Saturday, July 31, 2021

عصبیت کا فتنہ اور امت مسلمہ!



 عصبیت کا فتنہ اور امت مسلمہ!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


 میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کررہا ہوں کہ اس کائنات کا ایک بڑا فتنہ بلکہ فتنوں کی ماں اور زمانے میں سب سے زیادہ خطرناک اور تیزی سے پھیل کر خوشگوار فضا کو زہر آلود کرنے والی شئ عصبیت اور تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکے فرزندانِ توحید کی ایک بڑی تعداد راہ راست پر آجائے۔ اس موضوع پر کئی دنوں سے کچھ لکھنے کی کوششیں کی لیکن قلب و دماغ مجتمع نہیں ہوئے۔آج جب کچھ ہمت ہورہی ہے تو یکطرف قلم کچھ لرزش محسوس کررہا ہے تو دوسری طرف انگلیاں بھی ساتھ چھوڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ تعصب کے اس عنوان پر لکھتے ہوئے قلم کی لرزش اور قلب و دماغ کی گھبراہٹ بے معنی نہیں۔ کیونکہ تعصب کے اس زہر نے ہر طبقے کو زہر آلود کردیا ہے، دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، دانشوران، سیاستدان اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ بعض شرع کے پابند سفید پوش طبقے کے افراد بھی اس تعصب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے آج اسلامی اخوت اور بھائی چارگی تہس نہس ہوگئی ہے۔ قلب مضطر کو بے کلی سے اطمینان کرتے ہوئے اس عنوان پر لکھنے کی ضرورت اسلئے محسوس ہوئی کہ اسی تعصب کی وجہ سے لاکھوں لوگوں نے اپنی پیر پر کلہاڑی مارلی تو ہزاروں معزز حضرات جن عہدوں کے لائق تھے ان سے وہ محروم ہوگئے اور ہزاروں افراد جن عہدوں پر فائز تھے ان سے انہیں دستبردار ہونا پڑا۔ شدت و انتہا پسندی، نفرت، تفرقہ اور غرور کے اس چشمہ تعصب اور عصبیت سے اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔آمین


 انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے مثبت اور منفی جذبات اور احساسات سے نواز رکھا ہے۔ یہی جذبات و احساسات اس کی انفرادیت بھی ہیں اور انہی میں سے بعض کے ہاتھوں اس کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں کا اثر براہ راست معاشرہ پر بھی پڑتا ہے۔ آپسی محبت و الفت سے معاشرے مثالی بنتے ہیں، قومیں ترقی کرتی ہیں اور باہمی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے۔ انتشار، نفرت انگیزی، تکبر وغرور، انانیت، قومیت، علاقائیت، لسانیت، تفرقہ بازی ایسی چیزیں ہیں جن سے معاشرہ اس طرح بکھر جاتا ہے جس طرح ٹوٹے ہوئے دھاگے سے موتی، قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، افراد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں، رشتہ دار، عزیز واقارب، گھر وخاندان اور قوم وقبیلوں کے درمیان نفرت ودشمنی جنم لینے لگتی ہے۔ اگر آج ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، معاشرے پر نظر دوڑائیں تو جس چیز سے ہمارا معاشرہ رو بہ زوال ہے اور اپنا منفرد تشخص کھو رہا ہے وہ ”عصبیت اور تعصب“ہے۔ جذبۂ محبت کی طرح انسانی شخصیت کے اندر نفرت اور تعصب کا جذبہ بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ دراصل انسانی کمزوریوں کے شخصی عیوب و نقائص کے اظہار کی علامت ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ محبت و الفت انسان کے اندر رحمانی صفات پیدا کرتی ہے اور نفرت، عداوت اور تعصب انسان کو شیطانی دائروں میں مقید رکھ کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی راہ ہموار کرتی ہے۔


 اس روئے زمین پر بے شمار فتنوں نے جنم لیا لیکن ان تمام فتنوں میں ”عصبیت اور تعصب“ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، بعض مؤرخین نے تو عصبیت کو فتنوں کی ماں سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ تعصب خطرناک سماجی امراض ہے۔ یہ انسانیت کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ تعصب افراد، اقوام اور معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ ایسی آفت ہے جب بڑھتی اور پھیلتی ہے تو انسانوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ تعصب کی ہوا چلتی ہے تو تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ، مہذب، غیر مہذب، دیندار اور غیر دیندار بلکہ اہل علم شرع کا پابند سفید پوش طبقہ سمیت ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ غرور کا سرچشمہ ہے۔ یہ نفرت اور بدعنوانی کا بہت بڑا سبب ہے۔ تعصب کے باعث انسان افراد سے تعلق میں شدت پسند ہوجاتا ہے۔ افکار کے حوالے سے انحراف کی روش اپنا لیتا ہے۔ تعصب کا مارا انسان روا داری، افہام و تفہیم اور مختلف فکر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ تعصب شدت پسندی اور انتہا پسندی کا وہ کیڑا ہے جو نفرت، تفرقہ، گمراہی، بغض کو بڑھاوا دیتا ہے۔ تعصب اور عصبیت حق و انصاف اور اصول پسندی کا حقیقی دشمن ہے۔ اسکے چلتے ہمیں کسی کی ترقی، کامیابی اور عزت دیکھی نہیں جاتی۔ تعصب خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو، امت کے شیرازہ کو منتشر کردیتا، ان میں پھوٹ اور تفرقہ ڈال دیتا، ان میں بغض وعداوت اور نفرت وکراہیت اور حسد وعناد کا زہر گھول دیتا ہے، جس کے بعد انسان اندھا ہوجاتا ہے، پھر انہیں باہم قتل وقتال اور لڑائی جھگڑے کرنے در پے آزار ہونے اور کسی بھی حال میں دوسرے کو زیر کرنے کی جدوجہد کرتے رہنے میں کوئی تأمل نہیں ہوتا۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہیکہ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا قتل بھی اسی عصبیت اور عداوت کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل دونوں نے قربانی کی تو ہابیل کی قربانی کو شرف قبولیت مل گیا اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی تو اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔ شیطان نے وہیں سے انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیا اور اس قتل کا سبب بھی عصبیت اور حسد ہی تھا۔ تعصبات کے نقصانات سے تاریخ کے ہزاروں صفحات سیاہ ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام اور مصلحین کو بندوں کی اصلاح اور ہدایت کی راہ میں غیر معمولی تعصبات کا سامنا کرنا پڑا۔ تعصبات کے باعث خونریزیاں، حقوق کا ضیاع اور ظلم و ستم کا رواج قائم ہوا۔


 آج امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ قوم پرستی اور عصبیت و تعصب کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے، یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکین مکہ ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا اور چھوٹی چھوٹی سی بات پر ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور یہ لڑائی کئی کئی دن تک ہوتی رہتی، قتل و غارت کی انتہائی ہوتی اور سینکڑوں لوگ اس تعصب اور عصبیت کے چلتے قتل کردیئے جاتے۔ مگر جب رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد اس روئے زمین پر اسلام کی کرنیں پڑنی شروع ہوئیں تو سب سے پہلے اس نے جاہلیت کی عصبیت وتنگ نظری کے خاتمہ پر توجہ دی اور اس کا خاتمہ کیا اور اس کی جگہ دینی ومذہبی اخوت وبھائی چارگی کو پروان چڑھایا، اسلامی اخوت و مودت کو ہی اس نے ایک مرکز پر مجتمع ہونے اور انسانی رابطے کا محور بننے کا ذریعہ قرار دیا۔ اس طرح انسداد عصبیت اسلام کی اولین دعوت ہے۔ عہد نبوی میں پہلی مرتبہ حضورﷺ نے مواخات یعنی اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ مکہ مکرمہ میں ان لوگوں کے درمیان کرائی جو اسلام قبول کر چکے تھے، ان میں زیادہ تر لوگ مکہ مکرمہ ہی کے رہنے والے تھے لیکن کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو حبشہ، فارس اور دیگر دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر ہجرت مدینہ کے بعد بھی آپ ؐ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمادیا۔ اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت جامع ومفصل خطبہ دیا تھا، اس خطبے میں آپ ؐ نے عصبیت کو ختم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو آگاہ رہنا، تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت وفوقیت حاصل نہیں، البتہ یہ فوقیت وبرتری حاصل ہوتی ہے تقویٰ سے، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا تمہارا پرہیزگار ہے، کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟ صحابہؓ نے عرض کیا بے شک اللہ کے رسولؐ آپ نے پہنچا دیا، تو آپ ؐ نے فرمایا: موجود لوگ میرا پیغام ان تک پہنچا دیں جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔“ (مسند احمد)۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں بڑوں چھوٹوں، غریبوں ومالداروں، عرب وعجم، کالے گورے، قریب وبعید، رشتہ دار و اجنبی علاقائی وبیرونی کی تفریق نہیں اور نہ ہی طبقاتی امتیاز ہے۔ اسلام ایک ایسا جامع و مکمل، یکتا ومنفرد دین ہے جس نے اپنے تابع ہونے والوں کی مکمل راہنمائی کی ہے، پیدائش سے لے کر موت تک قدم قدم پر بہترین راہنما اصول بتلائے ہیں، اسی نسبت سے اسلام نے عصبیت کے متعلق ایسے واضح اور قیمتی اصول بیان فرمائے جس سے تعصب اور عصبیت پسندی کی دیواریں ہل گئیں، ان کا وجود لزرنے لگا، اسلام نے انسانیت کو حیوانیت، درندگی، ظلم واستبداد، جبر ومشقت، تعصب وعصبیت سے نکال کر ایسا صالح اور مثالی معاشرہ، جینے کا منظم نظام عطا کیا جس کی بدولت ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی، احکامات کی نافرمانی اور اسوۂ رسولؐ سے بغاوت کی، اور تعصب اور عصبیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو ہمیں تباہی کی طرف لے گیا، اسی لیے آج ہم دنیا میں ذلت وعبرت کا نشانہ ٹھہرے اور ٹھہرتے جارہے ہیں۔


اس پر فتن دور میں علاقائی اور لسانی تعصب اور عصبیت اپنے عروج پر ہے۔ اس فتنہ نے ملت اسلامیہ کا امن و امان غارت کر رکھا ہے، رشتوں کی اہمیت کو نیست و نابود کردیا ہے، اتحاد اتفاق اور پیار و محبت کے ساتھ رہنے والے اسلامی بھائیوں میں نفرت و عداوت کی بنیج بو دی ہے۔ جبکہ اسلامی احکام کے مطابق خاندان، قبیلوں، برادریوں، ذاتوں، علاقوں، صوبوں اور شہروں کی تقسیم اور ان کی بناء پر انسانوں کی تقسیم فقط شناخت اور پہچان کیلئے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔“(الحجرات :13)۔ اس آیت کریمہ کے ذریعے قرآن نے رسومِ جاہلیت اور تمام طرح کی عصبیت کی بیخ کنی کی ہے چاہے وہ قومیت پرستی، قبیلہ پرستی، ذات وبرادری کی عصبیت، لسانیت وطنیت پرستی ہو، اسلام نے یکسر اس کی مخالفت کی ہے اور صالح معاشرے کے لیے بہترین اصول ارشاد فرمائے ہیں۔بہرحال یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاندان، برادری اور وطنی ولسانی تقسیم کا مقصد یہ ہیکہ اس کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں ایک دوسرے سے تعارف ہوسکے کہ یہ شخص فلاں ملک میں سے فلاں صوبہ کے فلاں شہر کے فلاں قبیلہ اور برادری کے فلاں خاندان سے ہے لیکن افسوس کہ اب یہ تقسیم تعصب کے لیے استعمال ہونے لگی ہے۔ اور اسی تعصب اور عصبیت پسندی سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، عصبیت ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، اسی عصبیت نے اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو تہس نہس کر ڈالا ہے، عصبیت پسندی کی وجہ سے ہم اسلامی اخوت کے اس عظیم نعرے کو بھی پسِ پشت ڈال چکے ہیں، اس یکتا درس کو بھلا بیٹھے جس میں آقائے نامدارحضرت محمد رسولﷺ نے ارشاد فرمایا”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے“ (مشکوٰۃ)۔


 عصبیت کی نحوست سے معاشرہ متعفن ہو رہا ہے لیکن اس سماجی اور اخلاقی بیماری کے علاج کی فکر بہت کم لوگوں کو ہے اور حد یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگ اپنے کو بیمار نہیں بلکہ صحت مند سمجھتے ہیں۔ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دوسروں پر ناحق ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ اور اگر انکی حقیقت آشکار ہوجائے تو فیصلہ کو سر تسلیم کرنے کے بجائے اپنے باطل مقاصد کے حصول کیلئے تعصب و عصبیت کے زہر کے پیالے کو آب حیات سمجھ کر پیتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ جس نے بھی اس زہر کو پیا وہ تعصب کے ان تنگ و تاریک گلیوں کی بھول بھلیوں میں اس طرح بھٹک گیا کہ پھر اسے واپسی کا راستہ نہیں ملا۔ ایسے لوگ جو عصبیت پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں اور جاہلیت کا نعرہ لگاتے ہیں، اسلام انہیں دل کا گندہ اور معنوی نجاست میں مبتلا قرار دیتا ہے۔ مذہب اسلام عصبیت کو کس قدر ناپسند کرتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ”جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت پر قتل کیا اور جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے“ (مشکوۃ: 418)۔ اگر یوں کہا جائے کہ تعصب ناسور سے بھی بدتر ہے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ ناسور جیسے امراض تو دنیوی زندگی کو تباہ وبرباد کرتے ہیں بلکہ ان امراض میں مبتلا انسانوں کو ایمان والوں کو اخروی ثواب سے نوازا جائے گا اور تعصب وعصبیت سے دنیا بھی برباد اور آخرت بھی، دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی۔ بد قسمت ہیں وہ لوگ، اور کتاب و سنت کی روشنی اور خوشبو سے دور ہیں وہ افراد جو عصبیت کے چوبچے میں غوطہ لگاتے ہیں، اور قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں، اور اس طرح دنیا کے سامنے اسلام کے خوبصورت چہرہ کو داغدار کرتے ہیں۔


 مذہب اسلام آفاقی و عالمگیر نظریہ و فکر کا حامل ہے، وہ کبھی بھی کسی تنگ نظری، تنگ خیالی قومیت، علاقیت، وطنیت اور فرقہ پرستی سے مصالحت کا روا دار نہیں ہوسکتا۔ لیکن افسوس کہ جس مذہب کی تعلیمات اس قدر وسیع و ہمہ گیر، شاف و شفاف اور جس کے اندر تعصب، عصبیت، تنگ نظری اور تنگ خیالی کی ذرا بھی گنجائش نہیں، اور جو مذہب جاہلی عصبیت (قومیت، لسانیت، طنیت و علاقیت) کو مٹانے کے لیے آیا، جس امت کو یہ پیغام دیا گیا کہ عجم و عرب کی بنیاد پر گورے اور کالے کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فضیلت و فوقیت اور برتری حاصل نہیں، جس امت کے آخری نبی ؐنے عصبیت کو جاہلانہ عمل قرار دیا، اس کو اپنے ہاوں کے خاک کے نیچے دبا دیا اور یہ فرمایا کہ جو عصبیت اور قومیت وطنیت کی طرف بلاوے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، اس امت کی اکثریت میں یہ جاہلی برائی کثرت سے پنپ رہی ہے، عوام تو عوام مہذب و مثقف اور تعلیم یافتہ لوگوں بلکہ سفید پوش طبقے میں بھی یہ برائی کچھ زیادہ ہی پائی جارہی ہے۔ جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ جبکہ اگر مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی کمزور ہوئے، جہاں کہیں بھی ان کی حالت دگرگوں ہوئی، جہاں کہیں بھی وہ پستی کے دلدل میں پھنسے اور جہاں کہیں بھی ان کے ملک کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کے حصے بخرے ادھیڑے گئے جس کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے مغلوب ومحکوم بن گئے، اس کی بنیادی وجہ یہی عصبیت تھی، عربوں کو جب خانوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کی گئی تو اس سے پہلے ان عربوں اور دوسری مسلم وغیر مسلم قوموں میں اسی عصبیت کو ہوا دی گئی، اسے پروان چڑھایا گیا اور قومیت کے نعرے کا طوفان برپا کرکے اسلام کی عمارت کو کھوکھلا کیا گیا اور آج بھی یہی ہورہا ہے۔ اتنا سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہوا اور ہورہا ہے اسکے باوجود ہم صوبائیت، علاقائیت و لسانیات کی لڑائی لڑنے میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کررہے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور مشرق ومغرب، شمال وجنوب کی باتیں کرتے گھوم رہے ہیں۔ جبکہ اسلام کا اس برق رفتاری سے ساری دنیا میں پھیلنا اسی لئے ممکن ہوسکا کہ اس نے رنگ ونسل اور ہر طرح کی عصبیت وامتیاز کا پہلے خاتمہ کیا اور اتحاد و اتفاق سے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلا کر ایک مثالی تاریخ رقم کی، لیکن افسوس کہ آج اسی اتحاد و اتفاق کو بعض ناداں لوگ علاقائی، لسانی اور رنگ ونسل کی عصبیت کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں،جسکا کا خمیازہ پوری ملت اسلامیہ کو بھگتنا پڑے گا۔


 اب بھی وقت ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت کی عصبیت کی بیماری سے پیچھا چڑھائیں، اپنے دلوں میں اخوت ایمانی کو پروان چڑھائیں اور اسلام کے کلمہ پر متحد ویکجا ہوں کہ عزت و رفعت کی بحالی اس کے بغیر ممکن نہیں، آخر کب تک ہم بغض وعنات، کینہ وکدورت، حسد و نفرت کے دلدل میں پھنسے رہیں گے، کب تک عہد جاہلیت کی تاریکی میں بھٹکتے رہیں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ تیزی سے پھیل کر ایک منظم معاشرے کو تباہی کی راہ پر لے جانی والا یہی تعصب اور عصبیت ہے، چپراسی سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک کے لوگ اس عصبیت کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہر قسم کے تعصب اور عصبیت بالخصوص قومیت، علاقائیت، لسانیت اور ذات و برادری کے گھناؤنے کھیل سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اپنے ذہنوں کو پاک کریں اور اسلام کے پیغام حق وانصاف اور مساوات کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ دنیا پھر اسلام کے دامن میں پناہ لینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھے۔ اگر ہم دین و اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں تو ہمیں تعصب و عصبیت کو اپنے ذہن و دماغ سے نکال کر اسلامی اخوت وبھائی چارگی کو فروغ دینا ہی ہوگا ورنہ ہم خود اپنے گھر کو آگ لگانے والوں کے مانند ہونگے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ہرطرح کے تعصب و عصبیت سے اور اس کے بھیانک نتائج سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ*

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 ٢٠؍ ذی الحجہ ١٤٤٢ھ

31؍ جولائی 2021ء بروز سنیچر


+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com


____________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

سوشل میڈیا انچارج جمعیۃ علماء کرناٹک

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #Asbiyat #Tassub #Nafrat

Friday, July 30, 2021

امیر شریعت کرناٹک سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد کی ایک یاد گار ملاقات!












 امیر شریعت کرناٹک سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد کی ایک یاد گار ملاقات!


آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آسان اور مسنون نکاح مہم کے سلسلے میں بتاریخ 14 مارچ 2021ء بروز اتوار امیر شریعت کرناٹک حضرت مولانا صغیر احمد صاحب رشادی دامت برکاتہم (مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم سبیل الرشاد، بنگلور) سے مرکز تحفظ اسلام ہند کے وفد کی ایک یادگار ملاقات، جس میں مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان، آرگنائزر حافظ محمد حیات خان، اراکین شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، اراکین عمیر الدین، شبیر احمد، محمد توصیف وغیرہ خصوصی طور پر موجود تھے!


Ameer-e-Shariat Karnataka Se Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Wafad Ki Ek Yaadgaar Mulaqaat!


All India Muslim Personal Law Board Ke Asaan Aur Masnoon Nikah Muhim Ke Silsila Main 14 March 2021, Sunday Ko Ameer-e-Shariat Karnataka Hazrat Moulana Sageer Ahmed Saheb Rashadi DB (Mohtamim & Sheikul Hadees Darul Uloom Sabeelur Rashad, B'lore) Se Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Wafad Ki Ek Yadgaar Mulaqaat, Jismain Markaz Tahaffuz-e-Islam Hind Ke Founder & Director Mohammed Furqan, Organizer Hafiz Mohammed Hayath Khan, Members Moulana Mohammed Tahir Qasmi, Moulana Mohammed Nizam Uddin Mazahiri, Umairuddin, Shabbir Ahmed, Syed Tausif Wagaira Khaas Toor Per Maujood Thai.


#MarkazHighlights #Highlights #MTIHHighlights #MTIH #TIMS #AIMPLB

Thursday, July 29, 2021

جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین کی مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے!



 جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین کی مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے!

سیلاب زدگان کی راحت رسانی، جمعیۃ کی ممبر سازی مہم، شعبہ نشر و اشاعت و دیگر کئی اہم امور پر تبادلہ خیال!


 بنگلور، 29؍ جولائی (پریس ریلیز): شریعت اسلامیہ میں خدمت خلق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، روئے زمین پر بسنے والے ہر جاندار سے ہمدردی کرنا، گاہے بگائے انکا خیال رکھنا اور حتیٰ الامکان انکی مدد کرنا مسلمانوں کا مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اور دور حاضر میں مسلمانانِ ہند کی سب سے بڑی اور قدیم مذہبی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور کارکنان حقیقی معنوں میں ان اوصاف کا نمونہ ہیں۔ ملک میں جہاں کہیں بھی کوئی پریشانی یا آفت پیش آتی ہے تو وہاں جمعیۃ علماء ہند کے خدام سب سے پہلے نظر آتے ہیں۔بالخصوص مظلوموں اور بے کسوں کی مدد اور سیلاب و آفات میں اجڑے لوگوں کی بازآبادکاری، بے قصور قیدیوں کی رہائی سمیت دیگر ہر محاذ پر جمعیۃ علماء ہند نے خدمت خلق کی ایسی عظیم تاریخ رقم کی ہے جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ابھی مہاراشٹر کے ساحلی علاقے بالخصوص کوکن، رائیگڑھ، رتناگیری، وغیرہ بھیانک سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہیں، بارش کی کثرت اور اس کے بعد سیلاب کی تباہی کے جو مناظر اور انسانی زندگی کے جو کربناک حالات ہیں وہ دردمند دل رکھنے والے انسان کے رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ ان علاقوں میں جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی ہدایت پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی جانب سے ریلیف کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ اسی کے پیش نظر کل اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک اور اراکین جمعیۃ علماء بنگلور کا مشترکہ ایک اہم مشاورتی اجلاس جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی کی زیر صدارت اور جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین کی زیر نگرانی مسجد حسنیٰ، شانتی نگر، بنگلور میں منعقد ہوا۔ اور باتفاق رائے یہ طے پایا کہ جمعیۃ علماء کرناٹک اور اسکے تمام اضلاع مہاراشٹر کے اس قیامت خیز سیلاب کے متاثرین کے ساتھ برابر کھڑی ہے اور حتیٰ المقدور سیلاب متاثرین کی راحت رسانی کیلئے بلاتفریق مذہب وملت ریلیف کا کام کرے گی۔ اس اہم مشاورتی اجلاس میں دیگر امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک نے یہ فیصلہ لیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دو سالہ ٹرم مکمل ہوگیا ہے، اب نئے ٹرم کے لئے مبر سازی مہم شروع ہوچکی ہے، اس مہم میں ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس مہم میں سارے مسلمان مرد اور عورت بھر پور حصہ لیں، خود بھی ممبر بنیں، دوست و احباب اور متعلقین کو بھی ممبر بنائیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے دستور اساسی کے مطابق ہر بالغ مسلمان (مرد و عورت) جمعیۃ علماء ہند کا ممبر بننے کا مجاز ہے، اس کے لئے بیداری مہم چلائی جائے۔ اس کے علاوہ اس مشاورتی اجلاس میں سوشل میڈیا کی بڑھتی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک نے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت جمعیۃ علماء کرناٹک کا سوشل میڈیا پیلٹ فارم قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے رکن عاملہ حافظ یل محمد فاروق اور جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور کے رکن عاملہ محمد فرقان کو اسکی ذمہ داری سونپی۔ اسکے علاوہ اجلاس میں یہ بات قابل ذکر رہی کہ جمعیۃ علماء ہند کی سو سالہ سنہری تاریخ ہے جس نے اپنے قیام کے روز اول سے ملک و ملت کے لئے قربانیاں دی ہیں، اور دور حاضر میں اس کی خدمات اور قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔لہٰذا ائمہ مساجد اور علماء کرام سے خطبات جمعہ اور اصلاحی پروگراموں میں ملک و ملت کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی خدمات اور اس کے اکابر علماء کرام کی قربانیوں کو عوام میں بیان کرنے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے آنے والے دنوں میں علماء اور ائمہ مساجد کی مختلف نشستیں جمعیۃ علماء کرناٹک منعقد کرگی۔ اس کے علاوہ متعدد اراکین نے بھی اپنی قیمتی آراء پیش کیں اور مفید مشورے دیئے۔ قابل ذکر ہیکہ اس اہم مشاورتی اجلاس میں جمعیۃ کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، نائب صدر مولانا شمیم سالک مظاہری، جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین، رکن عاملہ حافظ یل محمد فاروق، جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانا محمد صلاح الدین قاسمی، نائب صدر حافظ محمد آصف، رکن عاملہ مولانا آدم علی قاسمی، جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور حلقہ عیدگاہ بلال کے صدر مولانا محمد اقبال، جنرل سکریٹری محمد فاضل، جمعیۃ علماء ویسٹ بنگلور کے صدر مولانا عتیق الرحمن، جنرل سکریٹری سید امین، جمعیۃ علماء نارتھ بنگلور کے رکن عاملہ اعجاز سادات، سید غوث پرویز، محمد سلیم، جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور حلقہ بنشنکری کے رکن عاملہ محمد فرقان، محمد عمران وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اجلاس کا آغاز قاری محمد اقبال کی تلاوت سے ہوا، جس کے بعد جمعیۃ علماء کرناٹک کے جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین نے میٹنگ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ مغرب بعد سے جاری یہ اہم مشاورتی اجلاس دیر رات جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی کی دعا سے اختتام پذیر ہوا۔

Wednesday, July 28, 2021

مہاراشٹر، کرناٹک اور دیگر سیلاب متاثرین کیلئے بلاتفریق مذہب و ملت امداد کرنے مرکز تحفظ اسلام ہند کی اپیل!


 مہاراشٹر، کرناٹک اور دیگر سیلاب متاثرین کیلئے بلاتفریق مذہب و ملت امداد کرنے مرکز تحفظ اسلام ہند کی اپیل!

سیلاب متاثرین کی امداد کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری ہے: محمد فرقان


 بنگلور، 28 ؍ جولائی (پریس ریلیز): گزشتہ چند دنوں سے مہاراشٹر سے لے کر کرناٹک،گوا، آندھرا پردیش، راجستھان اور بہار تک بارش کا قہر جاری ہے۔ اور اس موسلا دھار بارش کی وجہ سے مختلف ریاست کے کئی اضلاع میں سیلاب کی سی صورت حال ہے۔ جس کی وجہ سے کافی جانی و مالی نقصان ہوا ہے، ہزاروں لوگ اس کی زد میں آکر بے گھر ہوگئے ہیں اور سینکڑوں افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔ جس پر مرکز تحفظ اسلام ہند نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ خشکی و تری میں جو فساد برپا ہوتا ہے، جو تغیر و تبدل ہوتا ہے، یہ انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے یعنی انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر بارش اور پانی کا ذکر کیا اور اسے عظیم نعمت قرار دیا ہے۔ جس کے بغیر انسان تو انسان کسی بھی جاندار کی حیات کا تصور ممکن نہیں، روئے زمین پر ساری حیاتیات کا دارومدار پانی پر ہے۔ الغرض پانی ایک ناگزیر انسانی ضرورت ہے، لیکن ایسی ناگزیر ضرورت کو اللہ تعالیٰ اس وقت تباہی کے سامان میں تبدیل کرتے ہیں جب روئے زمین پر انسانی معاشرہ میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور بندگان خدا رب کی بندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر خدا فراموشی اور عصیاں شعاری پر اتر آتے ہیں، آج کونسی اخلاقی خرابی ہے جس سے ہمارا سماج محفوظ ہو؟ محمد فرقان نے فرمایا کہ جب تک مسلمان دین پر قائم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ان کے موافق کردیتا ہے، اور جب وہ دین کی ناقدری کرتے ہیں تو نظام کائنات کو ان کا مخالف کردیا جاتا ہے، آسمان سے پانی کا برسنا اور زمین کا زلزلوں سے محفوظ رہنا سب کا تعلق نظام کائنات سے ہے، جس کا سرا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کہیں بارش سرے سے ہی نہ ہو تو یہ قحط سالی اور پریشانی کا باعث ہے اور اگر کسی جگہ حد سے زیادہ بارش ہو جائے تو یہ بھی پریشانیوں، تکلیفوں، اور مصیبتوں کا باعث ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارش کا جو معیار ہے اس سے کم بھی تکلیف کا باعث اور اس معیار سے زیادہ بھی پریشانی کا باعث ہے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ موجودہ تباہ کن سیلاب ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم اپنے احوال کو درست کرلیں اور سارے گناہوں سے سچی توبہ کرکے رجوع الی اللہ کا اہتمام کریں۔ اسی کے ساتھ سیلاب متاثرین کی مدد کرنا ہمارا ملی و اخلاقی فریضہ ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے اہل خیر حضرات سے اپیل کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے مختلف ریاستوں بالخصوص مہاراشٹر اور شمالی کرناٹک کے بہت سے اضلاع سیلاب سے متاثر ہوگئے ہیں - سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے لوگ بے آسرا و بے سہارا ہوگئے اور بہت سارے لوگ بیمار اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ایسی حالت میں امت مسلمہ کے ہر فرد کو چاہیئے کہ ان کا تعاون کریں، ان کا سہارا بنیں، ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی تصور کریں،ان کے غم کو مٹانے کی فکر کریں۔ ان کے گھر بسانے کے لئے آگے آئیں، کھانے پینے کے سامان کا انتظام کریں، جن کے اعزہ و اقارب سیلاب کے زد میں آگئے ان سے تسلی کی باتیں کریں۔ بلکہ ایسے موقع پر تمام لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور بلا تفریق مذہب و ملت، بلا رنگ و نسل مالی اعتبار سے اور دیگر ضروری اشیاء کے ذریعے امداد و اعانت کریں، اگر براہ راست کوئی امداد کی شکل نظر نہ آئے تو جو تنظیمیں وہاں کام کررہی ہیں انکا ساتھ دیتے ہوئے انکا تعاون کریں تاکہ سیلاب متاثرین کی زندگیوں میں دوبارہ خوشحالی واپس آئے۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ امداد کے ساتھ ساتھ سیلاب کے ان واقعات سے ہمیں عبرت حاصل کرنا چاہیے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اللہ کے دربار میں رجوع ہو کر اپنے گناہوں سے معافی مانگنی چاہیے۔

Saturday, July 24, 2021

ایثار و قربانی اور اطاعت ربانی عید قرباں کا پیغام ہے!



 ایثار و قربانی اور اطاعت ربانی عید قرباں کا پیغام ہے!

علماء کرام کے ولولہ انگیز خطابات سے مرکز تحفظ اسلام ہند کی” ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ اختتام پذیر!


 بنگلور، 24؍ جولائی (پریس ریلیز): قربانی دراصل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم سنت کی یاد ہے جب وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے لخت جگر، نورِ نظر اور محبوب بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے چلے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک اس سنت کو زندہ و تابندہ کر دیا۔ کروڑوں مسلمان ہر سال اس ”ذبح عظیم“ کی یاد تازہ کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظیم سنت ہر سال ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے کہ اگر خدا کی دوستی چاہتے ہو تو ہر چیز کو اس کی رضا پر قربان کر دینے کے لیے تیار رہو۔ اگر دنیاوی اسباب کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے طلب گار ہو تو ایثار و قربانی اور اطاعت و وفا کی راہوں پر گامزن ہو جاؤ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں خصوصی رحمتوں کے متمنی ہو تو اس کے ہر حکم اور ہر اشارہ پر سر تسلیم خم کر دو۔ انہوں نے فرمایا کہ قربانی محض ایک رسم نہیں کہ جانور خریدا اور ذبح کر دیا۔ یہ عبادت ہے، اس میں ایک عظیم سبق ہے جسے ہم بھول چکے ہیں۔ اور یہ اس سبق کو بھولنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم دنیا میں عظیم افرادی قوت ہوتے ہوئے بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔ آج ہمارے پاس کونسی چیز نہیں؟ افرادی قوت بھی موجود ہے، وسائل بھی میسر ہیں، دولت کی بھی کمی نہیں اور ارباب فہم و دانش بھی موجود ہیں۔ پھر ہم کیوں سرگرداں ہیں؟ ہمیں اپنا راستہ اور منزل کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر سر جھکانے اور دین و ملت کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کی ادا بھلا دی ہے۔ محمد فرقان نے کہا کہ آج بھی ہم اطاعت خداوندی اور ایثار و قربانی کا راستہ اختیار کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت آگے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھامے گی۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ مرکز تحفظ اسلام ہند روز اول سے اکابرین کی سرپرستی میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔حالات کے پیش نظر مختلف پروگرامات اور کانفرنسوں کا انعقاد کرتے رہتا ہے۔ اسی طرح عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی کی فضیلت و اہمیت سے امت مسلمہ کو واقف کروانے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے یکم ذی الحجہ سے ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کا آغاز کیا۔ جس سے حضرت مولانا محمد مقصود عمران صاحب رشادی (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور)، حضرت مولانا مفتی ہارون صاحب ندوی (صدر جمعیۃ علماء جلگاؤں و ڈائریکٹر وائرل نیوز انڈیا)، حضرت مولانا سید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی (استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)، حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد صاحب قاسمی (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی (بانی و مہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور)، حضرت مولانا مفتی اشرف عباس صاحب قاسمی (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا مفتی افتخار احمد صاحب قاسمی (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے مختلف موضوعات پر بصیرت افروز خطاب فرمایا۔مرکز کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس کانفرنس کی اختتامی نشست09؍ ذی الحجہ مطابق 19؍ جولائی2021ء بروز پیر کی شب منعقد ہوئی۔جسکی صدارت دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی نے فرمائی، جبکہ بطور مہمانان خصوصی حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب رحمانی (سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) اور حضرت مولانا ابو طالب صاحب رحمانی (رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) شریک ہوئے اور اپنی قیمتی خطابات سے برادران اسلام کو مستفید فرمایا، البتہ بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کسی اہم مصروفیت کی وجہ سے شریک نہیں ہوپائے۔ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جارہا تھا، جسے دیکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔تمام حضرات علماء کرام نے یہ واضح پیغام دیا کہ عید قرباں کا مقصد جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دینا ہی قربانی ہے۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اسکے اندر نکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب اور حصول تقویٰ کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی کے ساتھ تمام حضرات اکابر علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام 12؍ جولائی 2021ء سے جاری ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کا اختتام 19؍ جولائی 2021ء کو مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی کے صدارتی خطاب و دعا سے ہوا۔ اس موقع پر مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کانفرنس سے خطاب کرنے والے تمام اکابر علماء کرام اور سننے والے تمام ناظرین اور اراکین مرکز تحفظ اسلام ہند کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج ملت اسلامیہ کو عید قرباں کا پیغام اور مقصد سمجھتے ہوئے اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

Wednesday, July 21, 2021

عید قرباں کا مقصد مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے!


عید قرباں کا مقصد مسلمانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے!

حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کی زیر صدارت مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس کی اختتامی نشست کا انعقاد!

مولانا عمرین محفوظ رحمانی اور مولانا ابو طالب رحمانی کا خصوصی خطاب!


ٍ بنگلور، 20؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام گزشتہ ایک ہفتے سے جاری عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی اختتامی نشست کل رات منعقد ہوئی۔ جسکی صدارت عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت نے فرمایا کہ قربانی بلا شبہ ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ جو ہر صاحب نصاب پر واجب ہے۔ آپؐ کا ہر سال پابندی سے قربانی کرنا اسکی اہمیت و فضلیت اور عند اللہ اسکے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ عید الاضحٰی حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی اور جاں سپاری کی یادوں کی سوغات لاتی ہے، جو انہوں نے اپنے رب کے حضور میں پیش کی تھی۔ جو قربانی اور جانثاری کی شاندار مثال ہے۔ حضرت ندوی مدظلہ نے فرمایا کہ عید قرباں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس انوکھے عمل کی یاد دلاتا ہے جب آپ ؑ نے اپنے نور نظر لخت جگر اور بے حد فرمانبردار بیٹے کو اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنی طرف سے قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے تھے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دکھایا تھا جس کو پورا کرنا ہمہ شمہ اور بڑے سے بڑے کے بس میں نہیں تھا اور نہ ہے۔ بات کہنے میں بڑی آسان لگتی ہے کہ رضائے الٰہی کیلیے ایک باپ نے اپنے اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلادی۔ تصورات کی دنیا میں یہ امر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ لیکن دل اگر نور ایمانی سے معمور ہو اور جذبہئ روحانی سے روشن ہو جسکا ظاہر معرفت خداوندی سے مزین اور جسکا باطن محبت و اطاعت اور تسلیم و رضا سے منور ہو تو خدا کی محبت میں ہر چیز کا لٹانا آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ قربانی کے لیے اخلاص ضروری ہے۔ اخلاص اللہ کو بے حد پسند ہے۔ اخلاص کے نتیجہ میں بظاہر معمولی عمل بھی اللہ کے نزدیک غیر معمولی ہو جاتا ہے۔ قربانی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی یاد میں کی جاتی ہے۔ وہ ان دونوں ہستیوں کا اخلاص ہی تھا اور اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع فرمان کرنے کا جذبہ تھا جو اللہ کو اس قدر پسند آیا ہے کہ اس نے قیامت تک آنے والے ان تمام انسانوں کے لیے جو ایمان لائیں گے اس عمل کو لازم قرار دے دیا۔ حضرت رابع صاحب نے فرمایا کہ قربانی تو محض ایک علامت ہے، خون کا بہانا اور جانور کی گردن پر چھری کا چلانا یہ صرف علامت اورنشانی ہے، حقیقی قربانی تو اپنے جذبات، خواہشات، اپنے ارمانوں اور آرزؤں کی دینی ہے، خدا عزوجل کے احکام کے سامنے اپنے کو خم کرنا ہے، ہر حکم خدا وندی کے سامنے اپنے آپ کو جھکا لینا ہے۔ اسی کے ساتھ قربانی کی اس عظیم یادگار سے ہمیں پیغام یہ ملتا ہے کہ آج اس جانور کا خون اللہ تعالیٰ کے حکم پر بہایا جا رہا ہے، اگر ضرورت پڑی تو دین اسلام کی خاطر اسی طرح اپنے مال اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دوں گا۔ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب نے فرمایا کہ ضرورت ہے کہ ہم قربانی کی اس روح اور پیام و پیغام کو سمجھیں اور اس سے حاصل ہونے والے دروس و عبرت سے نفع اٹھائیں اور زندگی کے جس موڑ پر ہم سے جیسی قربانی مانگی اور چاہی جائے ہم اس کے لئے اپنے کو تیار رکھیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے فرمایا کہ عید قرباں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اور سنت ہے جس میں انہوں نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔ یہ قربانی ہماری اطاعت اور ہماری آمادگی کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم حکم خدا پر اپنی محبوب شے کو بھی قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کریں گے۔ عید قرباں کا مقصد بھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا یہی قربانی ہے۔ اس سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے اور فکر آخرت میں مگن رہیں۔


کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے فرمایا کہ عید قرباں کے موقع پر پوری دنیا میں مسلمان حکم خداوندی کی تعمیل میں کثیر تعداد میں جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔ یقیناً قربانی ایک مہتم بالشان عمل ہے اور بلاشبہ بڑے شوق وذوق سے مسلمانوں کو قربانی کرنی بھی چاہئے۔ اسی کے ساتھ ہمیں صفائی و ستھرائی کا بھی بھر پور خیال رکھنا چاہیے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو صفائی ستھرائی اور نظافت و پاکیزگی کا بڑا تاکیدی حکم دیا ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور صفائی ستھرائی کا خوب خیال رکھیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے تو اللہ اس نعمت کو واپس چھین لیتا ہے۔ ذی الحجہ کا مبارک مہینہ میں پوری دنیا سے لوگ حج بیت اللہ کیلئے سفر کرتے تھے لیکن کرونا کی وجہ سے امسال بھی ہم لوگ اس سے محروم رہے۔ شاید ہم لوگوں نے اس نعمت کی ناقدری کی ہے، ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی چاہیے اور اسکی قدر کرنی چاہیے۔


قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمدفرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے مرکز کی خدمات پر مختصر روشنی ڈالی۔صدر جلسہ سمیت تمام حضرات علماء کرام نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام مقررین و سامعین اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب کی دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوا۔

Tuesday, July 20, 2021

یوم عرفہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل دن ہے، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے!


 

یوم عرفہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل دن ہے، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی ساتویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر اور جامعہ اسلامیہ تعلیم القرآن کے مہتمم حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ماہ ذی الحجہ کو بڑی فضیلت و اہمیت سے نوازا ہے۔ بالخصوص ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے ایام ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے اور اللہ تعالیٰ معمولی چیزوں کی قسم نہیں کھاتے بلکہ مہتم بالشان چیزوں کی قسم کھاتے ہیں۔ چنانچہ چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی“ یہاں دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج کا اہم رکن اور وقوف عرفہ منیٰ میں قیام اور قربانی کا عظیم فریضہ بھی اسی عشرے میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے خاص فضل و کرم حاصل کرنے کا عشرہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ میں عبادتوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایام میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ ان دس دنوں میں ہر نیک عمل کا اجر وثواب دوسرے دنوں کی بنسبت زیادہ ہے۔ پہلے نو دنوں میں سے کسی بھی دن روزہ رکھنا خاص ثواب رکھتا ہے۔ لیکن عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کے روزے کی فضیلت زیادہ ہے۔ نبی کریمﷺ سے عرفہ کے روزے کے متعلق دریافت کیے جانے پر فرمایا کہ ”گذشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔“ مولانا نے ایک اورحدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہیکہ ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں شیطان اتنا زیادہ ذلیل و خوار، حقیر اور غیظ سے پُر دیکھا گیا ہو جتنا وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے، جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے اسی کے ساتھ فرمایا کہ 9؍ ذوالحجہ کی فجر سے 13؍ ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز کے ساتھ ایک بار تکبیرات تشریق پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اور ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے۔ مولانا نے قربانی کی اہمیت و فضیلت بتاتے ہوئے فرمایا کہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ اور دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ کو نہ ہمارے قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون؛ لیکن اس کے پاس ہمارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال و وقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ کرونا وائرس کے اس خوف ناک ماحول میں ہم سب کی حتی الامکان کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا زیادہ سے زیادہ وقت طاعت و عبادت میں صرف ہو، ہم اپنے شب وروز مالک الملک کو منانے اور روٹھے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں گزاریں، معاصی اور گناہوں سے کلی اجتناب کی فکر کریں بالخصوص آنکھ اور زبان کے گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ کی پہچان اور شناخت کا دن ہے! مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد اشرف عباس قاسمی کا خطاب!



 یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ کی پہچان اور شناخت کا دن ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد اشرف عباس قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی محمد اشرف عباس صاحب قاسمی نے فرمایا کہ سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینے: محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ جس طرح بڑے احترام وعظمت والے مہینے ہیں ٹھیک اسی طرح دنوں میں چار دن: عیدین، جمعہ اور عرفہ کے دن بڑے احترام والے دن ہیں، پہر ہفتہ بھر کے دنوں میں افضل دن تو جمعہ کا ہے! لیکن سال بھر میں سب سے افضل ترین دن نو ذی الحجہ یعنی عرفہ کا دن ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرفہ، ماہ ذوالحجہ کے نویں دن کو کہا جاتا ہے، جس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے لہٰذا اس مناسبت سے تاریخ اسلام میں کثیر تعداد میں روایات و احادیث ملتی ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ عرفہ حج کا اعظم رکن ہے۔ عرفہ کا مطلب معرفت کرانا یا پہچاننا ہے۔ یہ دین اسلام کی تکمیل اور نعتموں کے اتمام کا دن ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرفہ کا دن اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی قسم کھائی ہے۔ مولانا قاسمی نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یوم عرفہ سے زیادہ کسی اور دن میں اپنے بندوں کو آگ سے آزادی نہیں دیتا، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے قریب ہوتا اور پھر فرشتوں کے سامنے بندوں کے تعلق سے فخر کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے دو سال کے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں یعنی عرفہ کا روزہ گزرے ہوئے اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ مولانا نے ایک اہم مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ روزہ رکھنے والے کے شہر و ملک میں 9؍ ذی الحجہ کی تاریخ جس دن پڑے گی وہ اسی دن روزہ رکھیں، ان کا عرفہ وہی دن ہوگا، کیونکہ میدان عرفات میں حجاج کے قیام کی تاریخ دنیا کے دیگر آبادی و شہر والوں کے لئے اس بابت دلیل و حجت نہیں۔ مولانا اشرف عباس قاسمی نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ”عرفہ ہی حج ہے“- انہوں نے فرمایا کہ وقوفِ عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدانِ عرفات میں پہنچنا اس کے حج کی ادایگی کے سلسلے میں سب سے بڑا رُکن ہے، جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چناں چہ حج کے دو رکنوں؛ طواف الافاضہ اور وقوفِ عرفات میں وقوفِ عرفات چوں کہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے، اس لیے اگر یہ ترک ہو گیا تو حج ہی نہیں ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ عظیم دن ہمیں یوم حشر رب کے حضور پیشی کی فکر اور عملی تربیت بھی مہیا کرتا ہے کہ کچھ اسی طرح سے مخلوق حشر میں اپنے اعمال کی جوابدہی کیلئے اللہ کے حضور پیش ہوگی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ یوم عرفہ، اللہ تعالیٰ کی پہچان اور شناخت کا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ہے اور اپنے بندوں کے لیے اپنے احسان وکرم اور جود و سخا کے دستر خوان بچھا دیئے ہیں، یہ دن اللہ تعالیٰ کی پہچان، معرفت اور محبت کا مظہر ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ دن نہایت مبارک ہے کہ اس میں حج کا سب سے بڑا رکن ”وقوف عرفہ“ ادا ہوتا ہے، اور اس دن بے شمار لوگوں کی بخشش اور مغفرت کی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس دن روزہ، تلاوت، ذکر و استغفار کا کثرت کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی اشرف عباس صاحب قاسمی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Monday, July 19, 2021

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کا آج اختتامی اجلاس!



 مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کا آج اختتامی اجلاس!

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کی زیر صدارت منعقد ہوگا یہ پروگرام!

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا عمرین محفوظ رحمانی، مولانا ابو طالب رحمانی بطور مہمانان خصوصی شریک ہونگے! 


بنگلور، 19؍ جولائی (پریس ریلیز) : مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام گزشتہ ایک ہفتے سے ”سلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ پورے زور و شور کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ ہزاروں لوگ اس سلسلے سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ ہے۔ جو روزانہ رات بعد نماز عشاء منعقد ہوتی ہے۔ اس کانفرنس سے اب تک ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرما چکے ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب اس کانفرنس کا اختتامی پروگرام آج بروز پیر بتاریخ 19؍ جولائی 2021ء رات 8:45 بجے منعقد ہونے جارہا ہے۔ انہوں تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ اختتامی پروگرام کی صدارت عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت مرشد الامت حضرت اقدس مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی دامت برکاتہم (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) فرمائیں گے اور انہیں کے خطاب و دعا سے یہ کانفرنس اختتام پذیر ہوگا۔ علاوہ ازیں اس عظیم الشان اختتامی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ (کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و ناظم المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد)، شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب رحمانی مدظلہ (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و سرپرست مرکز تحفظ اسلام ہند)، خطیب بے باک حضرت مولانا ابو طالب صاحب رحمانی مدظلہ (رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) شریک رہیں گے اور کانفرنس سے خطاب بھی فرمائیں گے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے برادران اسلام سے گزارش کی کہ وہ آن لائن ہفت روزہ کانفرنس کی اس عظیم الشان اختتامی نشست میں کثیر تعداد میں شرکت فرماکر حضرات اکابرین کے خطابات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ کانفرنس مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔

Sunday, July 18, 2021

قربانی حصول تقویٰ و تقرب الٰہی کا انتہائی مستند اور مفید ذریعہ ہے!



 قربانی حصول تقویٰ و تقرب الٰہی کا انتہائی مستند اور مفید ذریعہ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی کا خطاب!


 بنگلور، 17؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی پانچویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور کے بانی، مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب نے فرمایا کہ قرب الٰہی کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت ضروری ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، قربانی اور دیگر اعمال صالحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہے۔ بالخصوص قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا انتہائی مستند اور مفید ذریعہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی بارگاہ الٰہی میں تقرب حاصل کرنے کے لیے ہی اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کی تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قبول فرمانے کے بعد عظیم بشارت سے سرفراز کیا اور یہ ادا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اس کو برقرار رکھا۔مولانا نے فرمایا کہ قربانی ایک عظیم عبادت اور اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بہترین ذریعہ ہے جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے، قرآن کہتا ہے: ”ہر امت کیلئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ اس امت کے لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جواس نے ان کو بخشے ہیں۔“ مولانا نے فرمایا کہ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم ؐسے پوچھا: ”یا رسول اللہؐ! یہ قربانی کیاچیز ہے؟“ آپ نے ارشاد فرمایا: ”یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔“ پھر انہوں نے عرض کیا ”یا رسول اللہؐ! ہمارے لیے ان میں کیا اجر ہے؟“ آپؐ نے فرمایا کہ”قربانی کے جانور کیہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔“ مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی نے فرمایا کہ انسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے، جو تقرب الٰہی اور کیفیت تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں اور یہ تقرب الٰہی، کیفیت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی لہٰذا اطاعت کیلئے قربانی ضروری ہے۔ مولانا نے قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے پاس نہ ہمارے قربانی کے جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون بلکہ ہمارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مقصود ان جانوروں کا خون یا ان کا گوشت نہیں بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کس قدر یقین رکھتے ہیں؟ اس کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں؟ مولانا نے فرمایا کہ تقویٰ کی صفت اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کو ترجیح دے کر انہیں اختیار کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتا ہے تووہ خالصۃً للہ ہوتا ہے۔ اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ مولانا مفتاحی نے فرمایا کہ عیدالاضحی کا مقصد بھی جذبہئ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق رضائے الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا یہی قربانی ہے۔ اس سے ان کو یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد ِزندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اسکے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اور ہر صاحب نصاب کی طرف سے الگ الگ قربانی دینا لازم اور واجب ہے!



 قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اور ہر صاحب نصاب کی طرف سے الگ الگ قربانی دینا لازم اور واجب ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی محمد شفیق احمد قاسمی کا خطاب!


 بنگلور، 17؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی چوتھی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ امام ابوحنیفہ بنگلور کے مہتمم اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے فرمایا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بالخصوص قربانی کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ ذی الحجہ کو بڑی فضیلت سے نوازا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اور ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمہ قربانی کرنا واجب ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی۔ کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ مولانا قاسمی نے متعدد احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپؐ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓکی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔ مفتی شفیق احمد قاسمی نے فرمایا کہ حضور ؐ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی، اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، لیکن قربانی کرنے والا اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلیتا تھا۔ مولانا نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے ساتھ سارے گھر والوں کو شریک کر لے تو یہ جائز ہے، اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا کہ یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چوں کہ آپؐ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا اس لیے اب امت کے ذمہ سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپؐ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ مفتی صاحب نے اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی تو جن حدیثوں میں بڑے جانور گائے، اونٹ، وغیرہ کو سات کی طرف سے متعین کیا گیا ہے، اس کے کیا معنی ہوں گے؟ کیوں کہ نصوص کی روشنی میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ ایک بکری گائے کے ساتویں حصے کے برابر ہے، لہٰذا اگر ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوجائیں تو بمقتضائے تحدید کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہو جائے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر ایک گھر میں مثلاً دس افراد صاحبِ نصاب ہوں تب بھی ایک بکری گھر کے تمام دس افراد کی طرف سے کافی ہوجائے اور سب کی قربانی ادا ہو جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بکری تو دس افراد کی طرف سے کافی ہو جائے اور ایک گائے آٹھ افراد کی طرف سے کافی نہ ہو، اور اگر یہ کہا جائے کہ گائے کا ساتواں حصہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا تو پھر تو ایک گائے کے اندر صرف سات افراد نہیں بلکہ ساٹھ، ستر افراد کی قربانی ہو سکے گی جو کہ واضح طور پر نصوص کے خلاف ہے۔ مفتی شفیق احمد قاسمی نے فرمایا کہ خلاصہ یہ ہے کہ گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Saturday, July 17, 2021

عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کا اہتمام کریں، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے!



 عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کا اہتمام کریں، قربانی شعائر اسلام میں سے ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی کا خطاب!


 بنگلور، 16؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث پیر طریقت حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی صاحب نے فرمایا کہ قمری کیلنڈر کا آخری مہینہ ذی الحجہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے ان دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت و فضیلت کی واضح دلیل ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کو سب سے اعلیٰ و افضل قرار دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو نیک عمل جتنا محبوب ہے اس کے علاوہ دیگر دنوں میں نہیں۔ مولانا نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ ”اور دنوں میں بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھرکے روزوں کے برابر اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں“۔مولانا نقشبندی نے فرمایا کہ حج جیسی عظیم عبادت بھی اسی عشرہ میں انجام دی جاتی ہے۔ اور حج کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی عید، عید الاضحی بھی ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو ہوتی ہے۔ نیز قربانی جیسا عظیم عمل بھی اسی مہینے میں انجام دیا جاتا ہے۔مولانا احمد ومیض ندوی نے فرمایا کہ یوں تو ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں، جن میں بڑی بڑی عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں یعنی نماز، روزہ، حج اور قربانی۔ ان تمام خصوصیات کی بناہ پر ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی اہمیت اور افضلیت دو چند ہوجاتی ہے۔ یہ ایام اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے، ہمیں ان بابرکت ایام میں بڑھ چڑھ کر نیک اعمال کرنا چاہیے، بالخصوص ذکر اللہ کی کثرت، نفلی روزے، رات کا قیام، نوافل کا اہتمام، تلاوت قرآن، صدقہئ و خیرات، عرفہ کا روزہ اور قربانی کا اہتمام کرنا چاہئے۔ مولانا نے قربانی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ قربانی ایک عظیم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے، جو ہر ایسے عاقل و بالغ، مقیم، مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو قربانی کے دنوں میں گھرکے ضروری ساز وسامان کے علاوہ ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسکی مالیت کا مالک ہو۔ مولانا نے فرمایا کہ کا مقصد حصول تقوی ہے یعنی قربانی نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کیا جائے، نام و نمود، شہرت، ریاکاری، اور دکھلاوا سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے، ورنہ قربانی کا جو ثواب ہے اس سے محرومی مقدر ہے۔ بہت سارے لوگ جانوروں کی خریداری میں تقابلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور نمائش کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں جو قطعاً درست نہیں، لہٰذا اس سے بچا جائے۔ اسی کے ساتھ قربانی کے موقع پر ہمیں پاکی صفائی کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر پیر طریقت حضرت مولانا سید احمد ندوی نقشبندی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

قربانی نمائش یا کسی رسم کا نام نہیں بلکہ ایک عبادت اور مذہبی فریضہ ہے!


 قربانی نمائش یا کسی رسم کا نام نہیں بلکہ ایک عبادت اور مذہبی فریضہ ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس سے مفتی ہارون ندوی کا خطاب!


 بنگلور، 16؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء جلگاؤں کے صدر اور وائرل نیوز کے ڈائریکٹر حضرت مولانا مفتی ہارون ندوی صاحب نے فرمایا کہ قربانی اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔اسی لئے اس عمل کو بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے۔ بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے ہی چلا آرہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا۔ البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے۔ انہی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہؐ کو عیدالاضحٰی کی قربانی کی صورت میں عطاء فرمائی ہے جو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے۔ اور اسی کی یادگار کے طور پر امت محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ عید الاضحٰی کے نماز کے بعد قربانی ادا کی جاتی ہے اور مسلمانان عالم کو قربانی کا فریضہ سر انجام دے کر اتنی خوشی نصیب ہوتی ہے کہ سارے سال میں کسی اور دن نہیں ہوتی۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے ہمارے ملک میں بعض فرقہ پرست لوگ یہ غلط فہمی پیدا کررہے ہیں کہ جس شخص پر قربانی واجب ہو، اس کی طرف سے قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے کے بجائے بہ قدر قربانی نقد قیمت صدقہ کرنا چاہیے یا جانوروں کی قربانی کے بہ جائے مٹی کے بکرے ذبح کرکے علاماتی طور پر قربانی انجام دینے پر اکتفا کریں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ حضرات کو سمجھ لینا چاہئے کہ قربانی شعائر اسلام میں ہے اور ملک ہند کے دستور نے ہمیں ہمارے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی دی ہے اور یہ ہمارا جمہوری حق بھی ہے۔ اور علاماتی قربانی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ قربانی کرنا محض گوشت کھانے کے لیے نہیں بلکہ یہ خدا و رسول کے احکام و سنت کی اتباع ہے۔ جسکی ادائیگی سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عبادت قربانی کے جانوروں کا خون بہانا ہے، جتنے زیادہ جانوروں کی قربانی ہوگی، اتنا اللہ کا قرب نصیب ہوگا اور یہی زیادہ افضل ہے۔ نیز یہ بھی واضح ہو کہ عمدہ جانور لینے والے کو قربانی کے جانور کے لیے زیادہ پیسے خرچ کرنے پر ملامت نہیں کی جائے گی کیونکہ فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ قربانی کا جانور صحت مند اور فربہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا جن جانوروں میں قربانی کی شرائط مکمل ہوں، ایسے زیادہ جانور لینا اگرچہ افضل ہے، لیکن کوئی مہنگا جانور خریدنا چاہے تو اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے اور مہنگا جانور خریدنا جائز ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہو کہ مہنگا جانور یا زیادہ جانور خریدنا محض قربانی کی عبادت کو عمدہ طریقے سے ادا کرنے کی نیت سے ہو، نمود و نمائش کی نیت سے نہ ہو۔ کیونکہ ریاکاری عبادات کو باطل کردیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ قربانی کو نمود ونمائش کا عمل اور مذاق بنانے والے قابل مذمت ہیں۔ مفتی ہارون ندوی نے فرمایا کہ قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے یہ نمائش یا کسی رسم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عبادت اور مذہبی فریضہ ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی ہارون ندوی صاحب نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

Friday, July 16, 2021

عشرۂ ذی الحجہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل، قربانی کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہیے!

 



عشرۂ ذی الحجہ بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل، قربانی کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہیے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ہفت روزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


 بنگلور، 15؍ جولائی (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی پہلی و افتتاحی نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب نے فرمایا کہ ذی الحجہ کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ جو اسلامی مہینوں کا آخری مہینہ ہے۔ اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالی نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا ہے، ان میں سے ایک ذوالحجہ کا مہینہ بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورۃ الفجر میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حج جیسا عظیم فریضہ اور اسکا اہم رکن وقوف عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ مولانا نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمام دنوں میں کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کی نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہے۔ بالخصوص عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ عشرۂ ذی الحجہ میں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں۔ مولانا رشادی نے قربانی کے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے، عید الاضحی کا دن مسلمانوں کے لیے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، یہ دن صرف عید کی خوشی میں مست ہوجانے والا دن نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام اور سبق دینا والا دن ہے، مسلمان عید الاضحٰی کے دن جانور کی قربانی کرتے ہیں، اور صاحب حیثیت اور مالک نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب و مقصود رضاء الٰہی ہونی چاہیے اور قربانی کے جانوروں کی نمائش سے حتیٰ الامکان بچنا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا کہ قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال و وقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں۔ مولانا نے قربانی کے اہم مسائل پر اور جانور کی خریداری پر خصوصی روشنی ڈالی۔ علاوہ ازیں فرمایا کہ قربانی کے وقت ہمیں پاکی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور قربانی کے گوشت کی تقسیم میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کی افتتاحی نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ جسکا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور مرکز کے رکن حافظ محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو خوب سراہا اور انہیں کی دعا سے یہ افتتاحی نششت اختتام پذیر ہوئی۔

Monday, July 12, 2021

عشرۂ ذی الحجہ کی برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں!

 



عشرۂ ذی الحجہ کی برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی کا آغاز!


بنگلور، 12؍ جولائی (پریس ریلیز): ماہ ذی الحجہ اسلامی سال کا سب سے آخری مہینہ ہے اور قرآن پاک میں جن چار مہینوں کے حرمت والے ہونے کا تذکرہ ہے، ان میں سے ایک ذی الحجہ بھی ہے۔ اسلام کے سارے ہی مہینے محترم اور قابل عظمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں کو خاص فضیلت اور عظمت سے نوازا ہے۔ ان میں سے ایک ذی الحجہ کا مہینہ بھی ہے، جس کا احترام شروع زمانہ سے چلتا آرہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں کچھ عبادتوں کو رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ ماہ ذی الحجہ کو مختلف عبادات کی وجہ سے خصوصی مقام اور امتیاز حاصل ہے، حج جیسی عظیم عبادت بھی اسی ماہ میں انجام دی جاتی ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام ذی الحجہ ہے یعنی حج والا مہینہ ہے۔ ماہ ذی الحجہ کی عظمت اور فضیلت اس وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے کہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کے دو برگزیدہ پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم وحضرت سیدنا اسماعیل علیہما السلام سے ہے اور اس ماہ میں اللہ کی راہ میں ان کی دی ہوئی قربانی کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے اور عزم کیا جاتے ہیکہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین اور اسکی رضا کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے آن لائن پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت و اہمیت کو بیان فرمایا اور نبی کریمﷺ نے امت کو عشرۂ ذی الحجہ کی قدردانی سے آگاہ فرمایا۔ انہوں نے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو عید منائی جاتی ہے، عید الاضحٰی کا دن مسلمانوں کے لیے بہت ہی تاریخی اور عظمت کا حامل دن ہے، یہ دن صرف عید کی خوشی میں مست ہوجانے والا دن نہیں بلکہ ایک عظیم پیغام اور سبق دینا والا دن ہے، مسلمان عید الاضحٰی کے دن جانور کی قربانی کرتے ہیں، اور صاحب حیثیت اور مالک نصاب افراد اپنی جانب سے قربانی انجام دیتے ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر نے فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کی خصوصیت اور فضیلت احادیث میں بکثرت آئی ہیں اور اسلام کے اہم ترین عبادات اس میں انجام دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس کی تعظیم اور احترام کرنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ عبادات وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بالخصوص معاصی اور گناہوں کے کاموں اور نافرمانی والے اعمال سے بچنا چاہیے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی عظمت کو بڑھا دیا اور اس میں عبادت انجام دینے پر اجر وثواب میں زیادتی ہوگی، اسی طرح اس دنوں کو بے حرمتی کرتے ہوئے گناہوں کا ارتکاب کرنے پر سزا اور عتاب میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی کی فضیلت و اہمیت سے امت مسلمہ کو واقف کروانے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے ”سلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ کا آغاز کیا جارہا ہے۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے یومیہ نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ روزانہ صبح 11؍ بجے ایک ایک مختصر ویڈیو پیغام بنام واٹساپ اسٹیٹس بھیجی جائے گی، دوپہر دو بجے عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت پر ایک حدیث یا قرآنی آیت کا اشتہار بھیجا جائے گا، اسکے علاوہ روزانہ رات 9:30 بجے ”عظیم الشان آن لائن ہفت روزہ کانفرنس بسلسلہ عشرۂ ذی الحجہ و قربانی“ منعقد ہوگی۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرمائیں گے۔ انہوں نے برادران اسلام سے کثیر تعداد میں شرکت کرنے کی اپیل کی۔اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوریٰ مولانا محمد طاہر قاسمی نے مرکز کی خدمات پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان فرمائے اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بستوی نے تمہیدی گفتگو کے ساتھ پریس کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دئے۔ علاوہ ازیں مرکز کے رکن شوریٰ مولانا سید ایوب مظہر قاسمی نے ذی الحجہ کی فضیلت اور مرکز کے رکن مولانا بلال احمد حسینی نے قربانی کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے برادران اسلام سے اس اہم پروگرام میں شرکت کی اپیل کی۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان نے تمام صحافی حضرات، ناظرین، اراکین مرکز تحفظ اسلام ہند کا شکریہ ادا کیا۔

Saturday, July 10, 2021

ذکر اللہ ہی شیطان سے نجات دیتا ہے، معاشرے کو موبائل فون کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے!


 ذکر اللہ ہی شیطان سے نجات دیتا ہے، معاشرے کو موبائل فون کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے! 

امیر الہند منتخب ہونے پر جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے منعقد تہنیتی اجلاس سے امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی کا خطاب!


 بنگلور، 10 جولائی (پریس ریلیز): امیر الہند خامس منتخب ہونے کے بعد گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم شہر گلستان بنگلور کے دورہ پر تشریف لائے تھے۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جمعیۃ علماء کرناٹک نے مدرسہ علوم الشرعیہ، سجاپورہ، بنگلور میں ایک تہنیتی اجلاس منعقد کیا۔ جس میں جمعیۃ علماء کرناٹک کے اراکین عاملہ، مختلف اضلاع کے صدور ونظماء اور ریاست کے مؤقر علماء کرام نے شرکت کی۔ اس خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے فرمایا کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ جو قیامت تک آنے والے ہر ایک انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ کوئی آدمی کتنا ہی بڑا بن جائے لیکن شیطان کے شر سے کوئی محفوظ نہیں سوائے ذکر الٰہی میں مشغول ذاکرین کے۔ کیونکہ ذکر اللہ ہی شیطان سے نجات دیتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ آج مسلمانوں کو باآسانی گناہوں کی طرف جو شیطان لے جاتا ہے اس کا سبب ذکر اللہ سے غفلت اختیار کرنا ہے۔ کیونکہ جو لوگ ذکر الٰہی سے غافل رہتے ہیں شیطان انہی کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ شیطان اسی وقت دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، جب وہ ذکر الٰہی سے غافل ہو۔ اگر قلب ذکر اللہ کی طرف راغب ہے، تو شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ وہاں سے چل دیتا ہے۔ امیر الہند نے فرمایا کہ شیطان انسان کے دل پر چاروں طرف سے چھایا رہتا ہے، جب قلب ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے تو شیطان سکڑ کر دبک جاتا ہے۔ کیونکہ ذکر الٰہی کے سامنے شیطان ٹک نہیں سکتا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہیں اور ذکر الٰہی سے کبھی غافل نہ ہوں۔حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے موبائل کے غلط استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ موبائل فون نے انسانی زندگی کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کے پاس آج موبائل فون موجود ہے۔ موبائل فون نے عام آدمی کی زندگی کو تو آسان بنا دیا لیکن ضرورت کی اس چیز کے غیر ضروری استعمال نے آج ہمیں اخلاقی اور سماجی پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ موبائل فون کے غیر ضروری استعمال سے معاشرے میں فحاشی اور عریانی میں بھی غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ موبائل کے کیمرے اور انٹرنیٹ سمیت کئی دوسری چیزیں نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کا باعث بن رہی ہیں اور فحش قسم کی تصویریں اور ویڈیو کلپس سے بھی معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ امیر الہند نے فرمایا کہ آج کل موبائل فون کے فوائد سے زیادہ، اس کے نقصانات اور تباہ کاریاں ہیں۔ اس کے غلط استعمال کی کثرت کی وجہ سے وقت کی قدر و قیمت کا احساس فنا ہوگیا ہے اور وقت ضائع کرنے کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے۔انہوں نے فرمایا کہ موبائل فون کی تباہ کاریوں اور فتنہ انگیزیوں کے مناظر دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہیکہ ہمارا معاشرے کہاں سے کہاں جارہا ہے؟ مولانا مدنی نے فرمایا کہ ایک مسلمان کا ہر کام شریعت کے عین مطابق ہونا چاہئے، بالفرض ناجائز و گناہ کے کاموں میں اس کا استعمال نہ بھی کیا جائے، صرف فضول کاموں میں ہی استعمال کیا جائے، جب بھی اس سے بچنا ہی چاہئے، کیونکہ فضول کام وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ آدمی کے اسلام کی لذت و حلاوت اور حسن پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس کہ وجہ سے انسان اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں موبائل فون کے غلط استعمال سے بچنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت کے امیر الہند منتخب ہونے پر انکی خدمت میں جمعیۃ علماء کرناٹک کی جانب سے ایک تہنیت نامہ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی، جنرل سکریٹری محب اللہ خان امین، نائب صدر مولانا شمیم سالک مظاہری، قاری مرتضیٰ خان، مولانا عبدالوحید مفتاحی، رکن عاملہ حافظ ایل محمد فاروق، جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانا محمد صلاح الدین قاسمی سمیت اراکین جمعیۃ علماء کرناٹک بطور خاص شریک تھے۔ نیز جمعیۃ علماء تمل ناڈو کے صدر مفتی سبیل احمد قاسمی، جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مفتی افتخار احمد قاسمی، دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور کے مہتمم مولانا محمد زین العابدین رشادی مظاہری، جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب مولانا محمد مقصود عمران رشادی، اقراء انٹرنیشنل اسکول بنگلور کے بانی و چیرمین محمد نذیر احمد، سماجی کارکن سید شفیع اللہ وغیرہ بھی شریک تھے۔ حضرت صدر محترم امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی دعا سے یہ خصوصی پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

Tuesday, July 6, 2021

”امیر الہند خامس“ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب حیات و خدمات!



”امیر الہند خامس“ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب حیات و خدمات!


✍️ بندہ محمّد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)


ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے مسائل کا شرعی حل ممکن نہیں رہ گیا تھا، اس لیے کہ عدالتوں میں مسلم جج نہیں رہ گئے تھے اور جو تھے وہ شرعی نظام کو پیش نظر نہیں رکھتے تھے، اس لیے شرعی درالقضاء کا قیام ایک ناگزیر ضرورت تھا۔مسلمانان ہند کی مؤقر تنظیم ”جمعیۃ علماء ہند“ نے اپنے قیام کے روز اول ہی سے وطن عزیز میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی اور احکام شریعت کے نفاذ اور اجراء کیلئے امارت شرعیہ کے نظام کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ایک سال بعدسن 1920ء میں جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی ؒ مالٹا کی جیل سے واپس تشریف لائے تو آپ کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر منتخب کیا گیا، اور آپ کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس دوم منعقد ہوا۔ اس میں حضرت شیخ الہند ؒ نے قومی سطح پر ”امارت شرعیہ ہند“ کے نظام کو قائم کرنے اور ”امیر الہند“ کے انتخاب کی تجویز پیش کی۔ لیکن اس وقت چند دشواریوں کی وجہ سے یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بعد میں محض بارہ دن بعد صاحبؒ کا انتقال ہوگیا، تو ان کے جانشین حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ نے اس مشن کو آگے بڑھایا، لیکن بعض وجودہ سے اس وقت یہ کام آگے نہیں بڑھ پایا، البتہ صوبائی طور پر حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد صاحبؒ بہار میں امارت شرعیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔تاہم کل ہند سطح پر امارات شرعیہ ہند کے قیام کی کوششیں بعد میں بھی جاری رہیں۔ بالآخر 02؍ نومبر 1967ء کو مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند نئی دہلی میں ایک نمائندہ اجتماع بلایا گیا اور ”امارت شرعیہ ہند“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس عظیم نمائندہ اجتماع میں چودہ صوبوں کے ارباب علم و دانش علماء کرام، مفتیان عظام، فقہاء و محدثین، دینی مدارس کے اساتذہ و مشائخ طریقت اور دوسرے اہل مسلم اور دانشوروں کے درمیان ”امیر الہند“ کے انتخاب کی تجویز پیش کی گئی۔ اس سلسلے میں صرف ایک نام آیا اور وہ محدث کبیر ابو المآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحبؒ کا تھا۔پورے اجتماع کے اتفاق رائے سے حضرت کو امیر الہند منتخب کرلیا گیا۔انکی رحلت کے بعد 09؍ مئی 1992ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ، بعد ازاں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوریؒ اور پھر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوریؒ کو بالترتیب امیر الہند منتخب کیا گیا۔ امیر الہند رابع حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ ہند کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ جلد از جلد نئے امیر کا انتخاب کیا جائے۔ اسی کے پیش نظر مؤرخہ 03؍ جولائی 2021ء مطابق ۲۲؍ ذی القعدہ ١٤٤٢ھ بروز سنیچر کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں امارت شرعیہ ہند کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں ملک بھر سے امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد شریک ہوئے۔ اور باتفاق رائے عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم قائد، اکابرین دیوبند کے عملی ورثہ کے امین، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے سچے جانشین، تقویٰ و طہارت کے امام، مروت کے شہنشاہ، میدان خطابت کے شہسوار، نامور محدث، باکمال مدرس، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیس، جمعیۃ علماء ہند کے صدر، ہزاروں اداروں کے سرپرست، ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، شیر ہند، جانشین شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو ”امیر الہند خامس“ منتخب کرلیا گیا، الحمدللہ۔ انتخاب کے بعد اجلاس میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔

سراپا رشد ہے ارشاد ہے ارشد کی پیشانی

انہیں کا کام ہے دینی شعائر کی نگہبانی


امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی پیدائش 1360ھ مطابق سن 1941ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم دیوبند ہی میں حضرت شیخ الاسلام کے خلیفہ مجاز و خادم خاص حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحب سہسپوریؒ کے زیر نگرانی حاصل کی اور انہیں کے پاس ناظرہ و حفظ قرآن بھی مکمل کیا۔ پھر متوسط اور اعلیٰ تعلیم کے لئے سن 1959ء میں باضابطہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1383ھ مطابق سن 1963ء میں فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مرادآبادیؒ سے بخاری شریف پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔دارالعلوم دیوبند میں آپ نے جن اکابر علماء کرام سے استفادہ اور شرف تلمذ حاصل کیا ان میں حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ سے، حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلندشہریؒ، حضرت علامہ فخرالحسن صاحب مرادآبادیؒ، حضرت مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا عبد الجلیل صاحب دیوبندیؒ، اور حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ جیسے اساطین علم و فن شامل ہیں۔


دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جانشین شیخ الاسلام امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ سن 1965ء میں بہار کے مرکزی ادارہ ”جامعہ قاسمیہ ضلع گیا“ میں مدرس مقرر ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سال تک یہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر سن 1967ء کی ابتداء میں آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور تقریباً چودہ ماہ وہاں مقیم رہے، پھر دوبارہ ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ چونکہ دارالعلوم دیوبند میں زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کا حضرت مولانا فخر الدین صاحب مرادآبادیؒ سے خصوصی تعلق رہا اور حضرت بھی آپ پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے آپ کی واپسی پر حضرت علیہ الرحمہ نے آپکو جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں خدمت تدریس کا مشورہ دیا، جسے آپ نے قبول کیا اور سن 1969ء میں ”جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد“ میں منصب تدریسی پر فائز ہوئے۔ جامعہ میں آپ نے کتب متوسطہ کے علاوہ مشکوۃ شریف، مسلم شریف اور موطا امام مالک وغیرہ جیسی اعلیٰ کتابوں کا درس دیا۔ پھر 1403ھ مطابق 1982ء میں ام المدارس ”دارالعلوم دیوبند“ میں مدرس مقرر ہوئے۔یہاں آکر آپ نے درس نظامی کی اعلیٰ کتابوں میں مسلم شریف، ترمذی شریف جلد ثانی اور مشکوٰۃ شریف کا درس دیا اور تادم تحریر بھی یہ اسباق آپ سے وابستہ ہیں۔ حضرت والا نے دارالعلوم میں استاذ حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ نظامت تعلیمات کا عہدہ بھی ایک عرصہ تک سنبھالا، چنانچہ 1987ء سے 1990ء تک آپ ”نائب ناظم تعلیمات“ رہے۔ پھر 1996ء سے 2008ء تک دارالعلوم کے”ناظم تعلیمات“ کے عہدے پر فائز رہے اور تعلیم وتربیت کی بہتری کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ گزشتہ سال 14؍ اکتوبر 2020ء کو دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے متفقہ طور پر آپکو دارالعلوم دیوبند کا ”صدر المدرسین“ منتخب کیا۔ آپکی درسی تقریریں مربوط، مسلسل اور پرجوش ہوتی ہیں، طلبہ ذوق و شوق سے آپ کے درس میں حاضر ہوتے ہیں۔


امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کو تعلیم و تعلم، درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے والد گرامی حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ اور برادر اکبر حضرت فدائے ملت علیہ الرحمہ کی طرح ملی اور قومی سرگرمیوں میں بھی خاص دلچسپی تھی۔ اور آپ نے اس میں میدان میں بھی اپنی نمایاں خدمات انجام دیں بالخصوص ”جمعیۃ علماء ہند“ کے پلیٹ فارم سے آپ نے اب تک ملک و ملت اور اسلامی تشخص کی سربلندی اور حفاظت کیلئے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ ابتداءً آپ ایک طویل عرصہ تک جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن رکین رہے۔ پھر 28؍ فروری 2006ء میں آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے منصب صدارت کو سنبھالا اور اکابر کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے طوفان بلاخیز کا ہر محاذ پر جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ارباب اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے جس فراست و جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے فرزندان ملت کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ چنانچہ آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے جبر و تشدد کے شکار مظلومین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے مسئلہ کو جس جرأت و بے باکی کے ساتھ اٹھایا اور انکی فریاد رسی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خواہ وہ دہشت گردی کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کے استحصال کا مسئلہ ہو یا انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل کا، تحفظ شریعت کی اہم ذمہ داری ہو یا مرکزی مدرسہ بورڈ کا فتنہ، ملک میں کھربوں روپے کی وقف جائیدادوں کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا بابری مسجد کے مقدمہ کی پیروی، خواتین ریزرویشن جیسے خطرناک بل کا معاملہ ہو یا مسلم ریزرویشن کی پر زور وکالت کا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی بحالی کے سلسلے میں مخلصانہ جدوجہد ہو یا گوپال گڑھ کی پولیس کی بربریت کے خلاف مساعی، فرقہ پرستوں کی پست ذہنیت کے خلاف ارباب اقتدار کو وارننگ ہو یا مختلف کمیشنوں کی رپورٹ کے نفاذ کا معاملہ، جمہوریت کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا فرقہ پرستی کے خلاف صدائے احتجاج، قومی حقوق انسانی کمیشن کی دوغلی پالیسی ہو یا حصول انصاف کا تقاضا، یکساں سول کوڈ کا فتنہ ہو یا مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا مسئلہ، لازمی شادی رجسٹریشن کی تجویز کی مذمت ہو یا طلاق ثلاثہ بل کا قانون، تعداد ازواج کا مسئلہ ہو یا ہم جنس پرستی کا فتنہ، دینی تعلیمی بورڈ کے ذریعے ملک بھر میں مکاتب کا قیام ہو یا ملک میں اصلاح معاشرہ کی تحریک، غریبوں اور مصیبت زدہ افراد کی بروقت دست گیری ہو یا طوفان اور سیلاب زدگان کیلئے ریلیف، فسادات پر ارباب حکومت کو وارننگ دینا ہو یا فسادات سے مثاثر لوگوں کی امداد، برما کے مہاجرین کا مسئلہ ہو یا آسام کے باشندوں کی شہریت کا مسئلہ، شہرت ترمیم قانون ہو یا این آر سی اور این پی آر کا مسئلہ، قومی یکجہتی کانفرنس ہو یا عید ملن کی تقاریب، عظمت صحابہ کانفرنس ہو یا جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس عام، گودی میڈیا پر لگام لگانے کوشش ہو یا لاک ڈاؤن سے متاثر غریبوں اور ضرورتمندوں کی امداد، قرآن کی چھبیس آیات پر اعتراضات کا جواب ہو یا جبراً تبدیلی مذہب کا سوشہ، ملکی حالات ہوں یا عالمی حالات، ہر محاذ پر صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے جس ہمت، جرأت، اخلاص اور توجہ کے ساتھ سعی پیہم کرتے ہوئے ملت اسلامیہ ہندیہ کی جو شاندار اور مثالی قیادت کی ہے وہ یقیناً مسلمانانِ ہند بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کا روشن باب ہے۔ آپ نے مسلمانوں کی اس نمائندہ و تاریخ ساز انقلابی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی مسند صدارت پر فائز ہونے کے بعد سیاسی گلیاروں میں بیٹھے اقتدار کے دلالوں سے قربت یا ارباب اقتدار کی کاسہ لیسی جیسے ناپسندیدہ اور غیر مہذب طریقہ پر لات مار کر ایک نڈر بے خوف مجاہد حق کا حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم و ستم رسیدہ ملت کے مستحق افراد کے زخم خوردہ قلوب پر مرہم رکھنے کے قائدانہ فریضہ کو نہ صرف ادا کیا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ آپ موجودہ فتنہ انگیزی کے دور میں اپنے اکابرین کے تاریخ ساز کردار کے حقیقی وارث اور امین ہیں۔

اب سب کی زباں پر ارشد ہے، ملت کا یہی آواز ہے اب

جذبات سلف کے رازوں کا، ارشد ہی یہاں ہمراز ہے اب


جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے پلیٹ فارم سے بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بالخصوص ملک کی متحدہ، متفقہ اور مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مجلس تاسیسی کے آپ رکن ہیں۔ اسی طرح عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین تنظیم رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے بھی مجلس تاسیسی کے آپ رکن ہیں۔ اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے مختلف بڑے بڑے ادارے آپکی سرپرستی و نگرانی میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، علاوہ ازیں عالم اسلام کی مختلف نمائندہ تنظیموں کے آپ رکن رکین بھی ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے آپکی خدمات ناقابل فراموش ہے، یہی وجہ ہیکہ جب گزشتہ دنوں ”امیر الہند خامس“ کے انتخاب کیلئے مؤرخہ 03؍ جولائی 2021ء مطابق ۲۲؍ ذی القاعدہ ١٤٤٢ھ بروز سنیچر کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں واقع مدنی ہال میں ”امارت شرعیہ ہند“ کا ایک روزہ نمائندہ اجتماع دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے زیر صدارت منعقد ہوا، تو امارت شرعیہ ہند کے ارکان شوری، جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران اور منتخب ارباب حل و عقد کی موجودگی میں صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ نے اس باوقار منصب کے لیے جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء ہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) کا نام پیش کیا۔ جسکی تائید حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و امیر شریعت اترپردیش)، حضرت مولانا رحمت اللہ میر صاحب قاسمی کشمیری مدظلہ (رکن شوری دارالعلوم دیوبند امیر شریعت جموں و کشمیر)، حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی مدظلہ (رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہند)، حضرت مفتی احمد صاحب دیولہ مدظلہ (نائب صدر جمعیۃ علماء گجرات)، حضرت مولانا سید اشہد صاحب رشیدی مدظلہ (مہتمم جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد)، حضرت مولانا بدر احمد صاحب مجیبی مدظلہ (خانقاہ مجیبیہ پٹنہ بہار)، حضرت مولانا یحییٰ صاحب باسکنڈی مدظلہ (امیر شریعت آسام)، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء آسام) نے کی۔ ان تائیدات کے بعد صدر اجتماع حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ نے ”امیر الہند خامس“ کے طور پر ”جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم“ کے نام کا اعلان کیا۔ حالاں کہ حضرت نے اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے معذرت ظاہر کی تاہم تمام مجمع کی تائید کے بعد وہ امیر الہند خامس منتخب ہوئے۔ بعد میں شریک علماء، داعیان نیز دیگر حاضرین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت کی۔ الحمدللہ

بس بہ توفیق الٰہی ہے یہ حسن انتخاب

کارواں تو پھرمیسرہے امیر لاجواب

ائے امیر الہند ارشد عزم و ہمت کو سلام

سید ارشدصدر جمعیۃ کی رفعت کو سلام

میر خامس آبروئے ملک و ملت کو سلام


امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ہندوستانی مسلمانوں کی جو شاندار مثالی قیادت کی ہے جو تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپکی دینی، ملی، قومی، سماجی اور معاشرتی خدمات ناقابل فراموش ہے۔ جمعیۃ علماء ہند جیسی باوقار تنظیم کی صدارت اور ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے صدرات تدریس کی اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے بعد اب آپ کو ”امیر الہند“ بھی منتخب کرلیا گیا ہے۔ اس حسن انتخاب سے ملت اسلامیہ ہند میں بے حد خوشی کا ماحول ہے۔ کیونکہ نومنتخب امیر الہند اس وقت عالم اسلام میں اپنے اکابر و اسلاف کی نشانی، عبقری شخصیت، صاحب عزم و عزیمت اور علماء دیوبند کے سرخیل ہیں۔ ملت اسلامیہ انہیں انتہائی قدر و منزلت اور وقار و احترام کی نظروں سے دیکھتی ہیں۔ آپ کی ایک آواز پر جہاں امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ لبیک کہتا ہے وہیں آپکی ایک جھلک دیکھنے اور آپکو سننے کیلئے امت مسلمہ کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر جمع ہوجاتا ہے۔ راقم السطور کو بھی یہ سعادت حاصل ہیکہ امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کو کئی مرتبہ قریب سے دیکھنے، سننے، ملاقات اور خدمت کا حسین موقع میسر ہوا ہے۔ ابھی امیر الہند منتخب ہونے کے ایک دن بعد 05؍ جولائی 2021ء کو حضرت والا کی بنگلور تشریف آوری پر جمعیۃ علماء کرناٹک کے زیر اہتمام منعقد ایک خصوصی تہنیتی اجلاس میں شرکت اور آپ سے ایک مرتبہ پھر استفادہ اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپکی شخصیت علم و عمل، عظمت و ہمت، تقویٰ و طہارت، سخاوت و تواضع، ذہانت و صلاحیت، شجاعت و بلند اخلاق کی حامل ہے۔ آپ مسلمانان ہند کے لئے قدرت کا عظیم عطیہ ہیں، جو انقلابی فکر اور صحیح سمت میں صحیح اور فوری اقدام کی جرأت رکھتے ہیں۔ استقلال، استقامت، عزم بالجزم، اعتدال و توازن اور ملت کے مسائل کیلئے شب و روز متفکر اور رسرگرداں رہنا حضرت امیر الہند کی خاص صفت ہے۔ آپ حقیقی مانوں میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ کے جانشین اور انکے علوم کے امین ہیں۔ امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی قیادت و سیادت میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے جڑ کر کام کرنا ہمارا لئے باعث سعادت اور فخر ہے اور آج سے ان شا اللہ آپکی امارت میں بھی مسلمانانِ ہند حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھے گی اور پوری ہمت و حوصلے اور اپنے مذہبی و ملی امتیازی شان وشوکت اور اپنی انفرادی تشخص کے ساتھ اس ملک میں زندگی گذارے گی۔ آپ کے ”امیر الہند خامس“ منتخب کئے جانے پر ہم والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کی خدمت عالی میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے آپکا استقبال کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ امت پر تادیر قائم و دائم فرمائے!

آج امارت ناز کرتی ہے تمہاری شان پر

فرحتیں ہر فرد پر رقصاں ہیں اس اعلان پر

اب امیر الہند کے اس مسند فرماں پر

ارشد مدنی رہیں گے جلوہئ فیضان پر

ہو مبارک آپ کو، یہ منصب اہل وفا

مرحبا اب کہہ رہی ہے، مسند اہل ہدی


فقط و السلام

بندہ محمد فرقان عفی عنہ

(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

 ٢٤؍ ذو القعدہ ١٤٤٢ھ

06؍ جولائی 2021ء بروز منگل



+91 8495087865

mdfurqan7865@gmail.com

____________

*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری

متعلم جامعہ ابو ہریرہ ؓ اکیڈمی

بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

صدر مجلس احرار اسلام بنگلور

رکن عاملہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور


#پیغام_فرقان

#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #ArshadMadni #AmeerulHind #Jamiat #Akabir #Deoband #JamiatUlama