Wednesday, 15 November 2023

مسجد اقصٰی اور مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی قابل افسوسناک ہے!

 مسجد اقصٰی اور مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی قابل افسوسناک ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد عبد القوی کا خطاب!



بنگلور، 08؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی پانچویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کے رئیس شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت اہل فلسطین و غزہ بڑی آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔وہاں کے حالات کو دیکھ کر اور سن کر دل دہک جاتا ہے، یہی وجہ ہے اس وقت پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ روئے زمین پر فلسطین میں رہنے والی عوام نے نہ جانے ظلم و ستم کی کتنی داستانیں رقم کی ہیں، ہر روز ان پر آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جاتا ہے، معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر زیادتی، قتل و غارت گری کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ آج ایک بار پھر اہل فلسطین و غزہ پر اسرائیل ظلم و زیادتی، اندھا دھند فائرنگ، بمباری اور قتل عام کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جس میں بعض نام نہاد مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلم ممالک اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھاتے اور کارروائی کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر مسلم ممالک کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ آج فلسطین میں اسرائیل انسانیت کا قتل عام کررہا ہے، شہر تو شہر، اسپتالوں اور اسکولوں پر بھی اسرائیل بم گرا رہا ہے۔ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انھیں اپنی ارضِ مقدس سے پیار ہے۔ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ لیکن مسجد اقصٰی اور مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی قابل افسوسناک ہیں۔ بلکہ ایک طرف جہاں مسئلہ فلسطین و غزہ کو لیکر پورا عالم اسلام کرب واضطراب محسوس کررہا ہے، ایسے میں اسرائیل کا پنجہ مروڑنے کیلئے اپنی طاقت کے استعمال اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور اظہار ہمدردی کے بجائے دوسری طرف سعودی عرب کے ریاض میں رقص و موسیقی کی محفلیں سجائی جارہی ہیں، فحاشی و عریانیت کا ریکارڈ توڑا جارہا ہے جو قابل افسوس کے ساتھ ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس کی حفاظت پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ پوری امت مسلمہ بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں، اہل فلسطین و غزہ سے اظہار یکجہتی کریں، اسی کے ساتھ مولانا نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں خوب دعاؤں کا اہتمام کریں اور قنوت نازلہ کا بھی اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ اہل فلسطین و غزہ کی مدد و نصرت فرمائے اور بیت المقدس کی حفاظت فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS


Tuesday, 14 November 2023

سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم ؑ کی میراث ہے، جس پر مسلمانوں کا حق ہے!

سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم ؑ کی میراث ہے، جس پر مسلمانوں کا حق ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی محمد حذیفہ قاسمی کا خطاب!

بنگلور، 13؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے ناظم تنظیم اور انجمن احیاء سنت مہاراشٹرا کے صدر حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین وہ خطہ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا میراثی خطہ کہلاتا ہے۔ لیکن دنیا کی آنکھوں میں یہ دھول جھونکی جارہی ہیکہ اس خطہ پر یہودیوں کا حق ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کے صحیح مصداق یہودی ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے، اور اسکے اصل حقدار مسلم عرب فلسطینی ہیں۔ مولانا نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے فلسطین جارہے تھے اور درمیان میں آپ نے مصر میں پڑاؤ ڈالا۔ بادشاہ مصر ایک عیاش قسم کا انسان تھا، لیکن کچھ معجزات کو دیکھنے کے بعد بادشاہ نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ علیہما السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دیتے ہوئے حضرت سارہ علیہما السلام کے حوالہ کردیا کہ ان کی خدمت گذار رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسکے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور ابھی وہ بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ ادھر چند سال بعد حضرت سارہ علیہما السلام حاملہ ہوئیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی فلسطین میں پیدائش ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے مگر برابر مکہ میں حضرت ہاجرہ و اسماعیل علیہا السلام کو دیکھنے آتے رہتے تھے- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی اثناء میں اللہ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مسجد الاقصیٰ کی تعمیر فرمائی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد قریش ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں انکے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے تیرہ بیٹے تھے، جن میں سے ایک حضرت یوسف ؑعلیہ السلام تھے۔ یہ دنوں خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ جو یہودی قوم ہے جو انبیاء کی توہین سے لیکر انکے قتل کرنے تک کی مرتکب ہے، جب انہیں معلوم ہوا کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بنی اسرائیل کے بجائے قریش میں ہوئی ہے، تو ان یہودیوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی طرح طرح کی سازشیں کیں۔ اور افواہ پھیلائی کہ حضرت ہاجرہ علیہما السلام باشاہ کی بیٹی نہیں لونڈی تھی جبکہ یہ تاریخی حقائق کے برخلاف ہے، یہودیوں نے تورات کے دوسرے مضامین کی طرح اس میں بھی تحریف کی تاکہ بنی اسماعیل اہل قریش کو بنی اسرائیل سے کمتر دیکھا سکیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پڑپوتے تھے، فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون کی وادی میں تھی، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مسکن بھی یہی تھا۔ مولانا نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن سے لیکر مصر کے بادشاہ بننے تک کی مکمل تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ چند سالوں بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے والدین اور تمام بھائیوں کو مصر بلا لیا، جہاں وہ خوب بڑھے، پھلے اور پھولے اور اس طرح مصر میں ان کی آبادی تیزی سے پھیلتی رہی۔ یہ خاندان فلسطین سے منتقل ہوکر مصر میں آباد ہوا اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کا انتقال ہوا تو انکی تدفین ارض فلسطین (کنعان) میں ہوئی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس کے سینکڑوں سال بعد جب مصر پر فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور اس نے بنو اسرائیل پر ظلم وستم کی انتہا کردی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بنو اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ فرعون نے ان کا پیچھا کیا، لیکن بحر احمر میں ڈبو دیا گیا۔ فلسطین آکر بنو اسرائیل نے طرح طرح کی نافرمانیاں شروع کر دیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں وادی تیہ میں 40 سال تک کے لیے بھٹکا دیا۔ اسی دوران سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام نے عمالقہ جو اس وقت بیت المقدس پر قابض تھے سے جنگ کی اور بیت المقدس کے علاقے کو فتح کیا اور بالآخر کچھ سالوں بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصال ہوا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت بھی یہودی وہاں نہیں اور بعد میں بھی محض گنے چنے لوگوں کے علاوہ وہاں یہودی نہیں تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو جو فتح کیا ہے وہ عیسائیوں سے لیا ہے، پھر کچھ دنوں بعد عیسائیوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا، پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسکو فتح کرلیا، پھر خلافت عثمانیہ کے پاس رہا، اور جب خلافت عثمانیہ کو شکشت ہوئی تو وہ خطہ برطانیہ میں شامل ہوگیا اور اس وقت دنیا کے یہودیوں نے امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی میں وہاں بسیرا ڈالا کیونکہ ہٹلر نے انکی قوم کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ اہل فلسطین نے انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی زمین انہیں دی اور اقوام متحدہ نے زبردستی انہیں ایک الگ خطہ مختص کردیا۔ اس کے بعد سے اس ظالم قوم نے اہل فلسطین جو وہاں کے اصل باشندے ہیں ان پر ظلم و ستم کا پہاڑ ڈھانا شروع کردیئے اور انکی زمین اور مقدس مقامات پر قبضہ کرنا شروع کردیا، جو اب تک جاری ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی شروع سے ہی نافرمان اور ظالم قوم ہے، جنہوں نے اپنے انبیاء کرام پر ہی جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں وہ پوری دنیا کے سامنے واضح ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ ہیکہ فلسطین پر اصل حق عرب مسلمانوں فلسطینیوں کا ہے، کیونکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث ہے۔ اور یہودیوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری و قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، اراکین عمیر الدین، سید توصیف، وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مفتی محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Sunday, 12 November 2023

بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

 بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کی مدت میں توسیع، عظیم الشان تحفظ القدس کانفرنس کا انعقاد!



بنگلور، 11؍ نومبر (پریس ریلیز): بیت المقدس سے مسلمانوں کا مذہبی اور ایمانی تعلق ہے۔ یہ مسئلہ فقط اہل فلسطین کا نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ لیکن باطل طاقتیں چاہتی ہیں کہ اسے اہل فلسطین کا مسئلہ بنادیا جائے اور اس کام میں وہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوچکی ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہیکہ آج مسلمان بیت المقدس اور فلسطین کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گرد اسرائیل مسلسل فلسطین اور غزہ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جس میں بعض نام نہاد مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عالم اسلام اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر مقاومت کی کوشش کرتا تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر عالم اسلام کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔ محمد فرقان نے کہا کہ اس وقت اہل فلسطین و غزہ پر کیا کچھ نہیں کیا جارہا، فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب اسرائیلی دہشت گردوں سے تنہ تنہا مقابلہ کررہے ہیں اور بیت المقدس کا تحفظ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہل فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ انکے خون سے لکھی گئی ہے اور لکھی جارہی۔ فلسطین کے ہر چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ فلسطین کا غم امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔ اور یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہیکہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ ایسے نازک حالات میں جب اہل فلسطین و غزہ بیت المقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، وہیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے اکابر علماء کی سرپرستی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے، اہل فلسطین و غزہ سے اظہار یکجہتی کیلئے اور امت مسلمہ کی بقاء، القدس اور مسجد اقصٰی کے دفاع کیلئے دس روزہ”تحریک تحفظ القدس“ کا آغاز کیا تھا، جس تحریک کے تحت ”عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس“ منعقد ہورہی تھی۔ چونکہ تحریک کی مدت کا اعلان فقط دس روزہ کیا گیا تھا، لیکن اس سلسلے اور تحریک و کانفرنس کی مزید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اکابر علماء سے مشاورت کے بعد اسکی مدت میں غیر اعلانیہ طور پر توسیع کی جارہی ہے۔ لہٰذا اب یہ تحریک آئندہ اعلان تک مسلسل جاری رہے گی۔ محمد فرقان نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس تحریک کے تحت روزانہ رات 9 بجے عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس منعقد کی جاتی ہے۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرماتے ہیں، جو مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹیوٹر اکاؤنٹ تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام برادران اسلام سے اپیل کی کہ وہ اس تحریک و کانفرنس میں شامل ہوکر اکابر علماء کرام کے خطابات اور دیگر چیزوں سے استفادہ حاصل کریں۔اور امت مسلمہ کو بیت المقدس اور ارض فلسطین کی تاریخ سے واقف کروائیں، جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے!






#Press_Release #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Thursday, 9 November 2023

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا اشرف عباس قاسمی کا خطاب!

 القدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا اشرف عباس قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 07؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے۔جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، اس سرزمین پر اکثر انبیاء اور رسل آئے ہیں، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتداء اور انتہا ہوئی۔ یہی وہ القدس ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے۔ لیکن مسجد اقصٰی پر مسلمانوں کا حق ہے، جس میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کا کوئی حق نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جس وقت عالم اسلام کو استعماری طاقتوں نے اپنی سازشوں کا ہدف بنایا اور فلسطین کی سرزمین برطانیہ کے استعماری قبضہ میں آنے لگی تو مکار اور شاطر یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس خطے کے حصول کی خاطر کوششیں تیز کردیں 1839ء میں سب سے پہلا مغربی سفارتخانہ جو بیت المقدس میں کھلا وہ حکومت برطانیہ کا تھا، جس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گذاری تھا، اس کے ساتھ ہی پوری دنیا سے یہودیوں کو بیت المقدس میں جمع کرنا شروع کردیاگیا، اس وقت پورے فلسطین میں صرف نو ہزار کے قریب یہودی تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اسکے بعد سے یہودیوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ یہودی قوم کو ایک حکومت کی ضرورت ہے، اس مقصد کیلئے فلسطین سے بہتر کوئی جگہ ان کی نظر میں نہ تھی۔ اس دور میں یہودیوں کی عالمی سطح پر دو بڑی کانفرنسیں ہوئیں، پہلی کانفرنس 1897ء اور دوسری 1898ء میں، جن کا حاصل یہ تھا کہ یہود اپنے قدیم وطن فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے منظم ہوجائیں، چونکہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا اور وہی اس کے مالک ومتصرف تھی، اس کے مقابلے کیلئے قوم یہود نے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کردئیے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کیلئے انھوں نے مختلف سطحوں پر ساز باز شروع کی، جس میں بھاری رقوم دے کر ترکوں کو خریدا گیا، خود خلیفہ عبدالحمید کو لالچ دئیے گئے لیکن سلطان عبد الحمید نے کسی بھی صورت میں یہودیوں کو وہاں بسنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن 1909ء میں سلطان عبدالحمید کا انتقال ہوا تو گویا اس دن سے اسرائیل کے وجود کی بنیاد پڑگئی۔ اور بالآخر 15؍ مئی 1948ء کو اسرائیلی مملکت کا اعلان قیام ہوا، جسے چند ہی لمحوں میں امریکہ، روس اور یورپ نے تسلیم کرلیا، اسلامی ممالک میں سے صرف ترکی اور اس وقت کے شاہ ایران نے یہ ناجائز ریاست تسلیم کرکے اپنے فکری ضلالت پر مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت جو کارروائی اہل فلسطین کی جانب سے ہوئی وہ درحقیقت کئی دہائیوں سے اسرائیلی تسلط میں بدترین حالات کا سامنا کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کی طرف سے یہ ردعمل کے طور پر ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا حالات ہیں کہ اہل فلسطین و غزہ قابض ریاست اسرائیل جو دنیا کا سب سے بڑا طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا ان پر اتنا بڑا اور منظم حملہ کرنے پر مجبور ہوا۔ یقیناً یہ وجہ ظلم و ستم کی انتہائی ہی ہے اور اسرائیل نہتے اور مظلوم فلسطینی شہریوں کو مسلسل قتل کررہا تھا اور مسجد اقصٰی کی بے حرمتی کررہا تھا۔ مولانا نے فرمایا اسی کے ساتھ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات نے بھی فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ مزاحمت کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جائے۔ مولانا نے دو ٹوک فرمایا کہ اب وہ وقت قریب ہیکہ فلسطین آزاد ہوگا اور بیت المقدس پوری طرح مسلمانوں کے قبضہ میں ہوگئی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے، اہل فلسطین بیت المقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ پوری ملت اسلامیہ ان کا ساتھ برابر کھڑی رہے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دوسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔



#Press_Release #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Thursday, 2 November 2023

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے ریاست کرناٹک کے علماء کا ولولہ انگیز خطاب، امیر شریعت کرناٹک کی صدارت، امت کے نام اہم پیغامات!

 ہم بیت المقدس، اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیلی جارحیت کی پر زور مذمت کرتے ہیں!


کرناٹک کے مؤقر علماء اور تمام تنظیموں کے ذمہ داران کا اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف نمائندہ و احتجاجی پروگرام!


مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے ریاست کرناٹک کے علماء کا ولولہ انگیز خطاب، امیر شریعت کرناٹک کی صدارت، امت کے نام اہم پیغامات!


بنگلور، 02؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام ریاست کرناٹک کے مؤقر علماء کرام اور تمام مسالک ملی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داران کا اہل فلسطین و غزہ کی حمایت اور اسرائیل دہشت گردی کے خلاف ایک نمائندہ اور احتجاجی پروگرام بعنوان عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ منعقد ہوا۔ جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اس عظیم الشان کانفرنس کی صدارت امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد خان رشادی صاحب مدظلہ نے فرمائی۔


اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں امیر شریعت کرناٹک نے فرمایا کہ حق و باطل کا مقابلہ ہمیشہ سے رہا ہے، مشرکین، عیسائی اور یہودی یہ باطل مذاہب ہر دور میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے کے درپے رہے ہیں لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جنگ ڈول کے مانند ہے، فریقین میں کبھی شکست ہوتی ہے تو کبھی فتح ہوتی ہے۔ لڑائی دفاعی بھی ہوتی ہے اور اقدامی بھی۔ آج جو فلسطینیوں کی لڑائی اسرائیل سے ہورہی ہے وہ خالص دفاعی ہے، اقدامی نہیں، سالہا سال سے اسرائیل فلسطین والوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا تھا اور قتل و خون ریزی کرتا رہا اور جب فلسطینیوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا اور اسرائیل کے ظلم کا بدلہ لینا شروع کیا، اسرائیل کے ہوش اڑ گئے، اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ حماس کا حملہ دفاعی تھا یا اقدامی؟ لیکن اسرائیل نے حسب سابق اپنے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مسلسل بم ڈالتا ہے اور ٹینکر سے حملہ کر رہا ہے، خود وہاں کے باشندوں نے جنگ بندی کی بات کہی ہے اور کئی ملکوں نے اس کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اسرائیل کے سرغنہ نے اس کو مستر د کر دیا ہے اور اپنی درندگی کو ترک کرنے تیار نہیں ہے، ظاہر ہے کہ درندہ کب اپنی درندگی کو ترک کرے گا۔ ہم فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اور انکے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کی پوری نصرت فرمائے، ہمارے قبلہ اول مسجد اقصٰی کی حفاظت فرمائے اور اسرائیل کو ذلت ورسوائی کے ساتھ شکست فاش دے اور پوری دنیا کو بتادے کہ وہ کس طرح مظلوموں کی مدد کرتا ہے۔ مولانا نے مسلمانوں سے گزارش کرتے ہوئے فرمایا کہ گناہوں اور بدکاریوں اور نافرمانیوں سے اجتناب کرتے ہوئے احکام خداوندی کو مضبوطی سے تھامیں، ثابت قدم رہیں، اللہ کو کثرت سے یاد کریں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، آپس میں اتحاد کو قائم رکھیں اور صبر کا دامن تھامے رکھیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ارض فلسطین مسلمانوں کی میراث ہے، اور اسرائیل ایک غاصب ملک ہے۔ قبلہ اول مسجد اقصٰی کی حفاظت کیلئے اہل فلسطین و غزہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے پوری امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔ لہٰذا پورے عالم اسلام کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوری انسانیت کو ساتھ لانا چاہئے۔ نیز مسلمانوں کو بیت المقدس کے فضائل و مناقب سے واقف کروائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، عالمی اداروں، اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کونسل کو اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا جائے۔


اس موقع پر جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فلسطین و غزہ پر اسرائیلی جارحیت، وحشیانہ حملوں اور مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطینی مسلمان قبلہ اول مسجد اقصٰی کی حفاظت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جو مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ لہٰذا پورا عالم اسلام اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ برابر کھڑی ہے۔ عالمی ادارے فوراً مداخلت کرتے ہوئے امن کو بحال کریں۔


اس موقع پر جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ باطل مٹنے کیلئے آیا ہے اور حق غالب آنے کیلئے لہٰذا عنقریب اسرائیل کی ظلم و بربریت ختم ہونے والی ہے اور بیت المقدس آزاد ہونے والا ہے۔ اس کیلئے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد قائم رکھنا ہوگا، امت کے اندر ہمت و شجاعت کی روح کو پھونکنی ہوگی۔


اس موقع پر دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی مظاہری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ بیت المقدس ہمارا قبلہ اول ہے اسکی حفاظت پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ اہل فلسطین و غزہ کے موجودہ حالات پر ہمیں رجوع الی اللہ، توبہ و استغفار اور صدقے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ نیز اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔


کانفرنس میں جماعت اسلامی کرناٹک کے امیر ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب اور سکریٹری حضرت مولانا وحید الدین خان عمری صاحب مدظلہ شریک رہے اور مولانا عمری صاحب نے فرمایا کہ اس وقت اہل فلسطین و غزہ کے موجودہ صورتحال پر پوری امت مسلمہ بے چینی کا شکار ہے۔ ایسے میں ہمارے ذمہ داری ہیکہ ہم مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اور ظالم اسرائیل کے خلاف کھڑے ہوں، اس کیلئے عالمی دباؤ بھی بنایا جائے، اور بیت المقدس کی حفاظت کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔


اس موقع پر جامعہ حضرت بلالؓ بنگلور کے رئیس قائد اہلسنت حضرت مولانا ذوالفقار نوری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اہل فلسطین و غزہ کی حمایت میں اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف پوری امت مسلمہ کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہمیں عالمی سطح پر اس ظلم و بربریت کو روکنے کیلئے ہمیں کوششیں کرنی چاہیے۔


اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مولانا عبد الرحیم رشیدی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی پر مسلمانوں کا حق ہے، جس میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کا کوئی حق نہیں۔ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے جو اہل فلسطین پر ظلم ڈھا رہا ہے، اقوام عالم اور عالم اسلام کو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اقدام کرنی چاہیے۔


اس موقع پر مرکزی مسجد اہلحدیث چارمنار بنگلور کے امام و خطیب شیخ اعجاز احمد ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ آج فلسطینیوں کے اوپر جو ظلم ہو رہا ہے پوری امت اس کو محسوس کر رہی ہے، کیونکہ تمام مسلمان ایک جسم کے مانند ہے۔ ہم اہل فلسطین سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔


اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیس اور آل انڈیا ملی کونسل کے سکریٹری حضرت مولانا سید مصطفیٰ رفاعی جیلانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ القدس کے بارے میں جو تأثرات پیش ہورہی ہیں، وہ ہمارے لئے اور ملت کے لئے القدس کے تئین مزید در مزید احساس و شعور کے اضافے کا موجب ہونگیں۔ اللہ تعالیٰ اہل فلسطین و غزہ کا حامی و ناصر ہو۔


اس موقع پر نائب امیر شریعت کرناٹک حضرت مفتی عبد العزیز قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل جو ظلم و ستم ڈھا رہی ہے اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے گناہ اور اعمال کی کمی ہے۔ اگر ہمارے اعمال درست رہے اور امت میں اتحاد رہے تو فلسطین اور بیت المقدس ہمارا ہوکر رہے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔


اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا محمد الیاس بھٹکلی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی، فلسطین و غزہ اور حماس کے تعلق سے ہمارے درمیان خاص طور پر نئی نسل میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں جب ظلم عروج پر ہو تو سمجھ لیں کہ صبح روشن یعنی فتح قریب ہے۔


قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری و قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی اور ناظم جلسہ نے کرناٹک کے علماء و قائدین کا مسئلہ فلسطین پر مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی نے مرکز کی خدمات پر روشنی ڈالی اور مولانا محمد نظام الدین مظاہری بطور خاص موجود رہے۔ اپنے خطاب میں تمام علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ کانفرنس کے اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ سرپرست مرکز حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔








#AlQuds #Palestine #Gaza #Israel #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS