Wednesday, November 29, 2023

ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا اٹوٹ رشتہ و تعلق ہے!

 ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا اٹوٹ رشتہ و تعلق ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی محمد شفیق احمد قاسمی کا خطاب!




بنگلور، 24؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی گیارہویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین سے مسلمانوں کا اٹوٹ رشتہ و تعلق ہے اور یہ تعلق ابتداء اسلام سے ہی قائم ہے جو کبھی اور کسی حال میں بھی ختم نہیں ہوگا۔ سرزمین بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ نہایت گہرا اور ایمان افروز تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے۔ فلسطین کی مقدس سرزمین اہل ایمان کے لئے شروع سے عقیدتوں اور محبتوں کی مرکز رہی ہے، ہر دور میں مسلمانوں نے اسے اپنی جان سے زیادہ اہمیت دی اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی زندگیوں کو نچھاور کیا کیوں کہ یہ انبیاء علیہم السلام کا مسکن و مدفن ہے، یہیں مسلمانوں کا قبلۂ اول ”مسجد اقصیٰ“ بھی واقع ہے، جس کی طرف رخ کرکے تقریباً سولہ سترہ مہینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔ سفر معراج کے موقع پر امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد میں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی، یہیں سے معراج کے سفر کا آغاز ہوا، اسکے ارد گرد اللہ تعالیٰ نے برکتوں اوررحمتوں کو رکھا ہے، یہی قربِ قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس بہت محترم ومتبرک خطہ ہے، اور بابرکت مقام ہے، اس سرزمین کا ہر چپہ قابل احترام ہے، اسی سرزمین پر حشر برپا ہوگا، آخر زمانے میں حضرت مہدی اور حضرت عیسی علیہم السلام کا خاص تعلق رہے گا اور بھی بہت سارے فضائل وخصوصیات بیت المقدس اور سرزمین فلسطین کے ہیں۔ اتنا گہرا رشتہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔  مولانا نے فرمایا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ناجائز طور پر قائم ہونے والی اسرائیلی حکومت اور اس کے حکمرانوں نے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تاریخ کا ایک بدترین باب ہے، آج بھی فلسطینیوں کو خود ان کی ہی سرزمین میں قید وبند کرکے رکھ دیا ہے، معصوم بچوں، بے قصور جوانوں، مرد و خواتین یہاں تک کہ کمزور بوڑھوں کے ساتھ بھی اسرائیلی اپنے روز قیام سے ظلم ڈھاتے آرہے ہیں، ان کے گھروں کو اجاڑنا، ان کے شہروں کو برباد کرنا، ان کی عمارتوں کو ڈھانا،اور ہر طرف خاک وخون کا دل سوز منظر برپا کرنا اسرائیلیوں کا مشغلہ رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ یہودی قوم کی فطرت ہے کیونکہ یہود جو ”مغضوب علیہم“ قوم ہے، پچھلے ستر سالوں سے اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اپنی ہی قوم کے علماء و صلحاء کا خون بہانا ان کا صدیوں سے آبائی پیشہ رہا ہے اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ یہودیوں کے مختلف جرائم قرآن کریم میں مذکور ہیں، جن میں ”قتلِ انبیاء“ کا تذکرہ بار بار دہرایا گیا ہے۔ انہی جرائم کی بنا پر یہ قوم ذلت و پستی کی پاتال میں اتاری گئی۔ مولانا نے فرمایا کہ جس قوم نے حضرات انبیاء علیہم السلام کو نہیں چھوڑا وہ کیسے ان کے ماننے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرسکتی ہے؟  مولانا نے فرمایا کہ یہودیوں نے اسلام اور مسلمان دشمن مختلف النظریات و المذاہب قوموں اور افراد کے تعاون سے، اپنی طبعی چال بازی، مکاری، عیاری اور سازشوں کے ذریعے طرح فلسطین پر زبردستی قبضہ کیا اور ظلم و جبر و نا انصافی کے تاریخ عالم کے تمام ریکارڈوں کو توڑے، پہلے تو اپنی جگہ بنالی اور پھر سن 1948ء میں باقاعدہ اسرائیل کے نام سے اپنی غاصبانہ ریاست قائم کرلی اور بالآخر پورے فلسطین پر قبضہ کرنی شروع کردی اور اصل مکینوں یعنی فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کررہے ہیں۔ مولانا نے تاریخ فلسطین پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے دو ٹوک فرمایا کہ سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث ہے، جس پر صرف اور صرف مسلمانوں کا حق ہے، جس میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں خاص کر یہودیوں کا کوئی حق نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل کے غاصبانہ قیام سے لیکر آج تک فلسطینی اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اس میں غلط ہی کیا ہے، ہر ایک کو اپنا ملک لینے اور اس پر ناجائز قبضے کو ہٹانے کا پورا حق ہے، یہی وہاں کی تنظیم حماس اور دوسری تنظیمیں کر رہی ہیں، آج فلسطین کو دہشت گرد کہنے والوں کی اکثریت اس حقیقت سے نا بلد ہے جو بیان کی گئی ہے، یا پھر وہ اسلام دشمنی میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ان مسلمانوں کا دفاعی حملہ انہیں دہشت گردی لگتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین اپنے ملک اور حرم قدسی مسجد اقصٰی کی حفاظت کی لڑائی لڑ رہ ہیں، جو اسکے فتح ہونے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے فرمایا کہ اس جدوجہد میں پوری امت مسلمہ اہل فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے اور جو انکے خلاف کھڑے ہیں وہ اپنے ایمان کی فکر کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ حضرت مولانا مفتی محمد شفیق احمد قاسمی صاحب دامت برکاتہم نے مرکز تحفظ اسلام مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔

#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

مسئلہ فلسطین پوری امت کا مشترکہ مسئلہ ہے، مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں!

 مسئلہ فلسطین پوری امت کا مشترکہ مسئلہ ہے، مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا احمد ومیض ندوی کا خطاب!

بنگلور، 24؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی نقشبندی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت ارض مقدس پر ظلم و جبر کی آندھیاں چل رہی ہیں، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل جس قسم کی وحشیانہ بم باری کر رہا ہے، وہ تاریخ انسانی کی بد ترین جارحیت ہے۔اسرائیل کے تابڑ توڑ حملوں میں ہزاروں فلسطینی مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جس میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ہے، اور دیگر لاکھوں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ پٹی پر اس وقت ہر طرف معصوم، بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کا خون، جسموں کے ٹکڑے، تباہی و بربادی اور بارود کی بو ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ امریکی، برطانوی اور بعض دیگر مغربی ممالک کی حمایت اور پشت پناہی سے اسرائیل کھلے عام نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک کہلائے جانے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور دیگر کئی مغربی ممالک قاتل اسرائیل کے سہولت کار ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیل کو تھپکی دے رہے ہیں بلکہ ہر قسم کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت دنیا کے بڑے امن پسند کہلائے جانے والے دہشت گرد اسرائیل کی حمایت میں متحد ہیں اور پوری دنیا بدامنی سے دو چار ہو رہی ہے، لیکن وہ یاد رکھیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ نیز فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خاتمہ تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ کا مسئلہ ہے، اس لیے کہ اسرائیل بیت المقدس اور قبلہ اول پر قابض ہے، مسجد اقصی کو شہید کرکے اس کی جگہ ہیکالے سلیمانی کی تعمیر اسرائیل کا خواب ہے؛ بلکہ وہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک گریٹر اسرائیل کا منصوبہ رکھتا ہے، ایسے میں اس مسئلہ کو صرف عربوں کا مسئلہ خیال کر کے دیگر مسلمانوں کا اس سے دامن جھاڑ لینا بہت بڑی نادانی ہوگی، نیز فلسطین صرف اپنی زمین کیلئے نہیں بلکہ مسجد اقصٰی کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ایسے حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہیکہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمے کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم ہندوستان میں رہ کر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے دعاؤں کا اہتمام کر سکتے ہیں، قنوت نازلہ کا اہتمام کرسکتے ہیں۔مولانا نے فرمایا کہ ہم اپنے نوجوانوں اور نئی نسل کو مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی کے تعلق سے آگاہ کریں، نئی نسل مسجد اقصی اور مسئلہ فلسطین سے بالکل ناواقف ہے، اکثر مسلم نوجوانوں کو پتہ تک نہیں کہ مسجد اقصیٰ سے مسلمانوں کا کیا رشتہ ہے، اور قبلہ اول کی بازیابی مسلمانوں کا فریضہ ہے۔اسی کے ساتھ ہمیں برادران وطن اور عام لوگوں کو بھی مسئلہ فلسطین کے حقائق سے باخبر کرنا چاہیے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی کے ساتھ ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ہتھیار اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ ہے، اگر ساری دنیا کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں، تو اسرائیل زبردست معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، اور یہ اسرائیلی مصنوعات سے اعتراض کرنا اسرائیل کو فلسطین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، موجودہ دور میں مصنوعات کا بائیکاٹ نہایت موثر طریقہ کار ہے، جسے اپنا کر ہم دشمنان اسلام کو مجبور کر سکتے ہیں، لہٰذا ضرورت ہیکہ مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر دارالعلوم حیدرآباد کے استاذ حدیث حضرت مولانا سید احمد ومیض صاحب ندوی نقشبندی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور مفتی سید حسن ذیشان قادری و قاسمی کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS





Tuesday, November 28, 2023

اہلِ فلسطین کی جرأت کو سلام، عارضی جنگ بندی فلسطین کی فتح اور اسرائیل کی شکست ہے!

 اہلِ فلسطین کی جرأت کو سلام، عارضی جنگ بندی فلسطین کی فتح اور اسرائیل کی شکست ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی افتخار احمد قاسمی کا ولولہ انگیز خطاب!


بنگلور، 27؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کی تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھبیسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر عالی قدر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، یہ روئے زمین پر مسجد حرام خانۂ کعبہ کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، اس سرزمین پر بکثرت انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت مبارکہ ہوئی جس کی وجہ یہ خطہ انوار نبوت سے درخشاں رہا اور یہ پیغام توحید کی درخشانیاں سارے عالم کو روشن و منور کرگئیں، بیت المقدس سے مسلمانوں کا مذہبی اور جذباتی تعلق ہے، اس کی حفاظت مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اسکی حفاظت کیلئے امت کو بیدار کرنا، اسکی اہمیت و فضیلت سے امت کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے اسرائیل کے جبر وتشدد کا شکار ہیں، ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا تسلط غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے منصوبہ بند سازش سے فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا ہے۔ ارضو فلسطین پر ناجائز قبضہ کے ساتھ ہی غاصب یہودی فلسطینیوں کے قتل وخون سے اپنے ہاتھ رنگین کررہے ہیں، ان کے اسباب معیشت کو تباہ و برباد کرنا اور مسجد اقصیٰ کی تقدس کو پامال کرنا ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔ فلسطین کے علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کو بسایا جارہا ہے، نہتے فلسطینی مظلوموں پر فضائی حملے اسرائیل کی جارحیت کا زندہ ثبوت ہیں۔ فلسطینی ظلم وجور کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو فلسطینیوں کے لئے بڑا صبرآزما ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، مادی وسائل کی قلت اور تناہ ہونے کے باوجود وہ آج تک وہ نہتے دنیا کی طاقتور حکومت کہلائی جانی والی اسرائیل سے نبرد آزما ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہی وجہ ہیکہ گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے اسرائیل کی دہشت گردی جاری تھی، لیکن اب اسرائیل عارضی جنگ بندی پر رضامند ہونے پر اس لئے مجبور ہوگیا کیونکہ وہ ان سے جیت نہیں رہا تھا، اس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ہارنے اور مرنے کا خوف پیدا کردیا ہے۔ یہ یقیناً اہل فلسطین کی ہمت و جرأت اور استقامت نیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کا جذبۂ ایمانی اور پوری امت کے دعاؤں اور قنوت کا صدقہ ہیکہ آج اللہ تعالیٰ نے یہ عارضی جنگ بندی کے ذریعے اہل فلسطین کی فتح اور اسرائیل کی شکست کا منظر دیکھایا۔ مولانا نے فرمایا کہ ہر روز فلسطین پر کوئی نہ کوئی بمباری ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بزرگ، مائیں، بیٹیاں اور نوجوان شہید ہوتے ہیں، مساجد شہید ہوتی ہیں لیکن ہمارے افسوس کہ اسلامی ممالک کے حاکم ٹس سے مس نہیں ہوتے، بیدار نہیں ہوتے۔ مولانا نے فرمایا کہ اہلِ فلسطین پوری امت مسلمہ کی جانب سے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ وہ سرخرو ہونگے اور فلسطین اور مسجد اقصیٰ آج نہیں تو کل آزاد ہوکر رہے گا۔ مولانا نے فرمایا ان شہداء کی قربانیوں اور فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر مایوس ہونی کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ مشکل حالات اور آزمائش زندہ قوموں پر ہی آتی ہیں۔ زندہ قومیں مشکل سے مشکل حالات کا حکمت اور جرأت کے ساتھ مقابلے کرتی ہیں اور نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں، جس پر اہلِ فلسطین اس عمل پیرا ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج اسرائیل کی درندگی، وحشیانہ فضائی حملوں، ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بچوں کی شہادتوں اور غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کئے جانے کے باوجود فلسطینیوں کے صبر و شکر نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہیکہ آخر اس قدر تباہی و بربادی، اپنے عزیز و رشتہ داروں کی شہادت، پانی، بجلی، گھر اور خوراک سے محرومی کے باوجود مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرتے ہوئے فلسطینی اپنے رب کا شکر ادا کررہے ہیں۔ صابر و شاکر بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان کے لبوں پر اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں۔ ان کے اس عزم و استقلال اور جذبۂ ایمانی میں کوئی کمی نہیں اور انکی کوئی مثال نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کریں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں، اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، انکی مدد و معاونت کریں، اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ مسجد اقصیٰ اور اہلِ فلسطین کی مجاہدانہ تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروائیں تاکہ امت مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھبیسویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور مرکز کے تحریک تحفظ القدس اور تحفظ القدس کانفرنس کو وقت کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھبیسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔



#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS



Thursday, November 23, 2023

مسجد اقصیٰ اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے واقفیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

 مسجد اقصیٰ اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے واقفیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی کا خطاب!



بنگلور، 22؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاذ حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ روئے زمین پر مسجد حرام خانہ کعبہ کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے۔ قرآن وحدیث میں مختلف جگہوں پر اس مبارک مسجد کا ذکر آیا ہے۔ اس مسجد کے ارد گرد کی جگہوں کو برکت والی جگہیں کہا گیا ہے۔ اور سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے، اس سرزمین پر اکثر انبیاء اور رسل آئے ہیں، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج سفر کے دوران حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم سلام کی امامت فرمائی اور ”امام الانبیاء“ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفر معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت فلسطینیوں پر اسرائیل یہود کی بربریت اور ظلم بدستور جاری ہے۔ مولانا نے یہودیوں کی تاریخ پر تفصیلی روشنی ڈالی اور یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی اصل وجوہات بھی عوام کے سامنے رکھی۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی دنیا کی بدترین قوم ہے، یہودیوں پر اللہ کا قہر ہے کہ یہ ہزاروں سال سے تباہ و برباد ہوتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ یہودیوں نے اپنے مقدس کتابوں میں تحریف کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا اور ہزاروں انبیاء کو قتل کرکے اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے ہیں۔ مولانا نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہونے والے حالات اور انہیں پہنچائی گئی ذہنی اذیتوں کو مثالوں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی قوم ہے جنہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنے کی سازش رچی، ان کے کرتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا اور ان پر جادو کرکے انہیں اذیت پہنچاتے رہے۔ مولانا نے نبی کے دور کے بعد کے حالات بھی سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ایک لمبی مدت تک یہ ارضِ مقدسہ مسلمانوں ہی کے قبضہ میں رہا لیکن بڑی چالاکی کے اور مکاری کے ساتھ زبردستی 1948ء میں انہوں نے اس پر قابض ہونے کی شکلیں پیدا کیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے اس پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ جس کے بعد سے میں وہ لوگ مسجد اقصیٰ کی اسلامی شناخت ختم کرکے صیہونی رنگ میں رنگنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسی بزدل قوم ہے جو سامنے سے وار نہیں کرتی کیونکہ اگر یہ میدان میں مقابلہ کرے گی تو انکا وجود مٹ جائے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین مسلم امہ کے مشترکہ موضوعات میں سب سے اہم ترین مسئلہ ہے، کیونکہ ایک ایسا مسلمان ملک جو کئی حوالوں سے مسلمانوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اسے اس کے باسیوں سے چھین کر مختلف ممالک سے لائے گئے غیر قانونی اور غاصب افراد کے حوالے کیا جا رہا ہے، فلسطینوں پر ان کی اپنی ہی زمین تنگ کر دی گئی ہے، آئے روز ظلم و ستم اور قتل و غارت کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، غاصب صیہونیوں کو روکنے کیلئے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ مولانا نے فرمایا کہ القدس جو کہ عالم اسلام کا حساس ترین نقطہ ہے وہاں ایک غاصب اور جعلی ریاست کو تشکیل دیا گیا، نہ صرف تشکیل دیا گیا بلکہ اسے مسلسل غاصبانہ طریقے سے وسعت دی جا رہی ہے۔ حماس اور اس جیسی مزاحمتی تنظیمیں جو اپنی زمین کے دفاع کیلئے کھڑی ہیں ان کو دہشت گرد اور متشدد کے ناموں سے پکارا جاتا ہے، مگر غاصب اسرائیل کو کوسنے والا کوئی نہیں، جس کی دہشت گرد آرمی مسلم امہ کے مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی میں مقدسات کی تو ہین کے ساتھ ساتھ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کی جانوں کے ساتھ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ آج ہماری قوم بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے نا واقف ہے اور غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ اور عالم اسلام کے خاموش تماشائی بنے رہنے کے باوجود فلسطینی آج بھی پوری امت مسلمہ کی جانب سے فرض کفریہ ادا کرتے ہوئے مسجد اقصٰی کی حفاظت کیلئے نہتے مزاحمت کر رہے ہیں اور اسرائیلی درندگی کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کو دور فتن، قربِ قیامت اور آزمائشی مراحل میں جائے پناہ اور مرکز قرار دیا گیا ہے۔ پہلے زمانہ میں بھی انبیاء اور صلحاء نے مشکل مراحل میں اسی کی طرف رخ کیا تھا اور پھر اسی طرح آئندہ بھی اسی سر زمین کو جائے پناہ اور مرکز اسلام قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ اسلام کے اس عظیم مرکز کی حفاظت کیلئے پوری امت کھڑی ہوجائے۔ مولانا نے موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کا دلائل کے ساتھ ازالہ کیا اور اس کا پس منظر بھی حاضرین کے سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے واقفیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں اس بات کو زور دے کر کہا کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ جب دنیا کے مسلمان اس کو اپنا مسئلہ سمجھیں گے اس وقت فلسطین کی آزادی کی شکلیں پیدا ہوں گی اور دنیا دیکھے گی کہ اس پر مسلمانوں کا ایک نہ ایک قبضہ ہوکر رہے گا۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Tuesday, November 21, 2023

مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے، امت مسلمہ اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں!

 مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے، امت مسلمہ اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد ارشد علی قاسمی کا خطاب!



بنگلور، 20؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی ساتویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے مجلس تحفظ ختم نبوت تلنگانہ و آندھراپردیش کے سکریٹری مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد ارشد علی قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا گزشتہ ایک مہینے سے فلسطین اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ حملوں سے دل بہت غمگین ہے۔ پچھلے پچھتر سالوں سے مسجد اقصٰی مسلمانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، وہ پکار کر کہ رہی ہیکہ کہ میں تو اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہوں، میرے گرد و نواح میں کئی برگزیدہ انبیاء کرام کی مقدس قبریں ہیں، میرے یہاں سے آنحضور ﷺ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے، میری مقدس سرزمین پر امام الانبیاء ؐنے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی، میں پوری امت کا قبلۂ اول ہوں، لیکن آج میں بیت المقدس، مسجد اقصیٰ خون کے آنسو بہارہی ہوں۔ یہودی صلیبی مجھے شہید کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج مسجد اقصٰی ہماری منتظر ہے لیکن ہم لوگوں کچھ نہیں کرپارہے۔ آج جن امت مسلمہ کے حکمرانوں نے ان ناپاک اسرائیلی یہودیوں سے اس مقدس سرزمین کو آزاد کروانا تھا۔ وہ ان کے ساتھ ہاتھ ملارہے ہیں، معاہدے کررہے ہیں، انکو تسلیم کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کی حرمت و تقدس کو پائے حقارت سے روندا جارہا ہے، اسکے محافظ اہل فلسطین و غزہ کو شہید کیا جارہا ہے اور پوری امت مسلمہ غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ بے دست و پا نہتے فلسطینی اکیلے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور سر پہ کفن باندھ کر صہیونیوں کے خلاف میدان جنگ میں ڈٹے ہوئے ہیں، وہ اپنے وجود اور اپنے تشخص کی بقا اور مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے صہیونیوں سے دست و گریباں ہیں، ہر دن فلسطینیوں کے قتل ہورہا ہے اور خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، مگر دنیا کے نقشے پر موجود کروڑوں کی تعداد میں کلمہ توحید پڑھنے والے ان کے ساتھ اسلامی اخوت کی بنیاد پر تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسجد اقصی صرف گنبد و مینار پر مبنی ایک مسجد نہیں، بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک نشان ہے، ان کی اسلامی میراث ہے، اسلامی تشخص کی ایک واضح علامت ہے، اس کی حفاظت ہمارا اسلامی اور مذہبی فریضہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین اور غزہ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اس رویے سے یہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ انکے نزدیک مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ جو متعصبانہ طور پر صیہونی غاصبوں کی طرف داری ہے قابل افسوسناک ہے۔ جو اسرائیل غاصب ہے اور نہتوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے اسے مظلوم بتارہے ہیں اور جو فلسطین حقیقت میں مظلوم ہے اور اپنی حفاظت کررہے ہیں انہیں یہ ظالم دیکھا رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جس طرح مغربی میڈیا اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کے بے رحمانہ قتلِ عام کی حمایت کررہی ہے، اس سے ان کی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے، گزشتہ پچھتر سالوں سے فلسطین پر جو ظلم ہورہا ہے اور غزہ جو ایک کھلی جیل کہ طرح ہے وہ ان لوگوں کو کیوں نظر نہیں آرہا ؟ یہ درحقیقت انصاف اور انسانیت کے قاتل ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، انبیاء علیہم السلام کا مسکن و مدفن ہے، اسکی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے، اور مسئلہ فلسطین پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند،صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے، جس سے پوری دنیا بالخصوص پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں جب اہل فلسطین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے تنہ تنہا بہت المقدس کی حفاظت کررہے ہیں، ایسے میں ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم اہل فلسطین کی مدد کریں، ان کے حق میں دعائیں کریں کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار اور طاقت ہے، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، علماء و ائمہ اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوع سخن بنائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا ایک مؤثر ہتھیار اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ ہے، اس وقت دنیا بھر میں اسرائیلی کمپنیاں پھیلی ہوئی ہیں، جن کی آمدنی سے قوت پا کر اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا ہے، اگر ساری دنیا کے مسلمان اسرائیلی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں، تو اسرائیل زبردست معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، اور یہ اسرائیلی مصنوعات سے اعتراض کرنا اسرائیل کو فلسطین کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، موجودہ دور میں مصنوعات کا بائیکاٹ نہایت موثر طریقہ کار ہے، جسے اپنا کر ہم دشمنان اسلام کو مجبور کر سکتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے، مسلمانوں کی اکثریت غفلت کا شکار ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ روز مرہ کی اشیاء کس کمپنی کی ہیں، انہیں محض اپنی ضروریات کی تکمیل چاہیے حالانکہ جتنی اسرائیلی استعمالی اشیاء بازار میں عام ہیں ان کے متبادل بھی دستیاب ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء دانشوران اور مختلف تنظیموں کے کارکنان کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہم چلائی جائے، اور اگر ہم مسجد اقصٰی سے عقیدت رکھتے ہیں اور فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی ساتویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن محمد شبلی بطور خاص موجود تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا محمد ارشد علی صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد ارشد علی قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی ساتویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔



#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS



فلسطینی مسلمان کی ہمت و جرأت کو سلام!

 فلسطینی مسلمان کی ہمت و جرأت کو سلام!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا عبد الباری فاروقی کا خطاب!



بنگلور، 19؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی پندرھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالمبلغین لکھنؤ کے استاذ حدیث حضرت مولانا عبد الباری فاروقی صاحب مدظلہ نے فرمایا اس وقت فلسطین پر اسرائیلی بربریت کی سفاکانہ کاروائیوں اور حملوں سے دل چھلنی ہو کر رہ گیا ہے، ہزاروں مسلمانوں کا قتل، بچوں اور عورتوں پر ظلم و ستم، مساجد و مدارس کا انہدام، بیت المقدس کے تقدس کی پامالی اور ان جیسی بےشمار ذلیل حرکتوں نے روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے ہمیشہ ظلم ڈھائے ہیں چاہے وہ نبی ہوں بلکہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا۔ یہ قوم مسلسل بغاوت، سازش اور فساد کی علمبردار ہے۔ اس قوم پر رب کائنات نے متعدد بار لعنت کی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسرائیلیوں کی مکرو فریب کی پوری تفصیل قرآن پاک میں محفوظ کی گئی ہے۔ ہمیشہ سے ہی یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے آئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کے ملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ غزہ تو مکمل ایک زندان بن چکی ہے۔ مولانا فاروقی نے فرمایا کہ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اگر مسلمان ممالک متحد ہوکر القدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے قبضے سے آزاد نہ ہو۔ فلسطینی مظلوموں کی زبانی حمایت اور درپردہ صہیونیت نوازی نے اسرائیل کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیا۔ آج فلسطین کے ناگفتہ بہ حالات دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا نتیجہ کم، عالم اسلام کی غلامی اور بے حسی کا نتیجہ زیادہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ سلام ہو ان نہتے فلسطینیوں پر کہ وہ بیت المقدس کے تقدس کیلئے اور اپنے حق کے خاطر مسلسل قربانیاں پیش کررہے ہیں لیکن اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ فقط زمین کا نہیں اپنے ایمان کا مسئلہ ہے کیونکہ مسجد اقصٰی مسلمان کا قبلۂ اول ہے، یہ انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہے، یہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرماکر امام الانبیاء کا لقب پایا، یہ سفر معراج کی پہلی منزل ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمان یاد رکھیں کہ یہ یہودی وہ قوم ہے کہ جنہوں نے اپنے محسنین کے احسان کو فراموش کیا، جب ہٹلر نے انکی نسل کشی کی اور ان کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی تو ان پر اہل فلسطین نے احسانات کئے اور اپنی زمین انہیں دی اور اس احسانات کا یہ بدلہ دیا جارہا ہیکہ اہل فلسطین کو ہی اپنے گھروں سے بے دخل کرکے انہوں شہید کیا جارہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایک دن آئے گا کہ ان یہودیوں کا نام و نشاں مٹ جائے گا۔ مولانا نے دوٹوک انداز میں فرمایا کہ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ فلسطین ہار گیا، مسلمان ہار گئے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ مسلمان جیت گیا اور انہوں نے شہادت کا عزیم مقام کو حاصل کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ وہ ہارے ہیں جو اپنی آنکھوں سے اس ظلم کے ننگے ناچ کو دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جن کی غیرت ایمانی ان کو للکار نہیں رہی ہے، جن کا ضمیر اور جن کا دل مردہ ہو چکا ہے وہ ہار ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ جنگ ظلم و ستم اور جنگ قیامت تک جارہی رہے گی اور ان شاء اللہ مسلمان غالب آکر رہیں گے اور اللہ کے وہ بندے جو اس وقت روح زمین پر موجود رہیں گے احقاق حق کا پرچم بلند کرتے رہیں گے اور باطل کی سرخوبی کرتے رہیں۔ انہیں معلوم ہیکہ اس کا بدلہ جنت ہے، یہی وجہ ہیکہ وہ اپنی پیاری عزیز جان اللہ کے راستے میں قربان کر رہے ہیں، اپنے بچوں کو کے راستے میں مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، وہ شہید ہو رہے ہیں لیکن یاد رکھنا وہ غالب آکر رہیں گے اور مسجد اقصٰی فتح ہوکر رہے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ ایسے حالات میں ہماری ذمہ ہیکہ ہم ان کی مدد و معاونت کریں، ان کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں، انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا عبد الباری صاحب فاروقی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ 


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS 


قرب قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی!

 قرب قیامت خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی اسعد قاسم سنبھلی کا خطاب!



بنگلور، 19؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھٹی نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ شاہ ولی اللہ مرادآباد کے مہتمم فاتح شکیلیت حضرت اقدس مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے فرمایا روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلے گھر مسجد حرام خانۂ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر ہوئی۔ مسجد اقصیٰ روئے زمین پر بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے کہ جس کو عبادت الٰہی کیلئے تعمیر کیا گیا۔ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتی۔ معراج کے سفر میں بھی یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی منزل تھا۔ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت بیت المقدس میں فرمائی۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کی پاک سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن رہا ہے، اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتا ہے، یہ بڑی بابرکت سرزمین ہے۔ مولانا نے فرمایا یہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا۔ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ فتح ہونے کے بعد کسی کا ایک قطرہ خون نہیں بہا تھا، کسی پر ظلم نہیں ہوا تھا اور انہوں نے اعلان کر دیا تھا کہ سب کی عام معافی کی جاتی ہے۔ بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے سن 1099 (490ھ) میں صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا اور تقریباً ستر ہزار مسلمان شہید کر دیئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔  لیکن پھر سن 1087 (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے بیت المقدس کو فتح کیا۔  اب یہ ہو سکتا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ 490 ہجری کے تمام ظلم و ستم کا حساب لے لیتے، یہ ممکن تھا اور ان کے پاس طاقت بھی تھی، وہ اگر چاہتے تو صلیبیوں کے لاشوں کے ڈھیر لگاتے تھے لیکن مسلمانوں کا انصاف، مسلمانوں کے دریا دلی، مسلمانوں کا عفو و درگزر آپ دیکھیے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کسی بھی طرح کا انتقام لینے کے بجائے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس سنت کو زندہ کیا اور پھر عیسائیوں کو یہ رعایت دی کہ جو چاہے یہاں سے نکل جائے، جو چاہے یہاں پر رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی، یہاں تک کہ سن 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ پھر سن 1967ء میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ قرب قیامت میں شام میں اسلام کا غلبہ ہوگا، قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرب قیامت جب فتنے بکثرت ہونگے تو ایمان اور اہل ایمان زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ مولانا نے فرمایا کہ فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا لشکر ہوگا۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سب سے پہلی علامت حضرت امام مہدی کا ظہور ہے، احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے کہ امام مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، تو مسلمان امام مہدی کو تلاش کریں گے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ شام روانہ ہوں گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوجائیں گے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، امام مہدی ملک کا انتظام سنبھال کر وہاں سے قسطنطنیہ فتح کرکے شام کے لئے روانہ ہوں گے، دمشق میں انکا قیام ہوگا اور عرصے بعد دجال نکل پڑے گا، دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور گھومتا گھماتا دمشق کے قریب پہنچ جائے گا۔ اسی دوران سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا۔ اس کے بعد دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا، بالآخر باب لد پر پہنچ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا اور آخری وقت زمانۂ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز و محور ارض مقدسہ بیت المقدس ہوگی۔ مولانا نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور بیت المقدس آزاد ہوگا۔ اس وقت روئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے گا، سب مسلمان ہوں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کے موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ اب قیامت بہت قریب ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم اہل فلسطین کی مدد کریں اور اپنے اعمال کی فکر کریں۔ نیز بیت المقدس کے ان مجاہدین کیلئے دعا کریں اور قنوت نازلہ پڑھیں جو بیت المقدس کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ انکی مدد و نصرت فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ اسٹیج پر مرکز کے رکن شوریٰ مولانا سید ایوب قاسمی، قاری یعقوب شمشیر، عمران خان بطور خاص موجود تھے۔اس موقع پر حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا مفتی اسعد قاسم سنبھلی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چھٹی نشست اختتام پذیر ہوئی۔

#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS 

Monday, November 20, 2023

مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

 مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست مفتی افتخار احمد قاسمی کا ملت اسلامیہ کے نام اہم پیغام!

بنگلور، 17؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے تحت گزشتہ پندرہ دنوں سے ”عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس“ پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ ملک کے اکابر علماء کرام اس کانفرنس سے کلیدی خطاب فرمارہے ہیں۔ اس درمیان مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) نے امت مسلمہ کے نام ایک پیغام جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت پوری ملت اسلامیہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس وقت اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارض فلسطین اور اس مقدس سرزمین کے مکین تقریباً ستر سالوں سے اسرائیل کا ظلم سہتے آرہے ہیں اور تنے تنہا کسی کی مدد ونصرت کے بغیر مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے صرف اور صرف توکل الی اللہ پر اپنی بساط اور طاقت وقوت کے بقدر ان ظالموں کا بھر پور جواب دیتے آرہے ہیں۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ سلام ہو ان فلسطینی جیالوں پر جو بے خوف وخطر ہو کر تنہ تنہا مسلسل ان ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ گزشتہ ایک مہینے سے اسرائیلی فوج کی فضائی درندگی اور ظلم وستم کا سلسلہ دوبارہ جاری ہے، وہ مسلسل جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں مگر دنیا کے لئے قوانین بنانے والے سب کے سب خاموش ہیں، اسرائیل غزہ کی آبادیوں میں، تعلیم گاہوں پر اور ہسپتالوں پر بم برسارہا ہے اور اس وحشیانہ بمباری کے نتیجہ میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے، لیکن اس قدر کٹھن اور نازک حالات میں بھی مظلوم فلسطینی ثابت قدم اور پُر جوش ہیں۔ ایسے حالات میں جب اہل فلسطین پوری ملت اسلامیہ کی جانب سے فرض کفایہ کے طور پربخوبی اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں اور اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی جان، مال، جائداد اور اپنے عزیزوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور اسرائیل کی بدترین جارحیت کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں، تو ہم لوگ جو ان سے بہت دور بیٹھے ہیں ہماری یہ ذمہ داری ہیکہ ان کے ساتھ برابر کھڑے رہیں، ان سے اظہار ہمدردی و یکجہتی کریں، ان کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں، فجر میں قنوت نازلہ پڑھنے کا اہتمام کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ نیز یہ بھی ضرورت ہیکہ ہم بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی تاریخ، اسکے مقام و مرتبہ، اسکی اہمیت و فضیلت سے امت مسلمہ کو واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ مفتی افتخار احمد قاسمی نے فرمایا کہ انہیں مقاصد کے حصول کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے تحریک تحفظ القدس کے تحت عظیم الشان تحفظ القدس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا، جو پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری ہے اور روزانہ رات بعد 9 بجے منعقد ہورہی ہے۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام مخصوص عناوین پر اپنے منفرد انداز میں خطاب فرما رہے ہیں۔جو مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹیوٹر اکاؤنٹ پر براہ راست لائیو نشر کیا جاتا ہے۔ اب ہمارے یہ ذمہ داری ہیکہ ہم اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے کم از کم ان پروگرامات میں شریک ہوں اور تاریخ سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے اہل فلسطین سے یکجہتی کا اظہار کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مرکز تحفظ اسلام ہند کے اس مبارک تحریک تحفظ القدس اور تحفظ القدس کانفرنس کے سلسلے کو بے انتہا قبول فرمائے اور اس کے انعقاد کے مقاصد میں بھرپور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS


Friday, November 17, 2023

فلسطین و غزہ میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے، جمعیۃ علماء ہند اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی ہے!

 فلسطین و غزہ میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے، جمعیۃ علماء ہند اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے قائد جمعیۃ مولانا محمد حکیم الدین قاسمی کا خطاب!



بنگلور، 15؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چودھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد حکیم الدین قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ فلسطین کی سرزمین پر قائم کی جانے والی صیہونی ریاست اسرائیل ایک ناجائز اور غاصب ریاست ہے۔ جس نے 1948ء میں بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا، جو گذشتہ پچھتر سالوں سے مسلسل فلسطینی عوام کو قتل کر رہی ہے اور ظلم و بربرہت کی بدترین داستیں رقم کر رہی ہے اور آج بھی اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ جب فلسطین کی زمینوں کو بیچنے کیلئے عرب علماء نے اجازت دی تھی تو اس فیصلے پر ہمارے اکابر علماء دیوبند راضی نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ارضِ فلسطین کے ساتھ ایک ظلم اور زیادتی کے مترادف ہوگا۔ صیہونی ریاست کے قیام سے اس سرزمین کے اصل وارث یعنی فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بار، کاروبار اور حیاتِ زندگی تنگ کر دی جائے گی، جبکہ بیت المقدس قبلۂ اول بھی غاصب صیہونی ریاست کے قبضے میں چلی جائے گی۔ مولانا نے غزہ میں ہونے والے قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت غزہ بچوں کے قبرستان میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس علاقے میں روزانہ سیکڑوں بچے اور بچیاں جاں بحق یا زخمی ہو رہی ہیں، غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے، غزہ میں بے تحاشہ بمباری اور زمینی حملوں کے ساتھ ہی اہل غزہ کے لئے اناج، پانی اور غذا کی سپلائی بھی بند کردی گئی ہے، جس کے بعد فلسطینی عوام بھوک اور پیاس سے بھی پریشان ہوکر موت کی نیند سورہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ غزہ کی صورتحال دن بہ دن اور مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ افسوس کہ جنگی اصولوں کی دھجیاں اڑانے اور انسانی بنیادوں پر حملے کے باوجود اس ظلم و ستم کو روکنے کے بجائے دنیا کے نام نہاد انسانیت دوست ممالک اور اورعالمی حقوق انسانی کے محافظ تنظیمیں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اور دوسری طرف عالم عرب بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جو قابل افسوسناک ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ مسجد اقصٰی مسلمانوں کیلئے بہت مقدس ہے، یہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور فلسطین انبیاء علیہم السلام کا مسکن اور مدفن ہے۔ لہٰذا مسجد اقصٰی اور ارض فلسطین سے مسلمانوں کا مذہبی اور ایمانی تعلق ہے۔یہی وجہ ہیکہ آج فلسطین اور غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت فلسطین اور غزہ میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہیکہ اسے اسلام اور کفر کی شکل نہ دیکر اسے ظالم اور مظلوم کی شکل دینی چاہیے اور دیگر اقوام عالم کو ساتھ لیکر اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے۔ مولانا نے فرمایا نہ صرف مذہبی اعتبار سے بلکہ تاریخی اعتبار سے سرزمین فلسطین پر مسلمانوں کا حق ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مولانا نے دوٹوک انداز میں فرمایا کہ اس دنیا میں بہت سارے ظالم پیدا ہوئے لیکن اللہ نے ان کی ایسی پکڑ کی کہ آج انکا نام و نشان تک باقی نہیں ہے کیونکہ ظلمت کی شب زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی اور ہمیشہ مظلوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت شامل حال رہتی ہے۔ لہٰذا یاد رکھیں کہ ایک وقت آئے گا جب ظالم اسرائیل کا نام و نشان نہیں رہے گا اور فلسطین دوبارہ آباد ہوگا جس پر مسلمانوں کا مکمّل اختیار ہوگا۔مولانا نے فرمایا کہ جمعیۃ علماء ہند روز اول سے اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ کھڑی تھی، کھڑی ہے اور آئندہ بھی کھڑی رہے گی، نیز غزہ پر اسرائیل کی جارحیت، وحشیانہ حملوں اور مظالم کی جمعیۃ علماء ہند نہ صرف شدید مذمت کرتی ہے بلکہ اہل فلسطین و غزہ کیلئے مدد و معاونت کیلئے بھی کوشاں ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ایسے حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری یہ ہیکہ وہ اہل فلسطین و غزہ کیلئے دعاؤں کا اہتمام کریں، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف دیگر اقوام عالم کو لیکر صدائے احتجاج بلند کریں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چودھویں نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی حضرت مولانا محمد حکیم الدین صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا محمد حکیم الدین قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی چودھویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!

بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!

✍️ بندہ محمد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)




گزشتہ کئی دہائیوں سے غزہ اور فلسطین میں جاری اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے پیش نظر حالیہ دنوں حماس کے 'طوفان الاقصیٰ' آپریشن کے بعد سے قبلۂ اول بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آگئے۔ بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہل فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ انکے خون سے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے ہر چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب ہی جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اس کے بارے میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بزبان حال یہی کہ سکتے ہیں:
تم شہرِ اماں کے رہنے والے! درد ہمارا کیا جانو!
ساحل کی ہوا تم موج صبا طوفان کا دھارا کیا جانو!

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ فلسطین کا غم امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔ اور یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہیکہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
اقصٰی کی زمین کو ہم سب مل کے چھڑائیں گے
تاریخ فلسطین ہم گھر گھر میں بتائیں گے

https://markaztahaffuzeislamhind.blogspot.com/2021/06/blog-post_11.html

قارئین! ”القدس“ فلسطین کا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصٰی اور گنبد الصخرہ واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ شہر 31؍ درجے 45؍ دقیقے عرض بلد شمالی اور 35؍درجے 13؍ دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے۔ القدس کو یورپی زبانوں میں ”یروشلم“ کہتے ہیں۔ القدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام ”کوہِ صیہون“ ہے جس پر ”مسجد اقصٰی“ اور ”گنبد الصخرہ“ واقع ہیں۔ مسجد اقصی کے اطراف 1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر 09؍ دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔

مسجد اقصٰی کی بنیاد مکہ مکرمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے ڈالی۔ پھر اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علیہ السلام نے کی۔ عرصۂ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس مقام پر رکھی جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی۔ چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اقصٰی کو تعمیر کیا۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، ہجرت کے بعد 16؍ سے 17؍ ماہ تک نبی کریمﷺ بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی ہے۔ مقامی مسلمان اسے ”المسجد الاقصیٰ“ یا ”حرم قدسی شریف“ کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے“ (سورہ الاسراء)۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں۔ مسجد اقصٰی روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔ جہاں ایک نماز کا ثواب ڈھائے سو اور بعض روایتوں کے مطابق 25؍ ہزار ملتا ہے۔

بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جب نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور تھا۔ لیکن اسی وقت نبی کریمﷺ نے بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت 16ھ مطابق سن 236ء میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ سن 66ھ اور 86ھ کے درمیان خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور سن 86ھ اور 96ھ کے درمیان انکے صاحبزادے خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔

بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا۔ اور ادھر فاطمی حکومت نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجوقیوں کے خاتمے کیلئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئی طرح کی سہولتیں فراہم کردیں اور بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی خلفاء کے ساتھ غداری اور دھوکہ کیا۔ اور القدس پر قبضہ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرلیا اور پھر 70؍ ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے بالآخر 492ھ مطابق سن 1099ء کو صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ اور یروشلم پر اپنی مسیحی حکومت قائم کردی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔

پھر اسکے بعد سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16؍ جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر 538ھ مطابق سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ اور مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس طرح 88؍ سال بعد بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کے بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761؍ برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی۔ پھر پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ 14؍ مئی 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور جب 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی، فلسطین کے 78؍ فیصد رقبے پر قابض ہوگئے۔ تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ پھر تیسری عرب اسرائیل جنگ جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ اور اس طرح سن 1967ء سے بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح انکے قبضہ میں ہے۔

اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآبؐ میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کیخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ بیسویں صدی کے حادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے۔ یہود ونصاریٰ نے یہ مسئلہ پیدا کرکے گویا اسلام کے دل میں خنجر گھونپ رکھا ہے۔ سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپ سے آئے ہوئے غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کرکے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21؍ اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔

گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کے ملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحم حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں بلکہ غزہ تو مکمل ایک زندان بن چکی ہے۔ اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے کرتا دھرتا امریکہ اور یورپ کے ممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہیکہ بعض نام نہاد مسلم ممالک اپنی ذاتی حقیر مفادات اور اپنی چند روزہ شان و شوکت اور عارضی کرسی کی بقا کی خاطر یا تو ان دشمنان اسلام کی حمایت کررہی ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عالم اسلام اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر مقاومت کی کوشش کرتا تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر عالم اسلام کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔ ’صدی معاہدہ‘ کی آمادگی اور اس کے نفاذ میں متعدد اسلامی ملکوں کی شمولیت اور کچھ عرصے قبل عالم عرب کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توسیع نے یہ ثابت کردیا کہ عالم عرب ’القدس‘ کی بازیابی کے لیے سنجید ہ نہیں ہے۔ وہ دشمن کے عزائم کی کامیابی میں حصہ دار اور مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنے مفادات کے لیے سمجھوتہ کرنے والی قوم ہے۔ ورنہ اگر مسلمان ممالک متحد ہوکر القدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے قبضے سے آزاد نہ ہو۔ فلسطینی مظلوموں کی زبانی حمایت اور درپردہ صہیونیت نوازی نے اسرائیل کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیا۔ آج یمن، شام، عراق اور فلسطین کے ناگفتہ بہ حالات دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا نتیجہ کم، عالم اسلام کی غلامی اور بے حسی کا نتیجہ زیادہ ہے۔ عرب قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت ہی غیرت مند قوم ہوتی ہے لیکن پے درپے جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست، امریکی غلامی اور عیاشی نے اسے بزدل قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ اسی کا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کردیتا ہے۔ اگر خطے کے ممالک فلسطین کی مدد و معاونت، فنڈ اور اسلحہ فراہم کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی اور فلسطینی جانباز اپنے دم پر ہی اسرائیل کا ناطقہ بند کردیتے۔ عرب ممالک نے ہمیشہ ضابطوں کا حوالہ دے کر فلسطینی کی مدد سے گریز کیا جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے تمام ضابطوں کی دھجیاں اڑاکر اسرائیل کو نہ صرف عرب ممالک سے بچایا ہے بلکہ اقوام متحدہ (امریکہ کا رکھیل) کو استعمال کرکے اسے تمام کارروائیوں سے محفوظ رکھا۔ لیکن سلام ہو ان نہتے فلسطینیوں پر کہ وہ بیت المقدس کے تقدس کیلئے اور اپنے حق کے خاطر مسلسل قربانیاں پیش کررہے ہیں لیکن اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ فقط زمین کا نہیں اپنے ایمان کا مسئلہ ہے، حق و باطل کا معرکہ ہے۔ تاریخ شاہد ہیکہ اسلام کے ابتدائے آفرینش ہی سے حق اور باطل ہمیشہ برسر پیکار رہے ہیں۔ یہ دراصل نور و ظلمت اور ایمان و کفر کی قوتوں کے درمیان ایسا تصادم اور ٹکراؤ ہے جو ازل سے چلی آرہی ہے اور یہ واضح ہیکہ ابد تک کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن ہر دو میں باطل پر حق غالب آیا ہے اور باطل کو ہمیشہ مٹنا ہی پڑا ہے۔ ظالم اگر وقتی یا ظاہری طور پر کامیاب بھی نظر آئے لیکن ہمیشہ مظلوم کی ہی حقیقی فتح اور کامیابی ہوئی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے مظلوم ہی کا نام ہمیشہ روشن کیا ہے۔ ہر دور میں حق اور باطل کی معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے اور ہمیشہ جیت حق اور اہل حق کی ہی ہوئی ہے۔ تاریخ اسلامی میں ہزاروں واقعات درج ہیں جس سے صاف واضح ہوجاتا ہیکہ باطل مٹنے کیلئے اور حق غالب آنے کیلئے آیا ہے۔ اور ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہودیوں پر مسلمان غالب آئیں گے اور کفر کی تاریکی رات ختم ہوکر اسلام کی صبح روشن ہوگی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
لاکھ جلے دشمن لیکن، مٹ جائے حق ناممکن
سارے عالم میں اک دن، پرچمِ حق لہرائے گا
باطل تو مٹ جائے گا، حق ہی غالب آئے گا

قارئین کرام! ارض فلسطین یقیناً آج پھر کراہ رہا ہے۔ ہزاروں نہتے فلسطینی بیت المقدس کی حفاظت کیلئے تنے تنہا اسرائیلی دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں اور جام شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ صرف کچھ ممالک کے دبے سر میں مذمت کے چند الفاظ بہ مشکل نکل رہے ہیں۔ امریکہ تو کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہا ہے اور اسرائیلی وحشی پن کو حق دفاع قرار دے رہا ہے۔ اب تو پوری دنیا میں یہ بات عیاں ہے کہ دہشت گرد کون ہے؟ دہشت گردی یا بدی کا محور کون ہے؟ اسرائیلی حملے میں اب تک سیکڑوں فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور اسرائیل ہلاکت خیز حملے پے درپے کرتا جارہا ہے۔ حملے میں عام عمارتوں، میڈیا کے دفاتر، ہسپتالوں، اسکول کالجز اور دیگر بنیادی سہولتوں کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ شہداء کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔ لیکن یہ یہود اور اسکے حواریں یاد رکھیں کہ ”شام“ جو زمانہ قدیم میں لبنان، فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا، جہاں آج یہ یہود قابض ہیں، احادیث کے مطابق قرب قیامت میں وہاں اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایمان اور اہل ایمان فتنوں کے اس دور میں زیادہ تر شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔ فتنوں کے اس زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکر ہونگے اس دور میں آپؐ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہوگی۔ یہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لشکر ہوگا۔ اور آخری وقت زمانہ قرب قیامت میں خلافت اسلامیہ کا مرکز ومحور ارض مقدسہ ہوگی۔ قیامت سے قبل مدینہ منورہ ویران ہوجائے گا اور بیت المقدس آباد ہوگا، تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔ دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا۔ دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا۔ مگر دجال مکہ، مدینہ، بیت المقدس اور کوہ طور میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے  جامع مسجد کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا۔ اور وہ دجال کو ”باب لد“ کے پاس قتل کریں گے۔ باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، جس پر اسرائیل غاصب نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اور اسی طرح فتنہ یا جوج و ماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب ”جبل الخمر“ کے پاس ہوگی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہورہے ہیں، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت کے قریب حضرت امام مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ایک مومن جماعت کے ہاتھوں بزور شمشیر مسلمانوں کا قبلۂ اول بیت المقدس فتح ہوگا۔ بیت المقدس اور فلسطین کے موجودہ حالات سے یہ بات واضح ہیکہ وہ وقت اب قریب ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قبلہ اول کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی نسلوں کو اسکی تاریخ سے واقف کرواتے ہوئے اسکی بازیابی کیلئے تیار کریں!
اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے
مومن ہے تو پھر مسجد اقصٰی کی خبر لے

فقط و السلام
بندہ محمد فرقان عفی عنہ*
(بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

+91 8495087865
mdfurqan7865@gmail.com
_____________
*ابن مولانا محمد ریاض الدین مظاہری
بانی و ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند

#پیغام_فرقان
#PaighameFurqan #Article #Mazmoon #Alquds #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #Palestine #Gaza

Thursday, November 16, 2023

مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!

 مسجد اقصیٰ سے ہمارا ایمانی تعلق ہے، اہل فلسطین کیلئے دعاؤں اور قنوت نازلہ کا اہتمام کریں!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا محمد مقصود عمران رشادی کا خطاب!


بنگلور، 09؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی آٹھویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا ڈاکٹر محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین قدس، قبلۂ اول کی بنا پر تمام امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ یہاں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی کثرت بعثت کی بنا پر یہ ”سرزمین انبیاء“ بھی کہلاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک مدت تک بحکم الٰہی ”بیت المقدس“ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کی ہے، اسی لیے یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول کہلاتا ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی اور ”امام الانبیاء“ کے شرف سے مفتخر ہوئے اور پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ سفر معراج شروع ہوا، جس نے انسانیت کو سرعرش مہمان نوازی کا اعزاز عطا کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسجد حرام سے سیدھے آسمانوں کی طرف سفر ہو سکتا تھا، لیکن درمیان میں بیت المقدس کو لا کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کے ذریعہ یہ عظیم پیغام دیا کہ اسلام میں بیت المقدس اور مسجد اقصی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ بیت المقدس کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول رہا ہے۔ اس بنا پر امت محمدیہ کا سرزمین فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ ایک ایمانی رشتہ قائم ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی قوم پچھلے ستر سالوں سے اہل فلسطین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، یوں تو اس قوم کے ہاتھ انبیاء کرام علیہم السلام جیسی مقدس جماعت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج یہ فلسطین پر قابض ہوکر، وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں کا قتل عام کرکے انھیں نقل مکانی پر مجبور کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ اہل فلسطین یہود کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی وسائل کی قلت کا شکار ہونے کے باوجود آج تک نبرد آزما ہیں، لیکن مسلم حکمران جو طاقت، دولت اور بے شمار وسائل سے مالا مال اور لیس ہیں، وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ تقریباً ایک مہینے سے غزہ کی پٹی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، گھروں سے لیکر تعلیم گاہوں تک، مسجد سے ہسپتال تک سب کچھ تباہ و برباد کردیئے گئے، بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت یکساں ان مظالم سے دوچار ہوئے، فلسطینی شہداء ہزاروں کی تعداد سے متجاوز ہوگئی، لیکن عالمی اسلامی تنظیموں خصوصاً مسلم حکمرانوں کی بے حسی و بے بسی تماشائے عالم بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند،صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ غزہ کے لاکھوں بے قصور عوام پر قیامت ٹوٹ رہی ہے، ہر طرف انسانی نعشوں کا دل دہلانے والا منظر ہے، جس سے پوری دنیا بالخصوص پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ تاریخی حیثیت سے مسجد اقصیٰ ہی وہ ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں، لہٰذا اسکی حفاظت پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور مسئلہ فلسطین پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہم قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی حفاظت کرنے والے فلسطین و غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انکی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ مولانا رشادی نے فرمایا کہ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اہل فلسطین کی مدد کریں، ان کے حق میں دعائیں کریں، قنوت نازلہ کا اہتمام کریں، اپنی تقریر و تحریر میں ارضِ فلسطین کو موضوع سخن بنائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ سب ہمارے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے، اور باتوفیق مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کررہے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ مولانا نے تمام انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں خاص طور پر اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ فوری کارروائی کرتے ہوئے فلسطین میں امن کو قائم فرمائیں اور انکی مدد فرمائیں۔ مولانا نے ہندوستان کی حکومت، وزیر اعظم اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ عالمی سطح پر ملک کی جانب سے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں، انکی مدد و معاونت کریں اور وہاں جنگ بندی کرنے اور امن کے قیام کی کوششوں کریں۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

مسجد اقصٰی کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے!

 مسجد اقصٰی کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ اور بنیادی ذمہ داری ہے! 

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کا خطاب!




بنگلور، 13؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دسویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا اس وقت اہل فلسطین کے جو حالات ہے وہ بہت تشویشناک ہیں۔ فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب اسرائیلی دہشت گردی کے ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن افسوس کے نام نہاد انصاف پسند لوگ اور بعض مسلم ممالک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہا اس سے آگے بڑھ کر دنیا کے بڑے بڑے ممالک اہل فلسطین کے غم و درد میں شامل ہونے کے بجائے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن عالم اسلام کی بے حسی افسوسناک ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین جسے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا مسکن اور مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کے ارد گرد برکت ہی برکت کا نزول ہے، جہاں سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کا آغاز کیا، جس دھرتی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیوں کی امامت کراکے امام الانبیاء کا لقب پایا، جہاں اسلام کی عظمت رفتہ اور جنت گم گشتہ کا نشان قبلۂ اول مسجد اقصٰی کی صورت میں موجود ہے، آج وہ خطہ ارضِ فلسطین اور مسجد اقصٰی صہیونی سازشوں کے نرغے میں گھیرا ہوا ہے۔ اور وہاں کے باشندے تنہ تنہا ان ظالم و جابر سے مقابلہ کررہے ہیں اور بیت المقدس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ارضِ فلسطین اور مسجد اقصٰی پوری ملت اسلامیہ کو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ دھرتی کب تک خون سے رنگین ہوتی رہے گی؟ کب تک فلسطینی نوجوان، بچے، مائیں اور خواتین شہید ہوتی رہیں گی؟ کب تک فلسطینیوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے؟ فلسطینیوں کی آزادی کی صبح کب طلوع ہوگی؟ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف پورے بدن کو محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہیکہ ایسے نازک حالات میں جب اہل فلسطین و غزہ بیت المقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کیلئے دعا کریں، اور جس طرح سے ممکن ہو ان کیلئے مددگار ثابت ہوں، اس کیلئے انکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں، اسرائیل جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور اقوام عالم کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ اس موقع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظر عام حضرت مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا انہیں کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دسویں نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Wednesday, November 15, 2023

مسجد اقصٰی اور مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی قابل افسوسناک ہے!

 مسجد اقصٰی اور مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی قابل افسوسناک ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مولانا محمد عبد القوی کا خطاب!



بنگلور، 08؍ نومبر(پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی پانچویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کے رئیس شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اس وقت اہل فلسطین و غزہ بڑی آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔وہاں کے حالات کو دیکھ کر اور سن کر دل دہک جاتا ہے، یہی وجہ ہے اس وقت پورا عالم اسلام بے چینی کا شکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ روئے زمین پر فلسطین میں رہنے والی عوام نے نہ جانے ظلم و ستم کی کتنی داستانیں رقم کی ہیں، ہر روز ان پر آتش و آہن کا نیا کھیل کھیلا جاتا ہے، معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر زیادتی، قتل و غارت گری کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ آج ایک بار پھر اہل فلسطین و غزہ پر اسرائیل ظلم و زیادتی، اندھا دھند فائرنگ، بمباری اور قتل عام کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ افسوس کہ تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جس میں بعض نام نہاد مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلم ممالک اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھاتے اور کارروائی کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر مسلم ممالک کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔ مولانا نے فرمایا کہ آج فلسطین میں اسرائیل انسانیت کا قتل عام کررہا ہے، شہر تو شہر، اسپتالوں اور اسکولوں پر بھی اسرائیل بم گرا رہا ہے۔ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انھیں اپنی ارضِ مقدس سے پیار ہے۔ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کیلئے وہ اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ لیکن مسجد اقصٰی اور مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام کی بے حسی قابل افسوسناک ہیں۔ بلکہ ایک طرف جہاں مسئلہ فلسطین و غزہ کو لیکر پورا عالم اسلام کرب واضطراب محسوس کررہا ہے، ایسے میں اسرائیل کا پنجہ مروڑنے کیلئے اپنی طاقت کے استعمال اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی اور اظہار ہمدردی کے بجائے دوسری طرف سعودی عرب کے ریاض میں رقص و موسیقی کی محفلیں سجائی جارہی ہیں، فحاشی و عریانیت کا ریکارڈ توڑا جارہا ہے جو قابل افسوس کے ساتھ ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس کی حفاظت پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ پوری امت مسلمہ بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں، اہل فلسطین و غزہ سے اظہار یکجہتی کریں، اسی کے ساتھ مولانا نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں خوب دعاؤں کا اہتمام کریں اور قنوت نازلہ کا بھی اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ اہل فلسطین و غزہ کی مدد و نصرت فرمائے اور بیت المقدس کی حفاظت فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر حضرت مولانا محمد عبد القوی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS


Tuesday, November 14, 2023

سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم ؑ کی میراث ہے، جس پر مسلمانوں کا حق ہے!

سرزمین فلسطین حضرت ابراہیم ؑ کی میراث ہے، جس پر مسلمانوں کا حق ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ سے مفتی محمد حذیفہ قاسمی کا خطاب!

بنگلور، 13؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرا کے ناظم تنظیم اور انجمن احیاء سنت مہاراشٹرا کے صدر حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین وہ خطہ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کا میراثی خطہ کہلاتا ہے۔ لیکن دنیا کی آنکھوں میں یہ دھول جھونکی جارہی ہیکہ اس خطہ پر یہودیوں کا حق ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کے صحیح مصداق یہودی ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے، اور اسکے اصل حقدار مسلم عرب فلسطینی ہیں۔ مولانا نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے فلسطین جارہے تھے اور درمیان میں آپ نے مصر میں پڑاؤ ڈالا۔ بادشاہ مصر ایک عیاش قسم کا انسان تھا، لیکن کچھ معجزات کو دیکھنے کے بعد بادشاہ نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ علیہما السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دیتے ہوئے حضرت سارہ علیہما السلام کے حوالہ کردیا کہ ان کی خدمت گذار رہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اسکے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور ابھی وہ بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ ادھر چند سال بعد حضرت سارہ علیہما السلام حاملہ ہوئیں اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی فلسطین میں پیدائش ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے مگر برابر مکہ میں حضرت ہاجرہ و اسماعیل علیہا السلام کو دیکھنے آتے رہتے تھے- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ اسی اثناء میں اللہ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مسجد الاقصیٰ کی تعمیر فرمائی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد قریش ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں انکے بیٹے یعقوب علیہ السلام ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے تیرہ بیٹے تھے، جن میں سے ایک حضرت یوسف ؑعلیہ السلام تھے۔ یہ دنوں خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ جو یہودی قوم ہے جو انبیاء کی توہین سے لیکر انکے قتل کرنے تک کی مرتکب ہے، جب انہیں معلوم ہوا کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بنی اسرائیل کے بجائے قریش میں ہوئی ہے، تو ان یہودیوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی طرح طرح کی سازشیں کیں۔ اور افواہ پھیلائی کہ حضرت ہاجرہ علیہما السلام باشاہ کی بیٹی نہیں لونڈی تھی جبکہ یہ تاریخی حقائق کے برخلاف ہے، یہودیوں نے تورات کے دوسرے مضامین کی طرح اس میں بھی تحریف کی تاکہ بنی اسماعیل اہل قریش کو بنی اسرائیل سے کمتر دیکھا سکیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پڑپوتے تھے، فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون کی وادی میں تھی، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مسکن بھی یہی تھا۔ مولانا نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بچپن سے لیکر مصر کے بادشاہ بننے تک کی مکمل تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ چند سالوں بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے والدین اور تمام بھائیوں کو مصر بلا لیا، جہاں وہ خوب بڑھے، پھلے اور پھولے اور اس طرح مصر میں ان کی آبادی تیزی سے پھیلتی رہی۔ یہ خاندان فلسطین سے منتقل ہوکر مصر میں آباد ہوا اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کا انتقال ہوا تو انکی تدفین ارض فلسطین (کنعان) میں ہوئی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس کے سینکڑوں سال بعد جب مصر پر فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور اس نے بنو اسرائیل پر ظلم وستم کی انتہا کردی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بنو اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ فرعون نے ان کا پیچھا کیا، لیکن بحر احمر میں ڈبو دیا گیا۔ فلسطین آکر بنو اسرائیل نے طرح طرح کی نافرمانیاں شروع کر دیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں وادی تیہ میں 40 سال تک کے لیے بھٹکا دیا۔ اسی دوران سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام نے عمالقہ جو اس وقت بیت المقدس پر قابض تھے سے جنگ کی اور بیت المقدس کے علاقے کو فتح کیا اور بالآخر کچھ سالوں بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصال ہوا۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت بھی یہودی وہاں نہیں اور بعد میں بھی محض گنے چنے لوگوں کے علاوہ وہاں یہودی نہیں تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کو جو فتح کیا ہے وہ عیسائیوں سے لیا ہے، پھر کچھ دنوں بعد عیسائیوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کرلیا، پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے اسکو فتح کرلیا، پھر خلافت عثمانیہ کے پاس رہا، اور جب خلافت عثمانیہ کو شکشت ہوئی تو وہ خطہ برطانیہ میں شامل ہوگیا اور اس وقت دنیا کے یہودیوں نے امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی میں وہاں بسیرا ڈالا کیونکہ ہٹلر نے انکی قوم کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ اہل فلسطین نے انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی زمین انہیں دی اور اقوام متحدہ نے زبردستی انہیں ایک الگ خطہ مختص کردیا۔ اس کے بعد سے اس ظالم قوم نے اہل فلسطین جو وہاں کے اصل باشندے ہیں ان پر ظلم و ستم کا پہاڑ ڈھانا شروع کردیئے اور انکی زمین اور مقدس مقامات پر قبضہ کرنا شروع کردیا، جو اب تک جاری ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہودی شروع سے ہی نافرمان اور ظالم قوم ہے، جنہوں نے اپنے انبیاء کرام پر ہی جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں وہ پوری دنیا کے سامنے واضح ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ بات واضح ہوچکی ہیکہ ہیکہ فلسطین پر اصل حق عرب مسلمانوں فلسطینیوں کا ہے، کیونکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی میراث ہے۔ اور یہودیوں کا اس پر کوئی حق نہیں۔ قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ مفتی سید حسن ذیشان قادری و قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ جبکہ مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، اراکین عمیر الدین، سید توصیف، وغیرہ خصوصی طور پر شریک تھے۔ اس موقع پر حضرت مولانا مفتی سید محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مفتی محمد حذیفہ صاحب قاسمی مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی تیسری نشست اختتام پذیر ہوئی۔


#Press_Release #News #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Sunday, November 12, 2023

بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

 بیت المقدس اور ارضِ فلسطین کی تاریخ سے امت مسلمہ کو واقف کروانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے!

مرکز تحفظ اسلام ہند کے تحریک تحفظ القدس کی مدت میں توسیع، عظیم الشان تحفظ القدس کانفرنس کا انعقاد!



بنگلور، 11؍ نومبر (پریس ریلیز): بیت المقدس سے مسلمانوں کا مذہبی اور ایمانی تعلق ہے۔ یہ مسئلہ فقط اہل فلسطین کا نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ لیکن باطل طاقتیں چاہتی ہیں کہ اسے اہل فلسطین کا مسئلہ بنادیا جائے اور اس کام میں وہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوچکی ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہیکہ آج مسلمان بیت المقدس اور فلسطین کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گرد اسرائیل مسلسل فلسطین اور غزہ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہا ہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جس میں بعض نام نہاد مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عالم اسلام اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر مقاومت کی کوشش کرتا تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی۔ مگر عالم اسلام کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔ محمد فرقان نے کہا کہ اس وقت اہل فلسطین و غزہ پر کیا کچھ نہیں کیا جارہا، فلسطین کے معصوم بچے، مائیں، بہنیں، جوان اور بوڑھے سب اسرائیلی دہشت گردوں سے تنہ تنہا مقابلہ کررہے ہیں اور بیت المقدس کا تحفظ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے ہوئے اہل فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں بلکہ انکے خون سے لکھی گئی ہے اور لکھی جارہی۔ فلسطین کے ہر چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرأت، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے فرمایا کہ فلسطین کا غم امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔ اور یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہیکہ بیت المقدس کا مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین و غزہ کی مجاہدانہ تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔ ایسے نازک حالات میں جب اہل فلسطین و غزہ بیت المقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، وہیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند نے اکابر علماء کی سرپرستی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے، اہل فلسطین و غزہ سے اظہار یکجہتی کیلئے اور امت مسلمہ کی بقاء، القدس اور مسجد اقصٰی کے دفاع کیلئے دس روزہ”تحریک تحفظ القدس“ کا آغاز کیا تھا، جس تحریک کے تحت ”عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس“ منعقد ہورہی تھی۔ چونکہ تحریک کی مدت کا اعلان فقط دس روزہ کیا گیا تھا، لیکن اس سلسلے اور تحریک و کانفرنس کی مزید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اکابر علماء سے مشاورت کے بعد اسکی مدت میں غیر اعلانیہ طور پر توسیع کی جارہی ہے۔ لہٰذا اب یہ تحریک آئندہ اعلان تک مسلسل جاری رہے گی۔ محمد فرقان نے تفصیلات بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس تحریک کے تحت روزانہ رات 9 بجے عظیم الشان آن لائن تحفظ القدس کانفرنس منعقد کی جاتی ہے۔ جس سے ملک کے مختلف اکابر علماء کرام خطاب فرماتے ہیں، جو مرکز تحفظ اسلام ہند کے آفیشیل یوٹیوب چینل، فیس بک پیج اور ٹیوٹر اکاؤنٹ تحفظ اسلام میڈیا سروس پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام برادران اسلام سے اپیل کی کہ وہ اس تحریک و کانفرنس میں شامل ہوکر اکابر علماء کرام کے خطابات اور دیگر چیزوں سے استفادہ حاصل کریں۔اور امت مسلمہ کو بیت المقدس اور ارض فلسطین کی تاریخ سے واقف کروائیں، جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے!






#Press_Release #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS

Thursday, November 9, 2023

مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا اشرف عباس قاسمی کا خطاب!

 القدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے!



مرکز تحفظ اسلام ہند کے عظیم الشان ”تحفظ القد س کانفرنس“ سے مولانا اشرف عباس قاسمی کا خطاب!


بنگلور، 07؍ نومبر (پریس ریلیز): مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان آن لائن ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے۔جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، اس سرزمین پر اکثر انبیاء اور رسل آئے ہیں، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتداء اور انتہا ہوئی۔ یہی وہ القدس ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے۔ لیکن مسجد اقصٰی پر مسلمانوں کا حق ہے، جس میں کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کا کوئی حق نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جس وقت عالم اسلام کو استعماری طاقتوں نے اپنی سازشوں کا ہدف بنایا اور فلسطین کی سرزمین برطانیہ کے استعماری قبضہ میں آنے لگی تو مکار اور شاطر یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس خطے کے حصول کی خاطر کوششیں تیز کردیں 1839ء میں سب سے پہلا مغربی سفارتخانہ جو بیت المقدس میں کھلا وہ حکومت برطانیہ کا تھا، جس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گذاری تھا، اس کے ساتھ ہی پوری دنیا سے یہودیوں کو بیت المقدس میں جمع کرنا شروع کردیاگیا، اس وقت پورے فلسطین میں صرف نو ہزار کے قریب یہودی تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اسکے بعد سے یہودیوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ یہودی قوم کو ایک حکومت کی ضرورت ہے، اس مقصد کیلئے فلسطین سے بہتر کوئی جگہ ان کی نظر میں نہ تھی۔ اس دور میں یہودیوں کی عالمی سطح پر دو بڑی کانفرنسیں ہوئیں، پہلی کانفرنس 1897ء اور دوسری 1898ء میں، جن کا حاصل یہ تھا کہ یہود اپنے قدیم وطن فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے منظم ہوجائیں، چونکہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا اور وہی اس کے مالک ومتصرف تھی، اس کے مقابلے کیلئے قوم یہود نے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے شروع کردئیے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کیلئے انھوں نے مختلف سطحوں پر ساز باز شروع کی، جس میں بھاری رقوم دے کر ترکوں کو خریدا گیا، خود خلیفہ عبدالحمید کو لالچ دئیے گئے لیکن سلطان عبد الحمید نے کسی بھی صورت میں یہودیوں کو وہاں بسنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن 1909ء میں سلطان عبدالحمید کا انتقال ہوا تو گویا اس دن سے اسرائیل کے وجود کی بنیاد پڑگئی۔ اور بالآخر 15؍ مئی 1948ء کو اسرائیلی مملکت کا اعلان قیام ہوا، جسے چند ہی لمحوں میں امریکہ، روس اور یورپ نے تسلیم کرلیا، اسلامی ممالک میں سے صرف ترکی اور اس وقت کے شاہ ایران نے یہ ناجائز ریاست تسلیم کرکے اپنے فکری ضلالت پر مہر تصدیق ثبت کی تھی۔ مولانا نے فرمایا کہ اس وقت جو کارروائی اہل فلسطین کی جانب سے ہوئی وہ درحقیقت کئی دہائیوں سے اسرائیلی تسلط میں بدترین حالات کا سامنا کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کی طرف سے یہ ردعمل کے طور پر ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا حالات ہیں کہ اہل فلسطین و غزہ قابض ریاست اسرائیل جو دنیا کا سب سے بڑا طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا ان پر اتنا بڑا اور منظم حملہ کرنے پر مجبور ہوا۔ یقیناً یہ وجہ ظلم و ستم کی انتہائی ہی ہے اور اسرائیل نہتے اور مظلوم فلسطینی شہریوں کو مسلسل قتل کررہا تھا اور مسجد اقصٰی کی بے حرمتی کررہا تھا۔ مولانا نے فرمایا اسی کے ساتھ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے تعلقات نے بھی فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ مزاحمت کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا جائے۔ مولانا نے دو ٹوک فرمایا کہ اب وہ وقت قریب ہیکہ فلسطین آزاد ہوگا اور بیت المقدس پوری طرح مسلمانوں کے قبضہ میں ہوگئی۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ فلسطین کا مسئلہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے، اہل فلسطین بیت المقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہیکہ پوری ملت اسلامیہ ان کا ساتھ برابر کھڑی رہے اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے۔قابل ذکر ہیکہ یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی دوسری نشست مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی نظامت میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز مرکز کے آرگنائزر حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی صاحب مدظلہ نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا۔ اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے صدر اجلاس اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ اور صدر اجلاس حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی صاحب مدظلہ کی دعا سے یہ عظیم الشان ”تحفظ القدس کانفرنس“ کی یہ نشست اختتام پذیر ہوئی۔



#Press_Release #Alquds #Palestine #Gaza #Alqudsseries #MasjidAqsa #MasjidAlAqsa #BaitulMaqdis #AlqudsConference #MTIH #TIMS