Friday, December 22, 2023

مرکز تحفظ اسلام ہند کی چالیس روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست سے اکابر علماء ہند کا ولولہ انگیز خطاب!

 مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، ہم اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیلی دہشت گردی ناقابل قبول ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کی چالیس روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست سے اکابر علماء ہند کا ولولہ انگیز خطاب!

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کی صدارت، امت کے نام اہم پیغامات!

مولانا عبد العلیم فاروقی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا صغیر احمد خان رشادی، مولانا محمد سفیان قاسمی، مولاناسید بلال حسنی ندوی، مولانا محمد حکیم الدین قاسمی، مولانا شاہ جمال الرحمن مفتاحی، مولانا محمد یوسف علی، مولانا محمد صالح الحسنی مظاہری، مفتی افتخار احمد قاسمی،

مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی، مولانا محمد مقصود عمران رشادی، مولانا عبد الرحیم رشیدی و دیگر کے اہم خطابات!



بنگلور، 21؍ ڈسمبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد چالیس روزہ عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث امیر ملت حضرت اقدس مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مدظلہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی۔


اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مہتمم دارالعلوم دیوبند نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ اور سرزمین قدس سے مسلمانوں کا ایمانی، روحانی اور جذباتی جو تعلق اور ربط ہے وہ تاریخی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی محتاج تعارف نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں امام الانبیاء حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء علیہم السلام کی عملی امامت فرمائی ہے، یہ ایک ایسا امتیاز ہے کہ جو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ سے ہمارا جو تعلق ہے وہ ایسا قدیم، ایسا تاریخی ایسا ایمانی اور ایسا روحانی ہے کہ اس کو دنیا کی کوئی طاقت منقطع نہیں کر سکتی۔ مولانا نے فرمایا کہ آج غاصب اسرائیل ظالم مغربی طاقتوں کی پشت پناہی میں جو فلسطین کے مسلمانوں کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور جس سے پوری دنیا کے لوگ پریشان ہیں لیکن افسوس کہ بگ غیرت حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اور دنیا بھر کے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے، حکمرانوں کو بیدار کرنے کے لیے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے تحریک تحفظ القدس کے تحت جو اقدام کیا ہے وہ بروقت اور قابل قدر اقدام ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمیں اس کے ساتھ ساتھ اہل فلسطین کی مدد و نصرت، انکی آزادی اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا بھی کرنا چاہیے۔


اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی مدظلہ نے فرمایا کہ قضیہ فلسطین 80؍ سال پرانا ہے، فلسطین پر یہودیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور دنیا بھر کے یہودی اکٹھا ہو کر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر وہاں صیہونی ریاست قائم کر رہے ہیں۔ بلاشبہ فلسطین کا حالیہ قضیہ اس وقت امت مسلمہ کے لیے اہم ترین قضیہ ہے۔ یہودیوں کی فطرت کے اندر ایسا ٹیڑھا پن ہے کہ یہودی جہاں کہیں رہیں گے وہاں شر اور فساد پھیلائیں گے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں گے۔ یہی وجہ ہیکہ آج فلسطینی مسلمانوں پر یہ لوگ ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ لیکن پوری دنیا کے مسلمان اس وقت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔


اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے فرمایا کہ یہ بہت الم انگیز موقع ہیکہ مسلمانوں کا قبلہ اول یہودی کے قبضے میں ہے اوراہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے، جس کو روکنا ہمارا شرعی اور انسانی فریضہ ہے۔ ہم اس ظلم کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے ہیں، فلسطین اور حماس دہشت گرد نہیں بلکہ اپنی وطن کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ہم حکومت ہند، اور مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے ساتھ کھڑی رہے، انکی مدد و معاونت کریں۔ امت مسلمہ سے اپیل ہیکہ وہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔


اس موقع پر امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمدخان صاحب رشادی مدظلہ نے فرمایا کہ حق و باطل کا مقابلہ ہمیشہ سے رہا ہے، لڑائی دفاعی بھی ہوتی ہے اور اقدامی بھی۔ سالہا سال سے اسرائیل اہل فلسطین پر ظلم ڈھا رہا تھا، آج جو فلسطینیوں کی لڑائی اسرائیل سے ہورہی ہے وہ خالص دفاعی ہے، اقدامی نہیں۔ ہم اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔


اس موقع پر دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ عصر حاضر میں اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی ہر ایک فرد امت کے دینی فرض کے علاوہ وقت کا اہم تقاضہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا تفریق مذہب وملت انسانیت کے لیے دل دردمند رکھنے والے افراد انجائے عالم میں سراپا احتجاج ہیں، بحیثیت ایک مومن ہماری ذمہ داری ہیکہ اہل فلسطین کا ہر ممکنہ طور پر تعاون کریں۔


اس موقع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم حضرت مولانا سید بلال حسنی صاحب ندوی مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت اسرائیل فلسطین میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظلم ڈھا رہا ہے اور انسانیت کا قتل عام کررہا ہے۔ ایسی صورت میں پوری انسانیت کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی رہے، امت مسلمہ کم از کم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔


اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد حکیم الدین صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین سے ہمارا دل ضرور مغموم ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، عنقریب اہل فلسطین کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ پوری دنیا کے باغیرت لوگ اس وقت اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔


اس موقع پر امیر شریعت تلنگانہ و آندھراپردیش حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب مفتاحی مدظلہ نے فرمایا کہ عرصہ دراز سے ایک خاص منصوبہ کے تحت مسجد اقصیٰ اور فلسطین پر اسرائیل کا تسلط ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم حکمرانوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی دہشت کو روکنے کیلئے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے پوری امت مسلمہ کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ساتھ میں اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔


اس موقع پر امیر شریعت شمالی مشرقی ہند حضرت مولانا محمد یوسف علی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین اور مسجد اقصٰی سے مسلمانوں کا ایمانی تعلق ہے۔ افسوس کہ اہل فلسطین پر دہشت گرد اسرائیل ظلم ڈھا رہا ہے، ہماری ذمہ ہیکہ ہم اہل فلسطین کا ساتھ دیں، انکی مدد و معاونت کریں اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔


اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین پر مسلمانوں کا حق ہے،اسرائیلی یہود کا نہیں۔ اسرائیل غاصب اور دہشت گرد ہے، اہل فلسطین اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو اور اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔


اس موقع پر جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کے امین عام حضرت مولانا محمد صالح الحسنی صاحب مظاہری مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ اور مسئلہ فلسطین بڑی اہمیت کا حامل ہے اور پوری ملت اسلامیہ قضیہ فلسطین کے پیش نظر بے چین ہے۔ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین کی حفاظت فرمائے۔


اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر حضرت مفتی افتخار احمدصاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔


اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین کے مسلمانوں نے دنیا کے سامنے جس غیرت ایمانی کا ثبوت دیا ہے وہ قابل رشک ہے۔انکی مجاہدانہ تاریخ سے واقفیت، ان سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔


اس موقع پر جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران صاحب رشادی مدظلہ نے فرمایا کہ اسرائیل ایک غاصب اور دہشت گرد ملک ہے، یہ جو کچھ کررہا ہے وہ کھلے عام دہشت گردی ہے۔عالمی طاقتوں اور مسلم حکمرانوں کو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہئے۔


اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدرحضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رشیدی مدظلہ نے فرمایا کہ اسرائیل کی دہشت گردی سے پوری دنیا واقف ہے، اہل فلسطین مسجد اقصیٰ اور اپنی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ امت مسلمہ کو اہل فلسطین کی مدد و معاونت اور دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔


قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے تحت منعقد یہ عظیم الشان چالیس روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی اختتامی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری و قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز شعبہ قرأت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے صدر حضرت قاری ریاض احمد صاحب مظاہری مدظلہ کی تلاوت اور مسجد رشید دارالعلوم دیوبند کے امام قاری محمد ذیشان قاسمی کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان اور رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بطور خاص موجود رہے۔ اپنے خطاب میں تمام اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور چالیس روزہ ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ کانفرنس کے اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ مفتی سید حسن ذیشان قاسمی کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ اختتام پذیر ہوئی۔







#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS


Thursday, December 7, 2023

مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے خواتین اسلام کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں!

 مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے خواتین اسلام کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی خصوصی نشست برائے خواتین کا انعقاد، خواتین اسلام سے شرکت کی گزارش!


بنگلور، 06؍ ڈسمبر (پریس ریلیز): بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہل فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ انکے خون سے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے ہر چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں، جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی خواتین بھی باطل سے نبردآزما ہے۔ بلکہ فلسطین کی مبارک سرزمین کی تاریخ ایسی خواتین کی جدوجہد سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے غاصب صہیونیوں کے خلاف مردوں کے شانہ بہ شانہ مزاحمت میں حصہ لیا، فلسطینی خواتین صہیونی قبضوں کے خلاف نہ صرف مردوں کی حمایت کرتی رہیں؛ بلکہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری مزاحمت اور فلسطینی انقلاب کے تمام مراحل میں بھی وہ فعال اور با اثر طریقہ پر شریک ہیں۔ وہ فلسطینی بہادر خواتین اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر بھی بزدل نہیں بنیں، اپنے بچوں کے جسموں کے ٹکڑے جمع کرکے بھی ہمت نہیں ہاری بلکہ ان خواتین نے ہمت و جرأت، استقامت، ایثار و قربانی اور جذبہئ ایمانی کی وہ تاریخ رقم کی ہے، جس کو دیکھ اور سن کر صحابیات کی یاد تازہ ہوجاتی ہیں۔ شہادت کے مقام پر فائز یا اسکی متلاشی یہ وہ فلسطینی مجاہدات ہیں، جنھوں نے نسائی فداکاری اور جاں نثاری کا نمونہ پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ فلسطینی خواتین مجاہدین کی معلمہ اور مربیہ ہیں، وہ صابر، جنگجو، تعلیم یافتہ اور تخلیقی صلاحیت کی حامل ہیں، وہ اپنی قوم کی امید، خواب اور مستقبل ہیں، جو فدائی حملوں اور شہادت کی راہ میں اپنی جان قربان کرسکتی ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اہل فلسطین کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ایک طرف جہاں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، وہیں دوسری طرف انکے ایثار و قربانی اور جذبوں کو دیکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ان مجاہد خواتین کے خون کی برکت سے ایک نیا جذبہ اور نئی قوت نمودار ہوئی ہے، جس نے پہلے درجے میں عالم اسلام کی سطح پر خواتین پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں اور جلد یا بدیر دنیا میں عورتوں کی سرنوشت کو بھی متاثر کریگی۔ انہوں نے فرمایا کہ آج ہم فلسطین کی ان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے دہشت گرد اسرائیلی یہودیوں کے ظلم و جبر کے سامنے سر جھکانا گوارا نہ کیا بلکہ انکے سامنے سیسہ پلائی ہوہی دیوار کی طرح کھڑی رہیں اور اپنے مردوں کو اسرائیل کے مقابلے کیلئے تیار کرتی رہیں اور بچوں کو ہمت و جرأت اور عزیمت کا درس دیتی رہیں۔ ضرورت ہے کہ ان بلند حوصلہ خواتین کے کارناموں کو اپنایا جائے اور انہیں کے نقشِ قدم پرچلا جائے اور پوری امت کی خواتین کے اندران کے جیسا جذبۂ ایمانی کو پیدا کیا جائے تاکہ خواب غفلت میں سوئی ہوئی یہ امت اور بزدلی کا چادر اوڑھے ہوئے عالم اسلام کا موجودہ منظر نامہ تبدیل ہوسکے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے مرکز تحفظ اسلام ہند کی تحریک تحفظ القدس کے تحت جاری چالیس روزہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی سینتیسویں نشست منعقدہ 07؍ ڈسمبر 2023ء بروز جمعرات کو بطور خاص خواتین اسلام کیلئے منعقد کی جارہی ہے۔ جس میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرستاں حضرت مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب دامت برکاتہم (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) اور حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) کا کلیدی خطاب ہوگا۔ محمد فرقان نے تمام خواتین اسلام سے گزارش کی کہ وہ اس اہم پروگرام میں شریک ہوکر فلسطین کے بہادر خواتین کی تاریخ اور جذبۂ ایمانی نیز موجودہ حالات میں خواتین کی ذمہ داری سے واقفیت حاصل کریں۔ جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ پروگرام مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹیوٹر اکاؤنٹ پر ٹھیک رات 9؍ بجے براہ راست لائیو نشر کیا جائے گا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS


Monday, December 4, 2023

مسجد اقصٰی مسلمانوں کی میراث ہے، اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

 مسجد اقصٰی مسلمانوں کی میراث ہے، اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمود دریابادی کا خطاب!

بنگلور، 29؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول اور خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی، یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں شامل ہیں، اسی میں قبۃ الصخرۃ بھی شامل ہے۔ مولانا دریابادی نے مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اقوام متحدہ اور دنیا کے طاقتور ممالک کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے اور فلسطین کو اپنا حق اور ان کی زمین واپس کرانی چاہئے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے غزہ اس وقت قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لیکن تمام نام نہاد انسانیت کے علمبردار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل نے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا فلسطین کے موجودہ حالات میں مسلم ممالک کو ٹھوس اقدامات کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ، حقوق انسانی کونسل، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی تنظیمیں کو مداخلت کرے عالمی امن کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ مولانا نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری مداخلت کرکے فلسطین کے مسئلہ کے پائیدار حل پر عمل درآمد کرائے، انہوں نے فوری طور پر جنگ بندی کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کو ختم کرنے، غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، اور فوری طور پر بلاروک ٹوک انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر غزہ کیلئے امداد کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا دریابادی نے فرمایا کہ فلسطینی جدو جہد آزادی کی حمایت ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز رہی ہے۔ اب تک سبھی رہنماؤں نے نہ صرف فلسطینی جدوجہد کی حمایت کی بلکہ انکے فلسطین سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت سے اپیل ہیکہ وہ ہندوستان کی سابقہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے فلسطینیوں کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی رہے اور فلسطین کیلئے اپنے طور جو بھی مدد ہو سکتی ہے کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین انبیاء علیہم السلام کا مسکن اور مدفن ہے، مسجد اقصٰی ہمارا قبلہئ اول بھی ہے، لہٰذا ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا مذہبی و جذباتی تعلق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں، ان سے یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بائیسویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بائیسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS 



فلسطین میں اسرائیلی صہیونی ظالم انسانیت کا قتل عام کررہے ہیں!

 فلسطین میں اسرائیلی صہیونی ظالم انسانیت کا قتل عام کررہے ہیں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا ابو طالب رحمانی کا خطاب!

بنگلور، 29؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بیسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین و اسرائیل جنگ نے دنیا بھر میں حق و باطل کی تفریق واضح کر دی۔ ایک طرف حق کا ساتھ دینے والے اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں تو دوسری جانب باطل کی حمایت میں اسرائیل کے ساتھ دنیا بھر کے مختلف ممالک ہیں۔ اس حق و باطل کے معرکہ میں تیسرا گروہ بھی ہے جو منافقین کا ہے، یہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ دنیا اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے ایک ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں اور دوسرے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔مظلوم کا ساتھ دینے کیلئے مسلمان ہونا ضروری نہیں بلکہ انسان ہونا ضروری ہے۔کیونکہ فلسطین میں ظالم اسرائیل انسانیت کا قتل عام کررہا ہے۔ لہٰذا یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کی بقاء اور اس کے تسلسل کا مسئلہ بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ صیہونی ریاست عالمی قانون اور انسانیت کی تمام حدیں پامال کر چکی ہے۔ مغربی ممالک نے فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کے مقابلے میں حیرت انگیز خاموشی اختیار کر کے عام شہریوں کے قتل عام میں اس غاصب حکومت کی ہمت بڑھائی ہے اور وہ وسائل فراہم کر کے عورتوں اور بچوں کے قتل عام میں برابر کے شریک بھی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج لوگ درخت کی حفاظت پر تنظیمیں بناتے ہیں اور تحریکیں چلاتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ انسان جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے ان درختوں کو پیدا کیا اس کے قتل عام پر اس طرح خاموش ہیں کہ معلوم ہوتا ہیکہ ان کے یہاں مسلمانوں کے جان کی کوئی قیمت نہیں۔ مولانا نے دوٹوک فرمایا کہ فلسطینیوں مسلمان جام شہادت نوش فرماکر زندہ ہیں لیکن دنیا مرچکی ہے، اسکا ضمیر مر چکا ہے۔ جنازہ فلسطینیوں کے نہیں بلکہ انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین کی ہمت و جرأت، ایثار و قربانی، غیرت اسلامی و جذبۂ ایمانی اور استقامت نے یہ ثابت کردیا کہ فلسطین زندہ ہے اور فلسطینی ایک زندہ قوم ہے، جو باطل کے سامنے نہتے نبردآزما ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج جو کچھ اسرائیل صہیونی ظالم فلسطین میں کررہے ہیں اس سے پوری انسانیت شرمسار ہے۔ اگر دنیا کی نظر میں یہ صحیح ہے تو ہٹلر غلط کیوں تھا؟ مولانا نے فرمایا کہ آج اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں اس کے باوجود آج امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے، معاشرے میں برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں، کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہیکہ ہم اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کریں؟ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین و غزہ نے پورے عالم اسلام کو یہ دیکھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ کیسے ملتا ہے، یہ چیز ویسے ہی نہیں ملتی بلکہ احکام الٰہی اور شریعت محمدی کا پابند ہونے سے ملتی ہے، جس کو اپنانے کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین و غزہ قابل مبارکباد ہیں کہ پوری امت مسلمہ کی جانب سے وہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بیسویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بیسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS 



Saturday, December 2, 2023

انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے اور مسجد اقصیٰ کا حقدار مسلمان ہی ہے!

 انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے اور مسجد اقصیٰ کا حقدار مسلمان ہی ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا ثمیر الدین قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 28؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی نویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے ماہر فلکیات حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین جو صدیوں سے ایک مقدس اور پاکیزہ سرزمین رہا ہے۔بے شمار انبیاء کا مسکن و مدفن ہے۔ خاص طور پر انبیاء بنی اسرائیل کا قیام مسجد اقصٰی کے ارد گرد رہا ہے، یہ جب بھی نماز پڑھنے مسجد اقصٰی تشریف لاتے تھے تو انکا رخ بیت اللہ کی طرف ہوتا تھا یعنی تمام انبیاء نبی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اس وقت نماز پڑھتے ہوئے آپؐ اس انداز میں کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں آپؐ کے سامنے ہوتے۔ مدینہ طیبہ آمد کے بعد رسول اکرم ؐ کو حکم الٰہی تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی اہلِ اسلام کا قبلہ رہا، مگر رسول اکرم ؐ کی تمنا یہی تھی کہ کعبۃ اللہ کو ہی قبلہ بنایا جائے۔ رسول اکرم ؐاس سلسلے میں وحئ الٰہی کا انتظار فرما رہے تھے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد آپؐ  کو بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ جبکہ یہود کا قبلہ بیت اللہ نہیں ہے وہ دیوار گریہ کو سب کچھ مانتے ہیں۔ لہٰذا انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بھی بیت اللہ تھا اور مسلمانوں کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہیکہ مسجد اقصیٰ کا قبلہ بھی بیت اللہ ہے۔ اس لحاظ سے اس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ، جو یہود کے جلیل القدر عالم تھے، انکو یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان ؐ ہیں جن کی بعثت کی پیشین گوئی صحائف قدیمہ میں درج ہیں، لہٰذا وہ دوسرے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے چند مسائل دریافت کیے جسکا آپؐ نے اطمینان بخش جواب دیا، جس کے بعد حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے ایمان قبول کرلیا۔ اسکے بعد رسول اللہؐ نے یہودیوں کو بلایا اور ان کو اسلام کی دعوت دی لیکن یہودیوں نے قبول نہیں کیا۔لہٰذا اب جس قوم نے اپنے بڑے علماء کی اور اپنی کتاب کی بات نہیں مانی وہ باطل پر قائم ہے اور مسلمان ہی حق پر ہیں۔اس لحاظ سے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تیسری بات یہ ہیکہ جب سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کی ہے تب سے لیکر آج تک مسجد اقصیٰ میں اللہ کی عبادت، نمازوں کا اہتمام جو انبیاء بنی اسرائیل بھی کرتے تھے، آج وہ صرف مسلمان ہی کررہے ہیں، یہود و نصاریٰ اور عیسائی نہیں۔اس اعتبار سے بھی بیت المقدس پر جو حق ہے وہ مسلمانوں کا ہے کسی اور کا نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس کو مسلمانوں نے نمازوں اور عبادتوں سے آبا رکھا ہے، یہود اگر وہاں آئیں گے بھی تو اس طرح نماز نہیں پڑھیں گے جس طرح ان کے نبیوں نے پڑھی تھی، اور توحید پر جو عقیدہ انبیاء بنی اسرائیل کا تھا وہ آج کے یہودیوں کا نہیں ہے۔ یہ چوتھی دلیل ہیکہ اس اعتبار سے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ پانچوں بات یہ ہیکہ مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرہ ہے۔ اس کے نیچے ایک غار ہے، جو دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، معراج کی رات حضورؐ بیت المقدس سے قبۃ الصخرہ تشریف لے گئے اور اس کی زیارت کروائی گئی۔ اس غار میں انبیاء بنی اسرائیل آکر عبادت کیا کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے، اس غار کو جب بھی کھولا جاتا ہے اور اس میں آج جب مسلمان جاتے ہیں تو وہ وہاں نماز پڑھتے ہیں، تو اس پانچویں دلیل کے اعتبار سے بھی مسجد اقصی کا حقدار مسلمان ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ بھی حقدار بن سکتے تھے لیکن اگر وہ اس طرح عبادت کرتے جیسے ان کے انبیاء عبادت کرتے تھے، چونکہ وہ اس طرح نہیں کرتے اور خاتم الانبیاءﷺ پر ایمان نہیں رکھتے تو اس پر انکا کوئی حق نہیں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت ارضِ فلسطین کے جو حالات ہیں اس سے پوری امت مسلمہ پریشان ہے، ہماری دعا ہیکہ بیت المقدس محفوظ رہے، بیت المقدس پر نماز ہوتی رہے اور بیت المقدس ہمیشہ مسلمانوں کے قبضے میں رہے اور جو اہل فلسطین و غزہ کی اللہ تعالیٰ مدد و نصرت فرمائے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے اور حمیت ایمانی و غیرت اسلامی کا تقاضا ہے!

 اہل فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے اور حمیت ایمانی و غیرت اسلامی کا تقاضا ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد شمشاد رحمانی  کا خطاب!

بنگلور، 28؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث اور بہار، اڑیشہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد صاحب رحمانی و قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ گزشتہ کئی دن سے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کے میزائل حملوں اور بمباری سے تقریباً ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی ہزار میں ہے۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر سکے۔ رہائشی علاقوں، مساجد، تعلیم گاہوں، اسپتالوں غرض ہر جگہ بمباری کر رہا ہے۔ اسرائیل نے کئی دنوں سے غزہ کے لئے بجلی، پانی، ادویات اور اشیائے خور و نوش کی ترسیل روک رکھی ہے۔ فلسطین کے ان حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند، صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ ایک مومن تو اپنے دل میں درد، جگر میں سوز اور کلیجے میں جلن محسوس کرتا ہے، یہی وجہ ہیکہ اس وقت پوری امت مسلمہ بے چین ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ درحقیقت قبلۂ اول مسجد اقصٰی سے جڑا ہوا ہے اور سرزمین فلسطین بہت بابرکت سرزمین ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن و مدفن بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا بعض لوگوں کو یہ شکایت ہیکہ فلسطینیوں کی جانب سے اس جنگ کی پہل ایک غلطی ہے جبکہ درحقیقت وہ لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطینیوں کی جانب سے یہ حملے اس غم و غصے کا اظہار ہے، جو اسرائیل کی ریاست کی جانب سے مظالم ڈھانے کی صورت میں فلسطینیوں میں موجود ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی وجہ سے یہ پہل ہوئی ہے۔ نیز اسرائیل مقبوضہ مسلسل نہتے اور مظلوم فلسطینی شہریوں پر ظلم و ستم اور قتل کررہا تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ صہیونی انتہا پسند آئے روز مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں جو کہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطینی عوام قبلۂ اول اور مسجد اقصیٰ کے محافظ ہیں اور یہ مزاحمت کا خوف ہے جو اسرائیل کو اس کے ہدف کی طرف بڑھنے سے روک رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات نے بھی ایک وجہ ہیکہ فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ مزاحمت کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک فلسطینیوں کا، زمین فلسطینیوں کی مگر عالمی طاقتوں کی مدد سے ناجائز قبضہ صہیونیوں کا اور جب اس قبضے کیخلاف اور جانوں کی حفاظت کیلئے آواز اٹھائی جائے تو عالمی برادری اسے مظلوم کے بجائے ظالم کہتی ہے، یہ اسلام مسلمان دشمنی کہ واضح دلیل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک،حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں، مظلوموں کے علم بردار اور خاص طور پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اہلِ فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، افسوس تو یہ ہیکہ مسلم حکمران بے شمار وسائل رکھنے کے باوجود بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں جب فلسطینیوں کا کوئی ساتھ نہیں دے رہا لیکن اس کے باوجود اینے اندر ہمت، جرأت اور ایمان ایسا ہیکہ بے مثال قربانیوں کے باوجود اب تک میدان میں پا مردی سے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ آج بھی پوری استقامت، عزم اور حوصلے کے ساتھ مغرب کی قائم کردہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف پوری جرأت کے ساتھ کھڑے ہیں، نامساعد حالات کے باوجود ان لوگوں نے یہ ثابت کردیا ہیکہ ایمان والے شکست نہیں کھاتے۔ اللہ کی مدد و نصرت انکے ساتھ شامل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمانوں کو مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ان شاء اللہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب فلسطینیوں کو غاصب صہیونی حکومت پر فتح نصیب ہوگی، فلسطینی عوام سرخرو ہوں گے اور مسجد اقصٰی اور فلسطین مکمل مسلمانوں کے قبضے میں ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑے رہیں، انکا جس طرح ہوسکے مدد و معاونت کریں، ان کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں، اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ یہ نہ صرف ہمارا انسانی فریضہ ہے، بلکہ یہ ہماری دینی، اخلاقی اور شرعی ذمہ داری بھی ہے اور حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی کا تقاضا بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ سے فلسطین اور وہاں کے اصل باشندوں کے ساتھ کھڑا ہے، لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک اور اسلاف کے سابقہ موقف پر ہی قائم رہیں اور مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بارہویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد نظام الدین مظاہری بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی و قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی و قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی بارہویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS