بیت المقدس کی آزادی کا وقت قریب ہے، مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!
مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحفظ القدس کانفرنس سے مولانا عبد العلیم فاروقی اور مولانا ابو طالب رحمانی کا خطاب!
بنگلور، 31؍ مئی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب نے فرمایا کہ گذشتہ دنوں غزہ اور فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے بعد قبلۂ اول بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے نہایت چالاکی اور سفاکی سے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کا بندوبست کر کے ارض مقدس کے باسیوں سے انکی اپنی ہی زمین چھین لی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی وہ قوم ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی مسلسل نافرمانی بلکہ سرکشی اور انبیائے کرام علیہ السلام کی حکم عدولی بلکہ ان کے ساتھ گستاخی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے لعنت اور غضب کے مستحق ہوئے اور ہدایت اور خیر سے محروم کردیئے گئے، پھر مکمل طور پر شیطان کے آلۂ کار بن گئے اور دنیا میں بے حیائی اور سود وقمار کو بطور نظام اور مشن کے عام کرنے میں مصروف ومنہمک ہوگئے جس کی وجہ سے ایمان، خیر، حیا کے یہ دشمن ہوگئے۔ اسلام چونکہ ان چیزوں کا علمبردار ہے اور مسلمان کسی نہ کسی درجہ میں اس کے حامل ہیں، اس لیے یہ یہودیوں کی جماعت اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہوگئی۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کھل کردشمنی نہ کرسکے تو نفاق کا راستہ اختیار کیا، بعد میں کبھی کھل کر کبھی چھپ کر اضرار فساد پھیلانے میں مصروف ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ جس قوم نے اپنے نبیوں کی بات نہیں مانی وہ ہماری بات کہاں سے مانے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمانوں کے نزدیک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسرا سب سے زیادہ قابل احترام مقام بیت المقدس اور مسجد اقصٰی ہے۔ آج اس مقام مقدس پر یہودی قابض ہیں اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ ہر ایک فلسطینی شہید کا حساب لے گا۔ لیکن ایک جانب اللہ کے دین برحق کے دشمن اتنے منظم ہیں اور دوسرے جانب ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے ان اقدامات کے خلاف کوئی قدم اٹھانا یا متحد ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہماری اکثریت ابھی تک اپنے اصل دشمن اور اسکے نظریات کو پہچانتی تک نہیں ہے۔ مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ اگر ان حادثات سے ہمارے دل نہ تڑپیں تو ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم فلسطینی مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، انکا ساتھ دیں اور تعاون کریں یا کم از کم انکو اپنے دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ورنہ اگر آج بھی ہم بیدار نہیں ہوئے اور اسی طرح کی بے حسی رہی تو ہم مکہ اور مدینہ کی بھی حفاظت نہیں کرسکیں گے!
تحفظ القدس کانفرنس کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے فرمایا کہ اس وقت پوری دنیا میں جو آواز گونج رہی ہے وہ مظلوم فلسطینی کی چیخ اور ظالم اسرائیل کے بم دھماکے کی آواز گونج رہی ہے۔ ارض فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے جبر و تسلط کی چکیوں میں پس رہے ہیں۔ یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ سب جرائم اقوام متحدہ کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے۔ فلسطینی اور غزہ کے مسلمان اسرائیلی محاصرے میں ہیں اور ان سے قیدیوں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اس کی کھلی جارحیت کیخلاف جدوجہد کرنا یقیناً فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ موجودہ صورتحال انتہائی کرب ناک ہے۔ اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج معصوم فلسطینی شہریوں، بچوں اور خواتین پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس تنازعے کا اصل شکار کون رہا، مگر بد قسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے تو عالمی برادری دوہرے معیارات اختیار کرتی ہے۔ ایک نرالی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف ایف سولہ طیارے عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری جانب ہاتھ سے بنے ہوئے راکٹ اسرائیل کی جانب پھینکے جا رہے ہیں۔ تو سوچیے کون ظالم ہے اور کون اہنا دفاع کررہا ہے؟ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ سلام ہو ان فلسطینی بہادروں کو کہ انکے ایک ایک بچے سے بھی آج اسرائیل خوف کھارہا ہے۔ یہ زندہ اور سچی قوم ہونے کی دلیل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اقوام متحدہ کے پاس کوئی انصاف نہیں ہے وہ یہود و نصاری کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ بیت المقدس پہلے بھی آزاد ہوا تھا اور ان شا اللہ وہ وقت قریب ہے جب بیت المقدس دوبارہ آزاد ہوکر رہے گا۔ قابل ذکر ہیکہ حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب اور حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے مرکزتحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔