ کی سرپرستی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔


اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں صدر بورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کا مسئلہ ملت اسلامیہ کے ملی وجود کا مسئلہ ہے، اگر یہ وقف ترمیمی بل پاس ہوگیا تو ہمارے مساجد و مدارس، خانقاہیں، درگاہیں، قبرستانیں سب کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، وقف املاک حکومت کی مہربانی سے مسلمانوں کو نہیں ملی بلکہ مسلمانوں کے آباؤ اجداد نے اللہ کے نام پر دینی و خیراتی ضرورتوں کے لئے اپنی حق حلال کی کمائی وقف کی ہے۔ لہٰذا حکومت کا وقف ترمیمی بل کے ذریعے وقف املاک کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش غیر آئینی و غیر دستوری ہے- مسلمانوں اور تمام انصاف پسند افراد کو وقف بل کی مخالفت کرنی چاہئے۔ بورڈ اس بل کو روکنے کے لیے قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے مختلف سطح پر کوشش کر رہا ہے، اور وہ حالات کو سامنے رکھ کر احتجاج کی مختلف  امن صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ بورڈ جب بھی آواز دے، اور جس بات کی اپیل کرے، تمام مسلمان دل و جان سے اس پر عمل کریں، اور وقف کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس بل کو واپس لے لے اور ایسا قانون بنانے سے گریز کرے جو اقلیت دشمنی پر مبنی ہے۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مدظلہ (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ اب تک مختلف قوانین کے ذریعے مسلمان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ وقف ترمیمی بل سب سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ اس سے ہماری مساجد، مدارس، خانقاہیں، قبرستان، وغیرہ سب داؤ پر لگ جائیں گی اور اگر یہ بل پاس ہوگیا تو انکا تحفظ مشکل ہو جائے گا۔ سابقہ وقف قانون وقف املاک کو ریگولیٹ کرنے کیلئے کافی تھا لیکن مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کو ہڑپنے کی گھناؤنی سازش ہے، اس بل میں وقف ٹربیونل کو ختم کرکے سارے اختیارات کلکٹر کو دئے جارہے ہیں اور وقف بائے یوزر کو بھی ختم کردیا جارہا ہے۔ ظاہر ہیکہ وقف کے تعلق سے حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، یہ مسئلہ ملت کی موت و حیات کا ہے، اس کیلئے ہم سب کو تیار رہنا ہے اور آخری حد تک اس کے خلاف لڑائی لڑنی ہے، اس سلسلے میں متحد ہو کر ہم سب کو عوامی بیداری پیدا کرنی چاہیے۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف خالص مذہبی و دینی مسئلہ ہے، ہم اس ملک میں اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ رہیں گے، وقف ترمیمی بل ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہے، اور ہماری مذہبی آزادی میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، لہٰذا حکومت اسے فوراً واپس لے، یہی ملک و ملت کے حق میں بہتر ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف بائے یوزر کو ختم کرنا، سارے اختیار کلکٹر کے حوالے کرنا اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت وقف املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے- یہ مسلمانوں کو کبھی منظور نہیں ہے- اگر حکومت نے یہ غیر دستوری بل زبردستی پاس کروایا تو مسلمان اپنی آئینی و جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اس بل کے خلاف تاریخ ہند کا سب سے زبردست اور سخت ترین احتجاج درج کرائے گا۔


کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل اپنے مشمولات کے اعتبار سے نہایت نقصاندہ ہے، یہ بل قانون کے نام پر لاقانونیت ہے، حکومت کی منشاء وقف جائیدادوں پر قبضہ کا ہے۔ ہماری بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اس بل کو پوری قوت کے ساتھ بالکلیہ مسترد کریں۔ ضرورت ہیکہ ہم عوامی بیداری پیدا کریں اور اپوزیشن نیز حلیف پارٹیوں سے دوٹوک بات کی جائے کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔مولانا نے فرمایا کہ اس ملک میں اگر ہمیں اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ جینا ہے تو ہمیں حق لینا کا ہنر بھی جاننا ہوگا، زندہ قومیں ہمت و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں، لہٰذا اگر یہ بل واپس نہیں ہوتا تو بوقت ضرورت بورڈ کی آواز پر ہمیں ملک گیر احتجاج کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد رشادی صاحب مدظلہ (رکن عاملہ بورڈ) نے فرمایا کہ وقف املاک اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، موجودہ حکومت وقف ایکٹ میں ترمیمات ذریعے ہماری وقف جائیدادوں کی حیثیت کو گھٹانے اور ان پر قبضے کرنے کی کوشش کررہی ہے، لہٰذا ہماری دینی و ملی ذمہ داری ہیکہ ہم اس کی حفاظت کیلئے کوشش کریں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے رکن عاملہ حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری صاحب مدظلہ (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے، لہٰذا اوقاف کی حفاظت کیلئے امت کو بیدار کرنا چاہیے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت شمالی مشرقی ہند حضرت مولانا محمد یوسف علی صاحب مدظلہ (رکن تاسیسی بورڈ) نے فرمایا کہ اوقاف کی حفاظت اوت وقف ترمیمی بل کی مخالفت اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مدظلہ (سکریٹری بورڈ) نے فرمایا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل اوقاف کی جائدادوں کو کنٹرول کرنے، مسلمانوں کو وقف املاک سے محروم کرنے اور وقف کرنے کی استطاعت کو محدود کرنے کیلئے لایا جارہا ہے۔ یہ بل دستور ہند کے خلاف ہے، اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت ہے۔ مولانا نے اس بل کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ضرورت ہیکہ اس بل کے خلاف ہم اٹھ کھڑے ہوں اور اپوزیشن کو بھی اس کیلئے آمادہ کریں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند) نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس کرنے، ہڑپنے اور مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی موجودہ حکومت کی سوچی سمجھی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ لہٰذا اس بل کی مخالفت کرنا ہر ایک کی بنیادی ذمہ داری ہے اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس بل کی ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہیے۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل وقف املاک کیلئے نقصان دہ ہے، اس بل سے وقف املاک پر قبضہ کی راہ ہموار ہوگی، لہٰذا ضرورت ہیکہ اوقاف کی حفاظت کیلئے مسلمان اٹھ کھڑے ہوں۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز شعبہ قرأت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے صدر حضرت قاری ریاض احمد مظاہری صاحب مدظلہ کی تلاوت اور دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ قرأت کے استاذ حضرت قاری اقرار احمد بجنوری صاحب مدظلہ کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان بطور خاص موجود رہے۔ اپنے خطاب میں تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ہفت روزہ ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ کانفرنس کے اختتام سے قبل مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی نے تحفظ اوقاف کانفرنس کا ”اعلامیہ“ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اکابرین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS 

 

Monday, 30 September 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی و مفتی عمر عابدین قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!

 وقف ترمیمی بل ناقابل قبول ہے، اوقاف کے تحفظ کیلئے عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی و مفتی عمر عابدین قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 28؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی تیسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف اسلام میں ایک ایسی اہم عبادت اور صدقۂ جاریہ ہے جسے دین میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ شریعت اسلامی میں وقف سے مراد وہ عمل ہے جس میں کوئی شخص اپنی جائیداد یا دولت کو اللہ کے نام پر ہمیشہ کے لیے مختص کر دیتا ہے تاکہ وہ ملی فلاح و بہبود کے کاموں میں آ سکے۔ وقف کی جائیداد نہ تو بیچی جا سکتی نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہندوستان میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد وقف کے انتظام و انصرام کے لیے کئی قوانین اور ایکٹس بنائے گئے اور ان میں کئی اہم ترمیمات بھی کئے گئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وہ ترمیمات چونکہ وقف املاک کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی تھیں تو اسکی مخالفت نہیں ہوئی لیکن  مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس اور ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے، درحقیقت حکومت اس بل کے ذریعے وقف پراپرٹی کو قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ یہ جائدادیں مسلمانوں کے اجداد نے وقف کی ہیں، یہ کوئی حکومت سے ملی ہوئی جائیدادیں نہیں ہیں، لہٰذا ہم ایسے کوئی بھی قانون کو ہرگز نہیں قبول کریں گے جو اس وقف املاک کیلئے خطرناک ہو۔مولانا نے فرمایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ مذہبی امور میں مداخلت ہے جو کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ بل ہماری مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ علمائے کرام و دانشوران سمیت مسلم معاشرے کا ہر بیدار شخص اس بات سے واقف ہے کہ یہ بل مسلم طبقہ کے لیے کس قدر خطرناک ہے، اس لئے ملک بھر میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ البتہ کچھ نام نہاد ضمیر فروش لوگ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اس بل کی حمایت بھی کررہے ہیں، درحقیقت وہ مسلمانوں کے نمائندے نہیں بلکہ حکومت کے نمائندے ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنا ضمیر فروخت کرچکے ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ وقف کا یہ مسئلہ بہت حساس ہے، اس حوالے سے ابھی عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے۔ ملک کے صف اول کے اکابر بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند سمیت ملک کی دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب جب بھی آواز دی جائے گی مسلمانوں کو اس پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک بھر کے این جی اوز، ادارے، و انصاف پسند برادران وطن بھی اس لڑائی میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ مجوزہ وقف ترمیمی بل نہ صرف غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ ہے بلکہ وقف ایکٹ میں کی جانے والی مجوزہ ترمیم آئین ہند سے حاصل مذہبی آزادی کے بھی خلاف اور آئین ہند کے دفعات 15- 14 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد کے نائب ناظم حضرت مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کے سامنے دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی کا نظریہ بھر پور اور جامع طریقہ سے پیش کیا ہے، اسی لئے اسلام میں جہاں عاقبت سنوارنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے سکھائے گئے ہیں وہاں موجودہ زندگی میں بھی کامیابی و ترقی حاصل کرنے کے زریں اُصول بیان کئے گئے ہیں۔ اوقاف کا نظام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعہ معاشرے کی کمزوریوں کی اصلاح کرکے اسے توانائی بھی پہنچائی گئی ہے اور نظام اوقاف سے جس طرح انسانوں کی دینی اور مذہبی ضروریات پوری ہوتی ہیں مثلاً مساجد، مدارس اور خانقاہیں وغیرہ تعمیر ہوتی ہیں، اسی طرح اوقاف سے انسانوں کی طبعی و معاشی ضروریات کی بھی کفالت ہوتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف کی تاریخ بڑی پرانی ہے، عہد رسالت ؐ میں خود آپؐ اور متعدد صحابہ کرام نے اللہ کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کیں۔ صحابہ کے بعد بھی نسلا بعد نسل مسلمانوں نے وقف کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد سے ہی مسلمانوں نے وقف قائم کرنا شروع کردیا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف ایکٹ اور وقف املاک کو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937ء کے توسط سے آئین ہند کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ وقف جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقف قانون بنایا گیا ہے، 1947ء کے بعد 1954ء کا پہلا وقف ایکٹ آیا، جس میں 1995ء میں ترمیم کی گئی، اور بعد میں 2013ء میں دوبارہ ترمیم کی گئی لیکن وہ ترمیمات وقف کی حفاظت اور اسکی آمدنی کو بڑھانے کے لئے کئے گئے تھے، لیکن اب جو مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کو حکومت نے پیش کیا ہے وقف کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اس کی تباہی کے لئے لایا گیا ہے- مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے تحت حکومت ریاستی بورڈوں پر غیر مسلموں کو نامزد کرنا چاہتی ہے، وقف ٹریبونل اتھارٹی کی جگہ ضلع کلکٹر کو ایک ثالث کے طور پرمقرر کرنا چاہتی ہے، ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی نامزدگی آرٹیکل 26؍ کی خلاف ورزی ہے جو مسلمانوں کو مذہبی  امور میں اپنے خود کے معاملوں منظم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ وقف بورڈ کے نظم و نسق میں دو غیر مسلم ارکان کی نامزدگی سے پورا نظام متاثر ہوجائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات واضح ہیکہ مجوزہ وقف بل سے وقف ختم ہوکر رہ جائے گا اور وقف املاک پر حکومت قبضہ کرکے اسے تباہ کرے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت وقف کے تعلق سے عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے، ملک کے چپے چپے میں وقف کے تعلق سے پروگرامات کا انعقاد کیا جائے، ملی تنظیموں کو قانون کے ماہرین کو ساتھ لیکر اپوزیشن اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقاتیں کریں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ہدایت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں، اور وقت ضرورت جب بورڈ سے وقف کی حفاظت کیلئے سڑکوں پر اترنے کی آواز دے تو ہم اپنا جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر بھی اتریں گے اور کسی کے سامنے جھکنا نہیں ہے کیونکہ وقف جائیدادیں ہمیں بھیک میں نہیں ملیں بلکہ یہ ہماری تاریخ اور ہمارے آباؤ اجداد کی نشانی ہے، جس میں کسی کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ یاد رکھئے آزادی اور عزت کاسہئ گدائی میں نہیں دیا جاتا بلکہ قوت بازو سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہی ایک راہ ہے ہمارے لیے، اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور زیر نظامت منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن تاسیسی مولانا محمد نظام الدین مظاہری، ارکان مولانا اسرار احمد قاسمی، شبیر احمد بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS 

Saturday, 28 September 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی، مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری، مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کے خطابات!

 وقف ترمیمی بل غیر آئینی بل ہے، اوقاف کا تحفظ امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ اوقاف کانفرنس سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی، مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری، مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کے خطابات!


بنگلور، 26؍ ستمبر (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران صاحب رشادی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ وقف کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف ترمیمی بل لاکر مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت وقف کی املاک پر قبضہ کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے جو مسلمانوں کی دینی اور تاریخی وراثت ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف ترمیمی بل لاکر مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت وقف کی املاک پر قبضہ کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے جو مسلمانوں کی دینی اور تاریخی وراثت ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل کو منسوخ کروانے کیلئے ملک گیر سطح پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور اکابرین ملت کی جانب سے جو تحریک چلائی گئی ہے اس میں مسلمانوں کو اپنے باہمی اختلافات کو بھلاکر متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا اور اس بل کو واپس لینے کیلئے حکومت پر دباؤ بنانا ہوگا۔ مولانا رشادی نے اپوزیشن اور انصاف پسند پارٹیوں سے درخواست کی کہ وہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔



مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے مہتمم اور رابطہ مدارس اسلامیہ کرناٹک کے صدر حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف املاک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کی طرف سے اللہ کی رضا کے لیے وقف کی گئی ہیں اور ایسی کوئی بھی قانون سازی جو اس کی حیثیت کو کم کرے یا مسلمانوں کے شرعی و دینی معاملات میں مداخلت کا سبب ہو، ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ کی ملکیت وقف کی حفاظت ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے، لہٰذا مسلمانوں وقف کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔



مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن اور آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمٰن قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام کے امتیازات وخصوصیات میں سے ایک وقف بھی ہے۔ وقف اللہ کی ملکیت ہے اور اس کا تحفظ اللہ کے بندوں پر فرض ہے، ہندوستان میں اوقاف کی بڑی جائدادیں ہیں، جن پر حکومت کی بُری نظر ہے۔ وقف ترمیمی بل 2024ء کی شقیں قابل اعتراض ہیں جو قانون شریعت سے متصادم بھی ہیں اور وقف املاک کے لیے خطرناک بھی۔ یہ بات واضح ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ مسلمانوں کی جائیداد پر اپنا تسلط چاہتی ہے اور سرمایہ داروں کے لیے چور دروازہ کھولنا چاہتی ہے جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی موقوفہ جائیداد کو ہڑپ لیں گے، نیز اگر یہ بل قانون بنتا ہے تو ان لوگوں کو بھی موقوفہ جائیدادوں پر قبضہ جمانے کا بھرپور موقع ملے گا جو وقف کی جائیدادوں پر قابض ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت قانون سازی کے ذریعہ اوقاف کی جائدادوں کو ہڑپنے کی ناپاک کوشش کر رہی ہے، اگر وقف ترمیمی بل 2024ء قانون کی شکل اختیار کرتا ہے تو ملک کی ہزاروں مسجدیں، قبرستان، امام باڑے، خانقاہیں، مدرسے وغیرہ کا تحفظ مشکل ہو جا ئے گا۔ یہ بل اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ ہے اور یہ بل سراسر شریعت اسلامی کے وقف قانون اور خود ہندوستان کے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین کے خلاف ہے، جس کی پُرزور مخالفت ہونی چاہیے اور احتجاج اس پیمانے پر ہوکہ مرکزی حکومت اس بل کو پاس نہ کراسکے اور واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔


 قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی زیر نظامت منعقد ہوئی، جبکہ کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن شوریٰ قاری محمد عمران کی تلاوت اور نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانا اسرار احمد قاسمی، مفتی مختار حسن قاسمی، مفتی محمد اسعد بستوی، وغیرہ بطور شریک رہے۔ اس موقع پر تمام اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے تمام اکابرین، حاضرین و ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور مولانا اسرار احمد قاسمی کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔