Monday, September 30, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی و مفتی عمر عابدین قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!

 وقف ترمیمی بل ناقابل قبول ہے، اوقاف کے تحفظ کیلئے عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی و مفتی عمر عابدین قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 28؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی تیسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف اسلام میں ایک ایسی اہم عبادت اور صدقۂ جاریہ ہے جسے دین میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ شریعت اسلامی میں وقف سے مراد وہ عمل ہے جس میں کوئی شخص اپنی جائیداد یا دولت کو اللہ کے نام پر ہمیشہ کے لیے مختص کر دیتا ہے تاکہ وہ ملی فلاح و بہبود کے کاموں میں آ سکے۔ وقف کی جائیداد نہ تو بیچی جا سکتی نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہندوستان میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد وقف کے انتظام و انصرام کے لیے کئی قوانین اور ایکٹس بنائے گئے اور ان میں کئی اہم ترمیمات بھی کئے گئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وہ ترمیمات چونکہ وقف املاک کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی تھیں تو اسکی مخالفت نہیں ہوئی لیکن  مجوزہ وقف ترمیمی بل وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس اور ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے، درحقیقت حکومت اس بل کے ذریعے وقف پراپرٹی کو قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ یہ جائدادیں مسلمانوں کے اجداد نے وقف کی ہیں، یہ کوئی حکومت سے ملی ہوئی جائیدادیں نہیں ہیں، لہٰذا ہم ایسے کوئی بھی قانون کو ہرگز نہیں قبول کریں گے جو اس وقف املاک کیلئے خطرناک ہو۔مولانا نے فرمایا کہ حکومت کا یہ فیصلہ مذہبی امور میں مداخلت ہے جو کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ بل ہماری مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ علمائے کرام و دانشوران سمیت مسلم معاشرے کا ہر بیدار شخص اس بات سے واقف ہے کہ یہ بل مسلم طبقہ کے لیے کس قدر خطرناک ہے، اس لئے ملک بھر میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ البتہ کچھ نام نہاد ضمیر فروش لوگ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اس بل کی حمایت بھی کررہے ہیں، درحقیقت وہ مسلمانوں کے نمائندے نہیں بلکہ حکومت کے نمائندے ہیں، جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنا ضمیر فروخت کرچکے ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ وقف کا یہ مسئلہ بہت حساس ہے، اس حوالے سے ابھی عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے۔ ملک کے صف اول کے اکابر بالخصوص آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند سمیت ملک کی دینی ملی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب جب بھی آواز دی جائے گی مسلمانوں کو اس پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک بھر کے این جی اوز، ادارے، و انصاف پسند برادران وطن بھی اس لڑائی میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ مجوزہ وقف ترمیمی بل نہ صرف غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر منصفانہ ہے بلکہ وقف ایکٹ میں کی جانے والی مجوزہ ترمیم آئین ہند سے حاصل مذہبی آزادی کے بھی خلاف اور آئین ہند کے دفعات 15- 14 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔


تحفظ اوقاف کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد کے نائب ناظم حضرت مولانا مفتی عمر عابدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کے سامنے دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی کا نظریہ بھر پور اور جامع طریقہ سے پیش کیا ہے، اسی لئے اسلام میں جہاں عاقبت سنوارنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے طریقے سکھائے گئے ہیں وہاں موجودہ زندگی میں بھی کامیابی و ترقی حاصل کرنے کے زریں اُصول بیان کئے گئے ہیں۔ اوقاف کا نظام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعہ معاشرے کی کمزوریوں کی اصلاح کرکے اسے توانائی بھی پہنچائی گئی ہے اور نظام اوقاف سے جس طرح انسانوں کی دینی اور مذہبی ضروریات پوری ہوتی ہیں مثلاً مساجد، مدارس اور خانقاہیں وغیرہ تعمیر ہوتی ہیں، اسی طرح اوقاف سے انسانوں کی طبعی و معاشی ضروریات کی بھی کفالت ہوتی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف کی تاریخ بڑی پرانی ہے، عہد رسالت ؐ میں خود آپؐ اور متعدد صحابہ کرام نے اللہ کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کیں۔ صحابہ کے بعد بھی نسلا بعد نسل مسلمانوں نے وقف کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد سے ہی مسلمانوں نے وقف قائم کرنا شروع کردیا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف ایکٹ اور وقف املاک کو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937ء کے توسط سے آئین ہند کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ وقف جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقف قانون بنایا گیا ہے، 1947ء کے بعد 1954ء کا پہلا وقف ایکٹ آیا، جس میں 1995ء میں ترمیم کی گئی، اور بعد میں 2013ء میں دوبارہ ترمیم کی گئی لیکن وہ ترمیمات وقف کی حفاظت اور اسکی آمدنی کو بڑھانے کے لئے کئے گئے تھے، لیکن اب جو مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کو حکومت نے پیش کیا ہے وقف کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اس کی تباہی کے لئے لایا گیا ہے- مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے تحت حکومت ریاستی بورڈوں پر غیر مسلموں کو نامزد کرنا چاہتی ہے، وقف ٹریبونل اتھارٹی کی جگہ ضلع کلکٹر کو ایک ثالث کے طور پرمقرر کرنا چاہتی ہے، ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی نامزدگی آرٹیکل 26؍ کی خلاف ورزی ہے جو مسلمانوں کو مذہبی  امور میں اپنے خود کے معاملوں منظم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ وقف بورڈ کے نظم و نسق میں دو غیر مسلم ارکان کی نامزدگی سے پورا نظام متاثر ہوجائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات واضح ہیکہ مجوزہ وقف بل سے وقف ختم ہوکر رہ جائے گا اور وقف املاک پر حکومت قبضہ کرکے اسے تباہ کرے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت وقف کے تعلق سے عوامی بیداری کی سخت ضرورت ہے، ملک کے چپے چپے میں وقف کے تعلق سے پروگرامات کا انعقاد کیا جائے، ملی تنظیموں کو قانون کے ماہرین کو ساتھ لیکر اپوزیشن اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقاتیں کریں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ہدایت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں، اور وقت ضرورت جب بورڈ سے وقف کی حفاظت کیلئے سڑکوں پر اترنے کی آواز دے تو ہم اپنا جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر بھی اتریں گے اور کسی کے سامنے جھکنا نہیں ہے کیونکہ وقف جائیدادیں ہمیں بھیک میں نہیں ملیں بلکہ یہ ہماری تاریخ اور ہمارے آباؤ اجداد کی نشانی ہے، جس میں کسی کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ یاد رکھئے آزادی اور عزت کاسہئ گدائی میں نہیں دیا جاتا بلکہ قوت بازو سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہی ایک راہ ہے ہمارے لیے، اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور زیر نظامت منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن تاسیسی مولانا محمد نظام الدین مظاہری، ارکان مولانا اسرار احمد قاسمی، شبیر احمد بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر دونوں دونوں اکابر علماء نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے دونوں حضرات کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Waqf #AuqafConference #WaqfConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfBoard #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS 

Saturday, September 28, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی، مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری، مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کے خطابات!

 وقف ترمیمی بل غیر آئینی بل ہے، اوقاف کا تحفظ امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ اوقاف کانفرنس سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی، مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری، مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کے خطابات!


بنگلور، 26؍ ستمبر (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر محمد مقصود عمران صاحب رشادی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ وقف کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف ترمیمی بل لاکر مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت وقف کی املاک پر قبضہ کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے جو مسلمانوں کی دینی اور تاریخی وراثت ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف ترمیمی بل لاکر مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت وقف کی املاک پر قبضہ کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے جو مسلمانوں کی دینی اور تاریخی وراثت ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل کو منسوخ کروانے کیلئے ملک گیر سطح پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور اکابرین ملت کی جانب سے جو تحریک چلائی گئی ہے اس میں مسلمانوں کو اپنے باہمی اختلافات کو بھلاکر متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا اور اس بل کو واپس لینے کیلئے حکومت پر دباؤ بنانا ہوگا۔ مولانا رشادی نے اپوزیشن اور انصاف پسند پارٹیوں سے درخواست کی کہ وہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔



مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے مہتمم اور رابطہ مدارس اسلامیہ کرناٹک کے صدر حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف املاک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کی طرف سے اللہ کی رضا کے لیے وقف کی گئی ہیں اور ایسی کوئی بھی قانون سازی جو اس کی حیثیت کو کم کرے یا مسلمانوں کے شرعی و دینی معاملات میں مداخلت کا سبب ہو، ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ کی ملکیت وقف کی حفاظت ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے، لہٰذا مسلمانوں وقف کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔



مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن اور آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمٰن قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام کے امتیازات وخصوصیات میں سے ایک وقف بھی ہے۔ وقف اللہ کی ملکیت ہے اور اس کا تحفظ اللہ کے بندوں پر فرض ہے، ہندوستان میں اوقاف کی بڑی جائدادیں ہیں، جن پر حکومت کی بُری نظر ہے۔ وقف ترمیمی بل 2024ء کی شقیں قابل اعتراض ہیں جو قانون شریعت سے متصادم بھی ہیں اور وقف املاک کے لیے خطرناک بھی۔ یہ بات واضح ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ مسلمانوں کی جائیداد پر اپنا تسلط چاہتی ہے اور سرمایہ داروں کے لیے چور دروازہ کھولنا چاہتی ہے جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی موقوفہ جائیداد کو ہڑپ لیں گے، نیز اگر یہ بل قانون بنتا ہے تو ان لوگوں کو بھی موقوفہ جائیدادوں پر قبضہ جمانے کا بھرپور موقع ملے گا جو وقف کی جائیدادوں پر قابض ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت قانون سازی کے ذریعہ اوقاف کی جائدادوں کو ہڑپنے کی ناپاک کوشش کر رہی ہے، اگر وقف ترمیمی بل 2024ء قانون کی شکل اختیار کرتا ہے تو ملک کی ہزاروں مسجدیں، قبرستان، امام باڑے، خانقاہیں، مدرسے وغیرہ کا تحفظ مشکل ہو جا ئے گا۔ یہ بل اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ ہے اور یہ بل سراسر شریعت اسلامی کے وقف قانون اور خود ہندوستان کے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین کے خلاف ہے، جس کی پُرزور مخالفت ہونی چاہیے اور احتجاج اس پیمانے پر ہوکہ مرکزی حکومت اس بل کو پاس نہ کراسکے اور واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔


 قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی زیر نظامت منعقد ہوئی، جبکہ کانفرنس کا آغاز مرکز کے رکن شوریٰ قاری محمد عمران کی تلاوت اور نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ کانفرنس میں مرکز کے اراکین مولانا اسرار احمد قاسمی، مفتی مختار حسن قاسمی، مفتی محمد اسعد بستوی، وغیرہ بطور شریک رہے۔ اس موقع پر تمام اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے رکن تاسیسی قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے تمام اکابرین، حاضرین و ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور مولانا اسرار احمد قاسمی کی دعا پر یہ عظیم الشان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی دوسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


Friday, September 27, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی کا ولولہ انگیز خطاب!

 اوقاف کا تحفظ ہمارے ملی وجود سے وابستہ ہے، اوقاف کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ سے مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی کا ولولہ انگیز خطاب!



بنگلور، 26؍ ستمبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پہلی و افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت ملکی سطح پر ملی اور دینی اعتبار سے ہمیں جن ناگفتہ حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جس طرح کے بنیادی مسائل کا سامنا ہے اسکی مثال ہمارے ملک کی پوری صدیوں کی تاریخ میں نہیں ملتی، ہم لوگ اس وقت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اپنے جسمانی وجود نہیں بلکہ ایمانی وجود کی حفاظت کا مسئلہ آ پہنچا ہے- اور دن بہ دن ہمیں ایک منصوبہ بندی کے ساتھ مسائل میں الجھا کر ہمیں اپنے دن پر عمل پیرا ہونے سے غافل کرنے اور ہمارے دینی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہیں مسائل میں ایک مسئلہ وقف کا ہے، جو اس وقت کا سلگتا ہوا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا وقف کا مسئلہ خالص دینی و ملی مسئلہ ہے، بظاہر یہ زمینوں اور تعمیرات کا مسئلہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہمارے ملی وجود سے جڑا ہوا مسئلہ ہے، یہی وجہ ہیکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کے تمام ملی و سماجی تنظیمیں اور جماعتیں اوقاف کی حفاظت کیلئے کوشاں ہیں اور اس مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کی مخالفت کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل اگر وہ پاس ہو گیا تو اس سے ہمارے مساجد، مدارس، درگاہ، خانقاہ، امام باڑے اور قبرستان سب خطرے میں آجائیں گے، مسلمانوں کی وقف کی ہوئی زمین مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ یہ بل مسلمانوں کے وقف کی جائیداد کو ہڑپنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے بل کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بل کے ذریعے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا گیا ہے اوروقف جائیدادوں کے تنازع کے معاملات میں اب وقف ٹریبونل کے بجائے پورا کا پورا اختیار کلکٹر کو دینے کی تجویز رکھی گئی ہے، جو بہت تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل کے ذریعے سرکار وقف پراپرٹی کو قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ چونکہ وقف کا معاملہ خالص اسلامی اور مذہبی معاملہ ہے، اور وقف ترمیمی بل نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہے بلکہ آئین مخالف بھی ہے، لہٰذا وقف قانون میں ترمیمات کیلئے بل لانا مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت ہے، جو درست نہیں ہے۔ مولانا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آئے اور بل کو واپس لے اور پوری ملت سے اپیل کی کہ وہ اپنے مذہبی تشخص اور اپنے ملی وجود اوقاف کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ اوقاف کی حفاظت کی جو تحریک ہے درحقیقت ہمارے دین پر قائم رہنے کے جو وسائل ہیں اسکو بچانے کی فکر ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ ان وسائل کے ساتھ ہی اپنے ملی وجود اور دینی تشخص کے ساتھ ہم اس ملک میں رہیں گے۔ مولانا بھٹکلی نے دوٹوک فرمایا کہ اس ملک کی ترقی اسی میں ہے کہ ہر شخص کو اس کی مذہبی آزادی کے ساتھ جینے حق دیا جائے، اور ہمارے آئین کے آرٹیکل ٢٦؍ میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حکومت کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اور چونکہ اوقاف کا معاملہ بھی صد فیصد مذہبی ہے لہٰذا حکومت کو اس میں قطعاً مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان ہفت روزہ آن لائن ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی زیر نظامت منعقد ہوئی، کانفرنس کا آغاز مولانا محمد شاداب قاسمی کی تلاوت سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن مولانا اسرار احمد قاسمی بطور خاص شریک رہے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے حضرت والا کا اور جملہ سامعین کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ کی دعا پر یہ عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس کی پہلی اختتام پذیر ہوئی۔

Sunday, September 22, 2024

مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کا انعقاد، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!

 اوقاف کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت، وقف ترمیمی بل مسلمانوں کو ناقابل قبول ہے!


مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کا انعقاد، برادران اسلام سے شرکت کی اپیل!





بنگلور، 22؍ ستمبر (پریس ریلیز): وقف ایک خالص دینی اور مذہبی مسئلہ ہے، جس کا مقصد اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کے نفع کی غرض سے اپنی کوئی چیز خاص کردینا ہے۔ وقف کی ابتداء دور نبوی سے ہوتی ہے، اور ان جائیدادوں کا مقصد معاشرے کی فلاح و بہبود ہے، جس کا واحد مالک اللہ ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اپنی املاک کا وقف قائم کرنا شروع کر دیا تھا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائیدادیں مسلمانوں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہمارے ملک میں وقف جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقف قانون بنایا گیا تھا، لیکن حکومت اب اس وقف قانون میں ترمیمات کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ ان ترمیمات کی شقیں نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہیں بلکہ وقف املاک کے لیے خطرناک بھی ہیں۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ دراصل حکومت وقف ترمیمی بل کے ذریعے  وقف جائیدادوں پر قبضے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے، اسی لئے اس وقف ترمیمی بل میں ”وقف بائے یوزر“ ختم کیا جارہا ہے اور کلکٹر کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری ملکیت کی؟ مرکز کے ڈائریکٹر نے فرمایا کہ مسلمانوں کے فائدے کے نام پر لایا جانے والا یہ وقف ترمیمی بل ہر لحاظ سے ان کے حق میں نقصاندہ ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیۃ علماء ہند سمیت تمام دینی، ملی،سماجی، جماعتوں اور تنظیموں نے اس وقف ترمیمی بل کو مسترد کردینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بل کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائیگا۔اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں کوششوں میں سے ایک کوشش یہ کی جارہی ہیکہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے نقصانات سے لوگوں کو مختلف طریقوں سے آگاہ کیا جائے اور انکو اس بل کے خلاف بیدار کیا جائے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے اپنی نگرانی میں عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ لوگوں کو وقف کی اہمیت، اسکی فضیلت، اسکی حفاظت اور مجوزہ وقف ترمیم بل 2024ء کے نقصانات سے واقف کرایا جائے۔ محمد فرقان نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس کانفرنس کا آغاز بتاریخ 23؍ ستمبر 2024ء بروز پیر سے ہوگا اور روزانہ رات 9:30 بجے سے مرکز کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست لائیو نشر کیا جائے گا۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرمائیں گے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام برادران اسلام سے اپیل کیا کہ وہ اس عظیم الشان تحفظ اوقاف کانفرنس میں شامل ہوکر اکابر علماء کرام کے خطابات سے استفادہ حاصل کریں۔ اور وقف ترمیمی بل کے نقصانات سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے اس بل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے!



#Press_Release #News #Waqf #WaqfBoard #AuqafConference #WaqfAmendmentBill2024 #WaqfProperty #WaqfBill #MTIH #TIMS

Friday, September 13, 2024

جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو رائے دینا کیوں ضروری؟

 جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو رائے دینا کیوں ضروری؟


✍️ حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ 

(سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)


وقف ترمیمی بل 2024ء اپنے مشمولات کے اعتبار سے خطرناک اور نقصاندہ ہے، 1995ء میں بنائے گئے وقف ایکٹ میں تبدیلی اور ترمیم کے نام پر لائے گئے اس بل میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں ان کے پیش نظر یہ سمجھنا آسان ہے کہ حکومت کی نیت کیا ہے اور آنے والے دنوں میں وہ کیا کرنا چاہتی ہے، ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائیدادیں مسلمانوں کا قیمتی سرمایہ ہیں،حکومت وقف ترمیمی بل کے ذریعے ان پر قبضے کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے، اسی لئے اس وقف ترمیمی بل میں’’وقف بائے یوزر‘‘ختم کیاجارہا ہے اور کلکٹر کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سی جائیدادوقف کی ہے اور کون سی سرکاری ملکیت کی ، اسی طرح وقف جائیدادکے اندراج کی بات بھی وقف ترمیمی بل میں موجود ہے اور تمام اوقاف جائیدادوں کو چھ مہینے میں اندراج نہ ہونے کی شکل میں ان پر بھی خطرے کی تلوار لٹکادی جائے گی، اسی طرح وقف بورڈمیں مسلمان ممبران کے علاوہ غیر مسلم ممبران کے اضافے کی بات بھی لکھی گئی ہے، ایک نقصاندہ پہلو یہ بھی ہے کہ آئندہ وقف کرنے والے شخص کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے مسلمان ہے، یہ اور اسی طرح کی کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے پیش نظر صاف محسوس ہوتا ہے کہ وقف ترمیمی بل ،پرانی وقف جائیدادوں پر قبضے اور نئے اوقاف قائم کرنے کے سلسلے میں مشکلات کھڑی کرنے کا باعث ہے۔اور مسلمانوں کے فائدے کے نام پر لایاجانے والا یہ وقف ترمیمی بل ہر لحاظ سے ان کے حق میں نقصاندہ ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت تمام دینی، ملی ،سماجی جماعتوں اورتنظیموں نے اس وقف ترمیمی بل کو مسترد کردینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی کوششیں کی جارہی ہیں۔


  چونکہ یہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہوسکا اور اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے پروسیجر کے مطابق پبلک ،اسٹیک ہولڈرس ، ماہرین اور مختلف اداروں سے رائے طلب کی ہے، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بڑے پیمانے پر اس بل کے خلاف رائے دینے کی گزارش کی ہے اور اس کے لئے ایک سسٹم بھی جاری کیا ہے، بحمداللہ اب تک دو کڑور سے زیادہ ای میل کئے جاچکے ہیں اور آج 13؍ستمبر بروز جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، بعض لوگ ناواقفیت کی بنیاد پر یہ بھی کہہ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور برادران وطن کی تعداد زیادہ ہے، ایسے میں اگر دونوں طرف سے رائے بھیجی جارہی ہے تو برادران وطن کی رائے بڑھ جائے گی اور مسلمانوں کا نقصان ہوگا، کچھ لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان تنظیموں نے رائے دینے کو قبول کرکے بے وقوفی کا ثبوت دیا ہے، انہیں پہلے مرحلے ہی میں اس پر اعتراض جتانا چاہئے تھا کہ وقف چونکہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے اس لئے صرف انہی سے اس سلسلے میں رائے لینی چاہئے،کہنے کو تو یہ بات بھلی معلوم ہوتی ہے مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے جب کوئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی یا سلیکٹ کمیٹی بنتی ہے تو اس کے نظام العمل اور پروسیجر کا یہ حصہ ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پبلک سے رائے مانگتی ہے ، اور اس میں کسی خاص طبقے کی تعیین نہیں کی جاتی ہے ، بلکہ کسی بھی مذہب یا ملک کی کسی بھی ریاست کا شخص ،کوئی سی زبان بولنے والا ہو، یا کسی تہذیب کا اپنانے والا ہو، اپنی رائے دے سکتا ہے ۔ جب رائے مانگنا اور کسی بھی طبقے کو مخصوص کئے بغیر رائے طلب کرنا جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے نظام العمل کا حصہ ہے تو اب یہ کہنا کہ مسلم تنظیموں کو اسے قبول ہی نہیں کرنا چاہئے تھا سرے سے غلط بات ہے ، جواب دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کل کلاں یہ معاملہ اگرکورٹ میں گیا تو کورٹ یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ سے جب رائے مانگی گئی تھی تو آپ نے رائے کیوں نہیں دی؟ اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ مسلمانوں کی رائے کم رہے اور برادران وطن کی رائے بڑھ جائے، اس لئےکہ تعداد اگرچہ برادران وطن کی زیادہ ہے ، لیکن جو مذہبی جذبہ ،اپنے دینی اور مذہبی معاملات سے تعلق اور محبت اسی طرح ملی مسائل سے جو وابستگی مسلمانوں میں ہے وہ دوسرے طبقوں میں نہیں ہے، اس کا تجربہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے چلائی گئی پچھلی مہم کے دوران بھی ہوا،اس وقت یونیفارم سول کوڈ کا سلگتا ہوا مسئلہ سامنے تھا، اور اس پر لاکمیشن آف انڈیا نے پورے ملک کے باشندوں سے رائے طلب کی تھی، شدت پسند غیر مسلم تنظیموں کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت میں رائے بھیجنے کی کوششیں بھی کی گئیں اور اس کے لئے مختلف تدبیریں بھی اختیار کی گئیں اس کے باوجود مسلمانوں کی رائے کا تناسب زیادہ رہا، مسلمانوں کی جو رائے لاکمیشن آف انڈیا کو پہنچی اس کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ کے آس پاس رہی اور دیگر تمام مذاہب کے لوگوں کی رائے پچیس لاکھ کا عدد بھی پار نہ کرسکی۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ برادران وطن کی رائے زیادہ ہوجائے گی اور ہماری رائے کم پڑجائےگی یہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ اس کے قائم کرنے کا یہ مقصد ہے ،اسے تو صرف اپنی سفارشات اور تجاویز پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنی ہیں، اس لئے یہ سمجھنا کہ اگر برادران وطن کی رائے زیادہ چلی جائے گی تو یہ بل پاس ہوجائے گا یہ بھی غلط بات ہے ،ہاں اگر مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر رائے دی اور اس وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی (جیسا کہ وہ کررہے ہیں) تو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سمیت حکومت اور ملک کے باشندوں پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مسلمان اس سیاہ بل کے خلاف ہیں، اور یہی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اس مہم کا بنیادی مقصد ہے ، اپوزیشن پارٹیز اور ارکان پارلیمنٹ کو متوجہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل اور بڑے پیمانے پر رائے بھیجنا ضروری ہے ،جب مسلمان اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے مضبوطی سے اپنی بات رکھیں گے تو اپوزیشن پارٹیز اوربر سر اقتدار پارٹی کا ساتھ دینے والی حلیف پارٹیوں کو بھی (جو الیکشن کے موقع پر مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے کے لئے بڑی ڈھٹائی سے چلی آتی ہیں)یہ محسوس ہوگا کہ مسلمان اس وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں سخت ناراض اور اس سے پوری طرح بیزار ہیں، اوراسی کے پیش نظر انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی بنانے ہوگی۔


  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ای میل بھیجنے کے سلسلے میں ماہرین قانون، وکلاء اور ملک و ملت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے علماء، قائدین اور دانشوروں سے مشاورت کے بعد یہ مہم شروع کی ہے، یہ کوئی عجلت یا جذباتیت میں لیا گیا فیصلہ نہیں ہے ،اس کے پورے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھ کر پھر فیصلہ کیا گیا ہے اور اللہ کا کرم ہے کہ یہ مہم بڑی حد تک کامیاب اور مؤثر ہے ، یہاں یہ بات بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ بورڈ نے صرف ای میل کے ذریعے رائے بھیجنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی ہے بلکہ اپوزیشن پارٹیز کے سربراہوں اور حکومت کی حلیف پارٹیز کے لیڈران سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا ہے ،اسی طرح ہر علاقے کے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں بھی کی جارہی ہیں اور تحریری یادداشتیں بھی پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس متنازعہ اور نقصاندہ بل کے مضر پہلوؤں سے ان کو واقف کرایا جائے اور اگر دوبارہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوتا ہے تو ابھی سے اس کے نا منظور کئے جانے کی راہ ہموار کی جائے۔ اس لئے مسلمانانِ ہند کسی تذبذب یا تردد میں پڑے بغیربورڈ کی اس مہم کا بھرپور ساتھ دیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں اور اگر اگلے مرحلے میں کسی تحریک کی ضرورت پڑے تو اس تحریک کے لئے بھی تیار رہیں کہ زندہ ملتوں اور قوموں کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور مشکلات اور مصائب سے پنجہ آزمائی کی راہ پر چلنا پڑتا ہے۔ حالات اگرچہ کہ ناموافق اور ناخوشگوار ہیں مگر ہمیں اپنی سی کوشش جاری رکھنی ہوگی اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، دل میں یہ یقین لئے ہوئے کہ یہ حالات زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں ،اور ظلم کی تاریکیوں اور اندھیریوں کے بعد صبح روشن کا طلوع ہونا ایک زندہ حقیقت ہے ؎

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں

دست فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے


٭…٭…٭

Thursday, September 5, 2024

وقف ترمیمی بل کے خلاف ہر انصاف پسند اپنی رائے یا تجویز جے پی سی کو ضرور دے: مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی

 حکومت وقف جائیدادوں پر تسلط چاہتی ہے، وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے!

وقف ترمیمی بل کے خلاف ہر انصاف پسند اپنی رائے یا تجویز جے پی سی کو ضرور دے: مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی




بنگلور، 04؍ ستمبر (پریس ریلیز): وقف ترمیمی بل 2024ء کے سلسلے میں ملک کے تمام باشندوں بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ سے ایک اپیل کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف ایک خالص دینی اور مذہبی مسئلہ ہے، جس کا مقصد اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کے نفع کی غرض سے  اپنی کوئی چیزخاص کردینا ہے۔یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں نے رضائے الٰہی کے خاطر اپنی زمینیں، جائیدادیں، اپنی ملکیت کی چیزیں اللہ کی راہ میں وقف کی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں وقف جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقف قانون بنایا گیا تھا، جس میں اب تک کئی ترمیمیں کی جاچکی ہیں، گرچہ اس میں بھی کئی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، لیکن موجودہ وقف ایکٹ وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے بڑی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن موجودہ حکومت ہند نے حالیہ دنوں میں جو وقف ترمیمی بل 2024ء اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، اسکی شقیں نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہیں بلکہ وقف املاک کے لیے خطرناک بھی ہیں۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل ایسا ہے جسکی وجہ سے وقف جائیدادوں پر قبضہ کی راہ ہموار ہوگی۔ نیز تجویز کردہ تبدیلی ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔ جس کی وجہ سے وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت خطرے میں آجائے گی اور نئی چیزوں کو وقف کرنے کے سلسلے میں بھی دشواریاں پیدا ہونگی۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ مسلمانوں کی جائیداد پر اپنا تسلط چاہتی ہے، جو مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اس غیر آئینی بل کی مسلمان اور حزب اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہی ہیں۔ مولانا محمدعمرین محفوظ رحمانی نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام دینی اور ملی جماعتوں اور تنظیموں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ اس وقف ترمیمی بل 2024ء کو واپس لیا جائے۔حکومت نے پہلے وقف ترمیمی بل کو اسمبلی میں پیش کیا اور جب وہاں یہ کامیاب نہ ہوسکا تو  اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیج دیا گیا، اور مذکورہ کمیٹی نے عوام الناس، اسٹیک ہولڈرز، ماہرین اور این جی اوز سے رائے طلب کی ہیکہ وہ وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں اپنی تجویز یا رائے بھیجیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس سلسلے میں یہ عرض ہیکہ مسلمانان ہند کو بڑی تعداد میں اپنی رائے جے پی سی کو بھیجنی چاہیے۔ اس کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک QR کوڈ جاری کیا ہے، جس کے ذریعے ہر کوئی آسانی کے ساتھ اپنی رائے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں۔ رائے بھیجنے کے لیے QR کوڈ کو اسکین کریں یا نیچے دئے گئے لنک گوگل کروم میں پیسٹ کریں۔ لنک اوپن کرنے کے بعد ہندی یا انگریزی زبان منتخب کریں، اس کے بعد ”جی میل کھولیں“ پر کلک کریں، جواب جی میل میں کھلنے کے بعد صرف سینڈ بٹن پر کلک کرنے سے یہ جواب جے پی س کو پہنچ جائے گا۔مولانا نے ائمہ و خطباء مساجد سے گزارش کرتے ہوئے فرمایا کہ بورڈ کی جانب سے جو QR کوڈ جاری کیا گیا ہے وہ اپنی اپنی مساجد میں اسے چسپاں کروائیں اور اپنے مصلیوں کو ترغیب دیں کہ وہ ضرور بالضرور ای میل کے ذریعے اپنی اپنی رائے بھیجیں، نیز آنے والی جمعہ کو بھی استعمال کرتے ہوئے خطباء کرام اسی موضوع پر اپنی مساجد میں تقریر کریں۔ اسی طرح علاقائی و مقامی تنظیمیں، جماعتیں، انجمنیں دیگر کمیٹیاں اپنے طریقے اور اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے QRکوڈ کو لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں ای میل کرنے کی ترغیب دیں۔ اس موقع پر مولانا رحمانی نے سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے بھی اپیل کی کہ وہ ناظرین کو اسکی ترغیب دیں اور انہیں وقف ترمیمی بل 2024ء کے نقصانات سے بھی آگاہ کریں۔ مولانامحمد عمرین رحمانی نے فرمایا کہ جمہوریت میں اٹھے ہاتھوں کی قیمت ہوتی ہے گرے ہوئے ہاتھوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اس لئے ہمیں پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے دینی چاہیے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کیلئے آگے آنا چاہیے۔ تھوڑا وقت، تھوڑی صلاحیت اور تھوڑا سرمایہ ہمیں اس کام پر لگانا چاہئے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل 2024ء ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے اور مسلم اقلیتی شہریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، جو مسلمانوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا ہر ایک انصاف پسند کو اسکی پرزور مخالفت کرنی چاہیے اور احتجاج اس پیمانے پر ہوکہ مرکزی حکومت اس بل کو پاس نہ کراسکے اور واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔

رائے بھیجنے کی لنک یہ ہے:

 https://tinyurl.com/is-no-waqf-amendment





#Press_Release #News #WaqfAmendmentBill #WaqfBill #WaqfBoard #UmrainRahmani #AIMPLB #MTIH #TIMS